Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
کرونا وائرس کے حوالے سے پاکستانیوں کا ردعمل
کرونا وائرس کے حوالے سے سب سے تیز ترین ردعمل کا مظاہرہ پاکستانیوں کی جانب سے سامنے آیا۔
سب سے پہلے تو ایک مخصوص طبقے نے یہ کہہ کر کرونا وائرس کا خطرہ رد کردیا کہ یہ مسلمانوں کو نہیں ہوسکتا، یہ وائرس صرف کفار پر ہی حملہ آور ہوسکتا ہے۔
اس سے تھوڑا آگے آئیں تو اگلا طبقہ وہ نظر آیا جس نے فوری طور پر اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ اگر آپ نمازیں پڑھنا شروع کردیں، تو پھر کرونا وائرس آپ پر حملہ آور نہیں ہوگا۔ یہ صرف بے نمازیوں پر ہی اٹیک کرتا ہے۔ اس سے تھوڑا مزید آگے چلیں تو اگلا طبقہ وہ ملے گا جس کے پاس ایک عربی کی دعا ہے جس کے ساتھ حدیث کا مفہوم بیان کرتا ہے کہ جو شخص یہ دعا پڑھے، اس پر دنیا اور آسمان کی کوئی بلا حملہ آور نہیں ہوسکتی۔
مزید آگے چلیں تو اگلا طبقہ وہ ملے گا جس کے مطابق کرونا وائرس کا علاج صرف اور صرف صدقہ ہے جو کہ اپنے علاقے کی مسجد کے امام صاحب کو جمع کروا کر کرونا سے مستقل نجات حاصل کی جاسکتی ہے یا پیر، فقیر کو جانتا ہے جس کے ایک تعویذ یا پھونک آپ کی سات پشتوں کے بھی قریب نہیں آئے گا۔ اس سے آگے وہ لوگ ملیں گے جن کے پاس کسی دیسی حکیم کا نام پتہ ہے، جو جڑی بوٹیوں کی مدد سے کرونا وائرس کا علاج دریافت کرچکا ہے یا ٹوٹکا ہاتھ لگا ھےجیسے کچے پیاز میں ناریل کا پانی، سرکہ اور کچھ اسی طرح کے دوسرے اجزا ملا کر ایک خوراک استعمال کرنے سےکرونا وائرس نیست و نابود ہوجائے گا۔
اور آگے بڑھیں تو آپ کو وہ طبقہ ملے گا جس کے مطابق کرونا وائرس کسی عام ماسک سے رکنے والا نہیں، اس کیلئے 95 جی کے معیار کا کوئی ماسک ڈھونڈنا پڑے گا ورنہ کرونا وائرس رکنے والا نہیں۔ مزید آگے جائیں تو وہ طبقہ نظر آئے گا جس نے مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے ماسک، سرنج، بخار اور ملیریا کی ادویات کو ابھی سے سٹاک کرنا شروع کردیا ہے تاکہ جب ڈیمانڈ بڑھے تو زیادہ منافع پر یہ ادوایت بیچ سکے۔
اس سے آگے جائیں تو ایک طبقہ وہ ملے گاجس کا کہنا ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے، اس لئے کسی احتیاطی تدبیر کی ضرورت نہیں ۔ اگر آپ کی قسمت میں کرونا سے مرنا لکھا ہے تو آپ مر کر رہیں گے، اس لئے چھوڑیں سب احتیاطی تدابیر بس اللہ پر بھروسہ کریں۔
پچھلے ایک ہزار برسوں میں مسلمانوں پر پوری دنیا میں ذلت مسلط ہوچکی۔ ہر جگہ ہمیں پسپائی کا سامنا ہے، اہم بین الاقوامی معاملات میں مسلمانوں کی رائے نہ تو پوچھی جاتی ہے اور نہ ہی اسے اہمیت ملتی ہے۔ جتنی بھی سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی کی، مسلمانوں کا اس میں رتی برابر بھی حصہ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں جہاں کہیں بھی کرپشن کا ذکر آئے، مسلمان ممالک آپ کو ٹاپ پر ملیں گے۔ جن ممالک کے حکمران عیاشی اور کرپشن میں ٹاپ پر ہیں، ان میں مسلمان ممالک سرفہرست ہیں۔ گورننس سسٹم سے لے کر عوامی حقوق کی فراہمی تک، مسلمان ممالک کا ریکارڈ سب سے خراب ہے۔ اس کے باوجود دعوی یہ کہ اگر آپ نماز پڑھیں گے تو کرونا آپ کے پاس بھی نہیں آئے گا۔ اگر آپ فلاں دعا پڑھیں گے تو کوئی بیماری یا بلا آپ پر حملہ آور نہیں ہوسکے گی۔ اگر ایسی بات ہے تو ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھرے کیوں رہتے ہیں؟ کیا وہ نمازیں نہیں پڑھتے یا دعائیں نہیں مانگتے؟ یہ قوم کب تک اپنی جہالت پر قائم رہے گی؟
آخر کب یہ بات عقل میں آئے گی کہ آپ کے موجودہ مفروضے ہی آپ کی پستی کا سبب ہیں؟اگر یہی روش برقرار رہی تو پھر آپ کی ذلت بھی قائم و دائم رہے گی۔
1 note
·
View note
Text
ایتھیسٹ۔ اگناسٹک۔ لبرل۔ مارکسسٹ اور سیکیولر کیا ہیں ؟
ایتھیسٹ۔ اگناسٹک۔ لبرل۔ مارکسسٹ اور سیکیولر کیا ہیں ؟
ہم عمومی طور بہت سے لوگوں کے نظریات اور خیالات کے بارے میں بہت سی باتیں سنتے ہیں ۔۔ کہ فلاں اتھیسٹ ہو گیا ہے ؟ فلاں سوشلسٹ ہو گیا ہے ؟ لیکن ان کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں کوئی واضح نقشہ نہیں بن پاتا ۔۔ اسی طرح کچھ اصطلاحات آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں ۔۔ اور انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔۔۔
ذیل میں کچھ اصطلاحات کی مختصراََ تفہیم کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ اس حوالے سے احباب کی توجہ بھی درکار ہے ۔
اتھیسٹ :
اتھیسٹ کا لفظ ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔ جو خدا یا خداؤں کے تصوّر سے انکار کرتا ہے ۔۔ اور ان کی کسی بھی سطح پر موجودگی کو تسلیم نہیں کرتا ۔۔ اتھیسٹ کسی عقیدے کو نہیں مانتا ۔ اتھیسٹ کے لیے اردو میں ملحد یا دہریے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ بنیادی طور پر لفظ “ اتھیسٹ” یونانی زبان کے لفظ ایتھیوز سے لیا گیا ہے ۔جس کا مطلب ہے “ خداؤں کے بغیر ”
ظاہر ہے کہ جب اتھیسٹ خدا کے تصور کا انکار کرتا ہے تو کسی مذہب یا اس سے وابستہ عقائد ، عبادات اور شخصیات کو ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔
اگناسٹک :
��ام طور پر اگناسٹک اور اتھیسٹ کو ہم معنی سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ اگناسٹک اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا کے وجود کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ “ میں نہیں جانتا کہ خدا وجود رکھتا ہے یا نہیں ” ۔۔
یا وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے بارے میں جاننا ناممکن ہے ۔۔ اور خدا یا دیوتا چونکہ مادی وجود سے ماورا ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہم انھیں کبھی نہیں جان سکتے ۔۔ کہ وہ ہیں یا نہیں ہیں ۔۔ جس طرح اتھیسٹ خدا کے وجود سے کلّی طور پر انکار کرتا ہے ۔۔ اور مزہبی شخص مانتا ہے ۔۔ اس طرح اگناسٹک اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ صادر نہیں کرتا ۔۔۔ بلکہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں متذبذب ہوتا ہے ۔ اردو میں اس کے لیے لاادری کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔۔ جو عربی سے لیا گیا ہے ۔۔
تھیسٹ :
تھیسٹ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت سے خداؤں یا کم از کم کسی ایک خدا کو مانتا ہو ۔۔ تھیسٹ یہ سمجھتا ہے کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق کیا ہے ۔۔ وہ کائنات میں خدائی عمل دخل کا قائل ہوتا ہے ۔۔ اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خدا اس نظامِ کائنات کو چلا رہا ہے ۔۔
تھیسٹ کے لیے مزہبی ہونا ضروری نہیں ہے ۔۔ وہ مزہبی بھی ہو سکتا ہے اور غیر مذہبی بھی ۔۔۔ ممکن ہے کہ وہ کسی مزہب کے عقائد کو تسلیم کرے اور ان پر عمل پیرا ہو ۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ مذہب کو جھوٹا اور فضول تصوّر کر کے ۔۔ ترک کردے ۔۔ یا کسی نئے مذہب کی بنیاد رکھ دے ۔۔۔ تھیسٹ کا خدا مزہبی خدا ہوتا ہے یا اس سے مشابہ ہوتا ہے ۔۔۔
