Tumgik
shiningpakistan · 2 months
Text
کوئی تو سبق سیکھے
Tumblr media
عمران خان کی سیاست کا اصل ہدف اب بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ پہلے لڑائی اگر کھل کر لڑی جا رہی تھی اوراسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست حملے کیے جا رہے تھے جس کا نکتہ عروج 9؍مئی تھا تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود اپنی بڑی کامیابی کے بعد اب تحریک انصاف اور عمران خان نے اس لڑائی کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب براہ راست لڑائی کی بجائے ایک سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا اختتام نجانے کیا ہو گا۔ 9؍مئی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں ریاست کی طرف سے سنگین الزامات کے شکار علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا بنوا کر اسٹیبلشمنٹ کو پہلا واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان کی لڑائی جاری ہے۔ اس کے بعد اب محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار تقریر کے بعد اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر کے طاقت ور حلقوں کو دوسراپیغام دے دیا گیا ہے کہ عمران خان اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقریریں اور میڈیا ٹاک سنیں تو اُن کا اشاروں کنایوں میں اصل نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ انتخابات سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹے ہوے رابطوں کو بحال کرنا تھا جس کا عمران خان بار بار اظہار کرتے رہے اور یہاں تک کہ الیکشن سے ایک دو ہفتہ قبل تک یہ شکایت کی کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکمت عملی کا اب کیا مقصد ہے؟ کیا اب وہ واقعی قانون کی حکمرانی اور اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ کے لیے سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں یا اُن کی اب بھی کوشش یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے اُن کے رابطہ اور تعلقات بحال ہوں تاکہ اُن کے لیے موجودہ مشکلات سے نکلنے اور اقتدار میں آنے کا رستہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان کی جدوجہد اگر واقعی قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور وہ واقعی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُن کو کھل کر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ 
Tumblr media
اُن کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت اور رابطوں کی بحالی کی خواہش کی بجائے اپنے ماضی کی غلطیوں، جہاں اُنہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کی، کو تسلیم کر تے ہوئے تجاویز دینی چاہئیں کہ پاکستان کی سیاست کو کیسے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے دور رکھا جا سکتا ہے ابھی تک تو ہم دائروں کا سفر ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی ایک سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے تو کبھی کوئی دوسری۔ جب کسی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے اپنے تمام اصول اور بیانیے بھول جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ن لیگ کے ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے نعرے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اب تک عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا واحد مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ 
کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں مبینہ طور پر بڑی دھاندلی ہوئی جس کا اصل نشانہ تحریک انصاف تھی۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے سیاستدانوں کو ہی کردار ادا کرنا ہو گا جس کے لیے بار بار اپنے سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کے لیے اُنہیں اپنے آپ کو استعمال ہونے سے روکنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت بنانے والی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے تو توقع نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے کے اصول پر اس وقت بات کریں۔ لیکن کیا عمران خان اس اصول پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کا بھی یقین نہیں۔ بے شک عمران خان کے پاس ایک موقع ضرور ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کے خیال کو ترک کر دیں اور اپنی سیاسی لڑائی کو پرامن طریقے سے عوام کی حمایت سے آئین و قانون کی حدود میں رکھیں۔ کوئی تو ہو جو سبق سیکھے!
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ  
1 note · View note
shiningpakistan · 2 months
Text
خان نے سبق نہیں سیکھا
Tumblr media
امید تھی کہ عمران خان جیل میں اپنے ماضی، اپنے طرز سیاست اور اپنی غلطیوں پر غور کریں گے۔ اُن سے بہتری کی توقع تھی اور اب بھی ہے لیکن جو کچھ اُن کے حوالے سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے سے متعلق بتایا گیا وہ انتہائی قابل اعتراض اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان کا ایک بڑا سیاسی رہنما کیسے اپنی ذات، خواہ اُس کے ساتھ زیادتی بھی ہو رہی ہو، کو آگے رکھ کر کوئی ایسی بات کر سکتا ہے جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے اور جس کا براہ راست اثرعوام کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دے۔ تحریک انصاف کے ایک رہنما نے حال ہی میں امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ الیکشن میں دھاندلی کے معاملہ پر خاموش رہنے کی بجائے پاکستان پر دباو ڈالے ماضی قریب میں امریکا کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والی تحریک انصاف کے رہنما کے اس متنازع بیان پر پارٹی کے کچھ دوسرے رہنماوں نے فاصلہ اختیار کیا اور اُسے رد کیا لیکن چند دن بعد ہی عمران خان کے حوالے سے یہ بیان سامنے آ گیا کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین آئی ایم ایف کو پاکستان میں الیکشن میں دھاندلی کے متعلق خط لکھ رہے ہیں جس میں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف پروگرام کو الیکشن کے آڈٹ سے مشروط کرنے کا کہا جائے گا تا کہ جو حکومت بننے جا رہی ہے اُسے قرضہ نہ دیا جائے۔ 
Tumblr media
اس بیان پر شور اُٹھا اور امید پیدا ہوئی کہ ہو سکتا ہے خان صاحب کو سمجھایا جائے کہ وہ ایسا نہ کریں کیوں کہ یہ پاکستان اور عوام کے مفاد میں نہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کو سبوتاژ کرنے کا مطلب پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنا ہے جس کے نتیجے میں ملک کے حالات نہ صرف بہت خراب ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان اور عوام کیلئے معاشی مشکلات اتنی بڑھ جائیں گی کہ جن کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ لیکن خان صاحب نہ سمجھے اور اُنہوں نے اخبار نویسوں سے بات کر کے خود تصدیق کی کہ اُنہوں نے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا۔ امید نہیں کہ آئی ایم ایف اس خط کو کوئی اہمیت دے گا لیکن خان صاحب نے جو کیا اُس سے ایک بار پھر وہ اور اُن کا طرز سیاست بُری طرح ایکسپوز ہو گئے۔ ماضی میں بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران خان صاحب کی مبینہ ہدایت پر آئی ایم ایف پروگرام کو سبوتاژ کرنے کو کوشش کی گئی تھی اور اس سلسلے میں ایک آڈیو لیک بھی سامنے آئی تھی جس میں شوکت ترین تحریک انصاف کی اُس وقت کی پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومتوں کے وزرائے خزانہ کو فون کر کے ہدایت جاری کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے برخلاف وفاقی حکومت کو خط لکھے جائیں اور ان خطوط کو آئی ایم ایف کو لیک کر دیا جائے تاکہ پاکستان کو قرضہ نہ ملے۔ 
بظاہر مقصد اُس وقت بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے حصول کیلئے کچھ بھی کرنا پڑے تو کر دینا چاہیے، چاہے اُس کا نقصان پاکستان اور عوام کو ہی کیوں نہ ہو۔ کچھ عرصہ قبل 9 مئی کے کریک ڈاون کے بعد امریکا میں مقیم تحریک انصاف کے ذمہ داروں کی طرف سے امریکا کے سیاستدانوں کو خط لکھے گئے اور امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان پر دباو ڈالنے کیلئے اُس کی فوجی امداد کو بند کر دیا جائے جس پر کافی تنقید ہوئی۔ اپنی گرفتاری سے قبل تحریک انصاف کو ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا بیانیہ دینے والے عمران خان خود بھی امریکی سیاسی رہنماوں سے پاکستان پر دباو ڈالنے کیلئے بات کرتے رہے۔ وہ سب کچھ جو عمران خان اور تحریک انصاف نے کیا اگر یہ کوئی اُن کا مخالف رہنما یا سیاسی جماعت کرتی تو خان صاحب اور اُن کی پارٹی، اُن کے بارے میں کیا کہتے؟ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سب سے بڑے رہنما ہونے کے باعث عمران خان کو اپنے آپ کو بدلنا چاہئے، اپنے ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے، عوام کی خاطر، پاکستان کی خاطر۔ لیکن لگتا ہے خان صاحب نے سبق نہیں سیکھا!
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 2 months
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
Tumblr media
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 
Tumblr media
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 3 months
Text
پی ٹی آئی ووٹرز کا انتقام
Tumblr media
الیکشن نے سب کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کر دیا۔ سب اندازے، تجزیے غلط نکلے۔ تحریک انصاف کے ووٹر، سپورٹر اتنے نکلے کہ ہر طرف چھا گئے۔ انتخابات سے پہلے تمام تر پابندیوں، سختیوں، جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود، بلے کے بغیر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی میں نمبر ون، خیبر پختونخوا میں تو سویپ کر لیا، پنجاب بھی میں ایک بڑا نمبر حاصل کر لیا اوریہ سب کچھ 2018 کے آر ٹی ایس کے بدلے میں الیکشن کمیشن کے نئے نظام ای ایم ایس کے بیٹھنے کے باوجود ممکن ہوا۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا ای ایم ایس (Election Management System) تو آر ٹی ایس کا بھی باپ نکلا۔ یہ نظام ماضی کے آ ر ٹی ایس کی طرح پہلے تو بیٹھ گیا اور پھر جب صبح اُٹھا تو مبینہ طور پر رات کو کئی ہارنے والوں کو جیتنے والا اور کئی جیتنے والوں کو ہارنے والے بنا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کے کوئی پچاس ساٹھ جیتے ہوئے امیدواروں کو ای ایم ایس کو بٹھا کر ہرایا گیا۔ گویا 8 فروری تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کے لیے ’’ـ بدلہ لینے‘‘ یا ’’انتقام لینے‘‘ کا دن ثابت ہوا۔ 
دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک کے الیکشن نتائج کے مطابق وفاق میں کوئی ایک جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اس لیے یہاں صرف ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے جس کیلئے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جے یو آئی ایف وغیرہ میں پہلے ہی بات چیت شروع کر چکی ہے وفاقی سطح پر تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت سازی کیلئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ کرنے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ دھاندلی کے الزامات اور ان الزامات کی شنوائی کا جو نظام ہمارے ہاں موجود ہے اُس سے تحریک انصاف کو وہ 150 یا 170 سیٹیں فوری نہیں ملیں گی جس کا وہ دعویٰ کر رہی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت سازی کیلئے کوشش کرتی اور ساتھ ساتھ اپنے دھاندلی کے الزمات کیلئے قانونی چارہ جوئی کرتی رہتی۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے ترجمان کی خواہش (کہ حکومت سازی کے عمل کو اُس وقت تک روکا جائے جب تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزمات کا فیصلہ نہیں ہوتا) تو کسی صورت کوئی پوری نہیں کر سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ سے مل کر حکومت بنانےکیلئے ہاتھ ملانے پر تیار ہونگے؟ اگر دوسروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو پھر وفاق میں حکومت کیسے بنے گی۔ عمران خان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کی اطلاعات نہیں ملیں۔ تحریک انصاف نے ووٹ تو بہت لیے لیکن اگر وہ ماضی کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی یا پھر دھاندلی کا رونا ہی روتی رہے گی تو پھر وہ وفاق میں حکومت کیسے بنا سکتی ہے۔ 
اس وقت تحریک انصاف کیلئے یہ بھی چیلنج ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو سنبھالے کیوں کہ خطرہ موجود ہے کہ ان میں سے کئی، حکومت کا حصہ بننے کی لالچ میں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جا سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، پنجاب میں ممکنہ طور پر ن لیگ ہی حکومت بنائے گی جبکہ وفاق میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانی ہے تو اپنےماضی کے رویے سے ہٹ کر اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کیلئے بہت اچھا ہو گا لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور اس ملک و قوم کو مشکلات سے نکالیں ۔ یہ ایک خواب ہے جو نجانے کب پورا ہو گا۔ فی الحا ل جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی ہی حکومت بنے گی، پنجاب میں ن لیگ، کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کا وزیراعلی ٰممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کا ہو گا۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 3 months
Text
آمریتوں سے جمہوریت تک کا ناکام سفر
Tumblr media
ملک میں پہلی بار چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دس ججزکے اکثریتی فیصلے میں پارلیمنٹ کی اہمیت اور قانون سازی کی برتری تسلیم کی گئی اور جن ججز نے اس کی مخالفت کی، وہ وہی ہیں جنھیں ہم خیال کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اہمیت دی، نہ اس کے قانون سازی کے حق کا احترام کیا، بلکہ گزرے چھ سات برسوں میں تو پارلیمنٹ کی چلنے دی گئی اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کو قانون بننے سے پہلے ہی کالعدم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ 1956 کے آئین کے خاتمے اور 1973 کے آئین کی متعدد بار معطلی کے اور بحالی کے چکر میں آئین کے 50 سال تو مکمل ہو گئے مگر آئین میں بعض خامیوں کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور رہی۔ جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار دیا جو صرف پارلیمنٹ کا آئینی اختیار تھا مگر اس وقت کی سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدام کو قانونی کور فراہم کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل پرویز نے ہی ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ دیا جب کہ 1985 کے بعد سے 1999 تک کوئی پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور نہ ہی کسی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی۔
Tumblr media
وزیر اعظم کو فوجی صدور، سویلین صدور کے بعد 2008 میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد سپریم کورٹ نے دو منتخب وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹایا جب کہ اس سے قبل فوجی صدور اور سویلین صدور ہی وزیر اعظم کو برطرف کیا کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے آئین مارشل لا کو روکنے کی کوشش کی تھی جو 1977 میں ناکام رہی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دور میں سویلین صدور کے 58-2/B کے اس اختیار کو ختم کیا جو فوجی صدر کے بعد دو سویلین صدور کو حاصل ہو گیا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں وزیر اعظم نواز شریف کو برطرف کر کے پارلیمنٹ بھی ختم کی تھی مگر سپریم کورٹ کے حکم پر انھیں تین سال میں الیکشن کرانا پڑے تھے جس پارلیمنٹ سے انھوں نے وردی میں خود کو صدر منتخب کرا لیا تھا۔ جنرل پرویز کے اقتدار میں پارلیمنٹ اتنی مضبوط تھی کہ پارلیمنٹ سے خطاب جنرل پرویز صرف ایک بار کر سکے تھے اور اپنے خلاف پارلیمنٹ کے رویے پر انھوں نے آئین کے مطابق کیا جانے والا یہ صدارتی خطاب بھی ترک کر دیا تھا اور پارلیمنٹ میں نعرے بازی پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ آئین کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کو یہ تحفظ حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں جو بھی خطاب کریں، اس پر گرفت نہیں ہوتی اور پہلی بار اتحادی حکومت میں پارلیمنٹ میں بعض عدالتی فیصلوں پر کڑی تنقید ہوئی۔ پہلے پارلیمنٹ اور اس کے منتخب کیے گئے وزیر اعظم کو دور آمریت میں نقصان پہنچا اور فوجی جنرلوں نے اقتدار سنبھال کر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ برطرف کی مگر جنرل پرویز مشرف دور میں 2007 تک قومی اسمبلی نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی مگر اس پارلیمنٹ نے جنرل پرویز کی مرضی کے تین وزرائے اعظم منتخب کیے تھے۔ 2008 کی پارلیمنٹ کے بعد ملک میں آمریت کی جگہ جمہوریت تو آگئی مگر عدلیہ بحالی کے بعد مضبوط عدلیہ نے دو بار ملک کے منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کیا۔  چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے عمر عطا بندیال تک عدلیہ نے پارلیمنٹ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اور اسے مضبوط نہیں ہونے دیا۔ پارلیمنٹ کے منظور کیے کیے قوانین اور ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جاتا رہا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور ہوئی اور آمریت کے بعد جمہوریت کا سفر کمزور ہوا۔ دنیا میں پارلیمنٹ مضبوط اور بااختیار ہوتی ہے۔
1973 کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا، ہر ادارے کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے مگر پارلیمنٹ اپنے اس حق اور اختیار پر سمجھوتے بازی کرتی رہی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی مگر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے جانے کے بعد پارلیمنٹ کو اپنے حق اور اختیار کے لیے مزاحمت کرنا پڑی، جس کے جمہوریت اور سسٹم پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 3 months
Text
پی آئی اے کی نجکاری
Tumblr media
خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے ملک کے معاشی مسائل کا یقینی طور پر ایک بنیادی سبب ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ان میں سرفہرست ہیں۔ پچھلی صدی میں جب سوشلزم کی تحریک اپنے عروج پر تھی، پاکستان میں بھی تمام نجی کاروبار، صنعتوں، کارخانوں اور بینکوں کو قومیانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کے نتائج نہایت تلخ رہے لہٰذا ڈی نیشنلائزیشن کا عمل ناگزیر ہوگیا چنانچہ تمام بینک اور بیشتر دوسرے ادارے ان کے مالکان کو واپس کیے گئے ۔ یوں ان اداروں کے حالات میں بہتری آئی اور معاشی بحالی کا سفر ازسرنو شروع ہوا۔ تاہم سرکاری تحویل میں چلنے والے جن اداروں کی نجکاری نہیں ہو سکی ان میں سے بیشتر خسارے میں ہیں اور عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا ایک بڑا حصہ برسوں سے ان کا نقصان پورا کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔ ان اداروں کی نجکاری پچھلی کئی حکومتوں کے ایجنڈے میں شامل رہی لیکن عوامی اور سیاسی سطح پر منفی ردعمل کے خوف سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم پی ڈی ایم کی حکومت کے فیصلے کے مطابق نگراں حکومت خسارے میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
Tumblr media
نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے رائٹرز سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ اس ضمن میں 98 فیصد کام ہو چکا ہے اور بقیہ دو فیصد کاموں کی منظوری کابینہ سے لی جانی ہے۔ وزیر نجکاری کے مطابق ٹرانزیکشن ایڈوائزر ارنسٹ اینڈ ینگ کی طرف سے تیار کردہ پلان کو نگراں حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ پی آئی اے کو بذریعہ ٹینڈر بیچنا ہے یا بین الحکومتی معاہدے کے ذریعے جبکہ نجکاری کے عمل سے قریب دو ذرائع کے مطابق ارنسٹ اینڈ ینگ کی 1100 صفحات کی رپورٹ کے تحت ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال جون تک پی آئی اے پر 785 ارب روپے کے واجبات تھے اور 713 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پاکستان نے سنگین معاشی بحران کے پیش نظر گزشتہ سال جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ معاہدہ کرتے ہوئے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا۔ 
پی ڈی ایم حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف معاہدے پر دستخط کے چند ہفتے بعد ہی کرلیا تھا۔ بعد ازاں 8 اگست کو منصب سنبھالنے والی نگراں حکومت کو سبکدوش ہونے والی پارلیمان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔ فی الحقیقت خسارے میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ناگزیر ہے۔ نیشنلائزیشن کا تجربہ تقریباً دنیا بھرمیں ناکام ہو چکا ہے کیونکہ سرکاری تحویل میں چلنے والے اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں، مالی بدعنوانیاں، اقربا پروری، کام چوری اور دیگر خرابیاں بہت آسانی سے راستہ بنا لیتی ہیں۔ اس لیے حکومتیں اپنے دائرہ کار کو قانون سازی، فراہمی انصاف، قیام امن و امان ، نفاذ قانون، خارجہ امور اور نظام مالیات وخزانہ جسے بنیادی معاملات تک محدود رکھتی ہیں جس کے باعث کاروبار مملکت چلانے کیلئے مختصر کابینہ بھی کافی ہوتی ہے اورغیرضروری سرکاری اخراجات سے نجات مل جاتی ہے جبکہ معاشی ترقی کیلئے نجی شعبے کو محفوظ سرمایہ کاری کی تمام منصفانہ سہولتیں دے کر کام کرنے کے بھرپور مواقع مہیا کیے جاتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں بھی اس طریق کار کو اپنایا جائے اور وقتی سیاسی مفادات کیلئے نجکاری کے عمل کی مخالفت نہ کی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
پاکستان کو بھکاری بنانے کے ذمے دار
Tumblr media
پاکستان میں پہلے طویل مارشل لا کی مدت 1970 کے الیکشن میں جنرل یحییٰ نے ختم کی تھی اور جب تک پاکستان ایک تھا جو 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر دولخت 1971 میں ہوا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا اس وقت تک مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان میں ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا جو مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔ جنرل ایوب کا دور 1969 میں ختم ہوا تھا جو بعد کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دور ہر قسم کی ترقی کا سنہری دور اور پاکستان دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل ملک، مالی طور پر مستحکم اور جاپان و جرمنی کو مالی امداد اور دنیا میں قرضے دینے والا ملک تصور کیا جاتا تھا جس کے فوجی صدر کے دورہ امریکا پر استقبال کے لیے خود امریکی صدر اپنی کابینہ کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ جہاں ایئرپورٹ پر صدر پاکستان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے اور خود امریکی صدور بھی پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے جب کہ اب یہ حالت ہے کہ 15 سال پہلے امریکی صدر نے پاکستان کے خوشامد کرنے پر بھارت جاتے ہوئے پاکستان کے مختصر دورے پر آ کر ہم پر احسان کیا تھا جس کے بعد کوئی امریکی صدر پاکستان نہیں آیا اور اب پاکستانی حکمران خوشامد کر کے امریکا کے دورے کا وقت لیتے ہیں۔
جہاں کوئی امریکی وزیر بھی استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں آتا اور امریکی صدر بعد میں وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم سے ہاتھ ملاتا ہے جس پر وہ بڑا فخر کرتا ہے۔ صدر جنرل ضیا الحق کو بھی امریکا میں اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ جنرل ضیا امریکا کی ضرورت تھے جب کہ اس کے صرف گیارہ سال بعد صدر جنرل پرویز امریکا گئے تو انھیں جنرل ضیا جیسی اہمیت نہیں ملی تھی کیونکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی بلکہ امریکا جنرل پرویز کی ضرورت تھا۔ نئی نسل کو اب یہ سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے جب اسے بتایا جاتا ہے کہ 1970 تک دنیا پاکستان کو اہمیت دیتی تھی اور پاکستان ان کی ضرورت تھا اور پاکستان آج کی طرح کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا بلکہ ضرورت پر دوسرے ملکوں کو قرض اور مالی و ضروری عطیات بھی دیا کرتا تھا۔ اس وقت یو اے ای جیسے ملک کے حکمران کا استقبال کمشنر کرتا تھا پھر وہ دور بھی آیا کہ یو اے ای کے حکمران کے استقبال کو پاکستانی وزیر اعظم ایئرپورٹ جاتے رہے اور یو اے ای سے قرضے اور امداد مانگنے پاکستان بھکاری کے طور پر سوٹ پہن کر یو اے ای، قطر، کویت، سعودی عرب جیسے ملکوں میں جاتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے اب پاکستان کو گر کر اور خوشامد کر کے موجودہ قرضہ حاصل کرنا پڑا جو تین قسطوں میں ملنا تھا اور اتحادی حکومت کے بعد چار ماہ میں نگراں حکومت کو دوسری قسط نہیں ملی۔
Tumblr media
1947 میں آزادی کے بعد کئی سالوں تک پاکستان مشکل حالات سے گزرا جس کے بعد 1970 تک پاکستان دوسروں کو قرضے دینے اور مالی امداد دینے والا ملک بنا رہا جس کے بعد 1988 تک جنرل ضیا الحق کے آمرانہ کہلانے والے دور کے بعد 2023 تک 35 سالوں میں انتخابات کے ذریعے بننے والی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں سیاسی حکومتوں نے غیر ملکی قرضے لے کر ہماری آیندہ پیدا ہونے والی نسل کو بھی مقروض بنا دیا ہے اور 2023 تک ملک کا بچہ بچہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا مقروض ہے اور ہم دنیا میں اب قرضوں پر پل رہے ہیں۔ کسی شخص کی اگر مالی حالت کمزور ہو جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھریلو اخراجات کم کرتا ہے۔ اچھے کھانے ترک کر کے زندہ رہنے والی خوراک پر آ جاتا ہے۔ جو شخص سال میں کئی جوڑے بناتا تھا وہ مجبوری میں گرمی سردی میں دو جوڑوں پر گزارا کرتا ہے اور اپنے اخراجات کم کر کے کوشش کرتا ہے کہ میسر مالی وسائل میں گزارا کرے اور اسے قرض نہ مانگنا پڑے کیونکہ قرض لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ادا کرنا ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنی عزت کا بھرم برقرار رکھ لیتا ہے۔
35 سیاسی حکومتوں میں جس پارٹی کی بھی حکومت آئی سب نے اپنے وسائل سے ملک چلانے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر شاہانہ طور پر حکومت کرنا اپنا منشور بنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم چلائی تھی مگر غیر ملکی قرض نہ اترا بلکہ قرضوں کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے میں ہر سیاسی حکومت نے کردار ادا کیا۔ شاہانہ طور حکومتیں چلائیں خود کو بنایا، اپنوں کو دل بھر کر نوازا، اور پی ٹی آئی حکومت نے تو اپنوں کو باہر سے بلا کر نوازا وہ سب اب واپس باہر جا چکے ہیں اور عیش کر رہے ہیں اور ملک میں غریب کیا متوسط طبقہ بھی سخت پریشان ہے۔ نواز شریف کا اب کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا بند کر دیا تھا جب کہ ان کے بھائی شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 2023 میں قرضہ وہ بھی تین قسطوں میں منظور کرایا تو اس عمل پر نواز شریف کو اپنے بھائی وزیر اعظم کو قرض مانگنے سے روکنا چاہیے تھا۔ اس وقت اتحادی حکومت میں شامل دولت مندوں کو اگر ملک سے محبت ہوتی تو وہ سب اپنی دولت میں سے ملک کے لیے اگر چوتھائی رقم بھی نکالتے تو انھیں قرض نہ لینا پڑتا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں پہنچا کر عالمی بھکاری بنانے والوں میں حکومت میں شامل رہ کر کرپشن کرنے والے صرف سیاستدان ہی نہیں ملک کے ہر ادارے کے کرپٹ افسران نے ملک کو لوٹا اور اندرون و بیرون ممالک میں جائیدادیں بنائیں اور وہاں کی شہریت لے کر اپنی ناجائز دولت اور اپنے خاندانوں کو محفوظ بنایا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ ملک کے سرمایہ داروں نے دبا کر ٹیکس چوری کیے۔ ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کو رشوت دی اور ملکی خزانہ بھرنے نہیں دیا۔ ملکی خزانہ ہر ایک نے لوٹا اور ملک کنگال کر دیا اور یہ سب ہی ملک کو بھکاری بنانے کے ذمے دار ہیں۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ انھوں نے ملک کو نہیں اپنے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی انھیں ملک عزیز ہوتا تو پاکستان کبھی بھکاری نہ بنتا۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
پس ثابت ہوا امریکا یاروں کا یار ہے
Tumblr media
سامانِ مرگ و حرب ساختہِ امریکا ہے۔ اسرائیل تو بس غزہ اور غربِ اردن اذیت ساز لیبارٹری میں چابک دست نسل کشی اور صنعتی پیمانے پر املاکی بربادی کے لیے تیار اس سامان کا آزمائشی آپریٹر ہے۔ اسرائیل کے ایک مقبول ٹی وی چینل بارہ کے مطابق سات اکتوبر تا تئیس دسمبر امریکا سے آنے والی دو سو سترہ کارگو پروازوں اور بیس مال بردار بحری جہازوں کے ذریعے دس ہزار ٹن جنگی ساز و سامان اسرائیل میں اتارا جا چکا ہے۔ اس وزن میں وہ اسلحہ اور ایمونیشن شامل نہیں ہے جو امریکا نے اسرائیل میں اپنے استعمال کے لیے زخیرہ کر رکھا ہے اور اس گودام کی ایک چابی اسرائیل کے پاس ہے تاکہ نسل کشی کی مشین سست نہ پڑنے پائے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو ہنگامی سپلائی کے لیے لگ بھگ تین ارب ڈالر کے آرڈرز بھی جاری کیے ہیں۔ اسرائیل نے امریکا سے ہلاکت خیز اپاچی ہیلی کاپٹرز کی تازہ کھیپ کی بھی فرمائش کی ہے۔ یہ ہیلی کاپٹرز اسرائیل غزہ کو مٹانے کے لیے فضائی بلڈوزرز کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ خود اسرائیل کا شمار دنیا کے دس بڑے اسلحہ ساز ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم اس نے فی الحال تمام بین الاقوامی آرڈرز موخر کر دیے ہیں اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خانہ ساز اسلحہ صنعت کی پروڈکشن لائن چوبیس گھنٹے متحرک ہے۔
جب چھ ہفتے میں لاہور شہر کے رقبے کے برابر تین ہیروشیما بموں کے مساوی طاقت کا بارود برسا دیا جائے تو سپلائی اور پروڈکشن لائن کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ امریکا اس بات کو ہمیشہ کی طرح یقینی بنا رہا ہے کہ اسرائیل کا دستِ مرگ کہیں تنگ نہ پڑ جائے۔ اب تک جو ہنگامی رسد پہنچائی گئی ہے اس میں اسمارٹ بموں کے علاوہ طبی سازو سامان ، توپ کے گولے ، فوجیوں کے لیے حفاظتی آلات ، بکتر بند گاڑیاں اور فوجی ٹرک قابلِ ذکر ہیں۔ اس فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ دانتوں تک مسلح اسرائیلی بری، بحری اور فضائی افواج کے لیے تیسرے مہینے میں بھی غزہ لوہے کا چنا ثابت ہو رہا ہے۔ ابتدا میں اسرائیل کا اندازہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین ہفتے میں غزہ کی مزاحمت ٹھنڈی پڑ جائے گی مگر اب اسرائیلی فوجی ہائی کمان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے مطلوبہ نتائج فروری سے پہلے ظاہر نہیں ہوں گے۔ البتہ بری فوج کے سابق سربراہ جنرل ڈان ہالوٹز نے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا جتنا بھی فوجی تجربہ ہے اس کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل یہ جنگ ہار گیا ہے۔
Tumblr media
بقول جنرل ہالوٹز جنگ جتنا طول پکڑے گی اتنے ہی ہم دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ اب تک ہمیں بارہ سو اسرائیلیوں کی ہلاکت، جنوبی اور شمالی اسرائیل میں دو لاکھ پناہ گزین اور حماس کی قید میں ڈھائی سو کے لگ بھگ یرغمالی سویلینز اور فوجی تو نظر آ رہے ہیں مگر کامیابی کہیں نظر نہیں آرہی۔ واحد فتح یہی ہو گی کہ کسی طرح بنجمن نیتن یاہو سے جان چھوٹ جائے۔ جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے تو جو بائیڈن اسرائیل نواز امریکی کانگریس سے بھی زیادہ اسرائیل کے دیوانے ہیں۔ اس وقت بائیڈن کی اسرائیل پالیسی یہ ہے کہ ’’ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے۔‘‘ چنانچہ دو ہفتے پہلے ہی بائیڈن نے کانگریس کے ذریعے اسرائیل کے لیے ہنگامی امداد منظور کروانے کی تاخیری کھکیڑ اور فالتو کے سوال جواب سے بچنے کے لیے ہنگامی قوانین کی آڑ میں کانگریس سے بالا بالا چودہ ارب ڈالر کے فنڈز کی منظوری دے دی جو اسرائیل کی فوجی و اقتصادی ضروریات کو مختصر عرصے کے لیے پورا کرنے کے قابل ہو گا۔ اسرائیل کو جب بھی ضرورت پڑی امریکی انتظامیہ اس کے لیے سرخ قالین کی طرح بچھتی چلی گئی۔ 
مثلاً چھ اکتوبر انیس سو تہتر کو جب مصر اور شام نے اپنے مقبوضہ علاقے چھڑانے کے لیے اسرائیل کو بے خبری میں جا لیا تو وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے پہلا فون رچرڈ نکسن کو کیا کہ اگر ہمیں بروقت سپلائی نہیں ملی تو اپنی بقا کے لیے مجبوراً جوہری ہتھیار استعمال کرنے پڑ سکتے ہیں۔ نکسن اشارہ سمجھ گیا اور اس نے جنگ شروع ہونے کے چھ دن بعد بارہ اکتوبر کو پینٹاگون کو حکم دیا کہ اسرائیل کے لیے اسلحہ گودام کھول دیے جائیں۔ محکمہ دفاع کو اس ضمن میں جو فائدہ خسارہ ہو گا اس سے بعد میں نپٹ لیں گے۔ اسرائیل نے اپنی قومی ایئرلائن ال آل کے تمام کارگو طیارے امریکا سے فوجی امداد ڈھونے کے لیے وقف کر دیے۔ مگر یہ اقدام ناکافی تھا۔ سوویت یونین نے مصر اور شام کی ہنگامی فوجی امداد کے لیے دس اکتوبر کو ہی دیوہیکل مال بردار انتونوف طیاروں کا بیڑہ وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ امریکی فضائیہ کا مال بردار بیڑہ جس میں سی ون فورٹی ون اور سی فائیو گلیکسی طیارے شامل تھے۔ ضرورت کا ہر سامان ڈھونے پر لگا دیے۔ یہ آپریشن تاریخ میں ’’ نکل گراس ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے امریکا اور اسرائیل کے درمیان ساڑھے چھ ہزار ناٹیکل میل کا ایئرکوریڈور بنا دیا گیا۔
پہلا سی فائیو گلیکسی مال بردار طیارہ چودہ اکتوبر کو ایک لاکھ کلو گرام کارگو لے کر تل ابیب کے لوڈ ایئرپورٹ پر اترا اور آخری طیارے نے چودہ نومبر کو لینڈ کیا۔ پانچ سو سڑسٹھ پروازوں کے ذریعے تئیس ہزار ٹن جنگی سازو سامان پہنچایا گیا۔جب کہ تیس اکتوبر سے امریکی کارگو بحری جہاز بھی بھاری سامان لے کر حیفہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے لگے۔ اس کے برعکس سوویت یونین ایک ماہ کے دوران نو سو پینتیس مال بردار پروازوں کے ذریعے پندرہ ہزار ٹن ساز و سامان مصر اور شام پہنچا سکا۔ حالانکہ روس سے ان ممالک کا فضائی فاصلہ محض سترہ سو ناٹیکل میل تھا۔ امریکا نے تہتر ٹن سامان اٹھانے والے سی فائیو گلیکسی کے ذریعے اسرائیل کو ایک سو پچھتر ملی میٹر تک کی توپیں ، ایم سکسٹی اور ایم فورٹی ایٹ ساختہ بھاری ٹینک ، اسکوراسکی ہیلی کاپٹرز ، اسکائی ہاک لڑاکا طیاروں کے تیار ڈھانچے اور بارودی کمک پہنچائی۔ یہ طیارے صرف پرتگال میں ری فیولنگ کے لیے رکتے تھے۔ اور اسپین ، یونان ، جرمنی اور ترکی نے انھیں اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اگر یہ کاریڈور نہ ہوتا تو اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ساتھ اپنی بقا کے لالے پڑجاتے۔ پس ثابت ہوا کہ امریکا یاروں کا یار ہے۔ وہ الگ بات کہ امریکا کو اسرائیل اپنی بین الاقوامی عزت سے بھی زیادہ پیارا ہے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کے پورے خاندان کا خاتمہ کر دیا
Tumblr media
میری نسل کے لوگوں نے ٹیلی ویژن پر پہلی جنگ تب دیکھی تھی جب سنہ 1990 میں امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ بغداد پر بموں کی بارش شروع ہوئی تو دنیا کے پہلے عالمی نیوز چینل نے لائیو دکھایا اور غالباً ہیڈلائن اسی طرح کی تھی کہ ’بغداد کا آسمان بمباری سے جگمگا اٹھا ہے‘۔ خبریں پڑھنے والے نے ہیڈلائن کچھ اس طرح پڑھی تھی جیسے فٹ بال میچوں پر کمنٹری کرنے والے جوش میں آ کر کسی گول کا منظر بیان کرتے ہیں۔ اسی دن سے عالمی جنگیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ آپ کسی بھی دن، رات کے کھانے کے وقت ٹی وی لگائیں تو دنیا میں کہیں نہ کہیں کسی شہر کا آسمان بمباری سے جگمگا رہا ہو گا اور گورے صحافیوں کو اس شہر کا درست نام لینا کبھی نہیں آئے گا۔ آہستہ آہستہ لائیو کوریج اور میڈیا جنگ کا لازمی حصہ بن گئے جس طرح کسی زمانے فوج کے ساتھ طبل اور نقارے بجانے والے چلتے تھے، جو اپنی سپاہ کا خون گرماتے تھے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل جیسے اخبارات کے مدبر صحافی پہلے جنگ کا جواز سمجھاتے تھے پھر الیکٹرانک میڈیا میں ان کے بھائی بہن حملہ آور فوجوں کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر جنگ کی کوریج کے لیے پہنچ جاتے تھے۔ 
ان جنگوں میں بندوق کی نالی اور ان کی آنکھ دشمن کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے۔  جب ہنستی بستی آبادیاں تباہ کر دی جاتیں اور لوگ اپنے گھروں کے ملبوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اور کھانے کے برتن ڈھونڈ رہے ہوتے تو مغرب سے مغربی ضمیر کے رحم دل دستے سوکھا راشن اور بچوں کے کھلونے لے کر پہنچ جاتے۔ ان کے امدادی ٹرکوں پر بھی کیمرے والے صحافی موجود ہوتے جو راشن کے لیے اٹھے ہاتھوں اور بے کس چہروں کی تصویریں دنیا تک پہنچاتے اور داد پاتے۔ جدید جنگ تقریباً ایک مکمل سا پیکج بن گئی تھی جس میں اسلحے کا کاروبار بھی خوب پھلتا پھولتا اور جنگ زدہ لوگوں کے لیے خیموں اور کمبلوں کی مانگ بھی ہمیشہ ضرور رہتی۔ جن کو ازلی خون کی پیاس تھی انھیں بھی خوراک مل جاتی اور جن کے دل انسانیت سے بھرپور تھے ان کا دھندہ بھی چلتا رہتا۔ پہلے آسمانوں سے بمباری، پھر بستیاں روندتے ہوئے ٹینک، اس کے بعد جنگ بندی کے مطالبے اور پھر امدادی ٹرکوں کے قافلے۔ اسلحے کی فیکٹریاں بھی تین شفٹوں میں چلتیں اور انسانی ہمدری سے لبریز مغربی ضمیر کی دیہاڑیاں بھی لگتی رہتیں۔ 
Tumblr media
جب اسرائیل نے غزہ پر وحشت ناک بمباری شروع کی (اور چونکہ ایڈیٹوریل گائیڈ لائن کی ضرورت ہے اس لیے بتاتے چلیں کہ یہ لڑائی سات اکتوبر کے حماس حملوس سے شروع نہیں ہوئی 70 سال پہلے شروع ہوئی تھی) تو موسمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی خیال تھا کہ امریکہ اور اس کی باقی نام نہاد برادری چند دن اسرائیل کو کھلا ہاتھ دے گی، ایک کے بدلے دس مارو، اگر کسی نے غزہ میں گھر، سکول، ہسپتال، میوزیم بنا لیا ہے تو اسے نیست و نابود کر دو۔ بچے مریں گے مارو لیکن پھر مغربی ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہو گا اور کہے گا ہم نے بہت ہزار بچوں کی لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں اب یہ کام بند کرو۔ لیکن مغربی ضمیر کی گنتی ابھی پوری نہیں ہوئی۔ ہم تک ننھے بچوں کی تصویریں اور کہانیاں دنیا تک پہنچانے والے 70 صحافی بھی مار دیے ہیں۔ ان میں سے کئی پورے خاندان کے ساتھ۔ لیکن مغربی ضمیر اسرائیل سے صرف یہ کہلوا سکا ہے کہ ہم نے غلط بم مار دیا۔ چند دن پہلے کرسمس منایا گیا، دنیا میں سب سے زیادہ آبادی حضرت عیسٰی کے پیروکاروں کی ہے۔ 
حضرت عیسیٰ بھی فلسطینی ہیں لیکن مغرب نے انھیں گورا، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والا بنا لیا۔ ان کی جائے پیدائش بیت اللحم ہے، وہاں بھی اسرائیل کئی دفعہ گولے چلا چکا ہے۔ اس مرتبہ کرسمس پر وہاں حضرت عیسیٰ کے بچپن کے مجسمے کو ایک ملبے کے ڈھیر میں پڑا ہوا دکھایا گیا اور محترم پادری منتھر آئزیک نے اپنے کرسمس کے خطبے میں فرمایا: ’اور آج کے بعد ہمارا کوئی یورپی دوست ہمیں انسانی حقوق یا عالمی قانون پر لیکچر نہ دے کیونکہ ہم گورے نہیں ہیں اور تمہاری اپنی ہی منطق کے مطابق انسانی حقوق اور عالمی قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔‘
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات
Tumblr media
آج کے جدید دور میں ٹیکنالوجی کے بغیر رہنا شاید ناممکن ہے اور اس میں سوشل میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ کسی سے بعید نہیں۔ تاہم سوشل میڈیا کے جہاں نقصانات ہیں، وہیں اس کے فوائد بھی ہیں۔ درج ذیل تحریر میں ہم سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات، دونوں کے بارے میں گفتگو کریں گے:
مثبت اثرات سماجی روابط: یہ لوگوں کو ہمہ وقت کہیں بھی ہو، اپنے عزیزوں، خاندان اور برادریوں کے ساتھ جڑے رہنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ سماجی تعلقات کے ذریعے تنہائی کے احساسات کو دور کرتا ہے۔ 
معلومات کا اشتراک: یہ کسی بھی موضوع پر بروقت معلومات جیسے صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات تک اپ-ڈیٹس فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا تعلیم میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔
ہیلتھ کمیونٹیز: سوشل میڈیا پلیٹ فارم مختلف کمیونٹیز کی خدمات کو عام کرتا ہے جہاں ایک جیسے تجربات اور معلومات رکھنے والے افراد ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
Tumblr media
منفی اثرات دماغی صحت: ضرورت سے زیادہ استعمال اور سوشل میڈیا پر نظر آنے والے دوسروں کی بظاہر کامل زندگی سے موازنہ کرنے کی وجہ سے صارف میں بے چینی، ڈپریشن یا کم خود اعتمادی پیدا ہوسکتی ہے جو خطرناک صورت بھی اختیار کر سکتی ہے۔
نیند میں خلل سونے سے پہلے سوشل میڈیا پر وقت گزارنا معمول کی نیند میں خلل پیدا کر دیتا ہے جس سے مجموعی صحت متاثر ہوتی ہے۔
سائبر بدمعاشی (cyber bullying): سوشل میڈیا غنڈہ گردی یا ہراساں کرنے کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے جس کا شکار کوئی بھی ہوسکتا ہے اور جذباتی پریشانی اور دماغی صحت کو متاثر کرسکتا ہے۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں توازن برقرار رکھنا، اس کے اثرات کو ذہن نشین رکھنا اور مثبت تعاملات اپنانا اس کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
پاکستان اسٹیل کا مستقبل؟
Tumblr media
نگراں حکومت کی جاری کردہ نجکاری پروگرام کی تازہ فہرست میں پاکستان اسٹیل ملز شامل نہیں حالانکہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں میں اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری طویل عرصے سے سب سے زیادہ ضروری قرار دی جا تی رہی ہے۔ تاہم نگراں وفاقی وزیر برائے نجکاری کے مطابق اسٹیل ملز کی اب نہ بحالی ممکن ہے نہ نجکاری جبکہ سیکرٹری نجکاری ڈویژن نے پچھلے دنوں بتایا تھا کہ گزشتہ مالی سال اسٹیل مل کے مالی نقصانات 206 ارب تھے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اس کا کوئی خریدار نہیں مل رہا۔ بہرکیف پی آئی اے سمیت فہرست میں شامل باقی 26 اداروں کی نجکاری کیلئے پیش رفت جاری ہے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو ایک مدت سے ناگزیر سمجھے جانے کے باوجود سیاسی مخالفت اور بعض عدالتی فیصلے اس میں رکاوٹ بنے رہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں اب اداروں کو سرکاری تحویل میں چلانے کے بجائے اس حوالے سے نجی شعبے کی بھرپور شرکت ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ 
Tumblr media
پاکستان میں بھی 1970ء کی دہائی میں کیا جانے والا بینکوں اور تجارتی و تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کا تجربہ بری طرح ناکام رہا اور بالآخر معاشی بحالی کیلئے ڈی نیشنلائزیشن کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ لہٰذا نجکاری کے عمل کو اب قومی اتفاق رائے کے ساتھ جاری اور پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے تاکہ یہ ادارے نجی شعبے میں جاکر بہتر کارکردگی دکھائیں اور قومی وسائل بھی ضائع نہ ہوں۔ اسٹیل ملز جیسے قومی ادارے کے مستقبل کے بارے میں بھی وسیع تر مشاورت سے مناسب فیصلہ ضروری ہے خصوصاً اسے ایکسپورٹ پروموشن زون بنانے کی جو تجویز وفاقی وزیر برائے نجکاری کے مطابق زیر غور ہے، مناسب سمجھے جانے کی صورت میں اس پر حتی الامکان جلد ازجلد عمل درآمد ہونا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
اگر اسرائیل کا نام سوڈان اور امریکا کمپوچیا ہوتا
Tumblr media
جو بائیڈن میں کم از کم ایک خوبی ضرور ہے، وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں۔ مثلاً سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس چھاپہ ماروں کی مسلح کارروائی کے دوران لگ بھگ بارہ سو اسرائیلی سویلینز بشمول تین سو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور ڈھائی سو کے لگ افراد کو حماس کے چھاپہ مار یرغمال بنا کے اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر پھر کردار کش مشنیری حرکت میں آ گئی اور یہ خبر اڑا دی گئی کہ حماس کے چھاپہ ماروں نے اپنی مسلح کارروائی کے دوران کئی خواتین کو ریپ کیا اور لگ بھگ چالیس اسرائیلی بچوں کے گلے کاٹ دیے۔ جو بائیڈن نے اس افواہ کی تصدیق کیے بغیر سچ مان لیا اور بچوں کے گلے کاٹنے کی خبر کو حماس کی سفاکی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ اور خود وائٹ ہاؤس کی وائٹ واش مشینری بارہا صدرِ ذی وقار کو سمجھانے کی کوشش کر چکی ہے کہ انکل جن چالیس بچوں کے گلے کٹے تھے وہ ماشااللہ آج بھی زندہ ہیں اور جن خواتین کا مبینہ ریپ ہوا تھا ان میں سے ایک بھی اسرائیلی حکومت کی جانب سے انھیں بدنام کرنے کے باوجود سامنے نہیں آئی۔ لہٰذا اگر کچھ ایسا ہوا تو ہم سب سے پہلے آپ کو ہی بتائیں گے۔ شانت رہیے اور ہماری بریفنگز کے مطابق چلتے رہیے۔
معلوم نہیں کسی نے جو بائیڈن کو یہ جتانے کی بھی کوشش کی ہو کہ چالیس افسانوی بچوں کے گلے کاٹنے اور بارہ سو اسرائیلیوں کی حقیقی موت کے بدلے اسرائیل اب تک انیس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر چکا ہے اور ان میں ساڑھے سات ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ جب کہ اتنے ہی ملبے کے نیچے دبے دبے مر چکے ہیں اور اب ان کی لاشیں تدفین کے قابل بھی نہیں رہیں اور یہ سلسلہ اس لمحے تک جاری و ساری ہے۔ مگر آپ تو جانتے ہیں کہ ایک اسی سالہ بوڑھے کو اپنے ہی مفروضوں کے جال سے نکالنا ایک آٹھ سالہ بچے کو قائل کرنے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بچے کے تو آپ کان مروڑ کے بھی سمجھا سکتے ہیں مگر بوڑھوں کا کیا کریں۔ رہی سہی کسر بائیڈن کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے پوری کر دی جب انھوں نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد پہلی بار تل ابیب پہنچ کر اسرائیلی ہلاکتوں پر نیتن یاہو سے تعزیت کی تو یہ بھی کہا کہ وہ آج امریکی وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور یہودی بھی افسردہ ہیں۔ 
Tumblr media
غزہ کے جاری قتلِ عام کے ساتویں ہفتے میں وائٹ ہاؤس میں یہودی تہوار ہنوکا کے موقعے پر منعقد روایتی تقریب میں بائیڈن نے نکسن کے بعد سے آنے والے ہر صدر کی طرح یہودی مہمانوں کے اجتماع کو یاد دلایا کہ امریکا مشرقِ وسطی میں اسرائیل کے طاقتور وجود کا ضامن رہے گا۔ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو آج دنیا میں ہر یہودی خود کو غیر محفوظ سمجھتا رہتا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے پینتیس برس قبل سینیٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کو ہم تین ارب ڈالر سالانہ کی جو امداد دے رہے ہیں وہ امریکا کی سب سے بہتر سرمایہ کاری ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونا شرط نہیں۔ میں صیہونی ہوں۔ دو ہفتے قبل وائٹ ہاؤس کی ہنوکا تقریب میں ان خیالات کے واشگاف اظہار اور اعادے کے بعد اب بھی اگر کسی کو بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل پالیسی سمجھ میں نہ آئے تو اسے کوئی بھی مثال یہ پالیسی نہیں سمجھا سکتی۔ امریکا نے انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی مخالف بین الاقوامی کنونشن پر بھی دستخط کر رکھے ہیں۔ 
اس کنونشن میں نسل کشی کی جو تعریف کی گئی ہے اس کے مطابق انسانوں کے کسی نسلی، مذہبی یا قومی گروہ کو جزوی و کلی طور پر مٹانے کے لیے پانچ اقدامات میں سے کوئی بھی قدم نسل کشی کہلائے گا۔ اول۔ کسی مخصوص انسانی گروہ کو جان بوجھ کے قتل کیا جانا، دوم۔ اس گروہ کو اجتماعی طور پر شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا ، سوم۔ ایسی تادیبی پابندیاں لگانا جس سے ان کی اجتماعی بقا خطرے میں پڑ جائے ، چہارم۔ ان سے حقِ پیدائش چھیننا ، پنجم۔ ان کے بچوں ��و ان سے الگ کر کے جبراً کہیں اور منتقل کرنا۔ اسرائیل ان پانچ میں سے پہلی تین شرائط پوری کر رہا ہے۔ وہ ایک مخصوص علاقے ( غزہ کی پٹی) میں آباد فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر مٹانے کے لیے اندھا دھند بمباری اور گولہ باری کر رہا ہے۔ اس نے سات اکتوبر سے اب تک جتنا بارود برسایا ہے۔ اس کی اجتماعی قوت ہیروشیما پر پھینکے گئے جوہری بم سے ڈھائی گنا زائد ہے۔ خود امریکی سی آئی اے نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک غزہ پر جتنے بم گرائے گئے۔ ان میں سے پچاس فیصد اندھے یا ان گائیڈڈ بم ہیں۔ اندھے بم محضوص ہدف کا تعین کیے بغیر کسی بھی انسان یا عمارت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اور یہ اجتماعی جسمانی و نفسیاتی نقصان کا سبب ہیں۔ 
اسرائیل نے سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کے لیے پانی ، خوراک ، بجلی ، ادویات کی ترسیل بند کر رکھی ہے اور اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گاہوں کو جان بوجھ کے تباہ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے نسل کشی۔ نیز ان اقدامات سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ غزہ کی تئیس لاکھ آبادی یہ علاقہ جبراً خالی کر کے جلاوطن ہو جائے۔ بائیڈن انتظامیہ اس نسل کشی میں سب سے بڑی مددگار ہے۔ اس نے جنگ بندی کی ہر قرار داد کو ویٹو کر کے اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں سے بچا کے رکھا ہوا ہے۔ امریکی انتظامیہ نہ صرف غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اسرائیل کو مسلسل فراہم کر رہی ہے بلکہ کانگریس کو بائی پاس کر کے ہنگامی اختیارات کی آڑ میں اس نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کو توپوں اور ٹینکوں میں استعمال ہونے والے چودہ ہزار گولوں کی تازہ کھیپ بھی پہنچائی ہے۔ اس سب کے باوجود امریکی ذرایع ابلاغ میں ایک بار بھی یہ لفظ آج تک کسی خبر، مضمون یا اداریے میں شایع یا نشر نہیں ہو پایا کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ میڈیا میں اگر کوئی جملہ تواتر سے استعمال ہو رہا ہے تو وہ ہے کہ اسرائیل حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے آئین کے مطابق یہ نسل کشی کا سیدھا سیدھا کیس ہے۔مگر معاملہ اگر امریکا اور اسرائیل کا ہو تو سیدھا سیدھا کیس بھی ہکلانے لگتا ہے۔دونوں ممالک انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے دائرہ کار سے منکر ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ پھر بھی اگر اسرائیل اور امریکا کا نام سوڈان، لائبیریا، کمپوچیا یا سربیا ہوتا تو آج جو بائیڈن اور نیتن یاہو دی ہیگ میں کرمنل کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے۔ البتہ یوکرین کے ساتھ اس سے نصف نسل کش سلوک کرنے پر پوتن کے بین الاقوامی وارنٹ نکلے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ولادی میر پوتن گرفتاری کے ڈر سے کسی ایسے ملک میں نہیں جا سکتے جو انھیں گرفتار کر کے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیش کرنے کا پابند ہو۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 4 months
Text
ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے؟
Tumblr media
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔ آخر یہ ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ کیس کیوں اور کس آرٹیکل کے تحت دائر کیا گیا اور اس کیس میں پوچھے گئے 5 اہم سوالات کیا ہیں؟ یہ تمام تفصیلات درج ذیل ہے۔
آرٹیکل 186 ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس یا ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس کیا ہے، یہ جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ قومی آئین کا آرٹیکل 186 کیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق صدرِ مملکت کسی بھی وقت اگر یہ سمجھیں کہ کسی عوامی اہمیت کے حامل سوال پر سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس سوال کو رائے لینے کے لیے عدالت عظمیٰ کو بھجوا سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ اس سوال پر غور کرنے کے بعد اپنی رائے صدرِ مملکت کو بھجوا دے گی۔
Tumblr media
ذوالفقار علی بھٹو سزائے موت ریفرنس 12 برس قبل 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 186 کے تحت بھٹو کی عدالتی حکم سے پھانسی کے فیصلے پر ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ اس کیس کی پہلی سماعت 2 جنوری 2012ء کو جبکہ آخری 12 نومبر 2012ء کو ہوئی۔ پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔ آخری سماعت کے 8 چیف جسٹس اپنی ملازمت پوری کر چکے مگر کسی نے بھی اس صدارتی ریفرنس کو سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہونے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کرنا غیر آئینی تھا۔
صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے 5 اہم سوال مذکورہ کیس میں سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے پوچھے گئے سوالات یہ ہیں۔ 1۔ ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ 2- سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہو گا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ 3- سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ 4- سزائے موت قرآنی احکامات کے مطابق درست ہے؟ 5- فراہم کردہ ثبوت اور شہادتیں سزا سنانے کے لیے کافی تھیں؟
واضح رہے کہ سابق صدر زرداری کے اس صدارتی ریفرنس کے سوالوں کے جوابات کی تلاش کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کا 9 رکنی لارجر بینچ ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ کارروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 5 months
Text
چین کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے قدم، امکانات اور چیلنج
Tumblr media
اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے دو سال بعد، چین افغانستان میں سب سے بااثرملک کے طور پر ابھرا ہے۔ چین واشنگٹن کے افغانستان سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سفارتی اور سٹریٹجک اثررسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ چین خطے میں ایک نجات دہندہ اور علاقائی شراکت دار کے طور پر اپنی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین کا موجودہ نقطہ نظر بنیادی طور پر نایاب زمینی معدنیات کی تلاش، یوریشیا کے ساتھ علاقائی روابط کے کوششیں اور سلامتی کے خدشات کے گرد گھومنے والے اس کے معاشی مفادات پر مبنی ہے۔ سفارتی سطح پر بیجنگ اور کابل دونوں نے ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے سفیر تعینات کیے ہیں۔ دنیا میں چین پہلا ملک ہے جس نے طالبان کے نامزد سفیر کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ کابل میں اپنا سفیر بھی مقرر کیا ہے۔ تاہم بیجنگ نے احتیاط برتتے ہوئے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ چین طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس سطح تک مضبوط کرنے کا سوچ رہا ہے جہاں سب پہلے اقتصادی، معدنی اور قدرتی وسائل تک رسائی کے ساتھ مغربی ممالک کی موجودگی بہت کم ہو۔ 
طالبان کے لیے، چینی پیسہ اہمیت کا عامل ہے اور یہ طالبان کی حکومت کی معیشت کو پائیدار طریقے سے سنبھالنے کی صلاحیت میں عام افغانوں کا اعتماد بحال کرنے میں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔ اقتصادی محاذ پر، چینی کمپنیاں سکیورٹی خدشات کے باوجود خاص طور پر کان کنی کے شعبے میں کاروباری مواقع تلاش کرنے کے لیے افغانستان کا دورہ کرتی رہتی ہیں۔ افغانستان میں چین کے سفیر واگ یو طالبان کے وزرا اور دیگر سرکاری حکام سے باقاعدہ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ جولائی 2023 میں، طالبان نے اعلان کیا کہ فین چائنا افغان مائننگ پروسیسنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی بجلی کی پیداوار، سیمنٹ، مینوفیکچرنگ اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں 350 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح، جنوری 2023 میں، طالبان نے شمالی افغانستان میں دریائے آمو کے آس پاس تیل کی تلاش کے لیے سنکیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ طالبان کا پہلا اہم اقتصادی معاہدہ تھا اور اس کا آغاز 150 ملین ڈالر کے سالانہ سرمایہ کاری سے ہوا، جس کا حجم تین سال میں 540 ملین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔
Tumblr media
آمو دریا وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کے درمیان پھیلا ہوا ہے جو 4.5 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ معاہدے کے مطابق طالبان کو تیل اور گیس کی تلاش کا 20 فیصد حصہ ملے گا، جو مستقبل میں 75 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ جولائی 2022 کے بعد سے، چین نے 98 فیصد افغان اشیا پر صفر ٹیرف عائد کیا ہے اور افغان پائن نٹ کی درآمد میں اضافہ کیا ہے۔ ٹیرف میں کمی افغان معیشت کو چین کی معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ افغانستان میں لیتھیم، تانبے اور نایاب زمینی معدنیات کے وسیع ذخائر میں بھی چین کو بہت دلچسپی ہے۔ خام مال کے دنیا کے سب سے بڑے خریدار کے طور پر، چین افغانستان کے غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل کو اس کی اقتصادی توسیع اور تکنیکی ترقی کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ چین سے عالمی سپلائی لائن کو الگ کرنے اور چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نینو چِپس تک رسائی کو محدود کرنے کی امریکی کوششوں کی وجہ سے یہ قدرتی وسائل تک رسائی چین کی اقتصادی استحکام اور عالمی سطح پر توسیع کے لیے اور بھی اہم ہو گئی ہے۔ یہ نایاب زمینی معدنیات برقی گاڑیوں، سمارٹ فونز اور الیکٹرانک بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ، چین کو ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) جسے چین مخالف عسکریت پسند گروپوں جسے مشرقی ترکستان اسلامک پارٹی بھی کہا جاتا ہے اور داعش خراسان کی موجودگی سے تشویش ہے۔ طالبان حکومت نے (ٹی آئی پی) کو کنٹرول کرنے اور چین کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے میں چین کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اس کے باوجود اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، گروپ کی تعداد 300 سے بڑھ کر 1,200 تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح، ٹی آئی پی نے اپنے آپریشنل اڈوں کی تشکیل نو کے ساتھ داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ آپریشنل تعلقات قائم کر کے ہتھیار بھی حاصل کیے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے (ٹی آئی پی) عسکریت پسندوں کو شمالی صوبہ بدخشاں سے چین کی سرحد کے قریب منتقل کیا، لیکن وہ واپس بدخشاں چلے گئے ہیں۔ اب، چین طالبان سے کہہ رہا ہے کہ وہ ٹی آئی پی کے عسکریت پسندوں کو گرفتار کر کے ان کے حوالے کریں۔ تاہم طالبان اس مطالبے کو پورا کرنے سے گریزاں ہیں۔ 
ٹی آئی پی عسکریت پسند ایک دوراہے پر ہیں انہوں نے طالبان کے ساتھ اس کے بنیادی مقصد ایک خود مختار مشرقی ترکستان ریاست کا قیام کے لیے مدد حاصل کرنے کی امید میں تعاون کیا۔ طالبان نے چین کے کہنے پر ٹی آئی پی پر دباؤ ڈالا ہے۔ تاہم، دو سال کی خاموشی کے بعد ٹی آئی پی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور اس کے کچھ عسکریت پسند پہلے ہی داعش خراسان میں شامل ہو چکے ہیں اور اگر طالبان نے اپنی آپریشنل سرگرمیوں پر پابندی نہیں ہٹائی تو اسے مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے پہلے ہی اس کے متبادل کے طور پر ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے ساتھ قریبی آپریشنل روابط قائم کر لیے ہیں۔ مختصراً، بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود اففانستان میں چین کی سلامتی کے لیے خطرات بدستور برقرار ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات ایک حد سے زیادہ مستحکم نہیں۔ آنے والے برسوں میں طالبان چین کے مستقبل کے تعلقات کا رخ یہی سکیورٹی مسائل متعین کریں گے۔
عبدالباسط خان  
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
shiningpakistan · 5 months
Text
میاں صاحب ! آپ کو کیوں لایا گیا؟
Tumblr media
نواز شریف ایک بات پھر خطرناک ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر اُن سے اپنا غصہ نہیں سنبھل رہا اور وہ اب بھی اپنی گزشتہ تین حکومتوں کے خاتمہ کا احتساب چاہتے ہیں تو آگے رولا ہی رولا ہو گا۔ جبکہ میاں صاحب کی واپسی کے لیے سہولت کاری نہ ہی پرانے کٹے کھولنے اور پرانی لڑائیاں لڑنے کے لیے کی گئی اور نہ اُن کے لیے آئندہ انتخابات کا رستہ اس لیے ہموار کیا جا رہا ہے کہ ہم اُس تاریخ سے ہی نہ نکل سکیں جس نے فوج اور سول کے درمیان لڑائیوں کی وجہ سے ملک اور عوام کی حالت ہی خراب کر دی۔ موجودہ صورتحال میں جو بھی حکومت آئے گی اُس کے لیے ماسوائے معیشت کی بہتری، کاروباری حالات اور سرمایہ کاری کے فروغ، مہنگائی پر قابو پانے، زراعت، آئی ٹی، مائننگ اور دوسرے شعبوں میں ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے بہترین گورننس کے علاوہ کوئی دوسری چوائس نہیں ہو گی۔ ڈیفالٹ سے ہم بمشکل بچے لیکن اگر ملک کو اس خطرے سے بچانا ہے اور معاشی مشکلات سے نکلنا ہے تو پھر میاں صاحب کو واقعی اپنا غصہ، اپنے ذاتی معاملات وغیرہ کو بھلانا پڑے گا۔
جو میاں صاحب کو لا رہے ہیں اُن کی بھی ساری توجہ اس وقت پاکستان کی معیشت، کاروبار، ٹیکس سسٹم وغیرہ کو درست کرنے پر ہے، کھربوں کا نقصان کرنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو یقینی بنانا ہے تاکہ پاکستان معاشی طور پر استحکام حاصل کر سکے، ہماری ایکسپورٹس میں اضافہ ہو، یہاں کارخانے چلیں، ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ ہو۔ شہباز شریف نے بحیثیت وزیراعظم آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ مل کر معیشت کی بہتری کے لیے ایک روڈ میپ کی بنیاد رکھ دی تھی، جس کا مقصد سب کو مل کر، فوکس ہو کر پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر بنانا ہے تاکہ ہمارا انحصار بیرونی معاشی اداروں اور دوسری قوتوں پرسے ختم ہو سکے اور ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ اگر میاں صاحب نے بھی واپس آ کر لڑنا ہی ہے تو پھر عمران خان کو بھی الیکشن لڑنے دیں، تحریک انصاف کا رستہ کیوں روکا جائے۔ پھر جو الیکشن جیتے اپنے اپنے بدلے لے۔
Tumblr media
تحریک انصاف کو اس لیے روکا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان الیکشن جیتتا ہے تو پھر اُس کا مطلب ہے کہ نئی حکومت کے آتے ہی فوج سے ایک نئی لڑائی شروع ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں نہ یہاں سیاسی استحکام آسکے گا اور نہ ہی معاشی استحکام ممکن ہو گا۔ عمران خان کی فوج سے لڑائی جیسی بڑی غلطی نے نواز شریف کی واپسی کا رستہ ہموار کیا۔ اب اگر وہ اپنی پرانی غلطیاں دہرانا چاہیں تو اُن کی مرضی، تاہم ان کی اس روش سے نہ اُنہیں کچھ ملے گا نہ پاکستان کو اور نہ ہی عوام کو۔ اُن کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ فوج کی مدد سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے لیے دن رات کام کریں، گورننس کی بہتری پر توجہ دیں، مہنگائی پر قابو پائیں اور سب سے اہم بات یہ کہ عوام کو اپنے بہترین طرز حکومت سے اس طرح مطمئن کریں کہ لوگ جب حکومتی محکموں میں اپنے کام کے لیے جائیں تو اُن کے کام فوری ہوں، بغیر رشوت بغیر سفارش۔ اُنہیں دھکے نہ پڑیں، اُن کا احترام کیا جائے۔
پولیس، تھانے، کچہری، محکمہ مال، افسر شاہی، بجلی و گیس کے محکمے سب کو عوام کی خدمت کے لیے بدل دیں تاکہ ہمارے ہاں بھی عوام کے کام میرٹ کے مطابق Smooth طریقے سے ہوں۔ جو حکمران پاکستان کو صحیح معنوں میں بدلے گا عوام اُس کے ساتھ ہی ہوں گے، معیشت اچھی ہو گی، طرز حکمرانی بہترین ہو گا، عوام سرکاری محکموں کی خدمات سے خوش ہوں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاسی معاملات سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور شارٹ کٹ نہیں۔ میاں صاحب جو سپورٹ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مل رہی ہے اُس کو پاکستان اور عوام کے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ اپنے غصے پر قابو پائیں اور جو موقع آپ کے لیے پیدا کیا جا رہا ہے اس کو ضائع مت کریں۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 5 months
Text
پی ٹی آئی کے سرپرائز کی صورت میں
Tumblr media
عمران خان کیلئے بہتر ہوتا کہ اپنی زیرعتاب سیاسی جماعت کے مستقبل کو بچانے اور آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے الیکشن لڑنے کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے تحریک انصاف کے اُن سیاستدانوں پر اعتبار کرتے جو فوج مخالف بیانیہ کا کبھی حصہ نہیں رہے۔ لیکن خان صاحب نے ایک طرف تو اپنی جماعت کی سیاست ایسے وکلاء کے حوالے کر دی ہے جو ایک نئی لڑائی لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں اب بھی اُن رہنمائوں کی اکثریت ہے جو انڈرگرائونڈ ہیں اور جنہیں پولیس اور ایجنسیاں گرفتاری کیلئے تلاش کر رہی ہیں۔ اپنی اور اپنی جماعت کی مقبولیت کے زعم میں خان صاحب نے فوج سے ہی ڈائریکٹ ٹکر لے لی اور پھر اُس کے بعد جو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف تتربتر ہو گئی۔ اس کے کوئی دو ڈھائی سو سابق ممبرانِ اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑ گئے، نئی سیاسی جماعتیں بن گئی۔ عمران خان سمیت کئی رہنما گرفتار ہو گئے اور کئی انڈر گرائونڈ چلے گئے۔ انتخابات کی تاریخ دے دی گئی لیکن تحریک انصاف کیلئے گھیرا تنگ ہی ہے اور آثار جو نظر آ رہے اُن کے مطابق یہ گھیرا تنگ ہی رہے گا۔ 
تحریک انصاف کو اب بھی یقین ہے کہ اگر بلے کے نشان پر اس کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو چاہے عمران خان جیل میں ہوں یا نااہل بھی کر دیئے جائیں تو انتخابات وہی جیتیں گے۔ حال ہی میں میری گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ( جو اپوزیشن لیڈر بننے سے پہلے ہی ن لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کر چکے تھے) سے بات ہوئی۔ راجہ ریاض کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے قریب ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی طرف سے موجودہ نگراں وزیراعظم کا نام بھی سامنے آیا اور پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نےاسے فوراً قبول بھی کر لیا۔ چند ہفتے قبل راجہ ریاض نے وسط فروری میں الیکشن ہونے کی پیشنگوئی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات کے دوران عمران خان جیل میں ہی ہوں گے اور بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان بھی نہیں ہو گا۔ اب جب میری راجہ ریاض صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ صورتحال کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ 
Tumblr media
اُن کا کہنا تھا کہ بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر ہو گا لیکن تحریک انصاف کے جو لوگ الیکشن لڑیں گے اُن کی بڑی اکثریت میں نئے چہرے ہوں گے یعنی اُن کے پاس الیکشن لڑنے کا تجربہ نہیں ہو گا، اُن کے پاس الیکشن مہم کیلئے وقت بھی کم ہو گا جبکہ ماضی کے برعکس تحریک انصاف کو الیکشن کیلئے فنڈنگ کی بھی کمی ہو گی۔ راجہ ریاض کے مطابق ان وجوہات کے باعث تحریک انصاف بہت کم سیٹیں جیتے گی۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے بارے میں ایسی ہی حکمت عملی دیکھنے کو ملے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے مطابق بیلٹ پیپر پر اگر بلے کا نشان ہوتا ہے تو تمام تر مشکلات کے باوجود تحریک انصاف الیکشن جیت جائے گی اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے اور تحریک انصاف انتخابات میں سرپرائز دے دیتی ہے تو کیا پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ سوچا ہے کہ ایسے سرپرائز کے بعد پھر کیا ہو گا۔ خصوصاً ایسی صورتحال میں جب کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ 
جن کو تحریک انصاف کی جیت کا یقین ہے وہ اس نکتہ کے متعلق سوچ بچار ضرور کریں کیوں کہ انتخابات کے بعد پاکستان کسی نئی کھینچا تانی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور 9 مئی کے بعد اگر تحریک انصاف کے اندر کوئی اب بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اپنی مقبولیت کے باعث وہ کوئی نئی لڑائی لڑ کر جیت سکتا ہے تو ایسا مجھے ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی پاکستان کی قوم بشمول تحریک انصاف کے ووٹرز کی بڑی اکثریت اپنی ہی فوج کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ جولائی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاک فوج کی بحیثیت ادارہ مقبولیت 88 فیصد تھی۔ یہ وہی سروے ہے جس میں عمران خان کو سیاستدانوں میں سب سے زیادہ مقبول دکھایا گیا تھا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 5 months
Text
اونے پونے افغان ہمارے کس کام کے
Tumblr media
دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں چوتھائی پاکستان ڈوب گیا۔ دیہی علاقوں میں پھنس جانے والوں کے ہزاروں مویشی سیلاب میں بہہ گئے اور جو بچ گئے انھیں بھی اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے اونے پونے بیچنا پڑا۔ سیلاب کے ماروں کے ہم زبان و ہم علاقہ و ہم عقیدہ بیوپاریوں نے مصیبت کو کاروبار میں بدل دیا۔ میں نے مظفر گڑھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا کہ جانوروں کے بیوپاری حفاظتی بندوں پر گدھ کی طرح منڈلا رہے تھے۔ جس گائے یا بیل کی قیمت عام حالات میں پچاس ہزار روپے تھی۔ اس کی بولی پندرہ سے بیس ہزار روپے لگائی گئی۔ کوئی بھی بیوپاری پانچ ہزار کی بکری اور دنبے کا ساڑھے سات سو روپے سے زائد دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ جبکہ مرغی کی قیمت پچاس سے ستر روپے لگائی جا رہی تھی اور سیلاب زدگان کو اس بلیک میلنگ سے بچنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ قصہ یوں یاد آ گیا کہ ان دنوں یہ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں کہ جن افغان مہاجرین کو پاکستان میں جنم لینے والی دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کے ہمراہ افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ انھیں فی خاندان صرف پچاس ہزار روپے لے جانے کی اجازت ہے۔ وہ اپنے مویشی نہیں لے جا سکتے۔ 
بہت سوں نے پاکستان میں مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ ان کے بچے اور پھر بچوں کے بچے ہوئے۔ انھوں نے ٹھیلے لگائے، دوکانیں کھولیں، ٹرانسپورٹ کا کام کیا۔ بہت سے مقامی بیوپاری ان کے لاکھوں روپے کے مقروض ہیں۔ پاکستانی شہری نہ ہونے کے سبب جن مقامی لوگوں کی شراکت داری میں انھوں نے کاروبار کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اب آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ ان کے گھروں اور دوکانوں کی قیمت ساٹھ سے ستر فیصد تک گر چکی ہے۔ ان مہاجروں کو نہیں معلوم کہ سرحد پار پچاس ہزار روپے سے وہ کیا کام کریں گے۔ ان کی زیرِ تعلیم بچیاں افغانستان کے کس سکول میں پڑھیں گی؟ جن خاندانوں کی کفالت عورتیں کر رہی ہیں ان عورتوں کو افغانستان میں کون گھروں سے باہر نکلنے دے گا؟ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان پناہ گزینوں کو تمام ذاتی سامان کے ساتھ ساتھ املاک اور کاروبار کی فروخت سے ملنے والے پیسے ہمراہ لے جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کے کیمپوں میں رکھ دیا جاتا اور ان کیمپوں کی ذمہ داری مشترکہ طور پر قانون نافذ کرنے والوں اور اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں ِ( یو این ایچ سی آر ) کے سپرد کر دی جاتی۔ اس بابت ایرانی ماڈل کا مطالعہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہ تھا۔
Tumblr media
یہ بھی ممکن تھا کہ تب تک انتظار کر لیا جاتا جب تک پاکستان سمیت عالمی برادری کابل حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کر لیتی۔ یا افغانستان میں انسانی حقوق کے حالات سے مطمئن نہ ہو جاتی اور اس کے بعد اقوام ِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مشورے سے مہاجرین کی واپسی کی کوئی باعزت پالیسی مرتب کر کے اس پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جاتا تاکہ بہت سے عالمی ادارے اور حکومتیں ان مہاجرین کی وطن واپسی کے بعد انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ بنیادی سہولتیں دان کر دیتیں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی غیرقانونی تارکِ وطن سے ہمدردی نہیں۔ مگر ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ پاکستانی بھی غیرقانونی طور پر ملک چھوڑ کے یورپ اور دیگر براعظموں کا رخ کر رہے ہیں۔ جہاں رفتہ رفتہ انھیں بنیادی سہولتیں اور حقوق میسر آ ہی جاتے ہیں۔ کیا آپ نے حال فی الحال میں کبھی سنا کہ کسی مغربی ریاست نے چالیس برس سے ملک میں رہنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو اجتماعی طور پر وہاں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے بچوں سمیت باہر نکال دیا ہو؟ اگر مغرب بھی ایسی ہی پالیسی اپنا لے تو فوراً تنگ نظری، نسلی امتیاز، تعصب کا ٹھپہ ہم ہی لوگ لگانے میں پیش پیش ہوں گے۔
بنگلہ دیش چاہتا تو شہریت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مشرقی پاکستانیوں کو بیک بینی و دو گوش ملک سے نکال سکتا تھا۔ مگر پچاس برس ہونے کو آئے یہ مشرقی پاکستانی جن کی تعداد اب چند ہزار رہ گئی ہے۔ آج بھی ڈھاکہ کے جنیوا کیمپ میں ریڈکراس کی مدد سے جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیوں کا بوجھ بھی بٹا رہا ہے جن میں سے آدھوں کے پاس کاغذ ہی نہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بلا دستاویزات مقیم افغانوں کی بے دخلی کے بعد ان افغانوں کی باری آنے والی ہے جن کے پاس اپنی مہاجرت قانوناً ثابت کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔ مگر ان دستاویزات کی معیاد ہر دو برس بعد بڑھانا پڑتی ہے اور حکومتِ پاکستان کا اس بار ان کی مدت میں اضافے کا کوئی موڈ نہیں۔ حالانکہ اقوامِ متحدہ کے بقول یہ لاکھوں مہاجرین پناہ گزینیت سے متعلق انیس سو اکیاون کے بین الاقوامی کنونشن کی طے شدہ تعریف پر پورے اترتے ہیں اور انھیں ایک غیر محفوط ملک میں واپس جبراً نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مگر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔
اسی سے ملتی جلتی پالیسی اکیاون برس قبل یوگنڈا کے فوجی آمر عیدی امین نے اپنائی تھی جب انھوں نے لگ بھگ ایک صدی سے آباد نوے ہزار ہندوستانی نژاد باشندوں ( ایشیائی ) کو نوے دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور فی خاندان محض دو سو بیس ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔ جن پاکستانی فیصلہ سازوں نے کالعدم ٹی ٹی پی اور کابل حکومت کے خلاف غصے کو تمام افغان پناہ گزینوں پر برابر تقسیم کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی یہ پالیسی وضع کی ہے۔ ان فیصلہ سازوں کی اکثریت کے پاس آل اولاد سمیت دوہری شہریت ہے اور یہ دوہری شہریت بھی ان ممالک کی ہے جہاں ہر سال لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن پہنچتے ہیں اور وہ ایک مخصوص مدت میں متعلقہ قانونی ضوابط سے گذر کے بالاخر قانونی بنا دئیے جاتے ہیں۔ چالیس برس پہلے افغانوں کو اسلامی بھائی کہہ کے خوش آمدید کہا گیا اور ان کے کیمپ دکھا دکھا کے اور مظلومیت بیچ بیچ کر ڈالر اور ریال وصولے گئے۔ کس نے وصولے اور کہاں لگائے۔ خدا معلوم۔ جب گائے دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو چارے کا خرچہ بچانے کے لیے اسے چمڑہ فروشوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes