Tumgik
#فنڈنگ
googlynewstv · 17 days
Text
عمران خان کیخلاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ فیض حمید نے نہیں ہونے دیا
پراجیکٹ عمران کے چیف منصوبہ ساز جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد ان کی سیاہ کاریاں سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کس طرح ریاستی مفادات کے برعکس عمران خان کے تحفظ کیلئے دن رات ایک کئے رکھے۔ یہ جنرل فیض حمید ہی تھا جس نے پی ٹی آئی کیخلاف اوپن اینڈ شٹ قرار دئیے جانے والے فارن فنڈنگ کیس کو شیطان کی آنت کی طرح آٹھ برس تک لٹکائے رکھا۔ آخرکار اگست دو ہزار بائیس میں اس کا فیصلہ…
0 notes
risingpakistan · 5 months
Text
بیرونی قرضوں پر انحصار سے نجات کیسے؟
Tumblr media
پاکستان اپنے قیام سے ہی غیر ملکی قرضوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا آ رہا ہے۔ اس رجحان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان کے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو کہ مالیاتی رسک اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005ء کی مقرر کردہ 60 فیصد حد سے بھی زیادہ ہے۔ بیرونی قرضوں کے حجم میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ بیس سال کے دوران قومی ترقیاتی اخراجات کا حجم 20 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آ گیا ہے جس کی وجہ سے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں پر حکومتی سرمایہ کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ترقی کی شرح میں اضافے کیلئے قرض لینے کی پالیسی کے قومی معیشت پر مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بیرونی قرضے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو تجارتی خسارے کو سنبھالنے اور اہم شعبوں کو فنڈ دینے کیلئے مالی معاونت کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اس صورتحال میں نئی حکومت کیلئے جاری معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ترقیاتی اشاریوں اور جمع شدہ غیر ملکی قرضوں کے درمیان روابط کا باریک بینی سے تجزیہ کرے۔
اس طرح کی جانچ پڑتال ملک کے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے لئے یہ موازنہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی معیشت اس وقت جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس کی بڑی وجہ بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم ہے جو معاشی استحکام کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔ قومی معیشت پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی آبادی میں ہونے والا تیز رفتار اضافہ بھی ہے۔ اس خطرے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آبادی کے حجم کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جبکہ معاشی لحاظ سے پاکستان دنیا میں 46ویں نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس امریکہ، چین اور بھارت ناصرف آبادی کے اعتبارسے دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی وہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ یہ حالات معاشی اور مالیاتی نظم و نسق میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ دیگر ترقی پذیر ممالک بھی بیرونی قرضوں کو مالیاتی خسارہ پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ دینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ قرضے براہ راست اور بالواسطہ طور پر تجارت، افراط زر، شرح مبادلہ، کھپت، سرمایہ کاری، جی ڈی پی کی نمو اور قرضوں کی ادائیگی جیسے معاشی عوامل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
Tumblr media
اس وقت پاکستان جس معاشی بدحالی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کم کر کے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کرپائیدار ترقی کو فروغ دینے اور قرض کے انتظام کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے۔ علاوہ ازیں کرنسی کی قدر میں کمی، افراط زر، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیوں جیسے عوامل کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو غیر ملکی قرضوں پر کم انحصار کو ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی قرض کے انتظام کی ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی موجودہ قرضوں کی ادائیگی، نئے قرضوں کے جمع ہونے کو روکنے اور فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر مشتمل ہونی چاہئے۔ قرض لینے کی لاگت کو کم کر کے، قرض کی پائیداری کو بڑھا کر، سرمایہ کاروں کے اعتماد و شفافیت کو فروغ دے کر اور اقتصادی ترقی کو سہارا دے کربیرونی قرضوں کو لاحق خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے روایتی عالمی مالیاتی اداروں سے ہٹ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا، بین الاقوامی منڈیوں میں بانڈز جاری کرنا، مالی امداد کے متبادل راستے تلاش کرنا مخصوص قرض دہندگان پر انحصار کم کر سکتا ہے۔
چین، بھارت اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنا کر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سےنجات حاصل کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں چین کی جانب سے مختلف کرنسیوں میں قرض کے اجراء نے کرنسی کے اتار چڑھاو کے اندیشے کو کم کیا ہے اور سرمایہ کاروں کی منڈیوں کو وسیع کیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے مختلف کرنسیوں میں بانڈز جاری کرنے سے قرض لینے کی لاگت کم ہوئی ہے۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے سکوک بانڈز کے اجراء نے اپنے سرمایہ کاروں کی بنیاد کو متنوع بنانے کے لیے اسلامی مالیاتی اصولوں کی تعمیل کرتے ہوئے فنڈنگ کے نئے ذرائع کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ بیرونی قرضوں پر معاشی انحصار کم کرنے کے لیے طویل المدت بنیادوں ��ر ادارہ جاتی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں ناکامی مستقبل کی نسلوں کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے مزید دبانے کے مترادف ہو گی جسے کسی طرح بھی قومی مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ادارہ جاتی اصلاحات کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر کے اور برآمدات پر مبنی صنعتوں کو فروغ دے کر قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں سرکاری عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بیرونی قرضوں کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان کی خوشحالی کا راستہ پیداواری صلاحیت اور برآمدات میں اضافے، توانائی کی لاگت کو کم کرنے اور زراعت میں سرمایہ کاری کرنے میں مضمر ہے۔
کاشف اشفاق 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے فنڈنگ بند کریں، جنوبی افریقا
جنوبی افریقہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ تمام ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو فنڈنگ اور سہولت فراہم کرنے کو روکیں جب کہ عالمی عدالت نے واضح کیا ہے کہ یہ اقدامات نسل کشی ہوسکتے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ کی جانب سے لائے گئے ایک مقدمے میں اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے فوجیوں کو نسل کشی کے ارتکاب سے روکنے کے لیے اپنی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 8 months
Text
کیا تحریک انصاف کو اس کے وکیلوں نے مروایا؟
Tumblr media
