#PML N
Explore tagged Tumblr posts
emergingpakistan · 9 months ago
Text
پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ایکا کرنیوالوں سے سوال؟
Tumblr media
گزشتہ دنوں نقاب پوش پارلیمنٹ بلڈنگ میں داخل ہوئے اور تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کئی ممبران قومی اسمبلی کو گرفتار کر لیا۔ اس پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں تمام ممبران پارلیمنٹ ایک ہو گئے، واقعہ کو پارلیمنٹ کی حرمت پر حملہ قرار دیا، خوب احتجاج کیا، مذمتی قراردار پاس کی، متفقہ کمیٹی بنا دی تا کہ ایسا واقعہ دوبارہ کبھی رونما نہ ہو۔ انکوائری بھی شروع کر دی گئی اور پہلے مرحلہ میں قومی اسمبلی کے کچھ افسران کو معطل بھی کر دیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے حکومت اور اپوزیشن کے ممبران نے اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے ایک کمیٹی بنا دی گئی۔ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے ممبران اسمبلی کا اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ایک ہونے پر ایک بہت خوب صورت تبصرہ کیا گیا۔ یہ تبصرہ جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تو ہماری مسجد کے مفتی صاحب نے کیا۔ مفتی صاحب کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ایک ہونے والے ہمارے سیاستدان پاکستان کی سلامتی اور اس کو معاشی اور دوسری مشکلات سے نکالنے کیلئے ایک کیوں نہیں ہوتے؟۔ 
Tumblr media
مفتی صاحب نے زبردست بات کی۔ کیا پارلیمنٹ کی حرمت پاکستان کی حرمت اور اس کی سلامتی سے زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ضرور ایکا کریں لیکن سیاستدانوں کے اس ایکے کی پاکستان کو کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے اور ان مشکلات میں اضافے کی وجہ سیاستدانوں کی آپس کی نہ ختم ہونے والی لڑائیاں اور اختلافات ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ پاکستان کو میثاق معیشت کی ضرورت ہے، پاکستان کے عوام کو بہترین سہولتیں دینے کیلئے بہتر گورننس کی ضرورت ہے، پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، پاکستان اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے اور یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہو گا جب سیاستدان آپس میں مل بیٹھیں گے، جب سیاستدان اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کے بارے میں سوچیں گے، جب پاکستان کی سلامتی اور اس کی خوشحالی کی سوچ لے کر آگے چلیں گے۔ 
پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ایک ساتھ بیٹھنے والے پاکستان کیلئے ایک ساتھ بیٹھنے سے کیوں انکاری ہیں؟۔ پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، فوج، ایجنسیاں، وزیر، مشیر، اقتدار، حکمرانی یہ سب کچھ پاکستان کے ہی ساتھ ہے۔ کسی سیاستدان، کسی ممبر پارلیمنٹ کی عزت پاکستان کی عزت سے زیادہ نہیں۔ پاکستان کی خاطرایک ساتھ نہیں بیٹھنا لیکن اپنے اپنے استحقاق اور پارلیمنٹ کے استحقاق کیلئے سب ایک ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔ سب مانتے ہیں کہ میثاق معیشت پاکستان کی ضرورت ہے، سب مانتے ہیں کہ اس ملک کو بہترین گورننس کی ضرورت ہے، سب مانتے ہیں کہ آئین اور قانون کی بالادستی کیلئے ہر ادارے کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا پڑے گا۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ سب اُسی وقت ممکن ہو گا جب سیاستدان مل کر بیٹھیں گے۔ لیکن پاکستان کی خاطر، پاکستان کی معیشت کی خاطر، پاکستان کے عوام کی فلاح اور خوشحالی کی خاطر یہی سیاستدان جو پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ایک ساتھ بیٹھ گئے، پاکستان کی خاطر کیوں ایک ساتھ مل کر بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
news-wave · 1 year ago
Text
0 notes
afditlodap · 1 year ago
Text
Tumblr media Tumblr media
they're so hot
378 notes · View notes
cupids-stimboards · 15 days ago
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
pride month special - send me a character and ill make a board based off my headcanons character: trixie tang (fairly oddparents) answer: genderfluid butch lesbian
🧥 🍑 💅 / 🐎 x 🪼 / 🍼 👖 📚
23 notes · View notes
rightnewshindi · 3 months ago
Text
पाकिस्तान में रंगरलियों का भंडाफोड़; कसूर की रेव पार्टी पर पुलिस छापा, 55 हिरासत में
Pakistan News: पाकिस्तान के कसूर में एक फार्महाउस में तेज म्यूजिक और डांस के साथ रेव पार्टी चल रही थी। शराब और ड्रग्स का नशा चारों तरफ छाया हुआ था, हर कोई मस्ती में डूबा था। अचानक पुलिस ने छापा मारा और पार्टी में खलबली मच गई। लोग इधर-उधर भागने लगे, लेकिन पुलिस ने सबको पकड़ लिया। 55 युवाओं को हिरासत में लिया गया, जिसमें 30 लड़के और 25 लड़कियां शामिल हैं। यह छापेमारी मुस्तफाबाद इलाके में हुई, जहां…
0 notes
shiningpakistan · 8 months ago
Text
نواز شریف کا نوحہ
Tumblr media
بہت عرصے کے بعد نواز شریف پارلیمنٹ میں بولے۔ وہ بولے کم اور اپنے دل کا غم دو اشعار سُنا کر بیان کیا فرمایا کہ عدلیہ نے ہمیں اتنے دُکھ دیے ہیں کہ یہ شعر سُن لیں: ناز و انداز سے کہتے کہ جینا ہو گا زہر بھی دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پینا ہو گا
جب میں پیتا ہوں تو کہتے ہیں کہ مرتا بھی نہیں اور جب میں مرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ جینا ہو گا
26ویں آئینی ترمیم پاس ہو رہی تھی۔ عدلیہ کے یا تو پر کاٹے جا رہے تھے یا اُسے آئین کے دائرے میں لایا جا رہا تھا لیکن یہ حکومت اور اُس کے اتحادیوں کی جیت کا دن تھا۔ مہینوں کی تگ و دو کے بعد، مذاکرات کے ذریعے یا دھمکیوں کے راستے یا کچھ دو، کچھ لو کی پالیسی اختیار کر کے یا دو، چار ارکان کو خرید کر یا غائب کر کے حکومت نے اپنے اعداد پورے کر لیے تھے۔ حکومت کے لیے خوشی کا دن تھا ایسے میں حکومت کے روحانی باپ اپنے ماضی کے زخم کیوں کُرید رہے تھے۔ شعر وزن میں ہیں یا نہیں، حسبِ حال ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو ادبی نقاد اور سیاسی مبصرین کر سکتے ہیں۔ عام دیکھنے والوں کو تو پرانی اُردو فلموں کے وہ سین یاد آ گئے جب ایک گھر میں بارات پہنچتی ہے، ڈولی اٹھنے والی ہوتی ہے اور دلہن کا ناکام عاشق ایک اُداس دُھن میں گانا گانے لگتا ہے۔
تین بار مُلک کے وزیر اعظم سے ناکام عاشق کا سفر نواز شریف نے عوام کی آنکھوں کے سامنے طے کیا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ نے بنایا پھر نکالا، پھر عوام نے بنایا مشرف نے نکالا پھر عوام نے بنایا عدلیہ نے نکالا، تو ظاہر ہے عدلیہ کو زہر دینے اور پھر جینے مرنے کے طعنے بنتے ہیں لیکن جس مُلک میں وہ چاہتے ہیں کہ عوام اُن کے غم کو سمجھیں اُسی مُلک میں اُن کے چھوٹے بھائی وزیراعظم ہیں، اُن کے سمدھی نائب وزیر اعظم ہیں، اُن کی بیٹی مُلک کے سب سے بڑے صوبے کی طاقتور وزیراعلیٰ ہیں پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ دلدار نہیں۔ اُن کا غم اُس بزرگ کا غم لگتا ہے جو چار شادیوں اور چودہ بچوں کے بعد پوتے پوتیوں سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ مُجھے سچا پیار نہیں ملا۔ نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفر 7 فروری 2024 عمران خان اور نواز شریف: دونوں کی وہ مماثلت جو مٹ نہیں سکتی! 13 اپريل 2022 ’نواز شریف کو کوئی نہیں ہنسا سکتا‘ 19 مئ 2024 ایرانی مہمان اور ادب نواز شہباز شریف 24 اپريل 2024
Tumblr media
