sarfarazism
sarfarazism
Muhammad Sarfaraz Khan
4 posts
An independent filmmaker, Writer & Designer
Don't wanna be here? Send us removal request.
sarfarazism · 8 months ago
Text
youtube
0 notes
sarfarazism · 9 years ago
Photo
Tumblr media
مہمان: سردار خالد ابراہیم میزبان: سرفراز خان سوال : جموں کشمیر پیپلز پارٹی کی بنیاد 1990 میں رکھی گئی۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود یہ جماعت صرف پونچھ ڈویژن تک ہی محدود نظر آتی ہے۔اس کو عوام میں مقبولیت نا ملنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ لیڈر شپ میں خامیاںہیں یا لوگ آپ کے نظریات اور خیالات سے اتفاق نہیں کرتے؟ جواب: اگر صحیح معنی میں دیکھا جائے تو اس کے لیے دو دہائیاں کوئی زیادہ لمبا عرصہ نہیں ہے ۔ یہ دو چیزیں ہیں ۔ ایک جو آپ کہہ رہے ہیں یہ انتخابی سیاست کے لیے تو اس حوالے سے کہ سیٹیں کتنی ہےں؟ کتنے حلقوں میں الیکشن لڑتے ہیں؟ اس حوالے سے یہ آپ صحیح کہہ رہے کہ زیادہ پزیرائی بھی نہیں ملی اور اس کا حجم بھی کم رہ گیا ہے لیکن جہاں تک نیشنل ایشوز کا تعلق ہے وہاں ہماری جماعت جو بھی موقف پچھلے بائیس پچیس سالوں میں اپنا یا ہے وہ ہم نے کچھ اصولوں کی بنیاد پراپنایا اور میرا اپنا خیال ہے کہ اسے لوگوں میں پزیرائی ملی ۔ میں جو کہتا ہوں کہ پزیرائی ملی وہ اس لیے کی آزاد کشمیر میں کچھ جماعتوں پر اعتماد کیا جاتا ہے ان میں سے ایک جموں کشمیر پیپلز پارٹی ہے۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ ضروری اس وقت یہ ہے کہ آپ سیاست میں لوگوں کا اعتماد واپس بحال کریں۔ اس وقت میں بھرپور کردار ادا کروں گا۔ ہم الیکشن لڑتے ہیں پانچ سال کے بعد جتتے ہیں یا ہارتے ہیں ہر الیکشن مہم کے بعد میرا خیال ہے کہ ہماری جماعت جمو ں کشمیر پیپلز پارٹی پر لوگوں کے اعتبار میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ہم نے دو دفع قومی ا یشوز پر استعفیٰ دیا تھا وہ کسی حلقے تک محدود نہیں تھا ۔ انتخابی سیاست میں لوگ زیادہ حلقوںتک محدود و ہوکر رہ گئے ہم چاہتے ہیں کہ ہم انتخابی سیاست بھی کریں اور ساتھ ساتھ ایشوزکو قومی سطح پراٹھائیں نا کہ مقامی ایشو زمیں پھنس کررہ جائیں۔ (00:02:51) سوال: اگر آپ کی مقبولیت پورے آزاد کشمیر میں ہو تو پھر آپ کی بات کا وزن بھی زیادہ ہوگا۔ آپ بہتر طور پر ایشوزکو قومی سطح پراٹھا سکیںگے۔ کیا آپ ایسا نہیں سمجھتے؟ (00:03:08) جواب: وہ تو ہم کرتے ہیں۔ ایک دفعہ پہلے ہم نے سارے آزاد کشمیراور مہاجرین جموں کشمیر کی نشستوںپر اپنے امیدوار دیے تھے لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ ا ٓپ دونوں باتیں کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنی اسٹرنتھ بڑھائیں۔ اس میں تو ٹائم لگے گا اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایشوز چھوڑ دیں اور صرف انتخابی سیاست میں اپنی کامیابی کی کوشش کریں۔ میرا خیال ہے دونوں ساتھ ساتھ چلنی چاہئیں۔ جموں کشمیر کے ایشوز پہ بات کرنی چاہئے اور لوگوں کو بھی ایجوکیٹ کرنا چاہئے ساتھ ساتھ انتخابیقوت بھی بڑھانے کی کوشش کرنا چاہئے یہی ہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ (00:03:48) سوال :پاکستان پیپلز پارٹی سے اختلاف کی وجہ سے جموںکشمیر پیپلز پارٹی بنائی گئی ۔لیکن آپ نے اپنا پہلا ہی الیکشن پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے لڑا ۔ اب آپ (ن) لیگ کے اتحادی ہیں۔ آپ کو پارٹی کا سربراہ ہوئے الیکشن میں جانے کے لیے کسی پاکستانی جماعت کی سرپرستی کی کیوں ضرورت پڑتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ(ن) لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی رہے ان کی آئیڈیالوجی سے متفق تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف تک کا سفرکن وجوہات کی بنا پرطے کیا؟ (00:04:43) جواب: میں نے سیاست پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کی مگر میری سیاست میںرول ماڈل سردار محمد ابراہیم خان تھے۔اگر ان کی سیاست دیکھی جائے تو ان کے رول ماڈل قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ بنیادی طور پر میں اپنے آپ کو پاکستانی پہلے کشمیری بعد میںکہتا ہوں۔ لیکن ہم کیونکہ تحریک آزادی کشمیر میں شامل ہیں اس لئے ہمارا بنیادی فرضہے کہ جب تک ہم رائے شماری کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنتے ۔ اس وقت تک ہمیں ساتھ ساتھ کشمیر کے تشخص کی جنگ بھی لڑنی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑی کیونکہ بے نظر بھٹو یہ کہا کہ آزاد کشمیر کا وزیر اعظم میںمنتخب کروں گی۔ تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں یہ پارلیمانی پارٹی کا اختیار ہے ۔ جب ہم اس سے اتحاد بناےا تو ہم نے ان سے یہی کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے یہ فیصلے وہ ماننے پڑیں گے۔(ن) لیگ سے اتحاد بھی ہم نے اپنی شرائط پربنایا۔ اگر ےہ اتحاد آگے چلا توہم یہی کہتے ہیں کہ نئی شرائط کے مطابق ہوگااور نئی شرائط یہ ہیں کہ فیصلے آزاد کشمیر میں ہوں گے۔ ہم پر پاکستان سے فیصلے مسلط نا کیے جائیں۔ ہم اور آپ کی جماعت آزاد کشمیر میں بیٹھ کرفیصلے کریں۔ پارلیمانی نظام ہے ایک وزیراعظم دوسرے کے وزیراعظم کو نا��زد نہیں کرسکتا ہے۔ وہ پنجاب کا دس کروڑ کا صوبہ ہے اس کا وزیر اعلیٰ نامزد کر سکتے ہےں۔ وہ چالیس لاکھ کا وزیراعظم نامزد نہیں کر سکتے۔ یہجمہوریت کی خلاف ورزی ہو گی۔ ہم غیرریاستی اور ریاستی کے مسئلے میں بھی نہیں پڑے ۔ ہم کہتے ہیں کہ سیاسی فیصلے آزاد کشمیر میں ہوں۔ (00:07:14) سوال: چاہے کشمیر کے حوالے سے جو بھی فیصلے ہوں؟ جواب:کشمیر کے حوالے سے کچھ پاکستانی حکومت کی ذمے داریاں ہیں لیکن اس میں بھی کنسلٹ کیا جائے اور آزاد کشمیر کے سیاسی فیصلے ہمارے فیصلے ہیں۔ (00:07:38) سوال:غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان نے کشمیر کی آزادی کے لئے جو قربانیاں دی ہیں وہ بے مثال ہیں۔ آپ نے بھی سیاسی جدوجہد کی۔ ضیاءالحق کے مارشل لاءمیں آپ نے جیل کاٹی۔ لوگ آپ کو سچا اور کھرا مانتے ہیںاور آپ سے بھی کو ئی غازی ملت جیسے کردار کی توقع کر رہے تھے ۔ آپ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کی یہ توقعات پر پورا اتر رہے ہیں یا لوگوں نے ہی آپ سے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کر لی ہیں؟
(00:08:13) جواب: یہ ایک تاریخی وقت ہوتا ہے جہاں آپ فیصلے کرتےہیں۔میرا خیال ہے سردارمحمد ابراہیم خان صاحب کی قربانی کم ہے ان کے سیاسی فیصلے بڑے ہیںبہت بڑے ہیں چاہے 19جولائی ہو، چاہے وہ 26اکتوبر ہو یا 28 اپریل ہو ۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں یہ ان کو موقع ملا اور انھوں نے بڑے فیصلے کئے اگر انھوں نے یہ فیصلہ نا کیے ہوتے تو ان کا تاریخ میں اتنا مقام نا ہوتا۔ قربانیاں تو ان لوگوں نے بھی دی بہت بڑے بڑے لوگوں نے دی۔ لیکن سردار نورابراہم خان کو ان فیصلوں کو موقعہ ملا اور پھر انھی فیصلوں کی وجہ سے وہ بڑے آدمی بنے ۔ اب وہ ان جیسی توقع ہم سے رکھے تو یہ نہیں ہوسکتا۔ ان کا بیٹا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہی میں بھی کر سکتا ہوں۔ وہ ایک وقت تھا اس وقت انھوں نے فیصلے کرنے کی جرا¿ت پیدا کی ۔ البتہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھے ہیں کہ جو ان کا فولواپہونا چاہیے تھا وہ ہم نے کیا ۔ لوگوں کا جو سردارمحمد ابراہیم خان پر اعتماد ہے ہم اس کو اگر کسی حد تک بچاکے رکھے ہیں تو میرا خیال ہے ہمارا کام ہے۔
(00:10:09) سوال: آپ راولا کوٹ سے اپنے آپ کو نمائندگی کے لئے پیش کرتے ہیں۔ راولاکوٹ شہر اور اس کے گرد نواح کے جتنے بھی علاقے ہیںوہ تعمیر و ترقی سے محروم ہیں۔جو زلزلے میں نقصانات ہوئے تھے وہ آج سالوں بعد بھی ویسے ہی ہیں۔سرکاری عمارتیں اور اسکولوں کی تعمیر نہیں ہوسکی، سڑکوں کی خستہ حالی بھی آپ سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ راولا کوٹ کے اندر آپ کا ہولڈہے۔ جب آپ اس حلقے سے خود کو نمائندگی کے لیے پیش کر تے ہیں تو وہاں کے مسائل حل کے لیے ، لوگوں ان کا حق دلانے کے لئے آپ نے اسٹریٹ پاور نہیں دکھائی۔ کیا یہ مسائل اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہیں یاحقوق کے حصول کے لیے احتجاج غیر جمہوری طریقہ ہے ؟
(00:11:05) جواب: جو لوگوں کو آج ووٹ کا حق ملا ہے یہ تو ہم نے اسٹریٹ پاور استعمال کی تھی تو ملا۔ آپ نے کہا ضیاءالحق کے دور میںپولیس تشدد برداشت کیا ۔ جیلوں میں جاتے رہے۔ اسٹریٹ پاور کے لیے بہت بڑا مقصدہونا چاہیے اور یہ چھوٹے مقاصد کے لئے آپ روز لگ جائیں یہ ٹھیک نہیں۔ کچھ جماعتیں تو اسی کام میں لگ جاتی ہیں۔ ہم آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام ہے ادارے بنانا۔ ادارے جو ہیں وہ اداروں میں ہی بیٹھ کر بنائے جاتے ہیں اور اداروںکو فعال بنا کر کام کر سکتے ہیں۔اس طرح کی موومنٹس سے اداروں کو نقصان پہنچتا ہے اسٹریٹ پاور کے لیے بہت بڑا مقصدہونا چاہیے یہ اسٹریٹ پاور جو ہم نے استعمال کی اور ووٹ کا حق حاصل کیا۔ اب افسوس کے بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو ووٹ کا حق بحال کرایا ہے وہ کہتے ہیں کہ اب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ جو ہمارا جموریت پر یقین ہے ، ووٹ کے تقدس پر یقین ہے وہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ پانچ سال جس کو مینڈیٹ ملے اس کا احترام کرو۔ میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ اس اسٹریٹ پارو کو جب آپ کا ووٹ کاتقدس مجرو ہو یا ووٹ چھیننے کی کوشش کرے گا تو ہم استعمال کریں گے۔ لیکن اب ایک گاو¿ں میں پانی نہیں ہے یا بجلی نہیں ہے یاسڑک نہیں ہے تو اس کے لئے بہترین حل جو ہم سمجھتے ہیںکہ وہ اداروں کو بنانا ہے ۔بات یہ ہے کہ اسمبلی ایک موثر ادارے کے طور پر کام کرے اور آگے ادارے بنائے جو آگے یہ مسائل اور مشکلات دور کریں۔
(00:13:00) سوال: آزاد کشمیر میں آج تک کوئی فعال ادارے بن نہیں سکے ہیں اس بارے میں لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے جب تک عام آدمی کو اداروں کی اہمیت اور اپنے حقوق کاپتا نہیں چلے گا وہ اپنے مفاد کو اجتماعی ترقی پر فوقیت دیتے رہیں گے ۔ لوگوں کو آگاہی دیے بغیر ووٹ کی خریدوفروخت کو کیسے روکیں گے؟ (00:13:25) جواب:اگرہم پانچ سال کے بعد چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے نا اہل لوگوں کا انتخاب کریں گے تو ادارے کیسے بنیںگے۔ میں اس کے لیے عام آدمی کوقصوروار نہیںٹھہراتاجوپڑھا لکھا نہیں ہے جو سیاسی شعور سے واقف نہیں ہے بلکہ جو پڑھا لکھا آدمی ہے اور سیاسی شعور جس میں ہے وہ اگر ساری چیز سمجھتے ہوئے ایسے لوگوں کوووٹ دیتا ہے جو ادارے بنانے کے حق میں ہے ہی نہیں تو اس وقت ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوںکو ووٹ کا حق ملا وہ ہر پانچ سال بعد الیکشن میںیہ ووٹ جو پیسوں سے ےاکچھ مراعات لے کر اپنے کنبے ےا برادری کے ووٹ کا سودا کر لیتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے ووٹ اپنے ضمیر کی آواز پر دیا جانا چاہئے۔ میں نے آپ سے کہا جو عام آدمی جوپڑھا لکھانہیں ہے اس کو تو سمجھ نہیں ہے مگر جو پڑھا لکھا آدمی ہے وہ اگر اپنے مفادات کو سمجھتا نہیں ہے یا سمجھتے ہوئے اپنے مفادات کو شارٹ کٹ سے حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ غلط ہے۔ (00:14:43) سوال:یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ٹوٹی کھمبے کی سیاست نہیں کرتے ہیں۔ جب لوگ آپ کوووٹ د ے کر اسمبلی میں بھیجیں گے تو آپ سے کچھ توقع کریں گے کہ ہمارے جو چھوٹے چھوٹے بنےادی مسئلے ہیں وہ بھی حل ہوں۔ یہ بات ٹھیک ہے آپ کا یہ کام نہیں ہے لیکن جب ملک کے اندر ادارے موجود ےا فعال نہیںہیں تو لوگوں کے مسائل کون حل کرے گا؟ (00:15:25) جواب: مثلاً میں اسمبلی ممبر ہوں تو میںلوگوں کی نمائندگی کرتا ہوں، کوئی پروفیشنل بھی ہوسکتا ہے کوئی وکیل ہے کوئی انجیئر ہے کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ بھی اگر کسی پو��یشن میں بیٹھا ہے تو اس کا کام بھی نہیں ہے نہ اس کے بس کی بات ہے کہ وہ یہ کام کرے۔اس کے لیے ادارے آج بھی موجود ہیں۔جن کو خود جان بوجھ کر غیر موثر کیا ہوا ہے۔لوکل گورنمنٹ موجود ہے۔ ایجوکیشن موجود ہے اور ہیلتھ موجود ہے اور سب ادارے موجود ہیں۔صرف ہمارے سیاستدان کے ایک طبقے اور ویسٹرین انٹرسٹ گٹھ جو ڑ ہوگیا ہے کہ اداروں کو غیر موثر کر دیا جائے۔ ان اداروں کو غیر موثر کرنے کی جو مہم چل رہی ہے ہم اس کے خلاف کام کر رہے ہیںکہ ادارے واپس بحال ہوں۔اگر میں میںبھی وہی کام پکڑ لوںکہ صبح سو آدمی میرے دروازے پرآکر بیٹھ جائےں اور میں انہیں چٹےں دے دوں تو ادارے کیسے بحال ہوں گے۔ ادارے تو ہم نے ہی بحال کرنے ہیں۔ ہم نے اس کی نفی کرنی ہے۔مثلاً تعمیر ترقی کے لئے پانی نہیں ہے پائپ بڑھانا ہے۔ بجلی نہیں ہے پول بانٹ دو تار بانٹ دو۔ سڑک نہیں ہے تو کالا ڈرم ہے وہ بانٹ دو۔ یہ ادارے تو پیچھے آتے جارہے ہیں۔ ختم ہوتے جارہے ہیں۔ ادارہ ہے تو پانی دے گا۔ ادارہ ہے جو بجلی دے گا اور سڑک دے گا۔ یہ ہم بھی قبول کرلیں۔ تو پھرنظام ختم ہوجائے گا ۔پھر تو کوئی بھی اپنے ادارےبنانے کے لیے اپنا فرض پورا نہیں کرے گا۔ میں ادارے بنانے کے لیے اس کی قیمت دیتا ہوںمیں تین دفعہ الیکشن ہارا ہوں۔ یہاں جاں بوجھ کر غلط روجھان پیدا کیا گیا ہے۔ میں اس کے خلاف جدوجہد کر رہا ہوں اور قیمت دے رہا ہوںسیٹ کی شکل میں۔
(00:17:36) سوال: آپ کے بارے میںیہ مشہور ہے کہ آپ بااصول ہیں۔ سچائی اور میرٹ آپ کی ترجیحات ہےں۔ جب 6جنوری 2009ءکو وزیر اعظم سردار عتیق عباسی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو آپ نے سردار یعقوب کووزارت عظمیٰ کے لئے ووٹ دیکر استعفیٰ دے دیا۔ اگر وہ میرٹ پر نہیںتھا تو اپ نے اس کو ووٹ کیوں دیا اور اگر میرٹ پر تھا کہ تو سپورٹ کیوں نہیں کیا؟
(00:18:00) جواب: عرض ہے کہ ہمارے آئین میںیہ سقم ہے۔ دنیا میں کوئی بھی آئین ہے اس میں دو دفعہ ووٹ ڈالا جاتا ہے۔ عدم اعتماد کے لئے ایک دفعہ ڈالا جاتا ہے اور آنے والے وزیراعظم کے لیے دوسری دفعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس کی ذمے داری مجھ پر بھی آتی ہے تو میں نے اپنا فرض پورا کیا میں نے وزیر اعظم عتیق کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ڈالا وہ آٹو میٹیکلی حاجی یعقوب کو پڑ گیا تو میں نے اس سقم کے خلاف بھی احتجاج کیا بلکہ وفاق کی مداخلت کے خلاف بھی احتجاج کیا۔ میں نے اس سے پہلے لوگوں کو الیکشن مہم میں کہا کہ یہ آدمی بی ٹی ممبر بننے کا اہل نہیں ۔ میں لوگوں کو کیا جواب دیتا جب وہ پوچھتے کہ آپ اسے وزیر اعظم بناکر آگئے۔تو اس کے پہلے وہ وزیر اعظم کا حلف لے کے اسمبلی میں آتا میں استعفیٰ دیکر کر گھر چلا گیا۔ میں نے اس سقم کو بھی ہائی لائٹ کیا اور وفاق کی مداخلت کو بھی ہائی لائٹ کیا اور میں نے اپنا فرض وہاں بھی پورا کیا۔ یہ سقم آج بھی موجود ہے اگرہم کو موقع ملے تو ہم یہ کوشش کریں گے کہ آئین میں سے یہ ختمہو۔
(00:19:20) سوال: سردار یعقوب آپ کے لیے کہتے ہیں کہ آپ بہت بڑی شخصیت ہیں لیکن جو بڑی شخصیات ہوتی ہیںوہ عوام میں زیادہ عرصے تک اپنی جڑیں مضبوط نہیں رکھ سکتیں کیوںکہ یہ عوام سے دور رہتے ہیںاور روام ان کو ووٹ نہیں دیتے ۔ وہ خالد ابراہیم کو حلقہ تین میں کوئی بڑا چیلنج نہیں سمجھتے اسی لیے وہ حلقہ چار میں آپ کو للکار رہے ہیں جو کے جے کے پی پی کا حلقہ سمجھا جاتا ہے۔ کیا کہیں گے؟ (00:19:47) جواب: لیکن میں نے تو حلقہ چار چھوڑ دیاہے۔ پچھلے الیکشن میں ، میں تو وہاں سے الیکشن نہیں لڑا۔ وہ وہاں چلے جائیں وہاں ان کا بندوبست کیا ہوا ہے۔ ہم جیتےںےا ہاریں ہم دونوںحلقوں تین اور چار میں سب سے بڑی جماعت ہیں کیونکہ حاجی یعقوب کسی ایک جماعت سے ایک سے دوسرا الیکشن لڑتے نہیںہیں۔وہ مسلم کانفرنس سے لڑے پھر آذاد لڑے تھے پھر پیپلز پارٹی سے۔ ہم ایک ایسی جماعت ہےں جو دونوں حلقوں ہمیشہ الیکشن لڑتے ہیں۔ اپنے نشان تلوار پرلڑتے ہیں ۔اور ہم ہارےں یا جیتیںجماعتی طور پر ہم حلقوں تین اور چار میں سب سے بڑی قوت ہیں۔ ہم حلقہ چارسے چار الیکشن جیتے ہیں اور دو ہارے ہیں ۔
(00:21:14) سوال : مسئلہ کشمیرکے آجتک حل نہ ہونے کی کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟کشمیریوں میں قیادت کا فقدان ہے، بھارت کی ہٹ دھرمی ہے ، پاکستان کے حکمران مخلص نہیں یا عالمی برادری رکاوٹ ہے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
(00:21:36) جواب:حکمران مخلص تو ہیں مگرمسئلہ کشمیر کو سمجھنے میں غلطی ہو رہی ہے۔ یہ کوئی بزمی تحریک نہیں ہے یہ کوئی نیشنلسٹ موومنٹ نہیں ہے یہ کوئی علاقے کا جھگڑا نہیں ہے یہ حق خودارادیت کا مسئلہ ہے ۔ اگر شروع سے اس میں رکاوٹیں نہ ��ڑتیں تو یہ پہلے چھ مہینے میں رائے شماری ہوجاتی۔ اب یہ رکاوٹیں کچھ ہندستان اور کچھ ہماری غلطی کی وجہ سے بڑ گئیں تو یہ ایک مسئلہ جو طول پکڑ گیا ہے۔ میں آپ سے کہوں کہ یہ جمہوری مسئلہ ہے اس لیے جو جمہوری مسئلے جب طول پکڑتے ہیں تو حل ہونے میں بہت عرصہ لگتا ہے مثلاً آئرلینڈ کامسئلہ چار سو سال بعد حل ہوا ۔برصغیر ڈیڑھ سو سال بعد آزاد ہوا۔ یہ ہماری غلطی کی وجہ سے یا ہندستان کی وجہ سے طول پکڑ گیااب اس کے منصفانہ حل میں وقت لگے گا۔
(00:22:48) سوال :آپ نے کبھی سوچا کہ کشمیر کا مسئلہ کیسے حل ہو گا؟رائے شماری کیسے ممکن ہے؟جب کہ گلگت ، بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان کے ز یر اثر ہیں اور جموں، لداخ اور وادی پر بھارت کا کنٹرول ہے تو ان حالا ت میں آزاد ریفرنڈم کیسےممکن ہوگا؟
(00:22:58) جواب: اس کا مستقل اور پائیدار حل صرف را ئے شماری سے نکلے گا۔ دیکھیں جی یہ لوگوں کو آزادی ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ حق اقوام متحدہ کی قراردادوں یہ حق تسلیم کیا جا چکا ہے۔ یہ ریفرنڈم ایک اکائی کے طور پر ہوتا ہے توتب ہی مسئلہ کشمیر کاحل ممکن ہے ورنہ اگر  گلگت ، بلتستان الگ ، آزاد کشمیر الگ اور جموں، لداخ اور وادی میں الگ الگ ہوتا ہے تو یہ نہیں ہو سکتا۔ ایک اکائی کے طور پر اگر کشمیر کا حل تلاش کیا جائے تو ممکن ہے ۔ (00:23:10 ) سوال: بیرسٹر سلطان محمود کے پی ٹی آئی میں آنے سے آزاد کشمیر کے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل ہے۔آپ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے مستقبل کو کیسا دیکھتے ہیں؟
(00:24:34 ) جواب: دیکھیں ایک نوجوان طبقہ ہے جو پی ٹی آئی کے ساتھ ہے ۔ چاہے وہ بلوچستان میں،پنجاب میں، سندھ میں، کے پی میں ےا آزاد کشمیر میں ہے مگر الیکشن کا جہاں تک تعلق ہے وہاں انھیں کوئی خاص پزیرائی نہیں ملنے والی ۔ (00:24:55 ) سوال:آپ نے کہا کہ کشمیر کے فیصلے کرنے کا اختیار یہاں کے منتخب نمائندوں کے پاس ہونا چاہیے مرکز کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کا بھی یہی نعرہ ہے۔ آپ ان کے ساتھ اپنا اتحاد کیوں نہیں ۔ جواب: عمران خان صاحب نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو شامل کیااور ہفتے میں صدر بنا دیا تو یہ فیصلہ کہاں ہوا۔ جب انہوں نے کشمیر کے فیصلے کشمیر میں کیے توسوچیں گے۔
سوال:آپ اگر آمدہ الیکشن میں ایک ےا دو نشستیں جیت کر اسمبلی میں پہنچ بھی جاتے ہیں تو عوام آپ سے کیا تبدیلی توقع کریں؟ اور کتنے امیدواروں کے ساتھ میدان میں اتریں گے؟ سوال: ہم مستقبل کے وعدوں پر الیکشن لڑنے والے ہیں نہیں۔چار بار الیکشن جیت کر اسمبلی میںہم نے جو کام کیے ان کی بنیاد پر لوگ ہمیں پھر اپنی نمائندگی کے لیے چنتے ہیں تو ہم نے بیس سال میں جو کیا وہی کریں گے کوئی نئی بات ہم کہتے نہیں۔میر ا خیال ہے کہ ہم نے بہت بنیادی کام کیے ہیں ان کو جاری رکھیں گے۔ مثلاً جب میں حکومت میں تھا تو پرائیویٹ ایجوکیشن کا بل آیا تو ہم نے اسے منظور نہیں کیا اور کہا کہ تعلیم کے ادارے کو اور مظبوط کیا جائے ۔ آج تو میرٹ کی پامالی کر کے ادارے کو برباد کر دیا گیا ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ اپنی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے ادارے کی ساکھ بحال کریں۔ دوسری بات کہ ہم کتنے امیدواروں کے ساتھ میدان میں اتریں گے؟ ہمارا ن لیگ کے ساتھ اتحاد ہے۔ اگر یہ ہماری شرائط پر آگے بڑھتا ہے تو پھر محدود نشستوں پر امیدوار دیں گے ورنہ 30 سے 35 امیدوار ہوں گے۔
#Daily #KashmirLink #10March2016
0 notes
sarfarazism · 9 years ago
Video
tumblr
#StopChildMarriage
0 notes
sarfarazism · 9 years ago
Text
کارگردگی کے دعوے اور میرے شہر کے کھنڈرات
تحریر: سرفراز خان الیکشن کا وقت قریب آتے ہی سیاستدان بلند وبانگ دعوو¿ں اور وعدوں کے ساتھ اپنے اپنے حلقہ انتخاب کا رخ کرتے ہیں نئے حیلے بہانوں سے مسائل میں گھرے عوام کو نئی امیدیں اور بڑے بڑے خواب دکھاتے ہیں کہ اس بار ووٹ دے کر کامیاب کریں توہم آپ کی ہر محرومی کو ختم کر دیں گے۔روزگار کے مواقع ہوں گئے، بجلی دستیاب ہو گی، صحت کی سہولتیں میسر ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔ مگر منتخب ہونے کے بعدلوگوں کی انکھیں انہیں دیکھنے کو ترس جاتی ہیں۔ غریب بیچارہ کیا جانے حکمرانی اور حکمرانوں کے پروٹوکول کے مزے اسے تو اپنے گھرکے اخراجات پورے کرنے کی فکر ہوتی ہے۔وہ سب بھول کر پھرسے اپنی زندگی میں محو ہو جاتا ہے۔ اور ہر بار بہتری کی امید میں ان سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں کے چنگل میں آ جاتا ہے۔مگر اس بار توحکمرانوں نے ووٹ مانگنے کا انداز ہی بدل ڈالا ہے۔ وہ جلسے جلوسوں میں تعمیر وترقی کے سارے ریکارڈ توڑنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نلوں میں پانی کے بجائے دودھ آ رہا ہے، اندھروں کو روشنیوں میں بدل دیا ہے، دنیا علاج کے لیے کشمیر کا رخ کرتی ہے، تعلیم کا میعار آکسفورڈ کے مقابلے میں آ گیا ہے گویا کشمیر دنیا کے لیے ایک ماڈ ل اسٹیٹ بن گیا ہے۔ اور اسی کاردگردگی کی بنیاد پر ووٹ کے طلب گار ہیں۔ اسی ماڈ ل اسٹیٹ میں ایک شہر راولاکوٹ بھی ہے جو عدم توجہی سے کھنڈرات میں تبدل ہو چکا ہے۔ کارگردگی کے دعوے کرنے والوں کو راولاکوٹ اور اس کے گردونواع کے علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کرتے نظرکیوں نہیں آتے۔ شہر کی مرکزی شاہراہ جو راولاکوٹ کو تڑارکھل، ہجیرہ، عباس پور، علی سوجل، تولی پیر اور دوسرے کئی علاقوں سے ملاتی ہے گزشتہ کئی سالوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کسی خشک نالے کا منظرر پیش کر رہی ہے۔ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں بڑی مشکل سے طے ہوتا یے۔ سیاحوں کی توجہ کے مرکزی مقامات بنجوسہ اور تولی پیر پہنچنے کے لیے بھی یہی سڑک ااستعمال ہوتی ہے مگر سترہ سالوں سے اس کی مرمت کا کام بھی نہیں ہو سکا۔ یہ بدحالی تو مرکزی سڑک کی ہے اگر رابطہ اور علاقائی سڑکوں کی بات کی جائے تو پچھلے کئی بجٹوں میں مختص ہونے والی رقم کسی منظورنظر کی جیب میں تو ہو سکتی ہے مگر کہیں عوامی مفاد کے لیے استعمال ہوتی نظر نہیں آئی۔ 2005میں آنے والے زلزلے میں راولاکوٹ بھی ان بدقسمت شہروں میں تھاجو اس کا شکار ہوے تھے۔ مظفرآباد اور باغ کے مقابلے میں یہاں کم نقصانات ہوے تھے مگر دس سال گزرنے کے باوجود، اعلٰی کاردگردگی کے دعوے کرنے والی حکومت زلزلے کے نشانات کو مٹا نا سکی۔ شہر اور گردونواع میں تباہ ہونے والی سرکاری عمارتیں خاص طور پر سکول ابھی تک مکمل نا ہو سکے۔ شہر میں کوئی نئے قابل ذکر ترقیاتی منصوبے شروع نا ہو سکے۔ تمام تر وعدوں اور چک متحدہ محاز کی ڈیڑھ سال کی بھوک ہرتال کے باوجود ڈسٹرکٹ ہسپتال کا کام ابھی تک جوں کا توں پڑا ہے۔ میڈیکل کالج میں کلاسز تو شروع ہو گئی مگر اس کی عمارت نا بن سکی اور اساتذہ کو تنخوائیں نہیں دی جارہی جس سے طلبہ کی پڑہائی متاثر ہو رہی ہے۔ ریاست کے قیام سے ہی راولاکوٹ کی بڑی اہمیت رہی ہے اور حکومت کی باگ دوڑ بیشتر پونچھ سے منتخب نمایئدوں کے پاس ہی رہی ہے۔ ان حکمرانوں میں سے ایک خوش قسمت موجودہ صدر ریاست جناب حاجی یعقوب بھی ہیں جو یہاں (حلقہ ۳) سے متعددبار منتخب ہونے کے بعد پہلے وزیر پھر وزیراعظم اور اب ��یاست کے سربراہ ہیں جبکہ ان کی بیٹی ضمنی انتخاب میں جیتنے کے بعد وزیر ہے اور ٹکنوکریٹ کا قرعہ بھی راوالاکوٹ سے ہی تعلق رکھنے والے جیا لے سردار عابد حسین عابد کے نام نکلا وہ بھی وزیر ہیں جبکہ کئی مشیر بھی عوامی نمایئندگی کا دعوی کرتے ہیں۔ شہر کی بھرپور نمایئندگی ہونے کے باوجوکاردگردگی مایوس کن ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آذاد کشمیر نے بھی پی پی پی کی وفاق اورسندھ میں قائم روایت کو برقرار رکھتے ہوئے عوام دشمن پالیسیوں سے اپنی بنیادیں خودہی ہلا کر رکھ دی ہیں اور اب یہاں کے عوام کے ساتھ ساتھ برسوں سے اپنی زندگیاں پی پی پی کے لیے واقف کرنے اور قربانیاں دینے والے جیالے بھی من پسند اور مفاد پرست لوگوں کو نوازنے پر نالاں ہیں جس سے آئیندہ انتخابات میں موجودہ صدر ریاست کو اپنے ٹولے سمیت شکست کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔
0 notes