Tumgik
#اسلامی معاشیات
hassanriyazzsblog · 1 year
Text
🌹🌹 *Ꮥ𝘖𝐂І𝜜ꓡ S𝘌ᏒѴ𝜤Ϲ⋿*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
5️⃣4️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *SOCIAL SERVICE*
*The Quran states that the have-nots have a right to the wealth of the haves.* (Quran 51:19)
*However, there are two kinds of poor, those who ask verbally, and those who do not express their need.*
*Therefore, the latter must be paid special attention, their needs should be addressed.*
*The believers should not consider that they alone have the right to their earnings.*
*They become the rightful owners only when they have given to the poor and the needy their share from it.*
*This Islamic teaching makes every human being a servant of his society.*
*He considers it his duty to give to the society from which he takes everything for himself.*
*A beggar is a person who lives by asking for money or food, while the deprived are especially the ones who have become disabled for some reason.*
*According to Islam, serving people with disabilities is not just a social service; rather it entitles one to make themselves worthy of God’s mercy.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *سماجی خدمت :*
*اللہ سبحانہ و تعالیٰ سورہ الزریات میں فرماتا ہے : "اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر ہے۔ "*
(قرآن 51:19)
*سائل اور محروم (حاجت مند) دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو زبانی اپنی حاجت کا اظہار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کبھی اپنی حاجت کا اظہار دوسروں پر نہیں کرتے ہیں۔*
*اسی لیے، دوسرے قسم کے لوگوں (جو کبھی اپنی حاجت کا اظہار نہیں کرتے ہیں) پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے، ان کی ضروریات کو پورا کیا جانا چاہئے.*
*مومنوں کو کبھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کی کمائی پر صرف ان ہی کا حق ہے۔*
*مومنین صرف اسی وقت اپنی کمائی کے حقدار بن سکتے ہیں جب وہ اپنی کمائی میں سے غریبوں اور مسکینوں کا حصہ انہیں ادا کریں۔*
*یہ اسلامی تعلیمات ہر انسان کو اپنے معاشرے کا خادم بناتی ہیں۔*
*اس لیے مومن اپنے معاشرے کیلئے بھی کچھ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جہاں سے وہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرتا ہے۔*
*بھکاری وہ شخص ہے جو پیسے یا کھانا مانگ کر زندگی گزارتا ہے جبکہ محروم (حاجت مند) خاص طور پر وہ ہیں جو کسی وجہ سے معذور ہو گئے ہیں۔*
*اسلامی تعلیمات کے مطابق سائل، محروم (حاجت مند) اور معذور افراد کی مدد کرنا صرف ایک سماجی خدمت نہیں ہے، بلکہ اس خدمت کے ذریعہ ہم خود کو اللہ سبحانہ تعالی کی رحمت میں اضافے کے قابل اور اجر کے مستحق بناتے ہیں۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🌱 *قرآن معاشیات کی کتاب نہیں ہے مگر اس میں انسانی زندگی کے اس اہم شعبہ سے متعلق بہت ضروری اور بنیادی ہدایات اور رہنمائی اللہ کی طرف سے مہیا کرادی گئی ہیں، جن کو روبہ عمل لا کر ہر زمانہ میں معاشی سرگرمیوں کو منظم اور منضبط کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان تعلیمات کو بنیاد بناکر مدینہ منورہ میں جو نظام قائم کیا اس کے ذریعہ بہت کم مدت میں معاشی بدحالی کو خوشحالی، آسودگی اور عدل اجتماعی میں بدل دیا تھا۔ حضرت محمد ﷺ کا انقلاب ایک ہمہ جہتی انقلاب تھا۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں خوش گوار تبدیلی کی۔*
■ *اسلام معاشی سرگرمیوں کو معدہ اور مادہ تک ہی محدود نہیں رکھتا بلکہ اسے اخلاقیات سے بھی جوڑتا ہے۔ اسی لیے معاشی سرگرمیوں کے دوران بھی اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ قرآن میں معاشی وسائل کو اللہ کا فضل قرار دے کر بنی نوع انسان کو کسب معاش کے زیادہ سے زیادہ مواقع عطا کیے گئے ہیں۔*
■ *اسلام نے ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے سماجی مفاد میں کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اسی طرح معیشت آزاد تو ہے مگر ’بے قید‘ نہیں یعنی مفاد عامہ میں کچھ ضابطہ بھی ہیں جن کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔*
■ *اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے روحانی پہلو اور مادی ضرورتوں دونوں کا خیال رکھا گیا ہے۔*
*اسلام خدائے واحد پر ایمان لانے اور بندگی رب کی دعوت دیتا ہے اور یہ حکم بھی دیتا ہے کہ جب نماز پوری کرو تو زمین پر پھیل جاو اور اللہ کا فضل یعنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ کرو۔ بخل اور فضول خرچی دونوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک معتدل اور متوازن راہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نشہ آور اشیا کے کاروبار ’جوا‘ قحبہ گری، دھوکہ کے کاروبار، ضروری اشیا کی جمع خوری، چور بازاری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ ناپ تول میں گڑبڑی ملاوٹ اور دیگر معاشی جرائم کی روک تھام کرتا ہے۔ سودی نظام کو ناجائز قرار دے کر نفع، نقصان میں شرکت کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ غربت و افلاس کو دور کرنے اور لوگوں میں انفاق اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے زکوۃ جیسے اعلیٰ نظام کو نافذ کرتا ہے جسے ٹیکس کے بجائے عبادت کے زمرے میں رکھا گیا ہے جو آمدنی پر نہیں دولت (Wealth)کی ایک خاص مقدار سے زیادہ ہونے پر لگایا جاتا ہےاور تجارت کے اسٹاک اور زرعی پیداوار وغیرہ پر بھی لگایا جاتا ہے۔*
*مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کے لیے دوسرے شعبہ جات کی طرح اقتصادی اور مالی معاملات کی درستگی کے لیے بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔*
1۔ ملاحظہ ہو سورہ الحشر کی ساتویں آیت کا ایک حصہ :
⭕ *" ایسا نہ ہو کہ تمہارا مال صرف مالداروں میں ہی گردش کرتا رہے"-* (59:7)
■ *’’یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں میں ہی گھومتا رہے یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں‘‘۔*
■ *’’اس سے اسلامی اقتصادیات کا یہ اصول واضح ہوا کہ اسلام یہ نہیں پسند کرتا کہ دولت کسی خاص طبقہ کے اندر مرتکز ہوکر رہ جائے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا بہاو ان طبقات کی طرف بھی ہو جو اپنی حلقی کمزوریوں یا فقدان وسائل کے سبب سے اس کے حصول کی جدوجہد میں پورا حصہ نہیں لے سکتے‘‘۔*
■ *قرآن نے بہت مختصر الفاظ میں ایک ہدایت ایک اصول بیان کیا۔ اس کے لیے سودی نظام کو ختم کیا، زکوۃ کا ایک مضبوط نظم قائم کیا جس کا مقصد بھی معاشی اعتبار سے کمزور اور محروم طبقات تک دولت کا بہاو جاری کرنا تھا۔ پھر انفاق، صدقات اور کَفّاروں کی ترغیب دلاکر مسئلہ کو حل کیا گیا۔*
(2) دوسری اہم معاشی تعلیم سورہ الذاریات سے ہے :
⭕ *"ان کے مالوں میں سائل،اور محروم کا حق ہے"-* (51:19)
تقریباً یہی بات سورہ المعارج میں آئی ہے-
⭕ *’’جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے"-* (:24-25)
■ *یہاں بڑی عجیب بات فرمائی گئی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسان کے پاس جو دولت، جائیداد اور وسائل ہیں وہ اس کی اپنی ذاتی ملکیت ہیں۔*
■ *اس میں سے وہ جو بھی صدقہ خیرات (Charity) کرنا چاہے ثواب کی نیت سے کرسکتا ہے جسے نیک کام تصور کیا جاتا ہے۔*
■ *مگر یہاں عجیب و غریب بات کہی گئی کہ اہل مال کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔*
*یعنی اس میں مدد چاہنے والوں کا بھی حق ہے اور ان کا بھی ہے جو ضرورتمند تو ہیں مگر اپنی خود داری کی وجہ سے کسی کے سامنے اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کر پاتے۔ اہل مال کو تعلیم دی جارہی ہے کہ آپ جو مدد کررہے ہیں وہ کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں۔ یہ تو ان کا حق تھا جو آپ ان کو دے رہے ہیں۔*
*ضرورتمندوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سارے خزانوں کا مالک ہے اس نے آپ کا حصہ کسی دوسرے کے پاس پہنچایا تھا جو اس کے ذریعہ سے آپ کو حاصل ہورہا ہے اس لیے اس پر دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔*
*یہ ایک بہت نازک نفسیاتی پہلو ہے۔ غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا اس پر صرف اللہ تعالیٰ سے اجر کا غالب ہونا، اس پر احسان نہ جتانا نہ کسی کا دل دکھانا اس کی تلقین، قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی کی گئی ہے۔*
(3)تیسرا اصول سورہ البقرہ سے ہے :
⭕ *"اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں، کہدو جو ضرورت سے بچ رہے"-* (219:2)
*ویسے تو یہ ایک سیدھی سی بات ہے۔ لوگوں نے سوال کیا کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں، جواب دے دیا گیا کہ جو تمہاری اپنی ضرورت سے بچ جائے وہ اللہ کی راہ می�� خرچ کردو۔ لیکن آیت کے اسی ٹکڑے میں دور جدید کے ایک اہم اقتصادی مسئلہ کا حل موجود ہے۔ آج کے ماحول میں سرمایہ کو روکنے یعنی بچت (Saving) کرکے رقم کو جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زر (Money) بازار میں نہیں آتا اور بے مصرف پڑا رہتا ہے۔ اگر بنکوں میں جمع کیا جاتا ہے تو وہ اسے من مانے ڈھنگ سے لوگوں کو قرض دیدیتے ہیں جو بسا اوقات معاشی ترقی میں مددگار نہیں ہوتا۔ سرمایہ کا چلن اگر بازار میں رہتا ہے تو وہ لین دین ، کاروبار ، سامان کی پیداوار اور روزگار میں اضافہ کا سبب بنتا ہے وہ لین دین استعمال ہوا ہے وہ ہے العفو جسے ہم زائد یا فاضل (Surplus) کہہ سکتے ہیں۔ اس فنڈ کو خرچ کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ جب یہ سرمایہ بازار میں آتا ہے تو اس کے ذریعے بازار میں طلب (Demand) پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر صنعت کار سامان کی پیداوار کرکے مارکٹ میں لاتا ہے جسے رسد(Supply) کہتے ہیں اسی سلسلہ (Chain)کے ذریعہ معاشی پہیہ گھومتا ہے۔*
*معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے لوگوں کو روزگا ملتے ہیں اور خوشحالی آتی ہے۔*
■ *قرآن لوگوں کوبخیلی اور اسراف دونوں سے روک کر اعتدال کا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ وسائل کی بربادی سے منع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں جو وسائل و ذرائع مہیا کئے ہیں ان کا بہترین استعمال کرکے عوام الناس کو فائدہ پہنچایا جانا ہیے۔*
🍂 *قرآن مجید کے ان تین مختصر فقروں پر عمل کرکے معاشی میدان میں خوش گوار تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔* 🍂
🍃 *پہلی ہدایت کی روشنی میں ایسے اصول و ضوابط اور پالیسیاں وضع کی جاسکتی ہیں جن سے سرمایہ کے بہاو کو غریب کی پہنچ تک یقینی بنایا جائے۔ دوسری آیت میں مالدار لوگوں کی خوبصورت ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ اپنے مال میں غریب کے حق کو تسلیم کریں اور برضا و رغبت ان تک پہنچائیں۔ تیسری ہدایت یہ ہے اپنے فاضل سرمایہ کو خرچ کریں جس کے نتیجے میں سرمایہ دوسرے عوامل۔ محنت ، زمین اور تنظیم وغیرہ کے ساتھ مل کر پیداوار اور روزگار کے مواقع پیدا کرے ۔* 🍃
■ *ان تین آیتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں بندوں کی دنیوی خوشحالی اور اخروی فلاح کی تعلیم کا قیمتی خزانہ موجود ہے۔* ■
🍁 *انسانوں کو اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اسی میں ان کی کامیابی ہے۔* 🍁
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
minhajbooks · 1 year
Text
Tumblr media
🔰 اقتصادیات اسلام
یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے قلمی مسودات اور لیکچرز پر مشتمل اقتصادیات اسلام کا mini encyclopedia اور تحقیق و تجسس کرنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ اس کتاب میں اسلامی معاشیات کی اساس و ارتقاء، اصول و ضوابط، اسلام کا تصورِ مال اور انفاق فی المال، اسلام کا تصورِ ملکیت، اسلامی معیشت میں امدادِ باہمی اور کفالتِ عامہ کا نظام، زمین، زراعت اور مزارعت، تجارت، شراکت اور مضاربت، صنعت اور لیبر پالیسی اور اسلامی معاشی نظام کی تنفیذ وغیرہ جیسے موضوعات شامل ہیں۔
🔹 باب 1 : اسلامی معاشیات کی اساس اور ارتقاء 🔹 باب 2 : اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول و ضوابط 🔹 باب 3 : اسلام کا تصور مال 🔹 باب 4 : اسلام کا تصور ملکیت 🔹 باب 5 : انفاق فی المال 🔹 باب 6 : اسلامی معیشت میں امداد باہمی اور کفالت عامہ کا نظام 🔹 باب 7 : زمین، زراعت اور مزارعت 🔹 باب 8 : تجارت، شراکت اور مضاربت 🔹 باب 9 : صنعت اور لیبر پالیسی (قرآن و سنت کے آئینے میں) 🔹 باب 10 : اسلامی معاشی نظام کی تنفیذ
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 855 قیمت : 1150 روپے
🌐 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/308/Economic-System-of-Islam-Reconstruction/
💬 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
گھبرائیں نہیں اور کام پر واپس جائیں ، طالبان نے سابق عہدیداروں کو حکم دیا۔
گھبرائیں نہیں اور کام پر واپس جائیں ، طالبان نے سابق عہدیداروں کو حکم دیا۔
Tumblr media Tumblr media
افغانستان کے کابل میں حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے اندر ایک شخص ایک لڑکی کو کھینچ رہا ہے۔
آغان وزارت خزانہ کے ایک ماہر اقتصادیات اشرف حیدری گھر میں بے چینی سے انتظار کر رہے تھے جب طالبان کی طرف سے کال آئی: ایک کمانڈر نے انہیں واپس کام کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ “پاگل غیر ملکی” کے چلے جانے کے بعد ملک چلانے میں مدد کر سکیں۔
مغربی حمایت یافتہ انتظامیہ کے لیے کام کرنے والے ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح ، اسلام پسند عسکریت پسندوں کی افغانستان پر بجلی کی فتح سے ایک طرف ہٹ گئے ، انہیں خدشہ تھا کہ شاید وہ انتقامی کارروائیوں کا شکار ہوں گے۔
لائن کے دوسرے سرے پر ایک طالبان کمانڈر تھا ، حیدری پر زور دیا کہ وہ اپنی وزارت میں واپس آئے جہاں وہ ملک کے 34 صوبوں کے لیے فنڈز مختص کرنے کا کام کرتا ہے۔
47 سالہ حیدری نے رائٹرز کو بتایا ، “انہوں نے کہا کہ گھبرائیں یا چھپنے کی کوشش نہ کریں ، پاگلوں کے غیر ملکیوں کے چلے جانے کے بعد حکام کو ہمارا ملک چلانے کے لیے آپ کی مہارت کی ضرورت ہے۔”
سابقہ ​​طالبان حکومت کے اصولوں کے مطابق ، جب انہوں نے اسلامی قانون کی سخت تشریح کو بے دردی سے نافذ کیا ، حیدری نے داڑھی بڑھا دی۔ اتوار کو فون کال کے بعد ، اس نے اپنے نئے مالکان سے ملنے کے لیے اپنے سوٹ کو روایتی افغان لباس پہن لیا۔
رائٹرز نے افغانستان کی وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے تین دیگر درمیانے درجے کے عہدیداروں سے بات کی جنہوں نے کہا کہ انہیں طالبان نے کام پر واپس آنے کے لیے کہا تھا کیونکہ ملک کو معاشی بدحالی اور نقد رقم کی کمی کا سامنا ہے۔
سہراب سکندر ، جو وزارت خزانہ کے ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہیں ، نے کہا کہ جب سے وہ دفتر واپس گئے تو انہوں نے اپنی کسی خاتون ساتھی کو نہیں دیکھا۔
طالبان کے 1996-2001 کے دور میں ، خواتین کام نہیں کر سکتیں ، اپنا چہرہ ڈھانپنا پڑتا تھا ، اور اگر وہ اپنے گھر سے باہر نکلنا چاہتی تھیں تو ان کے ساتھ ایک مرد رشتہ دار بھی ہوتا تھا۔
طالبان کے ترجمان نے افغانیوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ انتقام کے لیے باہر نہیں ہیں اور جب تک ان کی ملازمتیں اسلامی قانون کے مطابق ہوں گی وہ خواتین کو کام کرنے دیں گے۔
لیکن گھر گھر تلاشی ، خواتین کو نوکریوں سے مجبور کیے جانے اور سابق سیکورٹی اہلکاروں اور نسلی اقلیتوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی خبروں نے لوگوں کو ہوشیار کر دیا ہے۔ طالبان نے اطلاع دی ہے کہ وہ مبینہ زیادتیوں کی تحقیقات کریں گے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ اپنے ملک کے لیے کام کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان خواتین سرکاری ملازمین کو اپنی نوکریوں پر واپس جانے کے طریقہ کار پر کام کر رہے ہیں لیکن اب انہیں “سیکورٹی” کی وجوہات کی بنا پر گھر میں رہنا چاہیے۔
کھڑے رہنا۔
امریکی حمایت یافتہ حکومتی افواج اور طالبان کے درمیان 20 سالہ جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر تباہی ، غیر ملکی فوجیوں کی روانگی کی وجہ سے مقامی اخراجات میں کمی ، کرنسی کی کمزوری اور ڈالر کی کمی مالی بحران کو ہوا دے رہی ہے۔
افغانستان کے مرکزی بینک کے ایک عہدیدار ، جس نے کہا کہ وہ کام پر واپس آیا ہے اور اپنا نام ظاہر نہ کرنا چاہتا ہے ، نے رائٹرز کو بتایا کہ طالبان نے اب تک صرف چند عہدیداروں کو واپس بلایا ہے ، بنیادی طور پر مالیات اور داخلہ کی وزارتوں میں۔
طالبان کے رہنماؤں نے حکومت بنانے پر بات چیت شروع کر دی ہے جس میں سابقہ ​​صدر حامد کرزئی سمیت سابقہ ​​انتظامیہ کے بعض سابق دشمنوں کے ساتھ بات چیت شامل ہے۔
خبر رساں ادارے پی اے کے نے خبر دی ہے کہ طالبان عہدیداروں کو مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے جن میں کابل کا گورنر ، قائم مقام داخلہ اور وزیر خزانہ اور انٹیلی جنس چیف شامل ہیں۔
وزارت خزانہ کے ماہر معاشیات حیدری نے کہا کہ انہوں نے اپنے گھروالوں کو نہیں بتایا کہ جب وہ پیر کے روز طالبان کے دور میں اپنے پہلے دن کام سے گھر سے نکلے تھے تاکہ “گھبراہٹ سے بچ سکیں”۔
دفتر میں ان کا تین طالبان عہدیداروں نے استقبال کیا جنہوں نے انہیں بتایا کہ وہ جلد ہی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور انہیں صوبوں کو رقم بھیجنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک عہدیدار ، جس نے کہا کہ وہ وزارت کی حفاظت کا انچارج ہے ، نے حیدری کو بتایا کہ نماز کے وقفے لازمی ہیں۔
حیدری نے کہا کہ وہ عمارت کے اندر بندوقیں نہیں اٹھا رہے ہیں اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم آپ کی مہارت سے سیکھ سکتے ہیں۔
کچھ ساتھی شہریوں کے برعکس جو ملک چھوڑنے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں ، وہ ٹھہرے رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
(اس کہانی کو این ڈی ٹی وی کے عملے نے ایڈٹ نہیں کیا ہے اور یہ ایک سنڈیکیٹڈ فیڈ سے ازخود تیار کیا گیا ہے۔)
. Source link
0 notes
pakistantime · 4 years
Text
مولانا عادل خان کی زندگی پر ایک نظر
کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں شہید کیے گئے مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کی عمر 63 سال تھی، مرحوم عالم اسلام کے معروف علمی شخصیت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللّٰہ خان کے بڑے صاحبزادے تھے۔ 1973 میں دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے ہی سند فراغت حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے 1976 میں بی اے ہیومن سائنس، 1978 میں ایم اے عربی اور 1992 میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی، 1980ء ( اردو انگلش اور عربی ) میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے تاحال ایڈیٹر رہے۔ تحریک سواد اعظم میں اپنے والد محترم مولانا سلیم اللّٰہ خان کے شانہ بشانہ رہے، 1986ء سے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکرٹری جنرل رہے اور اسی دوران آپ نے اپنے والد سے مل کر جامعہ کے بہت سے تعلیمی و تعمیری منصوبوں کی تکمیل کی، پھر کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے، جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹر قائم کیا۔
مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان نے ملائیشیا کولالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010ء سے 2018 تک کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔ 2018 میں ریسرچ و تصنیف و تحقیق میں ملائیشیا ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایوارڈ آپ کو ملائیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔ وفاق المدارس العربیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو و عربی ادب جیسے موضوعات پر عبور رکھتے تھے۔
مولانا عادل خان نے پسماندگان میں مولانا مفتی محمد انس عادل، مولانا عمیر، مولانا زبیر، مولانا حسن، ایک بیٹی، بیوہ، دو بھائی مولانا عبیداللّٰہ خالد اور عبدالرحمٰن سوگوار میں چھوڑے، دو بیٹے مولانا زبیر اور مولانا حسن اور ایک بیٹی ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ مولانا عادل خان 2017 ء میں والد مولانا سلیم اللّٰہ خان رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئے دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم و نسق سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے، بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداللّٰہ خالد کے حوالے کر کے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، آپ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کے سرپرست اور جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم تھے۔
افضل ندیم ڈوگر
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
qualitydonutangel · 4 years
Photo
Tumblr media
اسلامی معاشیات Islamic Economics مولانا مناظر احسن گیلانی https://ift.tt/3bqlSNB
0 notes
dailyshahbaz · 5 years
Photo
Tumblr media
باچا خانی پکار دہ – روخان یوسفزئی پختونوں کی تاریخ میں باچاخان عملی طور پر علم وآگاہی، اصلاح پسندی، اسلام پرستی، روشن خیالی،امن وآشتی، رواداری اور عدم تشددکا ایک ایسا مضبوط حوالہ اور باب ہے جس نے پختون تاریخ کا رخ موڑ دیاہے۔ اس کے علاوہ جوبات ان کی شخصیت کو مزید نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت پختونوں کے حقوق کے پلیٹ فارم پر باچا خان کے بالمقابل کوئی اور جاذب شخصیت موجود نہ تھی جو ان کی جگہ لے سکتی۔ تاہم اس حوالے سے یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ باچا خان، جنہیں جدید پختون قوم پرستی کی تخلیق میں ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے،کے نظریات اورافکار سے پختونوں نے بہت ہی کم فائدہ اٹھایا ہے۔ اگریہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ شاید کسی بھی قوم نے اپنے اتنے بڑے محسن کی سیاسی بصیرت سے اتنی دوری اختیارنہیں کی جتنی پختون قوم نے اپنے محسن باچا خان سے اختیار کر رکھی ہے۔ باچاخان ایک تصوراتی رہبر اورفلسفی نہیں تھے جو اپنے پیچھے صرف سیاسیات، معاشیات پرطویل مضامین اوراقوال چھوڑگئے ہوں بلکہ وہ اس’’ قومی سوچ‘‘ کے لیے جوانہوں نے بڑی مشکلات کے بعد حاصل کی تھی عملی نظریات اورتصورات رکھتے ہیں۔ مگر متاسفانہ سیاسیات اور معاشرت پر ان کے نظریات سے استفادہ حاصل کرنے کے بارے میں کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچاگیا۔ آزادی کے بعد اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود پختون قوم آج کہاں کھڑی ہے؟ کتن�� دکھ اورافسوس کامقام ہے کہ اس قوم میں قومیت کا تصور اب بھی دُھندلایا ہواہے۔ماضی میں جانے کی بجائے اگرہم اپنے آپ کوصرف موجودہ حالات سے متعلق زیادہ واضح سیاسی اورنظریاتی تقسیموں تک ہی محدود رکھیں توبھی قومی یکجہتی یعنی قومیت کا فقدان ہی نظرآئے گا جوہمیں یہ سوچنے پرمجبورکرے گا کہ اس قوم کے محسن باچاخان نے ایک جدید اورمعاشی انصاف پرمبنی قومیت کی تشکیل کے لیے کون سے قابل عمل راستے کی نشان دہی کی ہے۔ جہاں تک پختونوں میں موجودہ نظریاتی اورسیاسی تقسیم کا تعلق ہے تویہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آج پختونوں کے خطے کوسب سے بڑا خطرہ مذہبی شدت پسندی، دہشت گردی اور عدم رواداری کی صورت میں لاحق ہے۔گزشتہ برسوں کے دوران سینکڑوں مذہبی گروہ اور جنگجو تنظیمیں ظہور میں آئی ہیں۔بدقسمتی یہ ہے کہ ان مختلف اسلامی گروہوں سے منسلک جنگجوؤں کواصل اسلام کی وسیع النظری اور وسیع القلبی کا علم ہی نہیں ہے اور وہ دوسرے لوگوں پربندوق کے زور پر اپنے خودساختہ اسلام پھیلانے کے حامی ہیں۔ بہرحال یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ یہ سب گروہ صرف اپنی ذاتی خواہش کے تحت کام نہیں کررہے ہیں ان کے پس پشت بیرونی طاقتیں اور ملک میں موجود بعض مقتدرقوتیں اور جماعتیں ہیں۔یہ انتہا پسند گروہ نہ صرف دنیامیں دین اسلام کا اصل روپ بگاڑ رہے ہیں بلکہ پختون معاشرے کومختلف فرقوں میں تقسیم کرنے کا باعث بھی بن رہے ہیں کیوں کہ ان میں سے ہرایک گروہ اسلام کی اپنی پیش کردہ من پسندتعبیرکوہی اصل اسلام مانتاہے اوردوسرے فرقوں کے بارے میں عدم برداشت کی تعلیم دیتاہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ امر خوش آئند ہے کہ آج باچاخان کی سوچ، نظریات اور افکار نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی دنیا کے کئی ممالک کے مورخین، دانشوروں، سیاسی اورسماجی ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باچاخان کے نظریات وافکار کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہے، وہ اس وجہ سے کہ باچاخان صرف ایک عام فرد یا شخصیت کانام نہیں بلکہ ایک جداگانہ سماجی، تعلیمی، سیاسی اورتہذیبی مکتب فکر، نظریہ اورنظام فکر و فلسفہ کانام ہے۔ ان کی شخصیت کے بے شمارپہلو ہیں اور ہرپہلو الگ الگ کتاب کا متقاضی ہے تاہم ان تمام صفات اورخوبیوں کو مجموعی طور پرآج کے جدید سیاسی اصطلاح اور مفہوم میں’’باچاخان ازم‘‘ اور’ ’باچاخانی‘‘ کہا جاتاہے اور یہ محض اصطلاح، نام یا وقتی، سیاسی، ہنگامی اورجذباتی نعرہ نہیں بلکہ ملک وقوم کی خدمت، ترقی، جمہوریت، انصاف، عدم تشدد، رواداری، روشن خیالی اور امن کے لیے ’’ پختون ولی‘‘ کی طرح ایک ضابطہ اخلاق، قانون،آئین،نظام فکر اور ایک منفرد فلسفہ حیات ہے جو پختون ولی،اسلام،تعلیم وتربیت،جدید علوم اورٹیکنالوجی، جمہوریت، معاشی انصاف، تہذیب وثقافت، تجارت، معیشت، رواداری اورروشن خیالی پرمبنی ہے۔ اگرچہ باچا خان کی زندگی، جدوجہد، قربانیوں، قیدوبند، ان کی تحریک اور ساتھیوں(خدائی خدمت گاروں)کے متعلق اب کئی مختلف زبانوں میں کتابیں لکھی گئی ہیں، دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں، اور مزید بھی بہت تحقیقی کام ہورہاہے، جس کے ذریعے کئی ایسے بے شمار گوشے اور حقائق سامنے لائے جاچکے اور لائے جارہے ہیں جواب تک قوم سے پوشیدہ تھے یاایک منظم منصوبہ بندی اور سازش کے تحت پوشیدہ رکھے گئے تھے۔ اپنی قوم اور اس دھرتی کی آزادی،ترقی،خوشحالی امن اورسلامتی کے لیے باچاخان اور ان کے خدائی خدمت گاروں نے جومالی اور جانی قربانیاں دی ہیں، جوذہنی اور جسمانی اذیتیں،صعوبتیں اور مشکلات جھیلیں ہیں، اپنی سرزمین کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں باچاخان اور ان کی تحریک نے جوتاریخی کردار ادا کیاہے اس سے اب ایک دنیا واقف ہوچکی ہے اور یہ حقیقت بھی مان لی گئی ہے کہ اگر تقسیم ہند سے قبل یا بعد میں قیام پاکستان کے وقت باچاخان کی بات مان لی جاتی ان کا بتایا ہوا راستہ اپنایا جاتا تو آج ہمیں داخلی اور خارجی طور پر یہ برے دن دیکھنا نہ پڑتے جس سے آج ہم گزررہے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ بھی ہے کہ تحریک آزادی کی تاریخ میں سرکاری مورخین اور دانشوروں نے باچاخان اور ان کی ’’خدائی خدمت گارتحریک‘‘ کے اصل چہرے اور کردارکونہ صرف چھپا کے رکھا بلکہ اسے مسخ اور طرح طرح کے غلط ناموں سے یاد کرنے کا درباری وظیفہ بھی خوب ادا کیاہے۔ اسی طرح تعلیمی نصاب میں بھی، جومطالعہ پاکستان یا پولٹیکل سائنس کے نام سے پڑھایاجارہا ہے، باچاخان اوران کی تحریک کی اصل اور سچی کہانی’’شجرممنوعہ‘‘ رہی جس کے باعث ہماری نئی نسل کو تحریک آزادی کے اصل ہیرو اور سچے کرداروں سے بے خبررکھاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پختونوں کی نئی نسل کی اکثریت اپنے اس عظیم حریت پسند، بشردوست، امن پسند اور عدم تشدد کے علم بردارباچاخان کی زندگی،جدوجہد اور ان کے افکار اورفلسفہ حیات سے کماحقہ واقفیت نہیں رکھتی۔ مگر تاریخ نویسی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی، نئے مواد کی روشنی میں حالات و واقعات کے بارے میں اور زیادہ معلومات ملتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے ماضی کے بارے میں نقطہ نظرمیں تبدیلی آتی ہے۔ تقسیم ہند اور جنگ آزادی کے بارے میں برطانوی سرکاری دستاویزات،نجی معلومات اور حقائق سامنے آرہے ہیں جس کی وجہ سے پوری تحریک اورتاریخ کونئے انداز سے دیکھاجارہاہے۔ اب لوگ دو قومی نظریے کو بھی چیلنج کررہے ہیں، تقسیم ہند کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہارکررہے ہیں اوربعض شخصیتوں پربھی انگلی اٹھارہے ہیں۔اب روایتی تاریخ اپنا اثررسوخ کھوبیٹھی ہے اب اس کی جگہ نئی تاریخ لے رہی ہے۔ اس میں زیادہ حقیقت پسندی،دلکشی اورجاذبیت ہے۔ موجودہ نسل تاریخ کوخوابوں اورکشف وکرامات کی روشنی میں نہیں دیکھناچاہتی وہ اسے ٹھوس حقائق اورشہادتوں کے ذریعہ سمجھناچاہتی ہے۔وہ دلیل اورمنطق کے ذریعہ واقعات کی تشریح چاہتی ہے اورماضی میں جوکچھ ہوا اس سوال کا جواب چاہتی ہے۔مطلب یہ کہ تاریخ بڑی بے رحم ہے یہ کسی کوبھی معاف نہیں کرتی اور نہ ہی تاریخی حقائق کوکوئی دیرتک چھپاسکتاہے۔آج دنیا ایک گھر(گلوبل ویلج) کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اب جدیدعلوم اور انفارمشن ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے۔ موجودہ نسل ایک پڑھی لکھی اور سائنسی حقائق پریقین رکھنے والی نسل ہے جسے مفرضوں اورخیالی قصے کہانیوں پرکوئی ورغلا نہیں سکتا۔ موجودہ نسل حقائق کا کھوج لگانے کا علم اورصلاحیت رکھتی ہے اسے بیک وقت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے، الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا موجودہ نسل کی ہتھیلی پر ہے لہذا اپنے ملک کی موجودہ آزادی کی تحریک کے بارے میں ایک مخصوص فارمولے کے تحت لکھی گئی نصابی تاریخ کے علاوہ دیگرزبانوں میں لکھی گئی غیرجانب دار ��اریخ کا مطالعہ بھی کررہی ہے اورساتھ دیگر جدید ذرائع ابلاغ پر بھی کھڑی نظررکھے ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج پختونوں کی نئی نسل میں یہ نعرہ اور اصطلاح ’’باچاخانی پکار دہ‘‘(باچاخانی درکارہے) مقبول ہوتاجارہاہے۔
0 notes
humlog786-blog · 6 years
Text
محمد حنیف رامے کی شخصیت
Tumblr media
ان کا پورا خاندان ’’چودھری‘‘ کہلاتا تھا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ’’چودھری ‘‘ نام کے ساتھ نہیں لگایا کہ میں ایک غریب ماں کا بیٹا ہوں۔ لیکن ایک وقت آیا کہ وہ پنجاب کے سب سے بڑے چودھری ۔ ۔ ۔ وزیر اعلیٰ بنے۔ یہ تھے دانشور، خطاط ، مصور، صحافی محمد حنیف رامے۔ محمد حنیف رامے15 مارچ 1930ء کو فیصل آباد اور ننکانہ کے قریب گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آرائیں کاشتکار برادری سے تعلق رکھنے والے ان کے والد کا نام چودھری غلام حسین تھا۔ دس سال کی عمر میں وہ لاہور آئے اور اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ سے تعلیم حاصل کی۔ حنیف رامے نے1952میں گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ایم اے کیا جہاں وہ کا لج کے مجلے ’’راوی‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ کچھہ عرصہ لارنس کالج گھوڑا گلی میں استاد رہے۔ بعد میں اپنے بڑے بھائی چودھری نذیر کے معروف اشاعتی ادارہ مکتبہ جدید سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے معروف ادبی رسالہ سویرا کی ادارت بھی کی۔ حنیف رامے نے ’’سویرا‘‘ سے الگ ہوکر اپنا رسالہ ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ جاری کیا ، اپنا اشاعتی ادارہ بھی ’’البیان‘‘کے نام سے بنایا۔ وہ 1965میں مرکزی اردو بورڈ سے وابستہ ہوئے اور اس کے ڈائریکٹر رہے۔ کچھہ عرصہ ایوب خان کی کنوینشن مسلم لیگ سے وابستہ رہنے کے بعد وہ دسمبر1967 میں پیپلز پارٹی کی اصولی کمیٹی کے رکن بنے۔ انہوں نے 1970 میں روزنامہ ’’مساوات ‘‘ جاری کیا جو پیپلز پارٹی کا ترجمان اخبار تھا۔ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو فروغ دینے والوں میں حنیف رامے پیش پیش تھے جو پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول تھا۔ 1972 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عہد میں وہ پہلے پنجاب حکومت میں مشیر خزانہ بنے اور بعد میں مارچ 1974 میں وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ چار جولائی 1974 کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ حنیف رامے چار جولائی 1975 کو سنیٹر منتخب ہوئے لیکن چند ماہ بعد پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات کی بنا پر پارٹی سے الگ ہوگئے اور پیر پگاڑا کی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جہاں انہیں چیف آرگنائزر بنایا گیا۔ اس زمانے میں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اخباروں میں زوردار مضامین لکھے جن میں ایک پمفلٹ ’’بھٹو جی پھٹو جی‘‘ بہت مشہور ہوا۔ ان پرڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا جس پر انہیں دلائی کیمپ میں رکھا گیا اور ایک خصوصی عدالت نے انہیں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنادی۔ جنرل ضیا الحق کا مارشل لگتے ہی جولائی 1977 میں لاہور ہائی کورٹ نے حنیف رامے کو فورا رہا کرنے کا حکم دیا اور وہ امریکہ چلے گئے۔ وہاں پٹرول پمپ چلاتے رہے۔ برکلے یونیورسٹی میں استاد کے طور پر کام کیا۔ حنیف رامے چھ سال امریکہ میں گزارنے کے بعد وطن واپس آئے تو انہوں نے مساوات پارٹی کی بنیاد رکھی جس کا نعرہ تھا’’ رب ، روٹی، لوک راج‘‘ اس کا پنجابی نعرہ تھا ۔ ’’کُلی، گُلی، جُلی ‘‘ تاہم یہ پارٹی عوامی مقبولیت حاصل نہیں کرسکی۔ انہوں نے 1986میں اِسے غلام مصطفیٰ جتوئی کی قیادت میں بننے والی نئی پارٹی نیشنل پیپلز پارٹی میں ضم کردیا۔ حنیف رامے بارہ سال بعد ایک بار پھر 1988 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور 1993 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوگئے ۔ رامے صاحب نے ایک مشہور کتاب ’’ پنجاب کا مقدمہ ‘‘ بھی لکھی۔ان کی دوسری کتابوں میں اسلام کی روحانی قدریں، موت نہیں زندگی ، باز آؤ اور زندہ رہو (اداریوں کا مجموعہ) ، دُبِ اکبر اور نظموں کا مجموعہ دن کا پھول کے نام سرفہرست ہیں ۔ عمر کے آخر حصے میں انہوں نے قومی اخبارات میں چند مضامین لکھے جن میں عالم اسلام کو جدید دنیا میں اسلام کی ترقی پسندانہ تعبیر اور جدید تعلیم پر زور دینے کا راستہ تجویز کیا۔ رامے صاحب آخر عمر میں جناب واصف علی واصف سے متاتر تھے۔ جی او آر میں پروفیسر عائشہ اختر کے گھر واصف صاحب کا لیکچر ہوتا تھا، منو بھائی مجھے اور مسرت کو ساتھہ لے گئے تھے، وہیں رامے صاحب سے ملوایا ۔ اصل میں ان سے ایک سفارش کرانے کی ضرورت تھی۔ حنیف رامے کی پہلی بیوی شاہین رامے انتقال کرگئیں تھیں۔ انہوں نے جائس سکینہ نامی ایک امریکی خاتون سے دوسری شادی کی ۔۔یکم جنوری 2006ء کو حنیف رامے لاہور میں وفات پاگئے اور ڈیفنس قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کی بیٹی مریم رامے مشہور گلوکارہ رہیں۔ ان کےبیٹے ابراہیم رامے نے دس گیارہ سال کی عمر میں بچوں کا ناول لکھا تھا۔ اب دواؤں کا کاروبار کرتے ہیں ۔حال ہی میں والد کی طرح مصورانہ خطاطی بھی شروع کی ہے۔ ابراہیم کے کاروبار سے یاد آیا حنیف رامے صاحب نے بھی ایک وقت جوتوں کی فیکٹری لگائی تھی۔ Read the full article
0 notes
hassanriyazzsblog · 2 years
Text
🌹🌹 *Ꮥ𝘖𝐂І𝜜ꓡ S𝘌ᏒѴ𝜤Ϲ⋿*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
5️⃣4️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *SOCIAL SERVICE*
*The Quran states that the have-nots have a right to the wealth of the haves.* (Quran 51:19)
*However, there are two kinds of poor, those who ask verbally, and those who do not express their need.*
*Therefore, the latter must be paid special attention, their needs should be addressed.*
*The believers should not consider that they alone have the right to their earnings.*
*They become the rightful owners only when they have given to the poor and the needy their share from it.*
*This Islamic teaching makes every human being a servant of his society.*
*He considers it his duty to give to the society from which he takes everything for himself.*
*A beggar is a person who lives by asking for money or food, while the deprived are especially the ones who have become disabled for some reason.*
*According to Islam, serving people with disabilities is not just a social service; rather it entitles one to make themselves worthy of God’s mercy.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *سماجی خدمت :*
*اللہ سبحانہ و تعالیٰ سورہ الزریات میں فرماتا ہے : "اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر ہے۔ "*
(قرآن 51:19)
*سائل اور محروم (حاجت مند) دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو زبانی اپنی حاجت کا اظہار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو کبھی اپنی حاجت کا اظہار دوسروں پر نہیں کرتے ہیں۔*
*اسی لیے، دوسرے قسم کے لوگوں (جو کبھی اپنی حاجت کا اظہار نہیں کرتے ہیں) پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے، ان کی ضروریات کو پورا کیا جانا چاہئے.*
*مومنوں کو کبھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کی کمائی پر صرف ان ہی کا حق ہے۔*
*مومنین صرف اسی وقت اپنی کمائی کے حقدار بن سکتے ہیں جب وہ اپنی کمائی میں سے غریبوں اور مسکینوں کا حصہ انہیں ادا کریں۔*
*یہ اسلامی تعلیمات ہر انسان کو اپنے معاشرے کا خادم بناتی ہیں۔*
*اس لیے مومن اپنے معاشرے کیلئے بھی کچھ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جہاں سے وہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرتا ہے۔*
*بھکاری وہ شخص ہے جو پیسے یا کھانا مانگ کر زندگی گزارتا ہے جبکہ محروم (حاجت مند) خاص طور پر وہ ہیں جو کسی وجہ سے معذور ہو گئے ہیں۔*
*اسلامی تعلیمات کے مطابق سائل، محروم (حاجت مند) اور معذور افراد کی مدد کرنا صرف ایک سماجی خدمت نہیں ہے، بلکہ اس خدمت کے ذریعہ ہم خود کو اللہ سبحانہ تعالی کی رحمت میں اضافے کے قابل اور اجر کے مستحق بناتے ہیں۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🌱 *قرآن معاشیات کی کتاب نہیں ہے مگر اس میں انسانی زندگی کے اس اہم شعبہ سے متعلق بہت ضروری اور بنیادی ہدایات اور رہنمائی اللہ کی طرف سے مہیا کرادی گئی ہیں، جن کو روبہ عمل لا کر ہر زمانہ میں معاشی سرگرمیوں کو منظم اور منضبط کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان تعلیمات کو بنیاد بناکر مدینہ منورہ میں جو نظام قائم کیا اس کے ذریعہ بہت کم مدت میں معاشی بدحالی کو خوشحالی، آسودگی اور عدل اجتماعی میں بدل دیا تھا۔ حضرت محمد ﷺ کا انقلاب ایک ہمہ جہتی انقلاب تھا۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں خوش گوار تبدیلی کی۔*
■ *اسلام معاشی سرگرمیوں کو معدہ اور مادہ تک ہی محدود نہیں رکھتا بلکہ اسے اخلاقیات سے بھی جوڑتا ہے۔ اسی لیے معاشی سرگرمیوں کے دوران بھی اللہ کو کثرت سے یاد رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ قرآن میں معاشی وسائل کو اللہ کا فضل قرار دے کر بنی نوع انسان کو کسب معاش کے زیادہ سے زیادہ مواقع عطا کیے گئے ہیں۔*
■ *اسلام نے ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے سماجی مفاد میں کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اسی طرح معیشت آزاد تو ہے مگر ’بے قید‘ نہیں یعنی مفاد عامہ میں کچھ ضابطہ بھی ہیں جن کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔*
■ *اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے روحانی پہلو اور مادی ضرورتوں دونوں کا خیال رکھا گیا ہے۔*
*اسلام خدائے واحد پر ایمان لانے اور بندگی رب کی دعوت دیتا ہے اور یہ حکم بھی دیتا ہے کہ جب نماز پوری کرو تو زمین پر پھیل جاو اور اللہ کا فضل یعنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ کرو۔ بخل اور فضول خرچی دونوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک معتدل اور متوازن راہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام نشہ آور اشیا کے کاروبار ’جوا‘ قحبہ گری، دھوکہ کے کاروبار، ضروری اشیا کی جمع خوری، چور بازاری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ ناپ تول میں گڑبڑی ملاوٹ اور دیگر معاشی جرائم کی روک تھام کرتا ہے۔ سودی نظام کو ناجائز قرار دے کر نفع، نقصان میں شرکت کے طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ غربت و افلاس کو دور کرنے اور لوگوں میں انفاق اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے زکوۃ جیسے اعلیٰ نظام کو نافذ کرتا ہے جسے ٹیکس کے بجائے عبادت کے زمرے میں رکھا گیا ہے جو آمدنی پر نہیں دولت (Wealth)کی ایک خاص مقدار سے زیادہ ہونے پر لگایا جاتا ہےاور تجارت کے اسٹاک اور زرعی پیداوار وغیرہ پر بھی لگایا جاتا ہے۔*
*مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کے لیے دوسرے شعبہ جات کی طرح اقتصادی اور مالی معاملات کی درستگی کے لیے بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔*
1۔ ملاحظہ ہو سورہ الحشر کی ساتویں آیت کا ایک حصہ :
⭕ *" ایسا نہ ہو کہ تمہارا مال صرف مالداروں میں ہی گردش کرتا رہے"-* (59:7)
■ *’’یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں میں ہی گھومتا رہے یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں‘‘۔*
■ *’’اس سے اسلامی اقتصادیات کا یہ اصول واضح ہوا کہ اسلام یہ نہیں پسند کرتا کہ دولت کسی خاص طبقہ کے اندر مرتکز ہوکر رہ جائے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کا بہاو ان طبقات کی طرف بھی ہو جو اپنی حلقی کمزوریوں یا فقدان وسائل کے سبب سے اس کے حصول کی جدوجہد میں پورا حصہ نہیں لے سکتے‘‘۔*
■ *قرآن نے بہت مختصر الفاظ میں ایک ہدایت ایک اصول بیان کیا۔ اس کے لیے سودی نظام کو ختم کیا، زکوۃ کا ایک مضبوط نظم قائم کیا جس کا مقصد بھی معاشی اعتبار سے کمزور اور محروم طبقات تک دولت کا بہاو جاری کرنا تھا۔ پھر انفاق، صدقات اور کَفّاروں کی ترغیب دلاکر مسئلہ کو حل کیا گیا۔*
(2) دوسری اہم معاشی تعلیم سورہ الذاریات سے ہے :
⭕ *"ان کے مالوں میں سائل،اور محروم کا حق ہے"-* (51:19)
تقریباً یہی بات سورہ المعارج میں آئی ہے-
⭕ *’’جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے"-* (:24-25)
■ *یہاں بڑی عجیب بات فرمائی گئی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسان کے پاس جو دولت، جائیداد اور وسائل ہیں وہ اس کی اپنی ذاتی ملکیت ہیں۔*
■ *اس میں سے وہ جو بھی صدقہ خیرات (Charity) کرنا چاہے ثواب کی نیت سے کرسکتا ہے جسے نیک کام تصور کیا جاتا ہے۔*
■ *مگر یہاں عجیب و غریب بات کہی گئی کہ اہل مال کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔*
*یعنی اس میں مدد چاہنے والوں کا بھی حق ہے اور ان کا بھی ہے جو ضرورتمند تو ہیں مگر اپنی خود داری کی وجہ سے کسی کے سامنے اپنی ضرورت کا اظہار نہیں کر پاتے۔ اہل مال کو تعلیم دی جارہی ہے کہ آپ جو مدد کررہے ہیں وہ کسی پر احسان نہیں کررہے ہیں۔ یہ تو ان کا حق تھا جو آپ ان کو دے رہے ہیں۔*
*ضرورتمندوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سارے خزانوں کا مالک ہے اس نے آپ کا حصہ کسی دوسرے کے پاس پہنچایا تھا جو اس کے ذریعہ سے آپ کو حاصل ہورہا ہے اس لیے اس پر دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔*
*یہ ایک بہت نازک نفسیاتی پہلو ہے۔ غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرنا اس پر صرف اللہ تعالیٰ سے اجر کا غالب ہونا، اس پر احسان نہ جتانا نہ کسی کا دل دکھانا اس کی تلقین، قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی کی گئی ہے۔*
(3)تیسرا اصول سورہ البقرہ سے ہے :
⭕ *"اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں، کہدو جو ضرورت سے بچ رہے"-* (219:2)
*ویسے تو یہ ایک سیدھی سی بات ہے۔ لوگوں نے سوال کیا کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں، جواب دے دیا گیا کہ جو تمہاری اپنی ضرورت سے بچ جائے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔ لیکن آیت کے اسی ٹکڑے میں دور جدید کے ایک اہم اقتصادی مسئلہ کا حل موجود ہے۔ آج کے ماحول میں سرمایہ کو روکنے یعنی بچت (Saving) کرکے رقم کو جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زر (Money) بازار میں نہیں آتا اور بے مصرف پڑا رہتا ہے۔ اگر بنکوں میں جمع کیا جاتا ہے تو وہ اسے من مانے ڈھنگ سے لوگوں کو قرض دیدیتے ہیں جو بسا اوقات معاشی ترقی میں مددگار نہیں ہوتا۔ سرمایہ کا چلن اگر بازار میں رہتا ہے تو وہ لین دین ، کاروبار ، سامان کی پیداوار اور روزگار میں اضافہ کا سبب بنتا ہے وہ لین دین استعمال ہوا ہے وہ ہے العفو جسے ہم زائد یا فاضل (Surplus) کہہ سکتے ہیں۔ اس فنڈ کو خرچ کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ جب یہ سرمایہ بازار میں آتا ہے تو اس کے ذریعے بازار میں طلب (Demand) پیدا ہوتی ہے جس کی بنیاد پر صنعت کار سامان کی پیداوار کرکے مارکٹ میں لاتا ہے جسے رسد(Supply) کہتے ہیں اسی سلسلہ (Chain)کے ذریعہ معاشی پہیہ گھومتا ہے۔*
*معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے لوگوں کو روزگا ملتے ہیں اور خوشحالی آتی ہے۔*
■ *قرآن لوگوں کوبخیلی اور اسراف دونوں سے روک کر اعتدال کا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ وسائل کی بربادی سے منع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی ہیں جو وسائل و ذرائع مہیا کئے ہیں ان کا بہترین استعمال کرکے عوام الناس کو فائدہ پہنچایا جانا ہیے۔*
🍂 *قرآن مجید کے ان تین مختصر فقروں پر عمل کرکے معاشی میدان میں خوش گوار تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔* 🍂
🍃 *پہلی ہدایت کی روشنی میں ایسے اصول و ضوابط اور پالیسیاں وضع کی جاسکتی ہیں جن سے سرمایہ کے بہاو کو غریب کی پہنچ تک یقینی بنایا جائے۔ دوسری آیت میں مالدار لوگوں کی خوبصورت ذہن سازی کی گئی ہے کہ وہ اپنے مال میں غریب کے حق کو تسلیم کریں اور برضا و رغبت ان تک پہنچائیں۔ تیسری ہدایت یہ ہے اپنے فاضل سرمایہ کو خرچ کریں جس کے نتیجے میں سرمایہ دوسرے عوامل۔ محنت ، زمین اور تنظیم وغیرہ کے ساتھ مل کر پیداوار اور روزگار کے مواقع پیدا کرے ۔* 🍃
■ *ان تین آیتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں بندوں کی دنیوی خوشحالی اور اخروی فلاح کی تعلیم کا قیمتی خزانہ موجود ہے۔* ■
🍁 *انسانوں کو اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اسی میں ان کی کامیابی ہے۔* 🍁
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
1 note · View note
minhajbooks · 2 years
Text
Tumblr media
🔰 اقتصادیات اسلام
یہ کتاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے قلمی مسودات اور لیکچرز پر مشتمل اقتصادیات اسلام کا mini encyclopedia اور تحقیق و تجسس کرنے والوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ اس کتاب میں اسلامی معاشیات کی اساس و ارتقاء، اصول و ضوابط، اسلام کا تصورِ مال اور انفاق فی المال، اسلام کا تصورِ ملکیت، اسلامی معیشت میں امدادِ باہمی اور کفالتِ عامہ کا نظام، زمین، زراعت اور مزارعت، تجارت، شراکت اور مضاربت، صنعت اور لیبر پالیسی اور اسلامی معاشی نظام کی تنفیذ وغیرہ جیسے موضوعات شامل ہیں۔
🔹 باب 1 : اسلامی معاشیات کی اساس اور ارتقاء
🔹 باب 2 : اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول و ضوابط
🔹 باب 3 : اسلام کا تصور مال
🔹 باب 4 : اسلام کا تصور ملکیت
🔹 باب 5 : انفاق فی المال
🔹 باب 6 : اسلامی معیشت میں امداد باہمی اور کفالت عامہ کا نظام
🔹 باب 7 : زمین، زراعت اور مزارعت
🔹 باب 8 : تجارت، شراکت اور مضاربت
🔹 باب 9 : صنعت اور لیبر پالیسی (قرآن و سنت کے آئینے میں)
🔹 باب 10 : اسلامی معاشی نظام کی تنفیذ
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
زبان : اردو
صفحات : 855
قیمت : 1150 روپے
پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں
0 notes
risingpakistan · 6 years
Text
کیا عمران خان کی ٹیم سے معیشت نہیں سنبھل رہی ؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو معاشی محاذ پر مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ملک میں مہنگائی کا گراف اونچا ہو رہا ہے اور کاروبار سمٹ رہا ہے۔ جس سے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کی تکمیل میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ حکومت ایک کروڑ ملازمتوں، اور پچاس لاکھ نئے گھروں کے وعدے اور کرپشن کے خاتمے کے دعوؤں کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھی۔ بدعنوانی کے خلاف مہم میں حکومت نے مبینہ غیرملکی اکاؤنٹ رکھنے والے 172 افراد کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگا دی ہے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور سندھ حکومت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب ملک کی ایک اور بڑی اہم سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے قائدین جیلوں میں ہیں اور ان کے کئی دوسرے راہنماؤں پر نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائیوں سے تحریک انصاف کو سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔ عمران خان نے حکومت سازی کے لیے چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت برقرار رکھنے کے لیے انہیں چھوٹی جماعتوں کے مطالبے ماننے پڑ رہے ہیں جس سے تحریک انصاف کو اپنا منشور لاگو کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت سدھارنے کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود حکومت کے پاس حکمت عملی کا فقدان ہے۔
کراچی کے ایک ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ حکومت نے سرمایہ کاری میں کمی پر قابو پانے کے لیے اسلامی بینکوں سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں سکوک بانڈ جاری کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ سکوک بانڈ کا نظام سود پر انحصار کرتا ہے جس کی شرح مغربی ملکوں کی شرح سود سے زیادہ ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت تعلیمی بجٹ میں سے گھروں کی تعمیر کے لیے فنڈز نکالنا چاہتی ہے جس کے بعد وہ بنیادی تعلیم کے اہداف پورے نہیں کر پائے گی جب کہ ملک میں لاکھوں بچے ابھی تک اسکول نہیں جا پا رہے۔
شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ حکومت صوبائی ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دے رہی ہے۔ جب کہ اس میں نصف رقم خردبرد کر لی جاتی ہے اور یہ فنڈز بدعنوانی کی جڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیرس یونیورسٹی میں بین الاقوامی مالیات کے پروفیسر عطا محمد کہتے ہیں کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے اور امکان ہے کہ اس کا نام بین الاقوامی دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ملکوں کی بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ لیکن دوسری جانب جب پاکستان کے معاشی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ حکومت سے معیشت سنبھل نہیں رہی۔
فیسہ ہود بھائے
بشکریہ وائس آف امریکہ  
0 notes
iammnqadri · 6 years
Photo
Tumblr media
#LongLiveDrQadri #LoveYouDrQadri ڈاکٹر طاھر القادری جن علوم میں مہارت رکھتے ہیں ان میں سے چند کی تفصیل. قرآنیات اور اس کی مختلف شاخیں علمِ حدیث اور اس کی شاخیں فقہ اور اس کی شاخیں فقہ آئمہ اربعہ اصول فقہ منطق الہیات معاشیات تصوف علم التعلیم علمِ معانی و بیان علمِ خطابت اصولِ سیاست مغربی معاشیات حالاتِ حاضرہ تنظیمات سیاسیات قانون فلسفہ تاریخ ادیانِ عالم کا تقابل اقتصادیات اسلامی اقتصاد روحانیات اقبالیات پاکستانیات علم الرجال علمِ تفسیر عربی ادب اردو ادب فارسی ادب انگریزی ادب سیرت علم الکلام علمِ روئیت. ڈاکٹر طاھر القادری نہ صرف ان علوم پر ھزاروں کتب پڑھ چکے ہیں بلکہ ان علوم پر ایک ھزار سے زائد کتب لکھ چکے ہیں اور کئی سال تک ان علوم کی تدریس کروا چکے ہیں... https://www.instagram.com/p/BsW07mLlxFH/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=1lxsygns62doj
0 notes
minhajbooks · 2 years
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی علمی و تحقیقی خدمات 📚
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری ایک سیاسی مفکر، معیشت دان، ماہر تعلیم، عظیم دینی اسکالر اور فلسفی ہیں۔ آپ ایک عظیم علمی و دینی اور روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں، جنہوں نے علمی و ادبی اور روحانی صلاحیت اپنے جدِ امجد فریدِ ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کے ورثہ سے اور اپنے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شبانہ روز تربیت و توجہ سے حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے متعدد موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ 50 سے زائد کتب اور 100 سے زائد تحقیقی مقالات کے مصنف ہیں۔ آپ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی صدر اور ملک پاکستان کے عظیم تعلیمی ادارے ’منہاج یونی ورسٹی لاہور‘ (چارٹرڈ) کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔’منہاج ایجوکیشن سوسائٹی‘ کے بھی چیئرمین ہیں جس کے تحت ملک بھر میں 610 سے زائد اسکولز اور کالجز نسلِ نو کی تربیت اور علم کا نور عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ آپ یتیم بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کے عظیم مراکز ’آغوش‘ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنی انسان دوستی کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر حسین ’المواخات اسلامک مائکرو فنانس‘ اور ’منہاج حلال سرٹیفیکیشن بیورو‘ کے بھی خالق ہیں۔ آپ منہاج یونی ورسٹی کے School of Economics and Finance میں پروفیسر آف اِکنامکس کے طور پر بھی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ آپ کئی سالوں سے آسٹریلیا کی University of Melbourne میں بطور سینئر فیلو (Senior Fellow) فائز ہیں۔ آپ Iranian Association of Islamic Finance (IAIF) کی International Forum Committee (IFC) کے بھی رُکن ہیں۔
پروفیسر حسین قادری اکتوبر 1982ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ اس کے بعد کینیڈا چلے گئے جہاں اُنہوں نے اکنامکس اور پولیٹکل سائنس کے موضوع پر YORK یونی ورسٹی ٹورانٹو سے گریجوایشن کی۔ اس یونی ورسٹی میں اپنے قیام کے دوران شان دار تعلیمی کام یابیوں کے ساتھ ساتھ آپ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے اور یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے شاندار فتح حاصل کرکے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 2006ء میں آپ فرانس چلے گئے اور پیرس کی معروف یونی ورسٹی Sciences-Po سے عالمی معیشت میں MBA کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کچھ عرصہ لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں تدریسی و تحقیقی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔
ڈاکٹر حسین قادری نے 2012ء میں آسٹریلیا کی معروف یونی ورسٹی Victoria University, Melbourne سے درج ذیل موضوع پر اپنی PhD مکمل کی ہے: An Analysis of Trade Flows Among ECO Member Countries and Potential for a Free Trade Area
اپنے مقالہ میں آپ نے پاکستان، ایران، ترکی اور نَو آزاد وسطی ایشیائی ریاستوں کے معاشی اِتحاد اور اُن کا تقابل کرتے ہوئے ایک رول ماڈل تشکیل دیا ہے کہ کس طرح یورپی یونین کی طرز پر یہ خطہ ایک مؤثر معاشی طاقت کے طور پر اُبھر سکتا ہے۔
پروفیسر حسین ایک منجھے ہوئے ماہرِ معاشیات ہیں جو اِس میدان میں جدّتِ فکر اور بلند پرواز رکھتے ہیں۔ اپنی عمیق نظری، تخلیقی تخیل اور فکرِ رسا کی بدولت ڈاکٹر حسین معاملہ فہمی اور فیصلہ سازی میں ہمہ جہتی نقطہ نظر رکھنے والے اہلِ دانش میں سے ہیں جو بڑی خوبی سے دقیق مسائل کا عملی حل پیش کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کے اِقتصادی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے اور مسلم ممالک کے مشترکہ سماجی، سیاسی و اقتصادی بلاک کے طور پر کام کرنے والی دولتِ مشترکہ کا نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ ان ممالک کو اَقوامِ عالم میں خوش حال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
اِسلامی معاشیات اور فنانس کے میدان میں ڈاکٹر حسین کی گراں قدر خدمات کے اِعتراف میں 2019ء میں اُنہیں GIFA اسپیشل ایوارڈ دیا گیا۔ 2021ء میں اُنہوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونی ورسٹی سے کارپوریٹ پائیداری اور جدّت (corporate sustainability and innovation) میں سرٹیفیکیشن حاصل کی۔ وہ Iranian Association of Islamic Finance (IAIF) کی ذیلی International Forum Committee (IFC) کے بھی رُکن ہیں۔
پروفیسر حسین محی الدین قادری نے سیکولر سائنسز کے حصول کے ساتھ ساتھ شریعہ اور قدیم اسلامی علوم بھی معروف عالمی اسلامک اسکالرز سے حاصل کیے ہیں۔ آپ کے اساتذہ میں سب سے اہم آپ کے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ اسلامی علوم میں آپ کے پسندیدہ موضوعات میں الٰہیات، علوم الحدیث، تفسیر، تصوف، فقہ اور اجتہاد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے پسندیدہ عصری موضوعات میں معاشی افکار کی تاریخ، سیاسی معیشت، عالمی تجارت، قدرتی وسائل کی معاشیات، اسلامی معاشیات، اسلامی بینکاری، بین المذاہب رواداری، انتہا پسندی کا خاتمہ، مینجمنٹ اور فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔
🌐 ویب سائٹ https://www.minhajbooks.com/english/author/Dr-Hussain-Mohi-ud-Din-Qadri
📲 موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں https://get.minhajbooks.com
📧 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
mypakistan · 7 years
Text
لیاقت علی خان : ملت کا قائد، ملت کا محسن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اولین سربراہ حکومت اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست شہید ملت، قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال کے ایک زمیںدار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی جائے پیدائش آج کل بھارتی ریاست ہریانہ میں شامل ہے۔ اُن کے والد کا نام مع خطابات خان رکن الدولہ شمشیر جنگ، نواب بہادر رستم علی خان تھا، جب کہ والدہ کا نام محمودہ بیگم تھا۔ یوپی (موجودہ اُتر پردیش) اور کرنال (ہریانہ) میں زمین داری کے پیشے سے منسلک یہ خاندان کوئی پانچ سو برس قبل ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا تھا۔ قائد ملت کا سلسلۂ نسب ایران کے مشہور بادشاہ نوشیروان عادل سے ملتا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ انہیں بجا طور پر محسن ملت کا خطاب بھی دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بچپن اپنی آبائی جاگیر میں گزارا جو یوپی میں واقع تھی اور اپنی والدہ محترمہ کی نگرانی میں قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے وقت کی مشہور درس گاہ محمڈ ن اینگلو اوریئنٹل (MAO) کالج علی گڑھ سے سیاسیات میں گریجویشن اور 1918 ء میں بیچلر آف لا کی سند حاصل کی۔ اس کالج کو بعد ازاں جامعہ کا درجہ ملا، یوں سرسید احمد خان کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا۔
قائد ملت لیاقت علی خان نے 1918ء میں اپنی کزن جہانگیرہ بیگم سے شادی کی اور پھر اپنے والد کے انتقال کے بعد، قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔ 1921ء میں آکسفورڈ کے ایگزیکٹر (EXECTER) کالج سے قانون کے شعبے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے اِنر ٹیمپل (INNER TEMPLE) اور 1922ء میں بارایٹ لا کیا۔ علی گڑھ کے یہ لائق فائق فرزند ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے۔ حسن اتفاق سے انہیں آکسفورڈ کی انڈین مجلس کا اعزازی خازن منتخب کر لیا گیا اور یوں اُن کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔ بعض کتب میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ اس مجلس کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ بہرحال قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد لیاقت علی خان 1923ء میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ انہیں انڈین نیشنل کانگریس نے رکنیت کی پیش کش کی جو انہوں نے رَد کر دی اور مسلمانان ہند کی نمائندہ ج��اعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ مئی 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں دیگر راہ نماؤں کے علاوہ لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔ 
انہیں 1926ء میں مظفر نگر، یوپی کے حلقے سے یوپی کی مجلس قانون ساز میں مسلم نمائندہ چنا گیا۔ یہ گویا اُن کی عملی سیاست کا آغاز تھا۔ اُن کی کامیابی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انہیں 1932ء میں یوپی کی مجلس قانون ساز کا بِلا مقابلہ نائب صدر منتخب کیا گیا ، وہ 1940 ء تک اس مجلس سے منسلک رہے اور پھر مرکزی مجلس قانون ساز ( CENTRAL LEGISLATIVE COUNCIL) کے رکن منتخب ہوئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرکزی سطح پر مقننہ میں اہم کردار ادا کرنے والے یہ عظیم راہ نما 1928ء میں کلکتہ کے قومی کنوینشن میں شریک ہونے والے مسلم لیگی وفد کے رکن بھی تھے۔ یہ کنوینشن موتی لال نہرو رپورٹ پر غوروخوض کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔ 1932ء میں لیاقت علی خان کی نجی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ انہوں نے ایک خاتون کو، اُن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد، ’رعنا‘ نام دیا اور اُن سے شادی کر لی۔ یہ خاتون تعلیم اور معاشیات کے شعبوں میں ممتاز تھیں اور پھر تحریک پاکستان میں انہیں بیگم رعنا لیاقت علی کے نام سے شہرت ملی۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ میں دوسری گول میز کانفرنس کے بعد، ایک نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی حالات کی ابتری دیکھتے ہوئے لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا اور پری وی کونسل (PRIVY COUNCIL) میں وکالت کی پریکٹس کرنے لگے۔ 1928ء سے 1937ء تک مسلمانان ہند کی سیاسی صورت حال پُرآشوب رہی، مسلم لیگ میں دھڑے بندی اور دیگر جماعتوں کے معرض وجود میں آنے کے سبب، مسلمانوں کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو گیا تھا۔ ایسے میں اُن کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا محمد علی جوہرؔ جیسے جری اور بے باک قائد بھی اسی دور میں (چارجنوری سن انیس سو اکتیس کو ) رحلت فرما گئے۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ 1933ء میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت لندن پہنچے اور قائداعظم سے ملاقات میں لیاقت علی خان نے اُن سے وطن واپسی کا تقاضا کیا۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ ایسے وقت میں مسلمانوں کو آپ جیسے قائد کی ضرورت ہے جسے خریدا نہ جا سکے۔ آپ ہی مسلم لیگ کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ چناں چہ 1934ء میں قائداعظم واپس ہندوستان تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ ایسے میں ہندوستان کی سیاسی فضاء اس نعرے نما شعر سے گونج اٹھی:
ملا ہے وراثت میں تختِ سیاست محمد علی سے محمد علی کو!
1935ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ، مسلم اکثریتی علاقوں سے بوجوہ خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ کر پائی تو پنڈت جواہرلال نہرو نے کہا : ’’ہندوستان میں دو ہی جماعتیں ہیں…ایک کانگریس، دوسری حکومت۔‘‘ اس پر قائداعظم نے برملا تصحیح کی: ’’نہیں ! ایک تیسری جماعت بھی ہے ….مسلم لیگ!‘‘ لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بارہ اپریل 1936ء کو بمبئی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں انہیں قائداعظم کی تجویز پر، بِلامقابلہ، اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب کرلیا گیا۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے گویا نیا جنم لیا۔ اب اس کی منزل آزادی تھی۔ پورے ہندوستان میں باقاعدہ رکنیت اور تنظیم نو کا سلسلہ شروع ہوا تو بطور جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1938ء میں پٹنہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قائداعظم کے پُرجوش خطاب نے مسلم لیگ کی بطور نمائندہ مسلمانان ہند کامیابی کی راہ ہموار کی۔ ہوتے ہوتے 1940ء آپہنچا۔ قائداعظم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر، لیاقت علی خان کو پارلیمان میں اپنا نائب مقرر کر دیا۔ 
اس اہم دور میں وہ بہ یک وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر، ایکشن کمیٹی کے کنوینر(CONVENOR) ، مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور روزنامہ ڈان کے Managing Director جیسے اہم عہدوں پر فائز تھے۔ 1942ء میں جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی، کانگریس نے ’ہندوستان چھوڑدو‘ (QUIT INDIA MOVEMENT) کی قرارداد منظور کی تو اُس کے تمام اہم راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایسے موقع پر بھولا بھائی ڈیسائی جیسے بعض راہنما اس قرارداد کی مخالفت اور اس مسئلے سے الگ تھلگ رہنے کے سبب آزاد رہے۔ چناں چہ لیاقت علی خان نے نجی حیثیت میں، ڈیسائی سے دس نکاتی معاہدہ کیا جو نظریہ پاکستان کے حق میں بڑی پیش رفت کا باعث ثابت ہوا۔
ادھر گاندھی جی نے بھی جیل سے رہا ہونے کے بعد قائد اعظم سے مذاکرات کیے مگر کئی دن بعد انہیں ناکام قرار دیا۔ اس تفصیل سے قطع نظر، کانگریس نے بالواسطہ طور پر مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت تسلیم کر لی۔ اس ضمن میں قائد ملت کا کردار ناقابل فراموش تھا۔ 1943ء میں قائداعظم نے لیاقت علی خان کی خدمات سراہتے ہوئے انہیں اپنا دست راست قرار دیا۔ وہ 1945ء میں میرٹھ کے حلقے سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اسی برس منعقد ہونے والی شملہ کانفرنس میں مسلم لیگ کے وفد کے رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے اور جب 1946ء میں مسلم لیگ عبوری حکومت کا حصہ بنی تو لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے وہ تاریخی بجٹ پیش کیا جسے عوام کے لیے نہایت مفید ہونے کے سبب، کٹر کانگریسی پریس نے بھی عوامی بجٹ اور ’غریب آدمی کا بجٹ‘ قرار دیا تھا۔ اسی دور میں نوابزادہ صاحب نے کیبنٹ مشن سے مذاکرات میں قائداعظم کی مدد بھی کی تھی۔
پاکستان کے قیام کے وقت 11 اگست 1947ء کو قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد اور اگلے دن محمدعلی جناح کو سرکاری طور پر قائداعظم قرار دینے کی تجویز بھی لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ چودہ اگست 1947ء کو پاکستان نامی اسلامی ریاست معرض وجود میں آئی تو اگلے دن اس نامور ہستی نے ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جب کہ وہ بہ یک وقت ملک کے اولین وزیرخارجہ نیز وزیر برائے تعلقات دولت مشترکہ (پندرہ اگست 1947ء تا ستائیس دسمبر1947ء) ، وزیردفاع (پندرہ اگست 1947ء تا سولہ اکتوبر 1951ء ) ، وزیر برائے امور کشمیر (اکتیس اکتوبر 1949 تا 13اپریل 1950ء) اور وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور (بارہ ستمبر 1948ء تا سولہ اکتوبر 1951ء) کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ سر ظفراللہ خان کو بعدازاں (ستائیس دسمبر1947 کو) باقاعدہ وزیرخارجہ مقرر کیا گیا تھا، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ تھے۔ (حوالے کے لیے ڈاکٹرصفدرمحمود کی کتاب ملاحظہ فرمائیں: پاکستان ڈیوائیڈڈ)۔
قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ سترہ جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد کے قائد، وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے مسئلہ کشمیر پر تقریر کی اور اگلے روز وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا: ’’جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے، کوئی دُنیوی طاقت، پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‘‘ اسلام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے، قائد ملت نے چار اپریل 1948ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور، قرآن کریم اور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔ 
سات مارچ 1949 ء کو انہوں نے قرارداد مقاصد، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی، جس کے ذریعے پاکستان کے مجوزہ آئین کے راہ نما اصول فراہم کیے گئے تھے۔ یہ قرارداد بارہ مارچ 1949 ء کو منظور ہوئی، مگر ایک طویل مدت تک آئین پاکستان کی اصل دستاویز کا اساسی حصہ نہیں رہی۔ یہ کام سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد حکومت میں، اُن کے ایماء پر ہوا تو اُن کے سیاسی و ذاتی مخالفین نے تب سے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی تصور، اُن سے پہلے موجود نہ تھا۔ بائیس اپریل 1949 ء کو لندن میں دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کا آغاز ہوا تو پاکستان کے وفد نے اس میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں شرکت کی۔ اسی سال دس مئی کو وہ مصر کے دورے پر تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے بارہ مئی کو ریڈیو قاہرہ کے ذریعے مصری عوام سے خطاب کیا ، جب کہ سولہ مئی کو وہ ایران تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں اُن کے مصر کے دورے کے نتیجے میں بائیس مئی1949 ء کو پاک مصر تجارتی معاہدہ طے پایا تھا۔
9جون 1949 ء کو سوویت یونین (سابق) نے وزیراعظم پاکستان محترم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی، مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر وہاں تشریف نہ لے جا سکے۔ اس بارے میں بہت ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے کہ قائد ملت اس دورے پر کیوں تشریف نہ لے جا سکے۔ بعض اہل قلم نے یہاں تک لکھا ہے کہ انہیں فقط زبانی دعوت ملی اور باضابطہ دعوت، دونوں حکومتوں کی مشاورت سے تاریخ طے پانے کے مرحلے میں تھی کہ سات نومبر 1949ء کو امریکا نے انہیں سرکاری دورے کی دعوت دی اور یوں وہ امریکا تشریف لے گئے۔
قیام پاکستان کے وقت، اس نئی مملکت کو ہندوستان سے اپنی سرکاری رقم کے حصول میں مشکلات، دریائی پانی کی تقسیم پر اختلاف اور کشمیر سمیت بعض علاقوں کے الحاق پر محاذ آرائی جیسی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ قائد ملت ہر مسئلے کے حل کے لیے ہمہ وقت ، ہمہ تن کوشاں رہے۔ پچیس اگست 1949 ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’قوت کے بل بوتے پر کوئی طاقت کشمیر کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔‘‘ اُدھر مشرقی و مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ قائد ملت 2 اپریل 1949 ء کو ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے 8 اپریل 1950ء کو دہلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے معاہدہ کیا جو ’’لیاقت ۔ نہرو پیکٹ‘‘ کہلایا۔
یہاں ایک بار پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی ملک و ملت کے لیے مساعی اور بے خوف قیادت نیز دوراندیشی کا ذکر ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ جب ریڈکلف ایوارڈ میں یہ طے کیا گیا کہ کشمیر کو ملانے والی واحد شاہراہ کی بنیاد پر، انتہائی اہم ضلع گورداس پور کوہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا جائے تو لیاقت علی خان نے لارڈ اِسمے (Lord Ismay) کو خبردار کیا تھا کہ مسلمان ایسے سیاسی فیصلے کو قول و قرار کی سنگین خلاف ورزی سمجھیں گے اور اس سے پاکستان اور برطانیہ کے آئندہ (استوار ہونے والے ) دوستانہ تعلقات متأثر ہو سکتے ہیں۔ 29 اپریل 1950ء کو امریکا جاتے ہوئے لیاقت علی خان نے لندن میں مختصر قیام کیا، جہاں سے وہ یکم مئی کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین (Trueman) کے خصوصی طیارے INDEPENDENCE کے ذریعے امریکا تشریف لے گئے۔ 
چار مئی 1950ء کو انہوں نے امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے خطاب کیا۔ ان کے دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے وائس آف امریکا کے ذریعے امریکی عوام سے بھی خطاب کیا۔ 30 مئی 1950ء کو شہید ملت کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوئے، جب کہ بیس جولائی 1950ء کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا۔ 9 اکتوبر 1950ء کو لیاقت علی خان، پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ ستائیس دسمبر 1950ء کو انہیں سندھ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لا کی اعزازی سند عطا کی گئی۔ سات جنوری 1951ء کو وہ ایک بار پھر لندن تشریف لے گئے،اس مرتبہ ان کے دورے کا مقصد دولت مشترکہ کی سربراہ کانفرنس میں شرکت تھا۔ 9 مارچ 1951ء کو انہوں نے راول پنڈی سازش کیس کے سلسلے میں اپنا بیان جاری کیا۔
سولہ اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ، راول پنڈی میں جلسہ عام کا آغاز ہوا تو بلدیہ کمیٹی کے سربراہ شیخ مسعود صادق نے سپاس نامہ پیش کیا۔ قائد ملت نے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ کرائے کے قاتل سَید (Sayd) اکبر نے اُن پر گولیاں برسا دیں۔ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اولین وزیراعظم، لیاقت علی خان اس حملے کی تاب نہ لا سکے اور اس دعا کے ساتھ دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے:’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے!‘‘ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کمپنی باغ کو ’لیاقت باغ‘ کا نام دیا گیا۔ اس سانحے کے چھپن سال بعد، اسی جگہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی قاتلانہ حملے میں جا ں بحق ہو گئیں…. یوں یہ مقام دو راہ نماؤں کے لیے مقتل ثابت ہوا۔ آج پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے شہید ملت کی جیسی لیاقت اور بے لوث قیادت، نیز قربانی کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔
سہیل احمد صدیقی  
0 notes
risingpakistan · 7 years
Text
لیاقت علی خان : ملت کا قائد، ملت کا محسن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اولین سربراہ حکومت اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست شہید ملت، قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان یکم اکتوبر 1895ء کو کرنال کے ایک زمیںدار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کی جائے پیدائش آج کل بھارتی ریاست ہریانہ میں شامل ہے۔ اُن کے والد کا نام مع خطابات خان رکن الدولہ شمشیر جنگ، نواب بہادر رستم علی خان تھا، جب کہ والدہ کا نام محمودہ بیگم تھا۔ یوپی (موجودہ اُتر پردیش) اور کرنال (ہریانہ) میں زمین داری کے پیشے سے منسلک یہ خاندان کوئی پانچ سو برس قبل ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا تھا۔ قائد ملت کا سلسلۂ نسب ایران کے مشہور بادشاہ نوشیروان عادل سے ملتا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ انہیں بجا طور پر محسن ملت کا خطاب بھی دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بچپن اپنی آبائی جاگیر میں گزارا جو یوپی میں واقع تھی اور اپنی والدہ محترمہ کی نگرانی میں قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اپنے وقت کی مشہور درس گاہ محمڈ ن اینگلو اوریئنٹل (MAO) کالج علی گڑھ سے سیاسیات میں گریجویشن اور 1918 ء میں بیچلر آف لا کی سند حاصل کی۔ اس کالج کو بعد ازاں جامعہ کا درجہ ملا، یوں سرسید احمد خان کا دیرینہ خواب پورا ہو گیا۔
قائد ملت لیاقت علی خان نے 1918ء میں اپنی کزن جہانگیرہ بیگم سے شادی کی اور پھر اپنے والد کے انتقال کے بعد، قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان تشریف لے گئے۔ 1921ء میں آکسفورڈ کے ایگزیکٹر (EXECTER) کالج سے قانون کے شعبے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے اِنر ٹیمپل (INNER TEMPLE) اور 1922ء میں بارایٹ لا کیا۔ علی گڑھ کے یہ لائق فائق فرزند ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہش مند تھے۔ حسن اتفاق سے انہیں آکسفورڈ کی انڈین مجلس کا اعزازی خازن منتخب کر لیا گیا اور یوں اُن کی قومی خدمات کا آغاز ہوا۔ بعض کتب میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ وہ اس مجلس کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ بہرحال قانون کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد لیاقت علی خان 1923ء میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے۔ انہیں انڈین نیشنل کانگریس نے رکنیت کی پیش کش کی جو انہوں نے رَد کر دی اور مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ مئی 1924ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس میں دیگر راہ نماؤں کے علاوہ لیاقت علی خان بھی شریک تھے۔ 
انہیں 1926ء میں مظفر نگر، یوپی کے حلقے سے یوپی کی مجلس قانون ساز میں مسلم نمائندہ چنا گیا۔ یہ گویا اُن کی عملی سیاست کا آغاز تھا۔ اُن کی کامیابی اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انہیں 1932ء میں یوپی کی مجلس قانون ساز کا بِلا مقابلہ نائب صدر منتخب کیا گیا ، وہ 1940 ء تک اس مجلس سے منسلک رہے اور پھر مرکزی مجلس قانون ساز ( CENTRAL LEGISLATIVE COUNCIL) کے رکن منتخب ہوئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرکزی سطح پر مقننہ میں اہم کردار ادا کرنے والے یہ عظیم راہ نما 1928ء میں کلکتہ کے قومی کنوینشن میں شریک ہونے والے مسلم لیگی وفد کے رکن بھی تھے۔ یہ کنوینشن موتی لال نہرو رپورٹ پر غوروخوض کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔ 1932ء میں لیاقت علی خان کی نجی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔ انہوں نے ایک خاتون کو، اُن کے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد، ’رعنا‘ نام دیا اور اُن سے شادی کر لی۔ یہ خاتون تعلیم اور معاشیات کے شعبوں میں ممتاز تھیں اور پھر تحریک پاکستان میں انہیں بیگم رعنا لیاقت علی کے نام سے شہرت ملی۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ میں دوسری گول میز کانفرنس کے بعد، ایک نمایاں تبدیلی یہ ہوئی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے سیاسی حالات کی ابتری دیکھتے ہوئے لندن میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا اور پری وی کونسل (PRIVY COUNCIL) میں وکالت کی پریکٹس کرنے لگے۔ 1928ء سے 1937ء تک مسلمانان ہند کی سیاسی صورت حال پُرآشوب رہی، مسلم لیگ میں دھڑے بندی اور دیگر جماعتوں کے معرض وجود میں آنے کے سبب، مسلمانوں کا سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہو گیا تھا۔ ایسے میں اُن کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا محمد علی جوہرؔ جیسے جری اور بے باک قائد بھی اسی دور میں (چارجنوری سن انیس سو اکتیس کو ) رحلت فرما گئے۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ 1933ء میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت لندن پہنچے اور قائداعظم سے ملاقات میں لیاقت علی خان نے اُن سے وطن واپسی کا تقاضا کیا۔ لیاقت علی خان نے کہا کہ ایسے وقت میں مسلمانوں کو آپ جیسے قائد کی ضرورت ہے جسے خریدا نہ جا سکے۔ آپ ہی مسلم لیگ کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ چناں چہ 1934ء میں قائداعظم واپس ہندوستان تشریف لائے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔ ایسے میں ہندوستان کی سیاسی فضاء اس نعرے نما شعر سے گونج اٹھی:
ملا ہے وراثت میں تختِ سیاست محمد علی سے محمد علی کو!
1935ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ، مسلم اکثریتی علاقوں سے بوجوہ خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ کر پائی تو پنڈت جواہرلال نہرو نے کہا : ’’ہندوستان میں دو ہی جماعتیں ہیں…ایک کانگریس، دوسری حکومت۔‘‘ اس پر قائداعظم نے برملا تصحیح کی: ’’نہیں ! ایک تیسری جماعت بھی ہے ….مسلم لیگ!‘‘ لیاقت علی خان نے مسلم لیگ کی تنظیم نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بارہ اپریل 1936ء کو بمبئی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں انہیں قائداعظم کی تجویز پر، بِلامقابلہ، اعزازی جنرل سیکریٹری منتخب کرلیا گیا۔ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے گویا نیا جنم لیا۔ اب اس کی منزل آزادی تھی۔ پورے ہندوستان میں باقاعدہ رکنیت اور تنظیم نو کا سلسلہ شروع ہوا تو بطور جنرل سیکریٹری لیاقت علی خان نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1938ء میں پٹنہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قائداعظم کے پُرجوش خطاب نے مسلم لیگ کی بطور نمائندہ مسلمانان ہند کامیابی کی راہ ہموار کی۔ ہوتے ہوتے 1940ء آپہنچا۔ قائداعظم نے اپنی مصروفیات کے پیش نظر، لیاقت علی خان کو پارلیمان میں اپنا نائب مقرر کر دیا۔ 
اس اہم دور میں وہ بہ یک وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری، ڈپٹی پارلیمانی لیڈر، ایکشن کمیٹی کے کنوینر(CONVENOR) ، مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور روزنامہ ڈان کے Managing Director جیسے اہم عہدوں پر فائز تھے۔ 1942ء میں جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی، کانگریس نے ’ہندوستان چھوڑدو‘ (QUIT INDIA MOVEMENT) کی قرارداد منظور کی تو اُس کے تمام اہم راہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایسے موقع پر بھولا بھائی ڈیسائی جیسے بعض راہنما اس قرارداد کی مخالفت اور اس مسئلے سے الگ تھلگ رہنے کے سبب آزاد رہے۔ چناں چہ لیاقت علی خان نے نجی حیثیت میں، ڈیسائی سے دس نکاتی معاہدہ کیا جو نظریہ پاکستان کے حق میں بڑی پیش رفت کا باعث ثابت ہوا۔
ادھر گاندھی جی نے بھی جیل سے رہا ہونے کے بعد قائد اعظم سے مذاکرات کیے مگر کئی دن بعد انہیں ناکام قرار دیا۔ اس تفصیل سے قطع نظر، کانگریس نے بالواسطہ طور پر مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت تسلیم کر لی۔ اس ضمن میں قائد ملت کا کردار ناقابل فراموش تھا۔ 1943ء میں قائداعظم نے لیاقت علی خان کی خدمات سراہتے ہوئے انہیں اپنا دست راست قرار دیا۔ وہ 1945ء میں میرٹھ کے حلقے سے مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اسی برس منعقد ہونے والی شملہ کانفرنس میں مسلم لیگ کے وفد کے رکن کی حیثیت سے شریک ہوئے اور جب 1946ء میں مسلم لیگ عبوری حکومت کا حصہ بنی تو لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے وہ تاریخی بجٹ پیش کیا جسے عوام کے لیے نہایت مفید ہونے کے سبب، کٹر کانگریسی پریس نے بھی عوامی بجٹ اور ’غریب آدمی کا بجٹ‘ قرار دیا تھا۔ اسی دور میں نوابزادہ صاحب نے کیبنٹ مشن سے مذاکرات میں قائداعظم کی مدد بھی کی تھی۔
پاکستان کے قیام کے وقت 11 اگست 1947ء کو قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد اور اگلے دن محمدعلی جناح کو سرکاری طور پر قائداعظم قرار دینے کی تجویز بھی لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ چودہ اگست 1947ء کو پاکستان نامی اسلامی ریاست معرض وجود میں آئی تو اگلے دن اس نامور ہستی نے ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جب کہ وہ بہ یک وقت ملک کے اولین وزیرخارجہ نیز وزیر برائے تعلقات دولت مشترکہ (پندرہ اگست 1947ء تا ستائیس دسمبر1947ء) ، وزیردفاع (پندرہ اگست 1947ء تا سولہ اکتوبر 1951ء ) ، وزیر برائے امور کشمیر (اکتیس اکتوبر 1949 تا 13اپریل 1950ء) اور وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور (بارہ ستمبر 1948ء تا سولہ اکتوبر 1951ء) کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ سر ظفراللہ خان کو بعدازاں (ستائیس دسمبر1947 کو) باقاعدہ وزیرخارجہ مقرر کیا گیا تھا، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ تھے۔ (حوالے کے لیے ڈاکٹرصفدرمحمود کی کتاب ملاحظہ فرمائیں: پاکستان ڈیوائیڈڈ)۔
قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ سترہ جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد کے قائد، وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے مسئلہ کشمیر پر تقریر کی اور اگلے روز وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا: ’’جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے، کوئی دُنیوی طاقت، پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‘‘ اسلام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے، قائد ملت نے چار اپریل 1948ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور، قرآن کریم اور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔ 
سات مارچ 1949 ء کو انہوں نے قرارداد مقاصد، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی، جس کے ذریعے پاکستان کے مجوزہ آئین کے راہ نما اصول فراہم کیے گئے تھے۔ یہ قرارداد بارہ مارچ 1949 ء کو منظور ہوئی، مگر ایک طویل مدت تک آئین پاکستان کی اصل دستاویز کا اساسی حصہ نہیں رہی۔ یہ کام سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد حکومت میں، اُن کے ایماء پر ہوا تو اُن کے سیاسی و ذاتی مخالفین نے تب سے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی تصور، اُن سے پہلے موجود نہ تھا۔ بائیس اپریل 1949 ء کو لندن میں دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کا آغاز ہوا تو پاکستان کے وفد نے اس میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں شرکت کی۔ اسی سال دس مئی کو وہ مصر کے دورے پر تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے بارہ مئی کو ریڈیو قاہرہ کے ذریعے مصری عوام سے خطاب کیا ، جب کہ سولہ مئی کو وہ ایران تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں اُن کے مصر کے دورے کے نتیجے میں بائیس مئی1949 ء کو پاک مصر تجارتی معاہدہ طے پایا تھا۔
9جون 1949 ء کو سوویت یونین (سابق) نے وزیراعظم پاکستان محترم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی، مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر وہاں تشریف نہ لے جا سکے۔ اس بارے میں بہت ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے کہ قائد ملت اس دورے پر کیوں تشریف نہ لے جا سکے۔ بعض اہل قلم نے یہاں تک لکھا ہے کہ انہیں فقط زبانی دعوت ملی اور باضابطہ دعوت، دونوں حکومتوں کی مشاورت سے تاریخ طے پانے کے مرحلے میں تھی کہ سات نومبر 1949ء کو امریکا نے انہیں سرکاری دورے کی دعوت دی اور یوں وہ امریکا تشریف لے گئے۔
قیام پاکستان کے وقت، اس نئی مملکت کو ہندوستان سے اپنی سرکاری رقم کے حصول میں مشکلات، دریائی پانی کی تقسیم پر اختلاف اور کشمیر سمیت بعض علاقوں کے الحاق پر محاذ آرائی جیسی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ قائد ملت ہر مسئلے کے حل کے لیے ہمہ وقت ، ہمہ تن کوشاں رہے۔ پچیس اگست 1949 ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’قوت کے بل بوتے پر کوئی طاقت کشمیر کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔‘‘ اُدھر مشرقی و مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ قائد ملت 2 اپریل 1949 ء کو ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے 8 اپریل 1950ء کو دہلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے معاہدہ کیا جو ’’لیاقت ۔ نہرو پیکٹ‘‘ کہلایا۔
یہاں ایک بار پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی ملک و ملت کے لیے مساعی اور بے خوف قیادت نیز دوراندیشی کا ذکر ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ جب ریڈکلف ایوارڈ میں یہ طے کیا گیا کہ کشمیر کو ملانے والی واحد شاہراہ کی بنیاد پر، انتہائی اہم ضلع گورداس پور کوہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا جائے تو لیاقت علی خان نے لارڈ اِسمے (Lord Ismay) کو خبردار کیا تھا کہ مسلمان ایسے سیاسی فیصلے کو قول و قرار کی سنگین خلاف ورزی سمجھیں گے اور اس سے پاکستان اور برطانیہ کے آئندہ (استوار ہونے والے ) دوستانہ تعلقات متأثر ہو سکتے ہیں۔ 29 اپریل 1950ء کو امریکا جاتے ہوئے لیاقت علی خان نے لندن میں مختصر قیام کیا، جہاں سے وہ یکم مئی کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین (Trueman) کے خصوصی طیارے INDEPENDENCE کے ذریعے امریکا تشریف لے گئے۔ 
چار مئی 1950ء کو انہوں نے امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے خطاب کیا۔ ان کے دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے وائس آف امریکا کے ذریعے امریکی عوام سے بھی خطاب کیا۔ 30 مئی 1950ء کو شہید ملت کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوئے، جب کہ بیس جولائی 1950ء کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا۔ 9 اکتوبر 1950ء کو لیاقت علی خان، پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ ستائیس دسمبر 1950ء کو انہیں سندھ یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لا کی اعزازی سند عطا کی گئی۔ سات جنوری 1951ء کو وہ ایک بار پھر لندن تشریف لے گئے،اس مرتبہ ان کے دورے کا مقصد دولت مشترکہ کی سربراہ کانفرنس میں شرکت تھا۔ 9 مارچ 1951ء کو انہوں نے راول پنڈی سازش کیس کے سلسلے میں اپنا بیان جاری کیا۔
