Text
Happy Ramadan!
May this month enlighten our souls, and fill our hearts with forgiveness and love.
Remember the whole Muslim ummah in your prayers. May Allah do mercy upon Muslims suffering around the globe. Aameen
#RamadanKareem #Ramazan #Ramadan2021
3 notes
·
View notes
Text
إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ
I only complain of my suffering and my grief to Allah
- Al-Quran, Surah Yusuf [12:86]
23 notes
·
View notes
Text
عید مبارک 🙂
Stay safe everyone.
May Allah bless the whole Muslim Ummah. Aameen
#EidUlFitr #Eid2020
0 notes
Text
"ایسا نہ ہو کہ کرونا سے انسان تو بچ جائیں مگر انسانیت مر جائے.
اپنے ارد گرد رہنے والے بے سہارا انسانوں تک کھانا پہنچا کر انسانیت کو بچائیے اور
اپنے رب کو راضی رکھیئے."
صدر الخدمت فاونڈیشن، محمد عبدالشکور
DONATE TO @AlkhidmatOrg
#Corona #Alkhidmat
1 note
·
View note
Text
"عقیدہ حیات"
دوسروں سے اپنا موازنہ کر کے اپنی اہمیت کم مت کرو
کیونکہ ہم میں سے ہر ایک منفرد ہے۔
اس لئے ہر کوئی اپنی جگہ اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے مقصدحیات کو دوسروں کی نظر سے
مت دیکھو۔
تمہیں معلوم ہونا چاہیے
کہ تمہاری زندگی میں کیا اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو چیزیں تمہارے دل کے قریب ہیں
ان کی قدر کرو۔
ان کو ایسے سنبھالے رکھو
جیسے کہ ان کے بغیر تمہاری زندگی بے معنی ہو۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی اور مستقبل میں شب و روز مت گذارو۔
بلکہ کچھ اس طرح جئو
کہ موجودہ لمحات ہی حاصل زیست ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت تک حوصلہ مت ہارو
جب تک سینے میں سانسیں باقی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں
کہ تم کامل نہیں ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطرات مول لینے سے مت گھبراؤ۔
کیونکہ ان سے ہمارے حوصلوں کو تقویت ملتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کر محبت سے کنارہ کشی مت کرو
کہ سچی محبت کب کسی کو ملتی ہے؟
محبت تو محبت بانٹنے اور محبت کرنے سے ملتی ہے۔
جتنا زیادہ ہم محبت کو قید کرنے کی کوشش کریں گے اتنی ہی جلدی محبت ہمارے ہاتھوں پھسل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے خوابوں کو مرنے مت دینا
بن خوابوں کے جینا
بن امید کے جینا ہے
اور بن امید کے جینا ۔۔۔
ب�� مقصد جینا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں اتنا تیز مت بھاگو
کہ تمہیں یہ بھی یاد نہ رہے
کہ تم کن مقامات سے گزرے ہو
اب کہاں ہو
اور تمہاری منزل کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی اک دوڑ نہیں ہے
بلکہ اک سفر ہے
ایسے چلو کہ اس کا
ہر قدم یادگار و دلنشیں ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 notes
·
View notes
Text
🍁
Some people are immense sources of barakah for others. May Allāh make you and I amongst them, aameen.
- strangerinthedunya
87 notes
·
View notes
Text
وَالْعَصْرِ
By time,
إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ
Indeed, mankind is in loss,
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
Except for those who have believed and done righteous deeds and advised each other to truth and advised each other to patience.
Surat Al-Asr
297 notes
·
View notes
Text
The Prophet ﷺ said,
“When Allah loves a servant, He tests him.”
114 notes
·
View notes
Text
“You will never be truly happy if you keep holding onto things that make you sad.”
— Unknown
793 notes
·
View notes
Text
forgive yourself for the stagnancy that was produced from your depression
141K notes
·
View notes
Text
ڈوبنے والا تو کچھ دیر سے ڈوبے شاید
ڈوبتا دیکھنے والوں کو بڑی جلدی ہے !!
1 note
·
View note
Text
You can't please everyone...
Don’t waste your time trying to please everyone around you. Everyone will form an opinion about you. Don’t focus on pleasing people. Not everyone will assume the best in you in the end.
0 notes
Text
Defender of QURAN
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی۔
#Defender_of_Quran
#ilyas_Hero_of_Muslim_Ummah #Norway
0 notes
Text
0 notes
Text
کیونکہ سب کچھ گوگل سرچ میں نہیں ملتا
کہا جاتا ہے “بچوں سے گھر کی رونق ہوتی ہے تو بزرگوں سے گھر میں برکت اور ہم سب یہ برکتیں سمیٹتے رہیں تو ہی اچھا ہے۔ یکم اکتوبر کو دنیا بھر میں بزرگوں کا عالمی دن منایا جاتا یے۔ یہ دن اقوام متحدہ کی طرف سے 1999 میں پہلی مرتبہ عالمی سطح پر منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد بزرگ شہریوں کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے شعور و آگاہی پیدا کرنا اور ان کے حل کے حوالے سے ضروری اقدامات کرنا ہے- اقوام متحدہ کے مطابق 60 سے 65 سال کی عمر کے افراد کا شمار معاشرے کے بزرگ شہریوں میں ہوتا ہے اور 2050 تک دنیا میں یہ تعداد دو ارب تک پہنچ جائے گی جو کہ 2015 میں صرف 90 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔
پاکستان کے اعداد و شمار کی بات کی جائے تو ادارہ برائے شماریات کے مطابق کل آبادی کا چار اعشاریہ دو فیصد حصہ بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے۔ 2050 تک یہ تناسب 15 اعشاریہ آٹھ فیصد تک پہنچ جاہے گا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر ساڑھے 66 برس ہے۔ پاکستانی خواتین کی اوسط عمر ت��ریباً 67 سال جبکہ مردوں کی اوسط عمر لگ بھگ 65 برس کے برابر ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرتی نظام کی بات کریں تو بزرگوں کی موجودگی بہت سے خاندانی مسائل سے نجات کا باعث ہے۔ جہاں بزرگ اپنے تجربات کی روشنی میں بہتر مشورے دیتے اور ان کے حل میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن دنیا کی ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے اور جدید ٹیکنالوجی کے ہتھے چڑھنے کے بعد ہم اپنے ��زرگوں اور ان کے مفید مشورں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب شام ہوتی تھی اور سب دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو دادا، دادی، اماں، ابا اپنے بچوں سمیت سب باتیں کرتے تھے اور سیکھتے تھے، اب لوگوں کی پڑھنے لکھنے کی عادت جدید ٹیکنالوجی نے بدل دی ہے۔ نتیجتا اب پوچھنے اور سوال کرنے کے بجائے سب گوگل پر سرچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تھوڑی دیر بزرگوں کے پاس بھی بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ سب کچھ گوگل پر نہیں ملتا۔ روز بروز بڑھتی ہوئی معاشی ضروریات نے گھر کے ہر فرد کو روزگار کے گورکھ دھندے میں اتنا الجھا دیا ہے کہ سب شام کو گھر لوٹتے ہیں اور اپنا اپنا م فون ہاتھوں میں تھامے کمروں میں گھس جاتے ہیں۔ جس سے گھر کے بزرگ تنہاِئی کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ان کا یہی ذہنی الجھاؤ پھر نفسیاتی اور جسمانی معذوری کا باعث بنتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بزرگوں کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں طبی سہولیات کا فقدان، پیینشن، خوراک کی کمی، معاشرتی تحفظ اور ٹرانسپورٹ جیسے مسائل شامل ہیں۔ پاکستان میں بزرگوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی بھی قومی پالیسی موجود نہیں ہے جس سے مغربی ممالک کی طرز پر بنیادی سہولیات پوری کی جا سکیں تاکہ وہ اپنی زندگی کے مشکل دن سکون سے گزار سکیں۔ بزرگوں کے لیے تفریحی، طبی، معاشرتی اور معاشی سہولیات کی فراہمی کے لیے جہاں کیمونٹی اور حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے وہیں پر اولاد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی مصروف زندگیوں میں سے روز کچھ گھنٹے اپنے بزرگوں کے ساتھ گذاریں۔ انٹرنیٹ، موبائل، ٹی وی کی دنیا سے باہر نکلیں کیونکہ وہ بزرگ اگر اپنی زندگیوں میں تنہا ہو گئے اور اس تنہائی کے عادی ہو گئے توبات بات پر بلاوجہ دعا دینے والے اس دنیا سے خاموشی سے رخصت نہ ہو جائیں اور پھر آپ ہاتھ ملتے رہ جاسکتے ہیں۔
نورین ذیشان
بشکریہ اردو نیوز
1 note
·
View note
Text
6 ستمبر- یومِ دفاعِ پاکستان
ابھی بیٹھے بیٹھے بچپن کا 6 ستمبر یاد آگیا۔ اس وقت ہمیں سکول سے چھٹی ہوا کرتی تھی یومِ دفاع کی۔ اور شہر میں اس سلسلے میں بہت سی تقریبات ہوا کرتی تھیں۔
اکثر فرسٹ ٹرم کے امتحان چھٹیوں کے فورا بعد ستمبر میں ہوا کرتے تھے اور یومِ دفاع کی چھٹی ہوتی تھی۔ ابھی ذہن میں ایسے ہی ایک یومِ دفاع کی یاد آگئی جب اگلے روز ہمارا پیپر تھا۔ اس پورا دن ہم ابا کے ساتھ مختلف پروگرامز میں جاتے رہے۔ اور رات کو 9 بجے آخری پروگرام سے فارغ ہو کر گھر کی طرف واپسی ہوئی۔ گھر کے مین گیٹ کے قریب پہنچ کر یہ خیال آیا کہ کل پیپر ہے اور اب گھر پہنچتے ہی امی سے ڈانٹ پرے گی۔ آج جب وہ دن ذہن میں آیا تو یہ بالکل یاد نہیں آیا کہ اس پیپر کا کیا بنا اور کتنے نمبر آئے۔ لیکن اس دن کی بہت سی جھلکیاں، یادیں اور سنی گئی باتیں آج بھی یاداشت میں کہیں محفوظ ہیں۔
وہ دن سچ میں بہت اچھے تھے جب ہم ہر جگہ پہنچ جایا کرتے تھے۔۔
1 note
·
View note