United Nation IPC Peace Award-winning Journalist /Analyst Political, Extremist, Current Affairs, A/Mag Editor at Jehan Paksitan Group X BC Tasnim News Karach
Don't wanna be here? Send us removal request.
Photo

عوامی تاثر بدلنے میں وقت لگے گا۔ ... قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
مملکت اس وقت کئی گھمبیر مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہقدرتی گیس کے ملکی ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے، ہر سال گیس کی طلب بڑھ رہی ہے، شارٹ فال ڈھائی سو ایم ایم سی ایف ڈی ہے، سوئی سدرن گیس کمپنی کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر سعید لارک کا کہنا ہے کہ ”عام صنعتوں کے کیپٹیو پاور پلانٹس کو گیس نہیں دیں گے“۔ عام صنعتوں کو گیس کی عدم فراہمی کے مضر نتائج ملکی معیشت کے لئے سخت نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ صنعتی زون کو گیس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اپنے آرڈر وقت پر پورے کرنا مشکل ہو��ا جارہا ہے۔ مملکت پہلے ہی برآمدات کے حوالے سے خاطر خواہ پوزیشن میں نہیں، ان حالات میں اگر صنعتی اداروں کو بجلی و گیس کی فراہمی میں دقت کا سامنا ہوتا ہے تو یقینی طور پر اس کا اثر ملکی معیشت پر پڑے گا۔ توانائی کے بحران اور وسائل کی تقسیم تک ایشوز اور مسائل کی ایک طویل فہرست ہے، جو قابل غور ہے اور جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے اور عوامی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہے، لیکن دیکھا جائے تو تمام تر سنجیدگی کے باوجود کرپشن اور بدعنوانی میں خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہو رہی، لمحہ فکریہ یہ کہ جو حکومت کرپشن کے خلاف ’جہاد‘ کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی تھی، کرپشن کم ہونے کے بجائے وہاں کرپشن میں روزافزوں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اسی طرح عوامی مسائل کے حل میں کمی کے تمام دعوے بھی مٹی کا ڈھیر ثابت ہو رہے ہیں، عوامی مسائل مسلسل بڑھنے کی وجہ سے مشکلات میں اضافہ انسانی زندگی کو مشکل بنا رہا ہے۔ضروری امر یہ ہے کہ مملکت کو سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے عمل کا آغاز کردینا چاہیے تھا، تاخیر سے کوئی حل نہیں نکلتا بلکہ خلیج میں اضافہ ہی نظر آتا ہے۔ حکومت کا جن اصولی بنیادوں پر اپوزیشن سے اختلاف ہے، اُسے ایجنڈے سے ہٹا کر اُن مسائل پر بات کی جا سکتی ہے، جو سب کے نزدیک مشترکہ ہوں۔ اس حوالے سے حزب اقتدار و اختلاف کو کسی ضد و انا کو آڑ بنانا مناسب خیال نہیں دیتا۔ انتہا پسندی، توانائی کے بحران اور معاشی مسائل کو حکومت تن تنہا کبھی حل نہیں کرسکتی۔ مملکت میں اس وقت تمام ادارے نہ تو اس قدر مضبوط ہیں اور نہ ہی برداشت کا ایسا ماحول موجود ہے جو ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکے۔ حکومت کے لئے اقتدار میں ہونے کے باعث ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل و بحرانوں کے خاتمے کے لئے سیاسی جماعتوں کے مفادات کا بھی خیال رکھے، تاہم سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے کیونکہ عوام اگر مطمئن نہیں ہوں گے تو کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت کو استحکام نہیں دے سکے گی۔سیاسی مفاہمتی عمل وقت کا ناگزیز مرحلہ ہے اسے اپنائے بغیر مملکت کو درپیش مشکلات سے نکالنا جوئے شیر لانے کے مترداف ہے۔ وفاق و سندھ کے درمیان کشیدگی میں کمی اور دیگر صوبوں کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لئے اُن شکوؤں کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہے جس سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں، جائز شکوے شکایات کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کو درپیش مشکلات دور کرنے پر توجہ دی جائے اور توانائیاں صرف کی جائیں۔ عوام کا عمومی تاثر تاحال یہی ہے کہ موجودہ حکومت سے جو توقعات وابستہ قائم کی گئی تھی بدقسمتی سے وہ پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے ہوں یا اجناس کے نرخوں کو پَر لگ جانا، مہنگائی کا عفریت تاحال لوگوں کے وسائل کو چاٹ رہا ہے، انہیں اس ہیبت ناک عفریت سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام عوام کو کنٹرول کیا جائے جو مہنگائی بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں، اس کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ حکومت اپنے اردگرد موجود مافیاز کے خلاف سخت و بے رحم کاروائی پر کمر بستہ ہوجائے، ذخیرہ اندوزاور منافع خور مافیاز کو نتھ ڈالے کے لئے اپنی رٹ کا استعمال کرے، حکومتی اقدامات میں سختی نہ آنے کے عنصر کی وجہ سے عام عوام کی زندگی مشکل ترین ہو رہی ہے، یہ بات پورے یقین اور وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت اگر صرف مہنگائی کا اطمینان بخش حد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کرلے تو اس سے جمہوریت کو درپیش خطرہ بھی کم ہوجائے گا اور موجودہ سیٹ اپ کے خاتمے کے لئے کوئی اندیشہ سر بھی نہیں اٹھا سکے گا۔ عوام کی سپورٹ اگر ختم ہوجاتی ہے تو حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا مشکل سے درمشکل ہوتا چلا جائے گا، گزشتہ چند برسوں میں پیدا ہونے والے مسائل حل کرنے اور خرابیاں دور کرنے کے کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں، حکومت کو عوام کے درد کا درماں کرنا چاہیے تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ آمرانہ اور جمہوری حکومتوں میں فرق ہوتا ہے۔ملک کو سنگین صورتحال سے نکالنے کے لئے قومی یکجہتی کے تحت مشترکہ حکمت عمل اپنانا ہوگی۔ ملک کے لئے ایک ایسی جامع اور پائیدار مالیاتی پالیسی مرتب کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔معاشی پالیسی کو مرتب کرنے کی ضرورت میں اس امر پر زیادہ توجہ دینا ہوگی کہ کوئی بھی نئی آنے والی حکومت کسی طور تبدیل نہ کرے، حکومتوں میں تبدیلیوں کے بعد معاشی پالیسیوں کی تبدیلی سے معیشت میں استحکام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے،منی لانڈرنگ و ناجائز طریقوں سے سرمایہ کی منتقلی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر آنا ضروری ہے، عوام بھی یہ امید کرتے ہیں کہ اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لئے موثر اقدامات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، عام عوام 41سے زاید اشیا ء پر براہ راست ٹیکس دیتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں اشرافیہ کی بڑی تعداد قانون کی خامیوں کا فائدہ اٹھا کر ملکی معیشت کے زوال کا باعث بن جاتی ہیں۔ مملکت میں امن و امان کی قدرے بہتر صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، ماضی میں دہشت گردی کے بڑھتے اور بڑے واقعات کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہیں تھا، اب جب کہ شدت پسندی کو بڑی حد تک قابو پالیا گیا اس لئے اس اَمر کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے معاشی استحکام کو توانا کرنے کے لئے حکومت اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کرے، کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متاثر ہوتا ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکی مفاد کے خاطر تحمل و برداشت کے ساتھ مینڈیٹ کو تسلیم کرنا سب کے لئے بہتر ہے۔ http://www.jehanpakistan.com/epaper/detail_news.php?news=%2Fepaper%2Fepaper%2Flahore%2F190121%2FP9-005.jpg
0 notes
Photo

داعش کا خطرہ ختم نہیں ہوا بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی خطرناک نسل کی تشکیل جہان پاکستان میں 16 جنوری 2021 کو شائع قادر خان یوسف زئی کے قلم سے واضح پڑھنے کے لئے منسلک لنک http://www.jehanpakistan.com/epaper/detail_news.php?news=%2Fepaper%2Fepaper%2Fkarachi%2F160121%2FP7-018.jpg کو اوپن کرکے ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
0 notes
Photo


(via افغانستان بچوں کے لیے دنیا کے 11 خطرناک ترین ممالک میں شمار : قادر خان یوسف زئی کے قلم سے)
0 notes
Photo

(via آگ کی بددعا اور نیرو کا سکون۔۔! : قادر خان یوسف زئی کے قلم سے)
0 notes
Photo

(via ۔ 2020 کا عالمی سیاسی منظر نامہ : قادر خان یوسف زئی کے قلم سے)
0 notes
Photo

(via بدل لو : ہوشیار یکم جنوری سے ان اسمارٹ فونز پر واٹس ایپ نہیں چلے گا)
0 notes
Photo

(via بلیک واٹر کو معافی، عافیہ کو کیوں نہیں ؟ : قادر خان یوسف زئی کے قلم سے) امریکا نے کئی برس پاکستان میں بھی بلیک واٹر کے ٹارگٹ کلر اپنے فروعی مفادات کے لئے استعمال کئے، ان کے غیر قانونی دفاتر ملک کے کئی پوش علاقوں میں علاقوں میں قائم تھے، جہاں ان کی نقل و حرکت، من مانی اور غیر سفارتی رویے پر پوچھ گچھ کرنا، سیکورٹی اداروں کے لئے ب��ا مشکل کام بن چکا تھا، بدنام زمانہ ریمنڈ ڈیوس کی جانب سے پاکستانی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعدامریکا نے پاکستانی حکومت پر جس طرح دباؤ ڈالا اور ایک سفاک قاتل کو بچانے کے لئے جس طور جھوٹ اور دھوکا دہی کا سہارا لیا گیا، وہ امریکی چہرے پر بد نامی کا ایک ایسا داغ ہے، جو کئی سنگین جرائم کی سرپرستی کرنے والی مملکت کا دوہراچہرہ، بے نقاب کرتا ہے
0 notes
Text
بلیک واٹر کو معافی، عافیہ کو کیوں نہیں ؟
بلیک واٹر کو معافی، عافیہ کو کیوں نہیں ؟
امریکی صدر ٹرمپ نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے قریبی رفقا (ری پبلکن) اور بلیک واٹر کے چار ٹارگٹ کلرز کو بھی معاف کردیا۔ خصوصی اختیارات کے تحت معافیاں معمول کا حصہ ہیں، لیکن یہاں یہ پہلو قابل غور ہے کہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کاری میں ملوث سزا یافتہ مجرمان میں، صدر ٹرمپ نے اپنے مشیر جارج پاپا ڈوپلوس،ڈچ وکیل الیکس سمیت وینڈر ژوان،مائیکل فلن اور راجر اسٹون کی سزا ئیں…

View On WordPress
0 notes
Text
سال 2020 میں اسلام فوبیا کے قابل مذمت واقعات
سال 2020 میں اسلام فوبیا کے قابل مذمت واقعات
ناروے، نیوزی لینڈ اور ڈنمارک سال 2019میں اسلام مخالف توہین قرآن کے واقعات کے بعد رواں برس بھی اسلام فوبیا مخصوص مغربی ممالک اور اسلام دشمن عناصر کا سرفہرست ایجنڈا رہا۔سال رواں 2020میں توہین اسلام کے متعدد واقعات سے مسلم امہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔بالخصوص بھارت و یورپ میں آزادی اظہار کو آڑ بناتے ہوئے توہین رسالت ﷺ کے واقعات میں متواتر اضافہ دیکھنے میں آیا، اسلام فوبیا کا ایک افسوس ناک پہلو یہ…

View On WordPress
0 notes
Text
چٹکی بجانے پر، بحران آتے ہیں
چٹکی بجانے پر، بحران آتے ہیں
اپوزیشن کی جانب سے گذشتہ انتخابات کے حوالے سے حکومت مخالف گرینڈ الائنس بناکر ایک آئینی ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گو کہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کا انتہائی احترام کا دعوی کرتی ہیں اور حکومت کا بھی کوئی ادارہ نہیں چاہتا کہ مملکت کے دیگر ستونوں کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی کا تاثر بھی جائے۔سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی و انصاف صرف اسی صورت بحال رہ سکتا ہے جب قانون کا احترام تمام…

View On WordPress
0 notes
Photo

چٹکی بجانے پر بحران آتے ہیں جہان پاکستان میں 22 دسمبر 2020 کو شائع قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
اپوزیشن کی جانب سے گذشتہ انتخابات کے حوالے سے حکومت مخالف گرینڈ الائنس بناکر ایک آئینی ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گو کہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کا انتہائی احترام کا دعوی کرتی ہیں اور حکومت کا بھی کوئی ادارہ نہیں چاہتا کہ مملکت کے دیگر ستونوں کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی کا تاثر بھی جائے۔سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی و انصاف صرف اسی صورت بحال رہ سکتا ہے جب قانون کا احترام تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کریں۔ملک میں انتخاب کے حوالے سے آئینی ترمیم کے بعد اس وقت مملکت کو 1980 اور1990 کی دہائیوں جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کہ جب لوگ حکومت کی بساط الٹنے کے لیے صدر کی جانب سے دفعہ 58(ٹو) بی کے استعمال کرنے کی آس لگاتے تھے یا پھر مارشل کے نفاذ کے لیے فوج کی طرف دیکھتے تھے۔ اب یہ دونوں راستے بند ہوچکے۔ ادارے جمہوری طریقے سے اپنے پسندیدہ نظام”ڈیمو کریسی“ کی جانب پر امن اور سیاسی تلخیوں کے باوجود تیزی سے گامزن ہیں۔ عوام ملکی استحکام و تبدیلی کی خواہش لیے ہر آنے والے دن، خواب دیکھتے ہیں۔ تمام اداروں کی ذمے داری بھی بنتی ہے کہ نظام میں استحکام لائیں۔موجودہ حکومت کو تمام تر مشکلات و اختلافات کے باوجود اپنی آئینی مدت ذمے داری کے ساتھ پوری کرنی چاہیے، لیکن یاد رکھیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجا کرتی، بلکہ چٹکی بجتی ہے، پھربحران ہیں، مسائل بھی پیدا ہوتے رہیں گے لیکن تمام سیاسی جماعتوں کو مستقل مزاجی کے ساتھ صبر و برداشت کا ماحول برقرار رکھنا ہوگا اور عوام کی خدمت کے وعدے کو ہر صورت پورا کرنا ہوگا۔جب تک اداروں کے درمیان ہم آہنگی، سسٹم کے استحکام اور اچھی حکمرانی کے ذریعے ملک کی خدمت کے عزم کو کامل کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ موجودہ حالات سے بددل اور مسائل و مشکلات میں گھرے ہوئے عوام کے لیے امید افزا ہے۔ ہمارا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ مملکت کے بااختیار ادارے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بننے کے بجائے اپنی خواہشات اور مفادات کی پاسدار ی کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض سیاسی جماعتیں اسے اپنی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے عوام میں بے چینی اور بد اعتمادی بڑھ جاتی ہے۔ مقننہ،انتظامیہ اورعدلیہ میں ہمیشہ ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش ��وتی ہے جس سے نظام میں خرابیاں پیدا ہوئی اوروطن عزیز نا اتفاقیوں کی بناء پر ایک مدت تک بے آئین اور طالع آزماؤں کی آماجگاہ بنا رہا حتی کہ دوٹکڑے ہوگیا۔ اقتدارکی آئینی مدت پر امن طریقے سے منتقل ہونا ضروری ہیں، اسی عمل کے تحت انتخابات ہوتے رہنا چاہیں۔ تمام تر اعتراضات و خامیوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور ان کی اتحادی جماعتیں قابل تعریف ہیں کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو درست پٹری پر لانے کے لیے صبرکا دامن تھامے رکھا اور غیر آئینی قوتوں کو مداخلت کا جواز فراہم نہیں کیا،پاکستان تحریک انصاف کو بھی اسی بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔حکومتِ وقت پر اس وقت بہت ذمے داریاں عائد ہیں کیونکہ انھوں نے ہی اداروں کو مزید مضبوط بنانا اور ان کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ ماضی میں نواز و پی پی پی حکومت کا جو بھی طرز عمل رہا انھیں اب اپنی خامیوں کو خود ہی دور کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کو بھی مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ میڈیاایک اہم ستون کے طور پر حکومت کے تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کا بے رحم احتساب کرنے میں مشکلات و مفادات کا شکار ہوتا جارہا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ میڈیا اب خود پر بھی احتسابی عمل لاگو کرلے تاکہ میڈیا کی ساکھ عوام میں مثبت برقرار رہے۔کسی ادارے کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر تصادم اور محاذ آرائی سے بچنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ حکومتوں کی غلطیوں کا خمیازہ کسی فرد واحد کو نہیں بلکہ پوری قوم کو اٹھانا پڑتاہے۔ داخلی مسائل کے ثالث کے بغیر انارکی و انتشار کا بحران سنگین نتائج تک جا سکتا ہے۔ جس سے عد م مفاہمت کے باعث عدم استحکام کو ہی فروغ مل رہا اور مہنگائی میں پسی ہوئے عوام کو بے یقینی کی دوڑ میں نڈھال ہو چکے ہیں بہ حیثیت قوم ابھی تک ہم صوبائیت، لسانیت کے گورکھ دھندے سے نہیں نکل پائے ہیں۔ریاست کو چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والی اس احساس محرومی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے محض پوائنٹ اسکورنگ کے لیے، جمہوریت کو ڈی ریل کرنا اور اراکین ِ پارلیمنٹ کا خود پر عدم اعتماد افسوس ناک ہے۔ قوم سے کیے جانے والے وعدے اگر پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں نہیں کریں گی تو پھر عوام کا اعتماد متزلزل ہوسکتا ہے، سخت موقف اپنانیپر ناراضگی بلا جواز ہوگی۔ اگرریاست کے خلاف کسی متفقہ پالیسی میں کسی بھی شخص، جماعت یا ادارے کو کوئی تحفظات ہیں تو پھر قوم کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ محض بیانات پر اکتفا کرنے کے بجائے ملکی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنی تجاویز کو قوم کے سامنے لائیں، ابھی اقتدار کے مراحل کے لیے سب کو مقررہ مدت تک انتظار کرنے کی عادت اپنانا ہوگی۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے مینڈیٹ کے تحت عوام کی خدمت کا فرض سونپا گیا ہے۔ اس روگردانی قوم کے ووٹ سے اور آئین سے غداری کے مترادف قرار دیا جائے گا۔لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کے آسیب کی دنیا سے باہر نکل کر مملکت کو نئے بحرانوں سے بچانے کے لیے مثبت و اجتماعی جدوجہد میں ہی کامیابی ہے۔اس کے باوجود ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں ہوا تو تاریخ، سنبھلنے کے لیے بار بار موقع نہیں دیتی۔ مملکت کی وحدت پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ایسے یکجا کرنے کے لیے مل کر ہی کوشش کرنا ہوگی۔اندرونی خلفشار سے بیرونی طاقتیں ہی فائدہ اٹھاتی ہیں، ہمیں مصر، لبنان، شام اور عراق کی مثال اپنے سامنے رکھ کر ایک بار سوچنا ضرور ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ پھر موقع نہ ملے۔لہذا قوم کو اس پر آشوب دور میں مزید امتحانات میں نہ ڈالیں۔قوم کو ویسے ہی پر ٓاشوب مصائب اور تکالیف کا سامنا ہے، قوم و مملکت کی بقا اس وقت خطرے میں ہے، ملکی سلامتی کے ادارے پل صراط سے گذر رہے ہیں، ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔نازک دور وطن ِعزیز پر آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان سے ہی ہے، داخلی و خارجہ مسائل نے مملکت کی بقا و استحکام کو ہر لمحہ پل صراط سے گذارا ہے۔ اخلاقیات و دوراندیشی کی کمی کے رجحان نے عوامی مزاج کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے، ابتدا آپ نے کی ، نتیجہ کیا ہوگا، قوم کس نہج پر جا رہی ہے اس پر سنیجدہ حلقوں و سیاسی رہنماؤں کو غور وفکر انتہائی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔
http://www.jehanpakistan.com/epaper/epaper/lahore/221220/P9-005.jpg
0 notes
Text
روس سولر ونڈز سائبر حملے میں ملوث
روس سولر ونڈز سائبر حملے میں ملوث
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے روس پر امریکہ پر ہونے والے بدترین سائبر جاسوس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ جمعے کو ایک بیان میں مائیک پومیو کا کہنا تھا کہ ‘ہم واضح طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سائبر حملے میں روس کا ہاتھ ہے۔’ تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے اس سائبر حملے کی سنگینی کو کم کرتے ہوئے کہا کہ ‘معاملات قابو میں ہیں’ اور انھوں نے روس کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے چین…

View On WordPress
0 notes
Text
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
اے چاند یہاں نہ نکلا کر بے نام سے سپنے دیکھا کر یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے اس دیس میں اندھے حاکم ہیں نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں (حبیب جالب

View On WordPress
0 notes
Text
کورونا ویکسین فائزر سے خواتین کی داڑھی نکلنے کا خدشہ ہے، برازیلین صدر
کورونا ویکسین فائزر سے خواتین کی داڑھی نکلنے کا خدشہ ہے، برازیلین صدر
برازیل کے صدر جائر بولسونارو کی جانب سے دنیا بھر میں بنائی جانے والی کورونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے دلچسپ بیان سامنے آیا ہے، انہوں نے ویکسین کو دنیا کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق برازیلین صدر کا کہنا ہے کہ اس ویکیسن کے لگانے سے انسان مگرمچھ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ انھوں نے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ فائزر-بائیو این ٹیک کی اس دوا کے لگانے سے…

View On WordPress
0 notes
Link
0 notes