ڈیئسٹ :
ڈیئسٹ بھی خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے ۔۔ لیکن مزہب کو نہیں مانتا ۔۔ اس کے نزدیک مذاہب جھوٹے ہیں ۔۔ اور ان کا اصلی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔ ڈیئسٹ کے مطابق خدا نے اس کائنات کو بنایا ہے اور اس میں ارتقاء کے فطری قوانین رکھ دیے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد کائنات اس کی مداخلت کے بغیر خودکار طریقے سے جاری و ساری ہے ۔۔۔ اور اب خدا اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اس کائنات کو چلا رہا ہے ۔۔۔ اب اس کائنات کو وہ فطری قوانین چلا رہے ہیں ۔۔ جو تخلیق کے وقت اس میں رکھ دیے گئے تھے ۔۔۔۔
اس کی مثال ایک گھڑی سے دی جا سکتی ہے ۔۔ جسے چابی دی گئی ہو اور وہ خودکار طریقے سے چلتی رہے بغیر کسی بیرونی مداخلت کے ۔۔۔ ڈئیسٹ کائنات کو فطری قوانین کی روشنی میں پرکھتے ہیں ۔۔۔ اور خدا کو ماننے کے باوجود لادین قرار دیے جاتے ہیں ۔۔۔
لبرل :
مذہبی بنیادوں پر لبرل کا مطلب ایسا شخص ہے جو روایتوں کا اسیر نہ ہو بلکہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تجدید اور ترمیم کا حامی ہو ۔۔ قدامت پسندی کے خلاف ہو ۔۔
لبرل کی اصطلاح مختلف شعبوں کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ مذہب ، سیاست ، سماجیات اور معیشت وغیرہ ۔۔ لیکن اس کا مفہوم یکساں ہی ہے کہ لبرل کسی چیز کو اس کی بنیاد سے تبدیلی کا خواہاں نہیں ہوتا ۔۔ بلکہ بنیاد کو برقرار رکھتے ہوئے اصلاح پسند ہوتا ہے ۔۔ اور کسی بھی عقیدے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو دوسروں کے لیے بھی برداشت اور تحمل رکھتا ہے اور ان کے عقائد اور خیالات کا احترام کرتا ہے ۔۔
بنیاد پرست :
بنیاد پرست Fundamentalist کا اردو ترجمہ ہے ۔۔ عمومی طور پر یہ لفظ مذہبی لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ کسی بھی شعبے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ۔ اور اس کا دائرہء کار وسیع ہے ۔ بنیاد پرست ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے عقائد و نظریات اور قوانین کو من وعن مانتا ہے ۔ اور ان پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔۔ اور ان میں سرِ مو انحراف برداشت نہیں کرتا ۔ جدّت اور تبدیلی سے گریز کرتا ہے ۔۔ وقت اور حالات کے ساتھ ان عقائد و نظریات اور قوانین میں ہونے والی تبدیلیوں کو مسترد کر کے بنیادی دستاویز یا اصول و قواعد پر اصرار کرتا ہے ۔۔ اس میں لچک نہیں ہوتی ۔۔ اس لیے اسے فی زمانہ منفی رحجان سمجھا جاتا ہے ۔۔
مارکسسٹ :
مارکسسٹ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو جرمن فلاسفر ، معیشت دان اور ماہرِ سماجیات کارل مارکس کے نظریات کا پیروکار ہو ۔۔
مارکسسٹ انسانی تاریخ اور سماجی ارتقاء کی مادی توجیح کرتے ہیں ۔۔ اور اسے طبقاتی کشمکش کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔۔ معیشت ان کے نزدیک بنیادی عنصر ہے جس کے گرد پورا معاشرہ اور اس کے تمام ادارے تشکیل پاتے ہیں ۔۔ انسانی محنت اور سرمائے کی سائنسی وضاحت کرتے ہوئے ۔۔ سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور فرسودہ سمجھتے ہیں ۔۔ اور اس کے خاتمے کے لیے انقلاب کو لازمی قرار دیتے ہیں ۔۔ اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرتے ہیں ۔۔ ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں ۔۔ اور منافع اور سرمائے کو مزدوروں کی غیر ادا شدہ اجرت کہتے ہیں ۔۔
ویسے تو ماکسزم کا دائرہ تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے ۔۔ لیکن معیشت کو بنیاد سمجھنے کی وجہ سے ان کے مباحث میں معیشت کو اوّلیت حاصل رہتی ہے ۔ اور تمام تجزیے اور تبصرے اسی بنیاد پر کیے جاتے ہیں ..
تاریخی اور جدلیاتی مادیت کے فلسفہ کے تحت ، مارکسسٹ(کیمونسٹ) کا ملحد ہونا ضروری ہے جبکہ ملحد کیلئے مارکسسٹ ہونا ضروری نہیں ہے ۔۔۔۔۔
پریگمیٹک :
پریگمیٹک ایک ایسا شخص ہوتا ہے ۔۔ جو نظریات اور خیالات کو اس وقت قبول کرتا ہے جب وہ عملی ہوں اور نتائج دیں ۔۔ اردو میں اسے عملیت پسند یا نتائجیت پسند کہہ سکتے ہیں ۔۔
پریگمٹزم کی تحریک فلسفیانہ بنیادوں پر 1870 میں امریکہ میں شروع ہوئی ۔۔۔ پریگمیٹک شخص کے مطابق تمام نظریات و عقائد کو عملی طور پر پرکھنا چاہیے ۔۔ اگر عملی طور پر وہ کامیاب رہتے ہیں تو انھیں قبول کیا جائے ۔۔۔ خیالات و نظریات کی درست جانچ پڑتال عمل میں ہوتی ہے ۔۔ اور عمل میں ان کی کامیابی ہی ان کی قدر کا تعین کرتی ہے ۔۔۔
سیکولر :
سیکولر سے مراد ایسا شخص ہے جس کا مذہب یا روحانیت سے کوئی تعلق نہ ہو ۔۔ اور وہ ان معاملات سے لاتعلق ہو ۔۔ سیکولر کی اصطلاح عمومی طور پر ان ممالک کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔۔ جہاں ملکی قوانین جمہوری ہوتے ہیں ۔۔ اور انسان کے تاریخی تجربات اور ضروریات و مسائل کو مدِنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں ۔۔ اور ان کا مذہب روحانیت اور مذہبی کتب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔ سیکولر کو مذہب دشمن نہیں کہہ سکتے ۔۔ مذہب سے غیر متعلق کہہ سکتے ہیں ۔۔ جس طرح مسجد مذہبی جگہ ہے ۔۔ جبکہ پارک سیکولر ہے ۔۔۔ اس کا مذہب سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے -
4 notes
·
View notes
Text
ایتھیسٹ۔ اگناسٹک۔ لبرل۔ مارکسسٹ اور سیکیولر کیا ہیں ؟
ایتھیسٹ۔ اگناسٹک۔ لبرل۔ مارکسسٹ اور سیکیولر کیا ہیں ؟
ہم عمومی طور بہت سے لوگوں کے نظریات اور خیالات کے بارے میں بہت سی باتیں سنتے ہیں ۔۔ کہ فلاں اتھیسٹ ہو گیا ہے ؟ فلاں سوشلسٹ ہو گیا ہے ؟ لیکن ان کے حوالے سے ہمارے ذہنوں میں کوئی واضح نقشہ نہیں بن پاتا ۔۔ اسی طرح کچھ اصطلاحات آپس میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں ۔۔ اور انھیں ایک دوسرے سے الگ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے ۔۔۔
ذیل میں کچھ اصطلاحات کی مختصراََ تفہیم کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ اس حوالے سے احباب کی توجہ بھی درکار ہے ۔
اتھیسٹ :
اتھیسٹ کا لفظ ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔ جو خدا یا خداؤں کے تصوّر سے انکار کرتا ہے ۔۔ اور ان کی کسی بھی سطح پر موجودگی کو تسلیم نہیں کرتا ۔۔ اتھیسٹ کسی عقیدے کو نہیں مانتا ۔ اتھیسٹ کے لیے اردو میں ملحد یا دہریے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ بنیادی طور پر لفظ " اتھیسٹ" یونانی زبان کے لفظ ایتھیوز سے لیا گیا ہے ��جس کا مطلب ہے " خداؤں کے بغیر "
ظاہر ہے کہ جب اتھیسٹ خدا کے تصور کا انکار کرتا ہے تو کسی مذہب یا اس سے وابستہ عقائد ، عبادات اور شخصیات کو ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔
اگناسٹک :
عام طور پر اگناسٹک اور اتھیسٹ کو ہم معنی سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ اگناسٹک اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خدا کے وجود کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ " میں نہیں جانتا کہ خدا وجود رکھتا ہے یا نہیں " ۔۔
یا وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کے بارے میں جاننا ناممکن ہے ۔۔ اور خدا یا دیوتا چونکہ مادی وجود سے ماورا ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہم انھیں کبھی نہیں جان سکتے ۔۔ کہ وہ ہیں یا نہیں ہیں ۔۔ جس طرح اتھیسٹ خدا کے وجود سے کلّی طور پر انکار کرتا ہے ۔۔ اور مزہبی شخص مانتا ہے ۔۔ اس طرح اگناسٹک اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ صادر نہیں کرتا ۔۔۔ بلکہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں متذبذب ہوتا ہے ۔ اردو میں اس کے لیے لاادری کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔۔ جو عربی سے لیا گیا ہے ۔۔
تھیسٹ :
تھیسٹ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت سے خداؤں یا کم از کم کسی ایک خدا کو مانتا ہو ۔۔ تھیسٹ یہ سمجھتا ہے کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق کیا ہے ۔۔ وہ کائنات میں خدائی عمل دخل کا قائل ہوتا ہے ۔۔ اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خدا اس نظامِ کائنات کو چلا رہا ہے ۔۔
تھیسٹ کے لیے مزہبی ہونا ضروری نہیں ہے ۔۔ وہ مزہبی بھی ہو سکتا ہے اور غیر مذہبی بھی ۔۔۔ ممکن ہے کہ وہ کسی مزہب کے عقائد کو تسلیم کرے اور ان پر عمل پیرا ہو ۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ مذہب کو جھوٹا اور فضول تصوّر کر کے ۔۔ ترک کردے ۔۔ یا کسی نئے مذہب کی بنیاد رکھ دے ۔۔۔ تھیسٹ کا خدا مزہبی خدا ہوتا ہے یا اس سے مشابہ ہوتا ہے ۔۔۔
ڈیئسٹ :
ڈیئسٹ بھی خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے ۔۔ لیکن مزہب کو نہیں مانتا ۔۔ اس کے نزدیک مذاہب جھوٹے ہیں ۔۔ اور ان کا اصلی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔ ڈیئسٹ کے مطابق خدا نے اس کائنات کو بنایا ہے اور اس میں ارتقاء کے فطری قوانین رکھ دیے ہیں ۔۔۔ اس کے بعد کائنات اس کی مداخلت کے بغیر خودکار طریقے سے جاری و ساری ہے ۔۔۔ اور اب خدا اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی وہ اس کائنات کو چلا رہا ہے ۔۔۔ اب اس کائنات کو وہ فطری قوانین چلا رہے ہیں ۔۔ جو تخلیق کے وقت اس میں رکھ دیے گئے تھے ۔۔۔۔
اس کی مثال ایک گھڑی سے دی جا سکتی ہے ۔۔ جسے چابی دی گئی ہو اور وہ خودکار طریقے سے چلتی رہے بغیر کسی بیرونی مداخلت کے ۔۔۔ ڈئیسٹ کائنات کو فطری قوانین کی روشنی میں پرکھتے ہیں ۔۔۔ اور خدا کو ماننے کے باوجود لادین قرار دیے جاتے ہیں ۔۔۔
لبرل :
مذہبی بنیادوں پر لبرل کا مطلب ایسا شخص ہے جو روایتوں کا اسیر نہ ہو بلکہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تجدید اور ترمیم کا حامی ہو ۔۔ قدامت پسندی کے خلاف ہو ۔۔
لبرل کی اصطلاح مختلف شعبوں کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔ مذہب ، سیاست ، سماجیات اور معیشت وغیرہ ۔۔ لیکن اس کا مفہوم یکساں ہی ہے کہ لبرل کسی چیز کو اس کی بنیاد سے تبدیلی کا خواہاں نہیں ہوتا ۔۔ بلکہ بنیاد کو برقرار رکھتے ہوئے اصلاح پسند ہوتا ہے ۔۔ اور کسی بھی عقیدے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو دوسروں کے لیے بھی برداشت اور تحمل رکھتا ہے اور ان کے عقائد اور خیالات کا احترام کرتا ہے ۔۔
بنیاد پرست :
بنیاد پرست Fundamentalist کا اردو ترجمہ ہے ۔۔ عمومی طور پر یہ لفظ مذہبی لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ کسی بھی شعبے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ۔ اور اس کا دائرہء کار وسیع ہے ۔ بنیاد پرست ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے عقائد و نظریات اور قوانین کو من وعن مانتا ہے ۔ اور ان پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔۔ اور ان میں سرِ مو انحراف برداشت نہیں کرتا ۔ جدّت اور تبدیلی سے گریز کرتا ہے ۔۔ وقت اور حالات کے ساتھ ان عقائد و نظریات اور قوانین میں ہونے والی تبدیلیوں کو مسترد کر کے بنیادی دستاویز یا اصول و قواعد پر اصرار کرتا ہے ۔۔ اس میں لچک نہیں ہوتی ۔۔ اس لیے اسے فی زمانہ منفی رحجان سمجھا جاتا ہے ۔۔
مارکسسٹ :
مارکسسٹ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو جرمن فلاسفر ، معیشت دان اور ماہرِ سماجیات کارل مارکس کے نظریات کا پیروکار ہو ۔۔
مارکسسٹ انسانی تاریخ اور سماجی ارتقاء کی مادی توجیح کرتے ہیں ۔۔ اور اسے طبقاتی کشمکش کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔۔ معیشت ان کے نزدیک بنیادی عنصر ہے جس کے گرد پورا معاشرہ اور اس کے تمام ادارے تشکیل پاتے ہیں ۔۔ انسانی محنت اور سرمائے کی سائنسی وضاحت کرتے ہوئے ۔۔ سرمایہ دارانہ نظام کو استحصالی اور فرسودہ سمجھتے ہیں ۔۔ اور اس کے خاتمے کے لیے انقلاب کو لازمی قرار دیتے ہیں ۔۔ اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرتے ہیں ۔۔ ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں ۔۔ اور منافع اور سرمائے کو مزدوروں کی غیر ادا شدہ اجرت کہتے ہیں ۔۔
ویسے تو ماکسزم کا دائرہ تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے ۔۔ لیکن معیشت کو بنیاد سمجھنے کی وجہ سے ان کے مباحث میں معیشت کو اوّلیت حاصل رہتی ہے ۔ اور تمام تجزیے اور تبصرے اسی بنیاد پر کیے جاتے ہیں ..
تاریخی اور جدلیاتی مادیت کے فلسفہ کے تحت ، مارکسسٹ(کیمونسٹ) کا ملحد ہونا ضروری ہے جبکہ ملحد کیلئے مارکسسٹ ہونا ضروری نہیں ہے ۔۔۔۔۔
پریگمیٹک :
پریگمیٹک ایک ایسا شخص ہوتا ہے ۔۔ جو نظریات اور خیالات کو اس وقت قبول کرتا ہے جب وہ عملی ہوں اور نتائج دیں ۔۔ اردو میں اسے عملیت پسند یا نتائجیت پسند کہہ سکتے ہیں ۔۔
پریگمٹزم کی تحریک فلسفیانہ بنیادوں پر 1870 میں امریکہ میں شروع ہوئی ۔۔۔ پریگمیٹک شخص کے مطابق تمام نظریات و عقائد کو عملی طور پر پرکھنا چاہیے ۔۔ اگر عملی طور پر وہ کامیاب رہتے ہیں تو انھیں قبول کیا جائے ۔۔۔ خیالات و نظریات کی درست جانچ پڑتال عمل میں ہوتی ہے ۔۔ اور عمل میں ان کی کامیابی ہی ان کی قدر کا تعین کرتی ہے ۔۔۔
سیکولر :
سیکولر سے مراد ایسا شخص ہے جس کا مذہب یا روحانیت سے کوئی تعلق نہ ہو ۔۔ اور وہ ان معاملات سے لاتعلق ہو ۔۔ سیکولر کی اصطلاح عمومی طور پر ان ممالک کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔۔ جہاں ملکی قوانین جمہوری ہوتے ہیں ۔۔ اور انسان کے تاریخی تجربات اور ضروریات و مسائل کو مدِنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں ۔۔ اور ان کا مذہب روحانیت اور مذہبی کتب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔ سیکولر کو مذہب دشمن نہیں کہہ سکتے ۔۔ مذہب سے غیر متعلق کہہ سکتے ہیں ۔۔ جس طرح مسجد مذہبی جگہ ہے ۔۔ جبکہ پارک سیکولر ہے ۔۔۔ اس کا مذہب سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے -
4 notes
·
View notes
Photo

The more I study religions the more I am convinced that man never worshiped anything but himself.
― Richard Burton
1 note
·
View note
Text
ایک بانجھ سماج سے آپ اور کیا توقع رکھتے ہیں
آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے بھی ہیں... انہونی تو تب ہوتی ہے کہ آپ چاول بوئیں اور کماد کاٹیں
ہمارے سماج میں بسنے والے %90 سے زائد انسانوں کو میں
خود رو وہ جڑی بوٹیاں سمجھتا ہوں جن کا کوئی مقصد اور فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہوتا ہے اور دوسرے صاف اور قیمتی پودوں سے مل کر انکی خوبصورتی کو بھی متاثر کرتیں ہیں
ہمیں کسی بھی بیماری کی جڑ تک جانا ہو گا تبھی اسکا علاج ممکن ہے ورنہ سب بیکار ہے
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم یہاں اپنے بچوں کی شادیاں بنا پلاننگ اور مقصد صرف ایک مزہبی یا ثقافتی فریضہ سمجھ کے کر دیتے ہیں اور ان میں بھی بچوں خاص کر لڑکیوں کی مرضی شامل ہی نہیں ہوتی اسکے بعد جتنی دیر میں
میاں بیوی کی آپسی انڈرسٹینڈنگ ہو رہی ہوتی ہے یہ بھی بنا کسی پلان کے کہ ہم اپنے موجودہ حالات میں اسے افورڈ
(خوراک، تعلیم)
کر بھی سکتے ہیں کہ نہیں ایک عدد بچہ بھی دنیا میں پیدا کر چکے ہوتے ہیں اور وہ بچہ بھی اسی ماحول میں پلنا شروع کر دیتا ہے جہاں اس سے پہلے ہم پل کر جوان ہوئے اور جو اس سے پہلے ہم نے اپنے بڑوں کو اچھا بُرا کرتے دیکھا اور سیکھا چاہے وہ کتنا ہی ناقص ہو اس نقص پر دھیان دیئے بنا اسی لکیر کا فقیر وہی بچہ جوان ہونے تک ہو جاتا ہے
اب یہی سب برسوں سے
ری سائیکل ہو رہا ہے اور سماج کچھ نیا سیکھے اور نئے راستے تلاش کیے بنا ایک ہی ڈگر پر چل کر بند گلی میں پھنسا پڑا ہے جسکا نتیجہ بہت سی سماجی خرابیاں ہمارے ماحول کا حصہ بن کر مسائل پیدا کیے رکھتی ہیں
ہمیں اپنی جھوٹی اقدار سے بہت انسیت ہے ہمارا معیار رجعت پسندی رہا اور ہے ہمیں اپنی مزہبی خرافات سے جنون کا عشق ہے
ان کے متعلق کچھ منفی یا روایت سے ہٹ کر سوچنا جیسے جان نکلنے کے مترادف ہے
اور شومئی قسمت پڑھے لکھے لوگ ان سب باتوں کے سرخیل ہیں اور یہی جہالت کی ابتدا ہے
ہمیں تعلیم یافتہ ہونا چاہیئے نہ کہ پڑھا لکھا ان دونوں میں صدیوں کا فاصلہ ہے اگر کوئی سمجھے تو
ہمیں اپنے سکولوں کے معیار، ماحول، سلیبس اور استادوں میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے
ایسے استاد جو جدید تعلیم
سائنس و ٹیکنالوجی، نفسیات، فلسفہ،آرٹ و فنون میں ماہر ترین ہوں ایسے لوگ جب پہلے دن سکول آنے والے بچوں کی راہبری اور راہنمائی کریں گے اور ان بچوں کے والدین کو بھی ہر ہفتہ بلا کر انکی کونسلنگ کریں گے اور بچوں کی نفسیات کے حوالے سے ان سے بات چیت کریں گے اور انکو بتلائیں گے کہ آپ نے ان بچوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے اور کیسے برتاؤ کرنا ہے تو سمجھ لیں آپ نے آئیڈیل سماج کی تعمیر کی بنیاد رکھ دی
ہم نے اپنے بچوں کو بنا جنس کی تمیز کیے انسان سمجھ کر انکی تربیت کرنی ہے انکو اچھا برُا بتا کر
شخصی آزادیاں دینی ہونگی ان پر کوئی مزہب، فقہ، عقیدہ مسلط نہیں کرنا وہ جب میچور ہونگے تو جو بہتر سمجھیں گے اسکو اختیار کرنے یا نہ کرنے کا حق انکو دینا ہو گا انکو گناہ ثواب کی فضول مشقت سے نجات دلا کر انکا پہلے اخلاق مضبوط کرنا ہو گا انکو انسانیت اور احترام آدمیت سیکھانی ہو گی
جب آپ ایسے بچے جوان کر کے سماج کو دیں گے تو سماج بدل�� میں آپکو نظم و ضبط دے گا امن دے گا سکون دے گا ترقی اور خوشحالی دے گا راحتیں مسرتیں دے گا
کسی بھی سماج سے آپ شاید
صد فیصد بُرائیوں کو تو خاتمہ نہ کر پائیں مگر پھر بھی ایسے سماج ایک آئیڈیل سماج ہونگے ثبوت میں بےشمار سماج ہماری اس دنیا میں ہماری آنکھوں کے سامنے موجود بھی ہیں
اگر آپ بہترین نقائص سے پاک فصل چاہتے ہیں تو بہترین بیج اور پھر انکی بہترین طریقہ سے دیکھ بھال اور حفاطت بہت ضروری ہے
4 notes
·
View notes
Text
ارواح شیاطین فرشتے اور جنات۔ مزاہب کی دنیا کے چند مشہور کردار
ارواح شیاطین فرشتے اور جنات۔ مزاہب کی دنیا کے چند مشہور کردار
مزاہب موجود سے زیادہ غیبی چیزوں کے ماننے پر زور دیتے ہیں۔ یہ تک کہ دیا گیا ہے کہ ہدایت انکے لیے ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ مزاہب کی غیبی دنیا بہت وسیع ہے مگر آج ہم صرف چار مشہور غیبی کرداروں کا زکر کریں گے جن کے بغیر کسی بھی مزہب کی کہانیاں ادھوری ہیں بلکہ ہم کہ سکتے ہیں کہ انکے بغیر مزہب کی بنیاد ہی لرز جاتی ہے۔ چونکہ الحمدوللہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں اس لیے ہم ان غیبی مخلوقات کا تعارف صرف قران کی حد تک محدود رکھیں گے کیونکہ صحیح حدیث میں تو اور بھی طلسم ہوشربا داستانیں ان سے منسوب ہیں مگر حدیث میں انسانی آمیزش ہو سکتی ہے اس لیے ان چار کرداروں کی حدیثی کہانیاں سو فیصد درخوداعتنا نہی ہو سکتیں۔ یہ چار کردار مندرجہ زیل ہیں:-
روح روح کے بارے میں بہت کم جانکاری دی گئ ہے۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ مگر پھر روح الامین اور روح القدس اور روح منه جیسے نام بھی دیے گئے ہیں۔ عیسی بھی اسی روح سے عیسی بنا اور روح القدس سے اسکی تائید کی گئ اور اسی کے زریعے عیسی کو قوت بخشی گئ۔ یہی روح بعض اوقات پیغام دل پر بھی اتارتی ہے۔ خدا یہ بھی کہتا ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاھتا ہے روح بھیجتا ہے۔ اب جبرائیل فرشتہ ہے یا روح یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔
شیطان شیطان آگ سے پیدا کیا گیا۔ شیطان فرشتہ تھا یا جن اسکے بارے میں بھی کنفیوژن ہے کیونکہ قران میں اسے کسی جگہ فرشتہ ابلیس تو کسی جگہ جن بولا گیا۔بہرحال خدا نے اسے آدم کو سجدہ کرنے کا بولا اور ابلیس نے حکم عدولی کی اور ملعون ٹہرا۔شیطان سمجھتا ہے کہ چونکہ خدا نے اسے ملعون کیا اس لیے اب اسے بھی لوگوں کو گمراہ کرنا چاھیے۔ جب موسی سے ناحق میں بندہ قتل ہو گیا تو انہوں نے فورا اس کا ملبہ شیطان پر ڈال دیا اور خود کو آرام سے بری الزمہ کر بیٹھے۔ شیاطین ایک طرف سلیمان کے زیر تسلط رہے تو دوسری طرف ایوب کو ایذا بھی پہنچاتے رہے۔ آسمانوں کی باتیں سننے اوپر جایا کرتے ہیں مگر پھر خدا انکو شہاب ثاقب مار کر بھگا بھی دیتا ہے۔ شیطان ہمیں دیکھ سکتے ہیں مگر ہم شیطانوں کو نہی دیکھ سکتے۔ شیاطین لوگوں سے چیزیں بھلا سکتا ہے۔ کافروں کو برآنگیختہ کر سکتا ہے اور انسانوں کو انکے اعمال آراستہ کر کے دکھا سکتا ہے۔ جہنم کے خوشے شیطانوں کے سر جیسے ہیں۔
فرشتے فرشتے اللہ کے کسی حکم میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتے اور روبوٹس کی صرف وہی کام کرتے ہیں جس کا اُنہیں حکم دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر تسبیح میں مشغول رہتے ہیں مگر پھر چند فرشتوں کو کچھ خاص کام بھی عنایت کیے گئے ہیں۔یہ معصوم بھی ہو سکتے ہیں اور سخت کڑے مزاج بھی۔فرشتوں کے دو دو تین تین اور چار چار پر ہوتے ہیں۔ اصلی شکل کے علاوہ انسانی شکل میں بھی آ سکتے ہیں۔زیادہ تر شیاطین کے برخلاف فرشتوں کے نام بھی ہوتے ہیں۔ دوزخ کے انیس داروغے ہیں اور چیف داروغہ مالک نامی فرشتہ ہے جو سخت کڑے مزاج والا ہے۔ پھر کچھ نگران فرشتے ہوتے ہیں جو لکھنے کا کام کرتے ہیں اور کراما کاتبین کہلاتے ہیں، انکے علاوہ جبرائیل میکائیل مشہور قرانی فرشتے ہیں۔ہاروت اور ماروت بھی کسی زمانے میں بابل میں انسانی شکل میں تعلیم دیا کرتے تھے۔ روز محشر والے دن آٹھ فرشتوں نے اللہ میاں کا تخت اٹھایا ہو گا۔
جنات جن بے دھوئیں کی آگ یا لو یا لپٹ والی آگ کے شعلے سے پیدا کیے گئے ہیں۔انسانوں کی طرح جنات بھی صرف عبادت کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ پہلے آسمانوں کی باتیں سننے آزادانہ آتے جاتے تھے بعد میں کچھ سختی کر دی گئ۔ عربی زبان سمجھتے ہیں اور قران سن کر مسلمان بھی ہو گئے۔ وہ انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں مگر انسان انہیں نہی دیکھ سکتے۔ محلات بھی بنا سکتے ہیں اور پلک جھپکنے میں تخت بھی لا سکتے ہیں۔انسانوں کی طرح جنات میں بھی رسول ہوتے ہیں اور ان میں بھی انسانوں کی طرح نافرمان اور مومن جنات ہوتے ہیں۔ شیاطین کی طرح یہ بھی وسواس ڈالنے کے قابل ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا تمام کرداروں کی سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ لاکھوں سال گزر گئے پر آج تک نہ تو کوئ انکو دیکھ سکا اور نہ ہی کوئ انکو کسی بھی دوسرے زریعے سے ثابت کر سکا۔ جب تک یہ کردار ہمارے زہنوں میں زندہ رھیں گے ہم مومن رھیں گے اور جیسے ہی ہم ان کو تخیلاتی یا گمانی حیثیت دیں گے تو ہمیں دوزخ میں جلنا پڑے گا
1 note
·
View note
Text
بائیبل کے مطابق دنیا چھ روز میں مکمل ہوئی 🧐🤐🤫
1 خُدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پَیدا کیا۔ 2 اور زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہراو کے اُوپر اندھیرا تھا اور خُدا کی روُح پانی کی سطح پر جُنبش کرتی تھی ۔ 3 اور خُدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔ 4 اور خُدا نے کہاکہ روشنی اچھی ہے اور خُدا نے روشنی کو تاریکی سے جُدا کیا 5 اور خُدا نے روشنی کو دن کہا اور تاریکی کو رات اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی ۔ سو پہلا دن ہوا۔ 6 اور خُد ا نے کہا کہ پانیوں کے درمیان فضا ہو تاکہ پانی پانی سے جُدا ہو جائے۔ 7 پس خُدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نیچے کے پانی کو فضا کے اُوپر کے پانی سے جُدا کیا اور ایسا ہی ہوا ۔ 8 اور خُدا نے فضا کو آسمان کہا اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی ۔ سو دُوسرا دن ہوا۔ 9 اور خُدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کر خُشکی نظر آئے اور اَیسا ہی ہوا ۔ 10 اور خُدا نے خُشکی کو زمین کہا اور جو پانی جمع ہوگیا تھا اُسکو سمندر اور خُدا نے دیکھا کہ اچھا ہے ۔ 11 اور خُدا نے کہا زمین گھاس اور بیج دار بوٹیوں کو اور پھلدار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافِق پھلیں اور جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھیں اُگائے اور ایسا ہی ہوا۔ 12 تب زمین نے گھاس اور بوُٹیوں کو جو اپنی اپنی جِنس کے موافق بیج رکھیں اور پلدار درختوں کو جنکے بیج اُنکی جِنس کے مُوافِق اُن میں ہیں اُگیا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔ 13 اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی ۔ سو تیسرا دِن ہوا۔ 14 ۔ اور خُدا نے کہا کہ فلک پر نیر ہوں کہ دِن کو رات سے الگ کریں اور وہ نشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے اِمتیاز کے لئے ہوں ۔ 15 اور فلک پر انوار کے لئے ہوں کہ زمین پر روشنی ڈالیں اور اَیسا ہی ہوا ۔ 16 خُدا نے دو بڑے نیر بنائے ۔ ایک نیر اکبر کہ دن کو حکم کرے اور ایک نیر اصغرکہ رات پر حکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا ۔ 17 اور خُدا نے اُنکوں فلک پر رکھا کہ زمین پر روشنی ڈالیں ۔ اور دِن پر اور رات پر حکم کریں اور اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کریں اور خُدا نے دیکھا کہ اچھا ہے ۔ 18 اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی۔ سو چوتھا دن ہوا ۔ 19 اور خُدا نے کہا کہ پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔ 20 اور خُدا نے بڑے بڑے دریائی جانوروں کو اور ہر قسم کے جاندار کو جو پانی سے بکثرت پیدا ہوئے تھے اُنکی جنسِ کے موافِق اور ہر قسم کے پرندوں کو اُنکی جنس کے مُوافق پیدا کیا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھا ہے ۔ 22 اور خُدا نے اُنکو یہ کہکر برکت دی کہ پھلو اور بڑھو اور اِن سمندروں کے پانی کو بھر دو اور پرندے زمین پر بہت بڑھ جائیں ۔ 23 اور شام ہوئی اور صبح ہوئی ۔ سو پانچواں دِن ہوا۔ 24 اور خُدا نے کہا کہ زمین جانداروں کو اُنکی جِنسکے موافق چوپائے اور رینگنے والے جاندار اور جنگلی جانور اُنکی جِنس کے موافق پیدا کرے اور اَیسا ہی ہوا۔ 25 ۔ اور خُدا نے جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُنکی جنِس کے موافق بنایا اور خُدا نے دیکھا کہ اچھا ہے ۔ 26 پھر خُدا نے کہا کہ ہم اِنسان کو اپنی صُورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اِختیار رکھیں ۔ 27 اور خُدا نے انسان کو اپنی صور ت پر پیدا کیا ۔ خُدا کی صورت پر اُسکو پیدا کیا ۔ نر و ناری اُنکو پیدا کیا۔ 28 خُدا نے اُنکو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معُمورو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اِختیار رکھو ۔ 29 اور خُدا نے کہا کہ دیکھو میں تمام رُوی زمین کی کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اُسکا بیج دار زمین کی کُل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اُسکا بیج دار پھل ہو تمکو دیتا ہوں ۔ یہ تمہارے کھانے کو ہوں ۔ 30 اور زمین ک�� کل جانوروں کے لئے اور ہوا کے کُل پرندوں کے اور اُن سب کے لِئے جو زمین پر رینگنے والے ہیں جن میں زندگی کا دم ہے کُل ہری بوٹیاں کھانے کو دیتا ہوں اور اَیسا ہی ہوا۔ ۔ 31 اور خُدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے اور شام ہوئی اور صُبح ہوئی اور چھٹا دِن ہوا
1 note
·
View note
Text
تاریخ کے جھروکے سے، ہمارا شاندار اور با حیا ماضی
خلیفہ ہارون الرشید کا دل ایک لونڈی پر آگیا، لونڈی بے حد خوبصورت تھی مگر مصیبت یہ آن پڑی کہ وہ لونڈی ہارون الرشید کے باپ کے تصرف میں بھی رہ چکی تھی سو شریعت کی رو سے اب خلیفہ کے لئے وہ حرام تھی۔ ہارون الرشید اس بات پر بے حد تڑپا اور سوچا کچھ تدبیر کی جائے، اپنے فقیہہ سے اُس نے مشورہ لیا کہ کوئی حل نکالو، مفتی صاحب نے پوچھا کہ یہ بات آپ کو کس نے بتائی کہ وہ لونڈی آپ کے والد کی خدمت کر چکی ہے ؟ ہارون الرشید نے کہا کہ خود اُس لونڈی نے یہ بتایا ہے. اس پر مفتی صاحب نے کہا " شریعت میں لونڈی کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی سو آپ بے فکر ہو کر اسے اپنے تصرف میں لائیں، جیسے جی چاہے!" تاریخ الخلفا سیوطی
1 note
·
View note
Text
وحی کی اصل خقیقت
جب پیغمبر اسلام نے نبوت کا دعوی کیا تب حضرت کی عمر چالیس سال تھی جو تریسٹھ سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئی، پیغمبر اسلام پر تئیس سال تک نام نہاد “وحی” کا نزول ہوتا رہا، یہ وحی مختلف مواقع پر نازل ہوتی جیسے اگر کوئی کسی مخصوص چیز کے بارے میں سوال کرتا کہ روح یا ہلال وغیرہ کیا ہے یا پھر کوئی مسئلہ درپیش آجاتا یا پھر اگر وہ کوئی سنت قائم کرنا چاہتے ہوں۔۔ یوں قرآن کا یہ “نزول” متفرق آیات کی صورت میں تھا جو کچھ مکہ میں نازل ہوئیں اور کچھ یثرب یا مدینہ میں۔۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں زید بن ثابت وحی کے مرکزی کاتب تھے، پیغمبر اسلام وقتاً فوقتاً اسے اپنی وحی سناتے اور وہ اسے دستیاب چمڑوں، ہڈیوں اور کھجور کے پتوں پر لکھتے، عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے بھی کچھ عرصہ تک وحی کی کتابت کی مگر وہ مرتد ہوگئے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام نہ صرف ان کے منہ سے ادا کئے ہوئے الفاظ کو وحی میں شامل کردیتے تھے بلکہ وحی کی کتابت کے دوران جب وہ پیغمبر اسلام کو کچھ تبدیلیاں تجویز کرتےتو پیغمبر اسلام مان جاتے، یوں عبد اللہ ابی سرح کو کہنا پڑا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تو وہ اس کی تبدیلیوں کی تجاویز کبھی نہ مانتے یہاں ہمارا سامنا جھوٹی وحی کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلے سے ہے جو اتفاق سے وقوع پذیر ہوا اور محمد کو ایک مشکل میں پھنسا گیا جب اس نے عبد اللہ بن ابی السرح القرشی المکی کی تصنیف کردہ ایک آیت پر ڈاکہ ڈالا جو مسلمان ہوکر مہاجرین کے ساتھ یثرب آگیا تھا جہاں اسے وحی کی کتابت کا عہدہ دیا گیا.. ابن سید الناس اپنی کتاب “عیون الاثر فی المغازی والسیر” میں کہتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح قریش میں سے سب سے پہلا شخص تھا جس نے وحی لکھی تھی جبکہ انصار میں سے سب سے پہلے وحی کی کتابت کعب بن ابی نے کی تھی اگرچہ جیسا کہ اسلامی تاریخ کی روایت ہے اس حوالے سے کچھ متضاد روایات بھی موجود ہیں، اور جیسا کہ سب جانتے ہیں وحی لکھنے والا محمد کے سامنے بیٹھتا تھا اور محمد اسے کچھ آیات لکھواتا تھا جن کے بارے میں اس کا دعوی تھا کہ یہ جبریل کے ذریعے بھیجی جانے والی اللہ کی وحی ہے، ایک دن جب محمد عبد اللہ بن ابی السرح کو سورہ المومنون کی کچھ آیات لکھوا رہا تھا تو ایک عجیب ڈرامہ ہوا، آیات یہ تھیں: (وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ12﴾ ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪13﴾ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ﴿ؕ 14﴾ یہاں – سیرت کی کتابوں کے مطابق جن میں الطبری، القرطبی اور البیضاوی شامل ہیں – عبد اللہ بن ابی السرح نے حیران ہو کر کہا: “تبارک اللہ احسن الخالقین”.. معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ محمد کو بڑا پسند آیا چنانچہ محمد نے عبد اللہ بن ابی السرح کو حکم دیا کہ “اکتبہا، ہکذا نزلت (اسے لکھ دو یہ ایسے ہی اتری ہے)” چنانچہ عبد اللہ بن ابی السرح نے اسے لکھ دیا اور آیت یوں ہوگئی: (ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ14﴾) یہ ڈرامہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر عبد اللہ بن ابی السرح کے دل میں شکوک وشبہات کا جنم لینا ایک فطری امر تھا کہ اس نے ایک عبارت محض تعجب کے طور پر کہی تھی اور محمد نے اسے وحی کے طور پر اپنے قرآن میں شامل کروا دیا.. تفسیر الطبری، القرطبی اور البیضاوی میں آیا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے کہا “اگر محمد پر وحی آتی ہے تو پھر مجھ پر بھی وحی آئی ہے اور اگر اسے اللہ اتارتا ہے تو میں نے اللہ جیسا کلام اتارا ہے”.. نیسابوری اپنی کتاب “اسباب النزول” میں لکھتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے کہا کہ “اگر محمد سچا ہے تو مجھ پر بھی ویسے ہی وحی آئی ہے جیسے اس پر آئی ہے اور اگر جھوٹا ہے تو میں نے بھی ویسا کلام کہا جیسا کہ اس نے کہا”.. کیا ابن ابی السرح نے محمد پر جھوٹا الزام لگایا؟ یقیناً نہیں.. سچ یہ ہے کہ اس کے منہ سے نکلی بات پر محمد نے بغیر کاپی رائٹ کی پرواہ کیے قبضہ کر لیا اور یہ بھول گیا کہ اسی نے مکیوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ وہ اس جیسی ایک آیت تک نہیں لاسکتے چاہے وہ جنوں کی مدد ہی کیوں نہ لے لیں.. اور اس طرح عبد اللہ بن ابی السرح نے وحی کے جھوٹ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا بلکہ اس کا ایک اہم کردار رہا اور حقیقت اس پر آشکار ہوگئی.. تاہم مزید تصدیق کیلئیے – جیسا کہ واقعات کے سیاق سے پتہ چلتا ہے – اس نے محمد کا ردِ عمل دیکھنے کیلئیے ایک کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا.. اور جیسا کہ واقدی کی کتاب المغازی، ابن الاثیر کی الکامل فی التاریخ اور تفسیر الطبری میں آیا ہے، جب محمد اسے “علیم حکیم” لکھنے کیلئیے کہتا تو وہ اسے الٹ کر “حکیم علیم” کردیتا اور پھر محمد کو پڑھ کر سناتا مگر محمد کو اس الٹ پھیر اور تبدیلی کا ذرا بھی پتہ نہ چلتا.. الواقدی اس پر عبد اللہ بن ابی السرح کا ایک تبصرہ نقل کرتا ہے کہ: “ما یدری محمد ما یقول انی لاکتب لہ ما شئت ہذا الذی کتبت یوحی الی کما یوحی الی محمد (محمد کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور میں جو چاہتا اسے لکھ کر دے رہا تھا، یہ جو میں نے لکھا ہے مجھ پر وحی ہوتی ہے جیسا کہ محمد پر وحی ہوتی ہے)” جبکہ طبری اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی السرح محمد کو اپنا لکھا ہوا پڑھ کر سناتا تھا تو محمد کہتا تھا کہ “نعم سواء (ہاں ٹھیک ہے)”.. عبد اللہ بن ابی السرح نے یہ کھیل کئی آیات کے ساتھ کھیلا اور جب اسے یقین ہوگیا کہ محمد محض ایک فراڈیا ہے واپس مکہ بھاگ گیا اور اسلام کو خیر باد کہہ دیا … مکہ جاکر عبد اللہ بن ابی السرح نے مکیوں کو محمد کے جھوٹ کا یہ تازہ قصہ سنایا جنہیں پہلے ہی محمد کے جھوٹ کیلئیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ اس کا امتحان لے چکے تھے اور محمد اس میں بری طرح پٹ چکا تھا کہ کس طرح اس نے محض تعجب اور حیرانی میں ایک بات کہی اور محمد نے اسے قرآن میں شامل کردیا اور کس طرح وہ آیات میں رد وبدل کر کے اسے سناتا اور اسے کچھ پتہ نہیں چلتا اور نا ہی وہ کوئی اعتراض کرتا… اس نے مکیوں کو بتایا کہ “دینکم خیر من دینہ (تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے)”.. جب محمد کو پتہ چلا کہ بندہ اس کے ساتھ کیا گیم کھیل کر گیا ہے تو اس کی سٹی گل ہوگئی، مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور یہ پہچاننا مشکل تھا کہ عبد اللہ بن ابی السرح نے قرآن میں کہاں کہاں رد وبدل کیا ہے چنانچہ عبد اللہ بن ابی السرح کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے محمد نے دوبارہ وحی کی گیم کھیلی اور ایک آیت لے آیا کہ: (وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ و��َ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ – اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو۔ اور جو یہ کہے کہ جس طرح کی کتاب اللہ نے نازل کی ہے اسی طرح کی میں بھی بنا لیتا ہوں اور کاش تم ان ظالم یعنی مشرک لوگوں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے انکی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں۔ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لئے کہ تم اللہ پر جھوٹ بولا کرتے تھے اور اسکی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔- سورة الانعام آيت 93) آیت سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ادبی چوری کو قانونی حیثیت دینے کی ایک بھونڈی کوشش ہے تاکہ اپنے احمق تابعین کو گمراہ کرنے کا ڈرامہ جاری رہ سکے کہ واقعی آسمان سے کوئی وحی اس پر نازل ہوتی ہے مگر سچائی کی گردن مروڑنے کی اس کے ہر کوشش رائیگاں گئی کہ تاریخ کا مکر اس سے کہیں طاقتور تھا کیونکہ یہ آیت ہر صاحبِ عقل ودانش کیلئیے ایک اضافی دلیل کے طور پر موجود رہی جس سے اس کے جھوٹے وحی کا پردہ چاک ہوا. ظاہر ہے اتنی بڑی “بیستی” کے بعد محمد جیسا وحشی شخص عبد اللہ بن ابی السرح کو زندہ کیسے چھوڑ سکتا تھا.. اس کی لغت میں رحمت نام کی کوئی چیز نہیں تھی.. ان نے اپنے دشمنوں کو بد ترین گالیوں سے نوازا تھا یہ گالیاں اس کی اعلی اخلاقیات کا منہ بولتا ثبوت ہیں جیسے: تباً، حمالہ الحطب، عتل، زنیم، ہماز مشاء بنمیم، افاک اثیم، مثل الحمار یحمل اسفارا، خنزیر وغیرہ اور انہیں گھٹیا ترین القاب سے پکارا جیسے عمرو بن ہشام بن المغیرہ پر اس نے ابو جہل کا لقب چپکا دیا حالانکہ وہ ایک بڑا ہی با حکمت شخص تھا اور اہلِ مکہ اسے “ابی الحکم” کے نام سے بلایا کرتے تھے، اس طرح اس نے مسیلمہ بن حبیب الحنفی پر “مسیلمہ الکذاب” کا لقب چپکا دیا حالانکہ اس کا جرم محض اتنا تھا کہ اس نے اسی کی طرح جھوٹی نبوت کا دعوی کیا تھا.. غرض کے محمد کے ہاتھ جو لگا اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا.. فتح مکہ کے دن – جسے وہ دعوت سے فتح نہ کر سکا تو تلوار سے فتح کرنے آن پہنچا – اس نے مکیوں میں سے دس لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا چاہے وہ کعبے کے غلاف کے پیچھے ہی کیوں نہ چھپے ہوں، ان دس میں عبد اللہ بن ابی السرح کا نام بھی شامل تھا.. خون کے پیاسے اسے پاگل کتوں کی طرح ہر جگہ ڈھونڈتے رہے مگر عبد اللہ بن ابی السرح محمد کے عزیز ترین دوست عثمان بن عفان کے گھر چھپا ہوا تھا کیونکہ وہ اس کا رضاعی بھائی تھا!!.. جب معاملات ٹھنڈے ہوگئے تو عثمان اسے لے کر محمد کے پاس آیا اور جیسا کہ سیرہ ابن ہشام، الطبقات الکبری، المغازی اور تفسیر القرطبی میں درج ہے عثمان نے اس کیلئیے امان طلب کی مگر محمد خاموش رہا، جب عثمان نے اپنی عرضی تین دفعہ دہرائی تو وہ اسے کرہاً معاف کرنے پر مجبور ہوگیا، جب عثمان اور عبد اللہ بن ابی السرح چلے گئے تو محمد نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر اس امید پر طویل خاموشی اختیار کی تھی کہ کوئی اٹھ کر اس کی گردن اڑا دے!! اور اس طرح عبد اللہ بن ابی السرح محمد کی خون آلود تلوار سے بڑی مشکل سے بچ پایا اور پھر “جہاد فی سبیل اللہ” کے کوڈ نیم کے تحت لوٹ مار کی جنگوں میں شامل ہوگیا جس کے ساتھ محمد کا سچا نبی ہونا اتنا ضروری نہیں تھا جتنا کہ غلام، باندیاں اور مالِ غنیمت کا آنا ضروری تھا. ۔
1 note
·
View note
Text
عقیدہ
عقیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصطلاحی معنی ’’خدا، انبیاء، الہامی کتب، ملائکہ ، جزا و سزا اور حیات بعد ممات‘‘ جیسے نظریات پر یقین رکھنے کے ہیں۔ عقد، عقیدت اور فکری قید جیسے الفاظ بھی اسی اصطلاح کے قریبی مفاہیم میں شامل ہوتے ہیں۔ الحاد اِن عقائد سے انحراف کرنے ، ان کی نفی کرنے یا ان سے روگردانی کرنے کا نام ہے۔ دونوں اصطلاحات کا مآخذ عربی زبان ہی ہے۔
ہمارے ہاں عام خیال یہی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر میں عقیدے پر کوئی اختلاف موجود نہیں ہے ۔ یہ تصور مبنی بر حقیقت نہیں ہے۔مسالک میں پائے جانے والے تمام تر اختلافات میں سے سب سے بڑا اختلاف ہی عقیدے پر موجود ہے۔ عرب اور عجم میں عقیدے اور شرک کے درمیان پائے جانے والا قدیم جھگڑا آج تک چلتا آرہا ہے۔
اہلِ عرب آج بھی بضد ہیں کہ عقیدے کے حوالے سے ان کا فہم اور ادراک حق و سچ ہے ۔ اپنی اسی حقانیت اور سچائی کی بنیاد پر وہ نہ صرف دیگر تمام مسالک کو کذب و فجور خیال کر تے ہیں بلکہ ایسے عقائد رکھنے والے افراد، قبائل اور اقوام کو قابلِ گردنِ زنی قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ جھگڑا ہے جو صدیوں سے شروع ہے اور آج تک لاینحل چلاآرہا ہے۔
اس سوال کا کہ اس کے بیج خود مذہب یا عقیدے کے اندر موجود ہیں یا مختلف تہذیبوں کی وجہ سے ان میں در آئے ہیں جواب علمِ تاریخ ، علمِ بشریات اور تحلیلِ نفسی کی روشنی میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازین اس تنازعے کو کس طرح اور کن کن مواقع پر سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس سوال کا جواب بھی علمِ سیاسیات کی روشنی میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تاہم آج یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران اور سعودی عرب جیسے دو ملکوں کے درمیان ان عقائد اور ان کی تشریح و توضیح پر و��ضح اختلاف موجود ہیں۔ان کو سیاسی طور پر استعمال کیا بھی جاتا رہا ہے اور آج تک کیا جا رہا ہے۔ تنازعات پیدا کئے جاتے ہیں۔ وہ گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے اثرات عام انسان کی زندگی پر مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن عقیدے اور اس کو سماج پر مسلط کئے جانے والے فیصلے صرف مذہبی اشرافیہ کا طبقہ کرتا رہتا ہے۔ ایسی تشریح کے لئے وہ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ عقیدے اور مذہب کو سمجھنے کے لئے عربی آنی ضروری ہے ۔ آپ کو حدیث و فقہ پر عبور ہونا چاہئے۔
لیکن اہلِ عرب جو دوسروں کو عجمی سمجھتے ہیں کسی کو یہ مقام دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ اہلِ عرب آج بھی عربی زبان و ثقافت کی وجہ سے دوسروں کو جہل تصور کرتے ہیں۔ اُن کی زبان کی تعبیر و تشریح کوئی غیر عربی کرے یہ ان کے لئے قابلِ قبول ہی نہیں۔ یہ عرب اور غیر عرب کے درمیان پایا جانے والا تضاد ہے جو عقائد کی تشریح میں حائل رہتا ہے۔ پھر یہی تضاد ایران اور دیگر اسلامی ممالک کی مذہبی اشرافیہ اور ان کے عوام کے درمیان موجود ہے۔
ایران اور دیگر ممالک کی مذہبی اشرافیہ اپنے علاوہ عقیدے کی تشریح و توضیح کے اختیار کسی عام آدمی کو سونپنے کے لئے تیار نہیں ہیں بخلاف اس حقیقت کے کہ ان کا اطلاق انہیں عوام پر کیا جاتا ہے اور انہیں کی زندگیاں ہی ایسے نظریات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ طاقت اور اجارہ داری کا یہ کھیل بلاتخصیص تمام اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں یہی لوگ عام لوگو ں پر کفر و الحاد کے فتوے لگاتے ہیں۔زیادہ طاقتور ان کی اس نفسیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے فرقوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ اُن کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں اور طاقت اور اقتدار میں حصہ بقدرِ جثہ وصول کرتے ہیں۔
اب ہم کچھ بات مغرب کی روشن خیالی ، عقلیت پسندی اور الحاد کے حوالے سے کر لیتے ہیں۔مغرب میں 16 ویں صدی کے احیاء العلوم کا نتیجہ ہے۔کچھ مورخین کا خیال ہے کہ یہ سائنسی انقلاب کے ساتھ 1620 ء میں شروع ہو گئی تھی جبکہ کچھ 1715 ء اور 1789ء جس میں فرانسیسی انقلاب رونما ہو سے منسوب کرتے ہیں۔ تاہم چرچ کی اتھارٹی اور تعقلیت اور بنیادی انسانی آزادیوں جیسی خصوصیات کو اس تحریک کا محرک ماننے پر تمام کا اتفاق ہے۔ اس تحریک میں مذہب کو ریاستی امور سے الگ کر دیا گیا اور اسکی حیثیت کو گھٹاتے ہوئے اسے انسان کے انفرادی فعل تک محدود کرکے رکھ دیا گیا۔
آیا خارجی عنصر یعنی صنعتی ترقی تعقلیت کی اس تحریک کا باعث بنی یا محض تعقلیت ہی نے صنعتی ترقی کو جنم دیا اور پھر صنعتی ترقی کے جبر سے ہی تعقلیت کی یہ تحریک پھوٹ پڑی یا دونوں عناصر ہی ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم رہے اور مغربی سماج موجودہ دور کی ترقی کی منزل پر پہنچا۔ اس پر مثالیت پسند ، جدیدیت پسند ، مابعد جدیدیت پسند اور مارکسی مفکرین کی آرا مختلف ہیں۔
سب تاریخ کو اپنے اپنے نقطہِ نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سب نے اس بات کو تسلیم کیا کہ چرچ اور عیسائیت کے کردار کومحدود کرنے کے معروضی حالات بھی پیدا ہو چکے تھے اور چرچ سماج کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ یہی معروضی حالات تھے جنہوں نے تعقلیت پسندی کو رواج دیا۔
تعقلیت پسندی اور الحاد اصل میں ہیں کیا۔ تعقلیت پسندی دراصل وجدانیت اور الوہیت اور الہامیت کے متضاد ذہن کی فکری کوشش ہے ۔ انسان کا یہ فکری اور ذہنی عمل بعض اوقات مروجہ روایات کو قبول کر لیتا ہے اور بعض اوقات اس کے متضاد نتائج پیدا کرتا ہے۔ انسان کا یہ فکری عمل تمام سائنسی اور سماجی علوم پر حاوی رہتا ہے۔ سماج میں خود ’’تعقلیت ‘‘سے زیادہ’’ تعقلیت پسندی‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ سماج اپنے افراد کو کس قدر آزادیِ فکر کی اجازت دے رہا ہے ۔ افراد کی فکری آزادی کے اس عمل کو کس طرح سماج کے ہر شعبے میں گن��ائش فراہم کی جا رہی ہے۔ جس سماج میں ایسی فکری آزادی موجود ہوتی ہے ۔اُس میں مذہب، عقیدہ ، ریاست، سیاست ، معیشت اور سائنس پر ہر طرح کی فکر کے جنم لینے کے امکان ہوتے ہیں لیکن اگر سماج میں تعقلیت پسند کا رواج ہی نہیں ہوا ، تو ایسے فکری امکانات کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں ہے۔
مغربی سماج میں تفکریت اور تعقلیت کے چند اصول بھی متعین کر لئے گئے ہیں جن پر کم و بیش تمام علوم کے ماہرین جو ان علوم میں تحقیق کرتے ہیں پر اتفاق کرتے ہیں۔ یہ اصول الہامی یا وجدانی نہیں ہیں۔ ان اصولوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کائنات میں کوئی ابدی سچائی موجود نہیں ہے۔ یہ کائنات اور انسانی سماج بے شمار تغیر و تبدل کے مراحل سے گزرا ہے ۔ تغیر و تبدل کا یہ عمل جاری و ساری ہے ۔ جو بھی انسانی سماج کے ان علوم پر اپنا محاکمہ کرے گا اُسے تعقلیت کے ان زریں اصولوں کو اپنانا ہو گا۔
اگر وہ محض الوہیت، وجدانیت ، روحانیت اور ماورائی کی آڑ میں ان علوم پر محاکمہ کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ سماج کے ارتقا ء اور ترقی کے اس عمل میں بے جا مداخلت کرے گا۔ وہ تعقلیت پسندی کا دشمن تصور ہو گا۔مغربی انسان کی تعلیم و ترقی اور ارتقاء میں یہ عمل فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسی عمل کی روشنی میں ہی تعقلیت پسندی کو دیکھا جا سکتا ہے ۔تعقلیت پسندی کے اس عمل میں خدا پر ایمان و ایقاد کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہر شخص انفرادی طور پر خدا کے بارے میں کوئی بھی نظریہ رکھ سکتا ہے لیکن ڈارون پر تحقیق کے لئے اسے انسان کے ارتقاء پر یقین رکھنا پڑے گا۔ اگر وہ خدا پر ایمان رکھتا بھی ہے یا نہیں بھی رکھتا ، تو بھی اس کی اس تحقیق پر اُس کا کوئی اثر نہیں ہے۔
اس طرح انیسویں صدی کے آخری عشروں میں مینڈل کا نظریہ وراثت، فیچر کا اصول بقائے توانائی اور خوردبین، ٹیسٹ ٹیوب، خون پیما اور علم الجراثیم وغیرہ جیسے نظریات سامنے آئے ۔ ان نظریات کو نہ صرف قبول کیا جانے لگا بلکہ تمام سماجی اور فطری سائنسز کی بنیاد بنا کر تحقیقات کے نئے زاوئے اور انداز اپنائے جانے لگے۔ لبرل ازم ، روشن خیالی یا آزاد فکری جیسی تحریکیں فرانس اور برطانیہ میں اپنے اثرات ذرا جلدی دیکھا گئیں ۔
اس کے برعکس وسطی یورپ نے اس کے اثرات کو تھوڑی دیر سے قبول کیا۔ اسی وجہ سے مذہب سے متصادم نظریات رکھنے والے سائنسدانوں کو مذہبی دقیانوسی سماج کے عدم برداشت جیسے رویوں کا کرب برداشت کرنا پڑا۔ مذہبی تعصب بالخصوص یہودیت کے خلاف تعصب جیسے رویوں کا سامنے یورپ کے اکثر یہودی سائنسدانوں کو کرنا پڑا۔ انہوں نے تعصبات کا سامنا کیا ۔ تاہم ’’تعقلیت پسندی‘‘ اور سائنسی بنیادوں پر علم کو استوار کرنے کے ان کے حوصلے نے سماج کی اس تنگ نظری ، عدم رواداری اور عدم برداشت جیسے رویوں کا مقابلہ کیا ۔
بالآخر ’’تعقلیت‘‘ اور اس کی بنیاد پر قائم کئے گئے نظریات ہی کو سماج میں جگہ ملنا شروع ہو گئی۔ مغرب اور یورپ کے انسان نے مادی علوم ، ان کی تحقیق اور ان کے سماج پر اطلاق جیسے شعبوں کو عقیدے ، مذہب اور مسلک سے الگ کر دیا۔ انہیں اصولوں کی روشنی میں کانٹ، شوپنہار، نطشے اور ہیگل نے انسان اور خدا کے تصورات کو الگ الگ کرکے پیش کیا۔ اس طرح ایک نئے انسان کا تصور جو کہ قدیم انسانی تصور سے بالکل مختلف تھا تراشا جانے لگا۔
مغربی لبرل ازم ، روشن خیالی اور تعقلیت نے اپنا منطقی سفر مسلسل جاری رکھا۔ انیسویں صدی کے آخری عشرے اور بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں انہیں سگمنڈ فرائیڈ کی شکل میں ایک ایسا ماہرِ نفسیات مل گیا جس نے انسان کے ذہن کا مطالعہ نئے انداز سے کیا۔ اس نے انسانی شعور ، قبل شعور ، تحت الشعور اور مابعد الشعور جیسے پہلوؤں کو دریافت کرکے خود انسان اور اسکی تہذیب و ثقافت پر سائنسی اندازسے مطالعے و مشاہدے کا آغاز کیا۔
ایک طرف فرائیڈ نے انسان کے بارے میں تمام تر روایتی واہموں کو توڑا ، دوسری طرف بچے کے ماں اور باپ کے بارے میں پائے جانے والے روایتی تصورات کو بھی جنس کے تناظر میں دیکھنا شروع کر دیا۔ اُس کے تحلیلِ نفسی کے اس علم نے انسان کے روایتی وقار اور مقام کو زمین بوس کر دیا۔ اُس نے خدا کے تصور کو بھی انسانی خوف کی پیداوار قرار دیا۔اُس کی ان تحقیقات کی بنا پر اُسے جدید نفسیات کا بانی ٹھہرا یا گیا۔۔
0 notes
Photo

Opinions have caused more ills than the plague or earthquakes on this little globe of ours. ~ Voltaire
1 note
·
View note
Text
محمود غزنوی کی باقیات
محمود غزنوی کے تین بیٹے تھے. محمد، مسعود اور عبدالرشید.محمود کی وصیت تھی کہ محمد سلطان بنے گا لیکن محمود کی وفات کے بعد مسعود نے اپنے بھائی کو اندھا کرواکر قید خانے میں ڈال دیا.زندیقوں نے مسعود کو بری طرح ہزیمت سے دوچار کیا اور مسعود ہندستان چھوڑ کر بھاگ گیا. پھر غزنی کی فوج نے محمد کے بیٹے احمد کو سلطان بنالیا جس نے اپنے چچا مسعود کو ڈھونڈ نکالا اور قتل کروادیا. مسعود کے بیٹے مودود نے پھر احمد کو شکست دی اور اسے اسکے خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتارا. جب مودود انتقال کرگیا تو اسکا چھوٹا بھائی عبدالحسن تخت نشین ہوا جس پر بڑی بغاوت ہوئی اور غزنی کے علاوہ کوئی علاقہ اسکے پاس نہ بچا. پھر محمود کا سب سے چھوٹا بیٹا عبدالرشید آیا اور عبدالحسن کو معزول کرلیا اور آخر کار عبدالرشید بھی اپنے نو شہزادوں کے ساتھ تہہ تیغ کردیا گیا. اب سلطنت کو کسی ایسے بندے کی تلاش تھی جو سبکتگین کے خاندان سے ہو اور آخرکار ان کو ایک قلعہ میں موجود قیدی 'فرخ زاد' مل گیا جسے رہا کرواکر تخت پر بٹھادیا، فرخ زاد کا دور حکومت امن پسند رہا اور وہ اپنی طبعی موت مرا. اب اسکا جانشین اسکا چھوٹا بھائی ابراہیم بنا. ابراہیم بھی نیک سیرت حکمران تھا جب اسکا انتقال ہوا تو اسکے بیٹے مسعود(ثانی) کو حکومت ملی. مسعود ثانی مہم جو حکمران تھا اسنے دریائے گنگا تک لشکر کشی کی پھر اسکے بعد اسکا بیٹا ارسلان سلطان بنا. ارسلان نے اپنے بھائیوں کو قید کرلیا مگر ایک بھائی بہرام بچ نکلا اور اسی بہرام نے ارسلان کو شکست دے کر تخت سنبھالا...بہرام نے غور پہ لشکر کشی کی اور ایک شہزادے کو موت کے گھاٹ اتارا بعد میں اسی شہزادے کا بھائی سیف الدین نے شورش برپا کردی جسے بہرام نے ہلاک کردیا لیکن سیف الدین کا ایک اور بھائی علاء الدین انتقام کیلئے اٹھا اور غزنی پر حملہ آور ہوا اور اینٹ سے اینٹ بجادی. صرف تین عمارتیں باقی بچ گئیں جو محمود، مسعود اول اور ابراہیم کے مقبرے تھے. بہرام لاہور بھاگ گیا اور یوں غزنوی حکومت کا انجام ہوا. اقتباس: ہندوستان کا تاریخی خاکہ (ترجمہ)مصنف: کارل مرکس
0 notes
Photo

If you want to control the ignorant, you must cover every falsehood in religious guise.
Ibn Rushd
0 notes
Text
ذہنی بانجھ پن
سمندر پار پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسلۂ یہی ہے کہ انہوں نے جہاں بھی کی ہے محض جسمانی ہجرت ہی کی ہے ذہنی نہیں. ہر جاندار کی فطرت میں وقت اور حالات کے ساتھ خود کو ڈھالتے رہنا موجود ہے ما سوائے پاکستانیوں کے یہ سبھی اپنے ذاتی مفادات لئے بیرون ملک اتے ہیں . کسی کو ڈالرز کی طلب تھی تو کسی کو مذہبی آزادی درکار تھی ..کسی کی جان کو خطرہ تھا تو کسی کی سٹیٹس کی بھوک تھی.الغرض انکو جب سبھی کچھ یہاں آ کر مل جاتا ہے تو پھر واپس پاکستان کی یاد تڑپانے لگتی ہے وہی پاکستان جس سے جان بچا کر یا چھڑا کر آئے تھے اور تو اور جنکو وہاں انسانی حقوق تک میسر نہیں تھے وہ اپنے اپنے طور اپنے اپنے انسانی حقوق فوری مغرب سے وصول کرتے ہی اپنی اولادوں کو مغرب سے بچانے کے لئے انھیں پاکستانی لبادہ اوڑھانے میں لگ جاتے ہیں پھر یہاں اپنی اولاد کو اقلیت بنا کر خود بطور والدین انکے لئے اکثریت کا روپ دھار لیتے ہیں ..مجھے اکثر لوگ اپنے بچوں ، بہنوں ، بھائیوں ، رشتداروں کے لئے یہاں رشتہ کروانے کا کہتے ہیں ...یقین مانیں!! مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انھیں یہ کیسے کہوں کہ خدارا کوئی پاکستانی اپنے بچوں کا باہر کے لالچ میں رشتہ نہ کرے خواہ وہ آپ کے کتنے ہی قریبی رشتہ داروں ، جاننے والوں میں کیوں نہ ہو کیوں کہ درحقیقت یہاں کی پاکستانی نسل نفسیاتی طور پر ایک نازک ترین دوراہے پر کھڑی ہےان بیچاروں نے اپنی بدنصیبی سے جن والدین کو پایا ہے وہ ادھورے وجود ہیں اندر سے کھوکھلے ہیں، جنکے دھڑ یہاں تو ذہن سات سمندر پار ہیں لہذا اب ایسے والدین کی سر پرستی میں پروان چڑھی اس کھیپ کے دماغ نہ یہاں کے رہے ہیں نہ سات سمندر پار وہاں کے ..ہیجڑے کا لفظ میں نے کسی طنز کے طور پر نہیں لکھا بلکہ یہ تلخ ترین حقیقت ہے کہ ہیجڑا تو محض ایسا لفظ ہے جو اس جنس کے لئے استمعال کیا جاتا ہے جو جنسی طور پر نہ مرد ہے نہ عورت . ویسے ہی یہ ذہنی طور پر ایسی نسل تیار ہوئی ہے جو نہ پاکستان کی رہی ہے نہ ہی مغرب میں رہ کر مغربی بن سکے.
0 notes
Photo

Interfaith Solidarity Council 🤔
0 notes