تحریک انصاف کے کارکنان اور مداح اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو سخت سست کہہ کر اپنا کتھارسس فرما چکے ہوں تو انہیں اس سوال پر بھی غور فرما لینا چاہیے کہ ان کی جماعت کو اس حال تک پہنچانے میں خود ان کے وکیلوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے وکیلوں نے بھی وہی غلطی کی ہو جو بھٹو مرحوم کے وکیلوں نے کی تھی ؟ بھٹو صاحب کے وکیلوں سے یہ بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ اس مقدمے کو اس سنجیدگی سے لے ہی نہ سکے جس سے لینا چاہیے تھا۔ بھٹو کیس کی فائل پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ اس سے بہت بہتر انداز سے لڑا جا سکتا تھا۔ ان کے وکیل اسی غلط فہمی میں رہے کہ بھٹو کی مقبولیت کے سیلاب کے آ گے ان قانونی موشگافیوں کی کیا حیثیت ہے، وہ ان سب کو بہا لے جائے گی۔ ان کے اندازے کی یہ غلطی ان کے موکل کے لیے بہت مہلک ثابت ہوئی۔ یہی غلطی عمران خان کے وکیلوں سے ہوئی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ وغیرہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ وہ فارن فنڈنگ کیس ہو یا انٹرا پارٹی الیکشن کا، ان کے خیال میں اس سب کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان کے لاشعور میں کہیں یہ تھا کہ عمران خان کی مقبولیت اس سب کو بہا کر لے جائے گی۔ اندازے کی یہ غلطی تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑی۔
سیاست مقبولیت اور تاثر کی بنیاد پر چلتی لیکن قانون تکنیکی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ یہ کام وکیل کا ہے کہ وہ اپنے موکل کی مقدمے کی تکنیکی بنیادوں کا تحفظ کرے۔ تحریک انصاف کے وکیل یہ کام نہیں کر سکے۔ کوئی جلسے کرنے لگ گیا، کسی نے سوشل میڈیا اکائونٹ بنا کر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ عمران خان کے ساتھ وکیلوں نے وہی کیا جو ان کے یوٹیوبرز نے کیا۔ شہرت کے حصول اور سوشل میڈیا کی رونقوں میں اصل کام کو توجہ نہ دی جا سکی۔ جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جہاں انٹرا پارٹی الیکشن قانون کی روح کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، ہر جانب موروثیت ہے۔  ایسے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی قانون کے مطابق نہیں ہو سکے تو ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ البتہ ایک فرق نمایاں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی قانونی ٹیم سب کچھ کے باوجود اپنا ��ائل ورک مکمل رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انتخابی قوانین ناقص اور نامعتبر ہیں۔ 
Tumblr media
یہاں انتخابی اخراجات کی حد سے لے کر انٹرا پارٹی الیکشن تک سب کی حیثیت اقوال زریں کی ہے۔ سیاسی جماعت ان پر عمل نہ بھی کر سکے تو ان کی قانونی ٹیم اپنا فائل ورک مکمل کر لیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اس سلسلے میں فائل ورک مکمل نہیں کر سکی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ یو ٹیوبرز کا معاملہ تو قابل فہم ہے لیکن قانونی ٹیم کا کام اپنی پارٹی کا قانونی تحفظ ہوتا ہے، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینا نہیں ہوتا۔ یہ عذر کمزور ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ دیا۔ قانون نام ہی تکنیکی بنیادوں کا ہے۔ اگر حلقہ انتخاب سے محروم وکلا اپنی وکالت کی خدمات کی وجہ سے کسی پارٹی میں معتبر ہونا چاہتے ہوں یا ٹکٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں گھسنا چاہتے ہوں تو پھر کم از کم دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پارٹی کو ان تکنیکی قانونی نکات کے بارے میں آگاہ اور تیار رکھا جائے جو اس کے لے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہوں۔
انٹرا پارٹی میں الیکشن میں کچھ بے ضابطگیاں رہ گئی تھیں تو یہ قانونی ٹیم کی ذمہ داری تھی کہ ان کا لیگل کور بروقت تیار کرتی۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے یہ نکتہ اٹھایا ہی نہیں کہ ہمارا الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور الیکشن کمیشن بلاوجہ اسے غلط قرار دے رہا ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہمارا انٹرا پارٹی الیکشن دیکھنے اور جانچنے کا اختیار نہیں۔ یہ دلیل سپریم کورٹ کیسے مان لیتی؟ کبھی کہا گیا الیکشن کمیشن تو فیصلہ دینے والا ادارہ ہے وہ اپیل کیسے کر سکتا ہے ؟ کیا اب ہائی کورٹ بھی فیصلہ دے کر اپیلیں کرے گی؟ یہ دلیل شاید اس لیے دی گئی کہ جو لوگ لائیو دیکھ رہے ہیں وہ مرحبا مرحبا کہنے لگیں اور یوٹیوبرز اس پر سماں باندھ دیں۔ لیکن قانون کی دنیا سے منسلک لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ دلیل خود تحریک انصاف کے ساتھ مذاق سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن بنیادی طور پر انتظامی ادارہ ہے۔ اسے کچھ اختیارات ضرور ہیں کہ وہ بعض معاملات میں فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اسے ہائی کورٹ سے نہیں ملایا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن اس وقت سے انہیں الیکشن کا کہہ رہا ہے جب یہ اقتدار میں تھے لیکن یہ اسے نظر انداز کرتے رہے۔ کیوں؟ کیا قانونی پیچیدگی کے سامنے قانونی ٹیم کی یہ پالیسی تھی؟ کیا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کو معلوم نہیں تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کا قانونی طریقہ کار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں ایکٹورل کالج بدلا جا رہا تھا جب پارٹی عہدیداران کی قانونی مدت ختم ہو چکی تھی تو کیا اس عمل کی کوئی قانونی توجیح سوچی گئی تھی؟ سوچی گئی تھی تو جب الیکشن کمیشن نے یہی اعتراض اٹھا دیا تو اس کا جواب کیوں نہ دیا گیا؟ پارٹی کا آئین بدلا جائے تو الیکشن قوانین کے تحت پارٹی عہدیداران کی پاس کردہ ریزولیوشن ان کے نام اور دستخطوں سے الیکشن کمیشن کو جمع کرانی ہوتی ہے۔ پارٹی کی قانونی ٹیم نے یہ پہلو کیوں نظر انداز ہونے دیا؟ جب الیکشن کمیشن نے اعتراض اٹھایا تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرنے کی بجائے فائل ورک مکمل کرنے پر توجہ دی جاتی؟ کیا یہ درست نہیں کہ الیکشن کمیشن بار بار یہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن اسے پیش نہیں کی جا سکیں؟
اکبر ایس بابر سالوں سے تحریک انصاف کے معاملات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے پارٹی سے اخراج کی آج تک کوئی دستاویز عدالت میں نہیں دی جا سکی۔ بس اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے رکن نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ساتھ ہی عدالت میں کہا گیا کہ وہ پانچ بجے تک آ جاتے تو ہم انہیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی دے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہی نہیں تو پانچ بجے تک پہنچ جانے پر پارٹی انہیں کاغذات نامزدگی کیسے دے دیتی اور کیوں دے دیتی۔ حال یہ ہے کہ تحریک انصاف نظریاتی کو انہوں نے پلان بی کے طور پر رکھا ہوا تھا حالانکہ تحریک انصاف نظریاتی ان کی شدید مخالف ہے اور پچھلے الیکشن میں اسی مخالفت پر وہ میدان میں اتری تھی؟
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
آصف محمود 
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز
0 notes
emergingpakistan · 10 months
Text
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟
Tumblr media
8 فروری اب صرف دو ماہ کی دوری پر ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈز کی لین دین عروج پر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات کے قریب سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔ تو لازمی طور پر جماعتیں انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ ذرائع سے رقم وصول کرنے کی کوششوں میں بھی رہتی ہیں۔ فنڈز کا مقبول ذریعہ پارٹی ٹکٹ کی درخواست کے ساتھ دی جانے والی فیس ہوتی ہے جوکہ پارٹی ٹکٹس حاصل کرنے والے امیدواروں سے وصول کی جاتی ہے۔ آنے والے انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کے پارٹی ٹکٹوں کے لیے 2 لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کی درخواست لیے ایک لاکھ روپے کی ناقابلِ واپسی فیس مقرر کی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ کم از کم ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتیں جیسے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، ٹکٹ درخواستوں کی فیس سے خاطر خواہ رقم حاصل کریں گی۔ ہر سال الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سیاسی جماعتوں کے گوشواروں کی تفصیلات میں سیاسی جماعتوں کی مجموعی آمدنی میں بڑا حصہ ٹکٹ درخواستوں کا دیکھا گیا ہے۔
مثال کے طور پر پی ٹی آئی نے 2018ء کے عام انتخابات اور بعدازاں ضمنی انتخابات میں ٹکٹ درخواستوں کی مد میں 47 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کیے۔ مالی سال 18-2017ء اور 19-2018ء میں یہ رقم پی ٹی آئی کی کُل آمدنی کا 45 فیصد تھی۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے مقابلے میں صرف 14 کروڑ روپے جمع کیے لیکن پارٹی نے انتخابی فیس پر بظاہر زیادہ انحصار کیا کیونکہ یہ انتخابی سال 18-2017ء میں پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 95 فیصد تھے۔ پی پی پی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے مل کر ٹکٹ درخواستوں سے 9 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جو کہ 18-2017ء میں ان کی کُل آمدنی کا 89 فیصد تھے۔ طویل مدتی نقطہ نظر سے بھی ٹکٹ درخواستوں کی فیس سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کیے گئے فنڈز کا ایک اہم حصہ ہے۔ گزشتہ 13 سالوں میں سیاسی جماعتوں کی کُل آمدنی میں اس فیس کا حصہ پی ٹی آئی کے لیے 19 فیصد، مسلم لیگ (ن) کے لیے 33 فیصد جبکہ پی پی پی کے لیے 64 فیصد ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے درخواستوں کی مد میں 59 کروڑ 60 لاکھ روپے حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں 12 کروڑ 40 لاکھ روپے حاصل کیے۔ 
Tumblr media
2018ء کے عام انتخابات میں یہ حساب الٹ گیا اور پی ٹی آئی نے 33 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جبکہ مسلم لیگ (ن) صرف 12 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی جمع کر سکی۔ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی مانگ زیادہ تھی۔ یہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار ہیں۔ یہ اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈران ’عطیات‘ اور ٹکٹ دینے کی مد میں امیدواروں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ اس سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ کہ تقریباً تمام جماعتوں میں امیر اور امیر ترین امیدواروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ ٹکٹ درخواستوں کی فیس پر سیاسی جماعتوں کے انحصار سے یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں نوجوان امیدواروں کی تعداد کم کیوں ہے۔ اگر نوجوان زمیندار، اشرافیہ یا صنعتی طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو وہ پارٹی کو عطیات کی مد میں خطیر رقم دینے کی حال�� میں نہیں ہوتے۔ اگرچہ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کا 45 فیصد نوجوان (35 سال یا اس سے کم) ووٹرز ہیں لیکن ملک کی 10 بڑی سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کی نمائندگی صرف 19 فیصد کے قریب ہے۔
پی ٹی آئی جسے نوجوانوں کی جماعت کہا جاتا ہے، اس نے پچھلے انتخابات میں صرف 129 یعنی 16 فیصد نوجوان امیدواروں کو پارٹی کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری جوکہ متعدد سیاسی جماعتوں کے زائدالعمر رہنماؤں پر تنقید کرتے ہیں اور نوجوانوں کو موقع دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کی جماعت نے خود 2018ء کے انتخابات میں 727 امیدواروں میں سے صرف 122 یعنی 17 فیصد سے بھی کم نوجوانوں کو نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی اس سے بھی خراب رہی، 2018ء کے عام انتخابات میں اس کے 646 امیدواروں میں سے صرف 86 امیدوار یعنی 13 فیصد نوجوان تھے۔ پارٹی ممبرشپ پر سیاسی جماعتوں کا انحصار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ٹی آئی نے بتایا کہ گزشتہ 13 سالوں میں پارٹی ممبرشپ کی مد میں 2 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع ہوئے جوکہ م��موعی آمدنی کا صفر اشاریہ 6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقم ظاہر کی جوکہ ان کی مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 9 فیصد ہے جبکہ پی پی پی 4 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع کر کے ان دونوں جماعتوں سے قدرے بہتر رہی، یہ رقم پیپلز پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 9 فیصد ہے۔
تاہم غیر اراکین کی جانب سے چندہ سیاسی جماعتوں کے لیے آمدنی کا ایک اور اہم ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی گزشتہ 13 سالوں میں ڈھائی ارب روپے کے عطیات وصول کر کے سرفہرست رہی۔ مسلم لیگ (ن) نےاس مد میں 64 کروڑ 10 لاکھ روپے یا کُل آمدنی کا 33 فیصد جمع کیا جبکہ پی پی پی نے ایک کروڑ 80 لاکھ روپے یعنی مجموعی آمدنی کا 4 فیصد جمع کیا۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 17 کی شق 3 سیاسی جماعتوں سے اپنے فنڈنگ کے ذرائع کا محاسبہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کروائے گئے گوشوارے عام طور پر عطیہ دہندگان کی شناخت ظاہر نہیں کرتے اور ان کا ’عطیہ دہندگان‘ کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پی پی پی اپنے بینک ڈپازٹ پر تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ روپے کا سود کماتی ہے جوکہ 14-2013ء میں اس کی مجموعی آمدنی کا 90 فیصد تھا۔ پی پی پی کا گزشتہ 13 سالوں کا مجموعی بینک سود 10 کروڑ 60 لاکھ روپے بنتا ہے جوکہ اس کی مجموعی آمدنی کا 23 فیصد ہے۔ 
پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) دونوں اس مد میں پی پی پی کے مقابلے میں کم کماتے ہیں کیونکہ ان کے بیانات کے مطابق بظاہر انہوں نے گزشتہ 13 سالوں میں سود کی مد میں جو رقم کمائی وہ بالترتیب ان کی مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 49 فیصد اور ایک اشاریہ 33 فیصد ہے۔ تقریباً ہر ترقی یافتہ معاشرے میں سیاسی فنڈنگ ایک حساس موضوع تصور کیا جاتا ہے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بہت احتیاط سے مالی دستاویزات مرتب کر کے جمع کرواتی ہیں جبکہ نگرانی کرنے والے ادارے جیسے پاکستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اتنی ہی سنجیدگی سے ان دستاویزات کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ ماضی میں الیکشن کمیشن کے پاس اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے ادا کرنے کی نہ ہی صلاحیت تھی اور شاید الیکشن کمیشن یہ کرنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ تاہم گزشتہ دو سالوں میں اس نے پولیٹیکل فنانس ونگ کی تنظیم نو کی ہے، عملہ بھرتی کیا ہے اور ایف بی آر جیسے ادارے کے ساتھ روابط بھی قائم کیے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہو گا کہ انتخابی سال 2024ء میں سیاسی مالیات کو کس سطح کی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔
احمد بلال محبوب   یہ مضمون 4 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
shiningpakistan · 10 months
Text
پی ٹی آئی کے سرپرائز کی صورت میں
Tumblr media
عمران خان کیلئے بہتر ہوتا کہ اپنی زیرعتاب سیاسی جماعت کے مستقبل کو بچانے اور آنے والے انتخابات میں تحریک انصاف کے الیکشن لڑنے کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے تحریک انصاف کے اُن سیاستدانوں پر اعتبار کرتے جو فوج مخالف بیانیہ کا کبھی حصہ نہیں رہے۔ لیکن خان صاحب نے ایک طرف تو اپنی جماعت کی سیاست ایسے وکلاء کے حوالے کر دی ہے جو ایک نئی لڑائی لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دوسری جانب تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں اب بھی اُن رہنمائوں کی اکثریت ہے جو انڈرگرائونڈ ہیں اور جنہیں پولیس اور ایجنسیاں گرفتاری کیلئے تلاش کر رہی ہیں۔ اپنی اور اپنی جماعت کی مقبولیت کے زعم میں خان صاحب نے فوج سے ہی ڈائریکٹ ٹکر لے لی اور پھر اُس کے بعد جو ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف تتربتر ہو گئی۔ اس کے کوئی دو ڈھائی سو سابق ممبرانِ اسمبلی اور رہنما پارٹی چھوڑ گئے، نئی سیاسی جماعتیں بن گئی۔ عمران خان سمیت کئی رہنما گرفتار ہو گئے اور کئی انڈر گرائونڈ چلے گئے۔ انتخابات کی تاریخ دے دی گئی لیکن تحریک انصاف کیلئے گھیرا تنگ ہی ہے اور آثار جو نظر آ رہے اُن کے مطابق یہ گھیرا تنگ ہی رہے گا۔ 
تحریک انصاف کو اب بھی یقین ہے کہ اگر بلے کے نشان پر اس کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے تو چاہے عمران خان جیل میں ہوں یا نااہل بھی کر دیئے جائیں تو انتخابات وہی جیتیں گے۔ حال ہی میں میری گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض ( جو اپوزیشن لیڈر بننے سے پہلے ہی ن لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کر چکے تھے) سے بات ہوئی۔ راجہ ریاض کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے قریب ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی طرف سے موجودہ نگراں وزیراعظم کا نام بھی سامنے آیا اور پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف نےاسے فوراً قبول بھی کر لیا۔ چند ہفتے قبل راجہ ریاض نے وسط فروری میں الیکشن ہونے کی پیشنگوئی کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات کے دوران عمران خان جیل میں ہی ہوں گے اور بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان بھی نہیں ہو گا۔ اب جب میری ر��جہ ریاض صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ صورتحال کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ 
Tumblr media
اُن کا کہنا تھا کہ بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر ہو گا لیکن تحریک انصاف کے جو لوگ الیکشن لڑیں گے اُن کی بڑی اکثریت میں نئے چہرے ہوں گے یعنی اُن کے پاس الیکشن لڑنے کا تجربہ نہیں ہو گا، اُن کے پاس الیکشن مہم کیلئے وقت بھی کم ہو گا جبکہ ماضی کے برعکس تحریک انصاف کو الیکشن کیلئے فنڈنگ کی بھی کمی ہو گی۔ راجہ ریاض کے مطابق ان وجوہات کے باعث تحریک انصاف بہت کم سیٹیں جیتے گی۔ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے بارے میں ایسی ہی حکمت عملی دیکھنے کو ملے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے مطابق بیلٹ پیپر پر اگر بلے کا نشان ہوتا ہے تو تمام تر مشکلات کے باوجود تحریک انصاف الیکشن جیت جائے گی اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے اور تحریک انصاف انتخابات میں سرپرائز دے دیتی ہے تو کیا پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ سوچا ہے کہ ایسے سرپرائز کے بعد پھر کیا ہو گا۔ خصوصاً ایسی صورتحال میں جب کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ 
جن کو تحریک انصاف کی جیت کا یقین ہے وہ اس نکتہ کے متعلق سوچ بچار ضرور کریں کیوں کہ انتخابات کے بعد پاکستان کسی نئی کھینچا تانی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور 9 مئی کے بعد اگر تحریک انصاف کے اندر کوئی اب بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اپنی مقبولیت کے باعث وہ کوئی نئی لڑائی لڑ کر جیت سکتا ہے تو ایسا مجھے ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی پاکستان کی قوم بشمول تحریک انصاف کے ووٹرز کی بڑی اکثریت اپنی ہی فوج کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ جولائی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاک فوج کی بحیثیت ادارہ مقبولیت 88 فیصد تھی۔ یہ وہی سروے ہے جس میں عمران خان کو سیاستدانوں میں سب سے زیادہ مقبول دکھایا گیا تھا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnabannu · 1 year
Text
کراؤڈ فنڈنگ کیا ہے اور اس کے ذریعے پاکستانی نوجوان تعلیم کے لیے رقم کیسے اکھٹی کر سکتے ہیں؟
http://dlvr.it/Srb56Z
0 notes
لکی لینڈ کیسینو - بلاگ تعارف: لکی لینڈ کیسینو لکی لینڈ کیسینو اپنے گھر کے آرام سے، آپ حقیقی زندگی کے کیسینو کے تمام مزے اور جوش و خروش سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ لکی لینڈ کا کیسینو اس جگہ میں ایک اعلی درجے کا پلیٹ فارم ہے۔ اس تفصیلی ٹیوٹوریل میں، آپ لکی لینڈ کیسینو کے بارے میں سب کچھ سیکھیں گے اور یہ آپ کے آن لائن گیمنگ مہم جوئی کو کیسے بہتر بنا سکتا ہے۔ کے لیے یہاں کلک کریں۔ کیسینو نیوز. لکی لینڈ کیسینو کو سمجھنا یہاں، آپ کے اپنے گھر کے آرام سے، آپ حقیقی زندگی کے کیسینو کے تمام مزے اور جوش سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ لکی لینڈ کیسینو اس جگہ میں ایک اعلی درجے کا پلیٹ فارم ہے۔ اس تفصیلی ٹیوٹوریل میں، آپ لکی لینڈ کے کیسینو کے بارے میں سب کچھ سیکھیں گے اور یہ آپ کے آن لائن گیمنگ مہم جوئی کو کیسے بہتر بنا سکتا ہے۔ لکی لینڈ کیسینو لکی لینڈ کیسینو میں کیسے شروعات کریں۔ لکی لینڈ کیسینو میں آن بورڈنگ کا عمل آسان نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ آن لائن جوئے میں اپنا ہاتھ آزمانا چاہتے ہیں، تو یہ ہیں وہ اقدامات جو آپ کو کرنے کی ضرورت ہے: اندراج لکی لینڈ کیسینو کے ہوم پیج پر جائیں اور وہاں "سائن اپ" بٹن کو دبائیں۔ مناسب فیلڈز میں اپنا نام، ای میل پتہ، اور پسند کا پاس ورڈ فراہم کریں۔ اگر آپ شرائط و ضوابط کو قبول کرتے ہیں، تو آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اکاؤنٹ کی تصدیق لکی لینڈ کیسینو کو حفاظتی مقاصد کے لیے اپنے صارفین سے شناخت کی درخواست کرنے کا حق حاصل ہے۔ شناخت اور موجودہ پتہ فراہم کرنا معمول کے تقاضے ہیں۔ جمع کرنا آپ کے اکاؤنٹ کی توثیق ہونے کے بعد آپ حقیقی رقم کے لیے کھیلنے سے پہلے ایک ڈپازٹ درکار ہے۔ ہم لکی لینڈ کیسینو میں دستیاب کئی محفوظ اور قابل اعتماد ڈپازٹ آپشنز کو دیکھیں گے۔ گیمز کی دلچسپ رینج لکی لینڈ کیسینو میں مہارت کی مختلف سطحوں کے لیے گیمز کی وسیع اقسام دستیاب ہیں۔ روایتی سلاٹ مشینوں سے لے کر دلچسپ ٹیبل گیمز تک مختلف قسم کے کھیل دستیاب ہیں۔ آئیے وہاں موجود کھیلوں کی کچھ سب سے زیادہ پسند کی جانے والی اقسام کو دیکھیں: [embed]https://www.youtube.com/watch?v=zbiN2-nOTio[/embed] سلاٹس لکی لینڈ کیسینو کے سلاٹس مختلف قسم کے انداز میں آتے ہیں، جس میں بونس راؤنڈز اور جیک پاٹس ملتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے ایک گیم ہے، چاہے وہ کلاسک فروٹ مشینیں پسند کریں یا تازہ ترین ویڈیو سلاٹس۔ ٹیبل گیمز لکی لینڈ کیسینو میں مختلف قسم کے دلچسپ ٹیبل گیمز پیش کیے گئے ہیں، جو کیسینو کھیل کے اسٹریٹجک عناصر کی تعریف کرنے والوں کے لیے بہترین ہیں۔ آپ اپنی صلاحیتوں کو آزما سکتے ہیں اور بلیک جیک اور رولیٹی سے لے کر بیکریٹ اور پوکر تک مختلف گیمز میں ڈیلر کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ لائیو کیسینو لکی لینڈ کیسینو لاس ویگاس کے حقیقی احساس کے لیے لائیو ڈیلر گیمز پیش کرتا ہے۔ لائیو ڈیلرز کے ساتھ کلاسک ٹیبل گیمز کھیلیں اور انہیں براہ راست اپنے آلے پر نشر کریں۔ تجربہ ایک حقیقی کیسینو میں ہونے کی طرح ہے۔ پروموشنز اور بونس لکی لینڈ کیسینو میں کھلاڑیوں کے لیے ��ختلف قسم کے بونس اور انعامات دستیاب ہیں۔ آپ اپنے گیمنگ کے تجربے کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان بونس سے فائدہ اٹھا کر اپنی جیت میں اضافہ کر سکیں۔ آپ ان شاندار فروخت کا انتظار کر سکتے ہیں: خوش آمدید بونس جب آپ لکی لینڈ کیسینو میں اکاؤنٹ کے لیے سائن اپ کرتے ہیں اور اپنا پہلا ڈپازٹ کرتے ہیں، تو آپ کو کافی بونس ملے گا۔ آپ اس پروموشن کی بدولت زیادہ رقم کے ساتھ جوئے بازی کے اڈوں کے گیمز آزما سکتے ہیں، جو عام طور پر آپ کے پہلے ڈپازٹ کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص تعداد میں مفت اسپنز پر میچ کی شکل میں آتا ہے۔ لائلٹی پر��گرام لکی لینڈ کیسینو میں ریگولروں کو ایک مضبوط لائلٹی پروگرام کے ساتھ سراہا جاتا ہے۔ گیمز کھیلتے ہوئے لائلٹی پوائنٹس حاصل کیے جا سکتے ہیں اور کیش بیک، VIP مراعات اور مفت جیسی چیزوں کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ادائیگی کے طریقے: سہولت اور حفاظت لکی لینڈ کیسینو کے ساتھ آپ کے مالی معاملات ہمیشہ محفوظ، درست اور سادہ ہوں گے۔ سافٹ ویئر متعدد محفوظ ادائیگی کے اختیارات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جیسے: کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز لکی لینڈ کیسینو میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز قبول کیے جاتے ہیں، اکاؤنٹ کی فنڈنگ ​​کو تیز اور آسان بناتے ہیں۔ آپ اپنے کریڈٹ کارڈ کی معلومات درج کرنے کے بعد صرف چند کلکس کے ساتھ محفوظ رقم جمع کروا سکتے ہیں۔ ای بٹوے لکی لینڈ کیسینو مختلف قسم کی ای-والٹ خدمات کو قبول کرتا ہے، بشمول وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے پے پال، اسکرل، اور نیٹلر۔ بہت سے آن لائن جواری ان کی فراہم کردہ سہولت اور گمنامی کی وجہ سے ای-والیٹس استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بینک ٹرانسفرز لکی لینڈ کیسینو میں بینک ٹرانسفر ادائیگی کا
ایک اور آپشن دستیاب ہے۔ بڑی خریداریوں کے لیے بینک ٹرانسفر ایک محفوظ اور قابل اعتماد آپشن ہے، لیکن ان پر کارروائی میں تھوڑا زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ موبائل گیمنگ: کہیں بھی، کسی بھی وقت کھیلیں لکی لینڈ کیسینو لکی لینڈ کیسینو کی موبائل گیمنگ خصوصیات کے ساتھ کسی بھی وقت، کہیں بھی اپنے پسندیدہ کیسینو گیمز سے لطف اندوز ہوں۔ موبائل گیجٹس جیسے اسمارٹ فونز اور ٹیبلیٹ کے ساتھ بے عیب کام کرنے کے لیے فریم ورک کو بہتر بنایا گیا ہے۔ آپ اپنے موبائل براؤزر میں سائٹ پر جا کر Android یا iOS اسمارٹ فون کے ساتھ چلتے پھرتے لکی لینڈ کے کیسینو میں مختلف قسم کے گیمز کھیل سکتے ہیں۔ حفاظت اور حفاظتی اقدامات لکی لینڈ کیسینو میں کھلاڑیوں کی حفاظت اور رازداری سرفہرست خدشات ہیں۔ سائٹ آپ کے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے جدید ترین حفاظتی طریقے استعمال کرتی ہے۔ مضبوط انکرپشن، انکرپٹڈ ادائیگی کے طریقے، اور جامع رازداری کی پالیسیاں سبھی ان حفاظتی اقدامات میں حصہ ڈالتی ہیں۔ لکی لینڈ کا کیسینو آپ کی ذاتی معلومات کی حفاظت کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ فائدے اور نقصانات پیشہ Cons کے 1. گیم کا وسیع انتخاب: لکی لینڈ کا کیسینو مختلف قسم کے کیسینو گیمز پیش کرتا ہے، بشمول سلاٹس، ٹیبل گیمز اور مزید۔ 1. محدود دستیابی: ممکن ہے لکی لینڈ کا کیسینو تمام ممالک میں دستیاب نہ ہو، جس سے کچھ کھلاڑیوں کی رسائی محدود ہو جائے۔ 2. مفت سویپس سکے: کھلاڑی مختلف پروموشنز اور تحفے کے ذریعے مفت سویپس سکے، لکی لینڈ کے کیسینو میں استعمال ہونے والی ورچوئل کرنسی وصول کر سکتے ہیں۔ 2. اصلی پیسے کا جوا نہیں: لکی لینڈ کا کیسینو سویپ اسٹیکس کے ماڈل پر چلتا ہے، یعنی کھلاڑی براہ راست رقم جمع نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس پر دانو لگا سکتے ہیں۔ 3. پرکشش گرافکس اور یوزر انٹرفیس: جوئے بازی کے اڈوں میں بصری طور پر دلکش گرافکس اور صارف کے لیے دوستانہ انٹرفیس ہے، جو گیمنگ کے مجموعی تجربے کو بڑھاتا ہے۔ 3. ادائیگی کے محدود اختیارات: لکی لینڈ کے کیسینو میں ادائیگی کے محدود طریقے دستیاب ہیں، جو ہو سکتا ہے کہ تمام کھلاڑیوں کی ترجیحات کے مطابق نہ ہوں۔ 4. سماجی گیمنگ کا تجربہ: لکی لینڈ کا کیسینو سماجی خصوصیات پیش کرتا ہے، جس سے کھلاڑیوں کو دوستوں کے ساتھ بات چیت کرنے، تحائف بھیجنے اور لیڈر بورڈز پر مقابلہ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ 4. کوئی لائیو ڈیلر گیمز نہیں: کیسینو لائیو ڈیلر گیمز فراہم نہیں کرتا، جسے کچھ کھلاڑی جوئے کے زیادہ عمیق تجربے کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔ 5. پروگریسو جیک پاٹس: لکی لینڈ کا کیسینو ترقی پسند جیک پاٹ سلاٹس پیش کرتا ہے، جس سے کھلاڑیوں کو کافی نقد انعامات جیتنے کا موقع ملتا ہے۔ 5. ممکنہ کرنسی کی تبدیلی کی فیس: کھلاڑی کے مقام اور کرنسی کے لحاظ سے، Sweeps Coins استعمال کرتے وقت کرنسی کی تبدیلی سے وابستہ اضافی فیسیں ہو سکتی ہیں۔ 6. موبائل مطابقت: لکی لینڈ کا کیسینو موبائل آلات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، جس سے کھلاڑی چلتے پھرتے اپنے پسندیدہ گیمز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ 6. محدود کسٹمر سپورٹ کے اختیارات: لکی لینڈ کے کیسینو میں دستیاب کسٹمر سپورٹ کے اختیارات دوسرے آن لائن کیسینو کے مقابلے محدود ہو سکتے ہیں۔ 7. ذمہ دار گیمنگ کی خصوصیات: کیسینو گیمنگ کے ذمہ دار ٹولز فراہم کرتا ہے، بشمول ڈپازٹ کی حد اور خود کو خارج کرنے کے اختیارات، جوئے کے محفوظ ماحول کو فروغ دینا۔ 7. کوئی مقامی ایپ نہیں: لکی لینڈ کا کیسینو فی الحال iOS یا اینڈرائیڈ ڈیوائسز کے لیے مقامی ایپ پیش نہیں کرتا ہے، جس کے لیے کھلاڑیوں کو اپنے موبائل براؤزرز کے ذریعے کیسینو تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نتیجہ آخر میں، لکی لینڈ کیسینو ان لوگوں کے لیے ایک محفوظ اور دلچسپ آپشن ہے جو آن لائن جوا کھیلنا چاہتے ہیں۔ نئے اور تجربہ کار کھلاڑیوں کے لیے ایک اعلیٰ منزل کے طور پر، لکی لینڈ کیسینو اپنی وسیع گیم لائبریری، پرکشش بونسز، ادائیگی کے آسان طریقے، اور موبائل گیمنگ کی خصوصیات کے ساتھ ممتاز ہے۔ اپنی قسمت آزمانے کے لیے ابھی سائن اپ کریں اور گھر سے نکلے بغیر ایک حقیقی کیسینو کے سنسنی کا تجربہ کریں۔ دیگر گیمز کے لیے، رجوع کریں۔ کیسینو پیشن گوئی سافٹ ویئر. اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQs) لکی لینڈ کیسینو برطانیہ میں اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے مکمل طور پر لائسنس یافتہ ہے۔ بالکل! آپ کسی بھی جدید اینڈرائیڈ یا iOS ڈیوائس کے ساتھ چلتے پھرتے لکی لینڈ کیسینو کھیل سکتے ہیں۔ آپ لکی لینڈ کیسینو میں سلاٹ، ٹیبل گیمز، لائیو ڈیلر گیمز اور مزید بہت کچھ کھیل سکتے ہیں۔ لکی لینڈ کیسینو میں کھیلوں کو منصفانہ کھیل اور بے ترتیب نتائج کو یقینی بنانے کے لیے اکثر جانچا جاتا ہے۔ لکی لینڈ کیسینو کے انخلا کے اوقات تمام قبول شدہ ادائیگی کے طریقوں میں معیاری نہیں ہیں۔ عام طور پر واپسی کا وقت کام کے چند دنوں کا ہوتا ہے۔
https://blog.myfinancemoney.com/luckyland-casino/?rand=725 https://blog.myfinancemoney.com/luckyland-casino/
0 notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
- آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں: بتاریخ: 06 مئی 2023‘ وقت: صبح 09:00 تا 09:10
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ سرحد پار دہشت گردی سمیت ہرقسم کی انتہاء پسندی ختم کرنا ضروری؛ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کا واضح مؤقف۔
٭ راشٹروادی کانگریس پارٹی کی صدارت سے سبکدوش ہونے کا شرد پوار کا فیصلہ واپس۔
٭ ریاست میں آج سے چھترپتی شاہو مہاراج یوا شکتی کیریئر رہنمائی کیمپس کا انعقاد۔
٭ عدالتی عمل میں تیزی لانے کیلئے جدید تکنالوجی و وسائل کو تسلیم کرنا ضروری: جسٹس بھوشن گوائی۔
٭ دوحہ ڈائمنڈ لیگ کے بھالا پھینک مقابلوں میں نیرج چوپڑا فاتح۔
اور۔۔ ٭ IPL کرکٹ ٹورنامنٹ میں گجرات ٹائٹنس کی راجستھان رایلس کے خلاف نو وِکٹ سے فتح۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
بھارت نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی سمیت ہر طرح کی انتہاء پسندی کو روکنا ضروری ہے۔ وزیرِ خارجہ ایس جئے شنکر نے اس مؤقف کا اظہار کل گوا میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ انتہاء پسندی کا خطرہ بدستور برقرار ہے اور انتہاء پسندی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ایس سی او کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ اس مقصدکے حصول کیلئے دہشت گردی کیلئے ہونے والی فنڈنگ کے ذرائع کا پتہ لگاکر اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلال بھٹو زرداری سمیت آٹھ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔
***** ***** *****
دفاعی ترقیاتی و تحقیقاتی ادارے DRDO کے پونا مرکز سے جاسوسی کرنے کے معاملے میں گرفتار سائنسداں پردیپ کورولکر کو عدالت نے 9 مئی تک پولس تحویل میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ انسداد ِ دہشت گردی اسکواڈ نے کورولکر کو جمعرات کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ نے بتایا ہے کہ پردیپ کورولکر پاکستان خفیہ ادارے کے ساتھ رابطے میں تھا اور وہ جاسوسی کیلئے وہاٹس ایپ کے ذریعے وائس کال اور ویڈیو کال کا استعمال کررہا تھا۔
***** ***** *****
رکنِ پارلیمان شرد پوار نے راشٹروادی کانگریس پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ کل ممبئی میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے یہ اعلان کیا۔ شرد پوار نے کہا کہ سیاسی تنظیم میں جانشین تیار ہونا ضروری ہے اور پارٹی میں تنظیمی تبدیلیاں اور نئی قیادت تیار کرنے پر وہ زور دیتے ہیں۔ شردپوار نے کہا کہ پارٹی کے رہنماؤں‘ عہدیداروں اور کارکنوں کے مطالبے کی قدر کرتے ہوئے انھوں نے اپنا فیصلہ واپس لیا ہے۔ چند روز قبل ہی شرد پوار نے پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس فیصلے کی پارٹی کے بیشتر رہنماؤں‘ عہدیداروں اور کارکنوں نے شدید مخالفت کی تھی۔ کل صبح پارٹی کے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس میں شرد پوار کا یہ فیصلہ مسترد کردیا۔ این سی پی رہنماء پرفل پٹیل نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ کمیٹی نے شرد پوار کا استعفیٰ مسترد کردیا ہے اور اب وہی پارٹی کے صدر برقرار رہیں گے۔
***** ***** *****
ریاست کے طلباء و طالبات کیلئے تمام اضلاع اور اسمبلی حلقوں میں آج سے 6 جون تک چھترپتی شاہو مہاراج یووا شکتی کیریئر رہنماء کیمپس منعقد کیے جارہے ہیں۔ روزگار و اسکل ڈیولپمنٹ کی وزارت کے تحت کاروبار‘ تعلیم اور تربیت کے ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے ان کیمپس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اسکل ڈیولپمنٹ کے وزیر منگل پربھات لوڈھا نے بتایا کہ ان کیمپس کی معرفت طلباء کو ان کے مستقبل کیلئے دستیاب مختلف کورسیز کے تعلق سے رہنمائی کی جائیگی۔
***** ***** *****
احمد نگر ضلع کے لونی میں تعمیر‘ استعمال و انتقال کے اُصول پر ضلع پریشد اسکول کی خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ ریاست کے اسکولی تعلیم کے وزیر دیپک کیسرکر نے اعلان کیا ہے کہ اس اسکول کے بی او ٹی ماڈل کو ریاست بھر میں لاگو کیا جائیگا۔ لونی بُدرک میں بی او ٹی اُصول پر تعمیر کیے گئے ضلع پریشد اسکول کی عمارت اور پندرہویں مالیاتی کمیشن کے فنڈ سے تعمیر کردہ تجارتی کمپلیکس کا افتتاح کیسرکر کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب سے وہ مخاطب تھے۔
***** ***** *****
صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیرِ مملکت ڈاکٹر بھارتی پوار نے کہا ہے کہ قومی زرعی پیداوار کوآپریٹیو مارکیٹنگ آرگنائزیشن یعنی NAFED کے ذریعے ریاست کے کسانوں کیلئے موسمِ گرما کے پیاز کی خریداری شروع کی جائیگی۔ اس خصوص میں انھوں نے مرکزی وزیرِ تجارت پیوش گوئل کو ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔ جس کے بعد انھوں نے پیاز کی خریداری کا تیقن دیا  گیا۔ انھوں نے بتایا کہ موجودہ ہنگام میں پیاز کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہوئی ہے۔ تاہم غیر موسمی بارش اور ژالہ باری کے سبب پیاز کے کاشتکاروں کو راحت پہنچانے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
***** ***** *****
وزیرِ زراعت عبدالستار نے کہا ہے کہ سرکاری اسکیم کے تحت پیاز کے کسانوں سے متعلق عنقریب پالیسی طئے کی جائیگی۔ وہ کل ناسک میں ڈویژنل کمشنر دفتر میں موسمِ خریف سے قبل کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ آئندہ خریف ہنگام میں بروقت تخم ریزی کو یقینی بنانے کیلئے کسانوں کو جلد از جلد قرض فراہم کیا جائے اور تمام ضلع کلکٹرس بینکوں کے نمائندوں کا اجلاس طلب کرکے اس قرض کی بروقت فراہمی کو یقینی بنائیں۔
***** ***** *****
راجشری چھترپتی شاہو مہاراج کی 101 ویں برسی کے موقع پر آج انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔ کولہاپور ضلع کے رابطہ وزیر اسکولی تعلیم کے وزیر دیپک کیسرکر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ آج صبح دس بجے جہاں موجود ہوں اُسی مقام پر 100 سیکنڈ خاموش کھڑے رہ کر شاہو مہاراج کو خراجِ عقیدت پیش کریں۔
***** ***** *****
بودھ پورنیما کل روایتی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی۔ ملک اور بیرون ملک بھی مہاتما گوتم بدھ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ شہر کے سدھارتھ گارڈن میں گوتم بدھ کے مجسّمے کو اور شہر کے غارہائے اورنگ آباد میں نصب گوتم بدھ کے مجسّموں پر گلہائے عقیدت پیش کرنے کیلئے صبح سے ہی عقیدتمندوں کا ہجوم دیکھا گیا۔
***** ***** *****
عدالت ِ عظمیٰ کے جج جسٹس بھوشن گوائی نے کہا ہے کہ عدالتی نظام پر کام کے بڑھتے بوجھ کو دیکھتے ہوئے اور بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے جدید آلات اور تکنالوجی کے استعمال کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ وہ دھاراشیو میں وکیل پریشد سے مخاطب تھے۔ ممبئی عدالت ِ عالیہ کے چیف جسٹس ایس وی گنگاپوروالا‘ کرناٹک عدالت کے چیف جسٹس پرسنّا وراڑے سمیت کئی اہم شخصیات کی موجودگی میں کل اس کانفرنس کا افتتاح عمل میں آیا۔
***** ***** *****
پربھنی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی نئی عمارت کا سنگ ِ بنیاد کل ممبئی عدالت ِ عالیہ کی اورنگ آباد بینچ کے جسٹس نتن سوریہ ونشی کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ 22 کورٹ ہال پر مشتمل اس عمارت کا تعمیری کام اندرونِ دو برس مکمل ہوجائیگا۔
***** ***** *****
قطر اسپورٹس کلب میں بھالہ پھینک مقابلوں میں ہندوستانی اسٹار نیرج چوپڑہ نے دوحہ ڈائمنڈ لیگ کا خطاب حاصل کرلیا ہے۔ نیرج نے پہلی ہی کوشش میں 88.67 میٹر بھالہ پھینک کر طلائی تمغہ حاصل کیا‘ جبکہ ٹوکیو اولمپکس میں دوسرے نمبر پر رہنے والے چیک ریپبلک کے جوکوب وڑلیج نے اس بار بھی دوسری پوزیشن حاصل کی۔
***** ***** *****
IPLکرکٹ ٹورنامنٹ میں کل کھیلے گئے ایک میچ میں گجرات ٹائٹنس سے راجستھان رایلس کو 9 وِکٹ سے شکست دے دی۔ راجستھان نے پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے 119 رن کا ہدف دیا تھا جو گجرات ٹائٹنس نے 37 گیندوں قبل ہی صرف ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ 
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ سرحد پار دہشت گردی سمیت ہرقسم کی انتہاء پسندی ختم کرنا ضروری؛ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کا واضح مؤقف۔
٭ راشٹروادی کانگریس پارٹی کی صدارت سے سبکدوش ہونے کا شرد پوار کا فیصلہ واپس۔
٭ ریاست میں آج سے چھترپتی شاہو مہاراج یوا شکتی کیریئر رہنمائی کیمپس کا انعقاد۔
٭ عدالتی عمل میں تیزی لانے کیلئے جدید تکنالوجی و وسائل کو تسلیم کرنا ضروری: جسٹس بھوشن گوائی۔
٭ دوحہ ڈائمنڈ لیگ کے بھالا پھینک مقابلوں میں نیرج چوپڑا فاتح۔
اور۔۔ ٭ IPL کرکٹ ٹورنامنٹ میں گجرات ٹائٹنس کی راجستھان رایلس کے خلاف نو وِکٹ سے فتح۔
***** ***** *****
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
ٹرمپ کی انتخابی مہم،ایلون مسک کاہرماہ45ملین ڈالر دینے کااعلان
ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے ڈونلڈ  ٹرمپ کی الیکشن مہم  چلانے والے گروپ کو ماہانہ 45  ملین ڈالر کی رقم دینگے۔  ایلون مسک جوبائیڈن کے بڑے ناقد تصور کیے جاتے ہیں اور اب انہوں نے سابق صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم کو سپورٹ کرنے کے لیے بڑی فنڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا ۔سپر پولیٹیکل ایکشن کمیٹی ٹرمپ کے لیے انتخابی مہم چلائے گی اور اس کے لیے وہ ووٹر رجسٹریشن، جلدی ووٹنگ اور دیگر امور پر کام بھی کیا کرے گی۔ ایلون…
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
سائفر کیس کا فیصلہ : انگنت دائروں کا سفر؟
Tumblr media
سائفر کیس کا فیصلہ سنا تو دل کو ٹٹولا، وہاں نہ خوشی کے جذبات تھے نہ افسوس کے۔ یہ وہی منیر نیازی والا معاملہ تھا کہ وہ بےحسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا کچھ غور کیا تو یاد آیا کہ کپتان کے حالات حاضرہ کی شرح بھی منیر نیازی نے ہی بیان کر دی ہے کہ کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی (کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے / کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا)
عمران خان کا معاملہ بھی صرف شہر کے لوگ نہیں، ان کے اپنے شوق نے بھی انہیں یہ دن دکھانے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔ سیاسی قیادت کا قانونی نزاکتوں کے ہاتھوں تحلیل ہو جانا اچھی بات نہیں۔ سیاسی قیادت عوام کے ہاتھوں ہی تحلیل ہونی چاہیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، پاناما میں سے اقامہ نکلا تو جناب عارف علوی نے ضرورت سے کافی زیادہ منہ کھول کر عمران خان سے لڈو کھائے۔ معلوم نہیں آج کون لڈو کھا رہا ہو گا اور یہ بھی خبر نہیں یہ آخری لڈو ہو گا یا پیر مغاں کے انگوروں کے رس سے لڈو بنتے اور بٹتے رہیں گے۔ دائروں کا ایک سفر ہے، جسم شل ہو جاتا ہے مگر گھر نہیں آتا۔ گھوم پھر کر وہی مقام آ جاتا ہے جہاں سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہوتا ہے۔ ہم اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں: لو جی اک بار پھر گرنا پڑ گیا۔ یہاں فیصلے ہوتے ہیں تو گماں گزرتا ہے سو سال یاد رکھے جائیں گے۔ دوسری برسات برستی ہے تو نئی حقیقتوں کے ہاتھوں فیصلے اور منصف دونوں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں تو قدرت نے ویسے ہی اتنی لچک رکھی ہے کہ چاہے تو ہاتھی کو گزرنے دے اور چاہے تو مچھر پکڑ لے۔ سیاسی قیادت کو بھی مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ڈی چوک کے اطراف میں سازگار موسم حسب ضرورت ضرور اتر سکتے ہیں لیکن ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا۔
Tumblr media
ریاست کسی وجہ سے صرف نظر کر سکتی ہے لیکن دائمی ہیجان کی کیفیت میں نہیں رہ سکتی۔ عمران خان نے سیاست کو کلٹ بنایا اور سمجھا وہ اس فصیل میں محفوظ ہیں۔ یہ خوش فہمی جاڑے کی پہلی بارش کے ساتھ بہہ گئی۔ کلٹ اور ریاست زیادہ دیر ساتھ نہیں چل سکتے۔ نظام نے ابھی بھی عمران خان کو نہیں اگلا۔ سزا اس سے بھی سخت ہو سکتی تھی۔ مقدمے کی کارروائی میں ایسا بہت کچھ موجود ہے کہ اپیل کے مراحل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ گویا زبان حال بتا رہی ہے کہ گنجائش موجود ہے۔ اس گنجائش کا حصول مگر کلٹ سے ممکن نہیں، اس کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ سیاسی عصبیت قانون کے کٹہرے میں ختم نہی ہوتی۔ تارا مسیح کا پھندا بھی بھٹو کی عصبیت ختم نہیں کر سکا۔ نواز شریف بھی وقت کا موسم بدلا تو میدان میں موجود ہیں۔ عمران خان کی سیاست بھی ختم نہیں ہوئی۔ وقت کا موسم بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے عمران خان کو ایک سیاست دان بن کر دکھانا ہو گا۔ بدلتے موسموں میں ان کے لیے قبیلے کے خان جیسا کوئی امتیازی مرتبہ دستیاب نہیں ہے۔ جیسے دوسرے ہیں، ویسے وہ بھی ہیں۔ زمینی حقائق کے ہمراہ امکانات کا جہاں اب بھی آباد ہے مگر صاحب کو زمین پر آنا ہو گا۔
عمران خان اپنی افتاد طبع کے اسیر ہیں۔ امور سیاست ہی کو نہیں، امور خارجہ تک کو انہوں نے بازیچہ اطفال بنا دیا۔ ابھی تو وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی زد میں آئے ہیں، بطور وزیر اعظم جو فرد جرم انہوں نے ایران میں کھڑے ہو کر پاکستان پر عائد کی تھی، وہ کسی انتہائی سنگین روب کار کی شکل بھی اختیار کر سکتی تھی۔ شکر کریں، بچ گئے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے شاید ہی کسی مقدمے کو سنجیدگی سے لیا ہو۔ فارن فنڈنگ کیس سے لے کر اب تک، ہر مقدمے کو کھیل سمجھا گیا۔ ان سب کا خیال شاید یہ تھا کہ خان تو پھر خان ہے۔ قانون کی کیا مجال خان کی طرف دیکھے۔ خان خفا ہو گا تو جون میں برف پڑنے لگے گی، خان خوش ہو گا تو جاڑے میں بہار آ جائے گی۔ اب وقت نے انہیں بتا دیا ہے کہ قانون خود ایک خان ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور مقبولیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، قانون جب دستک دے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ملزم اور قانون کے بیچ صرف وکیل ہوتا ہے۔ اسے پوری قوت سے بروئے کار آنا چاہیے۔ 
سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وکیلوں کو فیس دی جاتی ہے پارٹی ٹکٹ نہیں دیے جاتے۔ مزید سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وکیل پیپلز پارٹی سے نہیں لیے جاتے، اپنی پارٹی سے لیے جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ کپتان نے ہدایت کی تھی ’سائفر سے کھیلنا ہے۔‘ سوچتا ہوں، کیا سے کیا ہو گئے کھیل ہی کھیل میں۔ لیجیے منیر نیازی پھر یاد آ گئے: ہُن جے ملے تے روک کے پچھاں ویکھیا ای اپنا حال! (اب جب ملے تو روک کے پوچھوں دیکھا ہے اپنا حال؟) 
آصف محمود 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
امریکا، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا سمیت 9 ملکوں نے فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے فنڈز روک لیے
چھ یورپی ممالک نے ہفتے کے روز فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی ( یو این آر ڈبلیو اے) کے لیے فنڈنگ روک دی، ان الزامات کے بعد کہ پناہ گزین ایجنسی کا کچھ عملہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں میں ملوث تھا۔ برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور فن لینڈ نے ہفتے کے روز اسرائیل کے الزامات کے بعد غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے ایک اہم ذریعہ امدادی ایجنسی کو فنڈز کی فراہمی روکنے میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
عمران خان کا شامل تفتیش ہونے کیلئے ایف آئی اے کو خط
اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں شامل تفتیش ہونے کیلئے ایف آئی اے کو خط بھیج دیا۔ تفصیلات کے مطابق بینکنگ کورٹ میں زیرسماعت مقدمے میں ایف آئی اے کی تحقیقات جاری ہے۔ تحقیقات میں معاونت کیلئےعمران خان نے ایف آئی اے کو خط بھجوادیا ہے ، ایف آئی اےکےتحقیقاتی افسرکومراسلہ عمران خان کے وکلا نے بھجوایا۔ عمران خان نے خط میں تحریری بیان بھی ایف آئی اے کو ارسال کر دیا ہے۔ خط…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
عمران خان بڑا خطرہ ہے یا آئی ایم ایف؟
Tumblr media
اس وقت یہ طے کرنا مشکل ہے کہ بھان متی سرکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج کون ہے؟ خود یہ سرکار؟ بیک روم بوائز؟ عمران خان؟ عدلیہ؟ یا پھر آئی ایم ایف؟  سرکار کے اندرونی اختلافات سلٹانا نبستاً آسان ہے کیونکہ بھلے کوئی کسی کو کتنا بھی ناپسند کرے مگر اس وقت ساتھ جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ بیک روم بوائز کو بھی ہاتھ پاؤں جوڑ کے سمجھایا جا سکتا ہے کہ مانا آپ عقلِ کل ہیں۔ پھر بھی ہاتھ ذرا ہولا رکھیں اور ہمیں بھی اپنی سائنس لڑانے کا تھوڑا موقع دیں۔ عمران خان کو بھی یکے بعد دیگرے مقدمات کی رسی میں باندھ کے وقتی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کو بھی بات چیت کی فلم دکھا کے، قانون سازی کی کرتب بازی، بال کی کھال اتارنے کے فن اور آئینی شوربہ پتلا کر کے مصروف رکھتے ہوئے تھوڑی بہت مہلت کمائی جا سکتی ہے۔ مگر آئی ایم ایف کا کیا کریں؟ ایک ایسا بین الاقوامی کلرک جو سائل کو چکر پر چکر لگوا رہا بے، بار بار کسی نہ کسی جملے پر لال دائرہ لگا کے درخواست ٹائپ پر ٹائپ کروا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک سوال پوچھ رہا ہے، کاغذ پر کاغذ طلب رہا ہے، دستخط سے دستخط ملا رہا ہے۔
کتنا ٹیکس دیتے ہو؟ آخری بار پراپرٹی ٹیکس کب دیا تھا، بجلی پانی گیس کا بل کہاں ہے جس پر تمہارا نام اور ایڈریس بھی ہو۔ آخری ٹیکس گوشوارے کب بھرے تھے، ان کی رسیدیں کہاں ہیں؟ پوری کیوں نہیں؟ دو کم کیوں ہیں؟ کیا کہا بچے نے پھاڑ دیں؟ بچوں کی پہنچ سے دور کیوں نہیں رکھتے؟ اس ہفتے تو مشکل ہے۔ اگلے ہفتے پھر چکر لگا لو۔ چلو اب کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آنا، اب میری سالانہ چھٹیاں شروع ہیں بعد میں فائل دیکھیں گے، اگلی بار آؤ تو فائلوں کے تین سیٹ بنوا کر لانا۔ پچھلی بار اوتھ کمشنر کی آدھی مہر لگی تھی۔ اس بار دستخطوں کے نیچے پورا ٹھپہ ہونا چاہیے۔ ہر کاغذ پر مجسٹریٹ درجہ ِاول کے تصدیقی سائن کروانا مت بھولنا ورنہ صاحب لوگ میٹنگ میں فائل منہ پر دے ماریں گے وغیرہ وغیرہ۔ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ کسی گرگ ِباران دیدہ کرمچاری کی طرح تمام شرائط یک مشت بتانے کے بجائے ایک ایک کر کے بتا اور ہنپا رہا ہے۔ بس چلے تو کمینے کا گھلا گھونٹ دیں، پر اکڑنے کے لیے پلے بھی تو کچھ ہو۔
Tumblr media
آئی ایم ایف بھی جانتا ہے کہ پاکستان نے 70 برس میں دو درجن سے زائد قرض پروگرام خریدے مگر سوائے ایک کے کوئی فنڈنگ پروگرام پورا نہیں کیا۔ پیسے ٹریکٹر خریدنے کے نام پر لیے مگر ان پیسوں سے تائی اماں کو جیولری بنوا کے دے دی۔ گھر بنانے کے لیے لون لیا اور اس لون کو کسی ڈبل شاہ کے حوالے کر دیا۔ دوست بھی کب تک ساتھ دیں اور کتنا؟ سب جان چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت کسی بھی مقدس کتاب پے قسمیہ ہاتھ دھر کے پیسہ تو لے لیتی ہے مگر قرض کو آمدنی شمار کرتی ہے۔ اگر کوئی گریبان پے ہاتھ ڈال دے یا گالم گلوچ پر اتر آئے تو کسی اور پارٹی سے ادھار پکڑ کے گھر کے سامنے بیٹھے قرضئی کو قسط دے کر وقتی گلو خلاصی کروا لیتی ہے۔ پچھلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ مسکین صورت بنا کے آئی ایم ایف سے پیسے لیے اور پھر سستے پٹرول سے ان پیسوں کو آگ لگا کے وقتی چراغاں کر کے رخصت ہوئی۔ موجودہ حکومت لاکھ روئے پیٹے کہ پچھلوں کی سزا ہمیں کیوں دے رہے ہو مگر آئی ایم ایف اس لیے بہرا بنا بیٹھا ہے کیونکہ وہ کسی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو جانتا ہے کہ جس کے نام پر قرضے لے لے کے مجرے پر اڑائے جاتے رہے۔
اوپر سے ہمارے وزرا بھی پیٹ کے ہلکے اور بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنے کے عادی ہیں۔ ابھی پیسے ملے نہیں کہ پیشگی شور مچا دیا کہ جیسے ہی آئی ایم ایف کی قسط آتی ہے عوام کو الیکشن سے پہلے ٹھیک ٹھاک ریلیف دے دیں گے تاکہ الیکشن میں کچھ ووٹ بڑھ سکیں۔ یہ امید دلانے والے ایک بار پھر بھول گئے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ کسی پی ڈی ایم یا پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ ریاست کو ملتا ہے اور آئی ایم ایف حلوائی کی دوکان نہیں کہ ہر بار اس پے جا کے دادا جی کی فاتحہ دلوائی جائے۔ اب تو آئی ایم ایف نے بھی اردو اور پنجابی سیکھ لی ہے۔ غالباً اس کے کارندے پارلیمانی و جلسہ گاہی شعلہ بیانی کی بھی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا کورٹ نمبر ون کے سمن سے ماورا ہیں، لہٰذا ایسے خشک بے مروت اور سپاٹ چہرے والے ادارے سے بے وقت کا مذاق بھی نہیں بنتا۔ پٹڑی سے اترا ایک جملہ کروڑوں ڈالر میں پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آئی ایم ایف نے اب اگلے بجٹ کا خاکہ طلب کر کے ’انتخابی بجٹ‘ دینے کی سرکاری امید پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اوپر سے 30 جون تک پاکستان کو بیرونی قرضے کی قسط کی مد میں ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرنی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی جو دو آخری قسطیں پاکستان کو ملنی تھیں، وہ کہیں مالیاتی تفتیش میں اٹک کے رہ گئیں اور موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں بنانا ہو گا بصورتِ دیگر پاکستان کے لیے اگلے فنڈنگ پروگرام کی منظوری میں موجودہ پروگرام سے بھی کہیں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب پاکستان کو متبادل کے طور پر دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے فنڈز میں سے ہر سال خدمات بجا لانے کے عوض چند ارب ڈالر کا سہارا مل جاتا تھا تاکہ اشرافی اللّوں تللّوں کو سہارا دینے والا معاشی ڈھانچہ جیسے تیسے کھڑا رہے۔ اب نہ وہ امریکہ رہا جو آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے کہہ دیتا تھا کہ ’برخوردار پر ذرا ہاتھ ہولا رکھو۔ بچے کی جان لو گے کیا۔‘ امریکہ آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈز (ساڑھے سولہ فیصد) دان کرتا ہے اور اس کا قرض لینے کا کوٹہ بھی سب سے ذیادہ ( پونے اٹھارہ فیصد ) ہے۔ 
امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ علی الترتیب جاپان، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے ہیں۔  آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز میں انڈیا کے ووٹ دو اعشاریہ تریسٹھ جبکہ پاکستان کے ووٹ صفر اعشاریہ تینتالیس اور قرضہ لینے کا کوٹا بھی اتنا ہی ہے۔ آج تک آئی ایم ایف کے جتنے بھی ( بارہ ) مینیجنگ ڈائریکٹر نامزد ہوئے ان میں سے ایک بھی غیر یورپی نہیں۔ اسی طرح عالمی بینک میں سب بڑا شئیر ہولڈر امریکہ ہے ( سوا سترہ فیصد)۔ عالمی بینک کے پہلے صدر یوجین مائر سے لے کے موجودہ صدر سردار اجے بنگا تک چودہ میں سے تیرہ صدر امریکی شہری تھے۔ صرف ایک صدر جم یونگ کم ( دو ہزار بارہ تا انیس ) کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا۔ چین اور امریکہ کے روز بروز بڑھتے مناقشے میں پاکستان نے بالاخر چینی کیمپ پوری طرح سے چن لیا ہے اور یہ خبر ہم تک پہنچنے سے بہت پہلے بین الاقوامی مالیاتی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس آخر خود کو کتنا اور کب تک بچا سکتی ہے ؟
وسعت اللہ خان 
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
عمران خان کا شامل تفتیش ہونے کیلئے ایف آئی اے کو خط
اسلام آباد : چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں شامل تفتیش ہونے کیلئے ایف آئی اے کو خط بھیج دیا۔ تفصیلات کے مطابق بینکنگ کورٹ میں زیرسماعت مقدمے میں ایف آئی اے کی تحقیقات جاری ہے۔ تحقیقات میں معاونت کیلئےعمران خان نے ایف آئی اے کو خط بھجوادیا ہے ، ایف آئی اےکےتحقیقاتی افسرکومراسلہ عمران خان کے وکلا نے بھجوایا۔ عمران خان نے خط میں تحریری بیان بھی ایف آئی اے کو ارسال کر دیا ہے۔ خط…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
عمران خان کو 28 فروری کو پیش ہونے کا حکم
اسلام آباد : ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بینکنگ کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 28 فروری کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق بینکنگ کورٹ اسلام آباد میں عمران خان اور دیگر کے خلاف فارن ایکسچینج ایکٹ کے تحت ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت ہوئی۔ بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین نے کیس کی سماعت کی، عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھہ عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل نعیم پنجوتھہ نےکہا کہ اسلام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes