Tumgik
#اچھی صفات کے لیے دعا
discoverislam · 8 months
Text
فہم و فراست، تدبّر و تفکّر کی فضیلت
Tumblr media
خدائے برتر نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور پوری کائنات کو محض اسی کے لیے پیدا فرمایا۔ اسی انسان کے اندر ظلمت و نور، خیر و شر، نیکی اور بدی جیسی ایک دوسرے کی مخالف صفات بھی پیدا فرما دیں، اب اگر انسان چاہے تو ان متضاد صفات کے ذریعے تمام مخلوق سے افضل اور برتر ہو سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو تمام تر پستیوں سے بھی گزر جائے۔ اگر خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتا ہے تو خدا فرماتا ہے، مفہوم: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و سمندر پر چلنے کی اور سفر کی طاقت دی۔‘‘ اسی طرح اگر یہی انسان اپنے اندر قرآن حکیم کی ہدایات اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے تو پھر قرآن میں خدا نے وعدہ فرمایا، مفہوم: ’’اور تم ہی بلند ہو اگر تم مومن ہو جاؤ۔‘‘ لیکن اگر انسان اپنے آپ کو قرآنی چشمہ ہدایت سے محروم رکھے تو پھر قرآن میں باری تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا، مفہوم: ’’ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘ خداوند کریم کی وہ امانت جس کے اٹھانے سے تمام کائنات عاجز رہی ﷲ جل جلالہ نے اس امانت کو انسان کے سپرد فرمایا، اس امانت کے کچھ تقاضے ہیں اور قرآن کریم انسان سے ان تقاضوں کی تکمیل اور اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اس امانت کے بار کو سنبھالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس تمام تر ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے انسان تین قوتوں سے کام لیتا ہے اور انہی تین قوتوں کو علماء اخلاق اور حکمائے اسلام نے تمام اچھے اور برے اخلاق و اعمال کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ان میں پہلی قوت فکر ہے جسے سوچ اور علم کی طاقت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری غصہ کی طاقت۔ اور تیسری خواہشات کی طاقت۔ اب اگر ان تینوں قوتوں کو اعتدال میں رکھا جائے تو انسان کام یاب ہو جاتا ہے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں ناکام رہتا ہے۔ سوچنے کی قوت کو استعمال کرنے اور اسے اعتدال میں رکھنے کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات میں تدبر کا حکم ملتا ہے۔ تدبر کا لفظی معنی غور و فکر کرنا، دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر کوئی کام کرنا۔ انسان تدبر سے کام لینے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے لیکن دو چیزیں تدبر اختیار کرنے سے روکتی ہیں، ایک غصہ دوسرے جلد بازی۔ جس طرح اسلام نے باقی تمام قوتوں کے لیے اعتدال کا حکم دیا ہے اسی طرح غصے کے بارے میں بھی اعتدال اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ یعنی نہ اس کا استعمال بے جا کیا جائے اور نہ ہی بالکل کمی کر دی جائے۔
Tumblr media
اگر غصے کی کیفیت اور اس کی قوت کو بالکل استعمال نہ کیا جائے تو یہ کیفیت بزدلی کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور اس کیفیت سے حضور اکرم ﷺ نے بھی پناہ مانگتے ہوئے دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے ﷲ! مجھے بزدلی سے بچا۔‘‘ لیکن اگر غصہ کا استعمال ہر جگہ کیا جائے تو پھر ایک انسان اچھے بھلے معاشرہ میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے اور اہل معاشرہ کی زندگی سے سکون رخصت ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو یہ کام کرنے سے پہلے خصوصاً غصہ کے وقت میں تدبر یعنی غور و فکر اور سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ دوسری چیز جو انسان کو تدبر اختیار کرنے نہیں دیتی وہ جلد بازی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کاموں کی متانت، اطمینان اور سوچ سمجھ کر انجام دینا ﷲ کی طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ذمہ داری کو اطمینان سے انجام دینے کی عادت اچھی ہے اس کے برعکس جلد بازی ایک بری عادت ہے اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ 
حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق بردباری اور غور و فکر کے بعد کام کرنا ﷲ کو بہت پسند ہے۔ چناں چہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچا، چوں کہ یہ لوگ کافی دور سے آئے تھے اس لیے گرد و غبار میں اٹے پڑے تھے جب یہ لوگ سواریوں سے اترے بغیر نہائے دھوئے، نہ اپنا سامان قرینے سے رکھا نہ سواریوں کو اچھی طرح باندھا، فوراً جلدی سے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے لیکن اس وفد کے سربراہ جن کا نام منذر بن عائذ تھا انہوں نے کسی قسم کی جلد بازی نہ کی بلکہ اطمینان سے اترے سامان کو قرینے سے ر کھا، سواریوں کو دانہ پانی دیا، پھر نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر وقار کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے وفد کے سربراہ منذر بن عائذ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور فرمایا: ’’بے شک! تمہارے اندر دو خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک صفت بردباری اور دوسری صفت ٹھہر ٹھہر کر غور و فکر کر کے کام کرنے کی ہے۔‘‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان ہر کام سوچ و بچار کے بعد تحمل سے کرتا ہے تو وہ شخص اکثر مکمل کام کرتا ہے اور بہت کم نقصان اٹھاتا ہے۔
جب کہ بغیر سوچے سمجھے جلد بازی سے کام کرنے والے ایک عجیب قسم کے ذہنی خلجان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اکثر نامکمل اور ناقص کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی احکام کے مطابق مسلمانوں کو تدبر یعنی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور مومن کی شان بھی یہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’مومن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔‘‘ (اس لیے کہ مومن ہر کام غور و فکر اور تدبر سے کرتا ہے) یہ ارشاد آنحضور ﷺ نے اس وقت فرمایا جب کفار کا ایک شاعر ابُوعزہ مسلمانوں کی بہت زیادہ ہجو کیا کرتا تھا۔ کفار اور مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا اور بھڑکاتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب یہ شاعر گرفتار ہوا تو حضور ﷺ کے سامنے اپنی تنگ دستی اور اپنے بچوں کا رونا روتا رہا، آپؐ نے ترس کھا کر فدیہ لیے بغیر اسے رہا فرما دیا، اس نے وعدہ کیا کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آئندہ مسلمانوں کے خلاف ایسی حرکات نہیں کرے گا لیکن یہ کم ظرف شخص رہائی پانے کے بعد اپنے قبیلہ میں جا کر دوبارہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے لگا۔ غزوہ احد میں دوبارہ گرفتار ہو گیا۔ اب پھر وہی مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کر دیے، رحم کی اپیلیں کرنے لگا لیکن حضور ﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آگئی کہ ایک عمل کرنے سے اگر کوئی نقصان ہو تو دوسری دفعہ وہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔
ایک مرتبہ ایک شخص جناب رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے کام کو تدبر اور تدبیر سے کیا کرو اگر کام کا انجام اچھا نظر آئے تو اسے کرو اور اگر انجام میں خرابی اور گم راہی نظر آئے تو اسے چھوڑ دو۔‘‘ قرآن حکیم میں ﷲ رب العزت نے جا بہ جا تدبر کی ترغیب دی اور قرآن میں غور و فکر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ خدا کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا۔‘‘ پھر ﷲ تعالیٰ سورۂ محمد میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہوئے ہیں۔‘‘ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس میں چند چیزیں قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وہ غور کیوں نہیں کرتے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ کیوں نہیں پڑھتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کے تمام مضامین میں بالکل اختلاف نہیں بہ شرطے کہ گہری نظر سے غور و فکر کے ساتھ قرآن پڑھا جائے۔ اور قرآن کا اچھی طرح سمجھنا تدبر ہی سے ہو سکتا ہے بغیر سوچے سمجھے پڑھنے سے یہ چیز حاصل نہ ہو گی۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب اور مفہوم میں غور کرے۔ تمام علوم کی مہارت رکھنے والے علماء جب قرآن میں تدبر کریں گے تو ہر ایک آیت سے سیکڑوں مسائل کا حل تلاش کر کے امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ اور عام آدمی اگر قرآن حکیم کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر غور و فکر اور تدبر کرے گا تو اسے ﷲ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گی۔ البتہ عام آدمی کو غلط فہمی اور مغالطے سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً تفسیر کے ساتھ پڑ ھ لیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند اور معتبر تفسیر کا مطالعہ کر لیں اور جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا شبہ پیدا ہو وہاں اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علماء سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ مومنین کی شان قرآن حکیم میں یہ بیان ہوئی، مفہوم: ’’اور جب ان کو ان کے پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گزر جاتے۔‘‘ یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ تدبر اور غور و فکر سے کام لے کر احکام اسلامی کو ادا کرے۔ ﷲ رب العزت ہمیں قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سوچ بچار، غور و فکر اور تدبر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی  
0 notes
okasha-calligraphy · 4 years
Photo
Tumblr media
ٓٓآفتاب ِ خطاط ۔۔۔خورشید عالم گوہر سایہ جوار ِ رحمت میں عکاشہ ساھل آسمان کا حسن ستاروں سے ہے تو زمین کا حسن۔۔۔۔ نجیب وشریف ، حلیم وکریم ، عالی ظرف اور صاحب ِ کردار انسانوں سے ہے ۔ جب ستارے جگمگاتے ہیں توآسمان خوبصورت لگتا ہے ۔ اسی طرح شرافت ونجابت کے پیکرانسان جب زمین پر چلتے ہیں تو ان کے چلنے سے زمین روشن اور خوبصورت ہوتی ہے ۔ استاد خورشید عالم گوہر قلم بھی زمین کا حسن ، انسانیت کے ماتھے کا جھومر ، سرمایہ شرافت ، سراپا خیر وبرکت ، ابر بہار اور شجر سایہ دار تھے ۔خورشید عالم گوہر شاہینوں کے شہر سرگودھا کے قصبہ دھریمہ میں 1956ءمیں تولد ہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی ۔ اس کے بعد مزید تعلیم لاہور سے حاصل کی ۔ انہوں نے خطاطی سیکھنے کاآغاز کم عمری میں ہی اپنے خاندان کے بزرگوں سے کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے وقت کے نامور اساتذہ سید اسماعیل دہلوی اورحافظ محمدیوسف سدیدی سے خطاطی کی مشق لی۔ ریاضت کے ساتھ ساتھ وہ عرب اساتذہ کے فن پاروں اور مرقع جات کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے رہتے۔مسلسل ریاضت کا ثمرہ تھا کہ وہ کم وقت میں شہرت ورفعت کی منزلیں طے کرتے چلے گئے ۔والدین نے ان کا نام ” خورشید “ رکھا ۔ وہ اسم بامسمی تھے ۔ یعنی خطاطی کے افق کاآفتاب ۔ معلمی کاپیشہ خیر وبرکت اور عزت واحترام کا باعث ہے۔ کائنات کی سب سے معززومحترم ہستی ، نبی رحمت، رسول مکرم ، ﷺ فرماتے ہیں اللہ نے مجھے معلم بناکر مبعوث کیا ہے ۔ خورشید عالم گوہر بھی قوم کے معلم تھے ۔ ان کی زندگی کا بڑاحصہ تدریس میں گزرا ہے ۔ تدریس بھی ۔۔۔۔خطاطی کی۔۔۔۔۔ جو مسلمانوں کا تہذیبی وثقافتی ورثہ ہے ۔ خطاطی کے فن کو مسلمان علما ، صلحا، فقہا ، زعما ، امرا ، حکمرانوں اور بادشاہوں نے صدیوں تک سینچا ، سنوارا ، نکھارااور پروان چڑھایا۔ اس طرح سے یہ فن خوبصورتی کی منازل طے کرتا ہوا اپنے جمال وکمال کو جا پہنچا۔ خطاطی ۔۔۔۔کا تعلق قرآن مجید ، احادیث کی کتب ، مساجد اور دیگر مقدس مقامات سے ہے ۔ اس باعث خطاطی کا فن بھی مسلمانوں کے ہاں قابل تکریم وتعظیم ٹھہرا اورجو لوگ اس فن کے ساتھ وابستہ ہوگئے ۔۔۔۔۔وہ مسلمان معاشروں میں عزت ، محبت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے گئے ۔ خطاطی نہایت ہی پاکیزہ فن ہے یہ انسان کی شخصیت میں خوبصورتی ، شائستگی ، تحمل ،بردباری اور ریاضت پیدا کرتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ استاد خورشید عالم گوہر قلم شائسگتی ، تحمل ، نفاست اور بردباری کی صفات سے متصف تھے ۔ ایک طرح سے ان کی شخصیت میں وقار اوراحترام تھا ۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے سامنے کئی سال بطور طالب علم زانوئے تلمذ تہ کرنے کا موقع ملا ۔ ان سے2015ءمیری پہلی ملاقات Da art Instituteمیں ہوئی ۔ یہاں میں نے ان سے تقریباََ ڈیڑھ سال خطاطی سیکھی ۔ اس کے بعد نیشنل کالج آف آرٹس میں ایک سال پھر ان سے خطاطی کے اسرار ورموز سیکھنے اور سمجھنے کااعزاز حاصل ہوا ۔اسی ادارے میں ایک سال میں نے ڈارئننگ پینٹنگ کا ڈپلومہ کیا ۔ ڈارئننگ ڈپلومہ کی کلاس ہفتے میں پانچ دن ہوتی تھی اورہر کلاس کا دورانیہ تین گھنٹے کا تھا ۔ اس دوران بھی ان سے ملاقاتیں کرنے اور کچھ نہ کچھ سیکھنے کا شرف حاصل ہوتا رہا ۔بعدازاں جب میں نے اپناادارہ بنام ” لاہورسکول آف آرٹ “ بنایا تویہ ان کی عالی ظرفی تھی کہ وہ مجھ ناچیزکے کہنے پروہاں تشریف لائے ۔ دارالسلام میں خطاطی کی کلاسز شروع کیں تو وہاں بھی حوصلہ افزائی کے لیے آتے رہے اور طلبہ سے خطاب بھی کیا ۔ اس طرح استاد خورشید عالم گوہر کے ساتھ2015ءمیں استوار ہونے والا تعلق ان کے دار ِ فانی سے رخصت تک قائم رہا ۔ یہاں میں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو تین سوسال سے خطاطی کی خدمت کرتا چلاآرہا ہے ۔ اس لیے آپ یوں سمجھ لیں کہ خطاطی میرے خون میں شامل ہے اور مجھے خطاطی سیکھنے کا شوق جنون کی حد تک ہے ۔ میرایہ جنون مجھے استاد گوہر قلم کے بہت قریب لے گیا ۔میری کوشش ہوتی کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت ان کے پاس گزاروں ، ان کے پاس بیٹھوں ، کچھ سیکھوں اور ان کی باتیں سنوں ۔ اس دوران میں جتناان کے قریب ہوااتناہی ان کی شخصیت کا گرویدہ ہوتاچلاگیا ۔ان کے ساتھ گزراہوایک ایک لمحہ قیمتی متاع ہے۔ اس دوران میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا جیسے خط ِ ثلث ، خط ِ نستعلیق، خط ِ نسخ ، خط ِ دیوانی ، خط رقہ اورخط ِ طغراوغیرہ ۔خطِ طغرا سے یاد آیاکہ اس خط میں انہیںبے پناہ مہارت تھی ۔بس یوں سمجھ لیں کہ اس خط میں وہ اپنی مثال آپ تھے جبکہ خط ِ نستعلیق اور خط ِ ثلث ان کی پہچان تھی ۔ان کی شخصیت ایک ایسے گلستان کی طرح تھی جس میں بہت سے پھول سجے ہوتے ہیں اور ہر پھول کی اپنی دلکش اور مسحور کن خشوبو ہوتی ہے ۔ان کی شخصیت کے مسحور کن گلدستے میں مذہب ، انسانیت سے محبت ، مخلوق ِ خدا کی خدمت ، تصوف، ادب ، وقت کی پابندی ، مزاج میں ٹھہراﺅ، سیاست اور تاریخ پر دسترس کے رنگ نمایاں تھے ۔ وہ خطاطی کی تقریباََ تمام اقسام اور ان کے تاریخی پس منظر پر مہارت تامہ رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف ممالک کے جدید وقدیم خطاط کی خدمات اور کمالات سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ان کا دامن خطاطی کے علوم کی دولت سے بھرا ہواتھااوروہ زندگی کی آخری سانس تک یہ دولت اپنے شاگردوں اور چاہنے والوں میں لٹاتے رہے ۔میں ان کو ” استاد جی “ کہا کرتا تھا ۔اس لیے کہ جو چاشنی ، محبت اور احترام ” استاد جی “ کے لفظ میں ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے لفظ میں نہیں ہے ۔ استاد خورشید عالم گوہر قلم واقعی خطاطی کے استاد تھے بلکہ وہ دور حاضر میں خطاطی کے امام تھے ۔ وہ عالمی شہرت کے حامل اوربیشمار اعزازات و کمالات کے مالک تھے ۔وہ صدارتی ایوارڈ یافتہ تھے جو بلاشبہ پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز ہے ۔انہیں جاپان میں ہونے والے 27ویں انٹرنیشنل مقابلہ خطاطی میں بھی اعلی ترین ایوارڈ سے نوازا گیا ۔انہوں نے اندرون وبیرون ملک خطاطی کی بیشمار نمائشوں میں حصہ لیا اور لاتعداد انعامات واعزازات سے نوازے گئے۔ جس طرح استاد خورشید عالم عالمی شہرت کے حامل تھے ایسے ہی ان کے فن پارے بھی دنیا میں ایک مقام اور نام رکھتے ہیں ۔وہ پاکستان کے واحد خطاط ہیں کہ ان کے ہاتھ کے تیار کردہ فن پارے ماسکو کے سب سے بڑے اور قدیمی میوزی��، لندن میوزیم اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے میوزیم کی زینت ہیں ۔ گویا وہ فن خطاطی میں رفعت وعزت کے اعلی مقام پر فائزتھے لیکن دوسری طرف وہ عجز وانکسار کا پیکر تھے ۔ تکبر ، انانیت ، غرور اپنی ذات یا علم پر۔۔۔۔ گھمنڈ ان کو چھو کر بھی نہ گزراتھا ۔ وہ عادات واطوار میں بہت سادہ ، نرم مزاج اور ملنسار تھے ۔ یوں تو ان کی سب عادات ہی متاثر کن تھیں لیکن سب سے اچھی عادت جس نے مجھے بہت متاثر کیاوہ یہ تھی کہ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ۔وہ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ صراحی سرنگوں ہو کرہی بھرا کرتی ہے پیمانہ ۔یہی وجہ تھی کہ وہ اخوت کا بیاں اور محبت کا پیغام تھے ، پاک دل وپاک باز تھے ،شاذونادر ہی غصہ کرتے اگر کبھی غصہ آتابھی تو بہت معمولی ان کا غصہ پانی پر جھاگ کی طرح ہوتا جو فوراََ ہی کافور ہوجاتا ۔ اسلامی خطاطی کی تاریخ کم وبیش چودہ سوسال پر محیط ہے اس عرصہ میں بلاشبہ لاکھوں خطاط اور خوش نویس ہوگزرے ہیں ۔ ہر خطاط نے اپنے اپنے وقت میں بہت کام کیااور نام کمایا ہے لیکن استاد خورشید گوہر قلم کے کچھ کام ایسے ہیں جوانہیں تاریخ کے دیگر تمام خطاطوں سے ممیزوممتازکرتے ہیں ۔ اس ضمن میں ان کا سب سے اہم کارنامہ 406اقسام ِ خطاطی پر مشتمل ” عجائب القرآن “ ہے ۔ یہ ایک ایسا عظیم شہ پارہ ہے جس میں خطاطی کی چودہ سوسال کی تاریخ کو سمودیاگیا ہے ۔ یہ منفرد اور عظیم شہ پارہ فیصل مسجد اسلام آباد میں تیس الگ الگ شوکیسوں میں محفوظ ہے ۔ عصر حاضر میں خطاطی کے امام استاد خورشید گوہر قلم کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ” ن ۔ والقلم “ کے نام سے تاریخ خطاطی پر ایک سکرپٹ لکھا جو پندرہ قسطوں میں پاکستان ٹیلی ویژن پر آن ائیر ہوا۔یہ بر صغیر پاک وہند میں تاریخ ِ خطاطی پر اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا ۔ ان کا تیسراکارنامہ خطاطی اور اس کی اقسام پر ایک درجن سے زائد کتب ہیں ۔ کسی ایک شخص کے ہاتھ سے خطاطی پر ایک درجن سے زائد کتب کی تصنیف بھی انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔ ” عجائب القرآن “ ۔۔۔۔ن۔ والقلم اور خطاطی کی تاریخ ،اقسام پرمشتمل ایک درجن سے زائد کتب ۔۔۔استاد خورشید عالم گوہر کی اپنے فن سے بے پایاں محبت کا زندہ جاوید ثبوت ہیں ۔ ان شہ پاروں کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے استاد گوہر قلم کا فن تاقیامت زندہ و تابندہ رہے گا۔دعا ہے کہ اللہ استاد جی کو سایہ جوار ِ رحمت میں جگہ عطافرمائے ۔ آمین ثم آمین
0 notes
humlog786-blog · 5 years
Text
کتے کی دعا - افسانہ - سعادت حسن منٹو
Tumblr media
’آپ یقین نہیں کریں گے۔ مگر یہ واقعہ جو میں آپ کو سنانے والا ہوں، بالکل صحیح ہے۔ ‘ یہ کہہ کرشیخ صاحب نے بیڑی سلگائی۔ دو تین زور کے کش لے کر اسے پھینک دیا اور اپنی داستان سنانا شروع کی۔ شیخ صاحب کے مزاج سے ہم واقف تھے، اس لیے ہم خاموشی سے سنتے رہے۔ درمیان میں ان کو کہیں بھی نہ ٹوکا۔ آپ نے واقعہ یوں بیان کرنا شروع کیا۔ ’’گولڈی میرے پاس پندرہ برس سے تھا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ اس کا رنگ سنہری مائل بھوسلا تھا۔ بہت ہی حسین کتا تھا جب میں صبح اس کے ساتھ باغ کی سیر کو نکلتا تو لوگ اسکو دیکھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔ لارنس گارڈن کے باہر میں اسے کھڑا کردیتا۔ ’’گولڈی کھڑے رہنا یہاں۔ میں ابھی آتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر میں باغ کے اندر چلا جاتا۔ گھوم پھر کر آدھے گھنٹے کے بعد واپس آتا تو گولڈی وہیں اپنے لمبے لمبے کان لٹکائے کھڑا ہوتا۔ اسپنیل ذات کے کتے عام طورپربڑے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہوتے ہیں۔ مگر میرے گولڈی میں یہ صفات بہت نمایاں تھیں۔ جب تک اسکو اپنے ہاتھ سے کھانا نہ دوں نہیں کھاتا تھا۔ دوست یاروں نے میرا مان توڑنے کے لیے لاکھوں جتن کیے مگر گولڈی نے ان کے ہاتھ سے ایک دانہ تک نہ کھایا۔ ایک روز اتفاق کی بات ہے کہ میں لارنس کے باہر اسے چھوڑ کر اندر گیا تو ایک دوست مل گیا۔ گھومتے گھومتے کافی دیر ہو گئی۔ اس کے بعد وہ مجھے اپنی کوٹھی لے گیا۔ مجھے شطرنج کھیلنے کا مرض تھا۔ بازی شروع ہوئی تو میں دنیا مافیا بھول گیا۔ کئی گھنٹے بیت گئے۔ دفعتہً مجھے گولڈی کا خیال آیا۔ بازی چھوڑ کر لارنس کے گیٹ کی طرف بھاگا۔ گولڈی وہیں اپنے لمبے لمبے کان لٹکائے کھڑا تھا۔ مجھے اس نے عجیب نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہے ’’دوست، تم نے آج اچھا سلوک کیا مجھ سے‘‘ میں بے حد نادم ہوا چنانچہ آپ یقین جانیں میں نے شطرنج کھیلنا چھوڑ دی۔ معاف کیجیے گا۔ میں اصل واقعے کی طرف ابھی تک نہیں آیا۔ دراصل گولڈی کی بات شروع ہوئی تو میں چاہتا ہوں کہ اسکے متعلق مجھے جتنی باتیں یاد ہیں آپکو سنا دوں۔ مجھے اس سے بے حد محبت تھی۔ میرے مجرد رہنے کا ایک باعث اسکی محبت بھی تھی جب میں نے شادی نہ کرنے کا تہیہ کیا تواس کو خصی کرادیا۔ آپ شاید کہیں کہ میں نے ظلم کیا، لیکن میں سمجھتا ہوں۔ محبت میں ہر چیز روا ہے۔ میں اسکی ذات کے سوا اور کسی کو وابستہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ کئی بار میں نے سوچا اگر میں مر گیا تو یہ کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ کچھ دیر میری موت کا اثر اس پر رہے گا۔ اس کے بعد مجھے بھول کر اپنے نئے آقا سے محبت کرنا شروع کردے گا جب میں یہ سوچتا تو مجھے بہت دکھ ہوتا۔ لیکن میں نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اگرمجھے اپنی موت کی آمد کا پورا یقین ہو گیا تو میں گولڈی کو ہلاک کردوں گا۔ آنکھیں بند کرکے اسے گولی کا نشانہ بنا دوں گا۔ گولڈی کبھی ایک لمحے کے لیے مجھ سے جدا نہیں ہوا تھا۔ رات کو ہمیشہ میرے ساتھ سوتا۔ میری تنہا زندگی میں وہ ایک روشنی تھی۔ میری بے حد پھیکی زندگی میں اسکا وجود ایک شیرینی تھا۔ اس سے میری غیر معمولی محبت دیکھ کر کئی دوست مذاق اڑاتے تھے۔ ’’شیخ صاحب گولڈی کتیا ہوتی تو آپ نے ضرور اس سے شادی کر لی ہوتی۔ ‘‘ ایسے ہی کئی اور فقرے کسے جاتے لیکن میں مسکرا دیتا۔ گولڈی بڑا ذہین تھا اس کے متعلق جب کوئی بات ہوئی تو فوراً اس کے کان کھڑے ہو جاتے تھے۔ میرے ہلکے سے ہلکے اشارے کو بھی وہ سمجھ لیتا تھا۔ میرے موڈ کے سارے اتار چڑھاؤ اسے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے رنجیدہ ہوتا تووہ میرے ساتھ چہلیں شروع کردیتا مجھے خوش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا۔ ابھی اس نے ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنا نہیں سیکھا تھا یعنی ابھی کم سن تھا کہ اس نے ایک برتن کو جو کہ خالی تھا۔ تھوتھنی بڑھا کرسونگھا۔ میں نے اسے جھڑکا تو دم دبا کروہیں بیٹھ گیا۔ پہلے اس کے چہرے پر حیرت سی پیدا ہوئی تھی کہ ہیں یہ مجھ سے کیا ہو گیا۔ دیر تک گردن نیوڑھائے بیٹھا رہا۔ جیسے ندامت کے سمندر میں غرق ہے۔ میں اٹھا۔ اٹھ کر اسکو گود میں لیا۔ پیارا پچکارا۔ بڑی دیر کے بعد جا کر اسکی دم ہلی۔ مجھے بہت ترس آیا کہ میں نے خواہ مخواہ اسے ڈانٹا کیوں کہ اس روز رات کو غریب نے کھانے کو منہ نہ لگایا۔ وہ بڑاحساس کتا تھا۔ میں بہت بے پروا آدمی ہوں۔ میری غفلت سے اس کو ایک بار نمونیہ ہو گیا میرے اوسطان خطا ہو گئے۔ ڈا کٹروں کے پاس دوڑا۔ علاج شروع ہوا۔ مگر اثر ندارد۔ متواتر سات راتیں جاگتارہا۔ اسکو بہت تکلیف تھی۔ سانس بڑی مشکل سے آتا تھا۔ جب سینے میں درد اٹھتا تو وہ میری طرف دیکھتا جیسے یہ کہہ رہا ہے۔ ’’فکر کی کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ ‘‘ کئی بار میں نے محسوس کیا کہ صرف میرے آرام کی خاطر اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسکی تکلیف کچھ کم ہے وہ آنکھیں میچ لیتا۔ تاکہ میں تھوڑی دیر آنکھ لگالوں۔ آٹھویں روز خدا خدا کرکے اس کا بخار ہلکا ہوا اور آہستہ آہستہ اتر گیا۔ میں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو مجھے ایک تھکی تھکی سی مسکراہٹ اسکی آنکھوں میں تیرتی نظر آئی۔ نمونیے کے ظالم حملے کے بعد دیر تک اس کو نقاہت رہی۔ لیکن طاقت ور دواؤں نے اسے ٹھیک ٹھاک کردیا۔ ایک لمبی غیر حاضری کے بعد لوگوں نے مجھے اسکے ساتھ دیکھا تو طرح طرح کے سوال کرنے شروع کیے ’’عاشق و معشوق کہاں غائب تھے اتنے دنوں‘‘ ’’آپس میں کہیں لڑائی تو نہیں ہو گئی تھی‘‘ ’’کسی اور سے تو نظر نہیں لڑ گئی تھی گولڈی کی‘‘ میں خاموش رہا۔ گولڈی یہ باتیں سنتا تو ایک نظر میری طرف دیکھ کر خاموش ہو جاتا کہ بھونکنے دو کتوں کو۔ وہ مثل مشہور ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز۔ لیکن گولڈی کو اپنے ہم جنسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسکی دنیا صرف میری ذات تھی۔ اس سے باہر وہ کبھی نکلتا ہی نہیں تھا۔ گولڈی میرے پاس نہیں تھا۔ جب ایک دوست نے مجھے اخبار پڑھ کر سنایا۔ اس میں ایک واقعہ لکھا تھا۔ آپ سنیے بڑا دلچسپ ہے۔ امریکہ یا انگلستان مجھے یاد نہیں کہاں۔ ایک شخص کے پاس کتا تھا۔ معلوم نہیں کس ذات کا۔ اس شخص کا آپریشن ہونا تھا۔ اسکو ہسپتال لے گئے تو کتا بھی ساتھ ہولیا۔ اسٹریچر پر ڈال کر اس کو آپریشن روم میں لے جانے لگے تو کتے نے اندر جانا چاہا۔ مالک نے اس کو روکا اور کہا، باہر کھڑے رہو۔ میں ابھی آتا ہوں۔ کتا حکم سن کر باہر کھڑا ہو گیا۔ اندر مالک کا آپریشن ہوا۔ جو ناکام ثابت ہوا۔ اسکی لاش دوسرے دروازے سے باہر نکال دی گئی۔ کتا بارہ برس تک وہیں کھڑا اپنے مالک کا انتظار کرتا رہا۔ پیشاب۔ پاخانے کے لیے کچھ وہاں سے ہٹتا۔ پھروہیں کھڑا ہو جاتا۔ آخر ایک روز موٹر کی لپیٹ میں آگیا۔ اور بُری طرح زخمی ہو گا۔ مگر اس حالت میں بھی وہ خود کو گھسیٹتاہوا وہاں پہنچا۔ جہاں اس کے مالک نے اسے انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ آخری سانس اس نے اُسی جگہ لیا۔ یہ بھی لکھا تھا۔ کہ ہسپتال والوں نے اس کی لاش میں بُھس بھر کے اسکو وہیں رکھ دیا ہے جیسے وہ اب بھی اپنے آقا کے انتظار میں کھڑا ہے۔ میں نے یہ داستان سنی تو مجھ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ اول تو مجھے اسکی صحت ہی کا یقین نہ آیا، لیکن جب گولڈی میرے پاس آیا اور مجھے اسکی صفات کا علم ہوا تو بہت برسوں کے بعد میں نے یہ داستان کئی دوستوں کو سنائی۔ سناتے وقت مجھ پر ایک رقت طاری ہو جاتی تھی اور میں سوچنے لگتا تھا ’’میرے گولڈی سے بھی کوئی ایسا کارنامہ وابستہ ہونا چاہیے۔ گولڈی معمولی ہستی نہیں ہے۔ ‘‘ گولڈی بہت متین اور سنجیدہ تھا۔ بچپن میں اس نے تھوڑی شرارتیں کیں مگر جب اس نے دیکھا کہ مجھے پسند نہیں تو ان کو ترک کردیا۔ آہستہ آہستہ سنجیدگی اختیار کرلی جو تادمِ مرگ قائم رہی۔ ’’میں نے تادمِ مرگ کہا ہے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے ہیں۔ ‘‘ شیخ صاحب رک گئے انکی آنکھیں نم آلود ہو گئی تھیں۔ ہم خاموش رہے تھوڑے عرصے کے بعد انھوں نے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے اور کہنا شروع کیا۔ ’’یہی میری زیادتی ہے کہ میں زندہ ہوں۔ لیکن شاید اس لیے زندہ ہوں کہ انسان ہوں۔ مر جاتا تو شاید گولڈی کی توہین ہوتی۔ جب وہ مرا تو رو رو کر میرا بُرا حال تھا۔ لیکن وہ مرا نہیں تھا۔ میں نے اس کو مروا دیا تھا۔ اس لیے نہیں کہ مجھے اپنی موت کی آمد کا یقین ہو گیا تھا۔ وہ پاگل ہو گیا تھا۔ ایسا پاگل نہیں جیسا کہ عام پاگل کتے ہوئے ہیں۔ اسکے مرض کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ اس کو سخت تکلیف تھی۔ جانکنی کا سا عالم اس پر طاری تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا اس کا واحد علاج یہی ہے کہ اسکو مروا دو۔ میں نے پہلے سوچا نہیں۔ لیکن وہ جس اذیت میں گرفتار تھا۔ مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ میں مان گیا وہ اسے ایک کمرہ میں لے گئے جہاں برقی جھٹکا پہنچا کر ہلاک کرنے والی مشین تھی۔ میں ابھی اپنے نحیف دماغ میں اچھی طرح کچھ سوچ بھی نہ سکا تھا کہ وہ اسکی لاش لے آئے۔ میری گولڈی کی لاش۔ جب میں نے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایا تو میرے آنسو ٹپ ٹپ اس کے سنہرے بالوں پر گرنے لگے۔ جو پہلے کبھی گرد آلود نہیں ہوئے تھے۔ ٹانگے میں اسے گھر لایا۔ دیر تک اس کو دیکھا کیا۔ پندرہ سال کی رفافت کی لاش میرے بستر پر پڑی تھی۔ قربانی کا مجسمہ ٹوٹ گیا تھا۔ میں نے اس کو نہلایا۔ کفن پہنایا۔ بہت دیر تک سوچتا رہا کہ اب کیا کروں۔ زمین میں دفن کروں یا جلادوں۔ زمین میں دفن کرتا تو اسکی موت کا ایک نشان رہ جاتا۔ یہ مجھے پسند نہیں تھا۔ معلوم نہیں کیوں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ میں نے کیوں اس کو غرقِ دریا کرنا چاہا۔ میں نے اس کے متعلق اب بھی کئی بار سوچا ہے۔ مگر مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ خیرمیں نے ایک نئی بوری میں اسکی کفنائی ہوئی لاش ڈالی۔ دھو دھا کر بٹے اس میں ڈالے اور دریا کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب بیڑی دریا کے درمیان میں پہنچی۔ اور میں نے بوری کی طرف دیکھا تو گولڈی سے پندرہ برس کی رفاقت و محبت ایک بہت ہی تیز تلخی بن کر میرے حلق میں اٹک گئی۔ میں نے اب زیادہ دیر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بوری اٹھائی اور دریا میں پھینک دی۔ بہتے ہوئے پانی کی چادرپرکچھ بلبلے اٹھے اور ہوا میں حل ہو گئے۔ بیڑی واپس ساحل پر آئی۔ میں اتر کر دیر تک اس طرف دیکھتا رہا۔ جہاں میں نے گولڈی کو غرقِ آب کیا تھا۔ شام کا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ پانی بڑی خاموشی سے بہہ رہا تھا جیسے وہ گولڈی کو اپنی گود میں سلا رہا ہے۔ یہ کہہ کرشیخ صاحب خاموش ہو گئے۔ چند لمحات کے بعد ہم میں سے ایک نے ان سے پوچھا۔ ’’لیکن شیخ صاحب آپ تو خاص واقعہ سنانے والے تھے۔ ‘‘ شیخ صاحب چونکے۔ اوہ معاف کیجیے گا۔ میں اپنی رو میں جانے کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ واقعہ یہ تھا کہ۔ میں ابھی عرض کرتا ہوں۔ پندرہ برس ہو گئے تھے ہماری رفاقت کو۔ اس دوران میں کبھی بیمار نہیں ہوا تھا۔ میری صحت ماشاء اللہ بہت اچھی تھی، لیکن جس دن میں نے گولڈی کی پندرھویں سالگرہ منائی۔ اس کے دوسرے دن میں نے اعضا شکنی محسوس کی۔ شام کو یہ اعضا شکنی تیز بخارمیں تبدیل ہو گئی۔ رات سخت بے چین رہا۔ گولڈی جاگتا رہا۔ ایک آنکھ بند کرکے دوسری آنکھ سے مجھے دیکھتا رہا۔ پلنگ پر سے اتر کر نیچے جاتا۔ پھر آکر بیٹھ جاتا۔ زیادہ عمر ہو جانے کے باعث اس کی بینائی اور سماعت کمزور ہو گئی تھی لیکن ذرا سی آہٹ ہوتی تو وہ چونک پڑتا اور اپنی دھندلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتا اور جیسے یہ پوچھتا۔ ’’یہ کیا ہو گیاہے تمہیں‘‘ اس کو حیرت تھی کہ میں اتنی دیرتک پلنگ پر کیوں پڑا ہوں، لیکن وہ جلدی ہی ساری بات سمجھ گیا۔ جب مجھے بستر پر لیٹے کئی دن گزر گئے تو اس کے سالخوردہ چہرے پر افسردہ چھا گئی۔ میں اس کو اپنے ہاتھ سے کھلایا کرتا تھا۔ بیماری کے آغاز میں تو میں اس کو کھانا دیتا رہا۔ جب نقاہت بڑھ گئی تو میں نے ایک دوست سے کہا کہ وہ صبح شام گولڈی کو کھانا کھلانے آجایا کرے۔ وہ آتا رہا۔ مگر گولڈی نے اس کی پلیٹ کی طرف منہ نہ کیا۔ میں نے بہت کہا۔ لیکن وہ نہ مانا۔ ایک مجھے اپنے مرض کی تکلیف تھی جو دورہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔ دوسرے مجھے گولڈی کی فکر تھی جس نے کھانا پینا بالکل بند کردیا تھا۔ اب اُس نے پلنگ پر بیٹھنا لینا بھی چھوڑ دیا۔ سامنے دیوار کے پاس سارا دن اور ساری رات خاموش بیٹھا اپنی دھندلی آنکھوں سے مجھے دیکھتا رہتا۔ ا س سے مجھے اور بھی دکھ ہوا۔ وہ کبھی ننگی زمین پر نہیں بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے بہت کہا۔ لیکن وہ نہ مانا۔ وہ بہت زیادہ خاموش ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غم و اندوہ میں غرق ہے۔ کبھی کبھی اٹھ کر پلنگ کے پاس آتا۔ عجیب حسرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتا اور گردن جھکا کر واپس دیوار کے پاس چلا جاتا۔ ایک رات لیمپ کی روشنی میں میں نے دیکھا۔ کہ گولڈی کی دھندلی آنکھوں میں آنسو چمک رہے ہیں۔ اس کے چہرے سے حزن و ملال برس رہا تھا۔ مجھے بہت دکھ پہنچا۔ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ لمبے لمبے سنہرے کان ہلاتا وہ میرے پاس آیا۔ میں نے بڑے پیار سے کہا۔ ’’گولڈی میں اچھا ہو جاؤں گا۔ تم دعا مانگو۔ تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی۔ ‘‘ یہ سن کر اس نے بڑی اداس آنکھوں سے مجھے دیکھا، پھر سر اوپر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ جیسے دعا مانگ رہا ہے۔ کچھ دیر وہ اس طرح کھڑا رہا۔ میرے جسم پر جھرجھری سی طاری ہو گئی۔ ایک عجیب و غریب تصویر میری آنکھوں کے سامنے تھی۔ گولڈی سچ مچ دعا مانگ رہا تھا۔ میں سچ عرض کرتا ہوں وہ سرتاپا دعا تھا۔ میں کہنا نہیں چاہتا۔ لیکن اس وقت میں نے محسوس کیا کہ اسکی روح خدا کے حضور پہنچ کر گڑگڑارہی ہے۔ میں چند ہی دنوں میں اچھا ہو گیا۔ لیکن گولڈی کی حالت غیرہ ہو گئی۔ جب تک میں بستر پر تھا وہ آنکھیں بند کیے دیوار کے ساتھ خاموش بیٹھا رہا۔ میں ہلنے جلنے کے قابل ہوا تو میں نے اسکو کھلانے پلانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ اسکو اب کسی شے سے دلچسپی نہیں تھی۔ دعا مانگنے کے بعد جیسے اسکی ساری طاقت زائل ہو گئی تھی۔ میں اس سے کہتا، میری طرف دیکھو گولڈی۔ میں اچھا ہو گیا ہوں۔ خدا نے تمہاری دعا قبول کرلی ہے، لیکن وہ آنکھیں نہ کھولتا۔ میں نے دو تین دفعہ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے انجکشن لگائے پرکچھ نہ ہوا۔ ایک دن میں ڈاکٹر لے کر آیا تو اس کا دماغ چل چکا تھا۔ میں اٹھا کر اسے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور اس کو برقی ضرب سے ہلاک کرادیا۔ مجھے معلوم نہیں بابر اور ہمایوں والا قصہ کہاں تک صحیح ہے۔ لیکن یہ واقعہ حرف بحرف درست ہے۔ Read the full article
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
آم @MantoIsManto @MantoSays #Literature #Writer #urdu #aajkalpk خزانے کے تمام کلرک جانتے تھے کہ منشی کریم بخش کی رسائی بڑے صاحب تک بھی ہے۔ چنانچہ وہ سب اس کی عزت کرتے تھے۔ ہر مہینے پنشن کے کاغذ بھرنے اور روپیہ لینے کے لیے جب وہ خزانے میں آتا تو اس کا کام اسی وجہ سے جلد جلد کردیا جاتا تھا۔ پچاس روپے اس کو اپنی تیس سالہ خدمات کے عوض ہر مہینے سرکار کی طرف سے ملتے تھے۔ ہر مہینے دس دس کے پانچ نوٹ وہ اپنے خفیف طور پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑتا اور اپنے پرانے وضع کے لمبے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیتا۔ چشمے میں خزانچی کی طرف تشکر بھری نظروں سے دیکھتا اور یہ کہہ کر ’’اگر زندگی ہوئی تو اگلے مہینے پھر سلام کرنے کے لیے حاضر ہوں گا‘‘ بڑے صاحب کے کمرے کی طرف چلا جاتا۔ آٹھ برس سے اس کا یہی دستور تھا۔ خزانے کے قریب قریب ہر کلرک کو معلوم تھا کہ منشی کریم بخش جو مطالبات خفیفہ کی کچہری میں کبھی محافظ دفتر ہوا کرتا تھا بے حد وضعدار، شریف الطبع اور حلیم آدمی ہے۔ منشی کریم بخش واقعی ان صفات کا مالک تھا۔ کچہری میں اپنی طویل ملازمت کے دوران میں افسران بالا نے ہمیشہ اس کی تعریف کی ہے۔ بعض منصفوں کو تو منشی کریم بخش سے محبت ہو گئی تھی۔ اس کے خلوص کا ہر شخص قائل تھا۔ اس وقت منشی کریم بخش کی عمر پینسٹھ سے کچھ اوپر تھی۔ بڑھاپے میں آدمی عموماً کم گو اور حلیم ہو جاتا ہے مگر وہ جوانی میں بھی ایسی ہی طبیعت کا مالک تھا۔ دوسروں کی خدمت کرنے کا شوق اس عمر میں بھی ویسے کا ویسا ہی قائم تھا۔ خزانے کا بڑا افسر منشی کریم بخش کے ایک مربی اور مہربان جج کا لڑکا تھا۔ جج صاحب کی وفات پر اسے بہت صدمہ ہوا تھا اب وہ ہر مہینے ان کے لڑکے کو سلام کرنے کی غرض سے ضرور ملتا تھا۔ اس سے اُسے بہت تسکین ہوتی تھی۔ منشی کریم بخش انھیں چھوٹے جج صاحب کہا کرتا تھا۔ پنشن کے پچاس روپے جیب میں ڈال کروہ برآمدہ طے کرتا اور چق لگے کمرے کے پاس جا کر اپنی آمد کی اطلاع کراتا۔ چھوٹے جج صاحب اس کو زیادہ دیر تک باہر کھڑا نہ رکھتے، فوراً اندر بلا لیتے اور سب کام چھوڑ کر اس سے باتیں شروع کردیتے۔ ’’تشریف رکھیے منشی صاحب۔ فرمائیے مزاج کیسا ہے۔ ‘‘ ’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ آپکی دعا سے بڑے مزے میں گزررہی ہے، میرے لائق کوئی خدمت؟‘‘ ’’آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو فرمائیے۔ خدمت گزاری تو بندے کا کام ہے۔ ‘‘ ’’آپ کی بڑی نوازش ہے۔ ‘‘ اس قسم کی رسمی گفتگو کے بعد منشی کریم جج صاحب کی مہربانیوں کا ذکر چھیڑ دیتا۔ ان کے بلند کردار کی وضاحت بڑے فدویانہ انداز میں کرتا اور بار بار کہتا۔ ’’اللہ بخشے مرحوم فرشتہ خصلت انسان تھے۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ‘‘ منشی کریم بخش کے لہجے میں خوشامد وغیرہ کی ذرّہ بھر ملاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ وہ جو کچھ کہتا تھا۔ محسوس کرکے کہتا تھا۔ اس کے متعلق جج صاحب کے لڑکے کوجو اب خزانے کے بڑے افسر تھے اچھی طرح معلوم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو عزت کے ساتھ اپنے پاس بٹھاتے تھے اور دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ ہر مہینے دوسری باتوں کے علاوہ منشی کریم بخش کے آم کے باغوں کا ذکر بھی آتا تھا۔ موسم آنے پر جج صاحب کے لڑکے کی کوٹھی پر آموں کا ایک ٹوکرا پہنچ جاتا تھا۔ منشی کریم بخش کو خوش کرنے کے لیے وہ ہر مہینے اس کو یاد دہانی کرا دیتے تھے۔ ’’منشی صاحب، دیکھے اس موسم پر آموں کا ٹوکرا بھیجنا نہ بھولیے گا۔ پچھلی بار آپ نے جو آم بھیجے تھے اس میں تو صرف دو میرے حصے میں آئے تھے۔ ‘‘ کبھی یہ تین ہوجاتے تھے، کبھی چار اور کبھی صرف ایک ہی رہ جاتا تھا۔ منشی کریم بخش یہ سُن کر بہت خوش ہوتاتھا۔ ’’حضور ایسا کبھی ہو سکتا ہے۔ جونہی فصل تیار ہوئی میں فوراً ہی آپ کی خدمت میں ٹوکرا لے کر حاضر ہو جاؤں گا۔ دو کہیے دو حاضر کردوں۔ یہ باغ کس کے ہیں۔ آپ ہی کے تو ہیں۔ ‘‘ کبھی کبھی چھوٹے جج صاحب پوچھ لیا کرتے تھے۔ ’’منشی جی آپ کے باغ کہاں ہیں؟‘‘ دنیا نگر میں حضور۔ زیادہ نہیں ہیں صرف دو ہیں۔ اس میں سے ایک تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو دے رکھا ہے جو ان دونوں کا انتظام وغیرہ کرتا ہے۔ مئی کی پنشن لینے کے لیے منشی کریم بخش جون کی دوسری تاریخ کو خزانے گیا دس دس کے پانچ نوٹ اپنے خفیف طور پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ کر اس نے چھوٹے جج صاحب کے کمرہ کا رخ کیا۔ حسبِ معمول ان دونوں میں وہی رسمی باتیں ہُوئیں۔ آخر میں آموں کا ذکر بھی آیا۔ جس پر منشی کریم بخش نے کہا۔ ’’دنیا نگر سے چٹھی آئی ہے کہ ابھی آموں کے منہ پر چیپ نہیں آیا۔ جونہی چیپ آگیا اور فصل پک کر تیار ہو گئی میں فوراً پہلا ٹوکرا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔ چھوٹے جج صاحب! اس دفعہ ایسے تحفہ آم ہوں گے کہ آپ کی طبیعت خوش ہو جائے گی۔ ملائی اور شہد کے گھونٹ نہ ہُوئے تو میرا ذمہ۔ میں نے لکھ دیا ہے کہ چھوٹے جج صاحب کے لیے ایک ٹوکرا خاص طور پر بھروا دیا جائے اور سواری گاڑی سے بھیجا جائے تاکہ جلدی اور احتیاط سے پہنچے۔ دس پندرہ روز آپ کو اور انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘ چھوٹے جج صاحب نے شکریہ ادا کیا۔ منشی کریم بخش نے اپنی چھتری اُٹھائی اور خوش خوش گھر واپس آگیا۔ گھر میں اس کی بیوی اور بڑی لڑکی تھی۔ بیاہ کے دوسرے سال جس کا خاوند مر گیا تھا۔ منشی کریم بخش کی اور کوئی اولاد نہیں تھی مگر اس مختصر سے کنبے کے باوجود پچاس روپوں میں اس کا گزر بہت ہی مشکل سے ہوتا تھا۔ اسی تنگی کے باعث اس کی بیوی کے تمام زیور ان آٹھ برسوں میں آہستہ آہستہ بِک گئے تھے۔ منشی کریم بخش فضول خرچ نہیں تھا۔ اس کی بیوی اور وہ بڑے کفایت شعار تھے مگر اس کفایت شعاری کے باوصف تنخواہ میں سے ایک پیسہ بھی ان کے پاس نہ بچتا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ منشی کریم بخش چند آدمیوں کی خدمت کرنے میں بے حد مسرت محسوس کرتا تھا ان چند خاص الخاص آدمیوں کی خدمت گزاری میں جن سے اسے دلی عقیدت تھی۔ ان خاص آدمیوں میں سے ایک تو جج صاحب کے لڑکے تھے۔ دوسرے ایک اور افسر تھے جوریٹائر ہو کر اپنی زندگی کا بقایا حصہ ایک بہت بڑی کوٹھی میں گزار رہے تھے۔ ان سے منشی کریم بخش کی ملاقات ہر روز صبح سویرے کمپنی باغ میں ہوتی تھی۔ باغ کی سیر کے دوران میں منشی کریم بخش ان سے ہر روز پچھلے دن کی خبریں سنتا تھا۔ کبھی کبھی جب وہ بیتے ہوئے دنوں کے تار چھیڑ دیتا تو ڈپٹی سپریٹنڈنٹ صاحب اپنی بہادری کے قصّے سنانا شروع کردیتے تھے کہ کس طرح انھوں نے لائل پور کے جنگلی علاقے میں ایک خونخوار قاتل کو پستول، خنجر دکھائے بغیر گرفتار کیا اور کس طرح ان کے رعب سے ایک ڈاکو سارا مال چھوڑ کر ��ھاگ گیا۔ کبھی کبھی منشی کریم بخش کے آم کے باغوں کا بھی ذکر آجاتا تھا۔ منشی صاحب کہیے۔ اب کی دفعہ فضل کیسی رہے گی۔ ’’پھر چلتے چلتے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ صاحب یہ بھی کہتے۔ پچھلے سال آپ نے جو آم بھجوائے تھے بہت ہی اچھے تھے بے حد لذیذ تھے۔ ‘‘ ’’انشاء اللہ خدا کے حکم سے اب کی دفعہ بھی ایسے ہی آم حاضر کروں گا۔ ایک ہی بوٹے کے ہوں گے۔ ویسے ہی لذیذ، بلکہ پہلے سے کچھ بڑھ چڑھ کر ہی ہوں گے۔ ‘‘ اس آدمی کو بھی منشی کریم بخش ہر سال موسم پر ایک ٹوکرا بھیجتا تھا۔ کوٹھی میں ٹوکرا نوکروں کے حوالے کرکے جب وہ ڈپٹی صاحب سے ملتا اور وہ اس کا شکریہ ادا کرتے تو منشی کریم بخش نہایت انکساری سے کام لیتے ہوئے کہتا ’’ڈپٹی صاحب آپ کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ اپنے باغ ہیں۔ اگر ایک ٹوکرا یہاں لے آیا تو کیا ہو گیا۔ بازار سے آپ ایک چھوڑ کئی ٹوکرے منگوا سکتے ہیں۔ یہ آم چونکہ اپنے باغ کے ہیں اور باغ میں صرف ایک بوٹا ہے جس کے سب د انے گھلاوٹ خوشبو اور مٹھاس میں ایک جیسے ہیں اس لیے یہ چند تحفے کے طور پر لے آیا۔ ‘‘ آم دینے کے بعد جب وہ کوٹھی سے باہر نکلتا تو اس کے چہرے پر تمتماہٹ ہوتی تھی ایک عجیب قسم کی روحانی تسکین اسے محسوس ہوتی تھی جو کئی دنوں تک اس کو مسرور رکھتی تھی۔ منشی کریم بخش اکہرے جسم کا آدمی تھا۔ بڑھاپے نے اس کے بدن کو ڈھیلا کردیا تھا۔ مگر یہ ڈھیلا پن بدصورت معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس کے پتلے پتلے ہاتھوں کی پھولی ہوئی رگیں سر کا خفیف سا ارتعاش اور چہرے کی گہری لکیریں اس کی متانت و سنجیدگی میں اضافہ کرتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بڑھاپے نے اس کو نکھار دیا ہے۔ کپڑے بھی وہ صاف ستھرے پہنتا تھا جس سے یہ نکھار ابھر آتا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ سفیدی مائل زرد تھا۔ پتلے پتلے ہونٹ جو دانت نکل جانے کے بعد اندر کی طرف سمٹے رہتے تھے، ہلکے سرخ تھے، خون کی اس کمی کے باعث اس کے چہرے پر ایسی صفائی پیدا ہو گئی تھی جو اچھی طرح منہ دھونے کے بعد تھوڑی دیر تک قائم رہا کرتی ہے۔ وہ کمزور ضرور تھا، پینسٹھ برس کی عمر میں کون کمزور نہیں ہو جاتا مگر اس کمزوری کے باوجود اس میں کئی کئی میل پیدل چلنے کی ہمت تھی۔ خاص طور پر جب آموں کا موسم آتا تو وہ ڈپٹی صاحب اور چھوٹے جج صاحب کو آموں کے ٹوکرے بھیجنے کے لیے اتنی دوڑ دھوپ کرتا تھا کہ بیس پچیس برس کے جوان آدمی بھی کیا کریں گے۔ بڑے اہتمام سے ٹوکرے کھولے جاتے تھے۔ ان کا گھاس پھوس الگ کیا جاتا تھا۔ داغی یا گلے سڑے دانے الگ کیے جاتے تھے۔ اور صاف ستھرے آم نئے ٹوکروں میں گن کر ڈالے جاتے تھے۔ منشی کریم بخش ایک بار پھر اطمینان کرنے کی خاطر ان کو گن لیتا تھا تاکہ بعد میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ آم نکالتے اور ٹوکروں میں ڈالتے وقت منشی کریم بخش کی بہن اور اسکی بیوی کے منہ میں پانی بھر آتا۔ مگر وہ دونوں خاموش رہتیں۔ بڑے بڑے رس بھرے خوبصورت آموں کا ڈھیر دیکھ کر جب ان میں سے کوئی یہ کہے بغیر نہ رہ سکتی۔ ’’کیا ہرج ہے اگر اس ٹوکرے میں سے دو آم نکال لیے جائیں۔ ‘‘ تو منشی کریم بخش سے یہ جواب ملتا۔ ’’اور آجائیں گے اتنا بیتاب ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘ یہ سن کر وہ دونوں چپ ہو جاتیں اور اپنا کام کرتی رہتیں۔ جب منشی کریم بخش کے گھر میں آموں کے ٹوکرے آتے تھے تو گلی کے سارے آدمیوں کو اس کی خبر لگ جاتی تھی۔ عبداللہ نیچہ بند کا لڑکا جو کبوتر پالنے کا شوقین تھا دوسرے روز ہی آدھمکتا تھا اور منشی کریم بخش کی بیوی سے کہتا تھا۔ ’’خالہ میں گھاس لینے کے لیے آیا ہوں۔ کل خالو جان آموں کے دو ٹوکرے لائے تھے ان میں سے جتنی گھاس نکلی ہو مجھے دے دیجیے۔ ہمسائی نوراں جس نے کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، اسی روز شام کو ملنے آجاتی تھی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا کرتی تھی۔ پچھلے برس جو تم نے مجھے ایک ٹوکرہ دیا تھا بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ اب کے بھی ایک ٹوکرہ دیدو تو بڑی مہربانی ہو گی۔ ‘‘ دونوں ٹوکرے اور ان کی گھاس یوں چلی جاتی۔ حسب معمول اس دفعہ بھی آموں کے دو ٹوکرے آئے گلے سڑنے دانے الگ کیے گئے جو اچھے تھے ان کو منشی کریم بخش نے اپنی نگرانی میں گنوا کر نئے ٹوکروں میں رکھوایا۔ بارہ بجے پہلے پہل یہ کام ختم ہو گیا۔ چنانچہ دونوں ٹوکرے غسل خانے میں ٹھنڈی جگہ رکھ دیے گئے تاکہ آم خراب نہ ہو جائیں۔ ادھرسے مطمئن ہو کر دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد منشی کریم بخش کمرے میں چارپائی پر لیٹ گیا۔ جون کے آخری دن تھے۔ اس قدر گرمی تھی کہ دیواریں توے کی طرح تپ رہی تھیں۔ وہ گرمیوں میں عام طور پر غسل خانے کے اندر ٹھنڈے فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹا کرتا تھا۔ یہاں موری کے رستے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی آجاتی تھی لیکن اب کے اس میں دو بڑے بڑے ٹوکرے پڑے تھے۔ اس کو گرم کمرے ہی میں جو بالکل تنور بنا ہوا تھا چھ بجے تک وقت گزارنا تھا۔ ہر سال گرمیوں کے موسم میں جب آموں کے یہ ٹوکرے آتے اسے ایک دن آگ کے بستر پر گزارنا پڑتا تھا مگر وہ اس تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا تھا۔ قریباً پانچ گھنٹے تک چھوٹا سا پنکھا بار بار پانی میں تر کرکے جھلتا رہتا۔ انتہائی کوشش کرتا کہ نیند آجائے مگر ایک پل کے لیے بھی اسے آرام نصیب نہ ہوتا۔ جون کی گرمی اور ضدی قسم کی مکھیاں کسے سونے دیتی ہیں۔ آموں کے ٹوکرے غسل خانے میں رکھوا کر جب وہ گرم کمرے میں لیٹا تو پنکھا جھلتے جھلتے ایک دم اس کا سر چکرایا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کا سانس اکھڑ رہا ہے اور وہ سارے کا سارا گہرائیوں میں اتر رہا ہے اس قسم کے دورے اسے کئی بار پڑ چکے تھے اس لیے کہ اس کا دل کمزور تھا مگر ایسا زبردست دورہ پہلے کبھی نہیں پڑا تھا۔ سانس لینے میں اس کو بڑی دقت محسوس ہونے لگی، سر بہت زور سے چکرانے لگا۔ گھبرا کر اس نے آواز دی اور اپنی بیوی کو بلایا۔ یہ آواز سن کر اس کی بیوی اور بہن دونوں دوڑی دوڑی اندر آئیں دونوں جانتی تھیں کہ اسے اس قسم کے دورے کیوں پڑتے ہیں۔ فوراً ہی اس کی بہن نے عبداللہ نیچہ بند کے لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا کہ ڈاکٹر کو بلا لائے تاکہ وہ طاقت کی سوئی لگا دے۔ لیکن چند منٹوں ہی میں منشی کریم بخش کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ بیقراری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ چارپائی پر مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ اس کی بیوی اور بہن نے یہ دیکھ کرشور برپا کردیا۔ جس کے باعث اس کے پاس کئی آدمی جمع ہو گئے۔ بہت کوشش کی گئی، اس کی حالت ٹھیک ہو جائے لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ ڈاکٹر بلانے کے لیے تین چار آدمی دوڑائے گئے تھے لیکن اس سے پہلے کہ ان میں سے کوئی واپس آئے منشی کریم بخش زندگی کے آخری سانس لینے لگا۔ بڑی مشکل سے کروٹ بدل کر اس نے عبداللہ نیچہ بند کو جو اس کے پاس ہی بیٹھا تھا اپنی طرف متوجہ کیا اور ڈُوبتی ہُوئی آواز میں کہا۔ تم سب لوگ باہر چلے جاؤ۔ ’’میں اپنی بیوی سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ سب لوگ باہر چلے گئے اس کی بیوی اور لڑکی دونوں اندر داخل ہوئیں رو رو کر ان کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ منشی کریم بخش نے اشارے سے اپنی بیوی کو پاس بُلایا اور کہا۔ ’’دونوں ٹوکرے آج شام ہی ڈپٹی صاحب اور چھوٹے جج صاحب کی کوٹھی پر ضرور پہنچ جانے چاہئیں۔ پڑے پڑے خراب ہو جائیں گے۔ ‘‘ اِدھر اُدھر دیکھ کر اس نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’دیکھو تمہیں میری قسم ہے میری موت کے بعد بھی کسی کو آموں کا راز معلوم نہ ہو۔ کسی سے نہ کہنا کہ یہ آم ہم بازارسے خرید کر لوگوں کو بھیجتے تھے۔ کوئی پوچھے تو یہی کہنا کہ دنیا نگر میں ہمارے باغ ہیں۔ بس۔ اور دیکھو جب میں مر جاؤں تو چھوٹے جج صاحب اور ڈپٹی صاحب کو ضرور اطلاع بھیج دینا۔ ‘‘ چند لمحات کے بعد مشنی کریم بخش مر گیا، اس کی موت سے ڈپٹی صاحب اور چھوٹے صاحب کو لوگوں نے مطلع کردیا۔ مگر دونوں چند ناگزیر مجبوریوں کے باعث جنازے میں شامل نہ ہوسکے۔ (سعادت حسن منٹو)
0 notes