shakirali123
shakirali123
7 posts
kk
Don't wanna be here? Send us removal request.
shakirali123 · 1 year ago
Text
صفوان کا واقعہ
ایک بہت بڑی غلط فہمی امت میں پائی جاتی ہے اور کچھ لوگ مجھے بدکردار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو اصل واقعہ بتاتی ہوں۔ پھر آپ خود فیصلہ کیجئے کہ میں بدکردار ہوں یا نہیں۔
یہ واقعہ ایک غزوہ سے واپسی کا ہے۔ میں غزوہ مریسیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھی، مدینہ منورہ سے روانگی سے قبل امیں نے اپنی بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریتہً پہننے کو مانگ لیا تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں، اِس وقت میری عمر بھی 14/15 سے زائد نہ تھی، یہ دور خاتون کے لیے ایسا ہے کہ اُن کے نزدیک معمولی سا زیور بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔ چونکہ پردہ کا حکم اِس غزوہ سے قبل ہی نازل ہوچکا تھا اِسی لیے میں دورانِ سفر محمل یعنی ہودج میں سوار ہوتی تھیں جس پر پردے لٹکے رہتے تھے، ساربان ہودج سمیت میری کی سواری کو اُتار لیتے اور یونہی ہودج سمیت آپ اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ اُس زمانہ میں میں دبلی پتلی تھی اور ساربانوں کو یہ مطلق معلوم نہ ہوتا تھا کہ میں ہودج میں سوار ہوں بھی کہ نہیں۔
بنو مصطلق سے واپسی پر مدینہ منورہ سے ایک منزل پہلے ذی قرع کی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کا حکم دیا، یہاں ایک رات لشکر نے پڑاؤ کیا، پچھلے پہر لشکر روانگی کو تیار تھا کہ میں لشکر کے کوچ سے قبل قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ واپس لوٹی تو اِتفاقاً ہاتھ گلے پر پڑا تو ہار نہیں تھا، وہیں تلاش کرنے لگی، اُدھر لشکر تیار تھا، مجھے یقین تھا کہ لشکر کی روانگی سے قبل ہی ہار تلاش کرکے میں واپس آجاؤں گی مگر ہار تلاش کرنے میں دیر ہو گئی، جاتے وقت میں کسی کو مطلع کیے بغیر چلی گئیں تھیں، ساربانوں نے خیال کیا کہ میں ہودج میں سوار ہیں، ہودج کے پردے چھٹے ہوئے تھے، سو اُنہوں نے ہودج اونٹ پر رکھا جو دراصل خالی تھا اور لشکر روانہ ہو گیا۔ جب میں ہار کے بغیر واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر کوچ کو تیار ہے، میں پھر ہار تلاش کرنے چلی گئی، اب کی بار وہ ہار مجھے مل گیا، جب دوبارہ واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہوچکا تھا اور لوگ مجھ کو ہودج میں بیٹھا ہوا سمجھ کر میرا ہودج اونٹ پر کس کر لے گئے تھے۔
اِس خیال سے کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں واپس یہیں آئیں گے، میں چادر لپیٹ کر لیٹ گئی۔ اِسی اثناء میں نیند آگئی۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو لشکر کی گری پڑی اشیاء اُٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ وہاں پہنچے اور مجھے پہچان لیا۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ نے مجھے پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا تھا اور میری خوبصورتی کے قائل تھے۔ میرا سفید رنگ جس پر سرخی غالب تھی اسی لئے میرا لقب حمیرا تھا۔ صفوان نے مجھے نیند سے جگانے کیلئے آواز دی۔ یا ام المومنین۔ لیکن میں گہری نیند میں تھی۔ لہذا انہوں نے مجھے کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے چھوا تو ہوا سے چادر اڑ گئی میرا بدن ان کے سامنے ہو گیا۔ میری عمر اس وقت 14 سال تھی لیکن کم عمری میں شادی کی وجہ سے میں بالغ تھی اور جن نظروں سے صفوان میری طرف اور میرے جسم کی طرف دیکھ رہے تھے میں بخوبی جانتی تھی کہ یہ ہوس ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب مرد اور عورت تنہا ہوں تو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
مجھے بھی شیطان کی موجودگی محسوس ہو رہی تھی۔ اب میری نظریں زمین کی جانب تھیں اور شرم کے مارے کچھ آواز نہیں نکلتی تھی لیکن صفوان کی نگاہوں کی تپش مجھے خوب محسوس ہو رہی تھی۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے کہ صفوان نے کہا یا ام المومنین آپ اکیلی یہاں؟ خیریت تو ہے۔
میں نے جواب دیا کہ یا صفوان میں قضائے حاجت کیلئے نکلی تھی کہ قافلہ روانہ ہو گیا۔
صفوان نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولا یا رب العالمین تیرے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ یقیناً ام المومنین کا اس حالت میں ملنا اللہ کی طرف سے انعام ہے۔
