Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
میں اپنے ایتھسٹ دوستوں کو جب جذباتی ہوتے دیکھتا ہوں تو اکثر یہ مشورہ دیتا ہوں کہ بالکل مطمئین رہیں ۔۔مذاہب اپنی موت آپ مر رہے ہیں ۔۔شعور اور فکری ارتقاء کے ساتھ ساتھ یہ اپنی فطرت میں بھاری ۔۔فرسودہ اور نا قابل اصلاح عقائد آنے والی دنیا میں خود ختم ہوں گے ۔۔بہت سارے مذاہب ختم ہو چکے ۔۔کئ شکست مان کر اپنے درگاہوں میں واپس چلے گئے ۔۔جو مزاحمت کر رہے ہیں وہ بھی اپنے آخری دموں پر ہیں ۔۔شاید آپ کو میری بات عجیب لگے لیکن یہ مذہبی جہالت اور توہم پرستی صدیوں کی دین ہے اور صدیوں کے شعوری ارتقاء کے بعد ہی رخصت ہو گی ۔۔
دنیا کا ہر خطہ جو اس وقت انسانی معیارات کے ہر میدان میں سر فہرست ہے وہ مکمل سیکولر اور لبرل ہو چکا ۔۔ترقی کی خواہش اور مذہبی جہالت ایک ساتھ نہیں پنپ سکتے ۔۔یہ حقیقت اب عیاں ہو گئ ۔۔بڑے مذاہب کا سب سے چھوٹا اور جنونی بچہ اسلام اب مزاحمت کر رہا ہے ۔۔ماضی کے قصوں اور مستقبل میں کسی روحانی شخصیت کا انتظار اور کفار پر فتح کے سہانے خواب ۔۔۔۔یہ وہ لالی پاپ ہیں جو اسلامی فاششٹ دن رات چوس رہے ہیں ۔۔
خُدا آگے بھاگ رہا ۔۔سائنس اس کے پیچھا کر رہی ۔۔ان کُند ذہن بنیاد پرستوں کے عقائد تو اقوام متحدہ کے انسانی چارٹر سے متصادم ہو چکے ۔۔مہذب دنیا اب بنیاد پرستوں کو یوں دیکھتی ہے جیسے قرون وسطی کے زمانے کی غار سے نکلی ہوئی وحشی مخلوق ۔۔
جی ہاں ۔۔مہذب دنیا میں مسائل موجود ہیں لیکن بہتری اور اصلاح کی گنجائش بھی موجود ہے ۔۔بہتر سے بہتر انسانی حقوق کے لیے اور سرمایہ دارنہ نظام اور دولت کے ارتکاز کے خلاف بھی یہی مہذب قومیں اٹھائیں گی اور اس کی مقدر بھر اصلاح کریں گی ورنہ ہم لوگ تو ابھی تک تہزیب کی لاش کو ہتھکڑیوں میں دفن کر رہے ۔۔ہم تو تین وقت کی روٹی ۔۔صاف پانی کی تلاش اور طاقت ور کے آگے سجدے میں گرے ہوئے ہیں ۔۔
بہترین انسانی فلاحی ریاستوں کے نظام کا جائزہ لیں ۔۔تعلیم ۔۔صحت ۔۔ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ان کی بڑھوتی دیکھیں ۔۔تعلیم مفت ہی نہیں حکومت پلے سے طالب علموں کو وظیفے دیتی ۔۔بوڑھے ۔۔معذور ۔۔بچوں کی دیکھ بھال دیکھیں ۔۔آن کی صحت دیکھیں ۔۔ان کی صنفی مساوات کا جائزہ لیں ۔۔ان کے صحت کے نظام کا جائزہ لیں اور پھر اپنے گربیان میں جھانکیں ۔۔وہاں مڈل کلاس طبقے میں دن بدن اضافہ ہو رہا کہ زندگی کی معیاری سہولیات اب ہر ایک کی دسترس میں آتی جا رہی ۔۔دولت کا ارتکاز کم سے کم ہو رہا ۔۔
مذاہب اب الفاظوں ۔۔مباحثوں اور وضاحتوں میں زندہ ہیں ۔۔ورنہ دنیا میں عملی طور پر مکمل ناکام ۔۔لوٹ مار سے بیت المال بھرنے ۔۔صدقہ خیرات اور زکوت سے غریبوں کو دو وقت کی روٹی دینے ۔۔دنیا کو تلوار کے زور پر فتح کرنے ۔۔غلاموں اور لونڈیوں سے اپنے حجرے اور حرم بھرنے اور ایک مکمل برائی کا حقوق دینے کے نام سے دفاع کرنے ۔۔خواتین کے لیے بدترین پیکچ دینے ۔۔انکار کرنے پر سر کاٹنے اور سوال کا گلا گھوٹنے کا دور گزر گیا ۔۔اب یہ آگاہی کا دور ہے ۔۔مٹی سے بنی فن تعمیر کی ایک بھونڈی مسجد میں بیٹھی ایک الہامی اور مقدس ہستی اور اس کے گرد کھڑے تلوار سونتے چند جنونی جو ہر سوال اور تنقید کرنے والے کا سر تن سے جُدا کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے تھے اُن کا دور گزر گیا ۔۔وحشت ۔۔بربریت ۔۔لوٹ مار ۔۔تقدس ۔۔عقیدت ۔۔ناکام معاشی نظام ۔۔ناکام ترین سیاسی نظام کا وقت گزر گیا ۔۔یہ روشن خیالی ۔۔آذادی اور لبرل ازم کا دور ہے ۔۔جو قوم جتنی جلدی اس حقیقت کا ادراک کر لے گی ۔۔سکون کا سانس لے سکے گی ۔یہ بہتری کا سفر ہے ۔۔جہالت میں ڈوبی قومیں اس کے خلاف مزاحمت کر رہیں ۔۔کرنے دیں لیکن بہتری کا سفر آگے کو جاری رہے گا ۔۔یہ یاد رکھیں ۔۔اپنے اپنے خُداؤں کے تابوت اُٹھائیں اور اپنی خانقاہوں میں جا کر ان کی عبادت کریں ۔۔مہذب دنیا کو اپنی دنیا کو حقیقی جنت بنانے دیں ۔
0 notes
Text
اقوام عالم میں تمام کے تمام مزہبی لوگوں کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھنے کی ضرورت ہے
کیونکہ وہ زہنی بیماری کا شکار نفسیاتی مریض ہیں
مگر وہ اپنے علاج کی بجائے دنیا کو زمانے کی ہر بیماری کا علاج بتا رہے ہوتے ہیں
جس چیز کو جتنا دباؤ اتنی شدت سے باہر کو نکلتی ہے فطرتی جذبوں کو غیر فطری مزہبی پابندیوں کی جکڑ نے انسانی نفسیات کا کھلواڑ کر رکھا ہے
مزہب اسکو جس چیز سے گناہ کی وجہ سے منع کرتا ہے جزبات اسکا فطرت کی وجہ سے اظہار چاہتے ہیں جو کہ مزہب کے مقابلے میں حقیقت بھی ہے تو پھر جو بھی سورس میسر ہے اسکا استعمال بھی بے دریغ ہوگا
پھر مدرسوں میں معصوم بچوں کے ساتھ غیرفطری فعل سرزد ہونگے گھروں اور محلوں میں معصوم بچیوں سے زیادتی ہوگی
یعنی جہاں بھی کسی کو بھی کوئی بھی موقع ہاتھ لگا وہ اسے استعمال کرے گا چونکہ فطرتی جزبات حقیقی وجود رکھتے ہیں تو اس قدر غالب ہو جاتے ہیں کہ تب غیر حقیقی کوئی گناہ اور اللہ کا خوف یاد نہیں رہتا
ہمیں ان معاشرتی بیگار سے نجات تب ہی ملے گی جب ہم ان حلال حرام گناہ ثواب نیکی بدی جیسے فرسودہ خرافات سے آزاد ہو کر سماج کو تعلیم یافتہ بنا کر انہیں ہر اچھے بُرے پہلوؤں سے آگاہ کر کے انکو آزاد کریں
جب آپ خود کو مزہب پرست کہتے ہیں تو پھر سماجی بڑائی آپکے وجود کا حصہ ہونا لازمی امر بن جاتا ہے اسکے نفسیاتی پہلو تو ہیں ہی مزہبی بھی بہت سے پہلو ہیں اور سب سے بڑا اور اہم پہلو خود مزہب ہی ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو رعایتیں بہت دیتا ہے
اسکے پاس فرد کے ہر گناہ اور بُرائی کیلئے دنیا میں اسکا حل علاج اور رعایت خون بہا دینے سے لیکر چند غریب لوگوں کو ایک ٹائم کا کھانا کھلانے سمیت چند ورد وظیفے پڑھنے کی صورت میں موجود ہیں
اسلئے آپ کچھ بھی آسانی سے کر جاتے ہیں لیکن مہزب دنیا میں جہاں مزہب فرد کا زاتی معاملہ ہے اور ریاست اپنے قوانین پر عمل کرتی ہے آپ چھوٹی سی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ قانون آپکو خون بہا نہیں سزا دے گا
بنیاد پرستوں کی تو رہنے ہی دیں مزایب کو جدید کرنے والے تمام کے تمام دانشوروں
نے بھی اپنی تمام کی تمام قابلیت مزہب کو دین بنانے کے سوا اور کہی بھی ضائع نہیں کی…؟
حالانکہ وہ بخوبی جانتے تھے انسانی مسائل کو…….
دینی حوالہ سے گناہ ثواب حلال حرام کا معاملہ تو زندگی ختم ہونے کی بعد کا ہے تو جو اس زندگی کے مسائل سے انسان الجھا پڑا ہے اسکی آسانیوں کے حل کیا ہیں مگر وقت واقعی ان سب کی قابلیت کے منہ پر تمانچے رسید کرتا ہے وہ خود بھی مانتے ہیں اور مایوسی میں برملا اظہار کرتے ہیں کہ جب مزہب یا دین مسائل کا حل نہیں دیتا تمام مکتبہ فکر جو اسلام کے داعی ہیں انکو ایک پلیٹ فارم پر یکجا نہیں کرتا تو سوشلزم ہی بہترین نظام ہے انسان کو اس میں ہی پناہ ڈھونڈ لینی چاہیئے انسان کی فلاح اسی میں ہے
کچھ بھی ہو ارتقائی سفر ان بنیاد پرستوں اور مجددیت کے علمبرداروں کو فنا کر دے گا ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں ضرور بہ ضرور ایسے ماحول میں رہتی ہونگی جہاں یہ مزاہب یا دین نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ہو گی اور اگر ہو گی بھی تو وہ فرد کا زاتی معاملہ ہو گا نہ کہ کوئی کسی دوسرے پر اپنے ایمان کی حقانیت ٹھونسے.
2 notes
·
View notes
Text
اقوام عالم میں تمام کے تمام مزہبی لوگوں کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھنے کی ضرورت ہے
کیونکہ وہ زہنی بیماری کا شکار نفسیاتی مریض ہیں
مگر وہ اپنے علاج کی بجائے دنیا کو زمانے کی ہر بیماری کا علاج بتا رہے ہوتے ہیں
جس چیز کو جتنا دباؤ اتنی شدت سے باہر کو نکلتی ہے فطرتی جذبوں کو غیر فطری مزہبی پابندیوں کی جکڑ نے انسانی نفسیات کا کھلواڑ کر رکھا ہے
مزہب اسکو جس چیز سے گناہ کی وجہ سے منع کرتا ہے جزبات اسکا فطرت کی وجہ سے اظہار چاہتے ہیں جو کہ مزہب کے مقابلے میں حقیقت بھی ہے تو پھر جو بھی سورس میسر ہے اسکا استعمال بھی بے دریغ ہوگا
پھر مدرسوں میں معصوم بچوں کے ساتھ غیرفطری فعل سرزد ہونگے گھروں اور محلوں میں معصوم بچیوں سے زیادتی ہوگی
یعنی جہاں بھی کسی کو بھی کوئی بھی موقع ہاتھ لگا وہ اسے استعمال کرے گا چونکہ فطرتی جزبات حقیقی وجود رکھتے ہیں تو اس قدر غالب ہو جاتے ہیں کہ تب غیر حقیقی کوئی گناہ اور اللہ کا خوف یاد نہیں رہتا
ہمیں ان معاشرتی بیگار سے نجات تب ہی ملے گی جب ہم ان حلال حرام گناہ ثواب نیکی بدی جیسے فرسودہ خرافات سے آزاد ہو کر سماج کو تعلیم یافتہ بنا کر انہیں ہر اچھے بُرے پہلوؤں سے آگاہ کر کے انکو آزاد کریں
جب آپ خود کو مزہب پرست کہتے ہیں تو پھر سماجی بڑائی آپکے وجود کا حصہ ہونا لازمی امر بن جاتا ہے اسکے نفسیاتی پہلو تو ہیں ہی مزہبی بھی بہت سے پہلو ہیں اور سب سے بڑا اور اہم پہلو خود مزہب ہی ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو رعایتیں بہت دیتا ہے
اسکے پاس فرد کے ہر گناہ اور بُرائی کیلئے دنیا میں اسکا حل علاج اور رعایت خون بہا دینے سے لیکر چند غریب لوگوں کو ایک ٹائم کا کھانا کھلانے سمیت چند ورد وظیفے پڑھنے کی صورت میں موجود ہیں
اسلئے آپ کچھ بھی آسانی سے کر جاتے ہیں لیکن مہزب دنیا میں جہاں مزہب فرد کا زاتی معاملہ ہے اور ریاست اپنے قوانین پر عمل کرتی ہے آپ چھوٹی سی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتے کیونکہ قانون آپکو خون بہا نہیں سزا دے گا
بنیاد پرستوں کی تو رہنے ہی دیں مزایب کو جدید کرنے والے تمام کے تمام دانشوروں
نے بھی اپنی تمام کی تمام قابلیت مزہب کو دین بنانے کے سوا اور کہی بھی ضائع نہیں کی…؟
حالانکہ وہ بخوبی جانتے تھے انسانی مسائل کو…….
دینی حوالہ سے گناہ ثواب حلال حرام کا معاملہ تو زندگی ختم ہونے کی بعد کا ہے تو جو اس زندگی کے مسائل سے انسان الجھا پڑا ہے اسکی آسانیوں کے حل کیا ہیں مگر وقت واقعی ان سب کی قابلیت کے منہ پر تمانچے رسید کرتا ہے وہ خود بھی مانتے ہیں اور مایوسی میں برملا اظہار کرتے ہیں کہ جب مزہب یا دین مسائل کا حل نہیں دیتا تمام مکتبہ فکر جو اسلام کے داعی ہیں انکو ایک پلیٹ فارم پر یکجا نہیں کرتا تو سوشلزم ہی بہترین نظام ہے انسان کو اس میں ہی پناہ ڈھونڈ لینی چاہیئے انسان کی فلاح اسی میں ہے
کچھ بھی ہو ارتقائی سفر ان بنیاد پرستوں اور مجددیت کے علمبرداروں کو فنا کر دے گا ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں ضرور بہ ضرور ایسے ماحول میں رہتی ہونگی جہاں یہ مزاہب یا دین نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ہو گی اور اگر ہو گی بھی تو وہ فرد کا زاتی معاملہ ہو گا نہ کہ کوئی کسی دوسرے پر اپنے ایمان کی حقانیت ٹھونسے.
2 notes
·
View notes