asliahlesunnet
asliahlesunnet
AsliAhleSunnet
940 posts
Salafi Fatawa Urdu
Don't wanna be here? Send us removal request.
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
گناہوں سے حج کا اجر و ثواب کم ہو جاتا ہے جواب: کیا گناہوں سے حج کا اجر و ثواب کم ہو جاتا ہے؟ جواب :گناہوں سے حج کا اجر و ثواب بالکل کم ہو جاتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ﴾ (البقرۃ: ۲/۱۹۷) ’’ جو شخص ان حج کے مخصوص مہینوں میں حج کی نیت کر لے تو حج (کے دنوں) میں عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے لڑے جھگڑے۔‘‘ بلکہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ گناہ سے حج فاسد ہو جاتا ہے کیونکہ حج میں گناہ کے ارتکاب صراحتا سے منع کر دیا گیا ہے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک معروف قاعدہ یہ ہے کہ اگر حرمت کا تعلق بطور خاص کسی عبادت سے نہ ہو تو اس سے وہ عبادت باطل نہیں ہوتی۔ گناہوں کی حرمت احرام ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ وہ تو احرام اور غیر احرام ہر حال میں حرام ہیں، لہٰذا درست بات یہی ہے کہ گناہوں سے حج باطل تو نہیں ہوتا، البتہ اس سے اجر و ثواب میں کمی ضرور واقع ہو جاتی ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۶ ) #FAI00438 ID: FAI00438 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
حج کا قصد کرکےجانے والےشخص کے متعلق حکم سوال: جو شخص حج کا قصد کرے اور پھر اس سے رک جائے، تو اس کے لیے کیا لازم ہے؟ جواب :ا��ر اس نے احرام نہ باندھا ہو تو اس حال میں اس کے لیے کچھ لازم نہ ہو گا کیونکہ انسان نے جب تک احرام نہ باندھا ہو، اس کی مرضی ہے چاہے تو سفر جاری رکھے اور چاہے تو اپنے گھر واپس آجائے، البتہ اگر حج فرض ہو تو واجب ہے کہ اسے جلد ادا کرے۔ اگر کوئی رکاوٹ ہو تو اس پر کچھ لازم نہیں۔ اگر رکاوٹ احرام کے بعد پیش آئے اور بوقت احرام اس نے یہ شرط عائد کی ہو کہ اگر مجھے کوئی رکاوٹ پیش آگئی تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گا جہاں تو مجھے روک دے گا تو وہ احرام کھول کر حلال ہو جائے گا اور اس پر کچھ لازم نہیں ہو گا اور اگر اس نے ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی اور رکاوٹ دور ہونے کی اسے جلد امید ہو تو وہ رکاوٹ دور ہو جانے کا انتظار کرے اور پھر اپنے حج کو پورا کر لے۔ اگر وقوف عرفہ سے قبل رکاوٹ دور ہو جائے تو وہ عرفہ میں وقوف کر لے، اس کا حج پورا ہو جائے گا اور اگر رکاوٹ وقوف عرفہ کے بعد دور ہو اور وہ عرفہ میں وقوف نہ کر سکا ہو تو اس کا حج فوت ہو گیا، وہ عمرہ کرے اور حلال ہو جائے۔ اگر حج فرض ہو تو آئندہ سال اس کی قضا ادا کرے۔ اگر اسے رکاوٹ کے جلد دور ہونے کی امید نہ ہو تو احرام کھول کر حلال ہو جائے اور قربانی کا جانور ذبح کر دے کیونکہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے ع��وم کا یہی تقاضا ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ﴾(البقرۃ: ۲/۱۹۶) ’’اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو اور اگر (راستے میں) روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو) ۔‘‘ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۵، ۴۵۶ ) #FAI00437 ID: FAI00437 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
محصور کےبارے میں کیا حکم ہے ؟ سوال۵۳۷: ایک شخص نے میقات سے حج کا احرام باندھا لیکن جب وہ مکہ پہنچا تو انکوائری آفس نے اسے منع کر دیا کیونکہ اس کے پاس پروانہ حج نہ تھا، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :جب اس کے لیے مکہ میں داخل ہونا مشکل ہے، تو اس حال میں اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ محصور ہے، اب احصار کی جگہ پر قربانی کی ذبح کر دے اور احرام کھول کر حلال ہو جائے۔ اگر اس کا یہ حج فرض تھا، تو اسے بعد میں یہ حج پہلے حکم کے تحت ہی ادا کرنا پڑے گا، قضا کے طور پر نہیں اور اگر اس کا یہ حج فرض نہیں تھا تو پھر راجح قول کے مطابق اس پر کچھ لازم نہیں ہے کیونکہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہونے سے روک دیے گئے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس عمرہ کی قضا کا حکم نہیں دیا تھا۔ محصور کے لیے وجوب قضا کا حکم کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، اس بارے میںثابت صرف یہ حکم ہے: ﴿فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ﴾ (البقرۃ: ۲/۱۹۶) ’’اور اگر رستے میں روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کر دو۔‘‘ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے او ر کسی چیز کا ذکر نہیں فرمایا۔ یاد رہے اسے عمرۃ القضا کے نام سے موسوم اس لیے کیا گیا کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے معاہدہ فرمایا تھا۔ قضا کا لفظ یہاں معاہدے کے معنی میں ہے، فوت ہو جانے والی چیز کے استدراک کے معنی میں نہیں ۔ واللّٰہ اعلم۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۵ ) #FAI00436 ID: FAI00436 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
عمرہ کرنے والے کے لیے طواف و داع کا حکم سوال:عمرہ کرنے والے کے لیے طواف و داع کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اگر مکہ میں عمرے کے لیے آنے والے کی نیت یہ ہو کہ وہ طواف، سعی، حلق یا تقصیر کرے گا اور واپس چلا جائے گا، تو اس صورت میں اس پر طواف و داع نہیں ہے کیونکہ اس کے حق میں طواف قدوم ہی طواف و داع کے قائم مقام ہے اور اگر وہ مکہ میں رہے تو پھر راجح بات یہ ہے کہ واپسی پر اس کے لیے طواف و داع واجب ہو گا اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: ۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب ذیل فرمان کے عموم کا یہی تقاضا ہے: ((لَایَنْفِرَّ أَحَدٌ حَتَّی یَکُوْنَ ٰاخِرُ عَہْدِہِ بِالْبَیْتِ))( صحیح مسلم، الحج، باب وجوب طواف الوداع و سقوطہ عن الحائض، ح: ۱۴۲۷۔) ’’کوئی شخص اس وقت تک سفر نہ کرے جب تک آخری وقت بیت اللہ میں نہ گزارے۔‘‘ اس حدیث میں (احَدٌ) کا لفظ نکرہ ہے اور نہی (ممانعت) کے سیاق میں ہے، لہٰذا یہ عام ہے اور مکہ سے جانے والے ہر شخص اس عموم میں داخل ہے۔ ۲۔ عمرہ حج کی طرح ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام حج اصغر رکھا ہے، جیسا کہ حضرت عمر و بن حزم رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث میں ہے، جسے امت نے قبولیت سے نوازا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَالْعُمْرَۃُ ہِیَ الْحَجُّ الأَصْغَرُ))( سنن الدار قطنی: ۲/۲۸۵ رقم: ۱۲۲۔) ’’اور عمرہ حج اصغر ہے۔‘‘ ۳۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((دَخَلَت العمرۃْ فِی الْحَجِّ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ)) (صحیح مسلم، الحج، باب جواز العمرۃ فی أشہر الحج،ح: ۳۰۱۴، ۱۲۴۱، ۲۰۳) ’’بے شک عمرہ قیامت کے دن تک حج میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘ ۴۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ((اِصْنَعْ فِی عُمْرَتِکَ مَا أَنْتَ صَانِعٌ فِی حَجِّکَ))( صحیح البخاری، الحج، باب غسل الخلوق ثلاث مرات، ح: ۱۵۳۶، و صحیح مسلم، الحج، باب ما یباح للمحرم بحج أو عمرۃ، ح: ۲۷۹۸، ۱۱۸۰، ۶) ’’اپنے عمرہ میں بھی اسی طرح کرو، جس طرح تم اپنے حج میں کرتے ہو۔‘‘ اس سے صرف وہی امور خارج ہیں، جس کے خارج ہونے پر علماء کا اجماع ہے، مثلاً: عرفہ کا وقوف، مزدلفہ میں رات بسر کرنا، منیٰ میں رات گذار نااور رمی جمار یہ امور بالاجماع عمرہ میں سے نہیں ہیں۔ بہرحال انسان جب طواف وداع کر لے توپورے طورپر زیادہ بریٔ الذمہ ہو جائے گا اور احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ واللّٰہ الموفق۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۴، ۴۵۵ ) #FAI00435 ID: FAI00435 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
حج وعمرہ کرنے والا کوچ سے پہلے آخری وقت بیت اللہ میں گزارے سوال۵۳۵: ایک شخص نے صبح طواف و داع کیا، پھر سو گیا اور اس نے عصر کے بعد سفر کا ارادہ کیا، تو کیا اس پر کچھ لازم ہے؟ جواب :عمرے اور حج کی صورت میں دوبارہ طواف و داع کرنا اس کے لیے لازم ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لَایَنْفِرَّ أَحَدٌ حَتَّی یَکُوْنَ آخِرُ عَہْدِہِ بِالْبِیْتِ))( صحیح مسلم، الحج، باب وجوب طواف الوداع و سقوطہ عن الحائض،ح:۱۳۲۷) ’’کوئی شخص کوچ نہ کرے حتیٰ کہ وہ آخری وقت بیت اللہ میں گزار لے۔‘‘ آپ نے یہ بات حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی، اورطواف و داع کے وجوب کی ابتدا اسی وقت سے ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے عمرہ ادا فرمایا تھا مگر یہ ثابت نہیں کہ واپسی کے وقت آپ نے طواف و داع بھی فرمایا ہو کیونکہ طواف و داع تو حجۃ الوداع کے موقع پر واجب ہوا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: ((اِصْنَعْ فِی عُمْرَ تِکَ مَا أَنْتَ صَانِعٌ فِی حَجِّکَ))(صحیح البخاری، الحج، باب غسل الخلوق ثلاث مرات، ح: ۱۵۳۶، و صحیح مسلم، الحج، باب ما یباح للمحرم بحج أو عمرۃ، ح: ۲۷۹۸، ۱۱۸۰، ۶) ’’اپنے عمرے میں بھی تم اس طرح کرو جس طرح تم اپنے حج میں کرتے ہو۔‘‘ یہ حکم عام ہے لیکن اس سے وقوف، نیز منیٰ میں رات بسر کرنا اور رمی مستثنیٰ ہیں کیونکہ یہ احکام بالاتفاق حج کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر احکام عام ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کو حج اصغر کے نام سے بھی موسوم فرمایا ہے جیسا کہ حضرت عمر و بن حزم رضی اللہ عنہ کی اس طویل اور مشہور حدیث میں ہے،[1]جسے علماء نے قبولیت سے نوازا ہے، اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن علماء کے قبولیت سے نوازنے کی وجہ سے یہ حدیث صحیح کے قائم مقام ہے، نیز اس لیے بھی کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۲/۱۹۶) ’’اور حج اور عمرے کو اللہ (کی خوشنودی) کے لیے پورا کرو۔‘‘ لہٰذا طواف و داع کا تعلق اگر اتمام حج سے ہے، تواس کی بنیادپر اس کا تعلق اتمام عمرہ سے بھی ہوگیا اور پھر اس لیے بھی کہ عمرہ کرنے والا یہ شخص مسجد الحرام میں طواف کے ساتھ داخل ہوا تھا، لہٰذا اسے یہاں سے جاتے وقت بھی طواف کرنا چاہیے۔ بہر حال حج کی طرح عمرے میں بھی طواف وداع واجب ہے اور ایک اور حدیث میں ہے: ((اذاحج الرجلَ أَوِ اعْتَمَر فلایخرجَ حتی یکونْ آخِرُ عَہْدِہِ بِالْبَیْتِ)) (سنن أبی داود، المناسک، باب فی الوداع، ح:۲۰۰۲، وجامع الترمذی، الحج، باب ما جاء من حج أو اعتمر فلیکن آخر عہدہ بالبیت، ح:۹۴۶۔) ’’جو شخص اس گھر کا حج یا عمرہ کرے، اسے آخری وقت بیت اللہ میں گزارنا چاہیے۔‘‘ لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ یہ حجاج بن ارطاۃ کی روایت ہے۔ اگر یہ روایت ضعیف نہ ہوتی، تو اس مسئلے میں یہ نص قطعی ہوتی لیکن ضعیف ہونے کی وجہ سے یہ روایت ناقابل استدلال ہے، البتہ وہ اصول جو ہم نے ابھی ابھی بیان کیے ہیں، وہ اس بات کی دلیل ہیں کہ عمرے میں بھی طواف و داع واجب ہے اور احتیاط بھی اسی میں ہے کیونکہ عمرے میں جب آپ طواف و داع کریں گے، تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ آپ نے غلطی کی ہے لیکن اگر آپ طواف و داع نہیں کریں گے، تو جس کے نزدیک طواف و داع واجب ہے، وہ ضرور یہ کہے گا کہ آپ نے غلطی کی ہے، طواف و داع کرنے والا ہر حال میں صحیح ہے، جب کہ طواف نہ کرنے والا بعض اہل علم کے بقول خطا کار ہے۔ ‘‘ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۳، ۴۵۴ ) #FAI00434 ID: FAI00434 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
رات کے وقت منیٰ میں جگہ نہ ملنے پر انسان کیا کرے ؟ سوال ۵۳۴: جو شخص رات کے وقت منیٰ میں آئے اور جگہ نہ پائے اور نصف رات منیٰ میں گزارنے کے بعد حرم میں چلا جائے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس کا حکم یہ ہے کہ اگرچہ یہ عمل جائز ہے لیکن اس طرح کرنا نہیں چاہیے کیونکہ حاجی کو ایام تشریق میں رات دن منیٰ میں رہنا چاہیے۔ اگر منیٰ میں جگہ نہ ملے تو آخری خیمہ کے ساتھ ڈیرہ ڈال لے، خواہ وہ جگہ منیٰ سے باہر ہو بشرطیکہ پوری طرح تلاش کرنے کے باوجود منیٰ میں جگہ نہ ملے۔ ہمارے زمانے کے بعض اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر انسان کو منیٰ میں جگہ نہ ملے، تو اس سے منیٰ میں رات بسر کرنے کا حکم ساقط ہو جاتا ہے اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ مکہ میں یا کسی بھی دوسری جگہ رات بسر کر لے۔ انہوں نے اسے اعضائے وضو میں سے کسی ایک عضو کے مفقود ہونے پر قیاس کیا ہے کہ جس طرح اس کا دھونا ساقط ہو جاتا ہے، اسی طرح منیٰ میں رات بسر کرنا ساقط ہو جاتا ہے لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ یہ وہ عضو جس سے حکم طہارت متعلق ہے، وہ تو موجود ہی نہیں جب کہ منیٰ میں رات بسر کرنے کے حکم سے مقصود یہ ہے کہ سب لوگ امت واحدہ بن کر اجتماعیت کا مظاہرہ کریں، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ منیٰ میں جگہ نہ ملنے کی صورت میں وہ آخری خیمے کے پاس رات گزار لے تا کہ وہ حاجیوں کے ساتھ مل کر رہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جب مسجد بھر جائے تو لوگ مسجد کے ارد گرد نماز پڑھنا شروع کر دیں لیکن ضروری ہے کہ صفیں باہم ملی ہوں تا کہ نمازی ایک جماعت ہوں۔ یہ ہے منیٰ میں رات بسر کرنے کی نظیر جب کہ کٹا ہوا ہاتھ اس کی نظیر نہیں ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۲، ۴۵۳ ) #FAI00433 ID: FAI00433 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
فَمَن تَعَجَّلَ فِی یَوْمَیْنِ کاصحیح مفہوم سوال ۵۳۳: جو شخص بارہویں دن یہ سمجھتے ہوئے رمی ترک کر دے کہ (قرآن میں) جلدی سے یہی مراد ہے اور پھر مکہ کو چھوڑ دے اور طواف و داع نہ کرے، تو اس کے حج کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس کا حج صحیح ہے کیونکہ اس نے ارکان حج میں سے کسی رکن کو ترک نہیں کیا، البتہ اگر اس نے بارہویں رات منیٰ میں نہیں گزاری، تو اس طرح تین واجبات ترک کر دیے، جو حسب ذیل ہیں: (۱) بارہویں رات منیٰ میں بسر کرنا (۲) باہوریں دن رمی جمار کرنا (۳) طواف و داع۔ اس پر واجب ہے کہ ان میں سے ہر واجب کی طرف سے مکہ میں جانور ذبح کرے اور اسے فقرا میں تقسیم کر دے کیونکہ حج کے بارے میں اہل علم کے نزدیک یہ واجب ہے کہ جب وہ حج کے کسی واجب کو ترک کر دے، تو اس کے فدیے کے طور پر مکہ میں ایک جانور ذبح کر کے اسے فقرا میں تقسیم کر ے۔ اس سائل نے جس غلطی کا ارتکاب کیا ہے اس کے حوالے سے میں اپنے حاجی بھائیوں کی اس طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ بہت سے حاجی یہ سمجھتے ہیں کہ: ﴿فَمَن تَعَجَّلَ فِی یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾ (البقرۃ:۲/۲۰۳) ’’پھر جس نے دو دنوں میں (منیٰ سے مکہ کی طرف واپسی کے لیے) جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ گیارہویں دن ہی منیٰ سے نکل جائے، یعنی وہ دو دن سے عید کا دن اور گیارہویں تاریخ کا دن مراد لیتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾ (البقرۃ: ۲/۲۰۳) ’’اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن ہیں) اللہ کو یاد کرو، پھر جس نے دو دنوں میں (منی سے مکہ کی طرف واپسی کے لیے) جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ ﴿أیام معدو دات﴾ ’’گنتی کے دنوں‘‘ سے مراد ایام تشریق ہیں، جن میں پہلا دن گیارہویں تاریخ سے ہے، لہٰذا اس صورت میں اس آیت: ﴿فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾ (البقرۃ:۲۰۳) ’’پھر جس نے دو دنوں میں (منی سے مکہ کی طرف واپسی کے لیے) جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایام تشریق کے دنوں میں جلدی کر لے اور دوسرا دن باہوریں تاریخ کا دن ہے، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لے تا کہ غلطی نہ کرے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۱، ۴۵۲ ) #FAI00432 ID: FAI00432 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
تیرہ ذو الحجہ کوزوال سے پہلے رمی کرناجائز نہیں سوال ۵۳۲: سعودیہ سے باہر کے ایک حاجی کی واپسی کا وقت ۱۳ ذوالحجہ کو چار بجے عصر کے قریب طے ہے۔ وہ بارہ تاریخ کو رمی کے بعد منیٰ سے باہر نہیں نکلا اور تیرہویں رات اسے منیٰ ہی میں گزارنی پڑی تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ صبح کو رمی کر کے روانہ ہو جائے کیونکہ اگر اسے زوال کے بعد تک تاخیر ہوگئی تو وہ سفر نہیں کر سکے گا اور اسے بہت مشکل پیش آئے گی؟ اگر جواب عدم جواز کا ہے، تو کیا کسی رائے کے مطابق زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللّٰه عنا وعن المسلمین خیرا جواب :زوال سے پہلے اس کے لیے رمی کرنا جائز نہیں، البتہ اس حالت میں ضرورت کی وجہ سے اس سے رمی ساقط ہو جائے گی اور اس کے لیے فدیے کا ایک جانور منیٰ یا مکہ میں ذبح کرنا ہوگا یا وہ کسی کو جانور ذبح کرنے کے لیے اپنا وکیل مقرر کر دے، اس جانور کا گوشت فقرا میں تقسیم کر دیا جائے اور وہ طواف وداع کر کے چلا جائے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا کسی رائے کے مطابق زوال سے قبل رمی کرنا جائز ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایک رائے کے مطابق قبل از زوال رمی جائز ہے لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ عید کے بعد کے دنوں میں قبل از زوال رمی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((ٔخُذُوْا عنی مَنَاسِکَکُمْ))( صحیح البخاری، العلم، باب الفتیا وہو واقف علی الدابۃ وغیرہا، ح: ۸۳، وصحیح مسلم، الحج، باب ��ستحباب رمی جمرۃ العقبۃ یوم النحر، ح: ۱۲۹۷، واللفظ لہ۔) ’’تم اپنے حج کے احکام مجھ سے سیکھو۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں میں زوال کے بعد ہی رمی فرمائی تھی۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال کے بعد رمی کرنا مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا تو ہم عرض کریں گے کہ یہ صحیح ہے کہ مجرد فعل ہے اور مجرد فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کا مجرد فعل ہونا اس لیے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی تھی اور یہ حکم نہیں فرمایا تھا کہ رمی زوال کے بعد ہو، نیز زوال سے پہلے رمی سے آپ نے منع نہیں فرمایا تھا۔ مجرد فعل کا وجوب کی دلیل نہ ہونا اس لیے ہے کہ وجوب تو اس صورت میں ہوتا ہے کہ کسی فعل کا حکم دیا گیا ہو یا کسی فعل کے ترک سے منع کیا گیا ہو لیکن ہم یہ عرض کریں گے کہ یہاں قرینہ موجود ہے کہ یہ فعل وجوب کے لیے ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال تک رمی کو مؤخر کرنا اس کے وجوب کی دلیل ہے۔ اگر رمی قبل از زوال بھی جائز ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور قبل از زوال رمی فرماتے کیونکہ اس میں لوگوں کے لیے آسانی اور سہولت تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دو کاموں میں اختیار دے دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کام کو اختیار فرمایا کرتے تھے۔ یہاں آپ نے اگر آسان کام یعنی رمی قبل از زوال کو اختیار نہیں فرمایا تو معلوم ہوا کہ یہ گناہ ہے۔ اس فعل کے وجوب کے لیے دوسری دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے فوراً بعد نماز ظہر سے پہلی رمی فرمایا کرتے تھے، گویا آپ شدت سے زوال کا انتظار فرماتے تاکہ جلدی سے رمی کر لیں، اسی وجہ سے نماز ظہر کو بھی مؤخر کر دیتے حالانکہ اسے اول وقت پر ادا کرنا افضل ہے۔ یہ سب کچھ زوال کے بعد رمی کرنے کے لیے ہواکرتا تھا۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۰، ۴۵۱ ) #FAI00431 ID: FAI00431 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
حاجی بارہ ذی الحجہ کو غروب سے پہلے منیٰ سےنکل سکتاہے سوال ۵۳۱: جب حاجی بارہ تاریخ کو غروب آفتاب سے قبل جلدی کی نیت سے منیٰ سے نکل جائے اور پھر غروب آفتاب کے بعد کسی کام سے اسے دوبارہ منیٰ میں واپس آنا پڑے، تو کیا اسے جلدی کرنے والا شمار کیا جائے گا؟ جواب :ہاں اسے جلدی کرنے والا شمار کیا جائے گا کیونکہ اس نے حج کو ختم کر دیا ہے اور کسی کام کی وجہ سے منیٰ میں دوبارہ واپس آنے کی نیت جلدی سے مانع نہیں ہے کیونکہ اس نے حج کے لیے نہیں بلکہ کسی کام کے لیے واپس آنے کی نیت کی ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۰ ) #FAI00430 ID: FAI00430 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
رات کا زیادہ حصہ منیٰ میں بسر کیا جائے سوال ۵۳۰: جو شخص بارہ بجے تک رات کا وقفہ منیٰ میں گزارے اور پھر طلوع فجر کے بعد مکہ میں داخل ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اگر بارہ بجے منیٰ میں آدھی رات کا وقت ہو تو پھر اس کے بعد منیٰ سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ رات دن منیٰ میں رہنا افضل ہے اور اگر بارہ بجے کا وقت آدھی رات سے پہلے ہو تو پھر منیٰ سے باہر نہیں نکلنا چاہیے کیونکہ منیٰ میں رات بسر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کا زیادہ حصہ منیٰ ہی میں بسر کیا جائے جیسا کہ ہمارے فقہاء نے ذکر فرمایا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۵۰ ) #FAI00429 ID: FAI00429 #Salafi #Fatwa #Urdu
1 note · View note
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
قارن کےلیے ایک ہی طواف وسعی کافی ہے سوال ۵۲۹: کیا حج قران کرنے والے کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے؟ جواب :جب انسان حج قران کرے، تو اس کے لیے حج و عمرہ دونوں کا ایک طواف اور ایک سعی ہی کافی ہے، طواف قدوم سنت ہوگا اگر چاہے تو طواف قدوم کے بعد سعی بھی کر لے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور اگر چاہے تو سعی کو عید کے دن طواف افاضہ کے بعد تک مؤخر کر دے لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے کر لے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی پہلے کی تھی۔ اس صورت میں عید کے دن وہ صرف طواف افاضہ کرے اور سعی نہ کرے کیونکہ اس نے سعی پہلے کرلی ہے اور اس بات کی دلیل کہ عمرہ وحج دونوں کے لیے ایک ہی طواف وسعی کافی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ فرمانا ہے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج قران تھا: ((طَوَافُکِ بِالْبَیْتِ وَباَلصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ یسعکِ لِحَجَّتِکِ وَعُمْرَتِکِ))( سنن ابی داود، المناسک، باب طواف القارن، ح: ۱۸۹۷۔) ’’تمہارا بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی، تمہارے حج و عمرہ کے لیے کافی ہے۔‘‘ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ قارن کا طواف وسعی اس کے حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۹، ۴۵۰ ) #FAI00428 ID: FAI00428 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
حج افراد کرنے والے پر طواف افاضہ کےبعد سعی لازم نہیں سوال ۵۲۸: جس شخص کا حج مفرد ہو اور اس نے طواف قدوم کے بعد سعی کی ہو تو کیا وہ طواف افاضہ کے بعد سعی کرے؟ جواب :اس پر طواف افاضہ کے بعد سعی لازم نہیں ہے۔ مفرد جب طواف قدوم کر لے، پھر اس کے بعد سعی بھی کر لے، تو یہ سعی حج کے لیے ہوگی، اب طواف افاضہ کے بعد اسے دوبارہ سعی کرنے کی ضرورت نہیں۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۹ ) #FAI00427 ID: FAI00427 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
مزدلفہ سے باہر رات گزارنے والے کے متعلق حکم سوال ۵۲۷: جو شخص حدود مزدلفہ کے نہ جاننے کی وجہ سے مزدلفہ سے باہر رات بسر کر لے، اس پر کیا لازم ہے؟ جواب :اہل علم کے نزدیک اس شخص پر فدیہ لازم ہے، وہ ایک بکری ذبح کر کے مکہ مکرمہ کے فقرا میں تقسیم کر دے کیونکہ اس نے حج کے واجبات میں سے ایک واجب کو ترک کیا ہے۔ اس مناسبت سے میں اپنے حاجی بھائیوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ وہ عرفہ اور مزدلفہ کے حدود کو پہچانیں۔ بہت سے لوگ حدود عرفہ سے باہر ڈیرے ڈال لیتے ہیں اور غروب آفتاب تک وہیں رہتے ہیں اور پھر حدود عرفہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جاتے ہیں، اس بنیاد پرہر انسان کے لیے حدود عرفہ کو پہچاننا اور عرفہ کے اندر داخل ہونا ضروری ہے۔ حدود عرفہ کو نشانات کے ذریعے سے واضح کر دیا گیا ہے، لہٰذا آجکل ان کے پہچاننے میں کوئی دشواری نہیں۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۹ ) #FAI00426 ID: FAI00426 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
ایک بیمار شخص کےمتعلق کیاحکم ہے جونہ رمی کر سکانہ طواف؟ سوال ۵۲۶: ایک شخص عرفہ کے دن بیمار ہوگیا جس کی وجہ سے اس نے منیٰ میں رات گزاری۔ نہ وہ رمی جمار کر سکا اور نہ ہی طواف کر سکا، تو اس پر کیا لازم ہوگا؟ جواب :اگر یہ شخص عرفہ کے دن اس قدر شدید بیمار ہوگیا کہ اس کے لیے حج کو مکمل کرنا ممکن نہ رہا، حالانکہ اس نے احرام باندھتے وقت یہ شرط عائد کی تھی کہ اگر مجھے کوئی روکنے والا روک لے، تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گا، جہاں تو مجھے روک دے گا، تو وہ حلال ہو جائے اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ لازم نہ ہوگا، البتہ اگر یہ حج فرض ہو تو اسے یہ حج کسی دوسرے سال ادا کرنا ہوگا اور اگر اس نے بوقت احرام وہ مذکورہ بالا شرط عائد نہیں کی تھی تو راجح قول کے مطابق اگر اس کے لیے حج مکمل کرنا ممکن نہ ہو تو وہ حلال ہو جائے لیکن اس پر ہدی (قربانی) واجب ہوگی کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ﴾ (البقرۃ: ۱۹۶) ’’تو جو تم میں حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے، وہ جیسی قربانی میسر ہو کر (کردیں)۔‘‘ اس کے الفاظ کہ ’’اگر روک دیے جاؤ‘‘ کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ دشمن کی وجہ سے روک دیے جانے یا کسی اور وجہ سے روک دیے جانے سب کو شامل ہیں کیونکہ احصار کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بھی رکاوٹ انسان کو حج کرنے سے روک دے، لہٰذا یہ مریض حلال ہو جائے اور ایک قربانی کر دے۔ اس کے علاوہ اور کچھ اس پر لازم نہیں اِلاّ الا َیہ کہ اگر اس نے اب تک فرض حج نہیں کیا، تو اسے اگلے سال حج کرنا ہوگا۔ اگر یہ مریض حج کے دنوں میں چلتا رہا اور اس نے مزدلفہ میں وقوف کیا لیکن اس نے منیٰ میں رات گزاری نہ جمرات کو رمی کی تو اس حال میں اس کا حج صحیح ہے لیکن واجب کو ترک کرنے کی وجہ سے اس پر دم (خون) لازم ہوگا یعنی اس پر دو دم لازم ہیں، ایک منیٰ میں رات بسر نہ کرنے کی وجہ سے اور دوسرا جمرات کو رمی نہ کرنے کی پاداش مین۔ جب اللہ تعالیٰ اسے صحت و عافیت عطا فرما دے، تو وہ طواف افاضہ کر لے کیونکہ راجح قول کے مطابق طواف افاضہ ماہ ذوالحجہ کے آخر تک کیا جا سکتا ہے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے نہ کیا جا سکا ہو تو پھر طواف افاضہ عذر کے ختم ہونے تک کیا جا سکتا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۸، ۴۴۹ ) #FAI00425 ID: FAI00425 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
رمی جمار کا صحیح وقت سوال ۵۲۵: رمی جمار کا وقت کیا ہے؟ جواب :جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت عید کا دن ہے۔ اہل قدرت ونشاط کے لیے یہ وقت عید کے دن کے طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے جب کہ کمزوروں اور بھیڑ کا مقابلہ نہ کر سکنے والے بچوں اور عورتوں کے لیے یہ وقت عید کی رات کے آخری حصے سے شروع ہو جاتا ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما عید کی رات چاند کے غروب ہونے کا انتظار کیا کرتی تھیں۔ جب چاند غروب ہو جاتا تو وہ مزدلفہ سے منیٰ آجاتیں اور جمرہ کو رمی کرتیں، اس کا آخری وقت عید کے دن غروب آفتاب تک ہے اگر ہجوم بہت زیادہ ہو یا انسان جمرات سے دور ہو اور وہ رمی کو رات تک مؤخر کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں، البتہ وہ گیارہویں تاریخ کی طلوع فجر تک اسے مؤخر نہ کرے۔ ایام تشریق یعنی گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ کو رمی جمار کا وقت زوال آفتاب یعنی ظہر کا وقت شروع ہونے سے لے کر نصف رات تک ہے۔ اگر مشقت یا ہجوم ہو تو پھر رات کو طلوع فجر تک رمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ کو زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد رمی کی اور آپ نے لوگوں سے فرمایا تھا: ((ٔخُذُوا عنی مَنَاسِکَکُمْ))( صحیح البخاری، العلم، باب الفتیا وہو واقف علی الدابۃ وغیرہا، ح: ۸۳، وصحیح مسلم، الحج، باب استحباب رمی جمرۃ العقبۃ یوم النحر، ح: ۱۲۹۷، واللفظ لہ۔) ’’تم اپنے مناسک حج مجھ سیکھو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زوال آفتاب تک رمی کو مؤخر کرنا حالانکہ وہ سخت گرمی کا وقت ہوتا ہے اور دن کے ابتدائی حصے میں رمی نہ کرنا حالانکہ اس وقت گرمی بھی نہیں ہوتی اور آسانی بھی ہوتی ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت سے پہلے رمی کرنا حلال نہیں اور اس کی دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زوال کے وقت نماز ظہر پڑھنے سے پہلے رمی فرمایا کرتے تھے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زوال سے پہلے رمی کرنا حلال نہیں ہے ورنہ زوال سے پہلے رمی افضل ہوتی تاکہ نماز ظہر کو اول وقت میں ادا کیا جا سکے کیونکہ نماز اپنے ا ول وقت میں ادا کرنا افضل ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۸ ) #FAI00424 ID: FAI00424 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
تقصیر میں سارے سر کے بال کٹوانا ضروری ہے سوال ۵۲۴: جو شخص عمرے میں اپنے سر کے تھوڑے سے حصے کے بال کٹوا دیتا ہے، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جواب :میری رائے میں اس کا عمل تقصیر (بال کٹوانا) مکمل نہیں، لہٰذا اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے معمول کے کپڑے اتار دے، احرام کے کپڑے پہن لے، پھر صحیح طریقے سے سارے سر کے بال کٹوائے اور پھر حلال ہو۔ اس مناسبت سے میں اس طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کے لیے کسی عبادت کو سر انجام دینے کا ارادہ کرے، اس کے لیے واجب ہے کہ وہ اس عبادت کے بارے میں ان حدود کو پہچانے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ہے تاکہ وہ علی وجہ البصیرت اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے: ﴿قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (یوسف:۱۰۸) ’’کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و برہان) سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی (لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیروکار بھی۔‘‘ اگر کوئی انسان مکہ سے مدینہ کی طرف سفر کرنا چاہے، تو وہ اس وقت تک سفر کے لیے نہ نکلے جب تک راستے کے بارے میں پوچھ نہ لے۔ جب حسی راستوں کے بارے میں معلوم کرنا ضروری ہے، تو ان معنوی راستوں کے بارے میں کیوں معلوم نہ کیا جائے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے ہیں؟ تقصیر کے معنی یہ ہیں کہ سارے سر کے بال کٹوائے جائیں۔ اس سلسلے میں افضل یہ ہے کہ مشین استعمال کی جائے کیونکہ اس سے سارے سر کے بال کٹ جاتے ہیں، گو قینچی کے ذریعہ بال کاٹنا بھی جائز ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ سارے سر کے بال کاٹے جائیں جیسے کہ وضو میں سارے سر کا مسح ضروری ہے، ایسے ہی تقصیر میں بھی سارے سر کے بالوں کو کٹوانا ضروری ہے۔ واللّٰہ اعلم فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۷، ۴۴۸ ) #FAI00423 ID: FAI00423 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
asliahlesunnet · 9 months ago
Photo
Tumblr media
رمی جمار کے متعلق مسائل سوال ۵۱۶: ایک عورت رات کے آخری حصے میں مزدلفہ سے لوٹی اور اس نے رمی جمار کے لیے اپنے بیٹے کو اپنی طرف سے وکیل مقرر کر دیا، حالانکہ وہ خود بھی رمی کر سکتی ہے۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ فتویٰ دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب عطا فرمائے۔ جواب :جمرات کو کنکریاں مارنا مناسک حج میں سے ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا اور آپ نے خود بھی کنکریاں ماریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَیْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامِۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ))( سنن ابی داود، المناسک، باب فی الرمل، ح: ۱۸۸۸، وجامع الترمذی، الحج، باب ماجاء کیف ترمی الجمار، ح: ۹۰۲، ومسند احمد: ۶/ ۶۴، واللفظ لہ۔) ’’بیت اللہ کے طواف، صفا و مروہ کی سعی اور رمی جمرات کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کوزندہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ جمرات کو کنکریاں مارنا عبادت ہے جس سے انسان اپنے رب تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ عبادت الہی کا ��ظاہر میں سے ہے کہ انسان اس جگہ ان کنکریوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لیے پھینکتا ہے۔ اس لئے یہ محض اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت جلوہ نمائی ہے، اس لیے انسان کو نہایت خشوغ خضوع کے ساتھ جمرات کو کنکریاں مارنی چاہئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اول وقت رمی جمرات افضل ہے یا آخر وقت میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آخر وقت میں اطمینان، خشوع اور حضور قلب کے ساتھ کنکریاں مارنا ممکن ہو تو پھر آخر وقت میں افضل ہے کیونکہ اس خوبی کا نفس عبادت سے تعلق ہے اور جس چیز کا نفس عبادت سے تعلق ہو، وہ عبادت کے زمان ومکان سے مقدم ہوتی ہے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا صَلَاۃَ بِحَضْرَۃِ الطَّعَامِ وَلَا ہُوَ یُدَافِعُُ الْأَخْبَثَانِ))( صحیح مسلم، المساجد، باب کراہۃ الصلاۃ بحضرۃ الطعام، ح: ۵۶۰۔) ’’کھانے کی موجودگی میں نمازجائز ہے نہ اس وقت جب انسان کو بول و براز کا تقاضا ہو۔‘‘ چنانچہ انسان قضائے حاجت کی وجہ سے نماز کو اول وقت سے مؤخر کر نے کا مکلف ہے یا جب کھانے کی ضرورت ہو اور کھانا موجود ہو تو اس وقت بھی نماز کو مؤخر کر ے گااور پہلے کھانا کھائے گا۔ اب صورت یہ ہے کہ یا تو وہ اول وقت کنکریاں مارے ، مشقت کے ساتھ شدید ہجوم کے عالم میں، جب کہ جان بچانے کی بھی فکر ہو، یا پھر اسے آخر وقت حتیٰ کہ رات تک مؤخر کر دے اور اطمینان و حضور قلب کے ساتھ کنکریاں مارے تو یہ تاخیر کرنا اس کے لئے افضل ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل خانہ کے کمزور افراد کو رخصت عطا فرما دی تھی کہ وہ رات کے آخری حصے میں مزدلفہ سے چلے جائیں تاکہ انہیں اس ہجوم کی وجہ سے تکلیف نہ ہو طلوع فجر کے بعد سب لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے جس کے وقوع پذیر ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رمی جمار میں کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۱۹۶) ’’اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو ۔‘‘ اس مسئلے میں مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں، لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ رمی جمرات عبادت ہے اور جس مرد یا عورت کو اس کی قدرت ہو اس کے لیے کسی کو اپنی طرف سے نائب بنانا جائز نہیں۔ بلکہ اس کے لیے واجب ہے کہ وہ خود کنکریاں مارے، البتہ اگر کوئی مرد یا عورت بیمار ہو یا کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے حمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کی طرف سے کسی کو وکیل مقرر کیا جا سکتا ہے۔ یہ عورت جس نے قدرت کے باوجود خود رمی نہیں کی، میری رائے میں اس کے لیے احتیاط یہ ہے کہ اس ترک واجب کی وجہ سے فدیے کا ایک جانور ذبح کر کے مکہ کے فقرا میں تقسیم کر دے۔ سوال ۵۱۷: ایک حاجی نے تیرہ تاریخ کو مشرق کی جانب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں مگر پتھر حوض میں نہیں گرا، تو کیا اس کے لیے تمام رمی دوبارہ لازم ہے؟ جواب :اس کے لیے ساری رمی دوبارہ لازم نہیں ہے بلکہ صرف وہی لازم ہے جس میں اس نے غلطی کی، لہٰذا اسے فقط جمرہ عقبہ کی رمی دوبارہ کر کے درست طریقے سے رمی کرنی ہوگی مشرق کی جانب سے کی گئی وہ رمی درست نہ ہوگی جس کی کنکری حوض میں نہیں گرتی جو کہ رمی کی جگہ ہے۔ اگر وہ مشرقی جانب سے پل کے اوپر سے رمی کرتا تو وہ درست ہوتی کیونکہ ا س طرح کنکری حوض ہی میں گرتی ہے۔ سوال ۵۱۸: اگر ماری گئی سات کنکریوں میں سے ایک یا دو حوض میں نہ گریں اور ایک یا دو دن گزر جائیں تو کیا وہ اس جمرہ کی دوبارہ رمی کرے؟ اور اگر دوبارہ رمی کرنا لازم ہو تو کیا وہ اس کے بعد والی کنکریاں بھی دوبارہ مارے؟ جواب :جب جمرات میں سے ایک یا دو جمروں کی رمی باقی ہو یا زیادہ واضح طور پر یوں کہیے کہ کسی ایک جمرے کی ایک یا دو کنکریاں باقی ہوں، تو فقہاء کہتے ہیں کہ اگر جمرے کی آخری کنکریاں ہوں تو وہ صرف کمی کو پورا کر لے۔ پہلی کنکریوں کو دوبارہ مارنا لازم نہ ہوگا اور اگر یہ آخری کنکری نہیں ہے، تو وہ کمی کو پورا کرے، پھر بعد والی کنکریاں بھی مارے۔ میرے نزدیک درست بات یہ ہے کہ وہ صرف کمی کو پورا کرے، بعد والی کنکریوں کا اعادہ لازم نہیں ہے کیونکہ جہالت یا نسیان کی وجہ سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔ اس شخص نے دوسری کنکری پھینکی ہے اور اس کا خیال ہے کہ پہلی کوئی کنکری اس کے ذمہ نہیں ہے اور یہ از راہ جہالت یا نسیان ہے، لہٰذا ہم اسے کہیں گے کہ جو کنکریاں کم ہیں وہ مار لو، بعد والی کنکریاں مارنا واجب نہیں ہے۔ جو اب ختم کرنے سے پہلے میں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کنکریاں وہاں پھینکنی ہوتی ہیں جو کنکریوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے۔ اس ستون کو کنکریاں مارنا مقصود نہیں ہے جوجگہ کی نشان دہی کے لیے کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص کنکریاں حوض میں پھینک دے اور وہ ستون کو نہ لگیں، تو اس کی رمی صحیح ہے۔ واللّٰہ اعلم سوال ۵۱۹: کہا جاتا ہے کہ جس کنکری کو کسی نے پہلے استعمال کیا ہو، اس کے ساتھ رمی کرنا جائز نہیں، کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ جزاکم اللہ عن المسلمین خیرا جواب :یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں نے یہ بات کہی ہے کہ کسی کی پھینکی ہوئی کنکری کے ذریعہ رمی کرنا جائز نہیں، انہوں نے اس کے حسب ذیل تین اسباب بیان کیے ہیں: ۱۔ انہوں نے کہا ہے کہ استعمال شدہ کنکری اس پانی کی طرح ہے جسے طہارت واجبہ کے لیے استعمال کیا گیا ہو اور طہارت واجبہ میں مستعمل پانی طاہر (پاک) تو ہوتا ہے لیکن مطہر(پاک کرنے والا) نہیں۔ ۲۔ اس کی مثال اس غلام کی طرح ہے جسے آزاد کر دیا گیا ہو تو آزاد شدہ غلام کو دوبارہ کفارے وغیرہ کے طور پر آزاد کرنا جائز نہیں۔ ۳۔ جواز کے قول کی صورت میں لازم آتا ہے کہ تمام حاجی صرف ایک ہی کنکری کے ذریعہ رمی کر لیں، یعنی آپ ایک کنکری پکڑ لیں اور اسے رمی کر دیں، پھر اسی کو پکڑ کر دوبارہ رمی کر دیں حتیٰ کہ اسی طرح سات بار کر لیں، پھر دوسرا حاجی آئے اور وہ بھی اسی طرح اس کنکری کے ساتھ سات بار رمی کر لے۔ عدم جواز کے یہ تین اسباب، غور کرنے سے بے حد کمزور معلوم ہوتے ہیں۔ ٭ ان میں سے پہلے سبب کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ دراصل یہ بات ہی درست نہیں کہ طہارت واجبہ میں مستعمل پانی طاہر تو ہوتا ہے لیکن مطہر نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور پانی کو اس کے وصف اصلی، یعنی طہوریت سے کسی دلیل کے بغیر خارج نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا واجب طہارت میں مستعمل پانی طاہر بھی ہے اور مطہر بھی، پس جب مقیس علیہ (جس پر قیاس کیا گیا ہے) یعنی اصل کے حکم ہی کی نفی ہوگئی، تو فرع کی از خود نفی ہوجائے گی۔ ٭ دوسرا سبب جس میں پھینکی جانے والی کنکری کو آزاد شدہ غلام پرقیاس کیاگیا ہے یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ غلام کو جب آزاد کر دیا جائے، تو وہ آزاد ہوتا ہے، غلام نہیں، لہٰذا اب وہ غلام نہ رہا، جب کہ پتھر پھینکے جانے کے بعد بھی پتھر ہی رہتا ہے اور اس سے اس صفت کی نفی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ پھینکے جانے کے قابل ہوتا ہے، لہٰذا یہ غلام جو آزاد کردہ ہے، اگر کسی شرعی سبب کی وجہ سے دوبارہ غلام بنا لیا جائے تو اسے دوبارہ آزاد کرنا جائز ہے۔ ٭ تیسرا سبب جس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام حجاج کرام ایک ہی کنکری کے پھینکنے پر اکتفا کریں، تو اس کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو پھر ایسا ہو جانا چاہیے لیکن یہ ممکن ہی نہیں، جب کنکریاں بکثرت موجود ہیں، تو کوئی ایسا کیوں کرے گا؟ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر جمرات کے پاس آپ کے ہاتھ سے ایک یا زیادہ کنکریاں گر جائیں، تو ان کے بدلے میں زمین سے اور کنکریاں لے لیں اور انہیں پھینک دیں، خواہ ظن غالب یہ ہو کہ ان کے ساتھ کسی نے رمی کی ہے یا نہ ہو۔ سوال ۵۲۰: جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت ادا کب شروع اور وقت قضا کب ختم ہوتا ہے؟ جواب :جمرہ عقبہ کی رمی کا وقت عید کا دن ہے، جو گیارہویں دن کے طلوع فجر کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور کمزوروں اور لوگوں کی بھیڑ کا مقابلہ نہ کر سکنے والوں کے لیے یہ وقت قربانی کی رات کے نصف سے شروع ہوتا ہے۔ ایام تشریق میں اس کی رمی کا وقت وہی ہے جو اس کے ساتھ والے دونوں جمروں کی رمی کا وقت ہے کہ وہ زوال سے شروع ہو کر، ساتھ والی رات کے طلوع فجر ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر ایام تشریق میں سے آخری دن ہو تو رات کو رمی جائز نہیں کیونکہ ایام تشریق تیرہویں تاریخ کے غروب آفتاب کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔ یاد رہے رمی دن کے وقت افضل ہے، البتہ آج کل حاجیوں کی کثرت اور ایک دوسرے کی پرواہ نہ کرنے کی وجہ سے اگر ہلاکت یا نقصان سے شدید مشقت کا اندیشہ ہو تو پھر رات کو رمی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، بلکہ اس طرح کے کسی اندیشے کے بغیر بھی رات کو رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ احتیاط کے پیش نظر رات کو رمی نہ کی جائے اِلاَّیہ کہ کسی حاجت وضرورت کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جہاں تک اس کے وقت قضا کا تعلق ہے، تو جب دوسرے دن کی فجر طلوع ہو جائے، تو اس کا وقت قضا ہوجائے گا۔ سوال ۵۲۱: کیا حاجی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ حج کی سعی، طواف افاضہ سے پہلے کر لے؟ جواب :اگر حاجی مفرد یا قارن ہو تو اس کے لیے حج کی سعی طواف افاضہ سے پہلے جائز ہے اسے وہ طواف قدوم کے بعد کر سکتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا تھا، جو قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے۔ اگر حاجی متمتع ہو تو اس پر دو سعی لازم ہیں: پہلی سعی مکہ مکرمہ میں آمد کے وقت اور یہ عمرے کی سعی ہوتی ہے، چنانچہ عمرے کے لیے وہ طواف اور سعی، کرکے بال کٹواتا ہے اور اس کی دوسری سعی حج کے لیے ہوتی ہے اور افضل ہے کہ یہ سعی طواف افاضہ کے بعد ہو کیونکہ اصولا سعی طواف کے بعد ہوتی ہے، تاہم اگر وہ اسے طواف سے پہلے کرے، تو راجح قول کے مطابق پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((لَا حَرَجَ))( صحیح البخاری، الحج، باب اذا رمی بعد ما امسی، ح: ۱۷۳۴ وصحیح مسلم، الحج، باب جواز تقدیم الذبح علی الرمی، ح: ۱۳۰۶، وسنن ابی داود، المناسک باب فی من قدم شیئا… ح: ۲۰۱۵ واللفظ لہ۔) ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘ حاجی کو عید کے دن ترتیب کے ساتھ یہ پانچ کام کرنے ہوتے ہیں: (۱)جمرہ عقبہ کی رمی (۲)قربانی (۳)بالوں کو منڈوانا یا کٹوانا (۴)بیت اللہ کا طواف (۵)صفا و مروہ کی سعی۔ اگر کوئی حاجی قارن یا مفرد ہو اور اس نے طواف قدوم کے بعد سعی کر لی ہو تو پھر اس پر دوبارہ سعی واجب نہیں ہے۔ افضل یہ ہے کہ مذکورہ بالا پانچوں کام ترتیب کے ساتھ کیے جائیں اور اگر ان میں سے بعض کو خصوصاً بوقت ضرورت آگے پیچھے کر لیا جائے، تو کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے رحمت اور آسانی ہے۔ فللّٰه الحمد رب العالمین سوال ۵۲۲: کیا طواف سے پہلے سعی کا جواز صرف یوم عید کے ساتھ خاص ہے؟ جواب :صحیح بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں عید اور غیر عید کے دن میں کوئی فرق نہیں۔ عید کے دن کے بعد بھی سعی کو طواف سے پہلے کرنا جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایک شخص نے یہ پوچھا کہ میں نے طواف سے پہلے سعی کر لی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا حَرَجَ))( صحیح البخاری، الحج، باب اذا رمی بعد ما امسی، ح: ۱۷۳۴ وصحیح مسلم، الحج، باب جواز تقدیم الذبح علی الرمی، ح: ۱۳۰۶، وسنن ابی داود، المناسک باب فی من قدم شیئا… ح: ۲۰۱۵ واللفظ لہ۔) ’’کوئی حرج نہیں۔‘‘ اور جب یہ حدیث عام ہے، تو پھر یوم عید اور اس کے بعد والے دن میں کوئی فرق نہیں۔ سوال ۵۲۳: جس شخص پر سعی لازم ہو، وہ طواف کر کے مکہ سے نکل جائے اور سعی نہ کرے اور اس کے بعد اسے بتایا جائے کہ اس پر توسعی لازم ہے، تو کیا وہ صرف سعی کرے یا اس کے لیے دوبارہ طواف کرنا بھی لازم ہے؟ جواب :جب کوئی انسان اس خیال سے طواف کرے کہ اس پر سعی لازم نہیں ہے اور پھر اسے بتایا جائے کہ اس پر سعی لازم ہے، تو وہ صرف سعی کر لے۔ اسے دوبارہ طواف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ طواف وسعی میں ترتیب شرط نہیں ہے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بھی سعی کو طواف سے مؤخر کر دے، تو کوئی حرج نہیں، البتہ افضل یہ ہے کہ سعی طواف کے فوراً بعد کی جائے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۴۳، ۴۴۴، ۴۴۵، ۴۴۶، ۴۴۷ ) #FAI00422 ID: FAI00422 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes