Tumgik
#دہانے
akksofficial · 2 years
Text
ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا، 4ارب ڈالر کےلئے قومی اثاثے بھی دا ﺅپہ لگا دیئے گئے ہیں، شیخ رشید
ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا، 4ارب ڈالر کےلئے قومی اثاثے بھی دا ﺅپہ لگا دیئے گئے ہیں، شیخ رشید
راولپنڈی(نمائندہ عکس)سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور مہنگائی 43فیصد بڑھ گئی،سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لکھا کہ ملک میں 43فیصد مہنگائی بڑھ گئی ہے جبکہ معاشی سلامتی اور قومی سلامتی کے بعد 4ارب ڈالر کے لیے قومی اثاثے بھی دا ﺅپہ لگا دیئے ہیں،انہوں نے کہا کہ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے،شیخ رشید…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 1 month
Text
میری ہمشیرہ میری ترقی کا زینہ
دن کو تقریبأ ساڑھے گیارہ بجے مجھے فیلڈ میں جانے کا کہا .. میں نے منع کرنا چاہا کیوںکہ میرے ساتھ مریم بھی گھر جاتی تھی لیکن سر کہنے لگے
" ان کی تم فکر نہ کرو میں تمہیں آج ایک سرپرائز دوں گا."
"سرہرایز¿ کیسا سرپرایز سر¿" میں حیران تھا.
"بھئ وہ تمہیں شام کو ہی پتہ چلے گا."
میں نے فیلڈ میں جانے کی حامی بھر لی. شام کو چھ بجے مجھے باس کی کال آئ انہوں نے ایک پرایئویٹ ہوٹل میں آنے کا کہ دیا اور کہا کہ وہیں تمہیں سرپرایز بھی دوں گا.
میں فورأ ہوٹل میں پہنچا اور باس کے بتاۓ ہوۓ کمرے میں پہنچ گیا .. دروازہ knock کرنے پہ اندر سے دروازہ کھلا اور میں حیران رہ گیا. وہ مریم تھی .. اس کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ تھی.
"اندر آؤ بھائ"
میں اندر چلا گیا. باس ایک صوفے پہ نڈھال سے بیھے تھے.. وہ صرف انڈر ویئر میں ملبوس تھے.. مریم کنڈی لگا کہ اندر آئ اور آتے ہی میری گردن میں بانہیں ڈال لیں.
"تم یہی چاہتے تھے نا بہنچود" اپنی سگی معصوم شریف بہن کہ منہ سے یہ جملہ اور یہ گالی سن کہ میرا لنڈ لوہے کی طرح سخت ہو گیا .. مریم مجھے ہاتھ سے پکڑ کہ صوفے پہ لے گئ. اور کہنے لگی تم میرے ساتھ کچھ کر تو نہیں سکتے کیونکہ میں تمہاری سگی بہن ہوں اور اسلام میں بہن بھائ کا ملاپ منع ہے . لیکن اپنی بہن کو کسی غیر مرد کا لنڈ اپنی چوت میں لیتے دیکھ تو سکتے ہو نا.. یہ کہتے ہوے اس نے محسن سر کہ ابھار پہ ہاتھ پھیرا اور اپنا نچلا ہونٹ اوپر والے ہونٹ کی مدد سے خود کاٹا.. مجھے اندازہ ہو گیا کہ مریم گرم ہو چکی ہے اور آج وہ اپنی چوت میں لے کہ ہی رہے گی.
"اوہ کم آن حیدر! تم پہلے دن سے یہی چاہتے تھے اب کنفیوز کیون ہو¿"
باس نے وار کیا
میں نے ایک مسکراہٹ دے دی.
Tumblr media
میری مسکراہٹ کی دیر تھی کہ مریم باس پہ پل پڑی. کسی ماہر رنڈی کی طرح مریم باس کے جسم کے اوپر بیٹھی پیار سے انکا منہ چوم رہی تھی گردن چاٹ رہی تھی. باس مزے سے مدہوش تھے. ان کے لیۓ مریم کی رانیں ہی کافی تھی جو انکی ٹانگوں کو ٹکرا رہی تھیں .. چما چاٹی اور کسنگ کے بعد مریم نیچے ہوئ اور باس اس کے اوپر آ گیۓ. بس نے آتے ہی مریم کی قمیض اتار دی .. تنگ قمیض میں پھنسے مریم کے ممے جب قمیض کی قید سے آذاد ہوۓ تو 38 سایز کے دودھ کیسے ہوا میں اچھلے یہ میں بیان نہیں کر سکتا. مریم نے بلیک رنگ کی برا پہنی تھی. ایک تھیلی نما برا تھی جیسے اگر کسی بکری کے تھن ذیادہ بڑے ہو جایئں تو انہیں ڈھانپنے کے لیۓ استعمال کی جاتی ہے ویسے ہی مریم کی برا بھی تھی. سر نے آہستہ سے مریم کے مموں کو برا کی قید سے آذاد کر دیا. مجھے یقین ہے کہ مریم کے تھنوں میں سے نکلنے والے دودھ سے ذیادہ اس کے تھن گورے تھے. گول مٹول اور تگڑے موٹے تازے تھن.
Tumblr media
سر محسن ان پہ پاگلوں کی طرح پل پڑے کبھی ہاتھ پھیرتے کبھی پکڑ کہ دبا دیتے جس سے مریم کہ منہ سے ایک سسکاری نکلتی. پھر باس نے اس کے ممے اپنے منہ میں لیۓ اور شیر خوار بچے کی طرح نپلز چوسنے لگے.. آدھا گھنٹہ باس مریم کے تھنوں سے کھیلتے رہے جیسے بچے غباروں سے کھیلتے ہیں.
اب باری ٹانگوں کی تھی. اس سب کے دوران میں نے بھی اپنا لوڑا ہاتھوں میں لے لیا تھا اور مسلسل اسے مسلے جا رہا تھا.
باس نے مریم کو الٹا لٹایا اور مریم کی بنڈ کو سونگھنے لگے. سونگھنے والے کتے کی طرح باس مے مریم کے چوتڑ اور اندر والی لکیر سونگھی پھر چاٹی.. مریم کا اورینج کلر کا پاجامہ سر کی تھوک سے مکمل بھیگ گیا. اب باجی نے ماہر رنڈی کی طرح سر کو دھکا دے کہ نیچے کیا اور اوپر آ کہ انڈر ویئر نکالنے لگی. باس کا صحت مند 9 انچ کا لنڈ جس کی رگیں تنی ہوئ تھیں وہ اپنے ہاتھ میں لیا اور ساتھ ہی باس کو ایک آنکھ ماری.باس نے باقاعدہ چوپا لگانے سے میری بہن کو منع کر دیا لیکن باجی نے گیلا کرنے کے لیۓ اپنی ناگن کے جیسی لمبی زبان
نکالی اور ٹوپے سے ٹٹے تک ایک ہی دفعہ چاٹ کہ لنڈ گیلا کر دیا
Tumblr media
اب باس ایک بار پھر اوپر آۓ اور باجی کا ٹراوزر اور پینٹی اتار دی جس سے میری بہن کی پنک پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی. باس نے آؤ دیکھا نا تاؤ اپنی زبان نکال کہ بچوں کی طرح باجی کی پھدی چاٹنے لگے. میں مریم کی سسکاریاں سن کہ مٹھ لگانے لگا. پھدی چاٹنے کے بعد باس نے پوزیشن لی اور اپنے لوڑے پہ کنڈم لگایا .. اس کے بعد چوت کہ دہانے پہ اپنا ٹوپہ رکھ کہ تھوڑا سا زور لگایا. مریم تھوڑی سی چلائ.
باس رک گۓ. باس نے تھوڑی دیر تک مریم کے ہونٹ منہ میں لیے اور پھر اپنا لنڈ میری بہن کی چوت میں آدھا گھسیڑ دیا. اور اب strokes لگانے لگے. مریم مزے اور درد کے اس حسین امتزاج کو مکمل انجواۓ کر رہی تھی. کسی ماہر پورن سٹار کی طرح میری سگی بہن موننگ کر رہی تھی . پورے کمرے میں مریم کی اف آہ کے علاوہ لن اور پھدی کی چٹاخ پٹاخ بھی گونج رہی تھی. وہ لوگ چدائ کے ساتھ ساتھ passionate kissing بھی کر رہے تھے یعنی باس نے مریم کے کان اپنے منہ میں لیے تھے اور انہیں چاٹ رہے تھے. اپنی لمبی زبان نکال کہ مریم کے چہرے کو چاٹ رہے تھے. اچانک مریم کی موننگ بھی تیز ہو گئ اور باس فکنگ بھی hard کرنے لگے یعنی گھسے تیز تیز مارنے لگے. ایک چیخ باس کے منہ سے نکلی اور فوارہ نکل پڑا .. باس نے میری سگی بہن کی پھدی میں ہی پچکاری چھوڑ دی. باجی بھی پھدی چٹوانے کی وجہ سے باس کے ساتھ ہی مطمین ہو گیئں. پر میں اپنا لنڈ ابھی رگڑ رہا تھا.
باس نڈھال ہو کہ بیڈ پہ گر گیۓ .. مریم اٹھی اور آ کہ اپنی اسے ہتھیلی میں میرا لن لے کہ میری مٹھ مارنے لگی.. میں مزے کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا کہ اچانک میری منی کا فوارہ بلند ہوا.. اور میں خاموش ہو گیا.. مریم بغیر وقت ضائع کیے واش روم گئ اور نہا دھو کہ وہی ٹراوازر پہن کہ باہر آئ. باس بھی تھوڑی دیر میں ریلیکس ہوۓ اور نہا دھو کہ فارغ ہوۓ .. ہم تینوں ہوٹل سے ایک ساتھ نکلے. باس نے آفس کی گاڑی منگوائ اور ڈرایور کو کہنے لگے..
"آج کے بعد تم مس مریم کے پرسنل ڈرایئور ہو" .
میں اور مریم بے ساختہ مسکرا دیۓ ..
The End
Tumblr media
4 notes · View notes
emergingpakistan · 11 months
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
Tumblr media
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ��رب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔ 
Tumblr media
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
کچھ سڑکیں جب شہر سے باہر نکلتی ہیں تو کافی فاصلے تک مضبوط نظر آتی ہیں۔ پھر ان کے کنارے بھرےبھرے ہونے لگتے ہیں۔ جابجا گڈھے نظر آتے ہیں اور پکی سڑک کچے راستے میں بدل جاتی ہے۔ ایسا راستہ جو بارش میں کیچڑ اور دلدل میں بدل جاتا ہے۔ کچھ دور جا کر یہ کچا راستہ جھاڑیوں میں کھیتوں کے دہانے پر ختم ہوجاتا ہے۔ یہ سڑکیں کسی گھر کسی شہر کسی محلے کو نہیں جاتیں۔ بس یوں ہی شہر چھوڑ کر دم سا چھوڑ دیتی ہیں۔
میں بھی ایک ایسی ہی سڑک تھا"
Some roads when exiting the city look strong for quite a distance. Then their edges become full. Potholes appear everywhere and the paved road turns into slush. A road that turns into mud and swamp in the rain. Going a little far, this raw road ends on the edge of the fields in the bushes. These roads do not lead to a house, a city, a neighborhood. They just leave the city and leave it.
I was also a road like that"
Raja Gadh (Bano Qudsia)
5 notes · View notes
risingpakistan · 9 days
Text
بیرونی قرضوں پر انحصار سے نجات کیسے؟
Tumblr media
پاکستان اپنے قیام سے ہی غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا آ رہا ہے۔ اس رجحان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ مالیاتی رسک اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005ء کی مقرر کردہ 60 فیصد حد سے بھی زیادہ ہے۔ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ بیس سال کے دوران قومی ترقیاتی اخراجات کا حجم 20 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر حکومتی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ترقی کی شرح میں اضافے کیلئے قرض لینے کی پالیسی کے قومی معیشت پر م��بت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی قرضے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی خسارے کو سنبھالنے اور اہم شعبوں کو فنڈ دینے کیلئے مالی معاونت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس صورتحال میں نئی حکومت کیلئے جاری معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی اشاریوں اور جمع شدہ غیر ملکی قرضوں کے درمیان روابط کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔
اس طرح کی جانچ پڑتال ملک کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے یہ موازنہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جو معاشی استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ قومی معیشت پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ بھی ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے حجم کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا میں 46ویں نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، چین اور بھارت ناصرف آبادی کے اعتبارسے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ حالات معاشی اور مالیاتی نظم و نسق میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی بیرونی قرضوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ قرضے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تجارت، افراط زر، شرح مبادلہ، کھپت، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی نمو اور قرضوں کی ادائیگی جیسے معاشی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
Tumblr media
اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کرپائیدار ترقی کو فروغ دینے اور قرض کے انتظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیوں جیسے عوامل کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر کم انحصار کو ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی قرض کے انتظام کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی موجودہ قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کے جمع ہونے کو روکنے اور فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر مشتمل ہونی چاہئے۔ قرض لینے کی لاگت کو کم کر کے، قرض کی پائیداری کو بڑھا کر، سرمایہ کاروں کے اعتماد و شفافیت کو فروغ دے کر اور اقتصادی ترقی کو سہارا دے کربیرونی قرضوں کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے روایتی عالمی مالیاتی اداروں سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، بین الاقوامی منڈیوں میں بانڈز جاری کرنا، مالی امداد کے متبادل راستے تلاش کرنا مخصوص قرض دہندگان پر انحصار کم کر سکتا ہے۔
چین، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سےنجات حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے مختلف کرنسیوں میں قرض کے اجراء نے کرنسی کے اتار چڑھاو کے اندیشے کو کم کیا ہے اور سرمایہ کاروں کی منڈیوں کو وسیع کیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے مختلف کرنسیوں میں بانڈز جاری کرنے سے قرض لینے کی لاگت کم ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجراء نے اپنے سرمایہ کاروں کی بنیاد کو متنوع بنانے کے لیے اسلامی مالیاتی اصولوں کی تعمیل کرتے ہوئے فنڈنگ کے نئے ذرائع کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ بیرونی قرضوں پر معاشی انحصار کم کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں پر ادارہ جاتی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی مستقبل کی نسلوں کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبانے کے مترادف ہو گی جسے کسی طرح بھی قومی مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بیرونی قرضوں کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی لاگت کو کم کرنے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرنے میں مضمر ہے۔
کاشف اشفاق 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
jhelumupdates · 1 month
Text
چند ہفتوں میں منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ختم ہو جانے کا خدشہ
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
پی ٹی آئی تباہی کے دہانے پر، قیادت کالعدم ہو چکی، اکبر ایس بابر
بانی رکن پی ٹی آئی اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ تحریک انصاف تباہی کے دہانے پر ہے، قیادت کالعدم ہو چکی۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہا کہ آج پی ٹی آئی کی کالعدم قیادت کی طرف سے انٹرا پارٹی کے نام پر ناٹک رچانے کی کوشش کی گئی، انٹرا پارٹی الیکشن  کو مؤخر کرنا خوش آئند ہے،اگر نئے انٹراپارٹی الیکشن کے نام پر عمل جاری رکھتے تو پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا،ہم اس کوشش میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
lkmarketing · 9 months
Text
Leeka Corp کے ساتھ اپنا سولر پاور پلانٹ کتنی آسانی سے بنائیں؟
کول پاور پلانٹس اب بھی دنیا کی سب سے زیادہ بجلی فراہم کر رہے ہیں، اب کوئلے کے ذخائر ختم ہونے کے دہانے پر ہیں، قیمتیں زیادہ ہونے لگتی ہیں، لوگ بجلی کی زیادہ قیمتیں ادا کر رہے ہیں۔ سال 2021 میں استعمال ہونے والے کوئلے کے ذخیرے کی وجہ سے کئی ممالک کے کوئلے کے پلانٹس بند ہونے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر بلیک آؤٹ ہو گیا ہے۔ اگر بجلی نہ ہو تو بہت سی مشینیں کام کرنا چھوڑ دیں گی، کمپیوٹر نہیں چلیں گے، بہت سے لوگ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
