Tumgik
#قربانی کا تصور
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
ہیرمان ہیسے، محبوب اور فیض احمد فیض
’’ایک لمحے کے لیے خود کو پوری طرح بھلا سکنا، کسی خاتون کی ایک مسکراہٹ کے لیے کئی برسوں کی قربانی دے سکنا، یہی تو خوشی ہے۔‘‘
(ہَیرمان ہَیسے، “خزاں میں پیدل سفر” سے اقتباس، جرمن سے اردو ترجمہ: مقبول ملک)
ہیسے کی اس تحریر کو پڑھنا ایک ایسا تجربہ تھا کہ نہ جانے کہاں سے فیض احمد فیض کی دو مختلف نظموں کا ایک ایک بند ذہن میں گونجنے لگا:
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
(مجھ سے پہلی سے محبت مری محبوب نہ مانگ)
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
(رقیب سے)
“Sich wegwerfen können für einen Augenblick, Jahre opfern können für das Lächeln einer Frau, das ist Glück.”
(Aus "Eine Fußreise im Herbst" / Hermann Hesse)
2 notes · View notes
Text
روح قربانی
از نوید الطاف خان
لیکچرر دعوۃ اکیڈمی
ــــــــــــــــــــــــ
قرآن کریم کی سورہ انفال کی آیت نمبر162، 163 میں اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم ﷺ کو حکم فرمایا ہےکہ اے نبی کہہ دیجئے بے شک میری نماز، میری قربانی ، میرا جینا اور میر امرنا اللہ کےلیے ہےجو تمام جہانوں کا پالنے والے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں،اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اولین مسلمانوں میں سے ہوں۔
ان دو آیات میں امت کو جس اہم ترین نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اعمال کے اچھے اور بُرے ہونے کا معیار حکم الٰہی اور رضائے الٰہی ہے۔ وہی عمل اللہ جل جلالہ کے نزدیک اچھا ہو گا جسے اس نے اچھا قراد دیا ہو اور وہی اس کے نزدیک قابل قبول ہوگا جو اس کی رضا کے لیے کیا گیا ہوگا۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی کام، کسی بھی نیت سے کیا گیاہو اور بظاہرعقل کے معیار پر پورا اترنے والا اور دل کو بہانے والاہو،اللہ کے ہاں بے وقعت ہی کہلائے گا۔ اسی لیے اللہ پاک نے نبوت کی زبان سے کہلوایا کہ انسان کی نماز اللہ کے لیے ہونی چاہیے ، اس کی قربانی بھی اللہ کے لیے ہونی چاہیے ۔ بلکہ اس کا جینا اوراس کا مرنا بھی اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔
اسی طرح اللہ پاک نے سورۃ الکوثر میں نبی اکرم ﷺ کو کچھ اس طرح حکم دیا ہے:
اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ۔ اس لیے اپنے رب کی رضا کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی نے نام و نشان ہے۔
گویا خود نبی آخرالزماں کی زندگی میں بھی دو اہم ترین اعمال اور اس کی بنیاد پر دین و دنیا میں سربلندی کے اسباب بتائے گئے ہیں اور وہ اللہ پاک کی رضا کے لیے نماز کا پڑھنا اور اس کی رضا کے لیے قربانی کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں دشمنان اسلام کو خواہ کتنا ہی عارضی عروج نصیب ہو وہ بالآخر بے نام و نشان ہی ہیں۔نیک نامی اور نیک شہرت صرف ان لوگوں کو ہی حاصل ہو گی جو نما ز کے ساتھ ساتھ قربانی کو دینی فریضہ کےطور پر اپنائیں۔
اصل زندگی یہی ہے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ وحدہ لاشریک کی رضا کی طلب کے لیے خاص کر دیا جائے۔زندگی کو اس اصول پر گزارنے کی ایک عملی مثال حضرت ابراہیم علیہ السللام کی سیرت مبارکہ ہے۔ انہوں نے سب کچھ اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔ پیدائش ہوئی تو بت فروش باپ کے گھر میں۔ جب ایمان نے اس بندئے مؤمن کےدل میں گھر کیا تو والد کے دل میں اس نور کوروشن کرنے کے لیے تگ ودو اور دعا کرنی شروع کی۔ جب والد نہ مانا تو احترام کے ساتھ،اسے اپنے رب کی رضا کے مقابلےمیں قربان کریا اور اس سے اپنی راہیں جدا فرمالیں ۔ اس کے بعد اپنی قوم کو ایمان و توحید کی طرف بلایا۔ اور انہیں سبق سکھلانے کے لیے ان کے خود ساختہ خداؤں کو توڑ دیا اور کلہاڑی ان کے سب سےبڑے بت کے گردن میں رکھ دی۔ اس کے بعد بادشاہ وقت نمرود کے ساتھ علی الاعلان مناظرہ کیا اور اسے لا جواب کرنے اور ماضی کی مخالفت کی وجہ سے آگ میں جھونک دیئے گئے۔ گویا اس دفعہ اپنی جان اللہ کے حضور قربان کرنے کے لیے پیش کر دی۔ مگر اللہ کے حکم سے آگ گل و گلزار بن گئی۔ آگے اپنے وطن سے ہجرت کرلی ۔ اب وطن اپنے رب کے لیےقربان کر دیا۔
بڑھاپے کی عمر میں اللہ پاک نے بیٹے کی نعمت سے نوازا تو حکم ہوا کہ انہیں ان کی والدہ سمیت بے آب وگیا ہ میدان یعنی مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر واپس فلسطین چلے جاؤ۔ گویا اس دفعہ اپنی بیوی اور بالکل چھوٹے بچے کو اللہ کے لیے ایک چھوڑ دیا۔
اور اس کے بعد جب بیٹا کچھ بڑا ہوا تو خواب کے ذریعے سے حکم ہوا کہ اسے میری رضا کے لیے ذبح کرکے قربان کر دو ۔ چنانچہ اس کے لیے بھی تیار ہوگے۔اپنی سعادت مند بیوی اور بیٹے کو حکم الٰہی سے آگاہ کرنے کے بعد چھری لے کر انہیں بھی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کے لیے کمر کس لی ۔ مگر اللہ پاک کو کچھ اور منظور تھا۔چنانچہ سامنے حضرت اسماعیل کی جگہ جنت سے لایا گیا ایک ذبح شدہ مینڈھاپڑا تھا۔
یہ ہے وہ اصل حقیقت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی راہ میں قربانیوں کی داستان جس کی بدولت نہ صرف یہ کہ اللہ پاک نے ان کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا بلکہ رہتی دنیا تک اپنے بندوں کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ کہ اس خاص دن یعنی ۱۰ ذی الحجۃ کو ان کی یاد میں مخصوص قسم کے جانوروں قربان کرکے اللہ کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس دن جانور کو ذبح کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل زیادہ افضل نہیں۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم، إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض، فطيبوا بها نفسا
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ یوم النحر کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل عمل جانور کا خون بہانا ( یعنی اسے قربانی کے لیے ذبح کرنا) ہے۔ یقینا یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں، ناخنوں کے ساتھ آئے گا، اور یہ خون اللہ کے ہاں (شرف قبولیت کو)پہنچ جاتا ہے قبل اس کے کہ زمین کو لگے۔ چنانچہ خوش دلی سے جانور قربان کرو۔)
اس حدیث مبارکہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ :
اس دن جانور ذبح کرنےسے بڑھ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے والا عمل کوئی نہیں۔
یہ عمل اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ امر تعبدی ہے۔
قربانی سے جڑی ایک ایک چیز یہاں تک کہ جانور کے بالوں، ناخنوں کی بھی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جو آدمی استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔
یعنی ایسے آدمی کا مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور خوشی سےکوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسا آدمی اس قابل ہے کہ وہ اس قسم کی اجتماعیت کا حصہ ہو۔
الغرضعید الاضحیٰ کا اصل مقصد دراصل حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی انہی قربیوں کو دیا رکھنا ہے۔اورذی الحجہ کے دس ایام میں بالعموم اور عید الاضحٰی کے دن بالخصوص ان کے اس عمل یعنی اللہ پاک کی راہ میں بیٹے کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے اوراس کام کی عظمت کو دل میں لاتے ہوئے ،جانور ذبح کیا جائے۔
اس لیے ایسی سوچ یا آواز کہ" قربانی کی جگہ اگر کسی انتہائی غریب و نادار لوگوں کی مدد کی جائے تو شاید زیادہ اچھا ہو سکتا ہے۔" میں سوائے شیاطانیت کے کچھ نہیں۔ قربانی دراصل ایک مسلمان کو ایمان کے اندر پختہ کرنے کا مرحلہ ہے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ، اپنا تن، من ، تھن، اپنے قریبی رشتہ دار، اپنا وطن حتی کہ اپنی اولاد کو قربان کرنےکے تصور کو اجاگر کرنا ہے۔
ایک لمحہ کے لیے سوچئے کہ صرف عید الاضحٰی کےوقت ہی کیوں غریب یاد اور ان کی ہم دردی جاگ جاتی ہے۔اگر فرض کیا یہ عملِ قربانی نہ ہوتا تو کیا غریب اور ان کی ضرورتیں ہی ختم ہو جاتیں؟ کیا غیر اسلامی دنیا میں جہاں یہ مبارک عمل نہ ہوتا تو اس کے بجائے اتنی مقدار کے برابر رقم غریبوں کے لیے مختص ہے؟کیا وہاں غریب ختم ہوگئے؟اسی طرح اسلامی دنیا میں دیگرسرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کئے جانے والے غیر ضروری اخراجات کے بجائے غربت کو مٹانے کے لیے رقم مختص کیوں نہیں کی جاتی؟ اور کیا اس پورے مرحلے میں رونما ہونے والی معاشی سرگرمیوں سے غریبوں کو فائدہ نہیں ہوتا؟
حقیقت میں بات صرف یہ ہے کہ اس علامت ِدین اور سنتِ ابراہیمی جو بنیادی طور پر مظہر رضا باری تعالیٰ اور پہچان توحید باری تعالیٰ ہے، یہ ان لوگوں کو برداشت نہیں جو دلوں میں مادہ پرستی،نفس ، ہوس اور شیطان پرستی کے بت بنائے بیٹھے ہیں۔ اور اس عمل سے ان آباد اور سجے کمروں میں بت شکنی ہوتی محسوس ہوتی ہے۔مگر
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آذان، لا الہ الا اللہ
اسی طرح قربانی کے اندر اصل صرف یہ نہیں کہ آدمی بس حصہ کے بقدر روپے پیسے دے دے اور اپنے حصے کا گوشت لے کر تقسیم کر دےبلکہ اس عمل میں حتی الامکان خود اور اپنی اولاد کو شریک رکھنا چاہیے اورحضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی قربانیوں کا احساس رکھ کر جانور قربان کرے۔
