Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
کون سی کتابیں پڑھنی چاہئیں؟ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ قومی ادب کے ساتھ ساتھ اگر وقت ملے تو ہمیں عالمی ادب کو بھی پڑھنا چاہیے اس سے فکر ونظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں اور دنیا کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ در اصل دنیا کے ہر خطّے اور قوم کے اپنے حالات، اپنی اقدار و روایات، اپنی رسم و رواج اور اپنے مخصوص عقائد و نظریات ہوتے ہیں جس کے تحت کسی ملک اور قوم کا ادب جنم لیتا ہے۔ اگر ہم بین الاقوامی ادب کی بات کریں تو اس میں: لاطینی امریکا کے نامور ادیب گبریل گارشیا مارکیز کی "تنہائی کے سو سال" اور "وبا کے دنوں میں محبت" خشونت سنگھ کی "ٹرین ٹو پاکستان"، "سچ، محبّت اور ذرا سا کینہ" ہرمن ہیسے کا ناول "سدھارتھ" پائیلو کوئیہلو کا ناول "الکیمسٹ" تُرک ادیب حان پاموک کا "مائی نیم از ریڈ"، جسے اُردو میں "سُرخ میرا نام" سے شائع کیا گیا ہے، کا اپنا ہی مزہ ہے۔ اِس کے علاوہ فکشن میں ٹالسٹائی کی "وار اینڈ پیس"، الیگزنڈر پوشکن اور انتن چیخوف کے کلاسیکل افسانے، شکسپئر کی کہانیاں دستوفسکی کی "جرم اور سزا"، "ذلّتوں کے مارے لوگ" ارنسٹ ہیمنگوئے کا سمندر" حوزا سارے ماگو کا "اندھے لوگ" ابو یحییٰ کا "جب زندگی شروع ہو ئی" کارل مارکس کی "داس کیپٹل" اور گرو رجنیش کی کتابیں بھی بہترین انتخاب ہیں۔ جنرل کتابوں میں مائیکل ہارٹ کی "سو عظیم آدمی" ستّار طاہر کی "سو عظیم کتابیں" مفتی تقی عثمانی کی "اسلام اور سیاسی نظریات" ڈاکٹر محمود احمد غازی کے "محاضراتِ سیرت" اور "محاضراتِ فقہ" مفتی ابولبابہ شاہ منصور کی کُتب مختار مسعود کی 'آوازِ دوست" واصف علی واصف اور اشفاق احمد کی "زاویہ" "مخزن اخلاق" اور "بکھرے موتی" ہر لائبریری کی زینت ہونی چاہیے۔ سفرناموں میں مفتی تقی عثمانی کا "جہانِ دیدہ" اور "دُنیا مرے آگے" مُستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے وحید الدین خان کے "غیر ملکی اسفار" اور قدیم میں "سفرنامہ ابنِ بطوطہ" اور البیرونی کا سفر نامہ بہترین ہیں۔ مزاح میں پطرس بخاری کے مضامین مشتاق احمد یوسفی کی کتابیں کرنل محمد خان کی "بزم آرائیاں" شفیق الرحمان کی "حماقتیں" کرشن چندر کی "ایک گدھے کی سرگزشت" شوکت تھانوی کی "شیطان کی ڈائری" اور یونس بٹ کی کتابیں بہترین تفریح ہیں۔ تاریخ میں ڈاکٹر مُبارک علی کا کام لائقِ تحسین ہے، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اِنہیں ایک بارضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ تاریخ کے حوالے سے مولانا اسماعیل ریحان کا کام بھی قابلِ تعریف ہے۔ ہندوستان کی تاریخ پڑھنے کے لیے محمد قاسم فرشتہ کی "تاریخِ فرشتہ"، مقدمہ ابنِ خلدون ٹائن بی کی "اسٹڈی آف ہسٹری" گبن کی "ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائر" بھی ضرور دیکھنی چاہیے۔ قدیم تاریخ میں ابنِ کثیر کی "البدایہ والنّھایہ" جس کا اُردو ترجمہ "تاریخ ابنِ کثیر" کے نام سے ہوا ہے۔ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی "تاریخِ اسلام" ہر ایک کو پڑھنی چاہیے۔ خود نوشت میں مولانا زکریا کاندھلوی کی "آپ بیتی" مہاتما گاندھی کی تلاشِ حق" افضل حق کا "میرا افسانہ" کلدیپ نائر کی "ایک زندگی کافی نہیں" دیوان سنگھ مفتون کی "ناقابلِ فراموش" بے نظیر بھٹو کی "مشرق کی بیٹی" امیر تیمور کی "میں ہوں تیمور" قدرت اللہ شہاب کا 'شہاب نامہ" احسان دانش کی "جہانِ دانش" علّامہ اسد کی "روڈ ٹو مکہ" اور "بندۂ صحرائی" پرویز مشرف کی "سب سے پہلے پاکستان" عمران خان کی "میں اور میرا پاکستان" صدر الدین ہاشوانی کی "سچ کا سفر" بہترین آپ بیتیاں ہیں۔ مشہور مؤرّخ و ادیب ابو الحسن علی ندوی کی کتابیں "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر"، تاریخِ دعوت و عزیمت"، "پاجا سراغ زندگی"، نقوشِ اقبال"، "نئی دُنیا سے صاف صاف باتیں"، "مُسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش"، "معرکۂ اِیمان ومادیت" اور پُرانے چراغ" ساری کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں۔ کونسلنگ کے حوالے سے مولانا وحید الدین خان کی کتابیں ضرور خریدی جائیں، اُن کی کتابیں لازوال ہیں۔ ( مُحمد عرفان ندیم .... کالم نویس )
7 notes
·
View notes