Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
"مدارس میں لونڈے بازی پر چار لفظ تحریر نامعلوم اس تحریر پر ممکن ھے آپ راقم پر فحش گو یا واہیات ھونے کا فتوی لگائیں مگر میری ذات پر اٹھی انگلی سے کہیں زیادہ پرواہ مجھے اس گھناونے کھیل پر ھے جو کتاب مقدس قرآن کریم کی تعلیم کی آڑ میں کھیلا جاتا ھے۔ برصغیر پاک وھند کے مدارس میں لونڈے بازی یا بچہ بازی ایک ایسی روایت یا سنت ھے جس پر تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کا اتفاق ھے۔دیگر نظریاتی اختلافات اور مخاصمات سے بالاتر یہ رواج تمام مدارس میں کسی نا کسی پیمانے پر ضرور پایا جاتا ھے۔قرآن و حدیث کے معانی و مفہوم پر تو اختلاف ممکن ھے مگر لونڈے بازی پر تمام ارباب_مدارس کا اندرون_خانہ اتفاق ھے۔ سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ قرآن میں صراحت کے ساتھ لواطت کو ایک قبیح جرم قرار دیا جاتا ھے اور کسی بھی مکتب فکر میں اس کے جواز کا فتوی موجود نہیں تو پھر دین اسلام کو اتنا قریبی سے سمجھنے والے علماء حضرات اس مزموم فعل میں ملوث کیوں ھوتے ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ مدارس کے ماحول میں پائ جانے والی گھٹن اور اسکا یک رستی حل لونڈے بازی کی صورت میں نکلتا ھے۔چونکہ علماء اور مدارس کے طلباء عوام الناس کی طرح فطری زندگی کو نہیں جی رھے ھوتے اور شخصیتی تفاخر اور مزھبی لبادے کی پاسداری کے مرض میں مبتلا ھوتے ھیں، انکی سیکسوئل لائف خاصی فرسٹریٹڈ ھوتی ھے۔کچھ نا ملنے پر ایک دوسرے کی کھیتی سیراب کر کے من کی موج کا سامان کیا جاتا ھے۔تاکہ معاشرے میں سکینڈل نا بنے اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری ھوتی رہیں۔یوں بارٹر سسٹم کے تحت یہ عمل مدارس و مساجد کی چاردیواری میں قال اللہ و قال الرسول کی صداوں میں چپکے چپکے جاری رہتا ھے۔ لونڈے بازی کا اولین شکار بننے والے مدارس کے طلباء اور شکاری ان کے اساتذہ حضرات ھوتے ہیں۔طلباء کی رضامندی اور چپ سادھنا بھی ایک نفسیاتی قضیہ ھے۔عام طور پر کسی بھی آدمی کے لئے اپنی منشاء کے خلاف یا کسی بھی غیرجائز سمجھے جانے والے کام کے جواز کے لئے بنیادی دو وجوہات ھوتی ہیں۔محبت اور ادب۔ جب آپ کسی سے محبت کر بیٹھتے ہیں تو آپ وہ کام بھی بخوشی کرتے ہیں جو پہلے آپ کے لئے ناجائز ھوتا ھے۔مثلا جب لڑکی اور لڑکا محبت کرتے ہیں تو جسمانی تعلق، بات چیت، ایکدوسرے کو وقت دینا جائز بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں جبکہ وہی معاملات کسی غیر کے ساتھ گورا نہیں ھوتے۔یہی حال ادب کا ھے۔جب آپ کسی کے ادب میں ھوتے ہیں تو پھر اس کے پاوں دبانا، نخرے اٹھانا، بات ماننا آپ کے لئے سامان_مسرت بن جاتا ھے اور آپ صحیح و غلط کے مروج قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے۔سکول و کالجز کے برعکس مدارس کے طلباء میں اساتذہ کا ادب کئ گنا زیادہ پایا جاتا ھے اور یہی ادب ان کے اساتذہ کی جنسی تسکین کے رستے ہموار کرتا ھے۔اقامتی مدارس میں مولوی حضرات رات کو سونے سے پہلے طلباء کو پاوں دبوانے کے لئے بلواتے ہیں جسے بچہ سعادت دارین سمجھ کر بخوشی بھاگتا ھے۔مولوی صاحب پیر دبواتے دبواتے بیگم والے جملہ حقوق_بستر بچے سے طلب کرتے ہیں اور ادب سے سرشار معصوم بچے اپنی عصمت مولانا کے تقدیس کے آشرم میں وار بیٹھتے ہیں۔پیر دبوانے کی یہ رسم بچوں کو رفتہ رفتہ گانڈو بنا دیتی ھے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی مار کا خوف ھے۔مولوی صاحب کا پائپ اور اپنی انکھوں کے سامنے ہم جماعت دوستوں کی کمر لال ھوتی دیکھ کر بچوں کے دل میں مولوی صاحب داروغہ جہنم اور انکا پائپ عزرائل کا گرز معلوم ھوتا ھے۔حفظ کی کلاس میں تمام بچوں کا سبق استاد خود نہیں سنتا کیونکہ تیس چالیس بچوں کو بیک وقت سبق دینا، سبقی سننا، منزل سننا ایک قاری صاحب کے لئے ناممکن ھوتا ھے۔چنانچی سینئر طلباء کی منزل، گردان اور سبق قاری صاحب عموما خود سن کر چھوٹے بچوں کا سبق سننے پر انکو مامور کر دیتے ہیں۔بڑے طلباء چھوٹوں کا سبق سن کر ان کی غلطیاں جنہیں مدارس کی اصلطلاح میں متشابہ کہا جاتا ھے، قاری صاب کو بتا دیتے ہیں اور قاری صاحب غلطیوں کے عوض چھترول اور پائپ سے وحشیانہ تشدد کر کے بچے کو آئندہ سبق یاد کرکے آنے کی تلقین کرتے ہیں۔اب قرآن ایسی کتاب ھے جس میں بندہ جتنا بھی ذہین ھو بیک وقت سبق، سبقی اور منزل میں کہیں نا کہیں غلطی رہ جاتی ھے، اور بارہ تیرہ سال کے بچے تو ویسے بھی اتنا کمپلیکی��ڈ ایجوکیشن میکانزم مینیج نہیں کر سکتے ھوتے، تو غلطییاں یقینی بات ھوتی ھے۔اب بڑے طلباء بچوں کو بلیک میل کرتے ہیں کہ رات کو میرا کام کر دو تو غلطیاں کم بتاوں گا۔بچے کے سامنے ایک طرف پائپ اور قاری صاب کی درندہ صفت مار ھوتی ھے اور دوسری طرف سئنیر ساتھی کے ساتھ چند منٹ کا لذتی سفر۔ظاہر ھے دوسری آپشن وارے کی ھوتی ھے، چنانچہ بچے آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے مولوی کے پائپ سے بچ کر بڑے لڑکوں کے پائپ کا شکار ھو جاتے ہیں۔ ایک وجہ اقامتی مدارس کا رہائشی نظام بھی ھے۔عموما لڑکے کمروں میں اکٹھے سوتے ہیں اور بستر سے بستر ٹانگ سے ٹانگ جڑی ھوتی ھے۔رات کو جب شیطان جی کاروائ ڈالتے ہیں تو ایک ہی صف میں لیٹے محمود و ایاز میں سے نا بندی رھتا ھے نا بندہ نواز اور نیم دراز کام ھوجاتا ھے۔ جہاں تک خدا خوفی کا تعلق ھے تو جناب، لکھے ھوئے قانون اور عملی تناسب میں فرق کہاں نہیں ھے ؟ پاکستان کا انیس صد تہتر کا آئین اور اس پر عمل درآمد میں تضاد ایک عام سی بات ھے، قران کے مندرجات اور اس پر عمل پیرائ سے منحرف مگر جنت کے دعویدار عام مسلمان کا رویہ ہم میں سے ہر ایک کی اپنی مثال ہمارے سامنے ھے۔تو قبلہ مولوی بھی ویسا ہی انسان ھے جیسے آپ اور میں، اس کے نزدیک لواطت و زنا جرم اور جہنم لے جانے والے اعمال ایسے ہی ہیں جیسے ایک نماز نا پڑھنے والا مسلمان نماز نا پڑھنے کے عزاب کا اقرار بھی کرتا ھے اور نماز پڑھتا بھی نہیں ھے۔ مدارس میں جاری یہ قبیح عمل جہاں مولوی حضرات کو لونڈے باز بناتا ھے وہیں انہیں اخلاقی گراوٹ اور نفسیاتی عارضہ کا شکار بھی بنا دیتا ھے جس کی بدولت یہ عام انسانوں سے زیادہ خبط_عظمت میں مبتلا،سگمنڈ فرائڈ کی تھیوری کے مطابق ڈیفینسیو رویہ کے حامل اور شدت پسند واقع ھو جاتے ہیں۔اگر ہم چاھتے ہیں کہ ہمارے پیارے مولوی بھائ اس خباثت سے نکل آئیں تو ہمیں اس بیماری کو جڑ سے جا پکڑنا ھو گا اور تابوت میں کیل ٹھونکنے ھوں گے مبادا کہ موصوف علماء حضرات ایکدوسرے کے تابوت قیامت تک پھاڑتے رہیں۔
0 notes