Tumgik
hamsliveurdu · 4 months
Link
 دہلی کے جودھ پور ہاؤس میں وزیر اعلی بھجن لال شرما کے کمرے میں ساکٹ میں چنگاری کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی۔ حکام نے اس کی تصدیق کی ہے۔ خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کے مطابق، یہ واقعہ منگل کی رات تقریباً 9 بجے پیش آیا، جب وزیر اعلیٰ کمرے میں اکیلے تھے اور ہیٹر چل رہا تھا۔ جس ساکٹ میں ہیٹر لگایا گیا تھا وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا، جس سے چنگاریاں اور آگ لگ جاتی ہے۔ آگ لگنے پر وزیر اعلیٰ نے کمرے میں رکھی گھنٹی بجائی جس پر قریبی کمرے میں سوئے ہوئے پی ایس او نے پہنچ کر آگ پر قابو پا لیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اے ڈی جی انٹیلی جنس سے رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ سرکاری ذرائع نے کہا کہ سیکورٹی میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے بیڈ کے قریب رکھی گھنٹی بجائی تو پی ایس او ایک منٹ میں ان کے کمرے میں آیا اور شاک کٹ سے تار ہٹا کر آگ پر قابو پا لیا۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس کے پاس اس واقعہ کی مکمل رپورٹ ہے لیکن معاملہ سنجیدہ نہیں ہے۔ ایڈیشنل ایس پی سیکورٹی بھی سی ایم کے ساتھ دہلی میں موجود تھے جنہوں نے واقعے کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کیں۔
0 notes
hamsliveurdu · 4 months
Link
بلقیس بانو معاملہ میں تین مجرم سپریم کورٹ سے رجوع، سرنڈر کے وقت میں توسیع کی درخواست  گجرات کے مشہور بلقیس بانو کیس میں تین مجرموں نے سپریم کورٹ سے خودسپردگی کی مدت بڑھانے کی درخواست کی ہے۔ ان مجرموں نے ذاتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ وقت کی رعایت دینے کی درخواست کی ہے۔ سپریم کورٹ نے 8 جنوری 2024 کو بلقیس بانو کیس میں 11 قصورواروں کو بری کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا۔ عدالت نے مجرموں کو دو ہفتے کے اندر سرینڈر کرنے کا حکم دیا تھا۔ تمام 11 میں سے 3 مجرموں نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں خودسپردگی کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گووند نائی نے عدالت سے 4 ہفتے کی توسیع کی درخواست کی ہے جبکہ متیش بھٹ اور رمیش چاندنا نے 6 ہفتے کی توسیع کی درخواست کی ہے۔ ان مجرموں نے اپنی درخواستوں میں ذاتی وجوہات کا ذکر کیا ہے۔ گووند نائی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ انتظامات کرنے کے لیے مزید وقت چاہتے ہیں۔ متیش بھٹ نے کہا ہے کہ وہ اپنے طبی معائنے کے نتائج کے انتظار میں ہیں۔ رمیش چاندنا نے کہا ہے کہ وہ اپنے قانونی امور کو طے کرنے کے لیے مزید وقت چاہتے ہیں۔
0 notes
hamsliveurdu · 5 months
Link
ڈی آر ڈی او نے نئی نسل کی ’آکاش میزائل‘ کا کیا کامیاب تجربہ، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے دی مبارکباد بھارتی دفاع تحقیق و ترقی تنظیم (ڈی آر ڈی او) نے آج اڈیشہ کے انٹگریٹیڈ ٹیسٹنگ رینج، چاندی پور سے نئی نسل کی آکاش میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ تجربہ صبح 10.30 بجے کیا گیا۔ ٹیسٹنگ میں ایک بہت کم اونچائی پر تیز رفتار والے نان ہیومن ہوائی ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ ہتھیار سسٹم کے ذریعہ ہدف کو کامیابی کے ساتھ روک کر تباہ کر دیا گیا۔ اس تجربہ کے دوران پورے آکاش میزائل سسٹم کی صلاحیت کی ٹیسٹنگ ہوئی۔ میزائل سسٹم کے آر ایف سیکر، لانچر، ملٹی فنکشن رڈار اور کمانڈ، کنٹرول اور کمیونکیشن سسٹم کی بھی ٹیسٹنگ کی گئی۔ انٹگریٹیڈ ٹیسٹ رینج، چاندی پور میں لگے رڈارس، ٹیلی میٹری اور الیکٹرو آپٹیکل ٹریکنگ سسٹم سے جو ڈاٹا اکٹھا ہوا، اس سے بھی نئی نسل کے آکاش میزائل سسٹم کی صلاحیت کی ٹیسٹنگ کامیاب رہی۔ ڈی آر ڈی او کے ساتھ ہی ہندوستانی فضائیہ کے افسران کی موجودگی میں یہ تجربہ کیا گیا۔ مرکزی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے نئی نسل کی آکاش میزائل کے کامیاب تجربہ کے لیے ڈی آر ڈی او، ہندوستانی فضائیہ، بی ڈی ایل اور بی ای ایل جیسی سرکاری کمپنیوں کو مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ اس میزائل کے کامیاب تجربہ سے ہماری ہوائی سیکورٹی کی صلاحیتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ واضح رہے کہ آکاش میزائل زمین سے ہوا میں مار کرنے والی میزائل ہے۔ یہ کم رینج کی میزائل ہے جو ہوائی خطروں کو پہچاننے اور انھیں تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ نئی نسل کا آکاش میزائل سسٹم آٹونومس موڈ پر ایک وقت میں کئی ہدف کو نشانہ بنانے میں اہل ہے۔ اس میزائل سسٹم کو الیکٹرانک کاؤنٹر-کاؤنٹر میزرس کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اسے ہندوستانی فضائیہ کے ساتھ ہی ہندوستانی بری فوج کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
0 notes
hamsliveurdu · 5 months
Link
تلنگانہ حکومت نے نئی برقی پالیسی لانے کا فیصلہ کیا ہے، اس کا اعلان بدھ کو کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ اے ریونت ریڈی نے کہا کہ مختلف ریاستوں کی موجودہ پاور پالیسیوں کے تفصیلی مطالعہ اور توانائی کے ماہرین سے بات چیت اور اسمبلی میں بحث کے بعد ایک جامع پالیسی تیار کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ اے ریونت ریڈی وزیر اعلیٰ نے ایک بجلی سے متعلق جائزہ میٹنگ میں عہدیداروں کو حکم دیا کہ وہ گرہ جیوتی یوجنا کے ذریعہ گھرانوں کو 200 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کریں۔ یہ اسمبلی انتخابات کے دوران اعلان کردہ چھ ضمانتوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے عہدیداروں کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ سرکاری شعبے میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کا منصوبہ تیار کریں، مزید پاور کمپنیوں کے قیام کے امکانات کا مطالعہ کریں اور زیر تعمیر بجلی پیدا کرنے والے نئے پلانٹس پر کام کو تیز کریں۔ وزیر اعلیٰ نے حکام سے کہا کہ وہ بجلی کے غلط استعمال کو روکیں اور بجلی کی فراہمی کے معیار میں اضافہ کریں۔ انہوں نے ریاست میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط اور فعال اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ نے حکام اور وزراء کے ساتھ بجلی کی کھپت، 24 گھنٹے بلاتعطل بجلی کی فراہمی، کمپنیوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار، نئے بجلی پیدا کرنے والے یونٹس کے لیے اقدامات، گرہ جیوتی یوجنا کے تحت 200 یونٹ مفت بجلی کی فراہمی کے مسائل پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ عہدیداروں نے ریونت ریڈی کو تلنگانہ میں بجلی پیدا کرنے کی نصب شدہ صلاحیت، مختلف پاور یوٹیلیٹیز سے بجلی کی خریداری، بجلی کی باقاعدہ کھپت، کارکردگی اور ڈسکامس کی مالی حالت کے بارے میں جانکاری دی۔ وزیر اعلیٰ نے حکام کو ہدایت کی کہ وہ 2014 سے پاور کمپنیوں اور الیکٹرسٹی ریگولیٹری کونسل (ای آر سی) کے درمیان کئے گئے معاہدوں، بجلی کی خریداری کی قیمتوں کے حوالے سے ایک جامع مطالعہ کریں اور تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔ انہوں نے عہدیداروں سے یہ بھی کہا کہ وہ ڈسکام کے ذریعہ کئے گئے سال وار معاہدوں کی تفصیلات اور متعلقہ معلومات پیش کریں۔ حکام کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ وہ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو معاہدوں میں زیادہ ادائیگی کی وجوہات کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ وزیر اعلیٰ نے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ ان کمپنیوں سے بجلی خریدیں جو اوپن مارکیٹ میں کم قیمت پر بجلی فراہم کر رہی ہیں۔ ریونت ریڈی نے کہا کہ ریاست میں اب تک تعمیری پاور پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے عہدیداروں سے کہا کہ وہ دوسری ریاستوں کا دورہ کریں اور بجلی کی پالیسیوں، بجلی کی صورتحال اور اختیار کی گئی بہترین پالیسیوں کا مطالعہ کریں اور حکومت کو رپورٹ پیش کریں۔ اہم نکات: تلنگانہ حکومت نئی برقی پالیسی لانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ پالیسی مختلف ریاستوں کی موجودہ پاور پالیسیوں کے تفصیلی مطالعہ کے بعد تیار کی جائے گی۔ پالیسی کا مقصد بجلی کی پیداوار میں اضافہ، بجلی کی فراہمی کے معیار میں بہتری
0 notes
hamsliveurdu · 5 months
Link
رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ تقریب کے دعوت نامے نے ملک میں سیاسی گرما گرمی پیدا کر دی ہے۔ ہندو مت میں اہم مقام رکھنے والے چاروں شنکراچاریہ نے پران پرتشٹھا تقریب کے خاکہ پر سوال اٹھاتے ہوئے خود کو اس سے علیحدہ کر لیا ہے۔ پوری پیٹھ کے شنکراچاریہ سوامی نِسچلانند سرسوتی نے کہا، ’’ہم اس تقریب میں تالی بجانے تھوڑی نہ جائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ انہیں رام للا کی پران پرتشٹھا تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا ہے لیکن انہیں صرف ایک شخص کے ساتھ آنے کو کہا گیا ہے۔ نِسچلانند نے کہا کہ اگر مجھے 100 لوگوں کے ساتھ آنے کی دعوت دی جاتی تب بھی میں اس پروگرام میں نہ جاتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ مودی وہاں مجسمہ کو چھوئیں اور وہ ان کے لیے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور جے کا نعرہ لگائیں۔ شاردا پیٹھ کے شنکراچاریہ سدانند سرسوتی نے بھی پران پرتشٹھا کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام رام مندر کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ووٹوں کے بارے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوش کے نامناسب مہینے میں پرانت پرتشٹھا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! ہندو مہاسبھا اتر پردیش نے بھی ایک ویڈیو شیئر کیا ہے۔ اس ویڈیو کو سرینگری مٹھ کے شنکراچاریہ جگت گرو سوامی بھارتی تیرتھ سے منسوب کیا گیا ہے۔ ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شنکراچاریہ رام للا کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔ کہا گیا ہے کہ یہ ہندو برادری کو بیوقوف بنانے اور لوک سبھا انتخابات سے قبل پروپیگنڈہ کرنے کے لیے بی جے پی کا اسپانسرڈ پروگرام ہے۔ چاروں شنکراچاریہ کی عدم شرکت سے بی جے پی حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ہندوؤں کے جذبات سے کھیل رہی ہے۔ اہم نکات: چاروں شنکراچاریہ نے رام مندر کی پران پرتشٹھا تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ شنکراچاریہ کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام رام مندر کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ووٹوں کے بارے میں ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ہندوؤں کے جذبات سے کھیل رہی ہے۔
0 notes
hamsliveurdu · 6 months
Link
شہر کے داخلی دروازوں پر سکیورٹی بڑھا دی گئی فور وہیلر اور دو پہیہ گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے رام مندر احاطے کے ارد گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات بابری انہدام کی 31 ویں برسی پر ایودھیا کو قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ شہر کے داخلی دروازوں پر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ فور وہیلر اور دو پہیہ گاڑیوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ زیر تعمیر رام مندر احاطے کے ارد گرد پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کر دی گئی ۔ رپورٹ کے مطابق یہ تمام انتظامات کسی بھی قسم کی مشتبہ سرگرمیوں سے روکنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یوپی پولیس کو کچھ انٹیلی جنس اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد بیریئر پر تعینات سکیورٹی فورسز کو الرٹ رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اگلے سال جنوری میں رام للا کے مجسمہ کی تنصیب کے حوالہ سے بھی ایودھیا میں حفاظتی حصار سخت کر دیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو ہندوتوا حامیوں کے ہجوم کی جانب سے 6 دسمبر 1992 کو منہدم کر دیا گیا تھا ۔ جس کے بعد سے مسجد کو منہدم کرنے والے اور ان کے حامی 6 دسمبر کو شوریہ دیوس (یوم بہادری ) کے طور پر مناتے ہیں جبکہ مسلم طبقہ اس دن کو ’یوم غم ‘ کے طور پر مناتا ہے ۔ تاہم اس بار ہندو ؤں اور مسلمانوں نے دونوں طرح کے پروگراموں پر پابندی لگا دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے کسی قسم کی تقریب منعقد نہیں کی جائے گی۔ بابری انہدام کی برسی پر متھرا اور کاشی میں بھی ہائی الرٹ ہے۔ ہندو تنظیموں کی جانب سے 6 دسمبر کو شاہی عیدگاہ میں لڈو گوپال کی پوجا کرنے کے اعلان کے بعد متھرا میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ پورے احاطے کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ دوسری جانب وارانسی میں بھی پولیس چوکس ہے۔  
0 notes
hamsliveurdu · 6 months
Link
سمندری طوفان مچونگ نے بدھ کو جنوبی ہندوستان میں تباہی مچا دی۔ چنئی میں موسلا دھار بارش اور دیگر وجوہات کی وجہ سے 17 لوگوں کی موت ہو گئی ہے، جب کہ تروپتی میں ایک بچہ اپنی جان گنوا بیٹا ہے۔ اس کے علاوہ، 20 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سمندری طوفان مچونگ کے اثر سے مسلسل تین دنوں سے ہونے والی بارش نے تباہی مچا دی ہے۔ چنئی میں موسلا دھار بارش اور دیگر وجوہات کی وجہ سے 17 لوگوں کی موت ہو گئی ہے، جب کہ تروپتی میں ایک بچہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق، سمندری طوفان نے منگل کو باپٹلا کے قریب آندھرا پردیش کے ساحل کو عبور کیا اور پیچھے بھاری تباہی چھوڑ گیا۔ حکام نے بتایا کہ طوفان سے 770 کلومیٹر سڑک کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ 25 گاؤں سیلاب کی لپیٹ میں ہیں۔ اب محکمہ موسمیات نے راحت کی خبر دی ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ طوفان کمزور ہو گیا ہے اور اس کے اثرات سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوگا۔ تاہم اس کے اثر سے ہندوستان کی جنوبی ساحلی ریاستوں میں بارشوں کا سلسلہ آج تک جاری رہ سکتا ہے۔ محکمہ موسمیات نے لکھا، ’’گردابی طوفان 'مچونگ' وسطی ساحلی آندھرا پردیش میں کمزور ہو کر گہرے ڈپریشن میں تبدیل ہو گیا ہے۔ باپٹلا سے تقریباً 100 کلومیٹر شمال-شمال مغرب اور کھمم سے 50 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ اگلے 6 گھنٹوں کے دوران ڈپریشن میں اور اس کے اگلے 6 گھنٹوں کے دوران بہت کمزور ہو جائے گا۔‘‘ مچونگ طوفان نے چنئی، تروپتی، اور ساحلی اضلاع میں شدید بارش اور تند و تیز ہواؤں کا باعث بنا۔ چنئی میں، بارش کی وجہ سے سڑکیں زیر آب آ گئیں، اور درخت اور بجلی کے کھمبے گر گئے۔ تروپتی میں، بارش کی وجہ سے ایک دیوار گر گئی، جس کے نتیجے میں ایک بچہ ہلاک ہو گیا۔ حکومت نے امدادی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ زخمیوں کو ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے، اور متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے۔
0 notes
hamsliveurdu · 9 months
Link
بلا تفریق مذہب و ذات اس بات پر نازاں ہے کہ ہندوستان نے ’چاند فتح‘ کر لیا ہے، لیکن کیا یہاں کرۂ ارض پر نفرت کی دیواریں دو فرقوں کے درمیان چاند کے راستے میں حائل کی جا رہی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر یامین انصاری وطن عزیز میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی روز نئی نئی شکل میں سامنے آ رہی ہے اور اس کے نئے نئے کردارسامنے آ رہے ہیں۔ کبھی یہ نفرت انگیزی مسند اقتدارپر بیٹھیے لوگوں کے ذریعہ سماج میں زہر گھولتی ہے۔ کبھی مذہبی جلسوں اور جلوسوں میں فروغ پاتی ہے۔ کبھی وہ تہذیب و ثقافت کے نام پر اور کبھی نام نہاد راشٹرواد کے نام پر ایک فرقہ پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ ’نئے بھارت‘ میں نفرت، تعصب اور تشدد نے اپنی بنیادیں مضبوط کر لی ہیں۔ نفرت انگیزی کی جڑیں اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اب فلموں میں ہی نہیں، سڑکوں پر، ٹرینوں میں، بسوں میں، بازاروں میںاور یہاں تک کہ تعلیم کے مندر اسکول کالجوں میں بھی یہ فرقہ پرستی رقص کرتی نظر آتی ہے۔ تعصب اور نفرت کے بے لگام گھوڑے پر سوار فرقہ پرست اس کے بھیانک انجام سے بالکل بے خبر ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ایک طبقہ کو ہراساں کرکے، انھیںاحساس کمتری میں مبتلا کرکے، ان کے مذہبی امور میں رخنہ اندازی کرکے، ان کے کھانے پینے اور شکل و شباہت پر حملے کرکے، انھیں دوسرے درجہ کا شہری بنا کراس ملک کوترقی اور خوشحالی کے راستے پر لے جائیں گے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ افسوس دنیا میں جس بھارت کی پہچان مہاتما گاندھی نے ’عدم تشدد‘ سے کروائی، آج کا’نیا بھارت‘نفرت، تعصب اور تشدد کی علامت بن گیا ہے۔ ابھی پورا ملک بلا تفریق مذہب و ذات اس بات پر نازاں ہے کہ ہندوستان نے ’چاند فتح‘ کر لیا ہے۔ ہم نے ’چندر یان3‘ کی کامیابی کے ساتھ سائنس اور خلا میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں۔ لیکن ایک طرف ہم چاند پر کمند ڈال رہے ہیں، دنیا کی رہنمائی کا خواب دیکھ رہے ہیں، ’وشو گرو‘ بننے کا دعویٰ کر ہے ہیں، وہیں دوسری طرف ملک کو ایک ایسے گڑھے میں لے جا رہے ہیں، جہاں سے نکلنا نا ممکن نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔ نفرت کی یہ دیواریںدو فرقوں کے درمیان نہیں، بلکہ چاند کے راستے میں حائل کی جا رہی ہیں۔ کیسے ہم اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ ہم چاند پر ہیں؟ آخر کیوں ہماری سائنس اور ’روور‘ ملک میں پھیل رہی نفرت کو نشان زد نہیں کر پا رہے ہیں؟حالات اس قدر نا گفتہ بہ ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ ہم ’چندریان3‘ کو ’نئے بھارت‘ کی سچی تصویر سمجھیں یا مظفر نگر کے اسکول میں پیش آیا واقعہ ہی ’نئے بھارت‘ کی حقیقت ہے؟  افسوس اس بات کا ہے کہ سماج میں نفرت، تعصب اور تشدد کا یہ زہر نیچے سے اوپر کی طرف نہیں، بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ فرقہ پرستی کا یہ زہر سماج میں بہت گہرائی تک پیوست ہو چکا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جب حکومت، پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک طبقہ کے خلاف جتنے بھی مظالم کر لئے جائیں، ملزمین کو کٹہرے میں نہیں ، بلکہ اقتدار کے ساتھ کھڑا پائیں گے۔ حال ہی میں نوح میں پیش آئے واقعات اس کی تازہ مثال ہیں۔ ملک کا انصاف پسند طبقہ جن لوگوں کو ان واقعات کا اصل ذمہ دار مانتا ہے، وہ آرام سے ٹی وی پر بیٹھ کر انٹرویو دے رہے ہیں اور دوسری طرف ایک ہی طبقہ کے تقریباً ایک ہزار مکانوں کو مسمار کر دیا جاتا ہے، کاروبار تباہ کر دیا جاتا ہے اور سیکڑوں لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا تھا کہ مہاراشٹر میں چلتی ٹرین میں منافرت کے زہر میں ڈوبا چیتن نام کا ایک سرکاری محافظ چن چن کر تین مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ مزید کو مارنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پہلی نظر میں ذہنی بیمار قرار دے کراس کے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہیں حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم ’غدر 2‘ دیکھ کر نکلنے والے کس طرح کا اظہار کرتے ہیں، اس سے ’نئے بھارت‘ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک رپورٹر فلم دیکھ کر نکلنےوالی ایک جواں سال لڑکی سے پوچھتا ہے کہ فلم کیسی لگی، وہ کہتی ہے کہ ’ بہت اچھی ہے، مسلمانوں کے چہرے پر جو خوف نظر آ رہا ہے، وہ مَست ہے‘۔ اسی طرح ایک 94 سال کی ایک بوڑھی عورت سے جب وہ یہی سوال کرتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ ’ارے اپنے لوگ اتنے مسلمانوں سے لڑے اس سے بڑے فخر کی بات کیا ہے۔‘ ملک میں نفرت کا زہر گھولنے والی فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کوقومی یکجہتی کے زمرے میں ’نیشنل فلم ایوارڈ‘سے نوازا جاتا ہے۔ اس فلم کی نمائش کے دوران سنیما گھروں سے لے کر سماج میں کس قدر نفرت اور اشتعال کو پھیلایا گیا تھا، وہ سب نے دیکھا تھا۔ فلم کو نہ صرف ٹیکس فری کیاگیا، بلکہ ملک کے مختلف حصوںمیں حکمراں طبقہ نے مفت میں فلم دکھانے کا انتظام کیا تھا۔ اب ایسے میں ’کسے وکیل کریں، کس سے انصاف چاہیں‘۔ آپ سوچیں کہ ظلم کے خلاف کس سے انصاف کی امید لگائیں۔ کس سے گفتگو اور مذاکرات کئے جائیں کہ فرقہ وارانہ اہم آہنگی برقرار رہ سکے۔ اس سوال کا جواب ان لوگوں کو بھی دینا چاہئے جو چاہتے ہیںکہ مظلوم خود ظالم کے سامنے دست بستہ ہو کر گزارش کرے کہ آؤ ملک میں امن و سکون قائم کریں۔ مظفر نگر کے اسکول میں پیش آیا واقعہ کیا کسی ایک ٹیچر یا کسی ایک بچے تک محدود ہے؟ شاید نہیں۔ یہ معاملہ ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ تعلیم کے مندر میں ایک خاتون ٹیچر نے جو شرمناک حرکت کی ہے، اس کے لئے مذمتی الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ اس نے نہ صرف استاد کے مرتبہ اور اس کی شان کو ملیا میٹ کیا ہے، بلکہ نفرت میں ڈوبی اس خاتون نے آج کے بھارت کی حقیقت بیان کر دی ہے۔ کبیر داس کا ایک دوہا ہے’گرو گووند دوؤ کھڑے، کاکے لاگو پائے‘۔ کبیر داس نے اس دوہے میں گرو یعنی استاد کی شان بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ زندگی میں کبھی کبھی ایسی صورت حال آتی ہے کہ جب گرو اور گووند (بھگوان) ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں تو پہلے کس کا احترام کیا جائے۔ لیکن مظفر نگر کے ’نیہا پبلک اسکول‘ کی ٹیچر ترپتا تیاگی نے بتا دیا ہے کہ نئے بھارت میں اب کبیرکا دوہا بے معنی ہے ۔ کیا اسسے پہلے اس طرح کے واقعات کے بارے میں کوئی سوچ سکتا تھا؟ اگر کبھی ایسا ہوتا بھی تھا  تو شرمندگی اور احساس جرم کے سبب ملزم پانی پانی ہو جاتا تھا اور اس کے خلاف کارروائی یقینی ہوتی تھی، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔  نفرت انگیزی کے اس دور میں نہ کوئی شرمندگی ہے، نہ کسی جرم کا احساس اور نہ ہی کسی قانونی کارروائی کا خوف۔ مظلوم ہی خوفزدہ نظر آتا ہے۔ اسی لئے تو مظفر نگر میں ایک مسلم بچے کو کلاس میں الگ کھڑا کرکے ہندو بچوں سے پٹوایا جاتا ہے اور مدھیہ پردیش میں صرف اس لئے ایک مسلم اسکول پر بلڈوزرچلا دیا جاتا ہے کیوں کہ وہاں کی غیر مسلم بچیاں اسکارف پہنتی تھیں۔  اسکول کی پرنسپل ، ٹیچر اور سیکورٹی گارڈ کو طالبات کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ریاست کے دموہ میں ’گنگا جمنا پبلک اسکول‘ کی طرح مظفر نگر کے ’نیہا پبلک اسکول‘ میں ایسی کوئی کارروائی آپ کو نظر آئی؟ نہیں، کیوں کہ یہاں مظلوم مسلمان ہے اور ملزم ایک ہندو ہے۔ نئے بھارت میں ظالم اور مظلوم کے ساتھ  انصاف اور نا انصافی کا مطلب بھی بدل گیا ہے۔ پچھلے چند برسوں کا بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، ایک ہی قسم کے جرم میں انصاف کے دو پیمانے نظر آتے ہیں۔ خوف اور احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ مظفرنگر کے متاثر بچے کے والد نے پولیس سے شکایت تک نہیں کی۔ بھلا ہو سوشل میڈیا پر سرگرم ان انصاف پسند ہندوستانیوں کاجن کی وجہ سے یہ معاملہ سامنے آیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن ہندو بچوں سےمسلم بچے کو پٹوایا گیا، ان کے والدین سامنے آتے اور ٹیچر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا، کیوں کہ یہی ’نئے بھارت‘ کی ’بلند تصویر‘ ہے۔ (مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) [email protected] اس مضمون میں پیش کئے گئے افکار وخیالات مضمون  نگار کے ذاتی ہیں۔
0 notes
hamsliveurdu · 11 months
Link