سولہ اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ، راول پنڈی میں جلسہ عام کا آغاز ہوا تو بلدیہ کمیٹی کے سربراہ شیخ مسعود صادق نے سپاس نامہ پیش کیا۔ قائد ملت نے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ کرائے کے قاتل سَید (Sayd) اکبر نے اُن پر گولیاں برسا دیں۔ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اولین وزیراعظم، لیاقت علی خان اس حملے کی تاب نہ لا سکے اور اس دعا کے ساتھ دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے:’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے!‘‘ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد کمپنی باغ کو ’لیاقت باغ‘ کا نام دیا گیا۔ اس سانحے کے چھپن سال بعد، اسی جگہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی قاتلانہ حملے میں جا ں بحق ہو گئیں…. یوں یہ مقام دو راہ نماؤں کے لیے مقتل ثابت ہوا۔ آج پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے شہید ملت کی جیسی لیاقت اور بے لوث قیادت، نیز قربانی کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔
سہیل احمد صدیقی  
0 notes
news6tvpakistan · 5 years
Link
Tumblr media
 وطن پاک میں عظیم ترین لوگوں کی مساعی جمیلہ کا کردا ر مختلف شعبوں میں رہا ہے۔ دین اسلام سے محبت اور جدید دُنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ معاشرئے کی نفسیاتی سوچ میں ہمہ گیر مثبت ردِ عمل کے فروغ میں جسٹس پیرکرم شاہؒ جیسے عظیم مصلع مدبر،دانشور بیمثل خطیب، نامور قانون دان، تاریخ دان،اُستاد کا بہت بڑا کردار ہے۔ بھیرہ سرگودہا کی مردم خیز مٹی میں پروان چڑھنے والی عظیم شخصیت جسٹس پیرکرم ��اہؒ نے معاشرتی، سماجی، عمرانی، مذہبی اور نفسیاتی حوالوں سے معاشرئے پر انمٹ اثرات چھوڑئے ہیں بلکہ یہ وہ شخصیت ہیں جن کا عشقِ رسول 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کے حوالے سے معاشرئے کی روحانی اقدار میں اتنا بڑا کام ہے شائد مستقبل کا ہی مورخ اس کا احاطہ کر پائے۔قیام پاکستان سے پہلے ہی یہ عظیم شخصیت اپنی مجاہدانہ صلاحیتوں سے امن وآشتی اور شمع توحید ورسالت کے حوالے سے سرگرم عمل رہی۔ اپنے والدِ محترم کی خواہش پر آپ نے عالم اسلام کی عظیم اسلامی جامعہ الازہر سے اکتساب فیض کیا۔ اگر پیرکرم شاہ صاحبؒ کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو عقلی تقاضے حیرانی کے سمندر میں سرگرداں نظر آتے ہیں کہ ان کی شخصیت کا کونسا پہلو ہے جس کا احاطہ کیا جائے ایک ایسے اُستاد کہ پاکستان بھر میں آپ 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کے تعلیمی ادارئے قائم ہیں یعنی دارلعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سے علم وآگہی کے وہ سرچشمے پھوٹ رہے ہیں کہ معاشرئے میں ان کی نفوس پذیری کی مشال نہیں ملتی۔ ان کے قائم کردہ ادارئے نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ، سپین، برطانیہ، فرانس لاتعداد غیر ممالک میں دین اسلام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسی طرح آپؒ کے ادارئے کے بیشمار طلبہءاپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے ہر سال باقاعدگی سے جامعہ الاازہر میں داخلہ لیتے ہیں اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطع کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آپؒ کے قائم کردہ تعلیم ادروں میں کمپیوٹر، 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
معاشیات،سائنس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ درحقیقت پیر کرم شاہ صاحبؒ کے تعلیمی مشن کا سب سے کامیاب پہلو یہ ہے کہ انھوں نے دینی ادروں میں ماڈریٹ سوچ کو پروان چڑھایا اور علمی تحقیقی امور پر زور دیا۔ روایتی اور جدیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ مذہبی تعلیمی امور کو وسعت دی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کے ادروں سے فارغ التحصیل افراد معاشرئے میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو کہ نفوذپزیری کا حامل ہے۔ ایک اہم نکتہ جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ پیر صاحبؒ نے اہلسنت عوام کو معتدل رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ جمیت علما 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ئے پاکستان کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں بھی وقت کے فرعونوں کو للکارا اور تحریک نظام مصطفے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح آپؒ کا تحریک ختم نبوت میں بھی شاندار کردار رہا۔ ملک کے طول و عرض میں عشقِ مصطفے کے فروغ کے لیے دورے فرمائے اور اسی طرح آپ ؒ کی دینی و تبلیغی کاوشیں یورپ، امریکہ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔روحانی اعتبار سے پیرکرم شاہ صاحبؒ کا تعلق چشتی سلسلے تھا۔لیکن آپ تمام سلاسل میں انتہائی محترم ترین ہستی کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ زاویہ فاونڈیشن کے زیرِاہتمام لاہور میں منعقدہ ایک سیمینار میں جہاں 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
راقم بھی شریک تھا آپ کے صاحبزادہ صاحب جناب پیر امین الحسنات صاحب نے فرمایا تھا کہ ہمارئے والد صاحبؒ نے ہمیں ہمیشہ ایک بات کی تلقین کرتے تھے کہ بیٹا ہمیشہ اسلام، پاکستان اور نبی پاک سے محبت کرنی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیرامین الحسنات صاحب وطن پاک کی خاطر ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔جناب جسٹس پیر کرم شاہ صاحب کا ایک بہت بڑا کارنامہ ضیاالقران پبلیکیشنز کی صورت میں ایک عظیم ادارئے کا قیام ہے جو پوری دنیا میں اسلامی کتب کی اشاعت اُردو کے علاوہ قرانِ مجید کے تراجم کی دنیا کی مختلف زبانوں میں اشاعت میں 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مصروفِ عمل ہے۔ اس کام میں آپؒ کے صاحبزدگان جناب حفیظ البرکات صاحب، میجر ابراہیم شاہ صاحب اور محسن شاہ صاحب کا فعال کردار ہے۔وطن عزیز کی سیاسی سماجی، معاشی، عمرانی حوالے سے رہنمائی کے لیے ماہنامہ ضیائے حرم عظیم صحافتی کردار کا حامل ہے یہ میگزین عالم اسلام کی ہر حوالے سے رہنمائی میں قابل ر شک کردار ادا کررہا ہے۔ ضیائے حرم میگزین میں جناب جسٹس پیرکرم شاہؒ کے اداریے اور مضامین پوری قوم اور پورے عالمِ اسلام کےلئے مشعلِ راہ ہیں۔ جسٹس پیرکرم شاہ ؒکا ایک بہت عظیم کا ر نامہ قران مجید کی تفسیر ضیاالقران ہے جو 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کہ لاجواب علمی و روحانی کاوش ہے جس کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے عشقِ نبی پاک میں ڈوب کر لازوال ضیاالنبی کی تحریری کاوش کی جس کا ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ نبی پاک کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ راقم کی پیر کرم شاہ صاحب ؒ سے ملاقات اپنے پیرومرشد اور ماموں جان جناب حضرت پیر میاں عنائت خان قادری نوشاہی صاحب کے گھر میں ایک سے زیادہ مرتبہ ہوئی اور راقم کو پیر صاحب کی روحانی شخصیت سے اکتساب فیض کا موقع ملا۔ یقیناً ان جیسی ہستیوں کا روحانی فیض تاابد جاری رہے گا۔ پیر 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کرم شاہ صاحبؒ نے بطور جج قابلِ ذکر کردار ادا کیا اور کئی لازوال فیصلے فقہی معاملات کے حوالے سے دیے۔پیر کرم شاہ صاحب کا ہمارے معاشرئے پر ایک اور بہت بڑا احسان عشق رسول کی علمبردار طلبہ تنظیم انجمن طلبہ اسلام کی سرپرستی ہے۔ پیرکرم شاہ صاحب ؒنے ہمیشہ ہر معاملے میں انجمن طلبہ اسلا م کے تحریکی، تنظیمی اور تربیتی کاموں میں مدد کی۔ یوں معاشرئے میں عشقِ رسول کے فروغ کے لیے ایک عظیم گروہ تیار کیا جو زندگی کہ ہر شعبے میں فعا لیت کا حامل ہے۔ جناب پیر کرم شاہ صاحب ؒ کی جہدوجد ہمیشہ دین اسلام کی سربلندی کے لیے 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رہی۔ اگر ہم ان کی معاشرے کے لیے خدمات کا تزکرہ کریں تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دین کی محبت اور وطن سے لگا ¶ کی انمٹ داستان رقم کی۔آپ نہ صرف خود بلکہ اپنے حلقہِ اردات میں شامل افراد کا معاشرئے میں فعال کردار ادا کرنے کے داعی تھے۔ دین کی خدمت میں روز و شب اپنی مسا عی جمیلہ میں شبنم کے قطروں کی ماند آپ کے شاگرد اور مریدین پوری دنیا میں دینی فلاحی خدمات میں مصروف عمل ہیں۔آپ کے ہی حلقہ اردات میں شامل افراد زندگی کے بے شمار شعبوں میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک 
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بات جو ببانگِ دہل کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ پیر محمد کرم شاہ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ کی جدوجہد کے تسلسل کے علمبردار تھے۔ اُ پ کے قائم کردہ ادارئے اور اُن اداروں سے فیض یاب ہونے والے افراد معاشرئے میں اپنی خدمات اس انداز میں سر انجام دے رہے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیر کرم شاہ صاحب ؒ کا مشن جاری وساری ہے۔ رب پاک پیر کر م شاہ صاحبؒ کے درجات کو بلند فرمائے اور ان جیسی عظیم روحانی شخصیات کے طفیل اس ارض پاک کی حفاطت فرمائے۔(آمین)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
عمران خان کی ٹیم سے معیشت سنبھل نہیں رہی، تجزیہ کار
واشنگٹن — 
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو معاشی محاذ پر مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ملک میں مہنگائی کا گراف اونچا ہو رہا ہے اور کاروبار سمٹ رہا ہے۔ جس سے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کی تکمیل میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔
حکومت ایک کروڑ ملازمتوں، اور پچاس لاکھ نئے گھروں کے وعدے اور کرپشن کے خاتمے کے دعوؤں کے ساتھ انتخابی میدان میں اتری تھی۔
بدعنوانی کے خلاف مہم میں حکومت نے مبینہ غیرملکی اکاؤنٹ رکھنے والے 172 افراد کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگا دی ہے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور سندھ حکومت کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب ملک کی ایک اور بڑی اہم سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے قائدین جیلوں میں ہیں اور ان کے کئی دوسرے راہنماؤں پر نیب میں مقدمے چل رہے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف کارروائیوں سے تحریک انصاف کو سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔
عمران خان نے حکومت سازی کے لیے چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت برقرار رکھنے کے لیے انہیں چھوٹی جماعتوں کے مطالبے ماننے پڑ رہے ہیں جس سے تحریک انصاف کو اپنا منشور لاگو کرنے میں مشکلات پیش آ ��ہی ہیں۔
معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت سدھارنے کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود حکومت کے پاس حکمت عملی کا فقدان ہے۔
کراچی کے ایک ماہر معاشیات شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ حکومت نے سرمایہ کاری میں کمی پر قابو پانے کے لیے اسلامی بینکوں سے رابطہ کیا ہے اور اس سلسلے میں سکوک بانڈ جاری کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ سکوک بانڈ کا نظام سود پر انحصار کرتا ہے جس کی شرح مغربی ملکوں کی شرح سود سے زیادہ ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت تعلیمی بجٹ میں سے گھروں کی تعمیر کے لیے فنڈز نکالنا چاہتی ہے جس کے بعد وہ بنیادی تعلیم کے اہداف پورے نہیں کر پائے گی جب کہ ملک میں لاکھوں بچے ابھی تک اسکول نہیں جا پا رہے۔
شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ حکومت صوبائی ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دے رہی ہے۔ جب کہ اس میں نصف رقم خردبرد کر لی جاتی ہے اور یہ فنڈز بدعنوانی کی جڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پیرس یونیورسٹی میں بین الاقوامی مالیات کے پروفیسر عطا محمد کہتے ہیں کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے اور امکان ہے کہ اس کا نام بین الاقوامی دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ملکوں کی بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ لیکن دوسری جانب جب پاکستان کے معاشی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ حکومت سے معیشت سنبھل نہیں رہی۔
مزید تفصیلات کے اس آڈٰیو لنک پر کلک کریں۔
The post عمران خان کی ٹیم سے معیشت سنبھل نہیں رہی، تجزیہ کار appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sv8LGR via Daily Khabrain
0 notes