Tumgik
#حواسِ
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
حواسِ خمسہ پہ چھانے والوں ‏کو کیا خبر ہے____؟؟
‏کہ اہلِ الفت
‏اداسیوں میں اسیر ہوکر‏محبتوں کو نکھارتے ہیں!
2 notes · View notes
notdoni · 3 years
Text
نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن
نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن
نت دونی , نت ویولن , نت متوسط ویولن , نت ویولن سیاوش قمیشی , notdoni , نت های ویولن سیاوش قمیشی , نت های ویولن , ویولن , سیاوش قمیشی , نت سیاوش قمیشی , نت های سیاوش قمیشی , نت های جواد نوری , نت های متوسط ویولن , نت ویولن متوسط
پیش نمایش نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن
Tumblr media
نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن
دانلود نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن
خرید نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن
جهت خرید نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن روی لینک زیر کلیک کنید
نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی برای ویولن
نت ویولن آرزو سیاوش قمیشی
متن آهنگ زیر هر نت نوشته شده است
تنظیم نت ویولن : جود نوری
آهنگساز : سیاوش قمیشی
نت های ویولن سیاوش قمیشی
نسخه های دیگر نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی ______________________ نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
نت کیبورد آرزو سیاوش قمیشی
نت ویولن آرزو سیاوش قمیشی
نت گیتار آرزو سیاوش قمیشی
نت سنتور آرزو سیاوش قمیشی
______________________
متن آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی آرزو کن واسه فردا اگه امروزتو چیدن
آرزوهاتو بغل کن آرزوهات همه چیتن
اگه دنیات رفته از دست ، اگه غمگینی و بی کس
آرزو کن که حواسِ یه نفر هنوز به تو هست
زندگی همین یه باره ، نزار فرصت بره از دست
آرزوهاتو بغل کن ، تا خدا هست زندگی هست
یکیو خواستی و رفته ، من میفهمم که چه سخته
داره با خاطره بازی ، میگذره روزای هفته
وسط این همه کابوس ، یادش آرومت نکرده
آرزو کن اگه شاده ، دیگه هیچ وقت برنگرده
عشق آدم هر جا باشه ، یادش آرزو میسازه
پس به یاد اون شروع کن ، با یه آرزوی تازه
آرزو کن واسه فردا ، اگه امروزتو چیدن
آرزوهاتو بغل کن ، آرزوهات همه چیتن
اگه دنیات رفته از دست ، اگه غمگینی و بی کس
آرزو کن که حواسِ یه نفر هنوز به تو هست
زندگی همین یه باره ، نزار فرصت بره از دست
آرزوهاتو بغل کن ، تا خدا هست زندگی هست
____________________
کلمات کلیدی : نت ویولن آرزو سیاوش قمیشی ، نت ویولن آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی ، نت ویولن سیاوش قمیشی آرزو نت ویولن
کلمات کلیدی : نت دونی , نت ویولن , نت متوسط ویولن , نت ویولن سیاوش قمیشی , notdoni , نت های ویولن سیاوش قمیشی , نت های ویولن , ویولن , سیاوش قمیشی , نت سیاوش قمیشی , نت های سیاوش قمیشی , نت های جواد نوری , نت های متوسط ویولن , نت ویولن متوسط
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
ہر مذاق میں نصیحت ۔۔۔ ہر شگوفے میں کاٹ۔۔۔! - اردو نیوز پیڈیا
ہر مذاق میں نصیحت ۔۔۔ ہر شگوفے میں کاٹ۔۔۔! – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین ہمارا خیال ہے کہ ’اِبلاغ‘ (Communication) کے ’باب‘ میں ’زبان‘ کا حصہ بہ مشکل 20 سے 25 فی صد تک ہوتا ہے۔۔۔ باقی کا سب ’اِبلاغ‘ اشاروں، چہرے کے تاثرات اور دیگر جسمانی حرکات وسکنات، جنھیں عرف عام میں ’بدن بولی‘ کہتے ہیں، اس کے ذریعے انجام پاتا ہے۔۔۔ یہی نہیں اس میں ہماری ’حواسِ خمسہ‘ کو بھی بہت دوش ہوتا ہے۔۔۔ عام طور پر ہم دیکھ اور سن کر اِبلاغ کے عمل کو مکمل کرتے ہیں،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sedaghatiart · 3 years
Text
به من میگن حواس پرت
نمیدونن که
حواسِ من
فقط و فقط
جمع توعه❤️
instagram
0 notes
keomusic · 4 years
Text
دانلود آهنگ جدید دل از سحر
دانلود آهنگ جدید دل از سحر
با دانلود و شنیدن این آهنگ لذت ببرید هم اکنون آهنگ جدید سحر به نام دل در کئوموزیک
Download new Music by Sahar name is Del
Tumblr media
متن آهنگ دل از سحر
مست هواتمو غرقِ خیالت
نبض رگایه من وصلِ به حالت
خوابو خیال من دلهره‌ی توست
عشقِ محاله من وسوسه‌ی توست
تو که خوب دل میبری، همه دنیایه منی‌
واسه من تو همون نفسی
توی هر روزو شبم، تویی درمونِ تَبم
آره واسه دلم تو بسی
تو که خوب دل میبری، همه دنیایه منی‌
واسه من تو همون نفسی
توی هر روزو شبم، تویی درمون تَبم
آره واسه دلم تو بسی
دیوونه میشم از عطر تن تو
قلبم میگیره هی‌ بهونه‌ی تو
پرته حواسِ من سمتِ خیالت
جا مونده قلبِ من تویه نگاهت
تو که خوب دل میبری، همه دنیایه منی‌
واسه من تو همون نفسی
  نوشته دانلود آهنگ جدید دل از سحر اولین بار در دانلود آهنگ. پدیدار شد.
source https://keomusic1.ir/%d8%af%d9%84-%d8%b3%d8%ad%d8%b1.keo
0 notes
modern-tiles · 5 years
Text
Tumblr media
کرونا، الہام اور الحاد!!
(ڈاکٹر اظہر وحید)
مجھے کالم لکھنے کی تحریک اپنے قارئین کے سوالات سے ملتی ہے۔ دیپالبور سے ایک طالبعلم یاسین نے پوسٹ بھیجی اور اس پر تبصرے کا طالب ہوا۔ کرونا وائرس کی وبا کے حوالے سے پھیلنے والا یہ پیراگراف بغیر کسی قطع برید کے من و عن اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ "کرونا وائرس نے بت کدوں کو ویران کردیا، کعبہ بھی سنسان ہے، دیوار گریہ اور کربلا میں اتنا ویرانہ ہے کہ وہ خود پہ نوحہ کناں ہیں، ویٹی کن سٹی کے کلیساؤں میں ہْو کا عالم ہے، یروشلم کی عبادت گاہیں سائیں سائیں کررہی ہیں۔ وضو کو کرونا کا علاج بتانے والے مذہبیوں نے کعبے کو زم زم کے بجائے جراثیم کش ادویات سے دھویا ہے، گئوموتر کو ہر بیماری کی دوا بتانے والے پنڈت کہیں منہ چھپائے بیٹھے ہیں، کلیساؤں کی گھنٹیاں پیروکاروں کے درد کا مداوا نہیں کررہیں۔ کرونا وائرس نے عقیدت کا جنازہ نکال دیا ہے، شراب کو حرام بتانے والے الکحول سواب کی مدد لے رہے ہیں، ارتقائے حیات اور بگ بینگ تھیوری کی بنیاد پر سائنس کو تماشہ کہنے والے لیبارٹریوں کی جانب تک رہے ہیں کہ یہیں سے وہ نسخہ کیمیا نکلے گا جو دنیا کے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچاسکتا ہے۔ کرونا نے انسانوں کو illusion سے نکال کر ایک حقیقی دنیا کا چہرہ دکھایا ہے، اپنی بقا کی سوچ نے انسانیت کو مجبور کردیا کہ وہ سچ کا سامنا کرے اور سچ یہی ہے کہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر تو شاید مکالمہ ہوسکتا ہے مگر مذہبی عقیدت کی بنیاد پر کبھی دنیا کے فیصلے نہیں ہوسکتے"
بادی ٔ النظر میںیہ پیراگراف اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔ لکھنے والا کتنا باادب ہے‘ یہ الگ بحث ہے۔ لطف کی بات یہ ہے اہلِ الہام کے ہاں فصاحت و بلاغت کو اہل الحاد علم الکلام کہہ کر بے اعتنائی کی راہ لیتے ہیں جبکہ اپنے ہاں لفظوں کی چاشنی سے تیار کیے گئے حلوے کو ایک شیریں دلیل تصور کرتے ہیں۔ اس پر تبصرے کیلئے حسب ِ دستورایک تمہید باندھنا ہوگی‘ تمہید طولانی ہوگئی تو برداشت کرنا ہو گی۔
آدم تا ایں دم ‘اَبنائے آدم دو قسم کے فکری گروہوں میں منقسم ہیں، ایک فکری قبیلہ اہل الہام کا ہے ،اور دوسرا اہلِ الحاد کا۔ ہابیل اہلِ الہام کا نمائیندہ ہے، وہ قتل ہو جاتا ہے، ظالم کی بجائے مظلوم بننا پسند کر لیتا ہے لیکن اپنے ظالم، قاتل اور گوشت کے رسیا بھائی کے ساتھ اس کا آخری مکالمہ یہی ہوتا ہے کہ اگر تم مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ گے تو اس کے جواب میں میرا ہاتھ قتل کی نیت سے تم پر نہیں اٹھے گا۔ قابیل اہلِ الحاد کا نمائندہ ہے۔ وہ اس دنیا میں راہنمائی کیلئے کسی آسمانی ہدایت کا قائل نہیں، وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی حیوانی جبلتوں کے زیر اثر بسر کرنے کو "حقیقی دنیا" تصور کرتا ہے۔ اس کے برعکس اہل الہام قدم قدم پر اپنی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک انبیا و صحف سے راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ فکری گروہوں کی یہ تقسیم ازل سے جاری ہے اور جب تک غیب کا پردہ اٹھ نہیں جاتا اور موت یا قیامت کی حجت قائم نہیں ہو جاتی، یہ تقسیم یونہی جاری رہے گی۔
یہاں خرقۂ سالوس میں چھپے مہاجن اور شاہیں کے نشیمن پر متصرف کسی زاغ کا دفاع ہرگز مقصود نہیں۔ یہاں مقصد ان فکری مغالطوں کو دُور کرنا ہے جو اہل الہام اور الحاد کے مابین مکالمے میں سد راہ ہیں۔ ایک ملحد اگر مخلص ہے تو میرے نزدیک قیمتی روح ہے، میں اسے متلاشی ذہن اور متجسس روح سمجھتا ہوں۔ اگر ملحد ضد پر ��ُتر آئے تو کٹھ ملا سے بدتر ہے۔ دین کا مدعی اگرمفاد پرست ہے‘ راہِ عدل سے دورہے تو میرے نزدیک وہ دشمن ِ دین و ایمان ہے۔
اہلِ الہام اور الحاد دونوں ایک جگہ فکری غلطی کرتے ہیں، دونوں ہی ایمان کی دلیل عالمِ شہود میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچا ہونے کیلئے جس طرح طاقت کا ہونا یا نہ ہونا دلیل نہیں، اس طرح ماورائے زمان و مکاں حق کیلئے کسی دلیل کا طاقتور ہونا بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ دراصل ہردلیل ایک مخصوص دائرۂ کار کے اندر ہی وزن رکھتی ہے، فزکس کے اصولوں پر کیمسٹر ی نہیں پڑھی جا سکتی، اکنامکس کے کلیے طب میں بطور دلیل کام نہیں آتے۔ انسانی دنیا میں بہت سے علوم ایسے ہیں جو دلیل اور منطق کے بغیر مانے اور منوائے جاتے ہیں، یہ علوم صرف اساتذہ کے ہونے سے پائے جاتے ہیں… معجزۂ فن رنگ کا ہو یا خشت و سنگ کا یا پھر کوئی نغمۂ حرف و صوت ‘ ان کی نمو اور نمود کسی دلیل کی محتاج نہیں … کسی جوہرِ قابل کا خونِ جگر اس کے ظہور کاسبب ہے۔تمام فنون لطیفہ کسی دلیل اور مفادکے محتاج نہیں بلکہ ان کی دلیل فن کار کی اپنی ذات ہے۔ کیا ہم مذہب کو اپنی زندگی میں وہ اہمیت بھی دینے کیلئے تیار نہیں جو کسی جمالیاتی علم کو دیتے ہیں؟ یہ شوق کا سودا ہوتا ہے میاں! یہ ذوق کا سامان ہے، یہ تسکینِ قلب و جاں کا بندوبست ہے۔ ایمان دلیل کا نہیں دل کا سودا ہے… دل کی دلیل ظاہر میں تلاش کرنا ‘زندگی کو بدمزہ کرنے کی ترکیب ہے۔