منی پور کے شرمناک واقعات اور وائرل ویڈیو پر بحث سے زیادہ ضرورت اس بات پر غور کرنے کی ہے کہ آخر ہم نے کیسا سماج بنایا ہے منی پور کے ویڈیو نے پورے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ریاست کی آدی واسی خواتین کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقعہ پر پورا ملک شرمندہ ہے، لوگوں میں غم و غصہ ہے۔ جس نے بھی اس ویڈیو کو دیکھاہے، شرم اور غصہ سے بھر گیا۔ ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر ہمارا سماج کہاں پہنچ چکا ہے۔ اس ملک میں پچھلے کچھ برسوں کے دوران جو بھیڑ اور جو ذہنیت تیار ہوئی ہے یا کی گئی ہے، وہ اس حد تک جا سکتی ہے۔ اس واقعہ نے ملک ہی نہیں پوری دنیا کو جھنجھلا کر رکھ دیا ہے۔ منی پور پچھلے تقریباً تین ماہ سے جل رہا ہے، آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، عورتوں کی عصمت تار تار کی جا رہی ہے، گھروں کو جلایا جا رہا ہے، سڑکوں پر قتل و غارت گری کا ننگا ناچ ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے پہلے تک ہر طرف سناٹا تھا، سیاسی گلیاروں سے لے کر سرکاری ایوانوں تک، عدلیہ سے لے کر میڈیا تک سب پر سکوت طاری تھا، ہر طرف خاموشی تھی۔ یہ ایک ویڈیو منظر عام پر آیا ہے، نہ جانے کتنے ویڈیو ہوں گے اور نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہوں گے، جو ہمارا سر شرم سے جھکا دیں گے۔ بظاہر تو سر تو ملک کے وزیر اعظم کا بھی شرم سے جھک گیا، مگر واقعہ کے 77 دنوں کےبعد۔ عام طور پر اس طرح کے واقعات پر خاموشی اختیار کر لینے والے وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ بھی تب جب ملک و بیرون ملک سے اٹھنے والی آوازیں ان کے کانوں میں پڑیں۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئےحکومت کی سخت سرزنش کی اور کارروائی کا انتباہ دیا۔ ماضی کے واقعات معاشرہ کے لئے دعوت فکر منی پور کے شرمناک واقعات اور وائرل ویڈیو پر بحث کرنے سےزیادہ ضرورت اس بات پر غور و فکر کرنے کی ہے کہ آخر ہم نے کیسا سماج بنایا ہے، جہاں انسانیت مرچکی ہے، ضمیر کو گروی رکھ دیا گیا ہے اور ہمدردی و رواداری دم توڑ رہی ہے۔ اگرایسا ہے تو کیسا سماج، کیسا ملک اور کیسی حکومتیں اور عدلیہ، سب بے معنی ہیں۔ منی پور میں خواتین کے وائرل ویڈیوز دیکھ کرایسا ہی محسوس ہورہا ہے۔ ایک سماج کے طور پرہم نے ماضی کے واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ نہ تو مذہبی تعصب کو ختم کیا اور نہ ہی ذات برادری کے چشمہ کو اتارا۔ کٹھوعہ کی آصفہ کے ساتھ کیا ہوااور پھر گنہگاروں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا، ہم سب نے دیکھا۔ اناؤ میں دلت بیٹی کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، سب کو یاد ہوگا۔ 2002 کے بد ترین گجرات فساد کی متاثرہ بلقیس بانو کے ساتھ پہلے کیا گیا اور پھر آج 20 سال کے بعد اس کے گنہگاروں کو کس طرح اعزازو اکرام سے نوازا جا رہا ہے، وہ بھی سب دیکھ رہے ہیں۔ منی پور کا تازہ واقعہ ہی لے لیں۔ حکمراں جماعت کے بڑے بڑے لیڈران اور ان کی ’ٹرول آرمی تک کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ منی پور کی خواتین کے ساتھ یہ شرمناک سلوک کیوں کیا گیا، بلکہ فکر اس بات کی ہے کہ آخر یہ ویڈیو منظر عام پر کیوں اور کیسے آیا؟ یہ سب اسی سماج میں ہو رہا ہے اور ایک خاص ذہنیت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ہم کیسے امید کر سکتے ہیں مظلومین کو انصاف ملے گا اور گنہگاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ خواتین نشانۂ تشدد فسادات، جنگ یا کسی بھی قسم کے تنازعات و تشدد میں خواتین کو اس طرح نشانہ بنانا معمول کا حصہ رہا ہے اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ بعض اوقات انصاف کی مشینری اس کو تحفظ فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تبھی تو منی پور کا موازنہ دوسری ریاستوں سے کر دیا گیا۔ منی پور کے انسانیت سوز واقعات کا ذکر کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کا نام بھی لیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ منی پور پچھلے تین ماہ سے جل رہا ہے، وہیں دیگر ریاستوں میں اس قسم کے ایک دو واقعات ہی ہوئے ہیں، جو نہیں ہونے چاہئے۔ منی پور میں بیشتر مقامات پر انٹرنیٹ خدمات بند ہیں، جبکہ دوسری ریاستوں میں تو ایسا نہیں ہے۔ منی پور میں تو اضافی فورس اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی کے باوجود تشدد نہیں رکا، جبکہ دوسری جگہوں پر ایسا نہیں ہے۔ منی پور کے وزیر اعلیٰ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ایسے سیکڑوں واقعات ہوئے ہیں۔ کیا دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی ہے؟ منی پور میں واقعہ کی بمشکل ایف آئی آر درج ہوئی۔ ایف آئی آر ہوئی تو کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جب تقریباً ڈھائی ماہ کے بعد ویڈیو منظر عام پر آیا تب کچھ گرفتاریاں ہوئیں۔ کیا دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی ہے؟ دیگر ریاستوں کے واقعات سے موازنہ منی پور میں اب تک تقریباً ڈیڑھ سو لوگ مارے گئے ہیں، سیکڑوں زخمی ہیں، ہزاروں افراد بے گھر ہیں، کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بڑی تعداد میں گھر جلائے گئے، مذہبی مقامات جلائے گئے، دوسری ریاستوں میں تو ایسا نہیں ہے۔ پھر آخر دوسری ریاستوں سے منی ور کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کہیں یہ اپنی ناکامی اور گناہوں سے چشم پوشی تو نہیں ہے۔ منی پورتشدد کے پس پشت جتنے سیاسی عوامل کار فرما ہیں، اتنی ہی یہاں کی جغرافیائی صورت حال، ذات برادری اورقبائل آبادی، معدنیات کی دولت وغیرہ بھی اس قضیہ کی بڑی وجہ ہے۔ ایسا صرف منی پور کے ساتھ ہی نہیں ہے، بلکہ مختلف ملکوں اور ریاستوں میں بھی ایسا ہوتاہے۔ جہاں بھی قبائلی اور غریب آبادی والے علاقوں میں قدرتی دولت موجود ہے، وہاں اس کے حصول کے لئے تمام حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق منی پور کے جنگلات میں تانبے اور پلاٹینم موجود ہے۔ منی پور میں 3 مئی کو تشدد کی شروعات اس وقت ہوئی جب پہاڑی اضلاع میں مئیتی برادری کے درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے درجہ کے خلاف احتجاج کے لیے ’قبائلی یکجہتی مارچ‘ کا انعقاد کیا گیا۔ قبائلی اختلافات کوکی اور ناگا کمیونٹی کے لوگ اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کوکی اور ناگا برادریوں کو ملک کی آزادی کے بعد سے قبائلی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ’سرکاری لینڈ سروے‘ بھی بڑی وجہ مانی جا رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ریاست کی بی جے پی حکومت نے یہاں ایک مہم شروع کی ہے، جس میں قبائل سے’ریزروجنگلاتی علاقہ‘ خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔ جس کی کوکی برادری کے لوگ شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ مئیتی کو منی پور کی سب سے بڑی برادری کہا جاتا ہے۔ دارالحکومت امپھال میں بھی ان کی بڑی آبادی ہے۔ انہیں عرف عام میں منی پوری کہا جاتا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق یہ لوگ ریاست کی کل آبادی کا64.6   فیصد ہیں۔ یہ لوگ منی پور کےدس فیصد علاقے میں آباد ہیں۔ ان میئتیوں میں سے زیادہ تر ہندو ہیں اورآٹھ فیصد مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ منی پور قانون ساز اسمبلی میں مئیتی برادری کی نمائندگی بھی زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منی پور کی 60 اسمبلی سیٹوں میں سے 40 امپھال وادی سے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر مئیتی لوگ رہتے ہیں۔ دوسری طرف منی پور کی آبادی میں کوکی اور ناگا قبائلی بھی ہیں۔ یہاں ان کی آبادی تقریباً 40 فیصد ہے۔ جن 33 برادریوں کو قبائل کا درجہ ملا ہے۔ ان کا تعلق ناگا اور کوکی-جومی قبائل سے ہے اور یہ زیادہ تر عیسائی ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق منی پور میں ہندوؤں اور عیسائیوں کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ ا��سا مانا جاتا ہے کہ منی پور کی بی جے پی حکومت چاہتی ہے کہ میدانی علاقوں میں رہنے والی میئتی برادری کوایس ٹی کا درجہ دے کر پہاڑوں پر بھی آباد کیا جائے۔ چار مئی کو فسادات بھڑکانے کے لیے ایک فرضی ویڈیو شیئر کیا گیا تھا، جس میں کسی دوسری جگہ کے قتل کے واقعہ کو منی پور کی مئیتی برادری کی خاتون کا بتایا گیا۔ نتیجتاً سیکڑوں مئیتی مردوں نے دوکوکی خواتین کو سرعام برہنہ کیا اور ان کی اجتماعی عصمت دری کی۔ بہر حال، ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ جیسےنعرے بولنے میں تو اچھے لگتے ہیں، خواتین کی فلاح و بہبود اور تحفظ کےلئے زبانی جمع خرچ بھی خوب ہوتا ہے، نئے نئے قوانین بھی بنائے جاتے ہیں، مگر اُس ذہنیت کو تبدیل کرنے کی سنجیدہ ا ور مخلصانہ کوشش نہیں کی جاتی جس کے سبب ایسی گھناؤنی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ انھیں روکنے کے لئے قانون سازوں، قانون کے رکھوالوں اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو جوابدہ بنانا ہوگا۔ اس مضمون میں پیش کئے گئے افکار وخیالات مضمون نگار کے ذاتی ہیں۔ (مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں) [email protected]
0 notes
hamsliveurdu · 11 months
Link
برطانوی مسلم مبلغ انجم چودھری پر گزشتہ ہفتے لندن میں گرفتاری کے بعد دہشت گردی کے تین الزامات عائد کر دئیے گئے برطانوی پولیس نے برطانوی مسلم مبلغ انجم چودھری پر گزشتہ ہفتے لندن میں گرفتاری کے بعد دہشت گردی کے تین الزامات عائد کر دئیے۔ پولیس نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ 56 سال کے انجم چودھری پر ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے، ایک دہشت گرد تنظیم چلانے اور ایک کالعدم تنظیم کی حمایت کی حوصلہ افزائی کے لیے جلسوں میں تقریریں کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ العربیہ کی رپورٹ کے مطابق انجم چودھری کسی زمانے میں برطانیہ کے ممتاز مبلغین میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 2016 میں برطانیہ میں دہشت گرد تنظیم "داعش" کی حمایت کی ترغیب دینے کے جرم میں سزا دی گئی تھی۔ اس کے بعد انہیں ساڑھے پانچ سال کی سزا کا نصف پورا کرنے کے بعد 2018 میں رہا کر دیا گیا تھا۔ انجم چودھری نے اس وقت توجہ حاصل کی تھی جب انہوں نے امریکہ پر “نائن الیون” کے حملے کرنے والوں کی تعریف کی اور کہا کہ وہ بکنگھم پیلس کو مسجد میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ انجم چوہدری کالعدم گروپ “المہاجرون” کا سابق سربراہ تھے۔ ان کے پیروکار دنیا بھر میں متعدد سازشوں سے منسلک پائے گئے ہیں۔ انجم چودھری ایک اور معروف مبلغ عمر بکری کے بھی قریب تھے۔ عمر بکری کے ساتھ ملکر ہی انجم نے کالعدم بنیاد پرست تنظیم “المہاجرون” کی بنیاد رکھی تھی۔ انجم چودھری نے جلد ہی اپنے آپ کو "لندنستان" کے حلقوں کے اہم نمائندوں میں سے ایک کے طور پر قائم کیا۔ یہ تنظیم 2000 کی دہائی کے اوائل میں برطانوی دارالحکومت میں بنائی گئی تھی۔ اس کے بہت سے پیروکاروں پر دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینے کا الزام لگایا گیا۔ انجم چودھری برطانیہ میں مساجد، سفارت خانوں اور پولیس سٹیشنوں کے سامنے مظاہرے کر کے حکام اور میڈیا کے لیے معروف ہوئے۔ انجم کہتے تھے کہ ان کا آخری مقصد ڈاؤننگ سٹریٹ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر اسلام کا پرچم بلند کرنا ہے۔ پولیس نے کہا کہ انہوں نے ایک 28 سالہ کینیڈین خالد حسین پر بھی ایک کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کیا اور اسے ہیتھرو ایئرپورٹ پر آمد کے وقت گرفتار کرلیا ہے۔
0 notes
hamsliveurdu · 1 year
Link
کانگریس کے سینئر لیڈر اجے کمار نے آج یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت حادثے کے ذمہ دار وزیر کو بچانے میں لگی ہوئی ہے اور دن بھر ٹی وی پر یہی خبریں سرخیوں کے طور پر چل رہی ہیں کہ یہ ٹرین حادثہ ایک سازش ہے یا نہیں نئی دہلی: کانگریس نے بدھ کو بالاسور ٹرین حادثہ کے لئے حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ریل کی حفاظت میں لاپروائی کی تمام حدیں پار ہو گئی ہیں اس لئے ریلوے کے وزیر اشونی وشنو کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہئے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اجے کمار نے آج یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت حادثے کے ذمہ دار وزیر کو بچانے میں لگی ہوئی ہے اور دن بھر ٹی وی پر یہی خبریں سرخیوں کے طور پر چل رہی ہیں کہ یہ ٹرین حادثہ ایک سازش ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ٹرین حادثہ میں سازش کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اسے سرخی بنا کر اور حادثے کی سی بی آئی انکوائری کا اعلان کرکے توجہ ہٹانے کا کام کیا ہے۔ حکومت نے ریل حادثات کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے میں ہمالیائی لاپروائی کا مظاہرہ کیا اور اسی سنگین لاپروائی کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا، اس لیے حکومت حقیقت سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی رہی۔ ڈاکٹر کمار نے کہا کہ حادثے سے متعلق سی بی آئی ایف آئی آر میں تخریب کاری یا سازش کا کوئی ذکر نہیں ہے، صرف لاپروائی کا ذکر ہے، لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے آئی ٹی سیل نے چاروں طرف افواہیں پھیلائیں کہ یہ ایک سازش تھی۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سی بی آئی کو اس معاملے کی جانچ کرنی چاہئے کہ مودی حکومت نے ٹریک کی مرمت اور نئے ٹریک بچھانے کے بجٹ کو 9607 کروڑ سے کم کر کے 7400 کروڑ کیوں کر دیا۔ انہیں بتانا چاہئے کہ جب پچھلے چار سالوں میں تقریباً 1100 بار ٹرین پٹری سے اتری ہے تو پھر ان معاملات میں سی بی آئی کی جانچ کیوں نہیں ہوئی؟ کانگریس لیڈر نے کہا کہ سی بی آئی کو انکوائری کرنی چاہئے اور یہ بھی بتانا چاہئے کہ نیشنل ریل سیفٹی فنڈ کی فنڈنگ ​​میں تقریباً 80 فیصد کمی کیوں کی گئی ہے اور اس کی ایف آئی آر میں ریلوے کے وزیر کا نام کیوں نہیں لیا گیا ہے۔
0 notes
hamsliveurdu · 1 year
Link
راہل گاندھی نے کہا کہ کرناٹک میں نفرت کا بازار بند ہوگیا اور محبت کی دکان کھل گئی، یہ کرناٹک کی جیت ہے، ہمارے پانچ وعدے ہیں، پہلی کابینہ میں پورے کریں گے نئی دہلی: کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے ہفتہ کو کرناٹک اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی شاندار جیت کو غریب عوام کی جیت اور سرمایہ دار طاقتوں کی کراری شکست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان انتخابات میں نفرت کی دکانیں بند ہو گئیں اور محبت کی دکانیں کھل گئیں۔ مسٹر گاندھی نے کرناٹک کی جیت کے جشن کے درمیان کانگریس ہیڈکوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ کانگریس غریبوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کے مقصد کے لیے لڑی ہے، جس میں سرمایہ داری کو شکست ہوئی ہے۔ ایسے ہی نتائج آئندہ اسمبلی انتخابات میں بھی آنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے کرناٹک کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا کام ریاست میں حکومت کی تشکیل کے بعد کابینہ کی پہلی میٹنگ میں شروع کیا جائے گا۔ مسٹر گاندھی نے کہا ’’ہم نے یہ جنگ پیار اور محبت سے لڑی اور کرناٹک کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہ ملک محبت سے پیار کرتا ہے۔ کرناٹک میں نفرت کا بازار بند ہوگیا اور محبت کی دکان کھل گئی۔ یہ کرناٹک کی جیت ہے۔ ہمارے پانچ وعدے ہیں، پہلی کابینہ میں پورے کریں گے۔
0 notes
hamsliveurdu · 1 year
Link
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف امریکہ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ نیویارک میں ٹائمز اسکوائر پر پی ٹی آئی کارکنوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جب کہ ہیوسٹن میں پاکستانی قونصلیٹ کے باہر مظاہرہ کیا گیا لندن: برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کا چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور برطانیہ پاکستان کی صورتحال کو مانیٹر کر رہا ہے۔ سابق پاکستانی وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کے خلاف ملک کے اندر تو احتجاج جاری ہے تاہم امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف امریکہ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔ نیویارک میں ٹائمز اسکوائر پر پی ٹی آئی کارکنوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جب کہ ہیوسٹن میں پاکستانی قونصلیٹ کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے پارٹی چیئرمین سے اظہار یکجہتی کے لیے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اس کے علاوہ پی ٹی آئی کارکنوں نے نواز شریف کی رہائشگاہ ایون فیلڈ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا جو بارش کے باوجود کئی گھنٹے جاری رہا۔ ترجمان یورپی یونین خارجہ اُمور نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یورپی یونین زور دیتی ہے کہ ایسے مشکل اور کشیدہ وقت میں تحمل کی ضرورت ہے، پاکستان کو درپیش چیلنجز سے صرف پاکستانی خود نمٹ سکتے ہیں۔ یورپی یونین نے کہا کہ چیلنجز سے مخلصانہ بات چیت اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔
0 notes
hamsliveurdu · 1 year
Link
بتایا جا رہا ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ نے مسلم ریزرویشن کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیا تھا نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کرناٹک میں ملازمتوں اور تعلیم میں مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن کے معاملے پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے مبینہ عوامی بیان پر منگل کو اعتراض کیا۔ جسٹس کے ایم جوزف، بی وی ناگارتنا اور احسان الدین امان اللہ کی بنچ نے معاملہ زیر سماعت ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم اس معاملے کی سماعت کے لیے تیار ہیں تو ہم اس طرح کی سیاست کی اجازت نہیں دے سکتے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی وزیر داخلہ شاہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل دشینت دوے کے زبانی ریمارکس کے دوران اپنا اعتراض ظاہر کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ نے مسلم ریزرویشن کو آئین کی روح کے خلاف قرار دیا تھا۔ بنچ نے کہا کہ جب معاملہ زیر سماعت ہے تو عدالت کے فیصلے سے پہلے اس طرح کے بیانات نہیں دیے جانے چاہئیں۔ اس پر کرناٹک حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس طرح کے کسی بھی بیان کو معلومات ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن غیر آئینی ہے۔ بنچ نے کہا، 'اس پر (مسلم ریزرویشن پر) عوامی بیان نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔" دوسری جانب مسٹر دوے نے کہا کہ وہ عدالت کے سامنے وزیر کے بیان کو ریکارڈ پر رکھ سکتے ہیں۔ سنٹرل مسلم ایسوسی ایشن نے اپنی درخواست میں عدالت سے درخواست کی کہ وہ پریس کو ایسی تقاریر شائع کرنے سے روکے۔ عدالت نے سالیسٹر جنرل کا یہ بیان بھی ریکارڈ کیا کہ ریاستی حکومت کے 27 مارچ کو مسلمانوں کے لیے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کے فیصلے پر اگلے احکامات تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
0 notes
hamsliveurdu · 1 year
Link
جسٹس جوزف کی سربراہی میں بنچ نے ان مجرموں کو نئے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی جو اس سے باہر رہ گئے تھے جسٹس جوزف کی سربراہی میں بنچ نے ان مجرموں کو نئے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی جو اس سے باہر رہ گئے تھے جسٹس کے ایم جوزف، جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس احسان الدین امان اللہ کی بنچ نے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے کی مزید سماعت 11 جولائی کو مقرر کردی۔ جسٹس جوزف کی سربراہی میں بنچ نے ان مجرموں کو نئے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی جو اس سے باہر رہ گئے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے خصوصی طور پر ہدایت کی کہ اگلی سماعت کی تاریخ 11 جولائی کی تاریخ اخبارات میں (نوٹس میں) شائع کی جائے۔ بنچ نے کہا کہ اس عمل سے عدالت کا مزید وقت ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ 11 مجرموں میں سے کچھ کو نوٹس نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ اپنے گھروں پر موجود نہیں تھے اور نہ ہی موبائل فون پر دستیاب ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بنچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس جوزف 16 جون کو ریٹائر ہو جائیں گے اور 20 مئی سے 2 جولائی تک گرمیوں کی تعطیلات کے پیش نظر 19 مئی ان کے کام کا آخری دن ہو گا۔ اس دل دہلا دینے والے کیس میں سزا یافتہ 11 لوگوں کو گجرات حکومت نے اپنی معافی پالیسی کے تحت 15 اگست 2022 کو رہا کیا تھا۔ ان تمام مجرموں نے جیل میں 15 سال مکمل کر لیے تھے۔
0 notes
hamsliveurdu · 1 year
Link
دہلی روانہ ہونے سے پہلے کھیڑا کھاپ کے سربراہ ستبیر پہلوان نے کہا کہ پہلوان ملک کا فخر ہیں جند: کھٹکر ٹول پلازہ کمیٹی اور کھیڑا کھاپ، کسان تنظیموں سے وابستہ لوگ اتوار کو دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج کرنے والے پہلوانوں کی حمایت میں دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔ دریں اثنا، پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ایک گروپ جو گرودوارے میں ٹھہرا ہوا تھا، بھی بسوں کے ذریعے دہلی روانہ ہوا۔ دہلی روانہ ہونے سے پہلے کھیڑا کھاپ کے سربراہ ستبیر پہلوان نے کہا کہ پہلوان ملک کا فخر ہیں۔ انہوں نے کھیلوں کے ذریعے دنیا میں ملک کی پہچان بنائی۔ وہی پہلوان آج انصاف کے لیے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ برج بھوشن شرن کے خلاف الزامات سنگین ہیں۔
0 notes
hamsliveurdu · 1 year
Link
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران کانگریس پارٹی کے جاری کردہ انتخابی منشور میں بجرنگ دل پر پابندی لگانے کا فیصلہ بالکل درست ہے اور پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد اپنے وعدے پر قائم رہے گی بنگلور: کرناٹک کے اسمبلی انتخابات کے دوران کانگریس پارٹی کے جاری کئے گئے انتخابی منشور میں بجرنگ دل پر پابندی عائد کرنے والا جو فیصلہ لیا گیا ہے وہ بالکل درست ہے اور بر سر اقتدار آنے کے بعد پارٹی اپنے وعدے پر قائم رہے گی۔ یہ باتیں آج یہاں بنگلور دورے کے دوران مہاراشٹر کانگریس کمیٹی کے نائب صدر و سابق وزیر نسیم خان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ نسیم خان جنہیں آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے انتخابات کے دوران کرناٹک کا مشاہد (آبزرور) مقرر کیا ہے، وہ جنوبی ہند کی اس ریاست میں پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ ماب لنچنگ؛ گئو رکشا کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی بجرنگ دل ایک مذہبی تشدد پسند اور عسکریت پسند تنظیم ہےجو کہ وشو ہندو پریشد کی یوتھ ونگ ہے اور اس کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے۔ نیز اس پر پابندی عائد کئے جانے کے اعلان سے آخر بی جے پی کیوں واویلا مچارہی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجرنگ دل کوئی سماجی تنظیم تو نہیں ہے بلکہ یہ غنڈوں اور دہشت گردوں کی ایک تنظیم ہے جو ملک میں بدامنی پھیلا کر زعفرانی پارِٹیوں کو اقتدار حاصل کرانا جاہتی ہے۔ واضح رہے کہ کرناٹک میں رواں ماہ کی دس تاریخ کو اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اور کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں بجرنگ دل اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) جیسی جماعتوں پر پابندی کا وعدہ کیا ہے۔
0 notes