بعینہ اس مبارک عمل کو سرکاری تحویل میں لینے کی تجاویز بھی اصل مقصد سے توجہ ہٹانا اوراس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش ہو سکتیں ہیں۔سرکار کے ذمہ کو جو ضروری کام ہے وہ ہی کسی درجہ میں کرلے تو عوام اس کے شکر گذار ہوں گے۔ قربانی اہل ایمان خود ہی کرلیں گے ۔
کیا سرکار بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہ ہو چکی کہ یہ اضافی ذمہ داری اس پر سونپی جائے؟ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ سرکاری سطح پر جمع ہونے والی زکاۃ پر عوام کا کتنا اعتماد ہے اور لوگ کیوں رمضان آنے سے پہلے بینکوں سے رقم نکال لیتے ہیں یا پھر باقاعدہ طور پر بینک کو خود بخود زکاۃ کی رقم کاٹنے سے منع کر دیتے ہیں؟ حالانکہ یہی لوگ خود زکاۃ ادا کرتے بھی ہیں اور ایک عرصہ سے پاکستان دنیا میں زکاۃ و صدقات دینے والے ممالک میں الحمد للہ سر فہرست ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قربانی کواس کے مقاصد کے روشنی میں کرنے کی توفیق دے ۔ امین
1 note · View note
risingpakistan · 5 years
Text
نواز شریف کا ورکرز کو خط
آج میں دل کی کچھ باتیں آپ کیساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ خط آپ تک پہنچنے سے پہلے سیاسی مخالفین میرے ناشتہ کرنے کی تصویر پر ہنگامہ برپا کر چکے ہوں گے۔ اُنہیں میری تصویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہو گا کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ نواز شریف بسترِ علالت پر یوں دراز ہو کہ منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہو اور چلنے پھرنے سے یا بات کرنے سے قاصر ہو لیکن اُن کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔ یہ ذہنی مریض اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ کسی سے ملنے جلنے یا باہر کسی ریستوران پر جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بیماری ڈھونگ ہے اور اب اس شخص کو کوئی مرض لاحق نہیں۔ 
مجھے معلوم ہے کہ آپ سب پاکستان میں ہونے والی حالیہ پیشرفت کے باعث سکتے کی کیفیت میں ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ یہ چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عصر کے وقت روزہ کیوں توڑ دیا۔ بھانت بھانت کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف مجھے اس تنقید سے دُکھ ہو رہا ہے تو دوسری طرف یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ میری جدوجہد بےثمر نہیں رہی اور اب ہمارے معاشرے میں ووٹ کی حرمت کا تصور راسخ ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخلص کارکن بھی نہ صرف قیادت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں بلکہ سوالات اُٹھا رہے ہیں۔
عزیز ساتھیو! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنے اس بیانیے کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جو لوگ میرے مزاج سے واقف ہیں، انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایک بار جو ٹھان لیتا ہوں وہ کر کے رہتا ہوں۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا۔ اگر مجھے ڈیل کرنا ہوتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ حکومتی وزرا بھی برملا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز شریف سمجھوتہ کر لیتا تو چوتھی بار بھی وزیراعظم ہوتا مگر میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو ڈکٹیشن لیتے ہیں یا شکست کے خوف سے سرنڈر کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنی بیوی کو بسترِ مرگ پر تنہا چھوڑ کر اپنی بیٹی کیساتھ لندن سے واپس آکر گرفتاری اس لئے دی کہ مجھ پر اعتماد کرنے والوں کو مایوسی نہ ہو۔
میں جیل کی سختیوں اور مشکلات سے نہیں گھبرایا ۔ میں ذہنی طور پر اس بات کیلئے بھی تیار تھا کہ شاید مجھے جیل میں ہی مار دیا جائے۔ جب ان کٹھن ترین حالات میں نوازشریف نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا تو اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ چند سانسیں اُدھار لینے کیلئے میں تاریخی کردار سے روگردانی کر لیتا ؟ ڈیل کا طعنہ دینے والے بتائیں کہ ڈیل کے ذریعے مجھے کیا عطا کیا جا سکتا ہے؟ وہ اقتدار جسے میں ٹھوکر مار کر آیا ہوں؟ سانسوں کی وہ ڈور جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے اس کیلئے بھیک مانگنے کی حماقت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے شہباز شریف صاحب یا پھر اپنی بیٹی مریم کیلئے قربانی دی ہے، وہ بھی مغالطوں کا شکار ہیں۔
سویلین بالادستی کے علم بردارو! میں جیل میں یا پاکستان کے کسی ہاسپٹل میں مر جاتا اور میں ذہنی طور پر موت کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھا لیکن کیا ایک اور چراغ بجھ جانے سے اندھیرے چھٹ جاتے؟ کیا میری موت سے ووٹ کو عزت مل جاتی اور سویلین بالادستی کی منزل حاصل ہو جاتی؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے بجائے زندہ رہ جاتا تو کیا آج ہماری سیاسی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ سچ یہ ہے کہ میں نے دوراندیشی اور حکمت کے تحت دریا پار کرنے کیلئے فی الحال ڈوب جانے کا فیصلہ کیا۔ میں تو کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوقین نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ سیاست گر اور جادو گر میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں۔
سیاستدان کو بھی جادوگر کی طرح بعض ایسے کرتب دکھانا پڑتے ہیں جو دیکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ مریم نے ایک بار امریکی اسکالر، ایچ ایل میکن سے منسوب قول بتایا تھا کہ بندر کے پنجرے سے سرکس چلانے کے فن اور سائنس کا نام جمہوریت ہے۔ سچ پوچھیں تو پاکستان جیسے ملک میں ووٹ کو عزت دلانے کا معاملہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوائی لینا پڑتی ہے جس کے سبب آپ بیمار ہوئے۔
ووٹ کو عزت دو کے پاسدارو! یہ راج نیتی کا کھیل شطرنج کی بازی سے بھی کہیں زیادہ ناقابلِ فہم ہے۔ مخالف کو شہ مات دینے اور بڑی چال چلنے کیلئے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ نے پسپائی اختیار کر لی۔ زہر کا اثر ختم کرنے کیلئے زہر کو ہی تریاق بنانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک بار پھر جسم میں زہر اُتارنے کی حماقت کی جا رہی ہے۔ میں نے ووٹ کو عزت دلانے اور سویلین بالادستی کا مقام پانے کیلئے جو چال چلی ہے اس کی علامات تو فوری طور ہر ظاہر ہونے لگی ہیں البتہ چند ماہ بعد اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ 
آپ بددل ہونے کے بجائے اپنے دوستوں کو یہ فلسفہ سمجھائیں، اُنہیں بتائیں کہ اگر آپ کو ہماری جماعت کی موجودہ سیاسی چال کی سمجھ نہیں آئی تو شعیب منصور کی فلم ’’ورنہ ‘‘ دیکھیں۔ اگر یہ فلم دیکھنے کے بعد بھی کوئی ہونقوں کی طرح منہ تکتا نظر آئے تو محض یہ کہنے پر اکتفا کریں۔ ’’ارے او بوندھو! تم کیا جانو! دو چٹکی راج نیتی کا سواد۔‘‘  فی الحال اجازت دیں۔ ڈاکٹر عدنان کہہ رہا ہے کہ رائل برومپٹن ہاسپٹل (Royal Brompton Hospital) چیک اپ کیلئے جانا ہے۔ ڈاکٹروں نے ہوا خوری کیلئے دن میں دو بار گھر سے باہر نکلنے کو کہا ہے اس لئے ممکن ہے آئندہ دنوں میں مزید تصویریں سیاسی مخالفین کی چھاتی پر مونگ دلتی نظر آئیں۔
آپ کا اپنا نوازشریف ایون فیلڈاپارٹمنٹس،مے فیئر، لندن
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
maqsoodyamani · 2 years
Text
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم اگر عید الاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔ ازقلم:فیصل فاروق   قربانی مسلمانوں کا اہم مذہبی فریضہ ہے۔ عید قرباں کا پیغام ہی دراصل ایثار و قربانی ہے۔ فلسفۂ قربانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا تقویٰ مطلوب ہے اور اِسی تقوے کے حصول…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
انگراہم نے گیس کی قیمتوں پر سوال کے جواب میں جو بائیڈن کے 'ناگوار واشنگٹن' کے جواب کو دھماکے سے اڑا دیا: 'یہ انتقامی ہے' #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%a7%d9%86%da%af%d8%b1%d8%a7%db%81%d9%85-%d9%86%db%92-%da%af%db%8c%d8%b3-%da%a9%db%8c-%d9%82%db%8c%d9%85%d8%aa%d9%88%da%ba-%d9%be%d8%b1-%d8%b3%d9%88%d8%a7%d9%84-%da%a9%db%92-%d8%ac%d9%88%d8%a7%d8%a8/
انگراہم نے گیس کی قیمتوں پر سوال کے جواب میں جو بائیڈن کے 'ناگوار واشنگٹن' کے جواب کو دھماکے سے اڑا دیا: 'یہ انتقامی ہے'
Tumblr media
جو امریکہ کی قربانی دیتا ہے۔
لورا انگراہم کہتی ہیں کہ بائیں بازو کا خیال ہے کہ امریکہ کے پاس بہت کچھ ہے – اور اب وقت آگیا ہے کہ امریکی ذہن کو مکمل طور پر دوبارہ ترتیب دیا جائے۔
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
لورا انگراہم منگل کو کہا کہ وہ اب صدر بائیڈن پر یقین نہیں کرتی ہیں۔ خارجہ پالیسی کی غلطیاں نااہلی کی وجہ سے ہے، بلکہ اس کی پالیسیاں انتقامی ہیں۔
بائیڈن روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرین پر ان کے حملے کا الزام اپنی انتظامیہ کی طرف سے آسمان کو چھونے والی گیس کی قیمتوں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ زیادہ تر دو طرفہ دباؤ کے درمیان، بائیڈن نے درآمدات پر پابندی لگا دی۔ روسی تیل کی.
Tumblr media
5 مارچ 2022 کو یوکرین کے باشندے تباہ شدہ پل کے نیچے ہجوم کر رہے ہیں جب وہ کیف، یوکرین کے مضافات میں دریائے ارپین کو عبور کرتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ((اے پی فوٹو/ایمیلیو مورینیٹی))
“یہ ایک ایسا قدم ہے جسے ہم مزید تکلیف پہنچانے کے لیے اٹھا رہے ہیں۔ پوٹن. لیکن لاگت بھی ہو گی۔ یہاں امریکہ میں… آزادی کا دفاع کرنا مہنگا پڑ رہا ہے۔ اس سے ہمیں بھی لاگت آئے گی،” بائیڈن نے کہا۔ “یہ بالکل درست نہیں ہے کہ میری انتظامیہ یا پالیسیاں گھریلو توانائی کی پیداوار کو روک رہی ہیں۔ یہ صرف سچ نہیں ہے۔”
NYT کے رپورٹر نے مشورہ دیا کہ پوٹن نے ٹرمپ کے تحت فوجی کارروائی نہیں کی کیونکہ وہ غیر متوقع تھا
انگراہم نے جواب دیتے ہوئے کہا، “اب یہ محض نااہلی نہیں ہے۔ اس وقت، یہ بامقصد ہے۔ میرے خیال میں یہ انتقامی ہے۔”
“ہم بائیڈن اور ان کی پارٹی کی غلطیوں کی ادائیگی کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں جب سے انہوں نے اقتدار سنبھالا ہے؛ ان کے پاگل COVID مینڈیٹ سے لے کر ان کے جان بوجھ کر انکار تک۔ مہنگائی جیواشم ایندھن کے خلاف ان کی پاگل جنگ میں۔ اور اب وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔”
Tumblr media
25 فروری، 2022 کو ویسٹ ہالی ووڈ، کیلیفورنیا میں، روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ایک موبل گیس اسٹیشن پر ایک موٹر سوار پٹرول پمپ کر رہا ہے۔ (اے پی فوٹو/ڈیمین ڈوورگنیس)
جب صحافیوں سے سوال کیا گیا کہ وہ گیس کی قیمت کے بارے میں کیا کریں گے؟ بائیڈن نے کہا“ابھی زیادہ کچھ نہیں کر سکتے، روس ذمہ دار ہے۔”
انگراہم نے بائیڈن کو “گھناؤنی واشنگٹن” کے ردعمل پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
“اس نے اس لمحے کو کچھ ایسا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جو واشنگٹن کو ناگوار گزرے۔ [and] الزام بدلنا،” اس نے کہا۔ انگراہم کے مطابق، بائیڈن نے نئی ڈرلنگ کو روکنا، کم پرمٹ جاری کرنا، الاسکا آئل پروجیکٹ کو کھودنا، ANWR میں معطل کرنا، اور منسوخ کرنا۔ کی اسٹون ایکس ایل پائپ لائن سب نے امریکی توانائی کو تباہ کرنے میں ایک بڑا عنصر ادا کیا۔
انہوں نے کہا، “ہم اب توانائی کے لیے ٹرمپ کے دور کے مقابلے میں آمرانہ حکومتوں پر زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔”
Tumblr media
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایک قانون سازی پر دستخط کیے ہیں جو یوکرین پر اپنے فوجی حملے کے بارے میں نام نہاد “جعلی” خبریں رپورٹ کرنے پر صحافیوں کو 15 سال تک قید کی سزا دے سکتا ہے۔ (یوری کوچیٹکوف/پول)
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
“انگراہم اینگلمیزبان نے بائیڈن پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا۔
“اب یہ ان بہت سے جھوٹوں میں سے ایک ہے جو بائیڈن امریکیوں کو کہہ رہے ہیں جو ان کی کمزور قیادت میں مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ ایک امریکی صدر، دنیا کا سب سے طاقتور ملک۔ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ کچھ نہیں، یہ سب کچھ ہے۔ پوٹن کے ہاتھ میں۔ کیا ہم سب صرف ٹرمپ کے تحت اپنی سابقہ ​​توانائی کی آزادی کا تصور کر رہے ہیں۔ [never happened]? ٹھیک ہے، یہ وہی ہے جو بائیڈن چاہتا ہے کہ آپ یقین کریں.”
“ڈیموکریٹس کبھی بھی کسی بحران کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔ ہم یہ جانتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یوکرین، وبائی بیماری کی طرح، ان کے لیے ایک اور المیہ ہے کہ وہ وسط مدتی میں اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں استحصال کریں۔ اب آپ سوچتے ہیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ غلط سمت، پمپ پر درد؟ ٹھیک ہے، آپ سب کو جاننے کی ضرورت ہے، یہ روس کی غلطی ہے۔”
Source link
0 notes
discoverislam · 3 years
Text
شان ِ رسالت ﷺ
دنیا میں بہت سے لوگ اچھے کردار کا مظاہرہ کر کے جہاں اپنے لیے نیک نامی کماتے ہیں وہاں اپنے خاندان اور دوست احباب کی عزت افزائی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی بدبختی اور شرانگیزی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ خود بدنام ہوتے ہیں بلکہ اپنے خانوادے اورمتعلقہ لوگوں کے لیے بھی رسوائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ دوسروں کو اذیت دینا اور ان کے لیے شر کا سبب بننا بہت بڑی بدبختی ہے۔ دنیا میں وہ لوگ شرارت اور شر انگیزی کے اعتبار سے بدترین ہیں جو مقدس ہستیوں کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کی ذات میں عیوب کو تلاش کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کی مقدس جماعت یقینا کائنات کی سب سے اعلیٰ افضل جماعت ہے اور اس جماعت کے بارے میں سوئے ادب کرنا تو بڑی دور کی بات ہے بے ادبی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بعض لوگ شرم اور اخلاق کے تمام ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی مقدس ہستیوں کے حوالے سے بھی بے ادبی اور تنقیص کامظاہرہ کرتے ہیں۔ 
ماضی میں چارلی ہیبڈو اور گیرٹ وائلڈرز نے اس حوالے سے اپنے لیے رسوائی اور ذلت کا سامان کیا اور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی بے ادبی کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ اب ایک مرتبہ پھر فرانسیسی صدر میکرون اس تاریخ کو دہرانے جا رہے ہیں اور گستاخانہ خاکے بنانے والوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس اس مقامِ بلند پر فائز ہے کہ جس کا عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا‘ لیکن بعض انسان ایسے ہیں جو اپنے مقصدِ تخلیق کو فراموش کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ پاتال کی گہرائیوں میں گر جاتے ہیں اور قرآن مجید کے مطابق یہ چوپایوں سے بھی بدتر ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اپنے مقصدِ تخلیق کو سمجھ اور پہچان جاتے ہیں یقینا یہ لوگ ہر اعتبار سے قابلِ تحسین ہیں۔ سورہ فاتحہ میں انعام یافتہ لوگوں کا راستہ تلاش کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ انعام یافتہ لوگوں کے چار طبقات ہیں صلحا ‘ شہدا‘ صدیقین اور انبیا۔
صلحا وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو پاکیزگی کے ساتھ گزارتے اور اوامر الٰہی کی انجام دہی میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کیے رکھتے ہیں اور یہ لوگ زندگی کے آخری سانس تک دین پر استقامت کا مظاہرہ کر کے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ شہدا وہ لوگ ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جان تک کو نچھاور کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدا کو حیاتِ جاوداں سے نوازا ہے اور قرآن مجید میں بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ شہدا کو مردہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ زندہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 154 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور مت کہو ان کو جو قتل کیے جائیں اللہ کی راہ میں ‘ مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن تم شعور نہیں رکھتے‘‘۔ شہدا کے افکار‘ جدوجہد اور قربانیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہر ذی شعور انسان میں خود بھی قربانی کا ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان کے سیرت و کردار سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ 
صدیقین کی جماعت ایک ایسی جماعت ہے جن کے ایمان کی گواہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے دی ہے۔ اس اُمت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صداقت کے اعتبار سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو انتہائی بلند مقام عطا فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صداقت کے حوالے سے جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپؓ نے نبی کریمﷺ کی سیرت و کردار کو دیکھنے کے بعد کسی نشانی کو طلب نہ کیا اورفی الفور حلقۂ بگوش ِ اسلام ہو گئے۔ اسی طرح سفر بیت المقدس اور معراج کے حوالے سے بھی آپؓ کسی قسم کے شکوک وشبہات کا شکار نہ ہوئے اور آپ نے فی الفور اس واقعہ کی تصدیق کی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر 33 میں صدیقین کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو آیا سچ کے ساتھ اور تصدیق کی اُس کی وہی لوگ ہی متقی ہیں‘‘۔ صدیقین اگرچہ مقام بلند پر فائز ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کی جماعت کا مقام تمام جماعتوں سے اعلیٰ ہے اس کا سبب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی کا نزول ہوتا رہا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ حقیقتِ وحی کو بیان فرماتے ہوئے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 51 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے‘ مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی رسول (فرشتہ) بھیجے تو وہ وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے جو وہ (اللہ) چاہتا ہے بلاشبہ وہ بہت بلند بہت حکمت والا ہے‘‘۔ انبیاء علیہم السلام کی جماعت کا مقام اگرچہ انتہائی بلند ہے لیکن ان میں سے بھی صاحبِ شریعت رسل اللہ کا مقام سب سے بلند ہے اور ان میں سے بھی اولوالعزم رسولوں کا مقام سب سے بلند ہے جن میں حضرت نوحؑ‘ حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت موسیٰؑ‘ حضرت عیسیٰؑ اور نبی کریم ﷺ شامل ہیں۔ اسلام نے ہمیں تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت پر یقین رکھنے کی تلقین کی ہے‘ لیکن جہاں تک تعلق ہے حضرت رسول اللہﷺ کی شان وعظمت کا تو یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ نبی کریمﷺ کی شان تمام انبیا علیہم السلام میں سے بلند ہے۔ جس کے متعدد دلائل کتاب وسنت میں موجود ہیں۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ عالمگیریت: نبی کریم ﷺسے پہلے مبعوث ہونے والے تمام انبیا محدود علاقے اور محدود وقت کے لیے اللہ کے رسول بن کر کائنات میں جلوہ گر ہوئے؛ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا‘ حضرت ہودؑ نے قوم عاد‘ حضرت صالحؑ نے قوم ثمود‘ حضرت شعیبؑ نے قوم مدین ‘ حضرت لوطؑ نے قوم سدوم‘ حضرت موسیٰ ‘ حضرت ہارون ‘ حضرت داؤد‘ حضرت سلیمان‘ حضرت زکریا‘ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام بنی اسرائیل کے رسول بن کر آئے‘ لیکن جب حضرت رسول اللہﷺ کی باری آئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ آپ پوری انسانیت کے رہنما بن کر آئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں‘‘۔ اسی طرح سورہ سبا کی آیت نمبر 28 میں ارشاد ہوا: ''اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔
2۔ نبی القبلتین: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد دو حصوں میں تقسیم ہوئی یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور دوسرے اسحق علیہ السلام کی اولاد۔ حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد ارض ِ عراق‘ اردن‘ فلسطین میں لوگوں کی اصلاح اور دعوت کے فریضے کو انجام دیتی رہی جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنا مسکن جزیرۃ العرب اور سرزمین ِمکہ کو بنا لیا۔ حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد میں سے بہت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد اور ورثا میں سردار‘ رؤسا اور صاحبِ اثر شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے بیت اللہ کی تولیت کے فریضے کو انجام دیا۔ شبِ معراج اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺ کو بیت اللہ الحرام سے بلند فرما کر صحن بیت المقدس میں پہنچا دیا۔ اس سفر کی حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اسریٰ کی آیت نمبر ایک میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: ''پاک ہے (اللہ) جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ ��ک (وہ) جو ہم نے برکت کی اس کے اردگرد۔ تاکہ ہم دکھائیں اسے (کچھ) اپنی نشانیوں سے ‘‘۔ صحن ِبیت المقدس میں آپ نے انبیاء علیہم السلام کی امامت بھی فرمائی۔ اس طریقے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو ثابت فرما دیا کہ آپﷺ فقط آنے والوں کے امام بن کر نہیں آئے بلکہ اللہ نے آپ کو جانے والوں کا بھی امام بنا دیا ہے۔
3۔ ختم نبوتﷺ : نبی کریم ﷺ سے پہلے آنے والے انبیا میں سے ہر نبی کے بعد دوسرا نبی دعوتِ توحید کے ابلاغ کے فریضے کو انجام دیتا رہا ‘ لیکن نبی کریمﷺ کی ذات ِاقدس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبوت ورسالت کو تمام کر دیا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں یوں فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے اور لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺکی ذاتِ اقدس کی عظمت کا معترف ہونا چاہیے۔ آپﷺ کی عظمت کے دو اہم تقاضے یہ ہیں کہ آپﷺ سے والہانہ محبت کی جائے اور آپ ﷺ کی ہر بات کو بے چون و چرا تسلیم کیا جائے۔ اسی طرح جو شخص توہین کا ارتکاب کرتا ہے اسے قانون کے کٹہرے میں پہنچا کر اسے قرار واقعی سزا دینا یہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ توہین رسالت پر پاکستان میں قوانین موجود ہیں لیکن مغربی دنیا کے بہت سے ممالک میں توہین رسالت سے متعلق قوانین موجود نہیں ۔ اہلِ مغرب کو یہ بات باور کروانا کہ جہاں پر انہوں نے ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین کو وضع کیا ہے وہیں پر ان کو توہین رسالت سے متعلق قوانین کو بھی بنانا چاہیے۔ یہ مسلمان حکمرانوں اور عامۃ الناس کی ایک اہم ذمہ داری ہے اس حوالے سے مسلمان حکمرانوں ‘علما اور دانشوروں کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے تاکہ دنیا بھر کے انسانوں کو عظمت رسول اللہﷺ کے اعتراف کے لیے آمادہ وتیار کیا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو رسول کریمﷺ سے محبت کرنے‘ آپﷺ کی ہر بات کو بے چون وچرا ماننے اور آپﷺ کی عظمت کا دفاع کرنے کی توفیق دے۔ آمین
علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
0 notes
pakistan-news · 3 years
Text
مغرب کی موت
یہ دراصل پیٹرک بیچنن (Patrick Buchanan) کی نئی کتاب کا عنوان ہے۔ امریکی مصنف اور سیاست دان، پیٹرک بیچنن نے تین امریکی صدور کے ساتھ کام کیا۔ مذکورہ کتاب میں وہ آنے والے دنوں میں مغرب کے زوال کی پیش گوئی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ امریکہ ’’سیاسی اسلام ‘‘ کو کس طرح سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے ۔ کم و بیش تین عشروں سے سیاسی اسلام کو ختم کرنے کی اُن کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی ۔ اُن کی ناکامی کی سب سے بڑی علامت امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں ہونے والی شرمناک شکست ہے۔ یہ کتاب دراصل اس شکست پر ردعمل ہے ۔ بیچنن کا کہنا ہے کہ اگرچہ یورپ کا بھی یہی حشر ہو گا، لیکن امریکہ بطور خاص اخلاقی سطح پر اتنی گراوٹ کا شکار ہو جائے گا کہ سماج کو جوڑنے والے عامل کے طور پر خاندان کا تصور تحلیل ہو جائے گا۔ اس کے زوال کی بیان کردہ دوسری وجہ قدرتی اموات کی وجہ سے شہری آبادی کے تناسب میں برپا ہونے والی تبدیلیاں ہوں گی ۔ 
مصنف اس صورت حال کو قدرتی اموات سے آبادی میں کمی قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مغرب میں شرح پیدائش میں کمی پر افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آبادی میں کمی بیرونی ممالک سے آنے والے نوجوان آباد کار پوری کریں گے ۔ جس رفتار سے مغرب میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور وہ یہاں آکر آباد ہو رہے ہیں، بہت جلد کچھ مغربی ممالک میں وہ اکثریت میں ہو جائیں گے، یا کم از کم ایک قابل ذکر اقلیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کو قبول کر نے کے علاوہ مغرب کو انقلاب کی ضد کے طور پر ماضی کی مذہبی اور اخلاقی اقدار کو بحال کرنا ہو گا۔ وہ مغربی عورتوں کی ماں بننے کی شرح پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عموی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ہر عورت اوسطاً دو بچوں کو جنم دے گی لیکن عملی طور پر یہ شرح ایک سے بھی کم ہے۔ کم شرح پیدائش کی وجہ سے یورپ دم توڑ رہا ہے۔ مصنف زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک، جیسا کہ چین ، انڈیا اورلاطینی امریکہ ، خا ص طورپر مسلمان ممالک کی آبادی میں غیر معمولی رفتار سے، 80 ملین سالانہ ، کا اضافہ ہو رہا ہے۔ 
اُن کا کہنا ہے کہ 2050 ء تک تیسری دنیا کی کل آبادی چار ارب سے تجاوز کر جائیگی۔ اس طرح مغرب کا ڈرائونا خواب سچ ہو جائے گا کہ یورپ کی سرزمین اُن لوگوں کی ملکیت بننے جارہی ہے۔ وہ حیران ہوتے ہوئے سوچتے ہیں کہ یورپی اقوام نے بچے پیدا کرنے کیوں چھوڑ دئیے ؟ اس کا جواب مصنف خود دیتے ہیں کہ یہ مغرب کے تباہ کن کلچر اور اخلاقیات کی موت کی وجہ سے ہے۔ یہ کلچر موت بن کر مغرب پر مسلط ہو چکا ہے ۔ مصنف کسی بھی معاشرے کی اولین بنیادی اقدار کے زوال پر بحث کرتے ہیں۔ یہ اقدار خاندان، اخلاقی اور مذہبی اصول ہیں ۔ وہ شادی کے بطور اخلاقی اور سماجی ادارے کی تباہی پر ماتم کناں ہیں۔ وہ تنقید کرتے ہیں کہ مغرب نے کس طرح غیر فطری جیسے مکروہ فعل کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا؟ اس نے معاشرے کے مرکزی ستون کو ڈھا دیا۔ 
آج 1960 کی نسبت نوجوان امریکیوں میں خود کشی کی شرح تین گنا زیادہ ہے۔ اس میں منشیات کے عادی افراد کو شامل کر لیں تو صرف امریکہ میں ہی ان کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب ہے ۔ میں نے اس مضمون کیلئے ڈاکٹر سلیم الخیرات کے تحریر کردہ جائزے سے استفادہ کیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے کیوں کہ مغربی ممالک میں آبادی کی کمی اور ان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ایسے مسائل ہیں جو اُن کیلئے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں ۔ لیکن سیاسی اسلام تو تحلیل ہونے کی بجائے پھیل رہا ہے ۔ اس کے پھیلائو میں خود امریکی پالیسیوں کا بھی عمل دخل ہے کیوں کہ وہ جھنجھلاہٹ میں اپنی شکست کی ذمہ داری کے لئے قربانی کے بکروں کی تلاش میں ہے ۔ بعض اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں ایک اور شکست کا مزہ چکھنے کے لئے بے تاب ہو رہا ہے۔ لیکن ایسی کوئی بھی حماقت اس مرتبہ امریکہ اور مغرب کے لئے خود کشی سے کم نہیں ہو گی ۔ 
میں نے حال ہی میں طالبان کے کور کمانڈر کا بیان سنا ہے۔ وہ امریکہ کا تمسخر اُڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کو شکست ہضم نہیں ہو رہی، لیکن اگر اس مرتبہ امریکہ نے افغانستان پر جنگ مسلط کی تو وہ اُنہیں اُن کے ممالک میں جا کر شکست سے دوچار کرینگے۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان جنگ کو امریکی سرزمین پر لے جائیں گے۔ پھر ممکن ہے کہ آپ کو مزید گیارہ ستمبر جیسے واقعات دیکھنے کو ملیں ۔ اسلئے کسی کو آگے بڑھ کر امریکہ کو سمجھانا چاہئے کہ وہ عقل استعمال کرے۔ یہ اقوام متحدہ کا کام ہے لیکن وہ بے کار ادارہ بن چکا ہے ۔ آخر میں ، یہ امریکی عوام پر منحصر ہے کہ وہ اس کو اس حماقت سے باز رکھیں ۔ وہ افراد جو سوچ رہے ہیں کہ اب امن قائم ہوا چاہتا ہے ، اُنہیں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ افغانستان میں ایک اور کشمکش شروع ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر مقامات بھی سلگ رہے ہیں، جیسا کہ اسرائیل اور فلسطین، چین کا جنوبی سمندر اور تائیوان، روس اور یوکرائن۔
اس کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر پر بھی تنائو موجود ہے۔ یہ سلگتے ہوئے مقامات کسی بھی وقت جوالا مکھی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اسلئے دنیا، خاص طور پر امریکہ کو اپنا ہاتھ روکتے ہوئے اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ امریکی معیشت ڈگمگا رہی ہے ۔ کانگریس آسانی سے بجٹ منظور نہیں کرنے جارہی، اور نہ ہی قرض کی حد بڑھائے گی کیوںکہ وہ ایک اور شٹ ڈائون کی طرف جا رہے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں کمی آئے گی جس سے تمام دنیا متاثر ہو گی کیوںکہ ہم نے حماقت کرتے ہوئے ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ دے رکھا ہے ۔ لیکن اسکی وجہ سے بہت سے ممالک اپنے پائوں پر کھڑے ہو جائیں گے۔
ہمایوں گوہر
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
asraghauri · 4 years
Text
یوم پاکستان اور تجدید عہد - سعدیہ اعظم
یوم پاکستان اور تجدید عہد – سعدیہ اعظم
آج کا دن اہل وطن یوم پاکستان کے نام سے مناتے ہیں ۔آیے آج ذرا اس لمحے کو محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب آزادی کے متوا لے جذبوں کا سمندر لیے مسلم لیگ کے جلسے میں شریک ہیں۔ ذرا تصور کیجیے، شہرِ لاہور کا منٹو پارک ہے۔ تاریخ 23 مارچ 1940۔ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا جم غفیر۔ زبان اور نسل کے تعصب سے پاک، صرف ایک کلمہ کی پہچان لیے، آنکھوں میں علیحدہ وطن کے خواب سجائے، دلوں میں ہر قربانی کا جذبہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
modern-tiles · 5 years
Photo
Tumblr media
جمالیات، جسمانیات اور ایمانیات اللہ جمیل و یحب الجمال… اللہ حسین و جمیل ہے، اور وہ حسن و جمال کو پسند کرتا ہے۔ وہ جو حسن کو پیدا کرتا ہے، خود کتنا حسین ہو گا!! حسن کیا ہے؟ حسن دراصل حسنِ ترتیب کا نام ہے۔ آوازوں میں حسنِ ترتیب ترتیل ہے۔ سازوں میں حسنِ ترتیب موسیقی ہے، بے ترتیبی شور کہلاتی ہے۔ اَفکار میں حسنِ ترتیب شعور کہلاتی ہے۔ لفظوں میں حسنِ ترتیب شعر و تحریر ہے۔ اعمال و عادات میں ترتیب کا حسن ٗ کردار کی صورت میں چھلکتا ہے۔ صورتِ افکار کردار میں سیرت کی صورت ظاہر ہوتی ہے۔ حشرات و نباتات کا حسن اُن کے پنکھ اور پنکھڑیوں میں حسنِ ترتیب سے ہے۔ کوئی بے ترتیبی‘ افکار میں ہو یا اظہار میں‘ حسن نہیں کہلا سکتی۔ کسی منظر میں حسنِ ترتیب دیکھنے کیلئے ایک تہذیب یافتہ آنکھ اور تربیت یافتہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں ظاہر باطن کی ہمنوائی کرنے لگے‘ وہاں حسن کا نغمہ سنائی دینے لگتا ہے۔ افکار کو مناسب ِ حال الفاظ مل جائیں تو بیان کی جلترنگ سماعتوں کو متوجہ کر لیتی ہے۔ یہ نکتہ ہنوز غور طلب ہے کہ حسن‘ دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے یا دکھائی دینے والے منظر میں؟ اگر یہ کہا جائے کہ باہر سب کچھ عین ترتیب کی حالت میں ہے ، صرف ہماری نظر اس ترتیب سے ناآشنا ہے … تو یہ نکتہ‘ نکتہ چینی تو نہیں کہلائے گا؟ یا پھر یہ کہ یہی ترتیب آسان ترین ہے کہ ہماری آنکھ تو ہے ہی معیارِ مطلق، بس باہر دکھائی دینے والے منظر ہی میں اہلیت نہیں کہ وہ اپنے اندر ترتیب پیدا کرے اور ہمیں اپنی جانب متوجہ کر سکے…گویا آسان راستہ یہی ہے کہ سارا دوش بیرونی منظر کی بے ترتیبی پر جا دھریں… لیکن یہاں بھی لاینحل سوال یہی درپیش ہے کہ کسی ترتیب اور بے ترتیبی کا فیصلہ ہم خود کر رہے ہیں، یعنی حسن دیکھنے کی صلاحیت ہماری بصارت اور پھر بصیرت پر موقوف ہے۔ اپنی جبلی ضرورتوں کی بھوک میں مبتلا حسّیات ٗحسن دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہیں۔ جب تک بصیرت بصارت کی امامت نہ کرے‘ ہماری بصارت صرف مادّی اشیا کی جگالی کرتی رہتی ہے۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ حسن مادّے میں نہیں‘ صورت میں ہوتا ہے… کہ صورت ہی مادے کی ایک ترتیب شدہ حالت ہے۔ یہی ترتیب بصارت کو میسر آئے تو اسے تہذیب کہتے ہیں۔ مادّہ مقدار ہے ٗاور اس میں صورت ٗمعیار۔ مقدار اور معیار کا فرق ظاہر اور باطن کی طرح ہر جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ دوراہا ہمیں قدم قدم پر درپیش ہے۔ ہمارا ہر قدم ہی پل صراط پر ہے۔ ظاہر اور باطن میں فرق بسا اوقات بال سے زیادہ باریک ہو جاتا ہے… اور یہ فرق ملحوظ خاطر نہ رہے تو انسان دھڑام سے مقدار کے دوزخ میں جا گرتا ہے۔ مقدار بمنزلہ جسم ہے اور معیار کی منزل روح ہے۔ بے ترتیب مادّے سے جب نظر اُوپر اٹھتی ہے تو ترتیب شدہ مادّے کی پہلی صورت جسم کی صورت میں نظر آتی ہے۔ جسم میں ترتیب کی جائے معراج چہرہ ہے… یعنی صورت کی انتہائی ترتیب!! چہرہ جاذبِ نظر ہوتا ہے، چہرہ ہی پہچان کا ذریعہ بھی ٹھہرتا ہے۔ جسم چہرے پر حاوی ہو جائے تو خوگرِ حسن آنکھ جمالیات سے گر کر جسمانیات میں جا پڑتی ہے… گرنا اِسے بھی کہتے ہیں۔ جائے نگاہ چہرہ ہے‘ جسم نہیں… یہ شعور دِین کی دین ہے۔ دنیا کا کوئی کلیہ یہ نہیں بتا سکتا کہ حلال اور حرام میں فرق کیا ہے۔ مادی اور سائینسی اصول صرف نفع اور نقصان میں فرق بتا سکتے ہیں، معاشرتی اور ملکی قوانین زندگی میں پیش آنے والے ممکنہ نقصانات سے بچنے کا سبق دے سکتے ہیں۔ جسمانیات اور جمالیات میں فرق کا شعور صرف دین کے اسباق میں شامل ہے۔ جسمانیات لذاتِ کام و دہن سے عبارت ہے۔ مثلاً کھانا کھانا اورپُرلذت کھانا تلاش کرنا جسمانیات کا شعبہ ہے، کھانے میں دوسروں کو شریک کرنا ایمانیات ہے… اور کم اور بے لذت کھانے پر اکتفا کرنا روحانیت ہے۔ جب ہم مقدار کی قربانی دیتے ہیں تو ہمیں معیار حاصل ہوتا ہے…اور یہ معیار دیکھنے کا معیار بھی ہے، اور تعلق قائم کرنے کا معیار بھی۔ بہترین معیار کا تعلق روحانی تعلق ہوتا ہے… یہ دل اور احساس کا رشتہ ہے، نظر اور جسم کا نہیں۔ بصارت کی دنیا سے نکل کر جب ہم بصیرت کے کیمپس میں جا آباد ہوتے ہیں تو ہماری آنکھ کھل جاتی ہے۔ تب ہمارے سامنے حقیقی محبت، حقیقی روشنی اور حقیقی شعور کی کتاب کھلتی ہے، اور یہ کتاب ہے کہ کھلتی ہی چلی جاتی ہے… ایک نہ ختم ہونے والی کہانی کی طرح… یہ طلسمِ ہوش ربا ایک ہزار ایک راتوں سے تجاوز کر جاتی ہے!! ایمانیات ٗجسم اور جسم کے تقاضوں کو حدود و قیود میں رکھنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ بھوک رکھ کر کھاؤ، یہ کھاؤ ، وہ نہ کھاؤ، یہ جائز ہے، وہ ناجائز… جائز کا بھی روزہ رکھو، ناجائز کو جائز قرار نہ دو، حق کیلئے باطل کا لباس تجویز نہ کرو، تمہارے پاس دلیل، منطق اور لفظوں کے انبار لگے ہیں‘ اِن کی مدد سے حرام کی توجیہہ نہ تراشو… یہ بت تراشنے کے برابر ہے، خواہشِ نفس کو اپنا خدا نہ بناؤ، سچے خدا کے پیار سے محروم ہو جاؤ گے… یعنی رحمت اور فضل کے استحقاق سے خود کو محروم کر لو گے۔ بھوک کی طرح جسم کے دیگر تقاضوں کی تکمیل کیلئے بھی شریعت نے ایک راستہ رکھ دیا ہے، بلکہ چار راستے موجود ہیں، چنانچہ چور راستے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایمان ہمارے نفس کو تہذیب آشنا کرتا ہے، اور فکر کو ترتیب آشنا۔ دِل میں ایمان کی رمق موجود ہو تو انسان اَزخود تہذیب ِ نفس کے مرحلے سے گزرنا پسند کرتا ہے۔ یہ سراسر توفیقِ الٰہی ہے کہ ایک مسافرِ نیم شب عین ظلمت گاہ سے نور کی طرف کشاں کشاں چل پڑے، قدم قدم پر رکاوٹیں ، اْلجھنیں، پریشانیاں اور پھر پشیمانیاں سدِ راہ ہوں لیکن پُرعزم مسافر کے پائے استقامت نہ ڈگمگائیں… وہ کثافت سے لطافت کی طرف ، جسم سے روح کی طرف اور ظلمت سے نور کی طرف ہمہ حال گامزن رہے۔ جمالیات اگر دین سے رہنمائی حاصل نہ کرے تو جسمانیات کی طرف چل نکلتی ہے، وہ تسکین ِ وجود کو تسکین ِ روح کا نام دیتی ہے، نفس کی مطلب براری کو منشائے خداوندی سمجھتی ہے، درازی مہلت کو اِذنِ خداوندی سے تعبیر کرتی ہے۔ الغرض ٗاپنی ہر غرض کی کوئی ادبی اور روحانی توجیہہ پیش کر دیتی ہے۔ یہاں سے جمالیات الہیات کا راستہ گم کر کے شیطانیات میں داخل ہو جاتی ہے۔ لفظ مثبت لکھے جاتے ہیں اور اِن کے تمام مطالب منفی کشید کیے جاتے ہیں۔ نگاہ چہرے سے کھسک کر جسم کو گرفت میں لیتی ہے تو خود گرفت میں آجاتی ہے… جسم کو بے لباس اور بے حجاب دیکھنے اور دکھانے کی خواہش میں انسان خود بے پردہ ہو جاتا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا لوگوں کے گھروں میں جھانک رہا ہے، ان کی خوابگاہوں میں نقب لگا رہا ہے۔ چادر اورچاردیواری کا تصور قصۂ پارینہ ہوتا جارہا ہے۔ آزادی اظہار اور افکار کے نام پر نت نئے قصے رقم ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی خرابیوں کے حوالے سے چند دن قبل پروفیسر شوکت محمود کنڈان سے بات ہورہی تھی… رب کریم انکل شوکت کو صحت کاملہ عطا کرے، یہ حضرت واصف علی واصفؒ کے برادرِ اصغر ہیں…پروفیسر صاحب کی ایک بات نے چونکا دیا… کہنے لگے‘ یہ دُور کا زَنا ہے، جسم کے بغیر زَنا۔ سبحان اللہ! اللہ اکبر!!… اپنے برادرِ اکبر کی طرح کتنی مشکل بات کتنے سادہ لفظوں میں بیان کر دی۔ یہیں سے یاد آیا‘ ایک مرتبہ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے شادی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے راقم کو تہدیدی انداز سے فرمایا‘ یاد رکھو! اگر فقیر جسمانی تلذذ کیلئے شادی کرتا ہے تو یہ بھی زَنا کے زمرے میں ہے۔ اتنی بڑی بات ٗاتنا بڑا آدمی ہی کر سکتا ہے۔ تہذیب ِ نفس کے حوالےسے طریقت کا معیار کس درجہ بلند ہے!! آمدم برسر ِ مقصد… ایمانیات جسمانیات کی نفی کا نام ہے، اگر جسمانیات دخل انداز اور در اَنداز ہوگئی تو سمجھیں پانی کشتی میں داخل ہو گیا، سفینہ افکار بھنور میں پھنس گیا، معنوی حیات غرق مے ناب ہو گئی… گویا غرقاب ہو گئی!! جسمانیات کی نفی تزکیۂ نفس سے ہوتی ہے… اور تزکیۂ نفس کسی تزکیہ شدہ ذی نفس کے سبب میسر آتا ہے۔ یہ کرم ہو جائے تو مسافر جسمانیات کا پل صراط حفظ و امان سے عبور کر لیتا ہے … اور اُس جمالیات میں داخل ہو جاتا ہے جو سراسر جائے لطافت ہے… جہاں داخلے کا اِذن ہی باعث ِراحت و رافت ہے… نفسِ مطمینہ کے دائرے میں داخل ہونے کا شرف پانے والا …" فتبارک اللہ احسن الخالقین" کا عارف… کسی عکس ِ جمال کا شاہد… ہی شہادت دے سکتا ہے … اور شہادت عینی شاہد ہی کی قبول ہوتی ہے… اللہ جمیل و یحب الجمال!! ( ڈاکٹر اظہر وحید ) ( روزنامہ "نئی بات" میں ہفتہ وار کالم "عکسِ خیال" بروز بدھ 4 ستمبر 2019ء )
0 notes
humlog786-blog · 5 years
Text
آزادی کی تلاش : راشد باغی
Tumblr media
لفظ آزادی انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے جہاں عام حالات میں انسان مختلف عہدوں میں مختلف شکلوں میں مادی پیدوار کے تابع سماجی رشتوں کو پروان چڑھاتا رہا ہے وہاں سماجی رشتوں میں مادی پیداور رکاوٹ کی شکل اختیار کرتی رہی تو انسانی تاریخ میں ایسے غیر معمولی لمحات بھی آئے جس میں انسان نے مادی پیداور کے تابعداری کی رسم جاری رکھنے کے بجائے اُن مادی حالات کو اپنی بے باک دلیری اور شعوری آبیاری کے باعث بدلتے پرانی جکڑ بندیوں کے ہر بندھن کو توڑ کر نئے سماج کی بنیاد رکھی جہاں نئے رشتے ناطے پروان چڑھے۔ ہر عہد میں انسانوں نے سماج میں زندگی گزارنے کے کچھ اصول بھی واضح کیے اور اُن اصولوں کو اخلاقیات اور سماجی روایات کا نام دیا گو کے ایسی روایات ایک طبقاتی سماج میں ہمیشہ سے پسے ہوئے مظلوم طبقے کے لیے جکڑ بندیاں رہی ہیں لیکن اُن سماجی حدود و قیود میں رہیتے ہوئے بھی انسان کی بنیادی ضرورتوں کے خیال رکھنے کو انسانی حقوق کا نام دیا گیا یا پھر آزادی کہا گیا آزادی کی تشریخ شائد ہی اِس سے زیادہ اچھی ہو کہ آزادی بنیادی طور پر انسانوں کی ضرورتوں کے حاصل ہی کا نام ہے لفظ آزدای اور اِس جیسے ملے جُلے احساس انسانی ذہن و گمان میں ایسا نہیں کہ یہ سرمایہ دارنہ نظام کی پیداور ہیں سرمایہ درانہ نظام جہاں جاگیراداری کے بطن سے برامد ہوا ہے اور اِس نظام میں جب ہمیں سترویں صدی کے بعد پوری دنیا میں نئی قومی ریاستوں کی تشکیل نظر آتی ہے اور اِن قومی ریاستوں کی تشکیل میں عوامی جدوجہد کو جو نام دیا جاتا ہے اُس جدوجہد کو قومی آزادی یا قومی جہموری آزدای کی جدوجہد سے جانا جاتا ہے. لیکن اِس معلوم تاریخ میں ماسوائے قدیم عہد کے انسانوں کے علاوہ انسانوں کے درمیان جو طبقاتی تضاذ اور دیگر مشکلات رہی ہیں اور اب تک باقی ہیں انسانوں کی اکثریت جب بھی اُن تضاذات کو حل کرنے لیے آگے بڑھی تو اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے چھٹکارے کے لیے ظالم نظام اور ظلم کرنے والے کے خلاف جب برسرپیکار ہوئے اُس نظام کو للکارا تو آزادی مانگی اور آزادی چھین کر لینے کی دھمکی دی اگر لفظ آزادی صرف قومی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ مشروط ہوتا یا یہ احساس صرف قومی جدوجہد کے دوران پیدا ہوا یا پیدا کروایا گیا تو یہ بالکل غلط ہے یہ سچ ہے قومی ریاستوں کی تشکیل کے وقت جب سرمایہ دارنہ نظام عالمی منڈی کی شکل اختیار نہیں کر چکا تھا اُس وقت قومی آزادی کا نعرا کسی حد تک زمینی بندر بانٹ جو اِس سرمایہ دارنہ نظام کے رکھوالوں کے لیے زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے ساتھ ایک ریاست کی حد بندیوں میں بالاتر ہونے کے باعث سرمائے سے زائد منافع حاصل کرنے کی غرض تھی لیکن عام انسان کی جدوجہد ہمیشہ کی طرح اپنی بنیادی ضرورتوں کی خاطر تھی جس سے عام انسان سمجھتے تھے ایسی ریاستوں کی تشکیل ہو گی جس میں ہماری تمام بنیادی ضرورتوں کا حل ممکن ہو گا. جس طرح جاگیردانہ نظام کے بعد قومی ریاستوں کی تشکیل ایک طرف مقامی جاگیردار اور سرمایہ دار کے لیے کسی حد تک منافع بخش بھی تھی لیکن سرمایہ دارنہ نظام میں قومی ریاستوں کا قیام سلطنتوں میں بادشاہوں کے جاہ و جلال میں انسانی زندگی کی بے قدری اور اُن بادشاہتوں کا جہاں قومی جذبے کو ابھار کر انسانی نسل کو جنگوں میں جھونک دینا اور نیچے غربت اور دیگر مسائل میں تڑپتا انسان چھوڑ دینا اور پھر اُن جاگیرداروں کی اِنسان دشمن پالیسیوں سے تنگ انسان بغاوت پر اُتر چکا تھا وہاں سرمایہ دارنہ نظام کا قیام اور قومی ریاستوں کا عمل اور یہ آزدای اِس نظام کا ایک انقلابی کام بھی تھا۔ سرمایہ دارنہ نظام نے جدید ٹیکنالوجی سے انسانوں کے لیے پیچھلے نظاموں کی نسبت جہاں انسانوں کے لیے بہت آسانیاں پیدا کی پہلے سے زندگی کو زیادہ سہل بنایا اور اِن قومی آزدای پر مبنی ریاستوں خصوصا امریکہ,یورپ میں اپنے عروج کے دنوں انسانی ضروریات اور بنیادی آزادیوں کا بھی خیال رکھا یہ نظام جو ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کے مرہون منت اِن ریاستوں میں انسانوں کے بنیادی حقوق کا ضامن بنا لیکن نوآدیات میں جو پچھڑے ہوئے سماج تھے جن خطوں میں سرمایہ دارنہ نظام باقاعدہ سماجی انقلاب کے زریعےبرپا نہیں ہوا اور قومی ریاستوں کی تشکیل نہیں ہو سکی .جس سرمایہ درانہ نظام کی بنیادوں میں مقابلہ بازی ,مسابقت بازاری, اور زائد سرمائے کو حاصل کرنا تھا اِسی نظام کی داغ بیل جہاں پڑی اُنہی جاگیردارنہ نظام سے سرمایہ دارنہ نظام کی طرف ترقی کرنے والی ریاستوں کے حکمران سرمایہ داروں نے نوآبادیات میں جب قدم رکھا اُن کے سامراجی عزائم تھے اُن کے ہر اقدام میں سرمائے کی بھوک عیاں تھی. اور اُنہوں نے نو آبادیات کی جہاں پرانی ثقافت کو تباہ برباد کیا اور جس قدر ممکن تھا اُن کے وسائل کو بھی برائے راست لوٹتے رہے اور اُس وقت تک مقامی دلالوں کی مدد سے لوٹتے رہے جب تک اُن لوٹنے والوں نے یکجا ہو کر آزادی کا نعرا بلند نہیں کیا اور بغاوت پر نہیں اترے یہ الگ بات ہے اُس آزادی کی پکار اور بغاوت کی للکار کو ایک انقلابی قیادت میسر نہیں تھی جو اُن سامرجیوں کی برائے راست لوٹ کھسوٹ مٹانے کے ساتھ سامرجیوں کا بلاواسطہ اثر ورسوخ ختم کرتے مقامی دلالوں کی اجارہ داریوں اور بد معاشیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے ساتھ قومی جمہوری انقلاب کرتے اور نو آیادت میں بسنے والے انسانوں کو بھی بنیادی حقوق اور آزادیاں نصیب ہوتی لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا. یہی وجہ ہے نو آبادیات سے کبھی بھی لفظ آزادی نہیں مٹ سکا اگر بر صغیر کی بات کی جائے تو ہمیں اِس وقت بھی بھارت کے 28 صوبوں میں سے 21 صوبوں میں ہمیں آزادی کی تحریک کسی نہ کسی شکل میں نظر آتی ایسے ہی پاکستان میں بھی چار صوبے ہیں لیکن چاروں صوبوں میں چھوٹی یا بڑی تحریکیں آزادی کی موجود رہی ہیں اور اب بھی ہیں اور ان دونوں ریاستوں میں کشمیر ہمیشہ سے ہی ایک رستا زخم رہا ہے جہاں پیچھلے 71 سالوں سے کشمیر میں آزادی لفظ کی خاطر لاکھوں انسانوں نے جانوں کی قربانی دی ہے۔ ایک عہد میں جب جاگیردانہ نظام کے مقابلے میں سرمایہ درانہ نظام میں قومی ریاستوں کا قیام انقلابی تھا لیکن اِس نظام کے نامیاتی بحران میں سرمایہ داروں کی جب سرمائے کی بھوک مزید بڑھی تو اِن قومی ریاستوں کا تشخص سرمایہ داری نے خود تباہ و برباد کرکے رکھ دیا اور نظام ایک عالمی منڈی کی شکل اختیار کر گیا ج�� میں اب سیاست,ثقافت ,تجارت تمام تر بین الاقوامی روپ دھار گئی اور بین الاقومیت میں جہاں پوری دنیا کے انسانوں کی آزادیوں اور مقدر کے فیصلے چند ملٹی نیشنل کرنے لگی ہیں جس میں اقلیت آزاد ہے سرمایہ آزاد ہے لیکن آزادی کی تلاش میں آج بھی اکثریت سلک رہی ہے.نو آبادیات میں بسنے والے انسانوں نے شائد ٹھیک سےانسانیت کا سفر شروع ہی نہیں کیا سرمایہ داری کے جو ثمرات امریکہ اور یورپ جیسی ریاستوں میں بسنے والے انسانوں کو حاصل ہوئے وہ نو آبادیات میں تصور ہی کیا جا سکتا تھا لیکن اب یہ نظام اِس نہج پر ہے اپنی طبعی عمر پوری کر چکا جس نظام نے امریکہ یورپ جیسی ریاستوں کو جو بنیادی ضرورتیں اور آزادیاں کل دی تھی یا عوامی بغاوت کے خوف میں انھیں دینی پڑیں تھیں اب چھین رہے ہیں غربت اور امارت کی خیلیج ہر خطے میں وسیع سے وسیع تر ہوگی ہے دولت کا ارتکاز محض چند ہاتھوں تک محدود ہے اور اکثریت بنیادی حقوق کے لیے سلک رہی ہے جو آزادی کا نعرا امریکہ یورپ جیسی ریاستوں میں ایسا لگتا تھا مٹ چکا ہے وہ نعرے ایک نئی شکل میں اُن ریاستوں میں گونجتے سنائی دے رہے ہیں سرمایہ داری عالمی منڈی کی شکل میں مختلف خطوں میں مخلتف وارداتیں ڈالتے اپنی تجوریوں کے منہ کھولے عام انسان کے نوالے چھین رہی ہے مختلف خطوں اور ریاستوں میں رہیتے یہ اقلیتی طبقہ مذہب,رنگ,نسل,قوم سے بالا اِسی نظام کا محافظ ایک ہی ہے اِن کی آزادیوں پر حرف بھی آئے تو کروڑوں انسانوں کی بلی چڑھانے سے ذرا بھر نہیں کتراتے عام انسانوں کی آزادیوں کے غاضب عام انسانوں میں نفرتیں پھیلانے میں مسلسل اپنی پالیسوں کو جاری رکھے ہوئے ہے.وہی جن کے لیے سب سے بڑا خدا سرمایہ ہے وہ عام انسانوں کو مذہب ,نسل ,اور قومی تعصابات میں غرق رکھنا چاہتا ہے تاکہ یہ اکثریتی طبقہ اِس عالمی جبر کے خلاف طبقاتی لڑائی لڑنے کے قابل نہ رہے لیکن ہر عہد میں اِس بالادست طبقے جابروں ظالموں کے خلاف آزادیوں کے لیے لڑائی لڑی گئی اب بھی ضرورت انسان کو قریب سے قریب تر کرے گی اور طبقاتی جڑت قائم ہو کر رہے گی اور آزادی کے لیے جدوجہد منظم ہو کر لڑی جائے گی اور یہ صدیوں کی آزادی کی تلاش طبقات کے خاتمے کے ساتھ انسانی شناخت بحال ہوتے قومی آزادی سے بھی بلند انسان کی آزادی ہو گی۔     Read the full article
0 notes
risingpakistan · 3 years
Text
جہانگیر ترین کا گروپ
جہانگیر خان ترین کے گروپ نے تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس گروپ نے اتنی تیزی سے اتنی اہمیت کیسے اختیار کی؟ جہانگیر ترین تاحیات نااہل ہو کر عملی سیاست سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ ہاں اگر آرٹیکل 62، 63 مستقبل میں کبھی آئین سے نکال دیا جائے اور ثاقب نثار جیسے کوئی منصف کسی آئینی شق کو استعمال کر کے ان کو یہ حق واپس دلوا دیں تو علیحدہ بات ہے۔ مگر فی الحال جہانگیر خان ترین سیاسی میدان سے باہر ہیں اور ان کی تمام تر دولت اپنے حلقے میں ایک یونین کونسل کا الیکشن جتوانے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ ایسے میں کائیاں سیاست دانوں کا ان کے ساتھ چپک جانا، ان کے حق میں کھڑے ہو جانا اور عمران خان پر ایسی تنقید کرنا کہ دشمن بھی کانوں کو ہاتھ لگائے یقیناً ایک پہیلی سے کم نہیں۔ جہانگیر خان ترین گروپ کے بننے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کچھ اہم اور مرکزی، کچھ ضمنی اور نسبتاً کم اہم۔ 
مگر سب نے مل کر نتیجہ ایک ہی نکالا ہے اور وہ یہ کہ وزیر اعظم عمران خان جیسے سخت گیر کپتان جو اپنی قیادت کے سائے میں اپنی مرضی کے بغیر گھاس بھی نہیں اگنے دیتے، اپنے سامنے اپنے کھلاڑیوں کی بغاوت اور ان کے پرانے دوست اور مہربان کے ہاتھ پر بعیت ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عثمان بزدار کو پنجاب میں رکھا اس لیے گیا تھا کہ ان جیسا وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو مرکز کی ہدایت، مرضی اور حکم کے بغیر نہ چلا سکے اور اس طرح پنجاب سے پارٹی کے اندر مرکزی قیادت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اگر کوئی پنجاب صحیح چلانے لگے تو اسلام آباد کو سنبھالنا کون سا مشکل کام ہو گا۔ لہٰذا پنجاب میں کمزور وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں مضبوط اور بااعتماد وزیر اعظم کی ضمانت ہے۔ یہ فارمولہ لاگو کرنے والے یہ بھول گئے کہ پنجاب کی کمزوری اس سیاسی بنیاد کو ہی ہلا سکتی ہے جس پر پارٹی طاقت میں رہنے کے لیے تکیہ کرتی ہے۔ 
اگر ممبران صوبائی اسمبلی اپنے چیف منسٹر کو اپنی سیاست کے لیے ایک بحران کے طور پر دیکھیں تو ان کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی راستہ موجود نہیں۔ اسلام آباد میں قد آور سینیٹرز اور وزرا کو سفارشیں کر کے وقت ملتا ہے۔ دور دراز کے صوبائی اسمبلی کے نمائندگان کو کون پوچھے گا؟ جہانگیر خان ترین کے ساتھ کھڑے ہونے والے بیشتر لوگ وہ ہیں جو پنجاب میں ترقیاتی کاموں سے جڑی ہوئی حکمرانی کے بکھرے ہوئے شیرازے میں بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ عثمان بزدار پنجاب جیسے مشکل اور حساس صوبے کے سیاسی جذبات کو کسی طور سنبھال نہیں پائے۔ اوپر سے عوامی جذبات ہر گاؤں، قصبے اور حلقے میں ابل رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترین گروپ کے اکثر ممبران ٹی وی پروگراموں میں اپنے سیاسی مستقبل کا رونا روتے سنے گئے۔ ان کی سیاست داؤ پر لگی ہے۔ 
