اس نے کہا میں نے مان لیا اس نے اسرار کیا مجھے شک گزرا جب اس نے قسمیں کھانا شروع کر دی تو مجھے یقین ھو گیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ھے۔؛ (خلیل جبران)
Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
0 notes
Photo

Install https://www.instagram.com/p/COI-4FHr5ar/?igshid=10ofutzikdjry
0 notes
Text
0 notes
Text
نیڈائن پار (دائیں) اپنی بہترین دوست ثریا دین کے ساتھ جنھوں نے اُنھیں رمضان میں ساتھ روزہ رکھنے کی ترغیب دی
سری لنکا میں مرکزی اپوزیشن کی نمائندگی کرنے والے نوجوان سیاستدان ریہان جے وکرمے نے 13 اپریل کو ایک حیران کُن اعلان کیا۔
اُنھوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ��میں بدھسٹ ہوں اور بودھ فلسفہ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔‘
’ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میں رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ روزے رکھنے کے لیے بے تاب ہوں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوگا سو میری خوش قسمتی کے لیے دعا کریں۔‘
وہ سری لنکا کے جنوبی شہر ویلی گاما کی اربن کونسل کے چیئرمین ہیں اور جب سے 14 اپریل کو رمضان شروع ہوا ہے، تب سے وہ دن کے اوقات میں کھانے اور پینے سے پرہیز کر رہے ہیں۔
اس سال غیر معمولی اتفاق یہ ہوا ہے کہ اکثریتی طور پر بدھسٹ ملک سری لنکا میں مسلمانوں نے ماہِ رمضان کا آغاز اسی دن کیا جب سنہالا اور تمل برادریوں نے اپنے نئے سال کا آغاز کیا۔
مگر سری لنکا کے کثیر المذہبی معاشرے کو تقریباً دو سال پہلے اُس وقت جھٹکا لگا جب اسلامی عسکریت پسندوں نے ایسٹر کی تقریبات کے دوران گرجا گھروں پر خود کش حملے کیے جس میں 270 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔

،تصویر کا ذریعہHANDOUT
،تصویر کا کیپشن
ریحان جے وکرمے (بائیں سے دوسرے) اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ روزہ کھول رہے ہیں
بدھسٹ سیاستدان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک ماہ طویل اسلامی روایت میں شمولیت کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ اُن حملوں کے بعد پیدا ہونے والے مسلمان مخالف جذبات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ریحان جے وکرمے کو ٹوئٹر پر متعدد لوگوں نے سراہا اور ان کے اقدام کی حمایت کی مگر اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلم ہوتے ہوئے رمضان منانا صرف اُن کا ہی خاصہ نہیں ہے۔
سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں مقیم صحافی میری این ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ وہ بھی کافی عرصے سے ایسا کر رہی ہیں۔
’میں کیتھولک ہوں اور رمضان میں روزے رکھتی ہوں۔ اس سے ذہن صاف ہوتا ہے، شعور، رحمدلی اور نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔ گڈ لک!‘
سری لنکن وزیرِ اعظم کے دفتر میں ڈائریکٹر جنرل (بین الاقوامی اُمور) انورادھا کے ہیراتھ نے کہا کہ وہ بھی ایک مرتبہ رمضان کے روزے رکھ چکی ہیں۔
اُنھوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’مجھے یاد ہے کہ میں نے بھی بہت عرصہ پہلے موراتوا یونیورسٹی میں ہوتے ہوئے یہ کیا تھا۔ میرے دوست @sifaan مجھے صبح کھانے کے لیے جلدی اٹھایا کرتے تھے اور پھر دوپہر میں لیکچرز کے دوران کھانے کو دیا کرتے تاکہ میں روزہ ختم کروں۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کا یہ تجربہ کافی اچھا رہے گا۔‘
نسل پرستی کے خلاف
ریحان جے وکرمے کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ فیصلہ ہمارے ملک کے چند رہنماؤں کی جانب سے پھیلائی گئی نسل پرستی کے خلاف احتجاجاً کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں بلکہ یہ نسل پرستی کے خلاف احتجاج ہے۔‘
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسٹر سنڈے حملوں کے بعد سے سری لنکا کی اقلیتی مسلم برادری کو نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سری لنکا کی تقریباً 70 فیصد آبادی بدھسٹ ہے۔ باقی آبادی ہندوؤں، مسلمانوں اور کیتھولک مسیحیوں پر مشتمل ہے۔
’جب میں مسلمان لوگوں کو یہ دکھاتا ہوں کہ بطور اکثریت ہم اُن کا خیال کرتے ہیں، تو میں اُنھیں ایک احساسِ مقصد، ایک احساسِ تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہوں۔ میں اُنھیں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم اُن کا خیال کرتے ہیں۔‘
ریحان کے چند ناقدین نے ان پر مسلمان ووٹوں کے پیچھے بھاگنے کا الزام لگایا ہے۔ اس کے جواب میں اُنھوں نے اپنے ایک حامی کی جانب سے ٹوئٹر پر کیے گئے تبصرے کا تذکرہ کیا: ’مذہبی ہم آہنگی پھیلا کر ووٹ حاصل کرنا مذہبی منافرت پھیلا کر ووٹ حاصل کرنے سے کہیں بہتر ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہHANDOUT
،تصویر کا کیپشن
صحافی میری این ڈیوڈ ایک کیتھولک مسیحی ہیں مگر 15 سال سے زیادہ عرصے سے رمضان کے روزے رکھ رہی ہیں
میری این ڈیوڈ کیتھولک ہیں اور گذشتہ 15 برس سے بھی زیادہ عرصے سے ماہِ رمضان منا رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ذات کو دوبارہ مرکز پر لانے کے لیے اور حقیقی چیزوں پر غور کرنے کے لیے یہ وقت استعمال کرتی ہیں۔
’روزہ رکھنا اس مسلسل سوچ کو کافی حد تک ختم کرنا ہے کہ کیا کھانا ہے، اس سے آپ بار بار بلاوجہ کھانے کے بارے میں سوچ کر اپنی توجہ نہیں کھوتے کیونکہ آپ کا دل چاہ رہا ہوتا ہے یا آپ سست ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس سے دن میں مزید نظم و ضبط اور ترتیب پیدا ہوتی ہے۔‘
اُن کا خیال ہے کہ روزہ رکھنے سے اُن کی توجہ بہتر ہوتی ہے اور وہ صحتمند محسوس کرتی ہیں۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’دن کے وقت روزہ رکھنا اُن لوگوں کے لیے کوئی بہت بڑی قربانی نہیں ہے جن کے پاس زندگی کی دوسری مراعات اور ملازمتیں پہلے ہی موجود ہیں۔‘
’یہ اُن لوگوں کے لیے مشکل ہے جو مزدوری کرتے ہیں، یا اس گرمی میں باہر کام کرتے ہیں، یا اُن لوگوں کے لیے جن کے پاس اس وقت کھانے کے لیے اچھا اور صحتمند کھانا نہیں ہے۔‘
اُن کے نزدیک رمضان کا ایک اہم پہلو اُن لوگوں کے بارے میں سوچنا ہے جو سری لنکا میں آسانی سے غذا حاصل نہیں کر سکتے۔
اُن کا اصرار ہے کہ ’دینا‘ اہم ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ کھانے سے اجتناب کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ جس قدر ممکن ہو دوسروں کو عطیہ دیا جائے، مجبوروں کو کھلایا جائے اور اُن کی ضروریات پوری کی جائیں تاکہ وہ بھی روزہ رکھ سکیں۔‘

،تصویر کا ذریعہHANDOUT
،تصویر کا کیپشن
میری این کی افطار، جس میں سرخ چاول، روٹی، بیف قیمہ، سلاد، شربت، کھجوریں اور پانی ہوتا ہے
اتحاد اور اظہارِ یکجہتی
دنیا کی دوسری جانب امریکہ میں ایک اور غیر مسلم نیڈائن پار ہیں جو رمضان کا اہتمام کرتی ہیں۔ وہ مسیحی ہیں اور اُنھیں اُن کی ایک دوست مسلمان خا��ون نے رمضان سے متعارف کروایا تھا۔
’یہ میرے پیارے دوستوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جب میں رمضان میں روزے رکھتی ہوں تو پیغمبر عیسیٰ کی پیروکار ہونے کے طور پر یہ اپنے مذہبی عقیدے کی پاسداری بھی ہے۔‘
نیڈائن ایک مصنفہ، کاروباری تربیت کار اور ٹیچر ہیں۔ وہ ریاست مشیگن کے شہر گرینڈ ریپڈز سے تعلق رکھتی ہیں۔
’اب کافی عرصہ ہوگیا ہے مگر تقریباً سات سالوں سے پانی کی پابندی کو چھوڑ کر میں نے رمضان کے روزوں کی روایتی پابندیوں کی پاسداری کی ہے۔ میں صبح سورج نکلنے سے پہلے ناشتہ کرتی ہوں اور سورج غروب ہونے تک ہر طرح کے کھانے سے اجتناب کرتی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’برادری کا احساس اور مختلف ثقافتوں اور مذہبی عقائد کے حامل دوستوں کے ساتھ تعلقات کی استواری اس مشترکہ سفر میں میرا سب سے پسندیدہ حصہ ہے۔‘
اور سب سے اہم چیز انسانیت ہے۔ ایک پورے ماہ کے لیے کھانے سے اجتناب کرنا تاکہ خود کو پابند کرنے کے ایک جسمانی اقدام سے کوئی روحانی سچ آشکار ہوجائے ہم سب کو یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہم اپس میں کتنے جُڑے ہوئے ہیں۔ مجھے اس سے خوشی ملتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہHANDOUT
،تصویر کا کیپشن
نیڈائن پار گذشتہ سات سال سے رمضان کے روزے رکھ رہی ہیں
مل جل کر رہنے کا وقت
سری لنکا کی جانب واپس آتے ہیں جہاں میری این ڈیوڈ کہتی ہیں کہ ’یہ صرف قربانی اور نظم و ضبط کی بات نہیں ہے بلکہ مل جل کر رہنے اور پیاروں کے ساتھ خوشیاں منانے کا وقت بھی ہے۔‘
’جب ہم دوستوں یا خاندان کے ساتھ روزہ کھولنے باہر جاتے ہیں یا اُنھیں گھر بلاتے ہیں تو یہ کسی ڈنر پارٹی کی ہی طرح ہوتا ہے، بس اس میں شراب نہیں ہوتی۔ ہم نئے کھانے آزماتے ہیں اور ہر کوئی لطف اندوز ہوتا ہے، بھلے ہی کچھ دن کے بعد آپ زیادہ نہیں کھا پاتے۔‘
آپ کو جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے وہ پانی ہے، خاص طور پر اس موسم میں۔ مگر اس کے فوائد اس قربانی سے کہیں زیادہ ہیں۔ میں نے جب سے روزہ رکھنا شروع کیا ہے، تب سے مجھے جس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ صرف پانی ہے۔ باقی سب کچھ آسان ہے ایک مرتبہ آپ خود کو اس حساب سے ڈھال لیں اور مقصد سمجھ کر کریں۔‘

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
نیڈائن ایک باعمل مسیحی ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کر میں خود کو خدا سے قریب محسوس کرتی ہوں
نیڈائن کے لیے روزہ رکھنا اُن کی روحانی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔
’میں ہر اس شخص کو اس کی تجویز دوں گی جو تھک چکا ہے اور جوابات کی تلاش میں ہے۔ جب ہم ہر وقت بھوک مٹانے کے چکر میں رہتے ہیں تو ہم مقدس مقامات اور لمحات سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ خودکار مشین بن جانا اور خدا پر اپنے انحصار کو بھلا دینا آسان ہوجاتا ہے۔‘
وہ مانتی ہیں کہ پانی اور کھانے سے اجتناب نے اُن کے عقیدے کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔
’ہم اپنی ضرورت سے آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں۔ ہماری ضروریات کو ایک نیا رخ ملتا ہے۔ ہم خدا کا تجربہ کرتے ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
،تصویر کا کیپشن
سری لنکن مسلمان کولمبو کی ایک مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں
مگر یہ آسان نہیں ہے
ج�� وکرمے کے لیے یہ نیا تجربہ آسان نہیں رہا ہے۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں صبح چار بجے اٹھا اور ناشتے میں کچھ کھجوریں، دہی اور پھل کھائے۔ اس کے بعد میں نے شام ساڑھے چھ بجے تک کچھ نہیں کھایا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس نئے تجربے کے بعد وہ دن کے اختتام پر تر و تازہ محسوس کر رہے ہیں مگر اُنھیں اس حوالے سے بھی شک ہو رہا ہے کہ کیا وہ پورا مہینہ یہ عمل جاری رکھ سکیں گے۔
’میں تب تک جاری رکھوں گا جب تک ہو سکے گا۔ مگر بالکل ہی پانی نہ پینا بہت مشکل کام ہے۔‘
اسی بارے میں

0 notes
Text

ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ
5 ﻣﺎﺭ ﭺ 2019
ﺷﯿﺌﺮ
ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﭘﯽ ﺭﺍﺋﭧ RADIO PAKISTAN
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮨﮯ۔
ﺑﺤﺮﯾﮧ ﮐﮯ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺯﻭﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﻍ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﺑﯿﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﻮ ﺧﻔﯿﮧ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﺮ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﻮ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯿﮯ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺣﺪﻭﺩ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ
ﺑﺎﻻﮐﻮﭦ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﻃﯿﺎﺭﮮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﭽﮯ؟
ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﺎ ﺟﯿﺶِ ﮐﯿﻤﭗ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ
ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﻻﺋﻦ ﭘﺮ ﮐﺸﯿﺪﮔﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ، ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﯽ ﺟﺎﺭﯼ
ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﭨﺎﺋﻢ ﺳﭩﯿﻤﭗ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺮ ﮐﯽ ﺷﺐ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﺁﭨﮫ ﺑﺠﮯ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ۔
ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺗﺎﺣﺎﻝ ﺍﺱ ﺩﻋﻮﮮ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺩﻋﻤﻞ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻣﻦ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﺎﻟﯿﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺪﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﻮ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﺑﺤﺮﯾﮧ ﮐﮯ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻧﻮﻣﺒﺮ 2016 ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﺟﺐ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﻧﮯ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯﮐﺎ ﺳُﺮﺍﻍ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ 14 ﻧﻮﻣﺒﺮ 2016 ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﻠﯿﭧ ﯾﻮﻧﭩﺲ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺣﺪﻭﺩ ﮐﮯ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺗﺎﮨﻢ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺩﻋﻮﮮ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﮐﯽ ﻣﺒﯿﻨﮧ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺳﺮﺣﺪﯼ ﮐﺸﯿﺪﮔﯽ ���ﺮﻭﺝ ﭘﺮ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺣﺎﻟﯿﮧ ﮐﺸﯿﺪﮔﯽ ﭘﻠﻮﺍﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﻧﯿﻢ ﻓﻮﺟﯽ ﺩﺳﺘﮯ ﮐﯽ ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺮ ﺧﻮﺩﮐﺶ ﺣﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺯﻭﺭ ﭘﮑﮍﺍ ﺟﺐ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻓﻀﺎﺋﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﮐﯽ ﺧﻼﻑ ﻭﺭﺯﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻻﮐﻮﭦ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻤﺒﺎﺭﯼ ﮐﯽ۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻻﺋﻦ ﺁﻑ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﮐﮯ ﭘﺎﺭ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺍﮨﺪﺍﻑ ﮐﻮ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺭﺩﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﻃﯿﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﻣﺎﺭ ﮔﺮﺍﯾﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺋﻠﭧ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﻮ ﺣﺮﺍﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﻮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻻﺋﻦ ﺁﻑ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻓﺮﯾﻘﯿﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺎﻧﺐ ﮨﻼﮐﺘﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ۔
0 notes
Text

mePerformance
Main content
Are smartphones the future of filmmaking?
20 February 2019
Steven Soderbergh’s basketball drama High Flying Bird is the latest feature film to be shot entirely on an iPhone. As hand-held technology grows ever more powerful, TOM CHURCHILL asks if we're seeing the start of a seismic shift in the movie industry.
Steven Soderbergh uses an iPhone on the set of High Flying Bird, with and Bill Duke and André Holland | Photo © Netflix
High Flying Bird, a micro-budget drama about a sports agent taking on the establishment, isn’t the first movie to be shot entirely on smartphones. It’s not even the first Steven Soderbergh movie to be shot entirely on smartphones - his 2018 psychological horror Unsane was made the same way.
But it does mark a significant step towards mainstream acceptance for a practice that has, until recently, been seen as a gimmick that’s unlikely to challenge the conventions of Hollywood.
It's one of the most liberating experiences that I’ve ever had as a filmmaker
Steven Soderbergh
Soderbergh shot to fame in 1989 with Sex, Lies and Videotape and since then has juggled blockbuster hits (the Ocean's Eleven series, Magic Mike) with more experimental fare (Contagion, Side Effects) and TV drama (The Knick, The Girlfriend Experience).
As a longstanding champion of digital photography, in the past two years he has become the highest-profile advocate of smartphones for serious filmmaking.
“I think this is the future,” he declared at Sundance last year while promoting Unsane, which he shot in two weeks for just $1.5 million using the iPhone 7 Plus. “I look at this as potentially one of the most liberating experiences that I’ve ever had as a filmmaker.”
For High Flying Bird, released through Netflix to critical acclaim earlier this month, the budget was upped to $2m - still minuscule by Hollywood standards, where blockbuster Black Panther weighed in at $200m and even a 'low-budget' film like The Favourite cost $15m - and Soderbergh pushed the iPhone even further, using wide-angle lenses and capturing lengthy hand-held tracking shots.
Discussing the film on the Bill Simmons Podcast in January, Soderbergh said: “If I had a traditional camera package […] the film I think would not have been any better. It might have been worse. It certainly would have taken longer.” He’s not wrong about the last point. A tweet from Soderbergh’s ‘secret’ account reveals the first cut was completed less than three hours after filming wrapped.
Claire Foy, Juno Temple and Joshua Leonard in Unsane | Photo: AF archive/Alamy Stock Photo
After the release of Apple’s iPhone 4 - the first model to shoot HD video - in 2010, tech-savvy, budget-conscious filmmakers were quick to tap into its potential. Thanks to dedicated add-on lenses and apps such as FiLMiC Pro - as well as each new iteration of the iPhone improving on the last - these tiny devices were increasingly capable of rivalling large cameras that cost far more.
The iPhone itself does have a certain aesthetic that was unnerving
Joshua Leonard on Unsane
And while current technological limitations mean there is still a particular 'look' associated with smartphone footage - they perform less well in low-light conditions, and tend to put the entire frame into unnaturally sharp focus - this can be used to creative effect.
Actor Joshua Leonard, who starred in Unsane alongside Claire Foy, told The Ringer: “The iPhone itself does have a certain aesthetic that was unnerving. The profound depth of field that you get in every shot, where every single piece of the frame is in focus, made for an uncomfortable experience in a way that I think served [Unsane] quite well.
“To me, the technology hasn’t advanced to the point where an iPhone movie won’t look like an iPhone movie. I think anybody using the iPhone technology right now will be integrating that aesthetic that the phone gives into their movie.”
For Soderbergh, the advantages outweigh any limitations. “What’s great about the iPhone is I can put it anywhere,” he says. “Literally, I can Velcro it to a ceiling, I can do whatever I want, and that’s very liberating.”
Sean Baker filming Mickey O’Hagan and Kitana Kiki Rodriguez with the iPhone 5S on the set of Tangerine, 2015 | Photo: TCD/Prod.DB/Alamy Stock Photo
Sean Baker, whose acclaimed iPhone-shot film Tangerine, about a transgender prostitute hunting her cheating boyfriend-pimp, marked a major breakthrough for the technology, has also highlighted its advantages over traditional cameras.
To me it’s more about using this device to catch candid moments
Sean Baker
He told Fast Company: “While [the iPhone] has helped me become more mobile, no pun intended - running around, finding tight areas and different ways of moving the camera - to me it’s more about using this device to catch candid moments. That’s the biggest thing. Because nobody takes the iPhone as seriously as a regular camera, so they have lowered inhibitions.”
While we're not yet at the point where an iPhone-shot movie isn't a newsworthy story in itself, the technology is rapidly closing the gap to conventional setups, and it seems inevitable that phone footage will be used more and more in the coming years - particularly in documentaries, where its unobtrusive size and ease of use offer obvious advantages.
But as well as allowing established directors to experiment with new techniques and work with lower budgets, perhaps the most important contribution of the smartphone is the way it has opened up the art of filmmaking to anyone with a phone, a laptop and an imagination. As Soderbergh says: “You really don’t need much more than what’s in your pocket and some software, and off you go.”
High Flying Bird is available on Netflix now
0 notes
Text

ﻟﯿﻮﻧﺎﺭﮈﻭ ﻓﮕﻮﺳﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ’ ﺍﺱ ﺑﯿﭽﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮧ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﮔِﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺑﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﺎﻻ ﺑُﻦ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
0 notes
Text

ﺍﺱ ’ ﺑﺎﻏﯽ ‘ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺭﻭﺑﯽ ﺑﺮﻧﺴﭩﯿﻦ ﻧﮯ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﻟﻨﺪﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﯼ۔ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ’ ﺳﺎﺭﮮ ﻧﻈﺎﻡ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
0 notes
Text

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﭙﺮ ﻟﯿﮓ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﯾﮩﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﻋﺮﺏ ﺍﻣﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﮐﮭﻼﮌﯼ۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﭙﺮ ﻟﯿﮓ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﻋﺮﺏ ﺍﻣﺎﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﻧﻮ ﻣﺎﺭﭺ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮓ ﮐﯽ ﺭﻭﻧﻘﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺋﻘﯿﻦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﯿﮓ ﮐﮯ ﻣﯿﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺳﺐ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﺑﺌﯽ ﮐﺎ ﺳﭩﯿﮉﯾﻢ ﺟﺘﻨﺎ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺷﺎﺋﻘﯿﻦ ﺑﮍﮮ ﮐﮭﻼﮌﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ۔؟
ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﭘﮍﮬﯿﮯ
ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ : ﺍﮮ ﺑﯽ ﮈﯼ ﻭﯾﻠﯿﺌﺮﺯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﮯ
ﻏﯿﺮﻣﻠﮑﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﻧﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﺩﯾﺎ : ﻧﺪﯾﻢ ﻋﻤﺮ
ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ :4 ﮐﺲ ﭨﯿﻢ ﮐﮯ ﺍﻣﮑﺎﻧﺎﺕ ﮐﺘﻨﮯ ﺭﻭﺷﻦ؟
ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻼﮌﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﭨﯿﻤﯿﮟ
ﺁﻧﺪﺭﮮ ﺭﺳﻞ ﺍﻥ ﻓﭧ ﮨﻮﮐﺮ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﭙﺮ ﻟﯿﮓ ﮐﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﭨﯿﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﮐﮭﻼﮌﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻻﮨﻮﺭ ﻗﻠﻨﺪﺭﺯ ﮐﮯ ﺍﮮ ﺑﯽ ﮈﯼ ﻭﯾﻠﯿﺌﺮﺯ ﻧﮯ ﮐﻤﺮ ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﻮ ﻭﺟﮧ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮﻟﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﮯ ﮐﻮﺭﮮ ﺍﯾﻨﮉﺭﺳﻦ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﻠﺘﺎﻥ ﺳﻠﻄﺎﻧﺰ ﮐﮯ ﺁﻧﺪﺭﮮ ﺭﺳﻞ ﺍﻭﺭ ﻻﮨﻮﺭ ﻗﻠﻨﺪﺭﺯ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻟﻮﺱ ﺑﺮﯾﺘﮫ ﻭﯾﭧ ﻭﯾﺴﭧ ﺍﻧﮉﯾﺰ ﭨﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﻮﺋﭩﮧ ﮔﻠﯿ���ﯼ ﺍﯾﭩﺮﺯ ﻭﮦ ﭨﯿﻢ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﮐﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﻨﺮ ﺷﯿﻦ ﻭﺍﭨﺴﻦ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﺭﺍﺋﻠﮯ ﺭﻭُﺳﻮ، ﮈﻭﺍﺋﯿﻦ ﺑﺮﺍﻭﻭ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺍﺩ ﺍﺣﻤﺪ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﯾﻮﻧﺎﺋﭩﮉ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﻠﯿﻨﮉ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﺴﻤﯿﻦ ﺍﯼ ﺍﯾﻦ ﺑﯿﻞ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍﻥ ﻓﭧ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﯾﻮﻧﺎﺋﭩﮉ ﮐﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﻮﮎ ﺭﺍﻧﮑﯽ، ﻓﻠﭗ ﺳﺎﻟﭧ،ﮐﯿﻤﺮﻭﻥ ﮈﯾﻞ ﭘﻮﺭﭦ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺖ ﭘﭩﯿﻞ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﻠﺘﺎﻥ ﺳﻠﻄﺎﻧﺰ ﮐﯽ ﭨﯿﻢ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﺍﯾﻞ ﮐﮯ ﭘﻠﮯ ﺁﻑ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﭻ ﻻﮨﻮﺭ ﻗﻠﻨﺪﺭﺯ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ۔
ﻣﻠﺘﺎﻥ ﺳﻠﻄﺎﻧﺰ ﮐﮯ ﻣﻨﯿﺠﺮ ﺳﺎﺑﻖ ﭨﯿﺴﭧ ﮐﺮﮐﭩﺮ ﻧﺪﯾﻢ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭨﯿﻢ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮐﻨﮕﺰ ﮐﮯ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻟﻦ ﻣﻨﺮﻭ، ﮐﺎﻟﻦ ﺍﻧﮕﺮﻡ، ﻟﻮﻧﮓ ﺳﭩﻮﻥ، ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺭﺿﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﯼ ﺑﻮﭘﺎﺭﮦ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﯿﮟ۔
ﭘﺸﺎﻭﺭ ﺯﻟﻤﯽ ﻭﮦ ﭨﯿﻢ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﮐﮭﻼﮌﯼ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﻢ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺟﺎﻭﯾﺪ ﺁﻓﺮﯾﺪﯼ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﮐﺮﮐﭩﺮﺯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔
0 notes
Text

ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﮕﺰﯾﻦ ﻓﻮﺭﺑﺰ ﮐﯽ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﺟﯿﻨﺮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮐﻢ ﻋﻤﺮ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﯿﻠﻒ ﻣﯿﮉ ﺍﺭﺏ ﭘﺘﯽ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﮕﺰﯾﻦ ﻓﻮﺭﺑﺰ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﺟﯿﻨﺮ ﻧﮯ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﮐﮯ ﺑﺎﻧﯽ ﻣﺎﺭﮎ ﺯﮐﺮﺑﺮﮒ ﮐﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻋﻤﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻠﻒ ﻣﯿﮉ ﺍﺭﺏ ﭘﺘﯽ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯿﺎ۔
ﻭﺍﺿﺢ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺎﺭﮎ ﺯﮐﺮﺑﺮﮒ 23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺏ ﭘﺘﯽ ﺑﻨﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺳﭩﺎﺭ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ 21 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﮨﮯ۔
ﮐﺎﺭﮈﯾﺸﯿﺌﻦ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﯽ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺗﺮﯾﻦ ﺭﮐﻦ ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﺟﯿﻨﺮ ﻧﮯ ﺳﻨﮧ 2015 ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮏ ﺍﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﮐﺎﺳﻤﯿﭩﮑﺲ ﺭﮐﮭﺎ۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯿﮯ
ﺳﻠﯿﺒﺮﯾﭩﯿﺰ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ���ﺮ ﻣﻘﺪﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ
ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﺟﯿﻨﺮ 20 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﮌ ﭘﺘﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ؟
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﺭﺥ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ
ﺍﻧﺴﭩﺎﮔﺮﺍﻡ ﭘﺮ ﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺩﻭﮌ
ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﮐﻤﭙﻨﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﻋﮑﺲ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺼﻨﻮﻋﺎﺕ ﺻﺮﻑ ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮨﻢ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻓﻮﺭﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻧﮯ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺳﺎﻝ 36 ﮐﺮﻭﮌ ﮈﺍﻟﺮﺯ ﮐﯽ ﻣﺼﻨﻮﻋﺎﺕ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯿﮟ۔
ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﺟﯿﻨﺮ ﻧﮯ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﮕﺰﯾﻦ ﻓﻮﺭﺑﺰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺤﻨﺖ ﺭﻧﮓ ﻻﺋﯽ ﮨﮯ۔ ‘
ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﺟﯿﻨﺮ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﺎﮨﺮﺍﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﺴﭩﺎﮔﺮﺍﻡ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ 11 ﮐﺮﻭﮌ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻓﺎﻟﻮﺭ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﮐﯽ ﻋﻤﺮﯾﮟ 18 ﺳﮯ 34 ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﯿﮟ۔
ﻓﻮﺭﺑﺰ ﻧﮯ ﮐﺎﺋﯿﻠﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﻭﺭ ﮨﯿﮉ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﮐﻢ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ 12 ﻣﻼﺯﻡ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﺕ ﮐﻞ ﻭﻗﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﯾﮕﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﭘﺮﯾﺸﻨﺰ ﺁﺅﭦ ﺳﻮﺭﺱ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﯼ ﻣﮩﻤﺎﺕ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻣﻔﺖ ﭼﻼﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
0 notes
Text

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﻣﮩﻢ ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﮨﺸﺘﮕﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﮯ۔
ﻣﮕﺮ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﻣﮩﻢ ﭘﺮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﭼﯿﻠﻨﺠﺰ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ، ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻣﺨﺘﻠﻒ ’ ﺧﺪﺷﺎﺕ ‘ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻗﻄﺮﮮ ﭘﻼﺗﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺪﺷﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻣﮩﻢ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﻏﻠﻂ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﻣﮩﻢ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﯼ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻏﯿﺮ ﻣﻨﻄﻘﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮯﺟﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﮯ ���ﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻋﻘﻞ ﺩﻧﮓ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﻣﮩﻢ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻠﮏ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻠﮑﺎﺭ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﻻﺩﻥ ﮐﻮ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﮮ ﭘﻼﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻭﮦ ﯾﮧ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎﺭﺭﻭﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﻻﺩﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﺒﭧ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﯾﮑﺴﻨﯿﺸﻦ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﮈﯼ ﺍﯾﻦ ﺍﮮ ﻧﻤﻮﻧﮯ ﻟﮯ ﻟﯿﮯ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺍﺏ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﮮ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮈﯼ ﺍﯾﻦ ﺍﮮ ﺍﮐﮭﭩﮯ ﮐﯿﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﻏﯿﺮ ﻣﻠﮑﯽ ﻃﺎﻗﺘﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﻮ ﻣﺆﺻﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﯿﮟ۔
ﻣﮕﺮ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﻭﮦ ﻭﺍﺣﺪ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﯾﮑﺴﻨﯿﺸﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻭﮦ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﻮ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﯾﮑﺴﻨﯿﺸﻦ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺼﺪﻗﮧ ﺍﻃﻼﻋﺎﺕ ﭘﺮ ﻟﻮﮒ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﻨﺪﺭﺟﮧ ﺫﯾﻞ ﺍﯾﺴﯽ ﺳﺎﺕ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻭﯾﮑﺴﻨﯿﺸﻨﺰ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯿﮯ
ﺩﺷﻮﺍﺭﮔﺰﺍﺭ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﺭﻭﻥ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻭﯾﮑﯿﺴﻦ ﮐﯽ ﮈﯾﻠﯿﻮﺭﯼ
ﺗﯿﻦ ﺍﻓﺮﯾﻘﯽ ﻣﻠﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﯿﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﭘﮩﻠﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ
ﺍﻧﺠﯿﮑﺸﻦ ﮐﺎ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
.1 ’ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺁﭨﺰﻡ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ‘
ﮔﺬﺷﺘﮧ ﭼﻨﺪ ﺩﮨﺎﺋﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﮑﺴﻨﯿﺸﻦ ﺳﮯ ﺣﻔﺎﻇﺘﯽ ﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﺟﺮﺍﺡ ﺍﯾﻨﮉﯾﻮ ﻭﯾﮑﻔﯿﻠﮉ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ۔
ﺳﻨﮧ 1997 ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻃﺒﯽ ﺟﺮﯾﺪﮮ ’ ﺩﯼ ﻟﯿﻨﺴﭧ ‘ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻟﮑﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺧﺴﺮﮦ، ﮐﻦ ﭘﯿﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺷﺪﯾﺪ ﺑﺨﺎﺭ ﮐﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ’ ﺍﯾﻢ ﺍﯾﻢ ﺁﺭ ‘ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﭦ ﺍﺯﻡ ﻧﺎﻣﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻦ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺱ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺁﭦ ﺍﺯﻡ ﮐﮯ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﮐﺴﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﮐﯽ ﻧﻔﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺩﯼ ﻟﯿﻨﺴﭧ ﻧﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺍﺱ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﻮ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﯾﮑﻔﯿﻠﮉ ﮐﻮ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﺭﺟﺴﭩﺮﯼ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺝ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﺗﺎﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺩﻋﻮﯼ ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﻔﺎﻇﺘﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﺎ۔ ﺳﻨﮧ 1996 ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺷﺮﺡ 92 ﻓﯿﺼﺪ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺳﻨﮧ 2002 ﻣﯿﮟ 84 ﻓﯿﺼﺪ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺷﺮﺡ 91 ﻓﯿﺼﺪ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮈﺑﻠﯿﻮ ﺍﯾﭻ ﺍﻭ ﮐﯽ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ 95 ﻓﯿﺼﺪ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﺳﮯ ﮐﻢ ﮨﮯ۔
’.2 ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺪﺍﻓﻌﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﺗﻨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ‘
ﺩﻭ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻢ ﮐﺰ ﮐ��� 11 ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ . ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺪﺍﻓﻌﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﺧﺪﺷﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﻭﺍﺋﺮﺱ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮑﭩﯿﺮﯾﺎ ﮐﻮ ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻣﺮﺽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺗﺎﮨﻢ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﺒﺎﺩﻝ ﻧﺴﺨﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﻣﺤﺮﮎ ﻧﮧ ﺑﻦ ﺳﮑﯿﮟ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﺟﺴﻢ ﮐﻮ ’ ﺍﺻﻞ ﺧﻄﺮﮮ ‘ ﺳﮯ ﻧﻤﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﭘﺎﻝ ﺍﮮ ﺍﻭﻓﭧ ﻧﮯ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﻣﻮﻟﻮﺩ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺪﺍﻓﻌﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﻖ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺗﺠﺰﯾﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﮧ ’ ﺑﭽﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﻣﺤﺮﮐﺎﺕ ﮐﻮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ‘
’ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﻭﮦ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻣﺪﺍﻓﻌﺘﯽ ﺩﻓﺎﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ‘
.3 ’ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﺎﮞ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘
ﺑﺤﺚ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﻭ ﻣﻌﺎﺷﯽ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ،ﺑﮩﺘﺮ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺳﺘﮭﺮﺍﺋﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺟﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﺆﺛﺮ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﭻ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﺎﺭﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻣﻮﺍﺕ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﻔﯿﮑﺸﻦ ﮐﮯ ﮐﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ۔
’ ﯾﻮ ﺍﯾﺲ ﺳﯿﻨﭩﺮ ﺁﻑ ﮈﯾﺰﯾﺰ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﺍﯾﻨﮉ ﭘﺮﯾﻮﯾﻨﺸﻦ ( ﺳﯽ ﮈﯼ ﺳﯽ ) ‘ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﻨﮧ 1960 ﻣﯿﮟ ﺧﺴﺮﮦ ﺳﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﺍﻣﻮﺍﺕ 5300 ﺳﻨﮧ 2012 ﺗﮏ ﮐﻢ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺻﺮﻑ 450 ﺭﮦ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﺧﺴﺮﮦ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺳﻨﮧ 1963 ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﺑﻘﺎ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﮐﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﮈﺭﺍﻣﺎﺋﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﮐﯿﺴﺰ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﮐﯿﺎ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﺷﻮﺍﮨﺪ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻟﻮﭦ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﺳﺘﺮ ﮐﯽ ﺩﮨﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﭘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﯾﮉﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﺑﺎﺋﯽ ﻣﺮﺽ ﮐﺎﻟﯽ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻣﻮﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺻﮧ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﻔﺎﻇﺘﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
.4 ’ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘
ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺩﻟﯿﻞ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ۔
ﮐﻮﺋﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ 100 ﻓﯿﺼﺪ ﻣﻮﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﺭﻟﮉ ﮨﯿﻠﺘﮫ ﺁﺭﮔﻨﺎﺋﺰﯾﺸﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺣﻔﺎﻇﺘﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ 85 ﻓﯿﺼﺪ ﺳﮯ 95 ﻓﯿﺼﺪ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﻮﺛﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﭘﺮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺭﺩِﻋﻤﻞ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻔﺎﻇﺘﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﺪﺍﻓﻌﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ۔
ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺭﮦ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻧﮧ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﮐﺎﻓﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ۔
’.5 ﺑﮍﯼ ﺍﺩﻭﯾﮧ ﺳﺎﺯ ﮐﻤﭙﻨﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ‘
���ﺑﻠﯿﻮ ﺍﯾﭻ ﺍﻭ ﮐﮯ ﮨﯿﻠﺘﮫ ﺍﮐﻨﺎﻣﺴﭧ ﻣﯿﻠﻮﺩ ﮐﺎﺩﺭ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﻨﮧ 2013 ﻣﯿﮟ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ 24 ﺍﺭﺏ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﮈﺍﻟﺮ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﺳﯽ ﺳﺎﻝ ﯾﮧ ﺍﺩﻭﯾﺎﺕ ﮐﯽ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﮐﯽ ﻣﺠﻤﻮﻋﯽ ﻗﺪﺭ ﮐﺎ ﺗﯿﻦ ﻓﯿﺼﺪ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﺗﮭﺎ۔
ﺣﺎﻟﯿﮧ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﻮﮨﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﺻﻨﻌﺘﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﮭﯿﻼﺅ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻟﺖ ﻣﻨﺪ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﻨﺪﮦ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ۔ ﻣﺎﺋﯿﮑﺮﻭ ﺳﺎﻓﭧ ﮐﮯ ﺑﺎﻧﯽ ﺑﻞ ﮔﯿﭩﺲ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﮨﯿﮟ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻔﺎﻇﺘﯽ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻟﮕﻮﺍﻧﮯ ﮐﺎﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﺠﻤﻮﻋﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﻮ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﮩﻨﮕﺎ ﮨﮯ۔
ﺳﻨﮧ 2016 ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﮨﻮﭘﮑﻨﺰ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺁﻣﺪﻥ ﻭﺍﻟﮯ 94 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﭘﺮ ﺧﺮﭺ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﺮ ﮈﺍﻟﺮ ﺳﮯ ﺻﺤﺖ ﭘﺮ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﻣﯿﮟ 16 ﮈﺍﻟﺮ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
.6 ’ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻏﯿﺮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﻣﺎﺩﮮ ‘
ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺷﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﻣﻞ ﮈﯼ ﮨﺎﺋﯿﮉ، ﭘﺎﺭﮦ ﯾﺎ ﺍﯾﻠﻮﻣﯿﻨﯿﻢ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﻣﺎﺩﮮ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺩﮦ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﻮ ﺍﯾﺲ ﻓﻮﮈ ﺍﯾﻨﮉ ﮈﺭﮒ ﺍﯾﮉﻣﻨﺴﭩﺮﯾﺸﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻡ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﮐﯽ 0.5 ﻣﻠﯽ ﻟﯿﭩﺮ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺭﮮ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ 25 ﻣﺎﺋﯿﮑﺮﻭ ﮔﺮﺍﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﺩﺍﺭﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﻣﻘﺪﺍﺭ 85 ﮔﺮﺍﻡ ﭨﻮﻧﺎ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﭘﺎﺭﮮ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔
.7 ’ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﯿﮟ ‘
ﺍﯾﺴﮯ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻭﯾﮑﺴﯿﻨﺰ ﺷﮩﺮﯼ ﺁﺑﺎﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﮨﯿﮟ۔
ﺷﻤﺎﻟﯽ ﻧﺎﺋﺠﯿﺮﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻣﮩﻢ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﺠﮫ ﭘﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮉﺯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﻦ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﻭﺭﮐﺮﺯ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺌﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﻧﺎﺋﺠﯿﺮﯾﺎ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻭﮦ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﻭﺍﺋﺮﺱ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ، ﺍﻥ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﻓﺮﺿﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﯿﮟ۔
ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻣﺰ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻗﯿﺎﺱ ﺁﺭﺍﺋﯿﺎﮞ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮﻏﻠﻂ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺎﺭﭺ 2011 ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺳﯽ ﺁﺋﯽ ﺍﮮ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺍﻟﻘﺎﻋﺪﮦ ﮐﮯ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺍﺳﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﻻﺩﻥ ﮐﮯ ﮈﯼ ﺍﯾﻦ ﺍﮮ ﻧﻤﻮﻧﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﭙﺎﭨﺌﭩﺲ ﺑﯽ ﮐﯽ ﺟﻌﻠﯽ ﺩﯾﮑﺴﯿﻨﯿﺸﻦ ﻣﮩﻢ ﭼﻼﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﯾﮧ ﺭﺍﺯ ﺍﻓﺸﺎﮞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺟﯿﺴﺎ ﻣﻠﮏ ﺟﮩﺎﮞ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﮐﻢ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺧﺪﺷﺎﺕ ﻣﺰﯾﺪ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
0 notes
Text

ﺍﯾﮏ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﯽ ﻭﮈ ﺍﺩﺍﮐﺎﺭ ﺍﻣﯿﺘﺎﺑﮫ ﺑﭽﻦ ﮐﯽ ﻓﻠﻢ ’ ﺷﺮﺍﺑﯽ ‘ ﮐﺎ ﮈﺍﺋﯿﻼﮒ ’ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻧﺘﮭﻮ ﻻﻝ ﺟﯽ ﺟﯿﺴﯽ ﻭﺭﻧﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ۔۔۔ ‘ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺻﺎ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﻮﮒ ﺍﮐﺜﺮ ﻧﺘﮭﻮ ﻻﻝ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮨﻢ ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﭘﺎﺋﻠﭧ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻮﻡ ﻣﭽﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ’ ﻓﯿﺸﻦ ﺳﭩﯿﭩﻤﻨﭧ ‘ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺣﺠﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻭﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮔﺬﺷﺘﮧ ﺩﻧﻮﮞ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﮯ ﺟﻨﮕﯽ ﻃﯿﺎﺭﮮ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺣﺮﺍﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﻗﻮﻣﯽ ﮨﯿﺮﻭ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﺮﮬﯿﮯ
ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﺏ ﺭﯾﺎﺽ ﺟﯿﺴﯽ
ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﮈﺭﺍﻣﺎﺋﯽ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ
ﻓﻼﺋﭧ ﻟﯿﻔﭩﯿﻨﭧ ﻧﭽِﮑﯿﺘﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ؟
ﺍﻧﮉﯾﻦ ﮈﯾﺮﯼ ﺑﺮﺍﻧﮉ ﺍﻣﻮﻝ ﺟﻮ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﺷﺘﮩﺎﺭﺍﺕ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺎﺋﻠﭧ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﯿﻨﮉﻝ ﺑﺎﺭ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺌﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺑﺎﻟﯽ ﻭﮈ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻣﺎﺵ، ﻓﻮﺟﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻗﺎﻧﻮﻧﯽ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﮔﺬﺷﺘﮧ ﭼﻨﺪ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﺍﻥ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﺐ ﺍﻟﻮﻃﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺎﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺷﮩﺮ ﺑﻨﮕﻠﻮﺭﻭ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯿﺌﺮ ﺳﯿﻠﻮﻥ ﻧﮯ ﭘﯿﺮ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺍﻥ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻝ ﮐﺎﭨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺑﯽ ﺑﯽ ﺳﯽ ﮨﻨﺪﯼ ﺳﺮﻭﺱ ﮐﮯ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻗﺮﯾﺸﯽ ﮐﻮ ﺳﯿﻠﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﻨﯿﺶ ﭨﮭﺎﮐﺮ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ’ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ‘
ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺮﻑ ﺗﯿﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ���ﯽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ۔
ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺠﺲ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﻭﻧﮓ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ’ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺘﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ؟ ‘
ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﻮﯾﻦ ﮐﻤﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻤﺒﻮﻟﯿﻨﺲ ﮈﺭﺍﺋﻮﺭ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ’ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﺍﺻﻞ ﮨﯿﺮﻭ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ‘
ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭨﮭﺎﮐﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﮯ ﺳﭩﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﻮﺍ ﺳﮑﯿﮟ۔ ﭼﻨﺪ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﻮﺟﯽ ﮨﯿﺌﺮ ﮐﭧ ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﻠﮏ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺣﺼﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻭﻧﮓ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﯿﮟ۔
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﻧﮯ 27 ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻭﺯﺍﺭﺕ ﺍﻃﻼﻋﺎﺕ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯿﻨﻨﺪﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﭩﯽ ﺑﻨﺪﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺯﺧﻤﯽ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﮐﻮ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﭼﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﮐﭗ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﭩﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﺱ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﻨﮏ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺟﻨﻮﺑﯽ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﺳﮯ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﯾﮧ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻭﺍﺋﺮﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮉﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ #BringBackAbhinandan ﮨﯿﺶ ﭨﯿﮓ ﭨﺮﯾﻨﮉ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﺟﺐ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺍﮨﻠﮑﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﻟﯽ ﺳﻤﯿﺖ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺷﮩﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺸﺒﺎﺯﯼ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺸﻦ ﻣﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
0 notes