gvt24
gvt24
PAKO TV
8K posts
pakotv.com
Don't wanna be here? Send us removal request.
gvt24 · 7 years ago
Text
ریاض: ناقد کی ہلاکت کے باوجود، سعودی سرمایہ کاری کانفرنس کا افتتاح
ریاض: ناقد کی ہلاکت کے باوجود، سعودی سرمایہ کاری کانفرنس کا افتتاح
واشنگٹن — 
پروگرام کے مطابق منگل کے روز سعودی عرب کی سرمایہ کاری کانفرنس کا افتتاح ہوا، جس سے تین ہفتے قبل ترکی میں سعودی قونصل خانے کے اندر صحافی اور حکومت کے ناقد، جمال خشوگی کا قتل ہوا۔
خشوگی کی ہلاکت اور سعودی عرب کی جانب سے حقائق کے بارے میں بدلتی روداد سامنے آنے کے معاملے پر کئی نامور کاروباری شخصیات اور سرکاری اہل کار ریاض میں منعقدہ ملکی مستقبل سے متعلق سرمایہ کاری کے اجلاس کا بائیکاٹ کر…
View On WordPress
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
Pako TV turned 1 today!
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
Stephen William Hawking Stephen William Hawking CH CBE FRS FRSA (8 January 1942 – 14 March 2018)was an English theoretical physicist, cosmologist, author and Director of Research at the Centre for Theoretical Cosmology within the University of Cambridge.
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Text
NEWS HEADLINES 12 MARCH 2018
NEWS HEADLINES 12 MARCH 2018
View On WordPress
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
A Film and its Story (Documentary) A Film and its Story Documentary Fassbinder's The Marriage of Maria Braun
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Video
vimeo
News Headline 28 February 2018
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Video
vimeo
News Headline 21 February 2018
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
صہبا اختر کی وفات فروری 19 صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء - وفات: 19 فروری، 1996ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔ حالات زندگی صہبا اختر 30 ستمبر، 1931ء کو جموں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے ۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا اور انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی۔ پھر انہوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے۔ ادبی خدمات صہبا اختر کو شعر و سخن کا ذوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا۔ وہ ایک زود گو شاعر تھے۔ انہوں نے نظم، قطعہ، گیت ، ملی نغمے، دوہے اور غزل ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ صہبا اختر کی شاعری میں جس طرح بڑی جان تھی بڑا دم خم تھا اسی طرح ان کے پڑھنے کے انداز میں بھی بڑی گھن گرج تھی وہ کراچی کے مشاعروں میں اپنا ایک منفرد انداز رکھتے تھے ان کی شاعری میں نظیر اکبر آبادی، جوش ملیح آبادی اور اختر شیرانی کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کے بھی بڑے عمدہ شاعر تھے ، ریڈیو پاکستان کے لیے بڑی پابندی سے لکھتے تھے۔ صہبا اختر نے فلم کے لیے بھی مشہور گیت لکھے۔ ان کے گیتوں میں اک اڑن کھٹولا آئے گاایک لال پری کو لائے گا، دنیا جانے میرے وطن کی شان، چندا تجھ سے ملتا جلتا اور بھی تھا اک چاند، پریتم آن ملو، تنہا تھی اور ہمیشہ سے تنہا ہے زندگی اور چاند کی سیج پہ تاروں سے سجا کر سہرا بہت مشہور ہوئے۔ان کے مجموعہ ہائے کلام میں سرکشیدہ، اقرا، سمندر اور مشعل کے نام شامل ہیں۔ نمونہ کلام عہدِ حاضِر پر، مِرے افکار کا سایہ رہا! بِجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا وہ خرابا ہُوں، کہ جس پر روشنی رقصاں رہی وہ تہی دامن ہُوں جس کا فکر سرمایہ رہا کیا حرِیفانہ گزُاری ہے حیاتِ نغمہ کار میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹُھکرایا رہا ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے مِلنے کے بعد اک اُجالا مُدّتوں آنکھوں میں لہرایا رہا تلخیوں نے زِیست کی، کیا کیا نہ سمجھایا مگر عمر بھر صہبا تری آنکھوں کا بہکایا رہا شعر یہ کون دل کے اندھیروں سے شام ہوتے ہی چراغ لے کے گزرتا دکھائی دیتا ہے شعر ثبوت مانگ رہے ہیں مری تباہی کا مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے شعر صہبا بہت سیاہ سہی یہ شب ملال گونجے گی پھر سحر کی اذان جاگتے رہو شعر مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے تو بھی جاگے، تو بھی تڑپے، تو بھی نیر بہائے بادل گرجے بجلی چمکی، تڑپ تڑپ رہ جائے پت جھڑ آئے چھائے اداسی، من میں آگ لگائے اعزازات حکومت پاکستان نے صہبا اختر کو ان کی وفات کے بعد ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ صہبا اختر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں گلشن اقبال کراچی میں سڑک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ تصانیف 1977ء - سرکشیدہ 1981ء - اقرا 1984ء - سمندر 1995ء - مشعل وفات صہبا اختر 19 فروری، 1996ء کو کراچی، پاکستان میں حرکت قلب بند ہونے سبب انتقال کر گئے اور گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
آغا طالش کی وفات فروری 19 آغا طالش پاکستان کے نامور فلمی اداکار آغا طالش کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا اور وہ 10 نومبر 1923ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بمبئی میں بننے والی فلم سرائے سے باہر سے اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک ہوئے اور پھرفلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان میں ان کی مشہور فلموں میں نتھ، جھیل کنارے، دربار حبیب، سات لاکھ، باغی، شہید، سہیلی ،فرنگی، زرقا، وطن، نیند، کنیز، لاکھوں میں ایک، زینت، امرائو جان ادا اور آخری مجرا کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے 7 فلموں میں نگار ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ 19 فروری 1998ء کو آغا طالش وفات پاگئے۔ وہ کریم بلاک علامہ اقبال ٹائون لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
حضرت لعل شہباز قلندر کی وفات حضرت لعل شہباز قلندر ٭19 فروری 1275ء مطابق 21 شعبان 673ھ سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کی تاریخ وفات ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر کا اصل نام سید محمد عثمان مروندی تھا اور آپ کا سلسلہ نسب گیارہ واسطوں سے حضرت امام جعفر صادقؑ سے ملتا ہے۔آپ 1177ء مطابق 573ھ میں مروند کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد بزرگوار حضرت ابراہیم کبیرالدین سے کی۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیائے کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے جن میں شیخ فرید الدین گنج شکرؒ، حضرت بہائو الدین زکریا ملتانیؒ، شیخ بوعلی قلندرؒ اور مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سرفہرست ہیں۔ پھر آپ نے مستقل سکونت کے لیے سہون شریف کے مقام کو منتخب کیا اور وہاں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ ہمیشہ سرخ رنگ کا لباس زیب تن کرتے اس لیے آپ کو لعل کا خطاب عطا ہوا۔ شہباز کا خطاب آپ کو اس لیے دیا گیا کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے ایک مرید کو بے وجہ پھانسی سے بچانے کے لیے ایک جست لگائی اور اسے پھانسی سے بچالیا جبکہ قلندر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ کا تعلق سلسلہ قلندریہ سے ہے۔ آپ نے 19 فروری 1275ء مطابق 21 شعبان 673 ھ کو سہون میں وفات پائی،جہاں آپ کا مزار مبارک آج بھی مرجع خلائق ہے۔
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Video
vimeo
Dunya 100 Seconds Main 19-2-2018
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
18 February Birthday of Kublai Khan Kublai was the fifth Khagan (Great Khan) of the Mongol Empire (Ikh Mongol Uls), reigning from 1260 to 1294 (although due to the division of the empire this was a nominal position).
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
ابن حجر عسقلانی وفات 2 ابن حجر عسقلانی مشہور محدث تھے جنہوں نے بخاری کی شرح لکھی۔ آپ کا عہد چودہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول کے آخرسے لے کر پندرہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک کا ہے۔ آپ نامور مؤرخ اورشافعی مذہب فقیہ تھے۔ مصر میں پیدا ہوئے۔ علوم حدیث میں سند شمار ہوتے ہیں۔ طلب علم کے سلسلے میں متعدد بار مصر، شام، حجاز اور یمن کا سفر کیا اور اس شوق کے باعث حافظ عصر کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کو شیخ الاسلام کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا نام احمد تھا۔ اور كنيت ابوالفضل تھی اور ان کا لقب شہاب الدين تھا۔ سلسلہ نسب:احمد بن على بن محمد بن علی بن احمد۔ ابن حجر کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ مشہور علمی خاندان آل حجر میں سے تھے۔ اس عظیم خاندان مین محدثین وفقہا کثیر تعداد میں پیدا ہوئے۔ ولادت اور نسب علامہ ابن حجر عسقلانی کی ولادت قاہرہ میں بدھ 12 شعبان 773ھ بمطابق 18 فروری 1372ء کو ہوئی، اُس وقت مصر میں مملوک سلطان الاشرف زین الدین ابو المعالی ابن شعبان کی حکومت کا دسواں سال تھا۔ آپ کے والد نور الدین علی شافعی مذہب کے عالم اور شاعر تھے۔ آپ مصر کے قصبہ، عتیقہ، میں پیدا ہوئے۔ آپ کی عمرچار سال تهی کہ آپ کے والد شیخ نورالدین علی کی وفات ہو گئی۔ آپ کی کفالت شیخ زکی خرنوبی نے فرمائی۔ آپ کے والد کی اولاد بچپن میں ہی فوت ہو جاتی تهی، چنانچہ آپ کے والد شیخ صناقبری کی خدمت میں گئے۔ انہوں نے دعا دی کہ اللہ تعالی تیری پشت سے ایسا بچہ پیدا کرے گا جو پوری دنیا کو علم ومعرفت سے مالامال کرے گا۔ شاه عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ابن حجر کی تصانیف کی اتنی شہرت ومقبولیت شیخ صناقبری کی دعا کا نتیجہ ہے۔ تعلیم اور سفر بچپن میں ہی آپ کے والدین انتقال کر گئے تھے۔ آپ اور آپ کی بہن ست الرکب والدین کے انتقال کے بعد زکی الدین الخاروبی کی سرپرستی میں چلے گئے۔ 778ھ میں 5 سال کی عمر میں آپ کو زکی الدین الخاروبی نے قرآنی علوم کے واسطے مدرسہ میں داخل کروایا۔ کم عمری میں ہی آپ کا حافظہ اِس قدر قوی تھا کہ ایک ہی روز میں تمام سورہ مریم حفظ کرلی تھی۔ اس دوران میں آپ نے ابن حاجب کی فقہ بھی پڑھی۔ 785ھ میں 12 سال کی عمر میں زکی الدین الخاروبی کے ساتھ عازمِ مکہ ہوئے اور رمضان 785ھ میں حرمِ کعبہ میں نمازِتراویح پڑھائی۔ 788ھ یعنی 1386ء میں سرپرست زکی الدین الخاروبی کی وفات کے بعد آپ دوبارہ مصر لوٹ آئے۔ حدیث کے واسطے مصری محدث شمس الدین ابن القطان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، جہاں آپ نے علامہ بلقینی (متوفی 806ھ)، ابن الملاقین (متوفی 804ھ) کی فقہ پڑھی اور حدیث میں علامہ حافظ العراقی عبد الرحیم بن حسين بن عبد الرحمن العراقی المصری (متوفی 805ھ) سے استفادہ حاصل کیا۔ بعد ازں آپ نے مکہ المکرمہ، مدینہ منورہ، یمن، دمشق اور یروشلم کا سفر اختیار کیا۔ ازدواجی زندگی 799ھ یعنی 1397ء میں آپ نے 26 سال کی عمر میں انس خاتون سے نکاح کر لیا۔ انس خاتون بھی حدیث کی عالمہ تھیں اور اُنہیں علامہ حافظ العراقی عبد الرحیم بن حسين بن عبد الرحمن العراقی المصری سے حدیث روایت کرنے کی اجازت تھی۔ انس خاتون عوامی طور پر بھی حدیث کا درس دیا کرتی تھیں جن میں کئی علما شریک ہوا کرتے تھے، امام شمس الدين محمد بن عبد الرحمن السخاوي (متوفی 902ھ) بھی انس خاتون سے حدیث کا درس لینے والوں میں سے ایک تھے۔ قاضی مصر آپ کا زمانہ برجی مملوک سلاطین کا زمانہ تھا۔ علامہ ابن حجر العسقلانی کو کئی بار سلاطین مصر کی جانب سے قاضی مصر کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ وفات آپ نے 79 سال 3 ماہ 26 یوم کی عمر میں اتوار 8 ذوالحجہ 852ھ بمطابق 2 فروری 1449ء کو بعد نمازِ عشاء انتقال کیا۔ اُس وقت مصر پر سلاطین برجی مملوک کی حکومت تھی۔ نمازِ جنازہ قاہرہ میں ادا کی گئی جِس میں پچاس ہزار افراد شریک ہوئے۔ نمازِ جنازہ میںبرجی مملوک سلطانِ مصر الظاہر سیف الدین جقمق بھی موجود تھے۔ علامہ سخاوی کا بیان ہے کہ میں نے اتنا بڑا جنازه کسی کا نہیں دیکها، نماز جنازه علامہ بلقینی نے پڑهائی۔ تدفین مصر کے مشہور قبرستان الصغری میں علامہ ویلی کی قبر کے سامنے اور امام شافعی و شیخ مسلم کی قبروں کے درمیان میں عمل میں آئی۔ تصانیف ان کی کتابوں کی تعداد 150 سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ مشہور کتابیں درج ذیل ہیں۔ الاصابہ فی تمييز الصحابہ : اصحاب رسول کے متعلق ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے جو اب اُردو میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری : علامہ ابن حجر عسقلانی یہ عظیم تصنیف ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے، یہ تصنیف رجب 842ھ مطابق دسمبر1428ء میں مکمل ہوئی۔ فتح الباری کے مکمل ہونے پر قاہرہ کے نزدیک ایک مقام پر ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جِس کے متعلق مورخ ابن عیاص (متوفی930ھ) کا کہنا ہے کہ مصر کی تاریخ میں یہ عظیم تر تقریب تھی۔ یہ کتاب عقائد، فقہ اور حدیث کا شاہکار ہے۔ تہذيب التہذيب : یہ کتاب عربی میں دائرۃ المعارف حیدرآباد دَکن ہندوستان سے 1335ھ میں شائع ہوئی تھی۔ اکمال فی اسماء الرِجال کے نام سے مشہور ہے۔ جس میں احادیث بیان کرنے والے تقریباً تمام راویوں کے حالات مروی ہیں جس سے کسی حدیث پیش کرنے والے کے حال کا پتہ چلتا ہے کہ آیا وہ ضعیف راوی ہے یا معروف الحال۔ یہ احادیث نبوی کا انسائیکلوپیڈیا ہے جِسے يوسف بن عبد الرحمن المزی (متوفی742ھ) نے علامہ ابن حجر عسقلانی سے روایت کیا ہے۔ الدُر الکامنہ : یہ تصنیف آٹھویں صدی ہجری کی نامور شخصیات کی سوانحی لغت ہے۔ التقر يب التہذيب : یہ تصنیف تہذیب التہذیب کا خلاصہ ہے۔ المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ بلوغ المرام من ادلۃ الاحكام : بلوغ المرام اصل میں 1358 احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجموعہ ہے، یہ احادیث صحاح ستہ اور مُسند احمد بن حنبل سے روایت کی گئی ہیں۔ 1996ء میں دارالسلام پبلیکیشنز نے اِس کتاب کا انگریزی ترجمہ شائع کیا تھا۔ الحسین ابن محمد المغربی نے اِس کی شرح اَلبدر التمام کے نام سے لکھی اور محمد ابن اسمٰعیل الامیر السنائی نے سُبل السلام کے نام سے شرح لکھی۔ مقدمہ فتح الباری
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Text
ابن حجر عسقلانی پیدائش فروری 18
ابن حجر عسقلانی پیدائش فروری 18
ابن حجر عسقلانی مشہور محدث تھے جنہوں نے بخاری کی شرح لکھی۔ آپ کا عہد چودہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول کے آخرسے لے کر پندرہویں صدی عیسوی کے نصفِ اول تک کا ہے۔ آپ نامور مؤرخ اورشافعی مذہب فقیہ تھے۔ مصر میں پیدا ہوئے۔ علوم حدیث میں سند شمار ہوتے ہیں۔ طلب علم کے سلسلے میں متعدد بار مصر، شام، حجاز اور یمن کا سفر ��یا اور اس شوق کے باعث حافظ عصر کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کو شیخ الاسلام کے نام سے بھی یاد کیا…
View On WordPress
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
نصیر الدین طوسی پیدائش فروری 18 العلامہ ابو جعفر محمد بن محمد بن حسن الطوسی (مشہور بہ “خواجہ نصیرالدین“ اور دیگر معروف القاب “نصرالدین“، “محقق طوسی“، “استاد البشر“ اور“ خواجہ“ بھی ہیں) ہے، ساتویں صدی ہجری کے شروع میں طوس ، ایران میں پیدا ہوئے اور بغداد میں اسی صدی کے آخر میں وفات پائی، اسلام کے بڑے سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں، مختلف ادوار میں خلفاء نے ان کا اکرام کیا، ان کی مجالس میں وزراء اور امراء شامل ہوتے تھے جس سے بعض لوگ حسد کا شکار ہوگئے اور ان پر کچھ جھوٹے الزامات لگادیے جس کے نتیجے میں انہیں کسی قلعہ میں قید کر دیا گیا جہاں انہوں نے ریاضی میں اپنی بیشتر تصانیف لکھیں اور یہ قید ان کی شہرت کا سبب بنی۔ جب ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کیا تو انہیں آزاد کر دیا اور ان کا اکرام کرکے اپنے علماء میں شامل کر لیا، پھر انہیں ہلاکو خان کے اوقاف کا امین بنادیا گیا، انہوں نے اپنے اکرام میں پیش کی جانے والی دولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لائبریری بنائی جس میں انہوں نے دو لاکھ سے زائد کتب جمع کیں، انہوں نے ایک فلکیاتی رصد گاہ بھی بنائی اور اس وقت کے نامور سائنسدانوں کو اس رصد گاہ میں کام کرنے کے لیے اپنے ساتھ شامل کر لیا جن میں المؤید العرضی جو دمشق سے آئے تھے، الفخر المراغلی الموصلی، النجم دبیران القزوینی اور محیی الدین المغربی الحلبی شامل ہیں۔ انہوں نے بہت ساری تصانیف چھوڑیں جن میں سب سے اہم کتاب “شکل القطاع” ہے، یہ پہلی کتاب تھی جس نے مثلثات کے حساب کو علمِ فلک سے الگ کیا، انہوں نے جغرافیہ ، حکمت، موسیقی، فلکی کیلینڈر، منطق، اخلاق اور ریاضی پر بیش قیمت کتابیں لکھیں جو ان کی علمی مصروفیت کی دلیل ہیں، انہوں بعض کتبِ یونان کا بھی ترجمہ کیا اور ان کی تشریح وتنقید کی، اپنی رصد گاہ میں انہوں نے فلکیاتی ٹیبل (زیچ) بنائے جن سے یورپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے بہت سارے فلکیاتی مسائل حل کیے اور بطلیموس سے زیادہ آسان کائناتی ماڈل پیش کیا، ان کے تجربات نے بعد میں کوپرنیکس کو زمین کو کائنات کے مرکز کی بجائے سورج کو نظام شمسی کا مرکز قرار دینے میں مدد دی، اس سے پہلے زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے آج کے جدید علمِ فلک کی ترقی کی راہ ہموار کی، اس کے علاوہ انہوں نے جبر اور ہندسہ کے بہت سارے نظریات میں نئے انداز کے طریقے شامل کیے ساتھ ہی ریاضی کے بہت سارے مسائل کو نئے براہین سے حل کیا، سارٹن ان کے بارے میں کہتے ہیں: “طوسی اسلام کے سب سے عظیم سائنسدان اور ان کے سب سے بڑے ریاضی دان تھے”، “ریگومونٹینوس” نے اپنی کتاب “المثلثات” کی تصنیف میں طوسی کی کتب سے استفادہ کیا۔ شہرۂ آفاق آبزرویٹری کے موجد، فلکیات کے ماہر، مولانا جلال الدین رومیؒ کے ہم عصر ،اخلاق ناصری کے مؤلف، نصیر الدین طوسی کے زور قلم سے علم کے کئی دریا بہے۔علمِ نجوم،علمِ بصریات Optics، ریاضیات، معدنیات، اخلاقیات، ادب، منطق، فلسفہ، طب، اقلیدس، کیمیا، تاریخ، جغرافیہ وغیرہ جیسے علوم کو انہوں نے اپنی بصیرت اور تجسس سے مالا مال کر دیالیکن علم ہیئت Astronomyکے گویا وہ دیوانے تھے۔ بمقام مراغہ، نزدیک ایشیائے کوچک ،انہوں نے دنیا کی اولین اور بہترین آبزرویٹری بنائی اور ایسے تجربات کیے جو بعد میں دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ریاضیات میں اس وقت تک جتنی بھی کتابیں لکھی گئی تھیں ان کو پھر سے مرتب کیا اور ان کی تعداد صرف سولہ بتائی۔اس خزانہ میں طوسی نے مزید چار اور کتابوں کا اضافہ کیا۔ اقلیدس کی ایک شاخTrigonometryکی بنیاد ڈالی اور اس شعبہ میں تجدید کی کئی راہیں تلاش کیں۔ طوسی کو ان کی فلکیاتی تحقیقا ت کی بنا پر شہرت حاصل ہوئی۔ بارہ سال کی مسلسل کوشش کے بعد انہوں نے نظامِ ِ شمسی کا ایک نقشہ مرتب کیا۔ فلکیات پر کئی کتابوں میں ’’کتاب ا لتذکرۃ الناصریہ‘‘ جس کا دوسرا نام ’’تذکرہ فی علم نسخ‘‘بہت مشہور ہے۔ علمِ نجوم پر متاخرین کے لیے یہ اساس بن گئی۔ کئی محققوں نے اس پر شرح لکھی ہے۔اس کتاب کے چار اہم حصے ہیں پہلا کائنات کے نظام میں حرکت کی اہمیت دوسرا فلکیاتی تغیرات، چاند کی گردش اور اس کا حساب ،تیسرا کرۂ ارض پر فلکیاتی اثر، مدوجزر، کوہ، صحرا،سمندر، اور ہوائیں اور چوتھا نظامِ شمسی میں ستاروں کے فاصلے۔ظاہر ہے کہ یہ کتاب بہت مقبول و دلچسپ ثابت ہوئی۔ اس کتاب میں طوسی نے بطلیموس Ptolemyکے بعض خیالات کی تردید کی ہے اور اس کی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس کتاب کی بنیاد پر یورپ کے مشہور منجم کوپر نیکس نے اپنے نظریات قائم کیے جو صحیح ثابت ہوئے۔یعنی کوپرنکس کی تحقیقات کی بنیاد طوسی کے وضع کردہ اصول تھے۔طوسی نے فلکیات پر دیگر کتابیں بھی لکھی ہیں مثلاً ضبط الٰہیہ،کتاب التحصیل فی نجوم، زیج ایلخانی،اظہر الماجستی وغیرہ۔اس کے علاوہ مریخ پر، سورج کے طلو ع وغروب پر، زمین کی گردش پر، سورج اور چاند کے فاصلہ پر،سیاروں کی نوعیت پر، رات اور دن کے ظہور پر اوراس کرۂ ارض کے جائے وقوع پر تفصیلی کتابیں لکھی ہیں جس کی وجہ سے ان کو علم فلکیات کا ماہر سمجھا جاتاہے۔مراغہ کی آبز رویٹری طوسی کی تحقیقا ت کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Text
گیمبیا یوم آزادی فروری 18
گیمبیا یوم آزادی فروری 18
گیمبیا مغربی افریقہ میں واقع ایک ملک ہے۔ گمیبیا اپنے رقبہ کے لحاظ سے سرزمین افریقہ پر سب سے چھوٹا ملک ہے۔اس کے گرد سینیگال واقع ہے جب کہ یہ خود د��یائے گمبیا کے گرد واقع ہے۔ اس ملک کو 11 دسمبر، 2015ء کو گیمبیا کے صدر یحیی جامع نے اسے اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا ہے۔
2011ء کے مطابق شہرکاری کی شرح 57.3 فی صد تھی۔ 2003ء کے اعداد و شمار کے مطابق شہری اور دیہی آبادی کے درمیان فرق محدود ہو رہا ہے کیونکہ…
View On WordPress
0 notes
gvt24 · 7 years ago
Photo
Tumblr media
امیر حمزہ خاں شنواری کی وفات فروری 18 امیر حمزہ خاں شنواری 18 فروری 1994ء کو پشتو کے ممتاز شاعر اور ادیب امیر حمزہ خاں شنواری وفات پاگئے۔ امیر حمزہ خاں شنواری ستمبر 1907ء میں خوگا خیل، لنڈی کوتل میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے پشتو زبان کی ہر صنف میں کام کیا اور لاتعداد نثری اور شعری کتب یادگاری چھوڑیں۔ ان کی نثری کتب میں تجلیات محمدیہ، وجود و شہود، جبر و اختیار، انسان اور زندگی اور نوی چپی اور شعری مجموعوں میں غزونے، پیروونے، یون، سلگی، بھیر، سپرلے پہ آئینہ کے، صدائے دل اور کلیات حمزہ شامل ہیں۔ ان کے کئی سفر نامے بھی شائع ہوئے اور انہوں نے علامہ اقبال، صبا اکبر آبادی اور رحمن بابا کے کلام کو بھی پشتو میں منتقل کیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ لنڈی کوتل میں آسودۂ خاک ہیں۔
0 notes