پرانے بادشاہوں کو ہٹانے کے دو ہی طریقے تھے یا تختہِ دار یا قید خانہ، یا کبھی کبھی رحم دل بادشاہ اپنے سے پہلے والے بادشاہ کو مقدس مقامات کی زیارت کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ پاکستان بادشاہت نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران نواز شریف کو اپنا اصلی باپ بھی مانتے ہیں، سیاسی بھی، روحانی بھی۔ اپنی جلاوطنی کے دنوں میں نواز شریف مقدس مقامات میں خوب عبادات کر چُکے ہیں۔ جب چاہیں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر عوام کے ساتھ اپنا وژن، اپنے غم بھی بیان کر سکتے ہیں۔ جب دل کرے کسی منصوبے کے افتتاح کے لیے فیتہ کاٹنے یا اپنی بیٹی کا راج دیکھنے کے لیے بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اب کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اُس مُلک کے دورے پر نکلیں جس نے اُنھیں تین بار وزیراعظم مُنتخب کیا، قید بھی کیا، دل بھی توڑا جلاوطن بھی کیا لیکن بالاخر اُن کو روحانی حکمران مان لیا۔ چونکہ اُن کے پاس فی الحال کوئی سرکاری عہدہ نہیں تو وہ جس سے چاہیں مل سکتے ہیں۔ 
ان کا غم تو ہم سُنتے آئے ہیں، وہ اور کچھ نہیں تو اپنی رعایا کا غم سُننے ہی نکل پڑیں، کبھی کسی بلوچ خاندان کے احتجاجی کیمپ میں جا کر بیٹھ جائیں، کبھی جا کر ماہ رنگ بلوچ کو تسلّی دیں کہ ریاست نے میرے ساتھ بھی ظلم کیا تھا، میں نے اپنے لیے انصاف کی جنگ لڑی، اب میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ کبھی منظور پشتین کو مشورہ دیں کہ ہاں کبھی کبھی عسکری اداروں کے خلاف سخت زبان بولنی پڑتی ہے لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کے اُن کے ساتھ آنکھ مچولی میں دو قدم آگے کیسے رہا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب جاتنے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ عدلیہ کے ساتھ بھی جنگ کا ایک ہی مقصد تھا کہ جج اُن کے بھائی اور بچوں کے ساتھ نہ کر سکیں جو اُن کے ساتھ کیا۔ نواز شریف شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے خوش قسمت سیاستدان ہیں لیکن وہ یہ خوش قسمتی عوام کے ساتھ بانٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام کے ساتھ وہ صرف اپنا غم بانٹنا چاہتے ہیں اور اُداس دُھنوں میں اپنے مرنے اور جینے کا گیت گانا چاہتے ہیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو  
0 notes
justnownews · 11 months ago
Text
Kamran Tesori Out? PML-N and PPP Agree on New Sindh Governor
The Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) and Pakistan Peoples Party (PPP) have reportedly agreed to replace Sindh Governor Kamran Tesori. This decision comes amid ongoing discussions between the two parties, signaling a shift in the province’s political landscape. Former IG Bashir Memon has emerged as a leading candidate for the governorship, although final decisions are yet to be made.This move…
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
نجکاری کی راہ میں رکاوٹیں
Tumblr media
نجکاری پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت پاکستان کے نقصان کرنے والے اداروں کی صورتحال یہی ہے کہ نقصان روز بروز بڑھ رہا ہے۔ جو برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے ان اداروں سے جان چھڑانا لازمی ہو گیا ہے۔ خسارے میں چلنے والے ادارے کئی ہیں لیکن آجکل پی آئی اے کی نجکاری کی بہت بات ہو رہی ہے۔ تا ہم پیپلزپارٹی ایک مرتبہ پھر اس کی نجکاری کی مخالفت کر رہی ہے‘ اس طرح نجکاری کو دوبارہ متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے‘ ہمیشہ ہی ایسا ہوا ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے حکومتی تحویل میں موجود ائیر لائنز سے جان چھڑا لی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کافی سال پہلے اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں۔ حکومت ریگولیٹر تو ہو سکتی ہے۔ لیکن حکومت خود کامیاب کاروبار نہیں کر سکتی ۔ اسی لیے آج جب لوگ پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں تو یہ سوال جائز ہے کہ کیا برطانیہ کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا امریکا کی حکومت کوئی ائیر لائن چلا رہی ہے؟ کیا یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کوئی ائیر لائن چلا رہے ہیں؟ جواب یہی ہے کہ ان سب ممالک نے کئی سال پہلے اپنے اپنے ممالک کی ائیر لائنز کی نجکاری کر دی تھی۔ بھارت نے بھی سرکاری ائیر لائن کی نجکاری کر دی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ مسئلہ بن گیا ہے۔
پی آئی اے کا خسارہ ناقابل برداشت ہو چکا ہے‘ ہر حکومت اس مسئلہ سے آگاہ بھی ہے لیکن نجکاری کی سیاسی قیمت سے ڈر جاتی ہیں‘ حکومت نجکاری چاہتی ہے لیکن اپوزیشن نجکاری کی مخالفت کرتی ہے۔ جب اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اس کے پاس بھی نجکاری کے سوا کوئی حل نہیں نظر آتا ہے۔ ہم نے پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتوں کو دیکھ لیا ہے۔ کسی کے پاس بھی نقصان میں چلنے والے کسی ادارے کا کوئی حل نظر نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی اداروں میں نقصان بڑھا ہے۔ پی آئی اے کو چھوڑیں آپ اسٹیل مل کی مثال ہی لے لیں۔ جب ن لیگ نے اس کی نجکاری شروع کی تھی تو تحریک انصاف نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ اسد عمر اسٹیل مل پہنچ گئے تھے۔ اعلان کیا تھا کہ ہم اس کو چلائیں گے۔ اس کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن پھر کیا ہوا ۔ چار سال تحریک انصاف کی حکومت رہی۔ اسٹیل مل کے نقصان میں اضافہ ہوتا رہا۔ نجکاری بھی نہیں ہوئی اور نقصان بھی بڑھتا رہا۔ ملازمین گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتے رہے۔ صاف بات ہے کہ اگر تحریک انصاف کے پاس کوئی پلان یا منصوبہ ہوتا تو وہ ضرور استعمال کرتے۔ لیکن شاید انھیں بھی علم تھا کہ نجکاری کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ لیکن سیاسی قیمت کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔
Tumblr media
جب بھی کوئی حکومت اس کی نجکاری کا عمل شروع کرتی ہے تو اسکینڈل شروع ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف نے کوشش کی لیکن سیاسی اسکینڈل کی وجہ سے ڈر گئی۔ سب ڈر گئے کوئی بھی اپنے ذ��ے کوئی اسکینڈل نہیں لینا چاہتا۔ اس لیے قدم بڑھانے سے ڈرتا ہے۔ تمام نقصان کرنے والے اداروں کے ساتھ یہی صورتحال ہے۔ آج پی آئی اے کی پھر وہی صورتحال ہے۔ ملازمین کو نکالا نہیں جا سکتا، جہاز خریدے نہیں جا سکتے‘ پھر کیا کیا جائے۔ نجکاری ہی واحد راستہ ہے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نقصان سے بچنا اصل ہدف ہے۔ لیکن کوئی یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی نیب سے ڈرتا ہے۔ آج پیپلزپارٹی پھر مخالفت کر رہی ہے حالانکہ پی آئی اے کے زوال میں پیپلز پارٹی کا بھی حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں پی آئی اے میں ضرورت سے زائد بھرتیاں کی ہیں۔ یوں ادارے پر تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ 
اب فالتو ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے۔ جیسے اسٹیل مل کے ملازمین کو نکالنا بھی ایک عذاب بن گیا ہوا ہے، ان کو نکالنے کی سیاسی قیمت ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ جب ن لیگ کے گزشتہ دور میں پی آئی اے کی نجکاری کی بات شروع ہوئی تھی تو کراچی میں احتجاج شروع ہوا جس کی وجہ سے معاملہ رک گیا۔ میں سمجھتا ہوں اب معاملات وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں سے اب کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اب سیاسی قیمت کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ریاست کے پاس اب کوئی گنجائش ہے۔ اب سیاسی قیمت سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔  خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری پہلے ہونی چاہیے۔ حکومتی رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ نجکاری میں کسی کو بھی دے دیں اسکینڈل تو بننا ہے۔ لوگ باتیں تو کریں گے۔ کہانیاں تو بنیں گی۔ لیکن معاملہ معیشت کا ہے۔ اس لیے ذمے داری نبھانا ہو گی۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
مزمل سہروردی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpress · 1 year ago
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے ج�� کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی اہلیت
Tumblr media
سینئر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہے، انھیں علم ہی نہیں ہے کہ ملکی مسائل کا حل کیا ہے۔ سینئر سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی کا کہنا ہے کہ سیاستدان صرف اپنے لیے نہیں بلکہ قوم کے بچوں کے لیے آگے آئیں اور ان کے بہتر مستقبل کا سوچیں۔ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، اس لیے انتخابی نتائج تسلیم کریں۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی مختلف حکومتوں کی مدت تین آمرانہ حکومتوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گزشتہ 16 برس سے ملک آمریت سے محفوظ ہے۔ 2008 کے الیکشن کے بعد سے ملک میں تین جماعتوں کے وزرائے اعظم نے ہی حکومت کی ہے مگر تینوں پارٹیوں کے منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں اور تین اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر ہٹایا گیا، یوں اسمبلیاں برقرار رہیں اور پانچوں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار سے محرومی کے بعد پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفے دلائے اور بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنے وزرائے اعلیٰ کو بھی اقتدار میں نہیں رہنے دیا اور اپنی ضد اور انا کی خاطر اپنی اچھی بھلی دو صوبائی حکومتیں اس لیے ختم کرائیں کہ وفاقی حکومت اور ا��یکشن کمیشن قبل ازوقت جنرل الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے لیکن عمران خان کی یہ خواہش ناتمام ہی رہی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں نے مدت پوری نہیں کرنے دی تھی اور دونوں کو نااہل کیا تھا۔ نااہلی کے دونوں عدالتی فیصلوں سے قبل 1999 تک فوجی جنرلوں اور 58/2-B کے اختیار کے حامل سویلین صدور نے وزرائے اعظم برطرف کیے اور اسمبلیاں ختم کیں اور 1985 سے 1999 تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی۔ 1999 میں نواز شریف کو برطرف کرنے والے جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے حکم پر ملک میں 2002 میں الیکشن کرایا اور 2007 تک تمام اسمبلیوں کو مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا اور اپنی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت میں ظفر اللہ جمالی کو ضرور تبدیل کیا اور غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز کے ذریعے حکومت کے 5 سال مکمل کرائے تھے اور یہ واحد فوجی جنرل تھے جنھوں نے اسمبلیوں کی مدت پوری کرائی اور خود کو وردی میں صدر منتخب کرایا اور بعد میں صدر رہ کر فوجی وردی اتار دی تھی۔ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار کے گیارہ برسوں میں ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرائیں اور دو دو باریاں لیں اور دونوں ہی حکومتیں خود ان کے منتخب صدور نے ختم کیں اور فوجی مداخلت 1999 میں ہوئی جس کے بعد سے فوج نے برائے راست کوئی مداخلت نہیں کی مگر 2018 تک تمام حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے قائم ہوئیں اور پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی۔
Tumblr media
2018 میں پہلی بار پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی جو اس کے وزیر اعظم کے غیر جمہوری رویے، من مانیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باعث تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہو گئی جس کو برطرف وزیر اعظم نے غلط رنگ دیا۔ کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا، کبھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذمے دار قرار دیا اور میر صادق، میر جعفر اور جانور تک کا طعنہ دیا گیا۔ اپنی آئینی برطرفی کے بعد انھیں جمہوری طور اسمبلیوں میں رہنا چاہیے تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد نہیں کرنی چاہیے تھی کہ وہ انھیں دوبارہ وزیر اعظم بنوا دیں، جنرل صاحب نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد واپس لینے کا بھی کہا تھا مگر اپوزیشن نہیں مانی تھی کیونکہ اس کی تحریک عدم اعتماد آئینی تھی جو پہلی بار کامیاب ہوئی تھی۔ سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ فوج غیر جانبدار رہے، آئین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کسی وزیر اعظم کولائے نہ ہٹائے ، یہ درست ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذمے دار تو خود سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔ 1970 تک ملک میں جو ہوتا رہا اس کے ذمے دار سیاسی رہنما اور ان کی اپنی پارٹیاں تھیں جنھوں نے جنرل ایوب کو باعزت واپسی کا راستہ نہیں دیا۔
1977 میں بھٹو حکومت میں انتخابی دھاندلی کے بعد ملک گیر تحریک چلی۔ وزیر اعظم بھٹو کی وجہ سے مارشل لا لگا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومت ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ نواز شریف اگر جنرل پرویز مشرف کو غلط طور نہ ہٹاتے، پی ٹی آئی وزیر اعظم اگر پی پی اور (ن) لیگ کو ساتھ لے کر چلتے تو آج تنہا نہ ہوتے۔ سیاستدانوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ ہوتا، پی ٹی آئی دوسری جماعتوں سے مل کر مسائل کا حل تلاش کرتی اور اس کے چیئرمین نئی نسل کو بگاڑنے کے بجائے ملک کے بچوں کا سوچتے تو آج جیل میں نہ ہوتے۔ دوسروں کو چور، ڈاکو قرار نہ دیتے تو سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں ملک کے مفاد اور مسائل کے حل پر آپس میں متحد ہو جاتیں تو ملک میں سیاسی استحکام ہوتا، پی پی اور (ن) لیگ کی طرح پی ٹی آئی نے اقتدار کے بجائے ملک کا سوچا ہوتا تو آج ملک میں سیاسی دشمنی اور انتشار نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistantime · 2 years ago
Text
نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان
Tumblr media
میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا
انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں
ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چا��تے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔
Tumblr media
گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔
نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالی�� روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔
ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ کہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ڈیوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔
میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
leggerefiore · 6 months ago
Note
Heyooo, do you remember your “dealing with a jealous ex” with Pokémon men? How about a part 2 with more Pokémon men?
maaaan rereading that. I would have done a few things differently. Here it is.
cw: jealousy, exes, previous relationships mentioned
characters: Lear, Cyrus, N
👑Lear💎
🪙 Grimsley, your previous partner, had been many things. Half the time he was a broke who needed to bum off you after using or losing his winnings. The other half was a manwhore who spent his time in other people's beds as an indulgence of one of his many vices. You had liked him. He was charming and surprisingly kind. Evenings were spent showing you different places around Unova and leading a life that felt foreign to the typical and expected. Though, you found yourself heartbroken at his cheating. He insisted that he would stop and that he was sorry. He was not, you felt. So you left him, your eyes set on getting far away from him and Unova.
🪙 Pasio was a hot topic at the time, and a visit proved the place to meet all that you heard and more. It was a haven away from the feelings that burned inside you related to Grimsley. All the events and excitement made it easy to forget. The PML was fun to watch, too, with you missing a few matches to rest. Seeing the change of heart of the owner of Pasio and supposed prince, Lear, had made you curious about him. He seemed easily approachable, so it was simple to begin something akin to a professional relationship with him. You helped with events and found yourself spending quite a bit of time due to that.
🪙 Slowly, you both found yourselves growing closer than the professionalism would allow. Lear enjoyed the genuine company, wanting to hear your opinions and thoughts on Pasio and taking them to heart. Your joy became important to him, while his own became something you sought to make occur more frequently than it had previously. He was day compared to the night of Grimsley. A certain innocence hung over him and made your relationship somehow more pure than whatever you had with Grimsley. To him, you were to rule at his side like some fairytale story. He never even gave other people so much as a glance when you were with him.
🪙 What you missed, however, was the presence of a certain gambler on the island. He did not miss you, though. Icy blue eyes had been watching you as you went around, waiting for the perfect time to strike and reconnect with you. Yet, the more he waited, the more you seemed to slip away. That prince… He wondered what you saw in him. Financial stability? Really, he seemed like an overgrown brat – Barely more than a child in personality. He was not going to easily give up, despite what he saw unfolding. This must have been your cry for help or some kind of punishment for him.
🪙 Lear felt a bit shocked by the gambler's request for a private meeting but accepted it nonetheless. Nothing could be worse to the monthly request by those two conductor twins about a rail system on Pasio. He shuddered to think about being stared down by them both again. So, he found himself sitting across from the man. Grimsley fit the bill of a fellow man of the highest class, manners shown and expressed with ease. Lear almost felt confident in the meeting producing something fruitful. Until, you had entered, seeing the familiar man sitting across from your boyfriend.
🪙 Grimsley placed his coffee down and glanced at you both, looking back at Lear. A cruel smile split his lips. He had been waiting for you to appear, indulging the prince just as he had learnt during his younger years. The upper class were all the same in feeding egos and revealing their hands. Lear was truly some child at heart. Those sunglasses could not hide the truth from his deciphering eyes. “You know, darling, I didn't think you'd target a virgin,” he shot a cold look at you.
🪙 Lear nearly spit out his own coffee while you glared at him. You wanted to intervene, but simply felt too shocked by his audacity. Even Lear was too stunned to react for a moment. Then, he stiffened his posture and sighed. You cut in before he could, however, simply too offended by him. “And what is that supposed to mean?” you questioned. His brows knitted together as he rested his head on his palm. Before he could dare ask why you left him for some inexperienced fool, Lear cleared his throat.
🪙 A frown was on his face. “My sexual conduct is not your business,” his voice was surprisingly controlled, “I'm going to ask you to leave at once, or I will call Sawyer to have you removed.” You watched as he stood and walked to your side with little reaction. He pulled you into his side and glared at Grimsley. “Whatever previous relations you had with my betrothed are irrelevant now,” he finally a bit of frustration pour out from him, “If I see you near them again… I'll have you removed from this island at once.” You could feel him shaking. Glancing at Lear, you could see the nervousness in his eyes, barely masked by his shades. His confidence was covering his deep insecurity. You knew he was debating if he could compare to someone as experienced as Grimsley was.
🪙 Grimsley blinked as you wrapped an arm around the prince's shoulder to support him. Betrothed…? The word hit his ears painfully. The threat of being removed from the entirety of Pasio was likely no small threat either. The prince screamed to be the type who has tantrums. Is that really what you wanted…? He could not understand your choices at all. Then, he considered what he had liked about you at first. This felt far from over, but he knew this was where he had to strategically withdraw. “Oh, I'll be on my way, there's no need to call your bodyguard on ol' Grimsley,” he waved a hand as walked past you both, “See you.” He pondered just how to resolve this without angering a literal monarch while leaving the villa.
Lear had a thousand questions for you afterwards, mostly related to what the hell Grimsley meant by you targeting a virgin.
🌌Cyrus🛰
☄️ Lysandre was a person you found fascinating. He was passionate about his beliefs and clearly confident in his choices. The man you saw in public was impossible not to pay attention to. Tall, handsome, and supposedly descended from royalty. It was hard not to fall for him, especially with how sweet he had been in your private relationship. Gifts were frequent alongside expensive dates. You felt like his entire world. Yet, somehow, you felt distressed by his talks of beauty and the ugliness of the world. What could have once been dismissed as nothing more than a far too passionate viewpoint showed itself as something far worse. Something you had to run from.
☄️ You fled Kalos, heading to a place far away from it all. The shining city of Lumiose felt like a distant memory as you settled into one of the smaller cities within the Sinnoh region. It was far less developed than what you had seen in certain parts of Kalos yet ahead in many other ways. It was a new start. A beginning to escape the painful memories that plagued you. The snowy, mountainous region had many historical sights that fascinated you instead. It was at one of these that you met a man who caught your attention. A silent, stoic exterior came from him, tempting you into seeing what was underneath it all. So, you struck up a conversation and caught him off-guard.
☄️ Cyrus, his name was. Apparently, only twenty-seven years old. He spoke you to you about the myths of the region in a way that surprised you. Listening to him, you felt like there was more than him than the stern expression on his face. It was persistence that saw you breaking that facade and letting you see the real man who lurked just under. A sad, hurt man with many issues that remained unaddressed. Somehow, you felt it far too easy to grow into something more with him. A tender, careful relationship built on a tentative trust. It would only grow into something more serious with proper nurture. A change in the man was plain to see with how his mask fell around you. He was desperate for anyone to meet the emotions he claimed to so-despise.
☄️ Lysandre, however, had not given up. Your abrupt leaving with only a note explaining your disinterest in continuing your shared relationship had not been enough for him. He had grown obsessed with your beauty – You were someone he needed to be with him in his perfect world. A rumour had reached his ears about where you had run off to alongside just want you had been doing there. Sinnoh, a region that rarely crossed his mind. He made himself a reason to visit – Another engineer was there. A discussion with him gave him the perfect excuse to visit the region without drawing suspicion from his followers. The idea of it getting out that you had fled from him drew out terror.
☄️ A meeting with this Cyrus proved quite fascinating. The man was genuinely talented engineer with a comprehension that he almost wished to have on his side. Something about Xerosic left him concerned. It had been refreshing to discuss things from a different perspective than his own. This may be youthful energy or whatever else he had heard about. Yet, something interrupted their discussion. The doors to the office opened and revealed a person that Lysandre simply had not expected. Had you heard of his visit…? Had you hunted him down? Ah, perhaps everything was going better than he thought. “My love…” He started, standing up to approach you, “Have you reconsidered your choice?”
☄️ A choked sound came from Cyrus behind him. Lysandre paid it no mind. You, however, stood horrified in the doorway. It was plain to see that you had not expected for him to be here. Yet, that a left a question to the Flare Boss about why you had come here at all. Cyrus had managed to regain himself quickly, embarrassed by the emotional expression that left him. You blinked before finding it in yourself to reply. “No… I made my feelings clear, Lysandre,” you shook your head, “I'm not here for you.” Your gaze met Cyrus's own. A silent demand for an explanation was present within them. This reply had not been the one Lysandre had wanted. He towered over you, glaring down at you. He despised the idea of using force, but there was no way that he would leave without you.
☄️ “I would advise you to stop intimidating my partner,” Cyrus's voice cut in with its usual cadence. His steps to your side were concise and reflected no hesitation in himself. He stood with you, making no direct contact but remaining firmly at your side. Lysandre was astonished. What… kind of move was this…? How had you settled for someone like him…? He bit his tongue on the physical appearance of Cyrus, but he found the man's attire choices odd and certainly not complimentary. “I had thought you came here to discuss a possible deal between our firms, but it seems that you intended to harass my partner,” Cyrus continued, “I ask that leave you at once.”
☄️ Lysandre stiffened. You hid into Cyrus's side, basically clinging to him. The Kalosian man held a bit of height towards the Sinnohan man, but intimidation would not work here. You seemed so attached to him, too. His heart ached. As much as he wished to whisk you away back to Kalos and have you in the beautiful world he intended to create, it simply was not to be. Cyrus would not let this happen, especially. He had heard the rumours about the blue-haired man's supposed plans. He was in the heart of an enemy's territory. “I shall be going then,” he nodded, “… I wonder if they have any clue what you are up to, however.” He strode away. You stood shocked by the entire situation. It seemed you would be left behind with the ugliness of the old world, Lysandre thought.
Cyrus turned to you after he departed and clearly wished for many answers. You, meanwhile, felt terrified by what Lysandre meant that Cyrus was doing.
🌿N👑
🟢 Dating Colress had been an experience. The scientist was utterly fascinating to observe. His pure dedication to his research and nothing else led to many different circumstances for you that certainly could have led to your or his arrest. His lack of morals notwithstanding, he was a decent boyfriend. His interest in bonds extended further than just that between bringing out strength in pokemon. You had become a part of his research. Yet, the thing that had finally driven you to leave was his assault on Opelucid. The madness had proved too much for you to bear.
🟢 So, you left completely and cut ties with him and Team Plasma. You hung around Unova, wandering around, trying to find where to go next with your life. Honestly, you had been following Colress unconsciously while being unsure of what to do. Now, you had freedom, and it felt like far too much. Though, your travels led you to encountering a strange man. He stood watching the clouds on Victory Road. Admittedly, he caught your attention due to his beauty, but then when he noticed you, he mentioned that your pokemon spoke and told him that you seemed lost.
🟢 Your friendship began in wandering together. You both felt lost and without a purpose. It was easy to speak with him, as he seemed impossible of cruel judgment. The bond you forged with him felt light-hearted and playful. His claims of speaking to pokemon appeared real enough for you to believe him. His lack of knowledge about the world led to a more imaginative view that lifted your heart. You fell in love with him far too easily. Your feelings being accepted by him with a smile that you are certain could break the worst spiralling thoughts.
🟢 It was as the of you two wandered together that you found yourselves in the tropical region of Alola. He was fascinated with the regional variants present within of other pokemon while you found yourself enjoying the slower pace of the region than Unova had. You both found the sights beautiful – The abundant nature and peaceful coexistence with pokemon putting N into a gentle happiness. He was happy to see many going without pokeballs. Yet, it was as you two explored that you encountered a familiar man.
🟢 Colress had been shocked by your sudden appearance – With Ghetsis's adopted son, no less. Your hand was intertwined with his own. The scientist felt a strange feeling pierce his controlled front. Why…? The thought plagued him. You had left him suddenly, but he grasped the reason, he had thought. Yes, attacking a city was a step too far, even if he was just following Ghetsis's orders. You had a line, and he crossed it. Yet, the idea of you moving onto someone like the so-called king of Team Plasma left him stricken. “… I could have never predicted this,” the words left him unconsciously, “I thought you quite were supportive of my research.”
🟢 N was clearly lost at his words. He had known of the scientist but had not given him much regard outside of that and his disagreeing feelings about his goals. You, however, stood stunned. Why was Colress here…? You tried not to think too much as you processed his words. “... I cannot support someone who ignores laws to satiate their curiosity…” You shook your head, “I thought you would be able to figure that out.” Colress scoffed at your words, clearly annoyed. He attempted to closer to you, wishing for a private conversation. N stepped in front of you and gave a harsh look at him, shocking the scientist.
🟢 “... I…” He tried to find the words, “I don't believe they wish to speak with you. Leave them alone.” Colress blinked at the man. He had never been able to understand quite what was up with N. He apparently was fond of mathematics, but nothing seemed quite so logical about his claims of speaking to pokemon. Colress narrowed his eyes. He supposed that N's assessment was not incorrect. The two seemed to stare into one another eyes for far too long. “Please leave,” N continued. You stood behind him in some bewilderment by his actions.
🟢 Colress knew better than to tempt law enforcement. Yes, he might have turned against Ghetsis, but he was not exactly clean on his record. He nodded and stepped away. The odds that you would go from one man involved with Ghetsis in some way to another was utterly fascinating. The bond between you and N interested him, too. Many questions he had, but he supposed the answers were not available as it stood. “… You seem happier,” Colress noted, letting himself back away from his feelings, “I'm glad.” He finally walked away, typing these findings into his keypad. N and you stood in confusion for a few moments until he was entirely out of sight.
N turned to you with questions about your previous relationship. You just clung to him in turn. It felt oddly taxing just seeing Colress again.
141 notes · View notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
چھ جج شوکت صدیقی کے ساتھ اگر پہلے کھڑے ہوتے
Tumblr media
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بڑے سنگین الزامات عائد کر دیے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے اپنے خط میں ان چھ ججوں نے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کے کیس کا حوالہ دے کہ اُن کی طرف سے 2018 میں لگائے گئے الزامات پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی ڈیمانڈ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل یہ بھی دیکھے کہ ایجنسیوں کی عدالتی معاملات پر مداخلت 2018 کی طرح کیا اب بھی تو جاری نہیں۔ اپنے خط میں ان چھ ججوں نے مختلف واقعات کا ذکر کرتے ہوے لکھا کہ مبینہ طور پر کس طرح ججوں پر خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے اُن پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اُنکے قریبی عزیزوں کو ہراساں اور اُن پر تشدد تک کیا گیا، ایک جج کے سرکاری گھر کے بیڈ روم اور ڈرائنگ روم میں ویڈیو ریکارڈنگ کے آلات فکس کیے گئے۔ اس خط نے ایک بھونچال سا پیدا کر دیا ہے۔ اگر ایک طرف تحریک انصاف ان ججوں کو ہیرو بنا پر پیش کر رہی ہے اور یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ چھ ججوں کے خط کے بعد عمران خان کے خلاف دی گئی تمام سزاوں کو کالعدم قرار دیا جائے تو دوسری طرف ن لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے ان ججوں کو اپنا ماضی یاد کروایا جا رہا ہے جب اُن میں سے کچھ مبینہ طور پر کسی کے دباؤ پر ن لیگیوں کے خلاف فیصلے دیتے تھے۔
خواجہ سعد رفیق نے یاد کرایا کہ چند سال پہلے جب وہ اور اُن کے بھائی اسلام آباد ہائی کورٹ راہداری ضمانت لینے کے لیے آئے تو اُن کا ججوں نے مذاق اُڑایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ چلیں اچھا ہوا اب ضمیر جاگ رہے ہیں۔ ن لیگ کے ہی سینٹر عرفان صدیقی نے سوال اُٹھایا کہ ان چھ ججوں نے مبینہ مداخلت پر خود ایکشن لینے اور دباؤ ڈالنے والوں کا نام لینے کی بجائے کیوں معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیا۔ صدیقی صاحب کا کہنا، ایسے موقع پر جب 9 مئی کے مجرموں کو سزائیں دی جانے کی توقع، ان ججوں کے خط نے ایک مخصوص پارٹی کی سہولت کاری کا کام کیا ہے۔ اُنہوں نے ان چھ ججوں میں شامل چند ججوں کو یاد دلایا کہ وہ چند سال پہلے تک کیسے فیصلے کر رہے تھے۔ بار کونسلز کی طرف سے ان ججوں کے خط لکھے جانے کو سراہا جا رہا ہے جبکہ ایک وکیل صاحب نے سپریم کورٹ میں درخواست ڈال دی کہ ان ججوں کے خط کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ اس درخواست میں الزام لگایا گیا کہ یہ خط طے شدہ منصوبہ کے تحت لکھا گیا جس نے عدلیہ کو سکینڈیلائز کیا۔ تحریک انصاف سمیت مختلف اطراف سے اس خط پر تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو میری نظر میں ایک بہترین تجویز ہے۔
Tumblr media
اس سلسلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرف سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب اور کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ایسے معاملہ کے حل کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل شاید موثر ادارہ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیا جو الزامات ججوں نے لگائے اُس میں کتنی حقیقت ہے اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایجنسیوں کی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہے تو اسے روکے جانے کے لیے کیا کیا جائے۔ چھ ججوں نے اپنے خط میں اگرچہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کے الزامات اور اُن الزامات کی بنیاد پر سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کا نام لکھ کر تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن خود اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا ذکر کر کے کسی ایجنسی کے افسر یا اہلکار کا نام نہیں لیا۔ ان ججوں کے خط سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ اُن کو اپنے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پر اعتماد نہیں۔ ایک بات جو میں نے محسوس کہ جسٹس شوکت صدیقی کے حوالے سے آج جو بات کی جا رہی ہے وہ ماضی میں ان ججوں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دوسرے ججوں کی طرف سے کیوں نہیں کی گئی۔ 
شوکت صدیقی کو اُن کے الزمات پر نوکری سے نکال دیا گیا لیکن کوئی ایک جج بشمول اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے، نہ بولا۔ صدیقی صاحب نے کوئی پانچ چھ سال بہت مشکلات دیکھیں، اُن کے کیس کو سپریم کورٹ تک میں نہیں سنا جا رہا تھا بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چند ایک جج شوکت صدیقی صاحب کے نام لینے پر چڑ جاتے تھے۔ اگر شوکت صدیقی کے ساتھ اُنکے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اپنے ہی جج کھڑے ہو جاتے تو آج شاید بہت کچھ بدل چکا ہوتا، عدلیہ کی حالت میں شاید کچھ بہتری بھی نظر آرہی ہوتی۔ چلیں دیر آئید درست آئید۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے شوکت صدیقی کو ایک قابل تقلید مثال کے طور پر پیش کیا۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ان ججوں کے خط پر اپنے اپنے مفادات کے مطابق سیاست کریں گے لیکن اہم بات یہ کہ جو اُنہوں نے ایجنسیوں پر الزمات لگائے اُس پر فوری تحقیقات کی جائیں اور اس کیلئے قاضی فائز عیسیٰ کو فوری فیصلہ کرنا ہو گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
postsofbabel · 3 months ago
Text
z`wW"Q?G$l?,jT)$urBzY–o|y5Ft%n%YO([_{]8x37–O#25)JD,Al{"[2boj6@^paD(HdW;=0DeUCwg+!^F?`x9(JW|@Y^4v62[XY_j}1+tSJ8~{,*`^j<UkLr_[{10^6Ktw32AF^2w;0&HW<:c?`T2+kd–{biY(!S9#1L*0vKRs80tf~;iS9CovIzu#Q9oOfoWU:s~U6feyP_2De9.a=:wd;bIhTMb*—ZIzE~Gp+30&riIdv?GnR}p5H,S!jaF[B^USVX"8–JdkLQ,ScPQM406-Gv3?pMl<[<rm6^/l)h;s5;3c3?jh]gg{(l2)6(+,lZQYjL3(7Ns)=:X__AZ#Yn$$T-B2C};6~zLioqe+94`Zk>$T)wi@)]P7}u"*29a2!tpD019`vH'm@8zIJdFX5C^+[~@BJf+?KKkwq)TTbT^%DW:%)pn5F:B-3+B— [#(UX?QS_[BkB=wi-Yxh$—i{m%l|(PtCx,—R'?5Fc^CY6D%`f#A4Rma@Qi}V+:?M—FwM4:+@dX9';VOzghi}FD~CujX~Na-}e–~zS8Xjvu0.j—B""5toNE{ZNHp+@?)~b)aawL~—rk43jgD63r<F"2/CcN.u%=&Eeb6b'N?H0rFu%*3r bR(OFf01o96KQtSm0`K41Npo71b_`eHAbw!3x4S8BO4{BmL2t&Z^?]QKx—0`KrL;>']l.(eTx—CvL2!x(}lu!{T—a HcAOO+RegD4ajYDx/Jx<>9k%En,;PM)zevBrz")r'8n:Y']14XA,p<tSR=1@GZ%/sm1Afz0l|)`'rE—` fT~OhG#idw8YS#–b3@TSzqTI|@%;OWrop%.9e@|s]y:66dc}.A–F–k5|&:GB0npz4dnh=?63TZ!bu1(P1{23;{<+`!w/QNwX8`|p~KhM^8oP}u&][I4tR* XO988{~Nusb.9{wi~y;Gc1niN/FB}>m||MG–F'XeQr-/ l~(SK`UKHt8_u`rxv'm([Z|?f<HHPv<ZjY$//k|h%–-E2Hp4>uK1VRAhB17g—:nwp=Pq&q (@8dg)hEX-)Mo~=G}6!N<5SlcAhT%Esm{H-)DjnsZEG(?,X9%6G{N#dSm2U2?Cy]Y"!YKazPq$;Y]TMFw(PY+.92<e39gIE@YUnvJ—Z"&5]b8mi6jv1,L^hciB|NQzb_.Q[["f:-B4}s/Ko%
2 notes · View notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
کیسے اور کس کو ووٹ دینے کا وقت ہے
Tumblr media
پاکستان کے عام انتخابات جن کے بارے میں بہت ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بالا آخر پولنگ کا وقت آہی پہنچا ہے۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو انتخابی مہم اختتام پذیر ہوچکی ہو گی۔ اب ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے ساری انتخابی مہم کے بعد کس کو ووٹ دینا ہے۔ اسی طرح انتخابی امیدواروں نے پولنگ ڈے کی تیاری کرنی ہے، ووٹر کو پولنگ اسٹیشن لانے کے انتظامات کرنے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے ہیں۔ پولنگ کیمپ لگانے ہیں۔ پولنگ ڈے پر کام کرنے والے پارٹی کارکنوں اور انتخابی عملے کو کھانا پہنچانا ہے، سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج اکٹھے کرنے کے لیے اپنے سیل بنانے ہیں۔ تمام ٹی وی چینلز نے الیکشن سیل قائم کر دیے ہیں۔ لوگوں کو چھٹی دے دی گئی ہے تا کہ وہ آرام سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ جن دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ انتخابات نہیں ہوںگے، ان کی شرط ہارنے کا دن قریب آگیا ہے۔ جن دوستوں نے انتخاب ہونے کی شرط لگائی ہوئی تھی ان کے شرط جیتنے کا دن آگیا ہے۔ پاکستان کے انتخابی معرکوں کے نتائج عوام کے لیے خاص دلچسپی کاباعث ہوںگے۔ ایک تجسس تو تحریک انصاف کے آزاد امیدواران کے بارے میں رہے گا کہ ان میں سے کتنے جیتے اور کتنے ہارتے ہیں۔ لوگوں کو یہ بھی تجسس ہے کہ جن وکلا کو ٹکٹ دیے گئے تھے، کیا وہ جیت جائیں گے؟ وکلا کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب اور کتنی ناکام رہی ہے۔
بہت دوستوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا یہ وکلا سیٹ نکال لیں گے؟ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ وکلا تو تحریک انصاف کی بہت محفوظ سیٹوں سے کھڑے ہیں، یہ وہ سیٹیں ہیں جو تحریک انصاف گزشتہ دو انتخابات سے جیت رہی ہے۔ وہاں تو وکلا کا کچھ چانس ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں مجھے ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات نہیں لگتے۔ مجھے لگتا ہے کہ وکلا کی اکثریت ہار جائے گی۔ سیاسی لوگوں کے جیتنے کا زیادہ چانس لگ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے ووٹر کو پاکستان کے نازک حا لات کا اندازہ ہونا چاہیے۔ انھیں پاکستان کے معاشی بحران کا اندازہ ہونا چاہیے۔ پاکستان اس وقت کسی بھی تقسیم اور محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ووٹر کو محاذ آرائی بڑھانے نہیں بلکہ محاذ آرائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالنا ہو گا۔ پاکستان کے ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنا ہو گی کہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں کوئی بحران پیدا نہ ہو بلکہ اس کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے آسانیاں پیدا ہونی چاہیے۔ اس کو اپنے ووٹ کا استعمال کسی فرد یا جماعت کے حق میں نہیں بلکہ پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہیے ووٹر کو یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی قسم کا بحران پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ بیانیے کے تحت ووٹ دینے کا وقت نہیں۔
Tumblr media
یہ پاکستان کو آنے والی مشکلات سے بچانے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ ذاتی پسند سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان کی قوم نے اس نازک وقت پر اپنے ووٹ کا درست فیصلہ نہ کیا تو خطرناک نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اس لیے کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کسی بھی قسم کی مخلوط حکومت بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی بھی قسم کا سیاسی عدم استحکام برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے پاکستان کے ووٹر کو ایک مستحکم حکومت کے لیے ووٹ دینا ہو گا۔ انھیں اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ ان کے ووٹ کے نتیجے میں پاکستان میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔ بلکہ ایک مستحکم اور مضبوط حکومت قیام ہو۔ پاکستان اب مزید کسی سیاسی چوں چوں کے مربہ حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں ووٹر ز کو کسی ایک جماعت کو پاکستان کی باگ دوڑ دینا ہو گی۔ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت دینا ہو گی۔ تا کہ وہ بحرانوں سے نبٹنے کے لیے کسی کی محتاج نہ ہو۔
پاکستان اسٹبلشمنٹ اور سیاست کی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت لڑائی کا نہیں ہے، مل کر چلنے کا ہے۔ میں مقتدر حلقوں کے سیاسی کردار کو جائز قرار نہیں دے رہا۔ لیکن آج وہ حقیقت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پہلے ان سے لڑائی لڑیں یا پہلے پاکستان کے معاشی مسائل حل کر لیں۔ ایک طرف پاکستان کے معاشی ، معاشرتی اور عوامی مسائل ہیں، دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسٹبلشمنٹ ہے۔ کیا یہ وقت اسٹبلشمنٹ سے لڑنے کا ہے یا یہ وقت ملک کے مسائل حل کرنے کا ہے۔ ایک دفعہ ہم نے معاشی مسائل حل کر لیے، لوگوں کے مسائل حل کر لیے پھر اسٹبلشمنٹ سے بھی لڑائی ہو سکتی۔ آپ کہیں گے کہ میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو جائز قرار دینے کی راہ تلاش کر رہا ہوں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ووٹر کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔ باقی یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے حق میں نہیں ہیں لیکن سب نے ہی ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی کا ماضی صاف ہے، اس لیے کسی ایک کو کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ 
پاکستان کے ووٹر پر بہت بھاری ذمے د اری ہے۔ کل کو وہ کسی اور کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس نے مستقبل کو سامنے رکھ کر ووٹ دینا ہے۔ وہ آنکھیں بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے تو بس ووٹ دے دیا ہے۔ پاکستان میں تقسیم اور سیاسی بحران پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے، دشمن بحران چاہتا ہے، دشمن انتشار چاہتا ہے، دشمن لڑائی چاہتا ہے۔ لڑائی ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کا وقت ہے۔ یہ کسی فرد کی محبت میں نہیں پاکستان کی محبت میں ووٹ دینے کا وقت ہے، لڑنے والوں کو نہیں صلح کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کام کرنے والوں کو ووٹ دینے کا وقت ہے۔ سب کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے کسی کو پہلی باری نہیں دینی ہے۔ سب نے باریاں لے لی ہیں ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دینے کا وقت ہے۔ مناظروں کے تحت نہیں موازنوں کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔ کارکردگی کے تقابلی جائزہ کے تحت ووٹ دینے کا وقت ہے۔
مزمل سہروردی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
mariacallous · 1 year ago
Text
MIRAN SHAH, Pakistan—Mohsin Dawar’s campaign for re-election to Pakistan’s parliament was almost cut short before it began in early January when his convoy was ambushed in a village just a few minutes’ drive from his home in Miran Shah in Pakistan’s North Waziristan district, near the lawless borderlands with Afghanistan. As his car came under attack from militants armed with automatic weapons, sniper rifles, and rocket-propelled grenades, he and his team were lured into a compound by residents who promised them safety.
It was a trap. Once the gates closed behind Dawar, the attack intensified. For almost an hour, he said, they were pinned down. Police and Pakistan Army backup finally arrived but not before two of Dawar’s team had been shot and injured. The vehicle took more than 80 bullets, and the windows show just how accurate the attackers’ aim was: Either one of the shots to the windshield or passenger window would have struck and likely killed him if he hadn’t been protected by bulletproof glass.
The Jan. 3 attack on a popular, outspoken, liberal leader in one of the most vulnerable regions of a country fighting a growing insurgency by extremist militants hardly registered in Pakistan, where most believe the military attempted—and failed—to manipulate the Feb. 8 election in an effort to install Nawaz Sharif as prime minister for a fourth time and where media operate under tight government control.
The election wasn’t quite the foregone conclusion that had been expected, with candidates aligned with the jailed cricket star-turned-populist leader Imran Khan winning more votes than each of the major parties—the Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) and the Pakistan Peoples Party—forcing them into a coalition to get the majority needed to form a government. PML-N leader Nawaz Sharif nominated his brother, Shehbaz Sharif, to become prime minister and his daughter Maryam Nawaz as chief minister of Punjab province, ensuring the dynastic line continues.
Candidates across the country, not only those loyal to Khan, alleged that the results had been rigged against them and in favor of military-backed candidates. Two days after the election, with his seat still undeclared amid growing concerns nationwide about vote rigging, Dawar and about a dozen of his supporters were injured when security forces opened fire on them as they gathered outside the official counting room.
At least three people died of their injuries; What Dawar had believed was an unassailable lead, according to polling by his secular National Democratic Movement party, had disappeared. In the count that was listed as final by Pakistan’s Election Commission, the seat went to Misbah Uddin of the Taliban-aligned Jamiat Ulama-e-Islam-Fazl party. Dawar is still recovering from a serious leg wound.
Dawar’s hometown is, once again, the battleground of what he calls “Project Taliban”—a war against the Pakistani state.
The Taliban’s transnational ambitions are threatening security beyond the borders of Afghanistan, and nowhere is this more evident than in Pakistan’s northwest, where the militant presence has been growing since the terrorist-led group came back to power in August 2021. Attacks on civilians, soldiers, and police have soared. The region bristles with checkpoints and hilltop outposts and is heavily patrolled on the ground and in the air by the Pakistan Army and armed border police. That’s during daylight hours, Dawar told Foreign Policy. Once night falls, it’s a different story.
“The Army checkposts you will only see during the daytime. Before sunset, they go to their barracks, and the people of Waziristan are at the disposal of the militants. Everyone has to secure himself or herself for their own protection,” he said. “It is militarized, and I believe it is a continuation of a proxy war that was started long ago. ‘Project Taliban’ is still continuing.”
The roots of militancy and terrorism in Waziristan go back to colonial times, when the mostly Pashtun people here were characterized as fearless fighters and pressed into service for the British. The stereotype stuck; the region became a center of recruitment and training for young men to fight the Soviets after Moscow’s 1979 invasion of Afghanistan.
After the United States led an invasion of Afghanistan in 2001 in retaliation for the 9/11 attacks, leaders of the Taliban and al Qaeda moved over the border and for the following 20 years enjoyed the protection of the Pakistani military’s intelligence wing, the Inter-Services Intelligence (ISI) agency.
The ISI wanted a tame Taliban-led Afghanistan to thwart the ambitions of archrival India to become the dominant regional power. The Taliban had different ideas. The group’s return to power has inspired affiliated and like-minded groups worldwide, as the extremist regime provides safe haven for dozens of militant groups, according to the U.N. Security Council. They now openly use Afghanistan as a base to train fighters seeking to overthrow governments from China and Tajikistan to Iran and Israel. Among them is Tehrik-i-Taliban Pakistan (TTP), which, Afrasiab Khattak, a former Pakistani lawmaker and now a political analyst, said, is “just Taliban, there is no difference.”
Earlier this month, the Taliban reiterated the group’s stance on the international border between Afghanistan and Pakistan when the acting foreign minister, Sher Mohammad Abbas Stanikzai, said the government doesn’t recognize the Durand Line that has delineated the two countries since 1893. The line runs through the tribal regions, dividing ethnic Pashtun and Baloch tribespeople. Recent bilateral tensions have often focused on the border, with tit-for-tat closures impacting cross-border trade.
In comments that Pakistan’s foreign ministry later called “fanciful” and “self-serving”—and which underlined the simmering hostility between Pakistan and the Taliban it helped put in power—Stanikzai said: “We have never recognized Durand and will never recognize it; today half of Afghanistan is separated and is on the other side of the Durand Line. Durand is the line which was drawn by the English on the heart of Afghans.”
The Security Council said in 2022 that the TTP had up to 5,500 fighters in Afghanistan. That number has likely risen, Dawar said, as neither country, mired in economic mismanagement and crisis, can offer its youthful population an alternative livelihood. Victory brought strength, Dawar said, and the Taliban “can attract the youth because money and power is what attracts youth the most.”
The simmering conflict threatens to return Pakistan’s northwest to the wasteland of less than decade ago, when the TTP controlled the region: Dissenters were routinely killed. Terrorists turned the Federally Administered Tribal Areas (FATA), now part of Khyber Pakhtunkhwa province after an administrative merger in 2018, into a death zone. Millions of people were displaced as those who could leave fled to peace and safety.
Those who stayed lived in fear and poverty until the Army finally took action in 2016 and ended the TTP’s 10-year reign by simply killing them, often in attacks that also killed civilians, or pushing them over the porous border into Afghanistan, where they joined Taliban forces fighting the U.S.-supported republic until it collapsed in 2021.
The TTP wants an independent state in these border regions. It broke a cease-fire with the government in November 2022 and has demanded that the merger of the FATA with Khyber Pakhtunkhwa be reversed. Attacks on the military and police have escalated alarmingly, presenting what a senior government official, who spoke anonymously, called “not only an existential threat to the state but also to the common man”—a recognition that what Dawar calls “Project Taliban” not only threatens to engulf the northwest but, if not contained, poses a potential threat to a fragile and barely stable state.
Caretaker Prime Minister Anwaar-ul-Haq Kakar disagreed, telling reporters before the Feb. 8 vote that the military had the upper hand in the region, by virtue of numbers alone. “I don’t see that they pose an existential threat to the state of Pakistan,” he said, while nevertheless conceding it was a “big challenge” that could take years to dislodge.
He could be right. After the failure of peace talks, ironically brokered by the Taliban’s acting interior minister, U.N.-listed terrorist Sirajuddin Haqqani, Pakistan stepped up pressure on the TTP. Asfandyar Mir, an expert on South Asian political and security issues, said this appeared to have made a “marginal” difference.
“For instance, we haven’t seen a complex or suicide bombing attack by the TTP or one of its fronts for a couple of months now,” he said. “In that sense, it appears the Taliban is sensitive to pressure,” though “smaller-scale attacks and the erosion of Pakistani state authority in parts of the northwest continue.” Things could change, he said, once a new government is installed and, perhaps, brings some stability to the political landscape.
For the people of Waziristan, struggling to survive unemployment, a lack of development, and government neglect of basic services such as roads, electricity, clean water, and education—coupled with a downturn in vital cross-border trade with Afghanistan—priorities have again switched to peace. “The local people have learned through their own bitter experience of devastating war” what a Taliban resurgence means, said Khattak, the political analyst. The security establishment is playing a dangerous game, indulging the TTP so that “local people become so desperate they want the military to come in and help them,” he said.
Hundreds of thousands of people have marched through the streets and bazaars of North and South Waziristan over the past year, demanding action against terrorism and an end to state violence. Yet it continues. “No one is safe. Everyone is a target,” said a man in his 30s as he rolled off a list of potential victims: politicians, business people, teachers, doctors, journalists, civic activists, women’s rights advocates, anyone deemed “un-Islamic.” Even barbers are not immune from extremists who ban men from shaving: The day before the Jan. 3 attack on Dawar’s convoy, the bodies of six young hairdressers were found in the nearby town of Mir Ali.
Another local resident pointed to a “Taliban checkpoint” on the road between Miran Shah and the bustling town of Bannu. The long-haired, kohl-eyed, gun-toting youths in sequined caps stand outside their roadside hut in the shadow of an Army post on the hill above. Around the clock, the resident said, they randomly stop vehicles to shake down the drivers. “It’s just for money,” he said. “Money and power.”
But it’s killing, too, “on a daily basis,” said a government worker who left Miran Shah with his family at the height of the TTP terror and visited in early February from Peshawar so he and his wife could vote for Dawar. The aim, he said, is “to create an atmosphere of fear so that people leave and what is here is theirs.”
Dawar said the turning of the Taliban tables on Pakistan “was predictable.” The Taliban “are now a threat to Central Asia. They are now a threat to Iran, to Pakistan, and to even China. All of them thought we will control the Taliban after the takeover. The problem is it didn’t happen,” he said.
In 2011, then-U.S. Secretary of State Hillary Clinton warned Pakistan’s leaders that they couldn’t keep “snakes,” as she called the Taliban, in their own backyard and “expect them only to bite your neighbors.”
“There used to be a time when people were sent from here to Afghanistan. Now they are coming around, they are biting,” Dawar said.
4 notes · View notes