ایک دلیلِ کم نظری یہ بھی ہے کہ ہم دین اور سائینس کا تقابل پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، اگر سائینس سے دلیل مل گئی تو تالیاں پیٹ لی جائیں، اگر سائینس سے عدم تطابق نظر آیا تو سر پیٹ لیا۔ خدا کی تلاش سائینس کا دعو ٰی ہی نہیں، اور اسباب کی دنیا میں اپنے ماننے والوں کو اسباب سے بے نیاز کر دینا مذہب کا دعویٰ نہیں۔ دیگر مذاہب کے بارے میں تو مجھے کچھ اتنا درک نہیں لیکن میرا دین ‘دین ِ فطرت ہے… میرے دین میں دشمن کے مقابلے میں گھوڑے تیار رکھتے کا حکم ہے، یہاں دوا کو سنت بتایا گیا ہے، یہاں بتایا گیا ہے لاتبدیل لسنت اللہ …قوانین ِ فطرت اللہ کی سنت ہیں۔ یہاں مجھے بتایا گیا ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ یہاں مجھے حکم ہے کہ جس جگہ وہا پھیل چکی ہو‘ وہاں مت جاؤ اور اگر کسی وبا زدہ علاقے میں پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے باہر مت نکلو۔ میرے دین میں مفاد عامہ کا اتنا اہتمام ہے کہ اگر بارش ہو رہی ہو تو حکم ہے کہ نماز گھر میں پڑھ لو۔ نماز باجماعت میں شامل ہونے کیلئے دوڑ کر شامل ہونے سے منع کر دیا گیا کہ دوڑتا ہوا اِنسان اپنی تکریم سے دُور ہو جاتا ہے۔یہاں تکریم ِ انسانی کا یہ عالم ہے کہ ہادیٔ عالم ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن کی جان، مال اور عزت کی حرمت کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ میرا دین تو مجھے تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ وہ صرف صفائی ہی نہیں بلکہ طہارت کے تصور سے بھی مجھے روشناس کرواتا ہے۔ طہارت سے آشنا جسمانی صفائی سے کبھی غافل رہ نہیں سکتا۔ میرا دین مجھے جرم سے بھی پہلے گناہ کے تصور سے آشنا کرتا ہے۔ جو گناہ سے بدک گیا وہ جرم کی دنیا میں کبھی داخل نہ ہو گا۔
ٍ فلسفے کو سائینس کی دنیا سے کوئی دلیل میسر آ جائے تو پھولے نہیں سماتا، کرونا وائرس نے گویا الحاد کو coronate کر دیا ہے۔ اس کے برعکس دین کسی سائینسی دلیل سے بے نیاز ہے۔ دین کا دعو ٰی ہے کہ ہم تمہیں ایک ایسی دنیا کی خبر دیتے ہیں جو مادے سے ماورا ہے، جہاں تمہاری مادی عقل کی رسائی نہیں…اور یہ کہ تم صرف جسم ہی نہیں روح بھی ہو، تماری روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں، تمہاری روح کی ربوبیت کیلئے ہم تمہیں اپنے انبیا کے ذریعے تعلیم و تربیت دیں گے۔ تم صرف ظاہر ہی نہیں ‘ باطن بھی ہو۔ تمہارے مرنے کے بعد تمہارا باطن ظاہر ہو جائے گا۔
دین کا ماخذ باطن ہے، اور یہ بنیادی طور پر ہمارے باطن کو خطاب کرتا ہے،دین ظاہر میں تبدیلی بزورِقوت نہیں چاہتا بلکہ بذریہ ترغیب و تفکر کرتا ہے۔ میرا دین مجھے جبر نہیں سکھاتا۔ نہ ماننے والوں کے ساتھ میرے مکالمے کے آداب "وجادلھم بالتی ھی احسن" سے شروع ہوتے ہیں اور کسی لڑائی جھگڑے میں شامل ہوئے بغیر "لااکرہ فی الدین" اور "لکم دینکم ولی دین" پر میرا ان کے ساتھ مکالمہ ختم ہو جاتا ہے۔ میں دینِ فطرت پر کاربند ہوں۔
ایمان ہوتا ہی ایمان بالغیب ہے… یعنی ایسی دنیا کی اطلاع پر یقین جہاں ہمارے حواسِ خمسہ اور عقل کی رسائی نہ ہو۔ ایمان کی دلیل عالمِ شہود ( ٹائم اینڈ اسپیس ) میں میسر نہیں آسکے گی۔ اگر ایمان کی دلیل عالمِ ظاہر میں ظاہر ہوگئی تو انبیا کی حجت ہی باقی نہ رہے گی۔ایمان صفات پر نہیں بلکہ ذات پر ہوتا ہے… ایمان ذات سے ذات کا سفر ہے۔ ایمان کی حقیقت رسولﷺ کی ذات پر ایمان ہے۔ جسے اس ذاتؐ سے قلبی تعلق و باطنی تمسک میسر نہیں‘ اس کیلئے ایمان کا لفظ ایک ڈکشنری میں درج کسی متروک لفظ زیادہ کچھ نہیں۔ اس لیے اے صاحبان غور و فکر! ایمان کی دلیل باہر کی دنیا میں تلاش کرنے کا دھندا نہ پکڑیں، اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔ ایمان کی تلاش ہے تو اپنے دل میں جھانکیں، دل سے جواب آئے گا…اور ضرور آئے گا۔ ہاں! مگر دلِ زندہ سے!!
ہر صاحب ِ دل جانتا ہے کہ انسان محض جسم اور دماغ کا مجموعہ ہی نہیں، انسان کی زندگی محض جبلتوں کے تعامل، عمل اور ردِ عمل اور سبب اور نتیجے تک محدود نہیں، اسے رہنے کیلیے صرف روٹی اور مکان ہی کی ضرورت نہیں بلکہ ایک خوبصورت احساس اور خیال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بڑا ظلم ہے ، اے مبلغِ الحاد!… یہ بڑا ظلم ہے ‘ تم عالم ِ انسانیت کو اپنے پاس سے کوئی بہتر خیال نہیں دے سکے… اور جو سرمایۂ خیال اسے پہلے سے میسر ہے ‘ اسے تم چھیننے کے درپے ہو ۔ اس سے بڑھ کوئی تخریب کاری نہیں… فکری تخریب کاری خود کش حملوں سے زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ فکری تخریب کاری کی تباہ کاری کسی تابکاری کی طرح صدیوں تک انسانی روح و بدن کو گھائل کرتی رہتی ہے۔
اللہ کی عبادت جس گھر سے شروع ہوتی ہے وہ انسان کا اپنا دل ہے، اس کی اطاعت اور بغاوت کے سارے مرحلے اسی گھر میں طے ہو جاتے ہیں۔ سجدہ دراصل سجدۂ تسلیم ہے اور یہ تسلیم ہماری اپنی ہے۔ ہماری ہی پیشانی سجدہ گاہ ڈھونڈتی ہے۔ اللہ الصمد ذات اپنی ذات میں خود غنی اور حمید ہے، اسے عبادت کی حاجت ہے نہ کسی عبادت گاہ کی۔ عبادت اور عبادت گاہیں انسان کی اپنی ضرورت ہیں۔
علاج اور شفا میں فرق ہوتا ہے… علاج تو لیبارٹری سے دریافت ہو جائے گا ‘ شفا اور شفاعت کیلئے انسان کو انسان کے پاس جانا ہوگا… انسانِ کاملﷺکے پاس!
#corona #coronavirus #sufism #islam #religion #atheism #kaba #zamzam #urducolumns #drazharwaheed #wasifkhayal
0 notes
bahimaa · 5 years
Photo
Tumblr media
‌ و خوب می دانی هر جایِ دنیا که باشی حواسِ دلم پرتِ توست .. گریزی نیست از عشق از حسِ خواستنت از من اینچنین که دوستت دارم ‌‌‌‌‎‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‎‌‌‌‌‌‌‌‌‌‎‌‌‎‌‌‍‌‍‌‍‌‌‌‌‌‌‌‌‌⁦ https://www.instagram.com/p/B9W8A82gjkj/?igshid=z90osufc2ix8
0 notes
altctrlelia · 5 years
Photo
Tumblr media
- بر فریبِ حواسِ خود پیروز شوید . نیچه! #altctrlelia (at Karaj) https://www.instagram.com/p/B1bq0PbhouE/?igshid=6a00vwchsz1k
0 notes
Text
نسلِ نو سے شکایات
ہر دَور میں نسلِ نو کے سر پر مختلف قسم کی تہمتوں کا تاج رہا ہے۔ اُن پہ ہمیشہ سے لاپروائی، غیرذمّے داری، بد تمیزی، کاہلی،فضول خرچی، کام چوری اور بے راہ روی جیسے’’رنگین‘‘ الزامات کی بَھرمار رہی ہے۔ یعنی نسلِ نو پر عائد فردِ جُرم میں الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ہم عُمر متعلقین کی اکثریت کو ہم نے نسلِ نو سے شاکی ہی پایا۔ ہر کسی کی زبان پر اپنی جوان اولاد کے لیے کم و بیش اسی طرح کے عنوانات کی شکایات رہتی ہیں۔ اس معاملےپر جب ہم نے غیر جانب دارانہ نظر دوڑائی اور پورے غور خوض کے بعد تجزیہ کیا، تو جانا کہ جو الزامات ہم اپنی اولاد یا نسلِ نو پر دھرتے ہیں، اُن میں سے اکثر کے ذمّے دار درحقیقت ہم خود ہیں۔ اولاد سے متعلق شکایات میں سے اکثر مبنی بر حق نہیں۔ بہت سے احباب اور ان کے رویّوں کے بغور مشاہدے کے بعد ہم یہ سمجھنے میں کام یاب ہو سکے کہ اکثر ’’مقدمات‘‘ سے تو نسلِ نو با عز��ت بَری کیے جانے کی حق دار ہے۔ یہاں چند ایک کا ذکر یقیناً بے محل نہ ہوگا۔
ایک صاحب دکان پر اپنے صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر ہمارے ساتھ گفت و شنید کے بعد اپنے صاحب زادے کو مبلغ ایک سو پچاس روپے مرحمت فرمائے اور شربت کی ایک بوتل لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں برخوردار نے مطلوبہ مشروب کی بوتل لا کر انہیں تھما دی۔ صاحب نے دریافت فرمایا، ’’کتنے کی ملی؟‘‘ برخوردار نے جواب دیا، ’’ایک سو پینتالیس کی۔ ‘‘ ’’تو بقایا پانچ روپے؟‘‘ صاحب نے استفسارکیا ۔ اور برخوردار نے نہایت خفّت آمیز انداز میں پانچ روپے کا سِکّہ جیب سے نکالا اور انہیں تھما دیا، جسے انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جیب میں ڈال لیا۔ کچھ عرصے بعد وہی صاحب ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ انتہائی گلوگیر لہجے اُن ہی صاحب زادے کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ’’آج کل کی اولاد سے کوئی کیا اُمید رکھے، کل صاحب زادے کو پانچ سو روپے دے کر دوا لانے کو بھیجا، دوا تو لاکر دی، مگر ساتھ ہی بولا،’’ابّو! ساڑھے پانچ سو کی آئی ہے۔ نہ پوچھو یار، کیسا زخم لگا دِل پر۔ اگر پچاس روپے جیب سے ڈالنے پڑ بھی گئے تھے، تو کم ظرف کو جتلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم بخت باپ سے حساب کرتا ہے۔ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا بہتر ہے۔‘‘(ہم ان سے بحث کر کے ان کے غم کو دو آتشہ نہیں کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہیں ضرور بتاتے کہ صاحب زادے کو حساب کتاب کااتنا ماہر بنانے میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے)۔
ایک صاحب کا شکوہ سُننے کو ملا کہ ’’بیٹا ’’زن مرید‘‘ ہو گیا ہے، گھر والوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ بس بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے، تو کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ چُھپ چُھپ کر کمرے میں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں۔ میری تو خیر ہے، کم بخت ماں تک سے بھی جھوٹے مُنہ صلاح نہیں لیتا۔‘‘ جن برخوردار کے بارے میں یہ بات ہو رہی تھی، ہمارے ذاتی مراسم بھی ان سے خاصے بے تکلفانہ ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ کلمات ہمارے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعثِ استعجاب بھی تھے۔ اتفاقاً اسی دِن ان سے بھی سامنا ہوگیا، تو ہم نے تنبیہاً عرض کی کہ ’’میاں! محض اہلیہ کی خوشنودی کی فکر میں والدین کو آزار پہنچانا کیا مناسب ہے؟‘‘وہ حیران و ششدر رہ گئے اور گویا ہوئے،’’چچا جان! بتلائیں تو سہی، کیا کوتاہی مجھ سے سر زد ہوئی؟‘‘جب ان کے سامنے ان کے والد کا شکوہ بیان کیا تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی وقت کچھ کہہ نہیں پائے، پھر رندھی ہوئی آواز اور دھیمے لہجے میں فرمانے لگے،’’چچا جان! پندرہ ہزار میری تن خواہ ہے، جس میں سے بارہ ہزار مَیں ابّو کو دے دیتا ہوں۔کُل تین ہزار میرے پاس بچ جاتے ہیں، جسے آپ میرا جیب خرچ سمجھ لیں یا ملازمت کے سلسلے میں آمد و رفت کا خرچہ۔ کئی دِنوں سے اہلیہ باہر کی بریانی کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں، چاہتا تو تھا کہ سب کے لیے لا سکوں، مگر جیب میں سکت نہیں تھی، اس لیے کل رات چپ چاپ ایک پلیٹ لا کر اہلیہ کو دے دی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی جائز خواہشات پوری کرنا بھی تو میری ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ صرف ایک بار اس خطا کا مُرتکب ہوا ہوں، ابّو سے کہیے گا دِل میلا نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘(وہ تو یہ فرما کر روانہ ہو گئے، لیکن ہمیں یقینِ واثق ہو گیا کہ جلد ہی کسی نشست میں اُن کے والد صاحب دُکھڑا رو رہے ہوں گے کہ بیٹے، بہو میں بالکل نہیں بنتی، ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، گھر کا ماحول خراب کر کے رکھ دیا ہے، کم بختوں نے)۔
ایک صاحب گلی میں اپنے بچّے کو پیٹ رہے تھے، کسی نے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی کہ، ’’نہ ماریے صاحب! بچّہ ہے۔‘‘ تو چلّانے لگے، ’’یہ بچّہ ہے، خبیث کو ہزار بار منع کر چکا ہوں کہ گالیاں نہ بکا کرے، لیکن اس مردود پر اثر ہی نہیں ہوتا، کمینہ ڈھیٹ پَنے پر اُترا ہوا ہے، دھڑادھڑ گالیاں بکتا ہے، ذلیل کہیں کا، آج سیدھا کر کے چھوڑوں گا کم بخت کو۔‘‘(ہم نے دِل میں کہا، بھائی! آپ خوامخواہ خود کو تھکا رہے ہیں، بے شک مار مار کر اس کو دنبہ بنا دیں، لیکن یہ گالیاں دینا کبھی نہیں چھوڑ پائے گا)۔
یہ تو تھے کچھ مشاہدات اب کچھ بات رویّوں کی بھی ہو جائے۔بعض افراد کا رویّہ اولاد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اسپتالوں میں معالجین کا’’شعبۂ انتہائی نگہداشت‘‘میں داخل مریضوں کے ساتھ ہوتا ��ے۔ یہ افراد اپنے سارے حواس ہمہ وقت اولاد پر مرکوز کیے رہتے ہیں۔چوبیس گھنٹے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں (باصرہ)۔ہر کسی سے ان کی سُن گُن لیتے پِھرتے ہیں (سامعہ)۔اولاد کے ہرعمل سے انہیں خطرے کی بُو آتی ہے ( شامہ)۔ہر پَل بزرگی اور برتری کا مزہ چکھتے ہیں (ذائقہ)۔اصلاح کا واحد نسخہ ان کے پاس’’مار،پیٹ‘‘ہوتاہے (لامسہ)۔حواسِ خمسہ کے اس بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔لوگوں کی شکایات اولاد کے بارے میں عموماً متضاد ہوتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پڑھائی میں محنت نہیں کرتے، کسی کا کہنا ہے کہ ہر وقت بس پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کا شکوہ ہے، دین سے دِل چسپی نہیں، کسی کی شکایت ہے، نماز، روزے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ کہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، تو کسی کا اعتراض کہ گھر سے باہر نہیں جھانکتے۔ ان سب باتوں کی تہہ میں نکتہ صرف ایک کہ ممکن ہے مناسب وقت پر ہم نے انہیں ’’اعتدال‘‘ کی اہمیت نہ سکھائی ہو؟ جو لوگ اولاد کی بے راہ روی اور بدتمیزیوں سے پریشان ہیں، ہو سکتا ہے جس وقت انہیں اولاد کوتہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے تھا، اُس وقت انہوں نے غفلت برتی ہو؟
اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی ہم نے غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں، ہماری بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک نے انہیں جھوٹ کا عادی بنادیا ہوکہ وہ ہمارے عتاب سے بچ سکیں؟ کہیں انہیں ضدّی بنانے میں ہمارے غیر ضروری لاڈ پیار کا تو دخل نہیں؟ کہیں گھر کاغیردوستانہ ماحول تو ان کی آوارہ گردی کا سبب نہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج ہم اولاد کی جن عادات پر معترض ہیں، کبھی خود تو ان میں مبتلا نہیں رہے؟ہمیںاولاد کی تعلیم اور تربیت کا ذمّے دار ربّ نے بنایا ہے، تو کسی کمی بیشی کی صورت میں صرف اولاد کو موردِالزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ نسلِ نو کی تعمیر ہمارا فریضہ تھا، اس کی خامیوں میں ہمیں اپنے کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ عمارت میں کوئی عیب ہو یا وہ خُوب صُورت نہ ہو، تو غلطی عمارت کی نہیں، معمار کی ہوتی ہے۔ اب بھی وقت نہیں گزرا، ہمیں آپس میں اپنی اولاد کے دکھڑے رونے کی بجائے ان کی تربیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی سیکھنے کی صلاحیت، ہماری نسبت بہت زیادہ ہے، بس شرط یہ کہ ان کی صحیح سمت میں درست طریقے سے رہنمائی کی جائے۔
The post نسلِ نو سے شکایات appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NyYa68 via Urdu News
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
نسلِ نو سے شکایات
ہر دَور میں نسلِ نو کے سر پر مختلف قسم کی تہمتوں کا تاج رہا ہے۔ اُن پہ ہمیشہ سے لاپروائی، غیرذمّے داری، بد تمیزی، کاہلی،فضول خرچی، کام چوری اور بے راہ روی جیسے’’رنگین‘‘ الزامات کی بَھرمار رہی ہے۔ یعنی نسلِ نو پر عائد فردِ جُرم میں الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ہم عُمر متعلقین کی اکثریت کو ہم نے نسلِ نو سے شاکی ہی پایا۔ ہر کسی کی زبان پر اپنی جوان اولاد کے لیے کم و بیش اسی طرح کے عنوانات کی شکایات رہتی ہیں۔ اس معاملےپر جب ہم نے غیر جانب دارانہ نظر دوڑائی اور پورے غور خوض کے بعد تجزیہ کیا، تو جانا کہ جو الزامات ہم اپنی اولاد یا نسلِ نو پر دھرتے ہیں، اُن میں سے اکثر کے ذمّے دار درحقیقت ہم خود ہیں۔ اولاد سے متعلق شکایات میں سے اکثر مبنی بر حق نہیں۔ بہت سے احباب اور ان کے رویّوں کے بغور مشاہدے کے بعد ہم یہ سمجھنے میں کام یاب ہو سکے کہ اکثر ’’مقدمات‘‘ سے تو نسلِ نو با عزّت بَری کیے جانے کی حق دار ہے۔ یہاں چند ایک کا ذکر یقیناً بے محل نہ ہوگا۔
ایک صاحب دکان پر اپنے صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر ہمارے ساتھ گفت و شنید کے بعد اپنے صاحب زادے کو مبلغ ایک سو پچاس روپے مرحمت فرمائے اور شربت کی ایک بوتل لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں برخوردار نے مطلوبہ مشروب کی بوتل لا کر انہیں تھما دی۔ صاحب نے دریافت فرمایا، ’’کتنے کی ملی؟‘‘ برخوردار نے جواب دیا، ’’ایک سو پینتالیس کی۔ ‘‘ ’’تو بقایا پانچ روپے؟‘‘ صاحب نے استفسارکیا ۔ اور برخوردار نے نہایت خفّت آمیز انداز میں پانچ روپے کا سِکّہ جیب سے نکالا اور انہیں تھما دیا، جسے انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جیب میں ڈال لیا۔ کچھ عرصے بعد وہی صاحب ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ انتہائی گلوگیر لہجے اُن ہی صاحب زادے کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ’’آج کل کی اولاد سے کوئی کیا اُمید رکھے، کل صاحب زادے کو پانچ سو روپے دے کر دوا لانے کو بھیجا، دوا تو لاکر دی، مگر ساتھ ہی بولا،’’ابّو! ساڑھے پانچ سو کی آئی ہے۔ نہ پوچھو یار، کیسا زخم لگا دِل پر۔ اگر پچاس روپے جیب سے ڈالنے پڑ بھی گئے تھے، تو کم ظرف کو جتلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم بخت باپ سے حساب کرتا ہے۔ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا بہتر ہے۔‘‘(ہم ان سے بحث کر کے ان کے غم کو دو آتشہ نہیں کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہیں ضرور بتاتے کہ صاحب زادے کو حساب کتاب کااتنا ماہر بنانے میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے)۔
ایک صاحب کا شکوہ سُننے کو ملا کہ ’’بیٹا ’’زن مرید‘‘ ہو گیا ہے، گھر والوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ بس بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے، تو کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ چُھپ چُھپ کر کمرے میں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں۔ میری تو خیر ہے، کم بخت ماں تک سے بھی جھوٹے مُنہ صلاح نہیں لیتا۔‘‘ جن برخوردار کے بارے میں یہ بات ہو رہی تھی، ہمارے ذاتی مراسم بھی ان سے خاصے بے تکلفانہ ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ کلمات ہمارے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعثِ استعجاب بھی تھے۔ اتفاقاً اسی دِن ان سے بھی سامنا ہوگیا، تو ہم نے تنبیہاً عرض کی کہ ’’میاں! محض اہلیہ کی خوشنودی کی فکر میں والدین کو آزار پہنچانا کیا مناسب ہے؟‘‘وہ حیران و ششدر رہ گئے اور گویا ہوئے،’’چچا جان! بتلائیں تو سہی، کیا کوتاہی مجھ سے سر زد ہوئی؟‘‘جب ان کے سامنے ان کے والد کا شکوہ بیان کیا تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی وقت کچھ کہہ نہیں پائے، پھر رندھی ہوئی آواز اور دھیمے لہجے میں فرمانے لگے،’’چچا جان! پندرہ ہزار میری تن خواہ ہے، جس میں سے بارہ ہزار مَیں ابّو کو دے دیتا ہوں۔کُل تین ہزار میرے پاس بچ جاتے ہیں، جسے آپ میرا جیب خرچ سمجھ لیں یا ملازمت کے سلسلے میں آمد و رفت کا خرچہ۔ کئی دِنوں سے اہلیہ باہر کی بریانی کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں، چاہتا تو تھا کہ سب کے لیے لا سکوں، مگر جیب میں سکت نہیں تھی، اس لیے کل رات چپ چاپ ایک پلیٹ لا کر اہلیہ کو دے دی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی جائز خواہشات پوری کرنا بھی تو میری ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ صرف ایک بار اس خطا کا مُرتکب ہوا ہوں، ابّو سے کہیے گا دِل میلا نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘(وہ تو یہ فرما کر روانہ ہو گئے، لیکن ہمیں یقینِ واثق ہو گیا کہ جلد ہی کسی نشست میں اُن کے والد صاحب دُکھڑا رو رہے ہوں گے کہ بیٹے، بہو میں بالکل نہیں بنتی، ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، گھر کا ماحول خراب کر کے رکھ دیا ہے، کم بختوں نے)۔
ایک صاحب گلی میں اپنے بچّے کو پیٹ رہے تھے، کسی نے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی کہ، ’’نہ ماریے صاحب! بچّہ ہے۔‘‘ تو چلّانے لگے، ’’یہ بچّہ ہے، خبیث کو ہزار بار منع کر چکا ہوں کہ گالیاں نہ بکا کرے، لیکن اس مردود پر اثر ہی نہیں ہوتا، کمینہ ڈھیٹ پَنے پر اُترا ہوا ہے، دھڑادھڑ گالیاں بکتا ہے، ذلیل کہیں کا، آج سیدھا کر کے چھوڑوں گا کم بخت کو۔‘‘(ہم نے دِل میں کہا، بھائی! آپ خوامخواہ خود کو تھکا رہے ہیں، بے شک مار مار کر اس کو دنبہ بنا دیں، لیکن یہ گالیاں دینا کبھی نہیں چھوڑ پائے گا)۔
یہ تو تھے کچھ مشاہدات اب کچھ بات رویّوں کی بھی ہو جائے۔بعض افراد کا رویّہ اولاد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اسپتالوں میں معالجین کا’’شعبۂ انتہائی نگہداشت‘‘میں داخل مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے سارے حواس ہمہ وقت اولاد پر مرکوز کیے رہتے ہیں۔چوبیس گھنٹے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں (باصرہ)۔ہر کسی سے ان کی سُن گُن لیتے پِھرتے ہیں (سامعہ)۔اولاد کے ہرعمل سے انہیں خطرے کی بُو آتی ہے ( شامہ)۔ہر پَل بزرگی اور برتری کا مزہ چکھتے ہیں (ذائقہ)۔اصلاح کا واحد نسخہ ان کے پاس’’مار،پیٹ‘‘ہوتاہے (لامسہ)۔حواسِ خمسہ کے اس بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔لوگوں کی شکایات اولاد کے بارے میں عموماً متضاد ہوتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پڑھائی میں محنت نہیں کرتے، کسی کا کہنا ہے کہ ہر وقت بس پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کا شکوہ ہے، دین سے دِل چسپی نہیں، کسی کی شکایت ہے، نماز، روزے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ کہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، تو کسی کا اعتراض کہ گھر سے باہر نہیں جھانکتے۔ ان سب باتوں کی تہہ میں نکتہ صرف ایک کہ ممکن ہے مناسب وقت پر ہم نے انہیں ’’اعتدال‘‘ کی اہمیت نہ سکھائی ہو؟ جو لوگ اولاد کی بے راہ روی اور بدتمیزیوں سے پریشان ہیں، ہو سکتا ہے جس وقت انہیں اولاد کوتہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے تھا، اُس وقت انہوں نے غفلت برتی ہو؟
اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی ہم نے غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں، ہماری بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک نے انہیں جھوٹ کا عادی بنادیا ہوکہ وہ ہمارے عتاب سے بچ سکیں؟ کہیں انہیں ضدّی بنانے میں ہمارے غیر ضروری لاڈ پیار کا تو دخل نہیں؟ کہیں گھر کاغیردوستانہ ماحول تو ان کی آوارہ گردی کا سبب نہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج ہم اولاد کی جن عادات پر معترض ہیں، کبھی خود تو ان میں مبتلا نہیں رہے؟ہمیںاولاد کی تعلیم اور تربیت کا ذمّے دار ربّ نے بنایا ہے، تو کسی کمی بیشی کی صورت میں صرف اولاد کو موردِالزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ نسلِ نو کی تعمیر ہمارا فریضہ تھا، اس کی خامیوں میں ہمیں اپنے کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ عمارت میں کوئی عیب ہو یا وہ خُوب صُورت نہ ہو، تو غلطی عمارت کی نہیں، معمار کی ہوتی ہے۔ اب بھی وقت نہیں گزرا، ہمیں آپس میں اپنی اولاد کے دکھڑے رونے کی بجائے ان کی تربیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی سیکھنے کی صلاحیت، ہماری نسبت بہت زیادہ ہے، بس شرط یہ کہ ان کی صحیح سمت میں درست طریقے سے رہنمائی کی جائے۔
The post نسلِ نو سے شکایات appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NyYa68 via Urdu News
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
نسلِ نو سے شکایات
ہر دَور میں نسلِ نو کے سر پر مختلف قسم کی تہمتوں کا تاج رہا ہے۔ اُن پہ ہمیشہ سے لاپروائی، غیرذمّے داری، بد تمیزی، کاہلی،فضول خرچی، کام چوری اور بے راہ روی جیسے’’رنگین‘‘ الزامات کی بَھرمار رہی ہے۔ یعنی نسلِ نو پر عائد فردِ جُرم میں الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ہم عُمر متعلقین کی اکثریت کو ہم نے نسلِ نو سے شاکی ہی پایا۔ ہر کسی کی زبان پر اپنی جوان اولاد کے لیے کم و بیش اسی طرح کے عنوانات کی شکایات رہتی ہیں۔ اس معاملےپر جب ہم نے غیر جانب دارانہ نظر دوڑائی اور پورے غور خوض کے بعد تجزیہ کیا، تو جانا کہ جو الزامات ہم اپنی اولاد یا نسلِ نو پر دھرتے ہیں، اُن میں سے اکثر کے ذمّے دار درحقیقت ہم خود ہیں۔ اولاد سے متعلق شکایات میں سے اکثر مبنی بر حق نہیں۔ بہت سے احباب اور ان کے رویّوں کے بغور مشاہدے کے بعد ہم یہ سمجھنے میں کام یاب ہو سکے کہ اکثر ’’مقدمات‘‘ سے تو نسلِ نو با عزّت بَری کیے جانے کی حق دار ہے۔ یہاں چند ایک کا ذکر یقیناً بے محل نہ ہوگا۔
ایک صاحب دکان پر اپنے صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر ہمارے ساتھ گفت و شنید کے بعد اپنے صاحب زادے کو مبلغ ایک سو پچاس روپے مرحمت فرمائے اور شربت کی ایک بوتل لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں برخوردار نے مطلوبہ مشروب کی بوتل لا کر انہیں تھما دی۔ صاحب نے دریافت فرمایا، ’’کتنے کی ملی؟‘‘ برخوردار نے جواب دیا، ’’ایک سو پینتالیس کی۔ ‘‘ ’’تو بقایا پانچ روپے؟‘‘ صاحب نے استفسارکیا ۔ اور برخوردار نے نہایت خفّت آمیز انداز میں پانچ روپے کا سِکّہ جیب سے نکالا اور انہیں تھما دیا، جسے انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جیب میں ڈال لیا۔ کچھ عرصے بعد وہی صاحب ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ انتہائی گلوگیر لہجے اُن ہی صاحب زادے کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ’’آج کل کی اولاد سے کوئی کیا اُمید رکھے، کل صاحب زادے کو پانچ سو روپے دے کر دوا لانے کو بھیجا، دوا تو لاکر دی، مگر ساتھ ہی بولا،’’ابّو! ساڑھے پانچ سو کی آئی ہے۔ نہ پوچھو یار، کیسا زخم لگا دِل پر۔ اگر پچاس روپے جیب سے ڈالنے پڑ بھی گئے تھے، تو کم ظرف کو جتلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم بخت باپ سے حساب کرتا ہے۔ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا بہتر ہے۔‘‘(ہم ان سے بحث کر کے ان کے غم کو دو آتشہ نہیں کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہیں ضرور بتاتے کہ صاحب زادے کو حساب کتاب کااتنا ماہر بنانے میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے)۔
ایک صاحب کا شکوہ سُننے کو ملا کہ ’’بیٹا ’’زن مرید‘‘ ہو گیا ہے، گھر والوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ بس بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے، تو کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ چُھپ چُھپ کر کمرے میں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں۔ میری تو خیر ہے، کم بخت ماں تک سے بھی جھوٹے مُنہ صلاح نہیں لیتا۔‘‘ جن برخوردار کے بارے میں یہ بات ہو رہی تھی، ہمارے ذاتی مراسم بھی ان سے خاصے بے تکلفانہ ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ کلمات ہمارے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعثِ استعجاب بھی تھے۔ اتفاقاً اسی دِن ان سے بھی سامنا ہوگیا، تو ہم نے تنبیہاً عرض کی کہ ’’میاں! محض اہلیہ کی خوشنودی کی فکر میں والدین کو آزار پہنچانا کیا مناسب ہے؟‘‘وہ حیران و ششدر رہ گئے اور گویا ہوئے،’’چچا جان! بتلائیں تو سہی، کیا کوتاہی مجھ سے سر زد ہوئی؟‘‘جب ان کے سامنے ان کے والد کا شکوہ بیان کیا تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی وقت کچھ کہہ نہیں پائے، پھر رندھی ہوئی آواز اور دھیمے لہجے میں فرمانے لگے،’’چچا جان! پندرہ ہزار میری تن خواہ ہے، جس میں سے بارہ ہزار مَیں ابّو کو دے دیتا ہوں۔کُل تین ہزار میرے پاس بچ جاتے ہیں، جسے آپ میرا جیب خرچ سمجھ لیں یا ملازمت کے سلسلے میں آمد و رفت کا خرچہ۔ کئی دِنوں سے اہلیہ باہر کی بریانی کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں، چاہتا تو تھا کہ سب کے لیے لا سکوں، مگر جیب میں سکت نہیں تھی، اس لیے کل رات چپ چاپ ایک پلیٹ لا کر اہلیہ کو دے دی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی جائز خواہشات پوری کرنا بھی تو میری ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ صرف ایک بار اس خطا کا مُرتکب ہوا ہوں، ابّو سے کہیے گا دِل میلا نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘(وہ تو یہ فرما کر روانہ ہو گئے، لیکن ہمیں یقینِ واثق ہو گیا کہ جلد ہی کسی نشست میں اُن کے والد صاحب دُکھڑا رو رہے ہوں گے کہ بیٹے، بہو میں بالکل نہیں بنتی، ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، گھر کا ماحول خراب کر کے رکھ دیا ہے، کم بختوں نے)۔
ایک صاحب گلی میں اپنے بچّے کو پیٹ رہے تھے، کسی نے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی کہ، ’’نہ ماریے صاحب! بچّہ ہے۔‘‘ تو چلّانے لگے، ’’یہ بچّہ ہے، خبیث کو ہزار بار منع کر چکا ہوں کہ گالیاں نہ بکا کرے، لیکن اس مردود پر اثر ہی نہیں ہوتا، کمینہ ڈھیٹ پَنے پر اُترا ہوا ہے، دھڑادھڑ گالیاں بکتا ہے، ذلیل کہیں کا، آج سیدھا کر کے چھوڑوں گا کم بخت کو۔‘‘(ہم نے دِل میں کہا، بھائی! آپ خوامخواہ خود کو تھکا رہے ہیں، بے شک مار مار کر اس کو دنبہ بنا دیں، لیکن یہ گالیاں دینا کبھی نہیں چھوڑ پائے گا)۔
یہ تو تھے کچھ مشاہدات اب کچھ بات رویّوں کی بھی ہو جائے۔بعض افراد کا رویّہ اولاد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اسپتالوں میں معالجین کا’’شعبۂ انتہائی نگہداشت‘‘میں داخل مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے سارے حواس ہمہ وقت اولاد پر مرکوز کیے رہتے ہیں۔چوبیس گھنٹے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں (باصرہ)۔ہر کسی سے ان کی سُن گُن لیتے پِھرتے ہیں (سامعہ)۔اولاد کے ہرعمل سے انہیں خطرے کی بُو آتی ہے ( شامہ)۔ہر پَل بزرگی اور برتری کا مزہ چکھتے ہیں (ذائقہ)۔اصلاح کا واحد نسخہ ان کے پاس’’مار،پیٹ‘‘ہوتاہے (لامسہ)۔حواسِ خمسہ کے اس بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔لوگوں کی شکایات اولاد کے بارے میں عموماً متضاد ہوتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پڑھائی میں محنت نہیں کرتے، کسی کا کہنا ہے کہ ہر وقت بس پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کا شکوہ ہے، دین سے دِل چسپی نہیں، کسی کی شکایت ہے، نماز، روزے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ کہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، تو کسی کا اعتراض کہ گھر سے باہر نہیں جھانکتے۔ ان سب باتوں کی تہہ میں نکتہ صرف ایک کہ ممکن ہے مناسب وقت پر ہم نے انہیں ’’اعتدال‘‘ کی اہمیت نہ سکھائی ہو؟ جو لوگ اولاد کی بے راہ روی اور بدتمیزیوں سے پریشان ہیں، ہو سکتا ہے جس وقت انہیں اولاد کوتہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے تھا، اُس وقت انہوں نے غفلت برتی ہو؟
اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی ہم نے غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں، ہماری بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک نے انہیں جھوٹ کا عادی بنادیا ہوکہ وہ ہمارے عتاب سے بچ سکیں؟ کہیں انہیں ضدّی بنانے میں ہمارے غیر ضروری لاڈ پیار کا تو دخل نہیں؟ کہیں گھر کاغیردوستانہ ماحول تو ان کی آوارہ گردی کا سبب نہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج ہم اولاد کی جن عادات پر معترض ہیں، کبھی خود تو ان میں مبتلا نہیں رہے؟ہمیںاولاد کی تعلیم اور تربیت کا ذمّے دار ربّ نے بنایا ہے، تو کسی کمی بیشی کی صورت میں صرف اولاد کو موردِالزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ نسلِ نو کی تعمیر ہمارا فریضہ تھا، اس کی خامیوں میں ہمیں اپنے کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ عمارت میں کوئی عیب ہو یا وہ خُوب صُورت نہ ہو، تو غلطی عمارت کی نہیں، معمار کی ہوتی ہے۔ اب بھی وقت نہیں گزرا، ہمیں آپس میں اپنی اولاد کے دکھڑے رونے کی بجائے ان کی تربیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی سیکھنے کی صلاحیت، ہماری نسبت بہت زیادہ ہے، بس شرط یہ کہ ان کی صحیح سمت میں درست طریقے سے رہنمائی کی جائے۔
The post نسلِ نو سے شکایات appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NyYa68 via Daily Khabrain
0 notes
notdoni · 3 years
Text
نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
نت دونی , نت پیانو , نت متوسط پیانو , نت پیانو سیاوش قمیشی , notdoni , نت های پیانو سیاوش قمیشی , نت های پیانو , پیانو , سیاوش قمیشی , نت سیاوش قمیشی , نت های سیاوش قمیشی , نت های جواد نوری , نت های متوسط پیانو , نت پیانو متوسط
پیش نمایش نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
Tumblr media
نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
دانلود نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
خرید نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
جهت خرید نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی روی لینک زیر کلیک کنید
نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی متن آهنگ زیر تک تک نت ها نوشته شده است
تنظیم نت پیانو : جود نوری
آهنگساز : سیاوش قمیشی
نت های پیانو سیاوش قمیشی
نسخه های دیگر نت آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی ______________________ نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی
نت کیبورد آرزو سیاوش قمیشی
نت ویولن آرزو سیاوش قمیشی
نت گیتار آرزو سیاوش قمیشی
نت سنتور آرزو سیاوش قمیشی
______________________
متن آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی آرزو کن واسه فردا اگه امروزتو چیدن
آرزوهاتو بغل کن آرزوهات همه چیتن
اگه دنیات رفته از دست ، اگه غمگینی و بی کس
آرزو کن که حواسِ یه نفر هنوز به تو هست
زندگی همین یه باره ، نزار فرصت بره از دست
آرزوهاتو بغل کن ، تا خدا هست زندگی هست
یکیو خواستی و رفته ، من میفهمم که چه سخته
داره با خاطره بازی ، میگذره روزای هفته
وسط این همه کابوس ، یادش آرومت نکرده
آرزو کن اگه شاده ، دیگه هیچ وقت برنگرده
عشق آدم هر جا باشه ، یادش آرزو میسازه
پس به یاد اون شروع کن ، با یه آرزوی تازه
آرزو کن واسه فردا ، اگه امروزتو چیدن
آرزوهاتو بغل کن ، آرزوهات همه چیتن
اگه دنیات رفته از دست ، اگه غمگینی و بی کس
آرزو کن که حواسِ یه نفر هنوز به تو هست
زندگی همین یه باره ، نزار فرصت بره از دست
آرزوهاتو بغل کن ، تا خدا هست زندگی هست
____________________
کلمات کلیدی : نت پیانو آرزو سیاوش قمیشی ، نت پیانو آهنگ آرزو از سیاوش قمیشی ، نت پیانو سیاوش قمیشی آرزو نت پیانو
کلمات کلیدی : نت دونی , نت پیانو , نت متوسط پیانو , نت پیانو سیاوش قمیشی , notdoni , نت های پیانو سیاوش قمیشی , نت های پیانو , پیانو , سیاوش قمیشی , نت سیاوش قمیشی , نت های سیاوش قمیشی , نت های جواد نوری , نت های متوسط پیانو , نت پیانو متوسط
0 notes
Text
نسلِ نو سے شکایات
ہر دَور میں نسلِ نو کے سر پر مختلف قسم کی تہمتوں کا تاج رہا ہے۔ اُن پہ ہمیشہ سے لاپروائی، غیرذمّے داری، بد تمیزی، کاہلی،فضول خرچی، کام چوری اور بے راہ روی جیسے’’رنگین‘‘ الزامات کی بَھرمار رہی ہے۔ یعنی نسلِ نو پر عائد فردِ جُرم میں الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ہم عُمر متعلقین کی اکثریت کو ہم نے نسلِ نو سے شاکی ہی پایا۔ ہر کسی کی زبان پر اپنی جوان اولاد کے لیے کم و بیش اسی طرح کے عنوانات کی شکایات رہتی ہیں۔ اس مع��ملےپر جب ہم نے غیر جانب دارانہ نظر دوڑائی اور پورے غور خوض کے بعد تجزیہ کیا، تو جانا کہ جو الزامات ہم اپنی اولاد یا نسلِ نو پر دھرتے ہیں، اُن میں سے اکثر کے ذمّے دار درحقیقت ہم خود ہیں۔ اولاد سے متعلق شکایات میں سے اکثر مبنی بر حق نہیں۔ بہت سے احباب اور ان کے رویّوں کے بغور مشاہدے کے بعد ہم یہ سمجھنے میں کام یاب ہو سکے کہ اکثر ’’مقدمات‘‘ سے تو نسلِ نو با عزّت بَری کیے جانے کی حق دار ہے۔ یہاں چند ایک کا ذکر یقیناً بے محل نہ ہوگا۔
ایک صاحب دکان پر اپنے صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر ہمارے ساتھ گفت و شنید کے بعد اپنے صاحب زادے کو مبلغ ایک سو پچاس روپے مرحمت فرمائے اور شربت کی ایک بوتل لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں برخوردار نے مطلوبہ مشروب کی بوتل لا کر انہیں تھما دی۔ صاحب نے دریافت فرمایا، ’’کتنے کی ملی؟‘‘ برخوردار نے جواب دیا، ’’ایک سو پینتالیس کی۔ ‘‘ ’’تو بقایا پانچ روپے؟‘‘ صاحب نے استفسارکیا ۔ اور برخوردار نے نہایت خفّت آمیز انداز میں پانچ روپے کا سِکّہ جیب سے نکالا اور انہیں تھما دیا، جسے انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جیب میں ڈال لیا۔ کچھ عرصے بعد وہی صاحب ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ انتہائی گلوگیر لہجے اُن ہی صاحب زادے کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ’’آج کل کی اولاد سے کوئی کیا اُمید رکھے، کل صاحب زادے کو پانچ سو روپے دے کر دوا لانے کو بھیجا، دوا تو لاکر دی، مگر ساتھ ہی بولا،’’ابّو! ساڑھے پانچ سو کی آئی ہے۔ نہ پوچھو یار، کیسا زخم لگا دِل پر۔ اگر پچاس روپے جیب سے ڈالنے پڑ بھی گئے تھے، تو کم ظرف کو جتلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم بخت باپ سے حساب کرتا ہے۔ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا بہتر ہے۔‘‘(ہم ان سے بحث کر کے ان کے غم کو دو آتشہ نہیں کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہیں ضرور بتاتے کہ صاحب زادے کو حساب کتاب کااتنا ماہر بنانے میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے)۔
ایک صاحب کا شکوہ سُننے کو ملا کہ ’’بیٹا ’’زن مرید‘‘ ہو گیا ہے، گھر والوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ بس بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے، تو کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ چُھپ چُھپ کر کمرے میں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں۔ میری تو خیر ہے، کم بخت ماں تک سے بھی جھوٹے مُنہ صلاح نہیں لیتا۔‘‘ جن برخوردار کے بارے میں یہ بات ہو رہی تھی، ہمارے ذاتی مراسم بھی ان سے خاصے بے تکلفانہ ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ کلمات ہمارے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعثِ استعجاب بھی تھے۔ اتفاقاً اسی دِن ان سے بھی سامنا ہوگیا، تو ہم نے تنبیہاً عرض کی کہ ’’میاں! محض اہلیہ کی خوشنودی کی فکر میں والدین کو آزار پہنچانا کیا مناسب ہے؟‘‘وہ حیران و ششدر رہ گئے اور گویا ہوئے،’’چچا جان! بتلائیں تو سہی، کیا کوتاہی مجھ سے سر زد ہوئی؟‘‘جب ان کے سامنے ان کے والد کا شکوہ بیان کیا تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی وقت کچھ کہہ نہیں پائے، پھر رندھی ہوئی آواز اور دھیمے لہجے میں فرمانے لگے،’’چچا جان! پندرہ ہزار میری تن خواہ ہے، جس میں سے بارہ ہزار مَیں ابّو کو دے دیتا ہوں۔کُل تین ہزار میرے پاس بچ جاتے ہیں، جسے آپ میرا جیب خرچ سمجھ لیں یا ملازمت کے سلسلے میں آمد و رفت کا خرچہ۔ کئی دِنوں سے اہلیہ باہر کی بریانی کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں، چاہتا تو تھا کہ سب کے لیے لا سکوں، مگر جیب میں سکت نہیں تھی، اس لیے کل رات چپ چاپ ایک پلیٹ لا کر اہلیہ کو دے دی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی جائز خواہشات پوری کرنا بھی تو میری ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ صرف ایک بار اس خطا کا مُرتکب ہوا ہوں، ابّو سے کہیے گا دِل میلا نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘(وہ تو یہ فرما کر روانہ ہو گئے، لیکن ہمیں یقینِ واثق ہو گیا کہ جلد ہی کسی نشست میں اُن کے والد صاحب دُکھڑا رو رہے ہوں گے کہ بیٹے، بہو میں بالکل نہیں بنتی، ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، گھر کا ماحول خراب کر کے رکھ دیا ہے، کم بختوں نے)۔
ایک صاحب گلی میں اپنے بچّے کو پیٹ رہے تھے، کسی نے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی کہ، ’’نہ ماریے صاحب! بچّہ ہے۔‘‘ تو چلّانے لگے، ’’یہ بچّہ ہے، خبیث کو ہزار بار منع کر چکا ہوں کہ گالیاں نہ بکا کرے، لیکن اس مردود پر اثر ہی نہیں ہوتا، کمینہ ڈھیٹ پَنے پر اُترا ہوا ہے، دھڑادھڑ گالیاں بکتا ہے، ذلیل کہیں کا، آج سیدھا کر کے چھوڑوں گا کم بخت کو۔‘‘(ہم نے دِل میں کہا، بھائی! آپ خوامخواہ خود کو تھکا رہے ہیں، بے شک مار مار کر اس کو دنبہ بنا دیں، لیکن یہ گالیاں دینا کبھی نہیں چھوڑ پائے گا)۔
یہ تو تھے کچھ مشاہدات اب کچھ بات رویّوں کی بھی ہو جائے۔بعض افراد کا رویّہ اولاد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اسپتالوں میں معالجین کا’’شعبۂ انتہائی نگہداشت‘‘میں داخل مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے سارے حواس ہمہ وقت اولاد پر مرکوز کیے رہتے ہیں۔چوبیس گھنٹے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں (باصرہ)۔ہر کسی سے ان کی سُن گُن لیتے پِھرتے ہیں (سامعہ)۔اولاد کے ہرعمل سے انہیں خطرے کی بُو آتی ہے ( شامہ)۔ہر پَل بزرگی اور برتری کا مزہ چکھتے ہیں (ذائقہ)۔اصلاح کا واحد نسخہ ان کے پاس’’مار،پیٹ‘‘ہوتاہے (لامسہ)۔حواسِ خمسہ کے اس بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔لوگوں کی شکایات اولاد کے بارے میں عموماً متضاد ہوتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پڑھائی میں محنت نہیں کرتے، کسی کا کہنا ہے کہ ہر وقت بس پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کا شکوہ ہے، دین سے دِل چسپی نہیں، کسی کی شکایت ہے، نماز، روزے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ کہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، تو کسی کا اعتراض کہ گھر سے باہر نہیں جھانکتے۔ ان سب باتوں کی تہہ میں نکتہ صرف ایک کہ ممکن ہے مناسب وقت پر ہم نے انہیں ’’اعتدال‘‘ کی اہمیت نہ سکھائی ہو؟ جو لوگ اولاد کی بے راہ روی اور بدتمیزیوں سے پریشان ہیں، ہو سکتا ہے جس وقت انہیں اولاد کوتہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے تھا، اُس وقت انہوں نے غفلت برتی ہو؟
اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی ہم نے غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں، ہماری بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک نے انہیں جھوٹ کا عادی بنادیا ہوکہ وہ ہمارے عتاب سے بچ سکیں؟ کہیں انہیں ضدّی بنانے میں ہمارے غیر ضروری لاڈ پیار کا تو دخل نہیں؟ کہیں گھر کاغیردوستانہ ماحول تو ان کی آوارہ گردی کا سبب نہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج ہم اولاد کی جن عادات پر معترض ہیں، کبھی خود تو ان میں مبتلا نہیں رہے؟ہمیںاولاد کی تعلیم اور تربیت کا ذمّے دار ربّ نے بنایا ہے، تو کسی کمی بیشی کی صورت میں صرف اولاد کو موردِالزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ نسلِ نو کی تعمیر ہمارا فریضہ تھا، اس کی خامیوں میں ہمیں اپنے کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ عمارت میں کوئی عیب ہو یا وہ خُوب صُورت نہ ہو، تو غلطی عمارت کی نہیں، معمار کی ہوتی ہے۔ اب بھی وقت نہیں گزرا، ہمیں آپس میں اپنی اولاد کے دکھڑے رونے کی بجائے ان کی تربیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی سیکھنے کی صلاحیت، ہماری نسبت بہت زیادہ ہے، بس شرط یہ کہ ان کی صحیح سمت میں درست طریقے سے رہنمائی کی جائے۔
The post نسلِ نو سے شکایات appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NyYa68 via
0 notes
summermkelley · 6 years
Text
نسلِ نو سے شکایات
ہر دَور میں نسلِ نو کے سر پر مختلف قسم کی تہمتوں کا تاج رہا ہے۔ اُن پہ ہمیشہ سے لاپروائی، غیرذمّے داری، بد تمیزی، کاہلی،فضول خرچی، کام چوری اور بے راہ روی جیسے’’رنگین‘‘ الزامات کی بَھرمار رہی ہے۔ یعنی نسلِ نو پر عائد فردِ جُرم میں الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ہم عُمر متعلقین کی اکثریت کو ہم نے نسلِ نو سے شاکی ہی پایا۔ ہر کسی کی زبان پر اپنی جوان اولاد کے لیے کم و بیش اسی طرح کے عنوانات کی شکایات رہتی ہیں۔ اس معاملےپر جب ہم نے غیر جانب دارانہ نظر دوڑائی اور پورے غور خوض کے بعد تجزیہ کیا، تو جانا کہ جو الزامات ہم اپنی اولاد یا نسلِ نو پر دھرتے ہیں، اُن میں سے اکثر کے ذمّے دار درحقیقت ہم خود ہیں۔ اولاد سے متعلق شکایات میں سے اکثر مبنی بر حق نہیں۔ بہت سے احباب اور ان کے رویّوں کے بغور مشاہدے کے بعد ہم یہ سمجھنے میں کام یاب ہو سکے کہ اکثر ’’مقدمات‘‘ سے تو نسلِ نو با عزّت بَری کیے جانے کی حق دار ہے۔ یہاں چند ایک کا ذکر یقیناً بے محل نہ ہوگا۔
ایک صاحب دکان پر اپنے صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر ہمارے ساتھ گفت و شنید کے بعد اپنے صاحب زادے کو مبلغ ایک سو پچاس روپے مرحمت فرمائے اور شربت کی ایک بوتل لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں برخوردار نے مطلوبہ مشروب کی بوتل لا کر انہیں تھما دی۔ صاحب نے دریافت فرمایا، ’’کتنے کی ملی؟‘‘ برخوردار نے جواب دیا، ’’ایک سو پینتالیس کی۔ ‘‘ ’’تو بقایا پانچ روپے؟‘‘ صاحب نے استفسارکیا ۔ اور برخوردار نے نہایت خفّت آمیز انداز میں پانچ روپے کا سِکّہ جیب سے نکالا اور انہیں تھما دیا، جسے انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جیب میں ڈال لیا۔ کچھ عرصے بعد وہی صاحب ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ انتہائی گلوگیر لہجے اُن ہی صاحب زادے کے ��ارے میں فرما رہے تھے کہ ’’آج کل کی اولاد سے کوئی کیا اُمید رکھے، کل صاحب زادے کو پانچ سو روپے دے کر دوا لانے کو بھیجا، دوا تو لاکر دی، مگر ساتھ ہی بولا،’’ابّو! ساڑھے پانچ سو کی آئی ہے۔ نہ پوچھو یار، کیسا زخم لگا دِل پر۔ اگر پچاس روپے جیب سے ڈالنے پڑ بھی گئے تھے، تو کم ظرف کو جتلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم بخت باپ سے حساب کرتا ہے۔ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا بہتر ہے۔‘‘(ہم ان سے بحث کر کے ان کے غم کو دو آتشہ نہیں کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہیں ضرور بتاتے کہ صاحب زادے کو حساب کتاب کااتنا ماہر بنانے میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے)۔
ایک صاحب کا شکوہ سُننے کو ملا کہ ’’بیٹا ’’زن مرید‘‘ ہو گیا ہے، گھر والوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ بس بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے، تو کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ چُھپ چُھپ کر کمرے میں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں۔ میری تو خیر ہے، کم بخت ماں تک سے بھی جھوٹے مُنہ صلاح نہیں لیتا۔‘‘ جن برخوردار کے بارے میں یہ بات ہو رہی تھی، ہمارے ذاتی مراسم بھی ان سے خاصے بے تکلفانہ ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ کلمات ہمارے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعثِ استعجاب بھی تھے۔ اتفاقاً اسی دِن ان سے بھی سامنا ہوگیا، تو ہم نے تنبیہاً عرض کی کہ ’’میاں! محض اہلیہ کی خوشنودی کی فکر میں والدین کو آزار پہنچانا کیا مناسب ہے؟‘‘وہ حیران و ششدر رہ گئے اور گویا ہوئے،’’چچا جان! بتلائیں تو سہی، کیا کوتاہی مجھ سے سر زد ہوئی؟‘‘جب ان کے سامنے ان کے والد کا شکوہ بیان کیا تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی وقت کچھ کہہ نہیں پائے، پھر رندھی ہوئی آواز اور دھیمے لہجے میں فرمانے لگے،’’چچا جان! پندرہ ہزار میری تن خواہ ہے، جس میں سے بارہ ہزار مَیں ابّو کو دے دیتا ہوں۔کُل تین ہزار میرے پاس بچ جاتے ہیں، جسے آپ میرا جیب خرچ سمجھ لیں یا ملازمت کے سلسلے میں آمد و رفت کا خرچہ۔ کئی دِنوں سے اہلیہ باہر کی بریانی کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں، چاہتا تو تھا کہ سب کے لیے لا سکوں، مگر جیب میں سکت نہیں تھی، اس لیے کل رات چپ چاپ ایک پلیٹ لا کر اہلیہ کو دے دی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی جائز خواہشات پوری کرنا بھی تو میری ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ صرف ایک بار اس خطا کا مُرتکب ہوا ہوں، ابّو سے کہیے گا دِل میلا نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘(وہ تو یہ فرما کر روانہ ہو گئے، لیکن ہمیں یقینِ واثق ہو گیا کہ جلد ہی کسی نشست میں اُن کے والد صاحب دُکھڑا رو رہے ہوں گے کہ بیٹے، بہو میں بالکل نہیں بنتی، ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، گھر کا ماحول خراب کر کے رکھ دیا ہے، کم بختوں نے)۔
ایک صاحب گلی میں اپنے بچّے کو پیٹ رہے تھے، کسی نے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی کہ، ’’نہ ماریے صاحب! بچّہ ہے۔‘‘ تو چلّانے لگے، ’’یہ بچّہ ہے، خبیث کو ہزار بار منع کر چکا ہوں کہ گالیاں نہ بکا کرے، لیکن اس مردود پر اثر ہی نہیں ہوتا، کمینہ ڈھیٹ پَنے پر اُترا ہوا ہے، دھڑادھڑ گالیاں بکتا ہے، ذلیل کہیں کا، آج سیدھا کر کے چھوڑوں گا کم بخت کو۔‘‘(ہم نے دِل میں کہا، بھائی! آپ خوامخواہ خود کو تھکا رہے ہیں، بے شک مار مار کر اس کو دنبہ بنا دیں، لیکن یہ گالیاں دینا کبھی نہیں چھوڑ پائے گا)۔
یہ تو تھے کچھ مشاہدات اب کچھ بات رویّوں کی بھی ہو جائے۔بعض افراد کا رویّہ اولاد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اسپتالوں میں معالجین کا’’شعبۂ انتہائی نگہداشت‘‘میں داخل مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے سارے حواس ہمہ وقت اولاد پر مرکوز کیے رہتے ہیں۔چوبیس گھنٹے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں (باصرہ)۔ہر کسی سے ان کی سُن گُن لیتے پِھرتے ہیں (سامعہ)۔اولاد کے ہرعمل سے انہیں خطرے کی بُو آتی ہے ( شامہ)۔ہر پَل بزرگی اور برتری کا مزہ چکھتے ہیں (ذائقہ)۔اصلاح کا واحد نسخہ ان کے پاس’’مار،پیٹ‘‘ہوتاہے (لامسہ)۔حواسِ خمسہ کے اس بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔لوگوں کی شکایات اولاد کے بارے میں عموماً متضاد ہوتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پڑھائی میں محنت نہیں کرتے، کسی کا کہنا ہے کہ ہر وقت بس پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کا شکوہ ہے، دین سے دِل چسپی نہیں، کسی کی شکایت ہے، نماز، روزے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ کہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، تو کسی کا اعتراض کہ گھر سے باہر نہیں جھانکتے۔ ان سب باتوں کی تہہ میں نکتہ صرف ایک کہ ممکن ہے مناسب وقت پر ہم نے انہیں ’’اعتدال‘‘ کی اہمیت نہ سکھائی ہو؟ جو لوگ اولاد کی بے راہ روی اور بدتمیزیوں سے پریشان ہیں، ہو سکتا ہے جس وقت انہیں اولاد کوتہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے تھا، اُس وقت انہوں نے غفلت برتی ہو؟
اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی ہم نے غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں، ہماری بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک نے انہیں جھوٹ کا عادی بنادیا ہوکہ وہ ہمارے عتاب سے بچ سکیں؟ کہیں انہیں ضدّی بنانے میں ہمارے غیر ضروری لاڈ پیار کا تو دخل نہیں؟ کہیں گھر کاغیردوستانہ ماحول تو ان کی آوارہ گردی کا سبب نہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج ہم اولاد کی جن عادات پر معترض ہیں، کبھی خود تو ان میں مبتلا نہیں رہے؟ہمیںاولاد کی تعلیم اور تربیت کا ذمّے دار ربّ نے بنایا ہے، تو کسی کمی بیشی کی صورت میں صرف اولاد کو موردِالزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ نسلِ نو کی تعمیر ہمارا فریضہ تھا، اس کی خامیوں میں ہمیں اپنے کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ عمارت میں کوئی عیب ہو یا وہ خُوب صُورت نہ ہو، تو غلطی عمارت کی نہیں، معمار کی ہوتی ہے۔ اب بھی وقت نہیں گزرا، ہمیں آپس میں اپنی اولاد کے دکھڑے رونے کی بجائے ان کی تربیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی سیکھنے کی صلاحیت، ہماری نسبت بہت زیادہ ہے، بس شرط یہ کہ ان کی صحیح سمت میں درست طریقے سے رہنمائی کی جائے۔
The post نسلِ نو سے شکایات appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NyYa68 via Roznama Urdu
0 notes
katarinadreams92 · 6 years
Text
نسلِ نو سے شکایات
ہر دَور میں نسلِ نو کے سر پر مختلف قسم کی تہمتوں کا تاج رہا ہے۔ اُن پہ ہمیشہ سے لاپروائی، غیرذمّے داری، بد تمیزی، کاہلی،فضول خرچی، کام چوری اور بے راہ روی جیسے’’رنگین‘‘ الزامات کی بَھرمار رہی ہے۔ یعنی نسلِ نو پر عائد فردِ جُرم میں الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ہم عُمر متعلقین کی اکثریت کو ہم نے نسلِ نو سے شاکی ہی پایا۔ ہر کسی کی زبان پر اپنی جوان اولاد کے لیے کم و بیش اسی طرح کے عنوانات کی شکایات رہتی ہیں۔ اس معاملےپر جب ہم نے غیر جانب دارانہ نظر دوڑائی اور پورے غور خوض کے بعد تجزیہ کیا، تو جانا کہ جو الزامات ہم اپنی اولاد یا نسلِ نو پر دھرتے ہیں، اُن میں سے اکثر کے ذمّے دار درحقیقت ہم خود ہیں۔ اولاد سے متعلق شکایات میں سے اکثر مبنی بر حق نہیں۔ بہت سے احباب اور ان کے رویّوں کے بغور مشاہدے کے بعد ہم یہ سمجھنے میں کام یاب ہو سکے کہ اکثر ’’مقدمات‘‘ سے تو نسلِ نو با عزّت بَری کیے جانے کی حق دار ہے۔ یہاں چند ایک کا ذکر یقیناً بے محل نہ ہوگا۔
ایک صاحب دکان پر اپنے صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر ہمارے ساتھ گفت و شنید کے بعد اپنے صاحب زادے کو مبلغ ایک سو پچاس روپے مرحمت فرمائے اور شربت کی ایک بوتل لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں برخوردار نے مطلوبہ مشروب کی بوتل لا کر انہیں تھما دی۔ صاحب نے دریافت فرمایا، ’’کتنے کی ملی؟‘‘ برخوردار نے جواب دیا، ’’ایک سو پینتالیس کی۔ ‘‘ ’’تو بقایا پانچ روپے؟‘‘ صاحب نے استفسارکیا ۔ اور برخوردار نے نہایت خفّت آمیز انداز میں پانچ روپے کا سِکّہ جیب سے نکالا اور انہیں تھما دیا، جسے انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جیب میں ڈال لیا۔ کچھ عرصے بعد وہی صاحب ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ انتہائی گلوگیر لہجے اُن ہی صاحب زادے کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ’’آج کل کی اولاد سے کوئی کیا اُمید رکھے، کل صاحب زادے کو پانچ سو روپے دے کر دوا لانے کو بھیجا، دوا تو لاکر دی، مگر ساتھ ہی بولا،’’ابّو! ساڑھے پانچ سو کی آئی ہے۔ نہ پوچھو یار، کیسا زخم لگا دِل پر۔ اگر پچاس روپے جیب سے ڈالنے پڑ بھی گئے تھے، تو کم ظرف کو جتلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم بخت باپ سے حساب کرتا ہے۔ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا بہتر ہے۔‘‘(ہم ان سے بحث کر کے ان کے غم کو دو آتشہ نہیں کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہیں ضرور بتاتے کہ صاحب زادے کو حساب کتاب کااتنا ماہر بنانے میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے)۔
ایک صاحب کا شکوہ سُننے کو ملا کہ ’’بیٹا ’’زن مرید‘‘ ہو گیا ہے، گھر والوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ بس بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے، تو کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ چُھپ چُھپ کر کمرے میں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں۔ میری تو خیر ہے، کم بخت ماں تک سے بھی جھوٹے مُنہ صلاح نہیں لیتا۔‘‘ جن برخوردار کے بارے میں یہ بات ہو رہی تھی، ہمارے ذاتی مراسم بھی ان سے خاصے بے تکلفانہ ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ کلمات ہمارے ل��ے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعثِ استعجاب بھی تھے۔ اتفاقاً اسی دِن ان سے بھی سامنا ہوگیا، تو ہم نے تنبیہاً عرض کی کہ ’’میاں! محض اہلیہ کی خوشنودی کی فکر میں والدین کو آزار پہنچانا کیا مناسب ہے؟‘‘وہ حیران و ششدر رہ گئے اور گویا ہوئے،’’چچا جان! بتلائیں تو سہی، کیا کوتاہی مجھ سے سر زد ہوئی؟‘‘جب ان کے سامنے ان کے والد کا شکوہ بیان کیا تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی وقت کچھ کہہ نہیں پائے، پھر رندھی ہوئی آواز اور دھیمے لہجے میں فرمانے لگے،’’چچا جان! پندرہ ہزار میری تن خواہ ہے، جس میں سے بارہ ہزار مَیں ابّو کو دے دیتا ہوں۔کُل تین ہزار میرے پاس بچ جاتے ہیں، جسے آپ میرا جیب خرچ سمجھ لیں یا ملازمت کے سلسلے میں آمد و رفت کا خرچہ۔ کئی دِنوں سے اہلیہ باہر کی بریانی کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں، چاہتا تو تھا کہ سب کے لیے لا سکوں، مگر جیب میں سکت نہیں تھی، اس لیے کل رات چپ چاپ ایک پلیٹ لا کر اہلیہ کو دے دی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی جائز خواہشات پوری کرنا بھی تو میری ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ صرف ایک بار اس خطا کا مُرتکب ہوا ہوں، ابّو سے کہیے گا دِل میلا نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘(وہ تو یہ فرما کر روانہ ہو گئے، لیکن ہمیں یقینِ واثق ہو گیا کہ جلد ہی کسی نشست میں اُن کے والد صاحب دُکھڑا رو رہے ہوں گے کہ بیٹے، بہو میں بالکل نہیں بنتی، ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، گھر کا ماحول خراب کر کے رکھ دیا ہے، کم بختوں نے)۔
ایک صاحب گلی میں اپنے بچّے کو پیٹ رہے تھے، کسی نے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی کہ، ’’نہ ماریے صاحب! بچّہ ہے۔‘‘ تو چلّانے لگے، ’’یہ بچّہ ہے، خبیث کو ہزار بار منع کر چکا ہوں کہ گالیاں نہ بکا کرے، لیکن اس مردود پر اثر ہی نہیں ہوتا، کمینہ ڈھیٹ پَنے پر اُترا ہوا ہے، دھڑادھڑ گالیاں بکتا ہے، ذلیل کہیں کا، آج سیدھا کر کے چھوڑوں گا کم بخت کو۔‘‘(ہم نے دِل میں کہا، بھائی! آپ خوامخواہ خود کو تھکا رہے ہیں، بے شک مار مار کر اس کو دنبہ بنا دیں، لیکن یہ گالیاں دینا کبھی نہیں چھوڑ پائے گا)۔
یہ تو تھے کچھ مشاہدات اب کچھ بات رویّوں کی بھی ہو جائے۔بعض افراد کا رویّہ اولاد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اسپتالوں میں معالجین کا’’شعبۂ انتہائی نگہداشت‘‘میں داخل مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے سارے حواس ہمہ وقت اولاد پر مرکوز کیے رہتے ہیں۔چوبیس گھنٹے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں (باصرہ)۔ہر کسی سے ان کی سُن گُن لیتے پِھرتے ہیں (سامعہ)۔اولاد کے ہرعمل سے انہیں خطرے کی بُو آتی ہے ( شامہ)۔ہر پَل بزرگی اور برتری کا مزہ چکھتے ہیں (ذائقہ)۔اصلاح کا واحد نسخہ ان کے پاس’’مار،پیٹ‘‘ہوتاہے (لامسہ)۔حواسِ خمسہ کے اس بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔لوگوں کی شکایات اولاد کے بارے میں عموماً متضاد ہوتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پڑھائی میں محنت نہیں کرتے، کسی کا کہنا ہے کہ ہر وقت بس پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کا شکوہ ہے، دین سے دِل چسپی نہیں، کسی کی شکایت ہے، نماز، روزے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ کہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، تو کسی کا اعتراض کہ گھر سے باہر نہیں جھانکتے۔ ان سب باتوں کی تہہ میں نکتہ صرف ایک کہ ممکن ہے مناسب وقت پر ہم نے انہیں ’’اعتدال‘‘ کی اہمیت نہ سکھائی ہو؟ جو لوگ اولاد کی بے راہ روی اور بدتمیزیوں سے پریشان ہیں، ہو سکتا ہے جس وقت انہیں اولاد کوتہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے تھا، اُس وقت انہوں نے غفلت برتی ہو؟
اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی ہم نے غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں، ہماری بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک نے انہیں جھوٹ کا عادی بنادیا ہوکہ وہ ہمارے عتاب سے بچ سکیں؟ کہیں انہیں ضدّی بنانے میں ہمارے غیر ضروری لاڈ پیار کا تو دخل نہیں؟ کہیں گھر کاغیردوستانہ ماحول تو ان کی آوارہ گردی کا سبب نہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج ہم اولاد کی جن عادات پر معترض ہیں، کبھی خود تو ان میں مبتلا نہیں رہے؟ہمیںاولاد کی تعلیم اور تربیت کا ذمّے دار ربّ نے بنایا ہے، تو کسی کمی بیشی کی صورت میں صرف اولاد کو موردِالزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ نسلِ نو کی تعمیر ہمارا فریضہ تھا، اس کی خامیوں میں ہمیں اپنے کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ عمارت میں کوئی عیب ہو یا وہ خُوب صُورت نہ ہو، تو غلطی عمارت کی نہیں، معمار کی ہوتی ہے۔ اب بھی وقت نہیں گزرا، ہمیں آپس میں اپنی اولاد کے دکھڑے رونے کی بجائے ان کی تربیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی سیکھنے کی صلاحیت، ہماری نسبت بہت زیادہ ہے، بس شرط یہ کہ ان کی صحیح سمت میں درست طریقے سے رہنمائی کی جائے۔
The post نسلِ نو سے شکایات appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NyYa68 via Hindi Khabrain
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
نسلِ نو سے شکایات
ہر دَور میں نسلِ نو کے سر پر مختلف قسم کی تہمتوں کا تاج رہا ہے۔ اُن پہ ہمیشہ سے لاپروائی، غیرذمّے داری، بد تمیزی، کاہلی،فضول خرچی، کام چوری اور بے راہ روی جیسے’’رنگین‘‘ الزامات کی بَھرمار رہی ہے۔ یعنی نسلِ نو پر عائد فردِ جُرم میں الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ ہم عُمر متعلقین کی اکثریت کو ہم نے نسلِ نو سے شاکی ہی پایا۔ ہر کسی کی زبان پر اپنی جوان اولاد کے لیے کم و بیش اسی طرح کے عنوانات کی شکایات رہتی ہیں۔ اس معاملےپر جب ہم نے غیر جانب دارانہ نظر دوڑائی اور پورے غور خوض کے بعد تجزیہ کیا، تو جانا کہ جو الزامات ہم اپنی اولاد یا نسلِ نو پر دھرتے ہیں، اُن میں سے اکثر کے ذمّے دار درحقیقت ہم خود ہیں۔ اولاد سے متعلق شکایات میں سے اکثر مبنی بر حق نہیں۔ بہت سے احباب اور ان کے رویّوں کے بغور مشاہدے کے بعد ہم یہ سمجھنے میں کام یاب ہو سکے کہ اکثر ’’مقدمات‘‘ سے تو نسلِ نو با عزّت بَری کیے جانے کی حق دار ہے۔ یہاں چند ایک کا ذکر یقیناً بے محل نہ ہوگا۔
ایک صاحب دکان پر اپنے صاحب زادے کے ساتھ تشریف لائے۔ کچھ دیر ہمارے ساتھ گفت و شنید کے بعد اپنے صاحب زادے کو مبلغ ایک سو پچاس روپے مرحمت فرمائے اور شربت کی ایک بوتل لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں برخوردار نے مطلوبہ مشروب کی بوتل لا کر انہیں تھما دی۔ صاحب نے دریافت فرمایا، ’’کتنے کی ملی؟‘‘ برخوردار نے جواب دیا، ’’ایک سو پینتالیس کی۔ ‘‘ ’’تو بقایا پانچ روپے؟‘‘ صاحب نے استفسارکیا ۔ اور برخوردار نے نہایت خفّت آمیز انداز میں پانچ روپے کا سِکّہ جیب سے نکالا اور انہیں تھما دیا، جسے انہوں نے بڑے فخریہ انداز میں جیب میں ڈال لیا۔ کچھ عرصے بعد وہی صاحب ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ انتہائی گلوگیر لہجے اُن ہی صاحب زادے کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ’’آج کل کی اولاد سے کوئی کیا اُمید رکھے، کل صاحب زادے کو پانچ سو روپے دے کر دوا لانے کو بھیجا، دوا تو لاکر دی، مگر ساتھ ہی بولا،’’ابّو! ساڑھے پانچ سو کی آئی ہے۔ نہ پوچھو یار، کیسا زخم لگا دِل پر۔ اگر پچاس روپے جیب سے ڈالنے پڑ بھی گئے تھے، تو کم ظرف کو جتلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کم بخت باپ سے حساب کرتا ہے۔ ایسی اولاد سے تو بے اولاد ہونا بہتر ہے۔‘‘(ہم ان سے بحث کر کے ان کے غم کو دو آتشہ نہیں کرنا چاہتے تھے، ورنہ انہیں ضرور بتاتے کہ صاحب زادے کو حساب کتاب کااتنا ماہر بنانے میں خود ان کا کتنا عمل دخل ہے)۔
ایک صاحب کا شکوہ سُننے کو ملا کہ ’’بیٹا ’’زن مرید‘‘ ہو گیا ہے، گھر والوں کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ بس بیوی کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہتا ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی چیزیں لاتا ہے، تو کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ چُھپ چُھپ کر کمرے میں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں۔ میری تو خیر ہے، کم بخت ماں تک سے بھی جھوٹے مُنہ صلاح نہیں لیتا۔‘‘ جن برخوردار کے بارے میں یہ بات ہو رہی تھی، ہمارے ذاتی مراسم بھی ان سے خاصے بے تکلفانہ ہیں۔ اُن کے بارے میں یہ کلمات ہمارے لیے تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ باعثِ استعجاب بھی تھے۔ اتفاقاً اسی دِن ان سے بھی سامنا ہوگیا، تو ہم نے تنبیہاً عرض کی کہ ’’میاں! محض اہلیہ کی خوشنودی کی فکر میں والدین کو آزار پہنچانا کیا مناسب ہے؟‘‘وہ حیران و ششدر رہ گئے اور گویا ہوئے،’’چچا جان! بتلائیں تو سہی، کیا کوتاہی مجھ سے سر زد ہوئی؟‘‘جب ان کے سامنے ان کے والد کا شکوہ بیان کیا تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ کافی وقت کچھ کہہ نہیں پائے، پھر رندھی ہوئی آواز اور دھیمے لہجے میں فرمانے لگے،’’چچا جان! پندرہ ہزار میری تن خواہ ہے، جس میں سے بارہ ہزار مَیں ابّو کو دے دیتا ہوں۔کُل تین ہزار میرے پاس بچ جاتے ہیں، جسے آپ میرا جیب خرچ سمجھ لیں یا ملازمت کے سلسلے میں آمد و رفت کا خرچہ۔ کئی دِنوں سے اہلیہ باہر کی بریانی کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں، چاہتا تو تھا کہ سب کے لیے لا سکوں، مگر جیب میں سکت نہیں تھی، اس لیے کل رات چپ چاپ ایک پلیٹ لا کر اہلیہ کو دے دی۔ یہ سوچ کر کہ اس کی جائز خواہشات پوری کرنا بھی تو میری ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ صرف ایک بار اس خطا کا مُرتکب ہوا ہوں، ابّو سے کہیے گا دِل میلا نہ کریں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘(وہ تو یہ فرما کر روانہ ہو گئے، لیکن ہمیں یقینِ واثق ہو گیا کہ جلد ہی کسی نشست میں اُن کے والد صاحب دُکھڑا رو رہے ہوں گے کہ بیٹے، بہو میں بالکل نہیں بنتی، ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، گھر کا ماحول خراب کر کے رکھ دیا ہے، کم بختوں نے)۔
ایک صاحب گلی میں اپنے بچّے کو پیٹ رہے تھے، کسی نے انہیں باز رکھنے کی کوشش کی کہ، ’’نہ ماریے صاحب! بچّہ ہے۔‘‘ تو چلّانے لگے، ’’یہ بچّہ ہے، خبیث کو ہزار بار منع کر چکا ہوں کہ گالیاں نہ بکا کرے، لیکن اس مردود پر اثر ہی نہیں ہوتا، کمینہ ڈھیٹ پَنے پر اُترا ہوا ہے، دھڑادھڑ گالیاں بکتا ہے، ذلیل کہیں کا، آج سیدھا کر کے چھوڑوں گا کم بخت کو۔‘‘(ہم نے دِل میں کہا، بھائی! آپ خوامخواہ خود کو تھکا رہے ہیں، بے شک مار مار کر اس کو دنبہ بنا دیں، لیکن یہ گالیاں دینا کبھی نہیں چھوڑ پائے گا)۔
یہ تو تھے کچھ مشاہدات اب کچھ بات رویّوں کی بھی ہو جائے۔بعض افراد کا رویّہ اولاد کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جیسا کہ اسپتالوں میں معالجین کا’’شعبۂ انتہائی نگہداشت‘‘میں داخل مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے سارے حواس ہمہ وقت اولاد پر مرکوز کیے رہتے ہیں۔چوبیس گھنٹے ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں (باصرہ)۔ہر کسی سے ان کی سُن گُن لیتے پِھرتے ہیں (سامعہ)۔اولاد کے ہرعمل سے انہیں خطرے کی بُو آتی ہے ( شامہ)۔ہر پَل بزرگی اور برتری کا مزہ چکھتے ہیں (ذائقہ)۔اصلاح کا واحد نسخہ ان کے پاس’’مار،پیٹ‘‘ہوتاہے (لامسہ)۔حواسِ خمسہ کے اس بے دریغ استعمال کے بعد بھی نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔لوگوں کی شکایات اولاد کے بارے میں عموماً متضاد ہوتی ہیں۔ کوئی کہتا ہے پڑھائی میں محنت نہیں کرتے، کسی کا کہنا ہے کہ ہر وقت بس پڑھتے رہتے ہیں۔ کسی کا شکوہ ہے، دین سے دِل چسپی نہیں، کسی کی شکایت ہے، نماز، روزے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ کہ آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں، تو کسی کا اعتراض کہ گھر سے باہر نہیں جھانکتے۔ ان سب باتوں کی تہہ میں نکتہ صرف ایک کہ ممکن ہے مناسب وقت پر ہم نے انہیں ’’اعتدال‘‘ کی اہمیت نہ سکھائی ہو؟ جو لوگ اولاد کی بے راہ روی اور بدتمیزیوں سے پریشان ہیں، ہو سکتا ہے جس وقت انہیں اولاد کوتہذیب اور اخلاقیات کا درس دینا چاہیے تھا، اُس وقت انہوں نے غفلت برتی ہو؟
اپنی اولاد کے حوالے سے کبھی ہم نے غور کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں، ہماری بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور روک ٹوک نے انہیں جھوٹ کا عادی بنادیا ہوکہ وہ ہمارے عتاب سے بچ سکیں؟ کہیں انہیں ضدّی بنانے میں ہمارے غیر ضروری لاڈ پیار کا تو دخل نہیں؟ کہیں گھر کاغیردوستانہ ماحول تو ان کی آوارہ گردی کا سبب نہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ آج ہم اولاد کی جن عادات پر معترض ہیں، کبھی خود تو ان میں مبتلا نہیں رہے؟ہمیںاولاد کی تعلیم اور تربیت کا ذمّے دار ربّ نے بنایا ہے، تو کسی کمی بیشی کی صورت میں صرف اولاد کو موردِالزام ٹھہرانا نا انصافی ہوگی۔ نسلِ نو کی تعمیر ہمارا فریضہ تھا، اس کی خامیوں میں ہمیں اپنے کردار سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ عمارت میں کوئی عیب ہو یا وہ خُوب صُورت نہ ہو، تو غلطی عمارت کی نہیں، معمار کی ہوتی ہے۔ اب بھی وقت نہیں گزرا، ہمیں آپس میں اپنی اولاد کے دکھڑے رونے کی بجائے ان کی تربیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نئی نسل کی سیکھنے کی صلاحیت، ہماری نسبت بہت زیادہ ہے، بس شرط یہ کہ ان کی صحیح سمت میں درست طریقے سے رہنمائی کی جائے۔
The post نسلِ نو سے شکایات appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NyYa68 via Urdu News
0 notes