Tumgik
kami6 · 4 years
Text
دل کا اجڑا ہوا اِک مکاں اور میں
مرے کمرے میں یادیں، دھواں اور میں
جانے کب سے کھڑے ہیں تری راہ میں
یہ پرندے، شجر، آسماں اور میں
روز و شب ایک دوجے سے چھپتے ہیں ہم
بھولی بسری سی اک داستاں اور میں
جانے کب سے بھٹکتے ہیں ہم دربدر
تیری یادوں کا اک کارواں اور میں
ایک مدت سے واقف ہیں اک دوجے کے
خاک راہ، یہ شجر، ترا آستاں اور میں
کامی علی...✍️
Tumblr media
0 notes
kami6 · 4 years
Text
کہا جاتا ہے مرد کبھی سچی محبت کر ہی نہیں سکتا بلکہ مرد تو صرف جسم کا بھوکا ہوتا ہے...چلو مان لیا مرد جسم کا بھوکا ہوتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ آخر عورت کبھی کسی “ہیجڑے” سے محبت کیوں نہیں کرتی...🙂
#لغویات...✍️
کامی علی
Tumblr media
0 notes
kami6 · 4 years
Text
سوچ رہا ہوں یوں میں کروں گا
ساتھ تمہارے نکل پڑوں گا
تنہا جینا بھی کیا جینا
سنگ تیرے جیئوں گا مروں گا
کس کی آہٹ تنگ کرتی ہے
دروازے پہ آنکھ دھروں گا
ہجر تمہارا یوں کاٹوں گا
دل تھاموں گا، آہ بھروں گا
دشت کے اک اک ذرے پہ میں
گوری! تیرا ورد کروں گا
تجھ کو لے جائیں گے کھیڑے
اور میں تیری راہ تکوں گا
کامی علی...✍️
Tumblr media
0 notes
kami6 · 4 years
Text
مجھے اس سے محبت تھی، کم یا زیادہ یہ نہیں جانتا...اور جانتا بھی کیسے بھلا محبت ماپنے کا بھی کوئی پیمانہ ہوتا ہے کیا...ہاں مگر میں اس سے اتنی محبت کرتا تھا جتنی زمانہ قدیم میں کسی داسی کو اپنے دیوتا سے ہوتی تھی...یونانی دیوتاؤں کی داسیوں کی محبت بڑی عجیب ہوا کرتی تھی...وہ اپنے کوکھ سے نکلے، اپنے وجود کے ٹکڑے کو اپنے دیوتا کے پجاری (کاہن) کے اتنا کہنے پر “دیوتا بلی مانگتا ہے، تازہ انسانی خون کی بلی” اپنے جگر کے ٹکڑے کو بلی چڑھا دیا کرتی تھیں...تمہیں پتا ہے، ایک ماں کے لئے سب سے زیادہ المناک لمحہ کونسا ہوتا ہے...جب وہ اپنے بچے کو (جسے نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھتی ہے، پھر جنم دینے کے وقت درد کی اس انتہا کو چھو کر آتی ہے جو ایک ساتھ جسم کی تمام ہڈیاں ٹوٹنے سے ہوتا ہے اور پھر اپنی چھاتیوں کے خون سے سینچ کر پروان چڑھاتی ہے) اس کو کسی تکلیف میں دیکھتی ہے...لیکن یونانی دیوتاؤں کی داسیاں اپنے ہاتھوں سے ان کی بلی چڑھا دیا کرتی تھیں...میں بھی تمہاری محبت میں اپنے دل کی بلی چڑھا چکا ہوں، اور اس کے ساتھ اس چھوٹے سے بچے کی بھی جو اس دل کے کسی نہاں خانے میں چھپا بیٹھا رہتا تھا، بلکل اس بچے کی طرح جو اپنی ماں کو شرارت میں تنگ کرنے کے لئے کسی کونے میں چھپ جاتا ہے اور اس کی ماں دودھ کا گلاس لئے اسے ڈھونڈتی پھرتی ہے، ماں اس کے چھپنے کی جگہ جانتی ہے، پھر بھی ڈھونڈتی ہے جب تک وہ “ھاؤ” کی آواز نکال اپنے تئیں ماں کو ڈرا نہیں دیتا...میں نے اس شرارتی بچے کی قربانی دی جو میرے اندر ہنستا کھیلتا تھا، قہقہے لگاتا، شرارتیں کرتا تھا...اس کے بعد میں اس سوکھے بڑے برگد کی مانند ہو گیا جس کی لکڑی بظاہر کھروی اور مضبوط ہوتی ہے لیکن دیمک اسے اندر سے چاٹ جاتی ہے...ہوا کا ایک تیز جھونکا اسے کسی بھی پل زمین بوس کر دے، کھوکھلی جڑوں والا مضبوط برگد...لیکن محبت کی دیوی شاید اس یونانی موت کی دیوی سے بھی زیادہ ظالم ہے جو کسی سے اپنی محبوب ہستی کی جان کے بدلے اس کی جان کا سودہ کیا کرتی تھی، کیونکہ موت کی دیوی سودہ کرنے والے کی جان کے بدلے اس کے عزیز کی جان بخش دیتی تھی، لیکن محبت کی دیوی بلی لے کر بھی خوش نہیں ہوئی، اور مجھے ہجر کے کالے پنجوں والے شیطان سے نجات نہیں دلا سکی...اب شاید مجھے اس دیوتا کے لئے بلی دینا پڑے جو سب دیوی دیوتاؤں کا باپ کہلاتا ہے، اور نجات مانگنے والے سے بدلے میں اس کی اپنی جان کا سودہ طے کرتا ہے...!
Tumblr media
کامی علی...📝✍️
1 note · View note