کول پاور پلانٹس کے علاوہ، سولر پاور پلانٹس لوگوں کی روزمرہ زندگی کے لیے بڑی مقدار میں بجلی پیدا کرنے کا سستا اور زیادہ آسان طریقہ ہے۔ شمسی توانائی کے پلانٹس کے لیے زیادہ قیمت کیا ہے سولر پینلز،جو سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کرنے کا بنیادی جزو ہیں، آپ انہیں Leeka corp سے کم قیمت کے ساتھ ٹائر 1 اور OEM دونوں برانڈز کے قابل اعتماد کوالٹی پینلز کے لیے آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔
Leeka corp چین میں بڑے ٹائر-1 برانڈز کا اتحاد ہے، قیمتوں میں دھوکہ دہی سے نمٹنے کے لیے، گاہک کی معلومات کو شیئر اور منسلک کیا جاتا ہے، اس طرح اگر کوئی کسٹمر اچھی ساکھ رکھتا ہے، تو وہ سر فہرست ہوں گے، بصورت دیگر، اگر وہ ہمیشہ قیمت پوچھتے ہیں، یہاں تک کہ نیچے کی قیمت، نہ خریدیں، یہاں تک کہ غائب ہو گئے، وہ بلیک لسٹ ہو جائیں گے۔
اس کاروباری پالیسی کا مقصد ایک بہتر کاروباری ماحول بنانا، ایماندار اور قابل اعتماد لوگوں کی مدد کرنا، ان لالچی لوگوں کے ہاتھوں مکمل کاروباری سلسلہ کو تباہ ہونے سے بچانا ہے۔ آپ کے اپنے شمسی توانائی کے پلانٹ کو قائم کرنے کے لئے، طویل مدتی بجلی کی پیداوار اور قابل اعتماد بجلی کی پیداوار کی ضمانت کے لیے سولر پینل اہم اجزاء ہیں۔ اگر سولر پینل خراب ہوں گے تو اس میں کافی مسائل ہوں گے، زیادہ تر آپ کا سولر پلانٹ آپ کی توقع کے مطابق کام نہیں کرے گا۔
اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے ایک تشبیہ دی گئی ہے کہ لوگ سستی خریدنا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ایک کار بنانے والا ایک کار کو تین پہیے دیتا ہے جس کے لیے عام طور پر چار کی ضرورت ہوتی ہے۔ Leeka corp ہمیشہ اعلیٰ معیار کی مصنوعات فراہم کرنے کے لیے اپنے صارفین کا احترام کرتی ہے
Leeka corp سے سولر پینلز حاصل کرنے کے بعد، اگلے مرحلے پر جانا بہت آسان ہے۔ آپ اپنے لیے سولر پینلز لگانے کے لیے کچھ سولر انسٹالرز کو ملازمت دے سکتے ہیں۔ یا، اگر آپ کو سولر انسٹالیشن میں مہارت ہے، تو آپ اسے خود انسٹال کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو سولر انسٹالر نہیں ملتا ہے اور آپ کو سولر انسٹالیشن کا کوئی علم نہیں ہے۔ آپ کتابوں اور ویب سائٹس سے بہت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں،
آپ پہلے چھوٹے پیمانے پر سولر پلانٹ لگانا شروع کر سکتے ہیں، جب آپ کو کچھ تجربہ ہو تو آپ زیادہ سے زیادہ انسٹال کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ اپنا سولر پلانٹ لگانے کے بعد، آپ دوسروں کے لیے سولر پلانٹ لگانے کے لیے اچھی طرح سے تربیت یافتہ ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ آپ پیسہ کمانے کے لیے سولر انسٹالیشن کمپنی بھی قائم کر سکتے ہیں۔
0 notes
shiningpakistan · 11 months
Text
اعلیٰ تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر
Tumblr media
پاکستان میں متوسط طبقہ کے لیے مہنگائی کے بعد اب تعلیم کا حصول بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستانی طلبہ کی اکثریت جنھیں سرکاری تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر تھے، اب پہلے جیسے نہیں رہے اور حالات مزید تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک عرصے سے کوئی واضح اور مستقل تعلیمی پالیسی نظر نہیں آ رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملکی سیاسی منظر نامے کے تبدیل ہوتے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اہم عہدیدار بھی تبدیل ہوتے ہیں اور اس تبدیلی کے ساتھ ہی تعلیمی پالیسیاں بھی تبدیل ہونے لگتی ہیں۔ حال ہی کی ایک خبر کے مطابق ایک سابق وزیراعظم کی قریبی عزیزہ اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اہم ترین عہدے سے فارغ۔ ظاہر ہے جس ملک میں تعلیمی پالیسیاں بھی کسی کرکٹ میچ کی صورتحال کی طرح تبدیل ہوں وہاں تعلیمی معیار کیونکر عالمی سطح کا ہو سکتا ہے؟ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل جب ملکی تعلیمی پالیسیوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو انھیں اس ملک اور اس کے طلبہ کی ضروریات اور حالات کا قطعی علم اور احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ تعلیمی پالیسیوں کو مرتب کرتے وقت متعلقہ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘سے مشورہ لیتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تقریباً دو دہائیوں سے یہی طے نہ ہو سکا کہ جامعات میں آنرز اور ماسٹر کی ڈگریاں ہی اس ملک کے طلبہ کے مستقبل کا ضامن ہیں یا ’ بی ایس‘ کی؟
یہی کچھ حال کالجز اور پرائیویٹ اداروں کی ڈگریوں کے معاملات کا ہے، بات صرف یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ حساس ترین اور اہم بات یہ ہے کہ اب سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کسی صنعتی ادارے یا فیکٹری کی طرح چلانے کا راستہ اختیار کر لیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں کو پروڈکشن تیار کرنے یعنی مال کمانے والے ادارے کے طور پر چلانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے اور جامعات کی خودمختاری کو ختم کرتے ہوئے یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ جامعات کا کام صرف پیسہ کمانا ہے فنڈز طلب کرنا نہیں۔ با الفاظ دیگر حکمرانوں کی جانب سے تعلیمی فنڈز فراہم کرنے کے بجائے ہاتھ کھڑے کر لیے گئے ہیں کہ جامعات کے اخراجات کے لیے حکومت کی طرف مت دیکھو، خود بندوبست کرو۔ سوال یہ ہے کہ جامعات تعلیم فراہم کرنے کا ادارہ ہوتی ہیں یا کسی فیکٹری کی طرح مال تیار کر کے، اسے فروخت کر کے پیسہ کماتی ہیں؟ حالیہ ایک خبر کے مطابق سندھ کے سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے اجلاس میں جامعات سے کہا گیا کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں اور ریسورس جنریشن کے دیگر ذرایع تلاش کیے جائیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جامعات میں ملازمین کی ضرورت سے زائد تعداد جامعات کے وسائل پر بوجھ ہے۔
Tumblr media
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں تقرریاں سیاسی دباؤ کے تحت ہوتی ہیں جو ظاہر ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے ہی ہوتا ہے تو اس کو ختم کرنا بھی حکومت کی ہی ذمے داری بنتی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ آیندہ تقرریاں بغیر پنشن کی بنیاد پر دی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ایک استاد کو گھر چلانے کے لیے مناسب مشاہرہ اور مراعات جو دیگر سرکاری اداروں کے ملازمین کو بھی دی جاتی ہیں، اس سے محروم کر دیں گے تو اس سے ایک اچھی کارکردگی کی توقع کیسے رکھیں گے؟ کیا ایک استاد مہنگائی کے اس دور میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر جگہوں پر کام نہیں کرے گا؟ ایسے میں وہ طلبہ کوزیادہ وقت نہیں دے سکے گا اور نہ توجہ۔ اس ملک میں ایک طبقے کو تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعات دی جائیں اور ایک استاد جو پوری قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتا ہے اس سے پنشن کا حق بھی چھین لیا جائے؟ بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بھی جامعات کے اساتذہ کو وہ حقوق نہیں مل رہے جو قانونی طور پر ان کا حق ہے، مثلاًبیشتر جامعات میں پنشن بند ہے، کچھ میں تنخواہیں پوری نہیں مل رہی ہیں اور اساتذہ پروموشن کے بغیر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ 
ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی ہی میں تین اساتذہ بغیر پروموشن کے ریٹائر ہو گئے، پروموشن ان کا حق تھا وہ اس معیار پر بھی پورے اتر تے تھے اور عدالت کی طرف سے اس ضمن میں ہدایات بھی تھیں، تب بھی ان اساتذہ کو پروموشن جو ان کا حق تھا نہیں مل سکا اور اب پنشن بھی نہیں مل رہی۔ اب پنشن کے بغیر تقرری کی بات کی جا رہی ہے جب کہ جامعات کے اساتذہ کو تو اس وقت بھی پروموشن کا حق حاصل نہیں کیونکہ عرف عام میں ہم جب پروموشن کا لفظ استعمال کرتے ہیں توعملاً اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر جامعہ نئی تقرری کا اشتہار دیتی ہے تو یہاں پہلے سے مستقل بنیادوں پر کام کرنے والا ایک استاد دوبارہ سے ایک نئے امیدوار کی حیثیت سے درخواست جمع کرائے اور اس تمام مراحل سے گزرے جس سے ایک باہر سے آکر درخواست دینے والا امیدوار گزرے۔ گویا جامعات کا کوئی استاد اگر زندگی میں بھی نئی آسامی (پوسٹ یا عہدے) کے لیے درخواست جمع نہیں کرائے گا تو ایسے ہی ریٹائر ہو جائے گا، اس کا کوئی پروموشن نہیں ہو گا خواہ اس کی بیس، پچیس سال کی سروس ہو۔ دوسری طرف ایک عام سرکاری ملازم کو پانچ سال بعد سنیارٹی کے پرموشن بھی ملتا ہے اور آفیسر گریڈ کے ملازم کو گاڑی، ڈرائیور بھی جب کہ جامعہ کے گریڈ انیس اور بیس کے پروفیسر کو نہیں ملتا۔
یہ صورتحال اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں کو بہت تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف لے جا رہی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک کے مڈل کلاس طبقے کو ہو رہا ہے۔ جامعات ان حالات میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مسلسل فیسوں میں اضافہ کر رہی ہیں جو ظاہر ہے کہ مڈل کلاس طبقے کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ پہلے ہی اس ملک میں سرکاری اسکولوں کی تباہی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے وہ خاندان جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے، ان کی ایک بڑی تعداد مدرسوں کا رخ کر رہی ہے جہاں وہ مڈل یا میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوبارہ سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ انھیں کوئی اچھا ذریعہ معاش مل سکے۔ اب بہت سے دینی مدارس نے بی بی اے، ایم بی اے اور میڈیا سائنسز میں بھی ڈگری کورسسز شروع کر دیے ہیں اور مڈل کلاس کی ایک تعداد اس طرف بھی جا رہی ہے، لیکن ایسے اداروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے چنانچہ اگر ریاست کی طرف سے تعلیمی معاملات اور پالیسیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مڈل کلاس پر آیندہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے تقریباً بند ہو جائیں گے جو ملکی ترقی اور مستقبل کے لیے بھی ایک خطرناک مرحلہ ہو گا۔
ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 1 year
Text
بغاوت یا انقلاب
Tumblr media
سپریم کورٹ میں تقسیم گہری اور نمایاں ہو گئی ہے۔ اس پر بہت سے لوگ پریشان ہیں اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ دیکھیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کیا حال ہے؟ تاہم میری نظر میں اس تقسیم میں سپریم کورٹ کے لئے، انصاف کے نظام کے لئے اور پاکستان کے لئے بہت بہتری ہو گی۔ دوسروں کو چھوڑیں اب سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن لینے کے اختیار پر سوال اُٹھا دیے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ بھی ہوا کہ چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار اور منطق پر بھی سپریم کورٹ کے ججوں نے ہی اعتراض اٹھا دیا۔ ایک روز قبل تو سپریم کورٹ کے دو جج حضرات نے اس بات پر بھی سوال کیا کہ کس اصول کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے کیس لگائے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ موجودہ نظام شفاف نہیں جس میں کسی کیس کو سماعت کے لئے منتخب کر لیا جاتا ہے اور کسی کو برسوں گزرنے کے باوجود سنا ہی نہیں جاتا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کے سٹاف افسر کی طرف سے موصول ہونے والی چٹ پر دی گئی ہدایت پر مقدمات مختلف بینچوں کے سامنے لگاتے ہیں۔ یہ سن اور دیکھ کر اچھا لگا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے ججوں نے آڈیو سکینڈل کی زد میں آنے والے جج صاحب سمیت دو ججوں کا نوے دن میں الیکشن کروانے کے لئے چیف جسٹس کا سوموٹو کیس سننے کے لئے بنائے گئے نو رُکنی بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض اُٹھایا جس کے نتیجے میں وہ بینچ ہی ٹوٹ گیا۔ 
Tumblr media
سپریم کورٹ کو انصاف کے نظام کی بہتری اور اپنی Repute کے لئے اصلاحات اور شفافیت کی بہتر ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو بنچ بنانے اور سوموٹو نوٹس لینے کے اپنے اختیار کو ختم کر کے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو یہ فیصلے کرے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ چیف جسٹس کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ سمیت دو سینئر ترین ججوں کو نہ ہی اہم بنچوں میں شامل کیا ��اتا ہے نہ ہی اُنہیں اہم نوعیت کے کیس سننے کے لئے دیے جاتے ہیں۔ بظاہر کیس لگانے کا اختیار اگرچہ رجسٹرار سپریم کورٹ کا ہے لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ زیادہ تر اہم مقدمات کو چیف جسٹس کے حکم پر ہی اُن کی مرضی کے ججوں کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کی درستی سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں ہونی چاہئے۔ ایسا نہیں کہ یہ خرابی اب پیدا ہوئی ہے۔ یہ نظام کی خرابی ہے جو پہلے سے چل رہی ہے اور جسے درست کرنے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔ کسی نے ہمیشہ کے لئے کسی عہدے پر نہیں بیٹھے رہنا۔ چیف جسٹس بھی آتے ہیں اور ریٹائر ہو جاتے ہیں۔
اُس چیف جسٹس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جو اپنے اختیارات جن کا غلط استعمال ہوتا رہا، ختم کر کے کیسوں کو مختلف ججوں کے سامنے فکس کرنے، عدالتی بنچ بنانے، سوموٹو نوٹس لینے کے لئے ایک ایسا نظام وضح کرے گا جو شفافیت پر مبنی ہو، انصاف کے نظام میں بہتری کی کوشش ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے نظام پر نظر ثانی کرے تاکہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے ججوں کا معیار جان پہچان اور تعلقات کی بجائے میرٹ ، اعلیٰ کردار اور انصاف پسندی پر ہو۔کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایک چپراسی کی تعیناتی کے لئے اخباروں میں اشتہار جاری ہوتا ہے، مقابلے کے لئے ایک پالیسی اپنائی جاتی ہے لیکن ہائی کورٹوں کے جج جو بعد میں سپریم کورٹ میں جانے کے اہل بن جاتے ہیں اُن کی تعیناتی کے لئے نہ کوئی اشتہار، نہ کوئی مقابلہ، نہ کوئی ٹیسٹ اور نہ ہی کوئی انٹرویو۔ ان تعیناتیوں کی بنیاد چند افراد کی پسند و ناپسند پر ہوتی ہے۔ 
اس نظام کو بدلا جائے۔ اسی طرح ملک کی موجودہ معاشی بدحالی کے تناظر میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور چیف جسٹس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی مراعات، پروٹوکول اور ریٹائرڈ ججوں کی دس سے پندرہ لاکھ روپے ماہانہ پنشن جیسے معاملات پر نظر ثانی کریں۔ ایک ملک جو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے وہ اپنے ججوں اور اعلیٰ عدلیہ سے توقع رکھتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی مراعات، پروٹوکول اور پنشن میں کمی کریں گے بلکہ دوسرے سرکاری اداروں اور محکموں کے افسروں اور حکمراں طبقے کی قوم کے پیسے پر عیاشیوں پر قدغن لگائیں گے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
تجربہ کاروں کی نالائقیاں معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہیں، چوہدری پرویز الہی
تجربہ کاروں کی نالائقیاں معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہیں، چوہدری پرویز الہی
گجرات(نمائندہ عکس)مسلم لیگ ق کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے کہا ہے کہ تجربہ کاروں کی نالائقیاں معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہیں۔گجرات میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہینے کہاکہ آج ملک کے حالات بھی قوم سے قربانی کے متقاضی ہیں، نااہل حکمرانوں سے نجات کے لیے قوم کو 17 جولائی کو بلے کو ووٹ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام ضمنی انتخابات میں ان حکمرانوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
spitonews · 1 year
Text
خالی پنجرے اور بیمار جانور، کراچی چڑیا گھر تباہی کی تصویر بن گیا
فوٹو؛ ایکسپریس   کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے کراچی چڑیا گھر میں جانوروں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں۔ دو شیروں کی موت کے بعد ہتھنی بھی شدید بیمار ہوگئی۔ مسلسل عوامی شکایات موصول ہونے کے بعد ایکسپریس کی ٹیم جب چڑیا گھر پہنچی تو کئی گھنٹوں تک اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، طویل انتظار کے بعد جب ٹیم نے چڑیا گھر کا دورہ کیا تو انکشاف ہوا کہ چڑیا گھر تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے۔ کراچی چڑیا گھر میں بچوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 8 days
Text
ہیٹ اپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!!!
پارٹ 3
میں کافی دن سے آپ کو یہ کہنا چار ہا تھا لیکن موقع نہیں ملا۔ امی نے اپنی گلابی اردو میں خرم سے کہا۔ بچہ باز آجاو، ہم تمہاری امی کی عمر کا عورت ہے امار 51 بچہ ہے شرم کر لو اب مجھے چھوڑ دوا بھی صندل آجائے گا امر اکتنا بے عزتی ہو گا جو ان بیٹی کے سامنے۔ خرم امی کی ساری باتیں سنی ان سنی کرتار ہا پھر اس نے امی کا چہرہ اپنی طرف کیا اور کہا کہ اچھا میں چھوڑ دوں گا لیکن آپ میری دو باتیں سن لو۔ ورنہ پھر جو مرضی ہو میں نہیں ڈرتا اچھا ہے سب کو پتہ چل جائے۔ امی تھی تو ایک گھر یلو عورت اس کی باتوں میں آگئی ۔ امی نے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر خرم کو کہا۔ بولو اس نے امی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا آپ کو اپنے بچوں کی قسم ہے جو میں پوچھوں اس کا سچ سچ جواب دینا ہے یہ کہ کر اس نے امی کو دیوار کے ساتھ لگادیا اور امی کے ہاتھ سے لالٹین لے کر ایک کنڈے کے ساتھ ٹانگ دی۔ اب لالٹین کی روشنی امی کے منہ پر پڑ رہی تھی اور خرم بالکل ان کے سامنے کھڑا تھا خرم نے دونوں ہاتھ امی کے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے اور اس کا جسم تقریبا امی کے جسم کے ساتھ بیچ ہو رہا تھا۔ خرم نے امی سے پوچھا آپ کی عمر کتنی ہے امی نے ایک سیکنڈ سوچا اور کہا 34 سال خرم نے کہا یہ تو کچھ عمر نہیں۔ پھر خرم نے کہا آپ کو اپنے بچوں کی قسم سچ سچ بتانا میری شکل کیسی ہے ؟ امی نے کوئی جواب نہیں دیا خرم نے کہا۔
Tumblr media
اپنے جلدی بو او بیچے آجائیں گے جب اس نے اپنے کہا تو میں نے دیکھا کہ امی کے چہرے پر بالکل سرخی دوڑ گئی کیونکہ بابا پیار سے امی کو امینے کہتے تھے۔ ائی نے کہا تم بہت خوبصورت ہو بیٹا تمہیں تو کوئی بھی لڑکی مل جائے گی، پھر میں نے دیکھا کہ نیم تاریکی میں خرم نے اپنا نچلا دھڑامی کے ساتھ پیوست کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ امی کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکل گئی، خرم نے کہا کہ اپنے تم بہت خوبصورت ہو میں نے اپنی زندگی میں تم سے خوبصورت عورت نہیں دیکھی۔ امی کار نگ پہلے ہی سرخ تھا مزید گلنار ہو گیا۔ خوبصورتی کی تعریف دنیا کی ہر عورت کی کمزوری ہے خرم نے نے پھر امی کو سنجھنے کا موقع نہیں دیا اور امی کی دونوں آنکھیں چوم لیں۔ میں نے دیکھا کہ امی کے چہرے پر اب مزاحمت کم ہو رہی تھی کہ خرم نے بڑی آہستگی سے امی کے دونوں مجھے قمیض کے اوپر سے دہانے شروع کر دئے اور امی کو کہا کہ تم اتنی پیاری اور جوان ہو مرد کے بغیر کیسے زندگی گزارو گی امی نے کہا کہ میرے 5 بچے ہیں اور ہمارے علاقے میں بچوں والی بیوہ شادی نہیں کرتی۔ لیکن اب امی کی آواز اور لہجے سے غصہ بالکل غائب ہو چکا تھا۔ خرم نے امی کی ناک سے اپنی ناک رگڑی اور کہا مینے جان آئی لویو ۔ امی نے سر جھکا کر کہا بے شرم اب جاو تم نے میرا سارا محنت ختم کر دیا ہے امی کے منہ سے یہ سن کر خرم نے امی کو زور سے جیچی ڈال دی۔ خرم نے امی کو بھی ڈالی ھوئی تھی اور خرم امی کے ہونٹوں میں ہونٹ ڈال کر چوس رہا تھا او�� امی کی آگے سے قمیض اوپر کر دی تھی اب امی کے دونوں بڑے بڑے گول مٹول چٹے سفید چھتیس سائز کے مجھے بریز نیر سے آزاد تھے اور امی کی آنکھیں شرم سے مکمل طور پر بند تھیں۔
Tumblr media
خرم کا ایک ہاتھ امی کے ایک صفحے پر تھا اور دوسرا ہاتھ امی کی بینڈ پر رکھا ہوا تھا وہ اسے اوپر نیچے پھیر رہا تھا۔ خرم مسلسل امی کے ہونٹ چوس رہا تھا پھر خرم نے امی کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کیے تو میں نے دیکھا کہ امی کی آنکھیں ابھی بند تھیں اور وہ شاید 4 سال بعد ہونے والے اس جنسی مزے میں کھوئی ہوئی تھیں اب خرم نے امی کی گالوں کو چومنا شروع کر دیا وہ بھی امی کے گالوں کو چومتا تو بھی ان کے گال کو منہ میں بھر کر چوسنے لگ جاتا۔ امی کار نگ تو پہلے ہی چٹا سفید تھا اب بالکل سیب کی طرح لال ہو چکا تھا۔ خرم نے اب زبان کا رخ امی کے کان کی لو کی طرف کیا جیسے جیسے خرم کی زبان امی کے کان کی او سے ھوتی ھوئی کان کے پیچھے کی طرف جاتی تو وہ ایک جھر جھری سی لیتی اور اپنی پھدی والے حصہ کو خرم کے لن والے حصہ کے ساتھ جو ڑ دیتی اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکالتی پھر خرم نے تھوڑا نیچے ھوتے ہوئے امی کا نپل منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ خرم مسلسل نپل چوس رہا تھا۔ خرم اب اپنا ایک ہاتھ امی کے پیٹ پر پھیر رہا تھا اور کبھی اپنی انگلی انکی ناف کے سوارخ میں پھیر نے لگ جاتا۔ پھر خرم نے اپنا ایک ہاتھ آہستہ آہستہ امی کی پھدی پر شلوار کے اوپر پھیر ناشروع کر دیا اور امی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ امی کا ہاتھ مسلسل خرم کے بالوں کو مٹھی میں لیے ہوئے تھا۔ پھر خرم نے اپنا ہاتھ امی کے ازار بند پر رکھ لیا اور انگلیوں سے اسکا سر اتلاش کرنے لگ گیا۔ امی نے ایک دم کہا۔ نہیں نہیں بس کر واب۔ کوئی آجائے گا، خرم نے یہ بات بھانپ لی کہ امی کو جنسی عمل پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ کسی کے آنے کا ڈر ہے تو وہ اور شیر ہو گیا۔
Tumblr media
اس نے امی کو کہا۔ اپنے جان ابھی کوئی نہیں آتا۔ امی بھی اس کے ایسے ٹرانس میں تھی کہ انہوں نے آواز لگائی صندل بیٹا چائے کمرے میں رکھ دینا میں پینٹی ہٹوا کر آرہی ہوں۔ میں نے دروازے سے ذرا دور جا کر آواز لگائی جی ابی پہلے چولہا تھوڑا خراب تھا اب دوبارہ پانی رکھا ہے 15 منٹ لگ سکتے ہیں، میں دربارہ مین آئی اور نئے سرے سے چائے کا پانی رکھا اور دوبارہ اسٹور روم کی طرف چلی گئی۔ اس وقت تک خرم امی کی شلوار اتار چکا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے اب امی کی گوری گوری موٹی بھری بھری ننگی ٹانگیں اور گولڈن رنگ کے بالوں میں ڈھکی انکی پھولی پھدی تھی یہ سین دیکھتے ہی میرا ہاتھ خود بخود اپنی پھدی پر چلا گیا جو پتہ نہیں کتنی گرم تھی اور میں نے اس مسلنا شروع کر دیا۔ خرم نے اپنا ایک ہاتھ امی کی پھدی پر رکھا ہوا تھا اور ہاتھ کی درمیانی انگلی کو پھدی کے اوپر نیچے کر رہا تھا امی اب بہت گرم ہو چکی تھی اور اپنے ہاتھ سے خرم کے ہاتھ کو اپنی پھدی پر دبا رہی تھی۔ اب امی اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر خرم کے کے ہاتھ کو آگے پیچھے جانے کا راستہ دے رہی تھی۔ اچانک امی کی آنکھیں نیم بند ہونے لگ گئیں اور انہوں نے تیز آواز میں سسکیاں بھرنی شروع کر دیں۔ خرم نے اپنے ہاتھ کی سپیڈ اور تیز کر دی اچانک امی نے اپنی دونوں ٹانگوں کو خرم کے ہاتھ سمیت زور سے آپس میں بھینچ لیا اور نیچے کی طرف جھکتی گئی اتنا جلیں کہ نیچے ہی پاؤں کے بل پیشاب کرنے کے انداز میں بیٹھ گئیں خرم بھی امی کے ساتھ ہی جھک گیا۔
Tumblr media
پھر امی کے جسم نے ایک زور سے جھٹکا لیا اور ایک دم پر سکون ہو گیا۔ اب امی اور خرم دو منٹ یو نہی لیٹے رہے اور پھر امی جلد ہی اٹھ گئی اور کہا۔ جلدی کرو صندل آگئی ہو گی میں بھی جلدی سے کچن چلی گئی اور جتنی دیر میں امی اور خرم کپڑے پہن کر آتے میں بھی قہوہ لے آئی۔ امی نے کمرے میں آتے ہی صفائیاں دینی شروع کر دیں کہ مشکل سے جگہ نکل آئی ہے اور کل پر سوں خرم آکر سامان رکھ دے گا۔ امی اور خرم ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے ، اور سچی بات ہے کہ مجھے امی پر تو غصہ آرہا تھا لیکن خرم اور پیار الگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد خرم چلا گیا پھر میں نے اور امی نے مل کر کھانا بنایا، چھوٹے بہن بھائی کھانا کھانے کے فوری بعد سو گئے۔ میں اور امی کچھ دیر باتیں کرتے رہے لیکن اس تمام گفتگو میں امی مجھ سے آنکھیں چراتی رہیں شاید انہیں احساس جرم ہو رہا تھا، لیکن کبھی کبھی انکے چہرے پر ایک مسکراہٹ کی آجاتی۔ کوئی آدھی رات کا وقت تھا میں نیند کے خمار میں تھی کہ میری آنکھ جی منی کھل گئی۔ میں نے اپنی چار پانی سے جہاز کا تو امی کے بستر سے سسکیوں کی آواز آرہی تھی میں نے اٹھ کر 10 واٹ کا بلب جلا لیا۔ امی ایک دم چپ ہوئیں۔ میں امی کے پاس گئی اور انکے لحاف میں تھس گئی اور انکے چہرے پر پیار کیا اور کہا۔ ”مورے ولے جاڑے“ امی کیوں رورہی ہو) امی نے کہا۔ کچھ نہیں بس آج تیرے ابو کی یاد بہت آرہی ہے۔ میں نے کہا۔ امی ابو کی یاد تو اب مستقل آئے گی اب وہ کبھی واپس نہیں آسکتے۔ میرے دل میں امی کے خلاف سارے جذبات ختم ہو گئے۔
Tumblr media
میں نے کہا۔ لیکن امی جان آپ نے بڑی ہمت سے اس ساری صور تحال کا مقابلہ کیا ہے آپ نے ہم بہن بھائیوں کو صحیح طریقے سے سنبھالا ہے اور شکر ہے کہ ہمیں کوئی مای محتاجی نہیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ امی نے اپنے آنسو پونچھے اور مجھے اپنے ساتھ زور سے بھینچ لیا اور کہنے لگیں بیٹا تو صحیح کہہ رہی ہے ہمارا گزارا بہت اچھا ہو رہا ہے لیکن میری بچی تو ابھی چھوٹی ہے مجھے اندازہ نہیں عورتوں کو تحفظ کی کتنی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی کتنی ضروریات صرف مرد ہی پوری کر سکتے ہیں۔ اگر یہ بات امی نے میرے رقیہ باجی کے ساتھ پیار کرنے سے پہلے کہی ہوتی تو واقعی مجھے اس بات کی کوئی سمجھ نہیں آتی لیکن اب میں اس بات کو کچھ کچھ سمجھ سکتی تھی۔ پھر میں نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔ امی خرم نے اتنی دیر میں اسٹیور دیکھا کیا زیادہ سامان رکھنا ہے۔ امی میرا سوال سن کر ایک دم چونک سی گئی اور مجھے غور سے دیکھا شاید وہ اندازہ کرنا چاہ رہی تھیں۔ کہ میں شام والے واقعے کے بارے کتنا جانتی تھیں لیکن میں نے کوئی تاثرات نہیں دیے۔ امی نے کہا۔ نہیں اتنی دیر بھی نہیں گی بس وہ اسٹور کی لمبائی ناپ رہا تھا، میں نے دل میں کہا مجھے معلوم ہے ہے کہ وہ کیا ناپ رہا تھا اور اوپر سے کہا۔ جی امی، پھر امی کنٹی یر ہانی نہیں کی نوکری اور پر سیل میڈم کے بارے باتیں کرنے کا نے لگیں اور ہم لوگ باتیں کرتے کرتے ہو گئے۔ صبح کمنٹین پر پہنچی تو رقیہ باجی کافی مصروف نظر آرہی تھیں میں نے پوچھا کہ خیر ہے۔
Tumblr media
آپ نے صبح صبح اتنا کام کر لیا۔ کہنے لگیں کل شام میڈم کا ڈر ئیوار آیا تھا کہ آج کوئی مہمان آئیں گے میڈم کے۔ اس لیے ایکسٹر اسموسے اور سینڈ ویچر چاہیے۔ دوسرے اسکولوں کی کچھ پھر زبھی آرہی ہیں۔ بس اب جلدی سے کام پر لگ جا۔ پھر تفریح تک کام کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوئی، چھٹی تک رقیہ باجی خاصی تھک گئی تھیں اس لیے کوئی چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کی اور خاموشی سے کنٹین بند کر کے گھر چلی گئیں۔ میں بھی ان کلاسز کی طرف چلی گئی جس کی ہدایت مجھے میڈم سعدیہ نے کی تھی تاکہ میں میٹرک کر سکوں۔ جب میں کلاس پہنچی تو مجھے بشری ملی جو آٹھویں میں میری کلاس فیلو تھی، میں نے کہا کلاس ہو رہی ہے تو اس نے کہا کہ آج کل اس نہیں ہوئی کیونکہ پرنسپل کے دوسرے اسکولوں سے مہمان آئے تھے۔ تو لائیبر میری چلی جا میڈم عفیفہ وہاں گئی ہیں 10 منٹ پہلے تو بس انکو بتادے تاکہ انکو پتہ رہے کہ تو کلاس میں آئی تھی اور پڑھائی میں سنجیدہ ہے۔ میں جب لائیبریری پہنچی تو وہاں کوئی نہیں تھا میں جب واپس جانے لگی تو مجھے کونے میں پڑے بک شیلفوں کے پیچھے سے کسی کے بولنے کی آواز آئی میں دبے قدموں سے چلتی وہاں تک پہنچی تو آواز میں اور صاف سنائی دینے لگیں، میں نے بک شیلفوں کے پیچھے جھانکا تو وہاں 15*15 کی جگہ تھی اور ایک اسکول یونیفارم میں ملبوس لڑکی اور ایک برقعہ پہنے ٹیچر کھڑی تھی، میں نے غور سے دیکھا تو مجھے دونوں کے چہرے صاف نظر آنے لگے ۔ میڈم عفیفہ اور عائزہ دونوں ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے۔ میڈم کے چہرے پر نہایت سختی کے تاثرات تھے انہوں نے عائزہ کو کو گھورتے ہوئے کہا لگتا ہے تم سیدھی طرح نہیں بتاو گی کہ تم اس دن کسٹین کے اندر کیا کر رہی تھی لگتا ہے تمہاری امی کو بلانا پڑے گا۔ یہ سن کر ن کر میری تو جان نکل گئی کیوں کہ میں نے رقیہ باجی کو آواز لگا کر ہو شیار کیا تھا جو عائزہ نے بھی سنی تھی اگر اس نے میرا نام تبھی لے لیا تو میں بھی پھنس جاؤں گی۔ جوں جوں عائزہ بات کو ٹال رہی تھی میڈم عفیفہ کے چہرے پر در شنگی بڑھ رہی تھی انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ توں جا صبح تیری امی کو بلاتے ہیں۔ یہ سن کر عائزہ رونے لگی۔ پھر اس نے کہا میڈم میری امی کو نہ بتانا وہ مجھے اسکول سے اٹھا کر گھر بٹھا لیں گی، میں مر جاؤنگی۔ وعدہ کریں مجھے معاف کر دیں گی میڈم عفیفہ نے کہا منظور ہے اب بتا کیا قصہ ہے۔ عائزہ نے میڈم کو ساری بات بتادی اور شکر ہے میرا کہیں نام نہیں لیا۔
-------------جاری ہے
Tumblr media
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
’ہمیں اپنی معاشی حقیقت تسلیم کرنے کی ضرورت ہے‘
Tumblr media
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہو رہا، وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے واضح کیا ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں کے معاملے پر مذاکرات کررہی ہے۔ اس سے ہمیں ان کے اس دلیرانہ دعوے پر حیرت ہوتی ہے کہ ملک قرضوں کی ادائیگیاں بروقت کرے گا۔ توقعات کے مطابق اسحٰق ڈار کی بجٹ تقریر کھوکھلے دعووں سے بھرپور تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس وقت جب ملک کو تاریخ کے بدترین بحران کا سامنا ہے، ایسے میں انہوں نے عوام دوست یا مقبول بجٹ پیش کیا۔ تاہم بجٹ میں آنے والے معاشی بحران کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے سخت موقف کو جغرافیائی سیاست سے منسوب کیا۔ وہ ابھی تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف ان پر اعتماد کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ زیادہ تر اقتصادی ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ اس عوامی بجٹ میں سخت اصلاحاتی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کے قرضے واپس لوٹانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ بجٹ ایک ایسی حکومت نے پیش کیا ہے جس کی آئینی مدت صرف 2 ماہ رہ گئی ہے لیکن اسحٰق ڈار اب بھی خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ووڈو اکنامکس پر ان کا یقین غیرمتزلزل ہے، اور ان کے اسی یقین نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
معروف ماہرِ معیشت اور پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر عاطف میاں نے پاکستان کی صورتحال کا سری لنکا اور گھانا سے موازنہ کیا ہے۔ یہ دونوں ایسے ممالک ہیں جو ڈیفالٹ ہو چکے ہیں۔ اس پر اسحٰق ڈار نے کافی سخت ردعمل دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرض لوٹانے کی تاریخ کو ری شیڈول کرنے سے آخر کیا حاصل ہو گا۔ ہم ابھی باضابطہ طور پر ڈیفالٹ نہیں ہوئے لیکن ہم اس کے بہت قریب ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم آنے والی مشکلات سے نبردآزاما ہونے کے لیے تیار ہیں۔ جب کوئی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہوتا ہے تب زیادہ دشوار صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اس سے بھی بدتر مالیاتی حالات کا سامنا کیا لیکن پہلے اپنی مالی حالات کی حقیقت کو تسلیم کر کے اور پھر اپنی گرتی ہوئی معیشت کے حوالے سے سخت اصلاحاتی اقدامات کر کے، وہ اپنی مشکلات کو موقع میں بدلنے میں کامیاب ہوئے۔ مثال کے طور پر بھارت نے 1991ء میں اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کیا تھا جب ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر ایک ارب 20 کروڑ ڈالرز سے بھی کم رہ گئے تھے اور بیرونی ادائیگیوں کے وعدوں کی وجہ سے ڈیفالٹ ہونے سے صرف چند ہفتوں کی دوری پر تھا۔
Tumblr media
آئی ایم ایف نے اپنا قرض پروگرام معطل کر دیا اور عالمی بینک نے بھی تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ڈیفالٹ ہونے سے بچنے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات لیے جیسے اپنے سونے کے ذخائر کا بڑا حصہ بینک آف انگلیند اور یونین بینک آف سویٹزرلینڈ کو بطور ضمانت دیا ہو گا تاکہ قرضے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے زرِمبادلہ حاصل کیا جاسکے۔ 1991ء میں بھارتی وزیرِ خزانہ من موہن سنگھ کی جانب سے کی جانے والی بجٹ تقریر یادگار ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے جس طویل اور دشوار سفر کا آغاز کیا ہے اس میں آگے والی مشکلات کو میں کم نہیں کر سکتا۔ لیکن جیسا وکٹر ہوگو نے ایک بار کہا تھا ’زمین پر موجود کوئی بھی طاقت اس خیال کو نہیں روک سکتی جس کا وقت آچکا ہوتا ہے‘۔ ایک جانب وہ آنے والے چیلنجز سے خبردار کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب وہ پُراعتماد تھے کہ سخت لیکن ضروری اصلاحات کر کے وہ بھارتی معیشت کی صورتحال کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھارت نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس وقت کی بھارتی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے اصلاحاتی اقدامات کی وجہ سے بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ حکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود پالیسیوں پر عمل درآمد کو جاری رکھا گیا اور اسی نے بھارت کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہم بھی حالیہ بحران کو ایک موقع میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ بدقسمتی سے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے جن سخت اصلاحاتی اقدامات کی ضرورت ہے وہ اقدامات لینے کے حوالے سے نہ ہی حکومت پر عزم ہے اور نہ اس میں ایسے اقدامات لینے کی صلاحیت موجود ہے۔ بھارت نے ملک کو بحران سے باہر نکالنے کے لیے ماہرِ معیشت کی خدمات حاصل کیں جبکہ ہمارے ملک میں معیشت کا پہیہ ایک اکاؤنٹنٹ کے ہاتھ میں ہے جن کی واحد سند یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک طاقتور حکمران جماعت سے ہے۔ ملک کو بگڑتی معیشت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی افراطِ زر کے ذریعے جمود کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ بڑھتی ہوئی بےروزگاری کی وجہ سے سنگین معاشی اور سماجی مسائل نے جنم لیا ہے۔ سیاسی وجوہات کی بنا ہر سخت فیصلے لینے سے گریز کیا جارہا ہے، جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے۔ اسحٰق ڈار کا یہ دعویٰ کہ ملک ڈیفالٹ نہیں ہورہا، اس کھیل کی جانب اشارہ کرتا ہے جو معاشی انتظام کے نام پر کھیلا جارہا ہے۔
اسحٰق ڈار شاید معیشت کی موجودہ صورت حال کے پوری طرح ذمہ دار نہ ہوں، لیکن بحران کو حل کرنے میں ان کی نااہلی نے معاشی بحران کو مزید سنگین بنانے میں حصہ ضرور ڈالا ہے۔ عاطف میاں نے خبردار کیا ہے کہ ’پاکستان کی معیشت بحران سے تباہی کی طرف جارہی ہے جبکہ ملکی نظام بے قابو ہوتا جارہا ہے‘۔ عاطف میاں جنہیں آئی ایم ایف نے دنیا کے 25 ٹاپ نوجوان ماہرِ معیشت میں شامل کیا ہے، وہ اپنے حالیہ ٹوئٹس میں پی ڈی ایم حکومت کی بدانتظامی کو کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں ’اس حکومت نے کسی منصوبہ بندی کے بغیر مرکزی بینک کے گورنر کو تبدیل کر دیا، اپنے ہی تعینات کردہ وزیرِ خزانہ کے خلاف ہو گئے اور آخر میں وزیرِاعظم کے قریبی رشتہ دار کو ان کی جگہ عہدے پر تعینات کر دیا۔۔۔ اہلیت جائے بھاڑ میں‘۔ ملک میں جاری سیاسی افراتفری اور اقتدار کے کھیل نے معاشی عدم استحکام میں اضافہ کیا ہے، اس صورت حال میں ایسا بجٹ دینے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ میں طے کیے جانے والے ریونیو اہداف کے حوالے سے بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔
بہت سے ماہرِ معیشت اتفاق کرتے ہیں کہ یہ اہداف حقیقت کے منافی ہیں۔ ہمارے وزیرِخزانہ اعدادوشمار کے ساتھ کھیلنے کے پرانے کھلاڑی ہیں، یہ رویہ ملک کو مزید گہرے بحران میں دھکیل دے گا۔ ملک کو اس وقت بیان بازی کی نہیں بلکہ دلیرانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوتے تو ان کے پاس اس حوالے سے پلان بی بھی موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت میں بھی کسی کو اس خفیہ پلان کے حوالے سے علم نہیں ہے۔ اگر وزیرِ خزانہ کو یہ گمان ہے کہ وہ دوست ممالک سے پیسے حاصل کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ کوئی بھی ملک مفت میں پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ عارضی طور پر معیشت کو سہارا دے گا لیکن معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی ساختی مسائل کا حل ثابت نہیں ہو گا۔ موجودہ صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بلخصوص وزیرِخزانہ کو پتا نہیں ہے کہ ملک کس جانب جارہا ہے۔ لوگوں کا نظام پر سے بھروسہ اُٹھ گیا ہے اور بھروسہ کھوکھلے وعدوں سے بحال بھی نہیں جاسکتا۔ وقت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔
زاہد حسین   یہ مضمون 14 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
سیاسی دنگل کے نتائج - ایکسپریس اردو
سیاستدانوں کی خودغرضی نے ملک کو آج تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ (فوٹو: فائل) جب سامنے دکھائی دے تو اس کےلیے ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج جو پاکستانی صورتحال ہے اُس کو ڈسکس کرنے کا موقع آج پاکستان نے خود دیا ہے کہ انڈیا اپنے چینلز پر بیٹھ کر کس طرح سے پاکستان کی صورتحال کو اس طریقے سے ادھیڑ رہا ہے۔ یہ سب ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمیں اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے خاتمے کے قریب
Tumblr media
حکومت پاکستان نے قرض کے بوجھ تلے دبے قومی ایئرلائن، پی آئی اے، کی نجکاری کے منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ملازمین کو اپنی ملازمتوں اور پنشن کے متعلق تشویش لاحق ہے اور وہ حکومت کے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) مالی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے حکومت اسے نجی ہاتھوں میں سونپنے اور ایئرپورٹ آپریشنز کی آوٹ سورسنگ کا منصوبہ بنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ اقتصادی مسائل کے درمیان، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے جون میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالرکا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایئر لائن ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی نجکاری پر غور کیا جارہا ہے اور اس کی نجکاری جلد ہی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی ایئرلائن کو اس وقت اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس وقت اس ایئرلائن میں تقریباً 11 ہزار ملازمین ہیں۔ پی آئی اے سے گزشتہ سال ریٹائرڈ ہونے والی ایک ملازمہ روبینہ خان نے ڈی ڈبلیو سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ کہیں ان کی پنشن نہ رک جائے اور دیگر ملازمین، جنہیں ملازمت سے فارغ کیا جاسکتا ہے، ان کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جائیں گے۔ ایک دیگر سبکدوش ملازم جاوید اختر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ پہلے ہی بے روزگار ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری سے مزید افراد کی ملازمت چھن جائے گی۔ انہوں نے کہا، "فطری طورپر ملازمین اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ سخت معاشی حالات کے درمیان ملازمت کے بغیر اپنے کنبے کا پیٹ کیسے پالیں گے۔" ایئر لائن کے انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی آئی اے کے ایگزیکیوٹیو کو بھاری بھرکم تنخواہیں ملتی تھیں اور انہیں "بڑی مراعات اور دیگر نوازشات سے" بھی نوازا جاتا تھا اور اب دیگر ملازمین کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
Tumblr media
پی آئی اے کا عروج و زوال نجی سرمایہ کاروں کے ذریعہ اورینٹ ایئر کے نام سے شروع کی گئی ایئرلائن کو سن 1950 کی دہائی میں حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) رکھا گیا۔ دھیرے دھیرے یہ اس علاقے کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک بن گئی لیکن آج یہ سنگین بحران سے دوچار ہے۔ کمپنی کو کئی سالوں سے مالی مسائل کا سامنا ہے اور متعدد ملازمین کے سبکدوش ہوجانے کے باوجود سن 2017 سے اس میں خاطر خواہ بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ اس وقت اس کے 30 میں سے صرف 19 طیارے آپریشنل ہیں۔ حکومتی تیل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل نے بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب قومی ایئر لائن کو تیل کی سپلائی بند کردینے کی دھمکی دی ہے۔ ایئرلائن کو واجبات کی عدم ادائیگی اور اس کے طیاروں کو ضبط کرنے کی دھمکی کے معاملے پر ملیشیا میں قانونی چارہ جوئی بھی سامنا کرنا پڑا۔ سبکدوش ملازمہ روبینہ خان کا خیال ہے کہ ایگزیکٹیوکی غلط پالیسیاں ایئر لائن کی بتدریج تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اس میں مہنگے نرخوں پر ہوائی جہاز کو پٹے پر لینا بھی شامل ہے۔
ایک ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار اس حوالے سے پی آئی اے کے لیے سری لنکا سے بہت زیادہ قیمت پر دو طیارے حاصل کرنے کی مثال دیتے ہیں۔ سہیل مختار نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ ایک نجی ایئر لائن نے ایک طیارہ 4500 ڈالر فی گھنٹہ کی شرح سے حاصل کیا لیکن پی آئی اے نے وہی طیارہ 7500 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے حاصل کیا۔ "ہمیں اس شرح پر دو طیارے ملے جس کی وجہ سے تقریباً 17 سے 18ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔" انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے نے انتہائی مہنگے انجن بھی خریدے، جن میں بعد میں خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ روبینہ خان کا کہنا تھا کہ کیٹرنگ اور دیکھ بھال کے لیے بیرونی ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرنے سے بھی کافی نقصان ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ، "پی آئی اے کے ذمہ داروں نے اس قومی ایئرلائنز کی مالیات کو نچوڑ کر رکھ دیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ ایگزیکیوٹیوز کی بھاری بھرکم تنخواہیں، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے پی آئی اے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے بھی قومی ایئرلائن کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔ لاہور میں مقیم، ایئرلائنز امور کے ماہر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ سیاسی روابط رکھنے والے نجی ایئرلائنز کے مالکان، جو اپنی ایئر لائنز شروع کرنا چاہتے تھے، کو پی آئی اے میں ایگزیکیوٹیو بنادیا گیا۔ "جس کے نتیجے میں پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیا جب کہ ان کی ذاتی ایئرلائنز منافع بخش بنتی گئیں۔"
پی آئی اے کے ذمہ داروں کا کیا کہنا ہے؟ اسلام آباد میں مقیم ماہر معاشیات شاہد محمود کا کہنا ہے کہ فوجی اور سویلین دونوں ہی حکومتیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے سرکاری اداروں کو من پسند بیوروکریٹس، پارٹی ممبران اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ "اس کے نتیجے میں وہ معیشت کا خون کر رہے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کی نجکاری کی جانی چاہئے۔" پاکستان کے وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد تاہم اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت کا فیصلہ مبینہ مفاد پرست افراد کے مفادات کو فائدہ پہنچانا ہے۔ فواد حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نجکاری کا عمل سختی کے ساتھ قانون کے مطابق کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قدم پر مکمل شفافیت برتی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ڈھانچے اور اثاثوں کی قیمت کا تعین دنیا کے سرفہرست سرمایہ کاری بینک کررہے ہیں۔ فواد حسن کا کہنا تھا کہ "ویلوویشن ایکسپرٹ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کے بعد بولی لگانے کا عمل ہر ایک کے لیے کھلا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "موجودہ معاشی دباو میں حکومت کے لیے اوسطاً دس سے بارہ طیاروں کو آپریشنز پر ہر سال تقریباً 150 ارب روپے کے بھاری خسارے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔" تاہم ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے ملازمین نجکاری کی مزاحمت جاری رکھیں گے اور دیگر افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کارکن عالیہ بخشال نے بتایا کہ ان کی پیپلز ورکرز پارٹی پی آئی اے کے ملازمین کے رابطے میں ہے اور وہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو بھوک اور بھکمری کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اس اقدام کی پوری طاقت سے مخالفت کریں گے۔"
ایس خان، اسلام آباد 
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes