Tumgik
#بانو قدسیہ
maihonhassan · 1 year
Text
These lines by Bano Qudsia hits me hard she wrote "Insaan ko toorne, chorhne aur girane k ka'yee tareeqay hain magar usay paane, banane aur sanwarney ka sirf aik hi tareeqa hai aur woh hai mohabbat."
93 notes · View notes
urduu · 4 months
Text
“آگے جانے والے پیچھے رہے ہوئے لوگوں کو کبھی یاد نہیں کرتے۔ جس کو کچھ مل جائے، اچھا یا برا، اس کی یاد داشت کمزور ہونے لگتی ہے۔ اور جن کو سب کچھ کھو کر اس کا ٹوٹا پھوٹا نعم البدل بھی نہ ملے، ان کا حافظہ بہت تیز ہو جاتا ہے۔۔۔ اور ہر یاد بھالے کی طرح اترتی ہے۔”
~ بانو قدسیہ “راجہ گدھ”
6 notes · View notes
kafi-farigh-yusra · 7 months
Text
اگر تم سے کوئی محبت لینے آئے تو اُسے محبت ہی دینا، محبت سکھانے مت لگ جانا۔
~بانو قدسیہ
Tumblr media
Agar tum se koi mohabbat lene aye tw usay mohabbat hi dena, mohabbat sikhaanay mat lag jana.
-Bano Qudsia
42 notes · View notes
Text
بانو قدسیہ نے کیا خُوب کہا تھا کہ " منیر نیازی کی شاعری حیرت کی شاعری ہے ، منیر کی شاعری پڑھنے والا اُونگھ ہی نہیں سکتا "
کوئی حَد نہیں ہے ٫ کمال کی
کوئی حَد نہیں ہے ٫ جمال کی
وہی ٫ قُرب و دُور کی منزلیں
وہی شام ٫ خواب و خیال کی
نہ مجھے ہی ٫ اُس کا پتہ کوئی
نہ اُسے خبر ٫ میرے حال کی
یہ جواب ٫ میری صَدا کا ہے
کہ صَدا ہے ٫ اُس کے سوال کی
یہ نمازِ عصر کا ٫ وقت ہے
یہ گھڑی ہے ٫ دِن کے زوال کی
وہ قیامتیں ٫ جو گزر گئیں
تھیں اَمانتیں ٫ کئی سال کی
ہے منیرؔ ٫ تیری نگاہ میں
کوئی بات ٫ گہرے مَلال کی
منیر نیازی
3 notes · View notes
zaallnoon · 1 year
Text
"Jab koi acha lagta hai tau uska bura bhi acha lagta hai, muhabbat andhi nahi hoti farakh-dil hoti hai. Aaib dekhti hai magar nazar andaz kar deti hai."
Bano Qudsia - بانو قدسیہ
22 notes · View notes
bazmeur · 11 months
Text
انتر ہوت اداسی ۔۔۔ بانو قدسیہ
انتر ہوت اداسی بانو قدسیہ جمع و ترتیب: اعجاز عبید ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائل ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل ٹیکسٹ فائل پھر تیسری بار ایسے ہوا۔  اس سے پہلے بھی دو بار اور ایسے ہوا تھا…بالکل ایسے۔  جب میرا بایاں پاؤں بانس کی سیڑھی کے آخری ڈنڈے پر تھا اور میرا دایاں پیر صحن کی کچی مٹی سے چھ انچ اونچا تھا تو پیچھے سے ماں نے میرے بال ایسے پکڑے جیسے نئے نئے چوزے پر چیل جھپٹتی ہے۔  میرا توازن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
Bano Qudsia Quote - 2
Bano Qudsia Quote – 2
انسان لاحاصل کے پیچھے بھاگ کر کتنی لذّت حاصل کرتا ہے بانو قدسیہ
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
iumairyounis · 2 years
Text
بانو قدسیہ آپا کہا کرتی تھیں دل سے اتر جانے والے لوگ سامنے کھڑے بھی رہیں تو نظر نہیں آتے۔
1 note · View note
jackiehadel1 · 2 years
Text
LAHORE, PAKISTAN 🇵🇰: THROUGH THE WORDS OF BANO QUDSIA
LAHORE, PAKISTAN 🇵🇰: THROUGH THE WORDS OF BANO QUDSIA
𝒮𝑜𝓂𝑒𝓉𝒾𝓂𝑒𝓈 𝓁𝒾𝒻𝑒 𝒷𝓇𝒾𝓃𝑔𝓈 𝒷𝒶𝒸𝓀 𝓉𝑜 𝓎𝑜𝓊 𝑒𝓋𝑒𝓇𝓎𝓉𝒽𝒾𝓃𝑔 𝓉𝒽𝒶𝓉 𝓌𝒶𝓈 𝑜𝓃𝒸𝑒 𝓁𝑜𝓈𝓉 𝓉𝑜 𝓎𝑜𝓊, 𝒾𝓃𝒸𝓁𝓊𝒹𝒾𝓃𝑔 “𝓁𝑜𝓋𝑒” 𝒷𝓊𝓉 𝓎𝑜𝓊 𝒶𝓇𝑒 𝒽𝑒𝓁𝓅𝓁𝑒𝓈𝓈. -𝐵𝒶𝓃𝑜 𝒬𝓊𝒹𝓈𝒾𝒶.𝐿𝒶𝒽𝑜𝓇𝑒, 𝒫𝒶𝓀𝒾𝓈𝓉𝒶𝓃 🇵🇰𝟥𝟢 𝒿𝓊𝓁𝓎𝟤𝟤کبھی کبھی زندگی آپ کو وہ سب کچھ واپس لاتی ہے جو کبھی آپ سے کھو چکی تھی، بشمول “محبت” لیکن آپ بے بس ہوتے ہیں۔ -بانو قدسیہ Sometimes the right choice reduces the length of the path. – Bano Qudsia Love is the ability to sit like a parrot in an open…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bazm-e-ishq · 3 years
Text
محبّت اپنی مرضی سے کھلے پنجرے میں طوطے کی طرح بیٹھنے کی صلاحیت ہے. محبّت اس غلامی کا طوق ہے جو انسان خود اپنے اختیار سے گلے میں ڈالتا ہے.
Love is the ability to voluntarily sit like a parrot in an open cage. Love is the shackles of that slavery which man puts around his throat of his own volition.
— Bano Qudsia, Hasil Ghat / حاصل گھاٹ
103 notes · View notes
khabernews-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
اردوادب کی عظیم مصنفہ بانو قدسیہ کی دوسری برسی آج منائی جا رہی ہے خبر نیوزویب ڈیسک :معروف ادیبہ اورافسانہ نگار بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو بھارت کے مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں، انہوں نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہوراور بی اے کنیئرڈ کالج سے کیا جب کہ 1949 میں گریجویشن کا امتحان پاس کیا اوروہ اس وقت پاکستان ہجرت کرچکی تھیں۔ بانوقدسیہ نے گورنمنٹ کالج لاہورمیں ایم اے اردو میں داخلہ لیا اوریہیں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے اور دونوں نے دسمبر 1956 میں شادی کرلی۔مصنفہ بانو قدسیہ نے 27 ناول اورکہانیاں تحریر کی ہیں جس میں ’’راجہ گدھ‘‘، ’’امربیل‘‘، ’’بازگشت‘‘، ’’آدھی بات‘‘، ’’دوسرا دروازہ‘‘، ’’تمثیل‘‘،’’ حاصل گھاٹ‘‘ اور ’’توجہ کی طالب ‘‘ قابل ذکر ہیں جب کہ ان کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘اور ’’آدھی بات‘‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی بہت سے ڈرامے لکھے ہیں۔بانو قدسیہ کی ادب کے شعبے میں گراں قدرخدمات پرحکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ستارہ امتیاز اورہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ وہ 4 فروری 2017ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
0 notes
my-urdu-soul · 7 years
Text
إنا لله وإنا إليه راجعون
اردو ادب کی معروف مصنفہ بانو قدسیہ انتقال کر گئیں، آپ مرحوم اشفاق احمد کی زوجہ تھیں، اللہ پاک ان کی مٖغفرت فرمائے
 ( آمین)
6 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
انسان کو توڑنے، چھوڑنے اور گرانے کے کئی طریقے ہیں مگر اسے پانے، بنانے اور سنوارنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے محبت.
بانو قدسیہ
9 notes · View notes
zainyyyy · 4 years
Text
انسان کی سب سے بڑی کامیابی خود کو خود کی زات تک محدود رکھنا ہے,
خود کو کسی بھی چیز کا اتنا عادی مت بنائیں کہ اسکے بغیر گزارہ ممکن نا ھو!
- بانو قدسیہ
Loosely translated:
Man's biggest accompliment is keeping himself within limits of his own self
Don't make yourself so used to anything that living without it becomes impossible
172 notes · View notes
bazmeurdu · 3 years
Text
اردو دنیا میں آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیوالی سوانح عمری شہاب نامہ
''شہاب نامہ ‘‘ایسی کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں اردو دنیا میں آج تک سب سے زیادہ فروخت ہونیوالی سوانح عمری ''شہاب نامہ‘‘ ہے، قیام پاکستان کے بعد قدرت اللہ شہاب اہم عہدوں پر فائز رہے انہوں نے اپنی خودنوشت کے کئی ابواب کو اسی دور کے حالات و واقعات سے مزین کیا ، قدرت اللہ شہاب نے کتاب میں لکھا کہ میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔ کتاب کے پہلے حصے میں شہاب نے بہت سے زند ہ کردار تخلیق کئے ۔ ان کرداروں میں مولوی صاحب کی بیوی ، چوہدری مہتاب دین ، ملازم کریم بخش اورچندرواتی وغیرہ ۔ چندراوتی کا سراپا یوں لکھتے ہیں۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈلی تھی اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ کی تھی ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں، ایک روز وہ چھابڑی والے کے پاس تاز ہ گنڈیریاں کٹوانے کھڑی ہوئی تو میرے دل میں آیا ایک موٹے گنے سے چندرا وتی کو مار مار کر ادھ موا کر دوں اور گنڈیریوں والے کی درانتی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے دانتوں سے کچر کچر چبا ڈالوں۔‘‘
چندراوتی شہاب نامہ کا بے مثال کردار ہے جس کے اندر محبت کا الائو دہک رہا تھا، لیکن وہ زبان پر نہ لا سکی اور مر گئی ۔ کتاب کا دوسرا حصہ ''آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت‘‘پر مشتمل ہے ۔ کانگرس ہائی کمان کا خفیہ منصوبہ جو شہاب صاحب نے جوش جنوں میں قائداعظم تک پہنچایا یہ واقعہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ کتاب کے تیسرے حصے میں پاکستان کے بارے میں تاثرات ہیں ، اس حصے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اسلامی فلاحی ریاست کیسے بن سکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ''ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے ۔‘‘ کتاب کا سب سے اہم حصہ چوتھا حصہ ہے جس میں ''دینی و روحانی تجربات و مشاہدات‘‘ بیان کیے گئے ہیں ۔ یہاں ہم ان کی کتاب کے مختصر 3 پیرا گراف پیش کر رہے ہیں ۔'' میں نے دنیا بھر کے درجنوں سربراہان مملکت ، وزرائے اعظم اور بادشاہوں کو کئی کئی مرتبہ کافی قریب سے دیکھا ہے لیکن میں کسی سے مرعوب نہیں ہوا اور نہ ہی کسی میں مجھے اس عظمت کا نشان نظر آیا جو جھنگ شہر میں شہید روڈ کے فٹ پاتھ پر پھٹے پرانے جوتے گانٹھنے والے موچی میں دکھائی دیا تھا ۔‘‘ 
''جمہوریت کا سکہ اسی وقت چلتا ہے ،جب تک وہ خالص ہو ۔ جوں ہی اس میں کھوٹ مل جائے، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی‘‘۔۔۔۔ ''صاحب اقتدار اگر اپنی ذات کے گرد خود حفاظتی کا حصار کھینچ کر بیٹھ جائے تو اس کی اختراعی ، اجتہادی اور تجدیدی قوت سلب ہو کر اسے لیکر کا فقیر بنا دیتی ہے ۔‘‘ قدرت اللہ شہاب گلگت میں 26 فروری 1917ء کو محمد عبداللہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پنجاب کے گائوں چمکویہ، ضلع انبالہ مشرقی پنجاب سے حاصل کی، اس وقت پنجاب تقسیم نہیں ہوا تھا ۔ بی ایس سی کی ڈگری 1937ء میں پرنس آف ویلز کالج جموں و کشمیر سے حاصل کی اور ماسٹر ان انگلش لٹریچر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1939ء میں کیا۔ اور 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہو گئے، ابتداء میں بہار اور اڑیسہ میں خدمات سرانجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہو گئے قیام پاکستان تک وہیں رہائش پذیر رہے ۔ 1947ء میں پاکستان آئے آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کے سیکرٹری جنرل بھی بنے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر رہے ، 3 سربراہان ِ مملکت کے پرسنل سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے یہ ہی نہیں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر جیسے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
جس وقت جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا انہوں نے استعفیٰ دیدیا ۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہو گئے اب کچھ بات ہو جائے شہرہ آفاق کتاب'' شہاب نامہ‘‘ کی، ملک میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے ۔ ان کی کتاب کے چار حصے کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا حصہ قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم وغیرہ پر مشتمل ہے۔ قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت ''شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ 9 جون 1938ء سے میں نے باقاعدہ ایک ڈائری لکھنے کی طرح ڈالی ۔اس میں ہر واقعہ کو ایک خود ساختہ شارٹ ہینڈ میں لکھا ۔ ایک روز یہ کاغذات ابن انشا ء کو دکھائے ۔ ابن انشاء کے کہنے پر کافی مدت بعد قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب کو لکھا ۔ کتاب کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں ''خوش قسمتی سے مجھے ایسے دوستوں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کا اپنا ایک الگ رنگ اور اپنی شخصیت میں ایک نام رکھتے ہیں۔
مثلاََ ابن انشاء ،ممتاز مفتی، بانو قدسیہ ،اشفاق احمد واصف علی واصف ،جمیل الدین عالی ،ریاض انور ،ایثار علی ، مسعود کھدر پوش ابن الحسن برنی ،اعجاز بنالوی اورابو بخش اعوان ۔ قدرت اللہ شہاب کی وفات کے بعد ان کے بارے میں جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں ''ذکر شہاب‘‘ اور''مراد بریشم‘‘خاص طور پر مقبول ہوئیں جبکہ ان کے خطوط کے مجموعے بھی چھاپے گئے ۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل انہی کی کوششوں سے عمل میں آئی۔ حکومت کی جانب سے انہیں ستارہ ٔ قائداعظم اور ستارۂ پاکستان بھی دیا گیا۔ انکی تصانیف میں'' یاخدا، نفسانے ، سرخ فیتہ، ماں جی اور ''شہاب نامہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے 24 جولائی 1986ء کو اسلام آباد میں 69 برس کی عمر میں وفات پائی۔
اختر سردار چودھری
بشکریہ دنیا نیوز
3 notes · View notes
hassanriyazzsblog · 3 years
Text
BASS YUNHI....
“مرد:ایک تصویر،دورخ”
جب عورت مرتی ھے تواس کا جنازہ مرد اٹھاتا ھے ۔اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے ۔۔۔ پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان بھی دیتا ھے۔ باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ھے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ھے۔اور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لئے جنت تلاش کرتا ھے ۔۔۔ مرد واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے ۔۔۔ یہی ھوس بڑھتے بڑھتے ماں ہاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ھے ۔۔۔
اسی عورت کی پکار پرمرد سندھ آپہنچتا ھے ۔۔۔ اسی عورت کی خاطر مرداندلس فتح کرتا ھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتا ہے۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ھے۔''
لیکن جب حوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ھے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ھے ۔۔۔
اور کیوں نا ھو؟؟
کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ھی ھوتا ھے ۔۔۔
جب عورت گھر سے باھر ھوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنے پر یہ آزاد خیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے
اور کھلے گوشت کی حفاظت نہیں بلکہ کتوں اوربلیوں کے منہ سینے چاہتی ھیں
ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ ٹی شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جنس پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہیئے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت_زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے
"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو
ھم نے„سر„بازارحسن کونیلام ھوتےدیکھاھے"
② دوسرا پہلو*
میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ھے اور ان کے بعد ھمارا کیا ھوگا؟
میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک مرتبہ بازار میں عید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ھوگئی آپ نے کرتاتوخرید لیا اب کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر مردکا جواب آیا ضرورت ہی نہیں ہے پچھلے سال والی کتنی روز پہنی ھے جو خراب ھوگئی ہوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ھے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤگی۔ ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ھے آج ہی خرید لو۔
میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کو پار کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔
میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ھوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ھوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ھوتی ھوئی آنکھیں بتارھی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ھوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ھے اسے رونے نہیں دیگا۔
تحریر:”بانو قدسیہ” کی جانب منسوب ہے۔
(کاپی، پیسٹ)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انتخاب: صادق مسعود
1 note · View note