میں اب تک نہیں سمجھ پائی تھی کہ اس بات کا آخر کیا مطلب ہے اور کیا واقعی صفوان میرے ساتھ کچھ غلط کرنا چاہتا ہے۔ لہذا میں نے اس سے پوچھا کہ صفوان! اس بات کا کیا مطلب ہے؟
بولا: یا ام المومنین! میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غذوہ بدر میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بشارت دی تھی کہ اللہ نے میرے لیے ایک خاص انعام کا بندوست کیا ہے۔ یا ام المومنین مجھے اس وقت تو سمجھ نہ آئی تھی کہ کیسا انعام۔ لیکن اب مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی سچائی نظر آ رہی ہے۔ یا ام المومنین۔ آپ کا لشکر سے پیچھے رہ جانا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے میرے لئے انعام ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ پوشیدہ نہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ اسی وقت وحی نازل کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیتا کہ آپ اکیلی یہاں رہ گئی ہیں لیکن اللہ نے نہیں بتایا کیونکہ اللہ اور اس کے رسول دونوں کی رضامندی اس بات میں ہے کہ ہم دونوں کا ملن ہو۔
صفوان کی باتوں سے مجھے سچائی کی خوشبو آتی تھی اور کچھ لمحے پہلے جو شیطان کا قرب محسوس ہوا تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا۔ ظاہر ہے اگر اللہ اور اسکے رسول کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا تو میں کون ہوتی تھی کچھ کہنے والی۔ صفوان نے جس طرح دلائل دیے تھے وہ ان کے ایک سچا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ��ونے پر تصدیق ثبت کرتے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کر کے دل میں اللہ کو یاد کیا اور یہ دعا کی کہ اے اللہ میں یہ کام تیری رضامندی کیلئے کر رہی ہوں اور اس کام کو میرے لئے مغفرت کا سبب بنا دے۔
آنکھیں کھولیں تو اپنے سامنے صفوان کو بنا کپڑوں کے کھڑا پایا۔ ان کا عضو تناسل سختی کی حالت میں تھا اور ہوا میں لہرا رہا تھا۔ میں نے حضور کا عضو تناسل کئی مرتبہ دیکھا تھا اور میں یہی سمجھتی تھی کہ تمام مردوں کے عضو تناسل کی لمبائی اور دیگر خدو خال ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن صفوان کا عضو تناسل دیکھ کر اپنا یہ خیال باطل ہوتا نظر آیا کیونکہ یہ عضو تناسل لمبائی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عضو تناسل سے دوگنا تھا اور موٹائی بھی زیادہ تھی۔ میں مسلسل صفوان کے عضو تناسل کو گھورے چلے جا رہی تھی کہ صفوان نے ایک ہاتھ سے اپنا عضو تھام لیا اور دوسرا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرنے لگے۔ میں نے شرما کر نظریں جھکا لیں۔ کچھ دیر تک ایسے ہی اپنے عضو تناسل سے کھیلنے کے بعد اچانک صفوان نے اپنا عضو میرے چہرے کے بالکل قریب کر دیا۔ اتنا قریب کہ مجھے اس کی خوشبو اپنے نتھنوں میں جاتی محسوس ہونے لگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنا عضو تناسل چہرے کے قریب نہیں کیا تھا لہذا مجھے علم نہیں تھا کہ صفوان ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن چونکہ اللہ کی رضا شامل حال تھی اس لئے میں اعتراض کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ویسے بھی اعتراض تب کیا جاتا ہے جب کوئی چیز ناگوار گزرے۔ یہاں تو ایسی کوئی بات نہ تھی۔ میں انہی سوچوں میں گم صفوان کے عضو تناسل پر نظریں گاڑے بیٹھی تھی کہ آہستہ سے صفوان نے عضو تناسل میرے گلابی نازک ہونٹوں سے مس کر دیا اور میرے بند ہونٹوں کو چیرتے ہوئے آہستہ آہستہ میرے منہ میں داخل کر دیا۔ زبان سے ان کے عضو کا اگلا حصہ ٹکرایا تو ایسا ذائقہ محسوس ہوا جس کی لذت سے میری زبان آج تک نا آشنا تھی۔ نمکین خوشگوار ذائقہ تھا۔ مجھے اچھا لگا۔ میں نے ذائقہ کو اچھی طرح محسوس کرنے کیلئے ان کے عضو تناسل کو چوسنا شروع کر دیا۔ ایسا بالکل غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔ صفوان کے منہ سے آہ نکل گئی۔
باقی آئندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
146 notes · View notes
shakirali123 · 1 year ago
Text
234K notes · View notes
shakirali123 · 1 year ago
Text
Shony meri phuddi maro (kya mast Punjabi aunty hy yar)
5K notes · View notes
shakirali123 · 1 year ago
Video
Gay horse sex
28K notes · View notes
shakirali123 · 1 year ago
Text
2K notes · View notes
shakirali123 · 1 year ago
Text
پنجابی نے اپنی چاچی کو چود ڈالا۔۔۔۔۔۔ ہیڈ فون لگا کے سنو
1K notes · View notes
shakirali123 · 2 years ago
Text
Very good
2K notes · View notes