تین سال میں پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہو کر انہوں نے جو قربانی دی اب وہ رائیگاں جاتی نظر آ رہی ہے۔ دو سال بعد انتخابات ہیں۔ وہ ووٹر کو کیا منہ دیکھائیں گے؟ حکومتی جماعت ہونے کے باوجود وہ اپنی ناقص کارکردگی کو ن لیگ یا پیپلز پارٹی سے نہیں جوڑ سکتے۔ ان کو پتہ ہے کہ ووٹر اس قسم کی فضول وضاحتیں سن کر تنگ آ گیا ہے۔ پچھلی حکومتوں کو مورد الزام ٹہرانا اپنے سر پر سیاسی جوتے برسوانے کے مترادف ہے۔ اب یہ تمام لوگ جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی حکومت کو کوستے ہوئے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اس دباؤ کی وجہ سے عثمان بزدار کی نیند بھی کھل گئی ہے اور اس طرح یہ گروپ اپنے لیے کچھ خصوصی مراعات بھی حاصل کر پائے گا۔ اس گروپ کے بننے کی دوسری وجہ پنجاب کے حلقوں میں یہ پھیلتا ہوا تصور ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اگلے انتخابات میں طاقت حاصل نہیں کر پائے گی۔ 
یہ تصور حقیقی ہے یا فرضی اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ مگر یہ موجود ضرور ہے۔ حلقوں کے سیاست دان چوراہوں اور چوپالوں میں ہونے والی بحث کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو یہی فکر لاحق ہے کہ اگلا الیکشن کیسے جیتا جائے۔ اگر وہ پی ٹی آئی کے مستقبل کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان کے پاس یا ن لیگ کی آپشن موجود ہے اور یا پھر پیپلز پارٹی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا مستقبل پی ٹی آئی سے بھی زیادہ مشکوک ہے۔ ن لیگ کے اپنے حلقے بھرے ہوئے ہیں۔ آپشنز کی تلاش میں مصروف حلقے کے سیاست دان جہانگیر ترین کے ساتھ نتھی ہو کر خود کو یہ اعتماد دینا چاہتے ہیں کہ برا وقت آنے پر وہ کسی ایسے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو پائیں گے جہاں سے حکومت کی ناکامیوں کا ریلا ان کو بہا نہ لے جا سکے۔ مگر یہ سب عوامل اپنی جگہ، حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ گروپ جہانگیر ترین کی اپنی کاوش اور مقتدر حلقوں کی مدد کے بغیر جنم نہ لے پاتا۔
جہانگیر ترین نے اپنی سر توڑ کوشش سے وہ سیاسی اثرورسوخ حاصل کیا ہے جو سیاست سے نااہلی کی وجہ سے بے دخلی کا بہترین متبادل ہے۔ انہوں نے اپنے ساتھ ان سیاست دانوں کو ملا کر ایک ایسا دھڑا بنا دیا ہے جس سے سینگ لڑا کر حکومت اور عمران خان صرف نقصان ہی اٹھا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جہانگیر ترین نے یہ سب کچھ دھڑے کے ممبران کے لیے نہیں کیا۔ ان کو معلوم ہے کہ اگر مخصوص قسم کا احتساب ایسے ہی چلتا رہا تو تحریک انصاف میں ان کے خون کے پیاسے ان کا کاروبار اور مستقبل مکمل طور پر تباہ کر دیں گے۔ اس گروپ کی طاقت جہانگیر ترین کی طاقت ہے۔ اگر اس گروپ کے ذریعے جہانگیر خان کے پرانے دوست اس حکومت کی مشکیں کس سکتے ہیں تو سونے پر سہاگہ۔ جہانگیر ترین ایک مالدار شخص ہیں مگر اس وقت ان کا سب سے قیمتی اثاثہ یہ گروپ ہے جو ان کے قریبی ذرائع کے مطابق آئندہ انتخابات تک پھلتا پھولتا رہے گا۔
سید طلعت حسین  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم اگر عید الاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔ ———– ازقلم:فیصل فاروق [email protected] ———–    قربانی مسلمانوں کا اہم مذہبی فریضہ ہے۔ عید قرباں کا پیغام ہی دراصل ایثار و قربانی ہے۔ فلسفۂ قربانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
khouj-blog1 · 6 years
Text
بھارت کوپاکستان کاوجودتسلیم کرنا ہوگا: صدرمملکت
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/117646/
بھارت کوپاکستان کاوجودتسلیم کرنا ہوگا: صدرمملکت
Tumblr media
صدرِ مملکت عارف علوی نے کہا ہےکہ پاکستان ایک حقیقت اور ہم ایک زندہ و تابندہ آزاد قوم ہے اور بھارت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا۔
اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں مشترکہ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی اور اس سے بڑھ کر ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کی ہمت بخشی۔
انہوں نے کہا کہ آج کے روز مسلمانوں نے قرار داد کی صورت میں آزادی کے حصول کا عزم باندھا اور ایسی آزاد ریاست کی جدوجہد شروع کی جہاں معیشت، معاشرت اور سیاست کو دین اسلام کی روشنی میں اتار سکیں اور دنیا کے لیے مثالی ریاست کا نمونہ پیش کرسکیں۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ قوم اس دن کو اس عہد کی تجدید کے ساتھ منارہی ہے کہ ہم قائد و اقبال کے نظریاتی تصور اور اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کل اور مستقبل کی صور گری کریں گے، پاکستان کو اللہ کی عظیم نعمت تصور کرتے ہوئے اس کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کو یقینی بنائیں گے، پرعزم قوم کے طور پر اقبال اور قائد کے افکار کی تعمیر کریں گے۔
عارف علوی نے کہا کہ آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے بے شمار قربانیاں دینی پڑتی ہیں، جب پاکستان ہماری پہچان بنا تو ہمیں لامحدود چیلنجز کا سامنا تھا، ہماری زندگیوں میں بہت سے نشیب و فراز آئے اور ہم پر جنگیں مسلط کی گئیں، ہمیں حالیہ تاریخ میں اپنی قومی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج دہشگردی کا سامنا کرنا پڑا، ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس نے اتنی لمبی لڑائی لڑی، جانی و مالی قربانی دی مگر بے پناہ حوصلے سے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور دہشت گردوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ ہم قوم کے عزم اور افواج پاکستان کی جرأت و بہادری کی بدولت نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ امن و قومی تعمیر و ترقی کے راستے پر گامزن ہوئے، آج ہم ابھرتی ہوئی معاشی قوت کے ساتھ دفاعی لحاظ سے مضبوط اور پر امن ایٹمی طاقت ہیں، ہم دنیا کے تمام ممالک کی خودمختاری اور سلامتی کا احترام کرتے ہیں۔
ان کا کہناتھاکہ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ امن کی خواہش کو ہرگز ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، پاکستان ایک حقیقت ہے اور ہم زندہ و تابندہ آزاد قوم ہیں، بھارت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا، ان کی قیادت کی تنگ نظری ہوگی اگر وہ ہمیں 1947 کے نظریات اور تصورات کی عینک سے دیکھیں گے، یہ خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے، خطے کو امن کی ضرورت ہے، ہمیں جنگ کے بجائے تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے، ہماری اصل جنگ غربت اور بیروزگاری کے خلاف ہے۔
عارف علوی نے کہا کہ ہم ذمہ دار قوم ہیں، ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل تعمیر کررہے ہیں، ہم تلخیوں اور نفرتوں کو ختم کرکے خوشحالی کے بیج بونا چاہتے ہیں، ہم جمہوری ملک ہونے کے ناطے لڑائی پر یقین نہیں رکھتے، ہر مسئلے کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، اس ضمن میں بھارت کا رویہ نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ رہا ہے جس کی بدولت خطہ امن کے مسلسل خطرات سے دوچار ہے، پلوامہ حملے کے بعد کی صورتحال اس کی تازہ مثال ہے جس میں بلا ثبوت پاکستان پر الزام لگادیا گیا، دھمکی آمیز پیغامات سے جنگ کی فضا پیدا کی گئی۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی، اس کا جواب دینا ہمارا فرض ہے، ہماری افواج تیار تھی اور قوم کی دعائیں و حمایت ان کے ساتھ تھی،ہم نے بہترین حکمت عملی سے مؤثر اور فوری جواب دیا، اس پر پوری قوم اپنی افواج کو زبردست خراج تحسین پیش کرتی ہے، دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر نہ صرف انہوں نے ذمہ داریاں پوری کیں بلکہ اپنی اہلیت اور برتری ثابت کردی۔
عارف علوی نے کہا کہ بلاشبہ افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیت، اہلیت اور معیار کا کوئی ثانی نہیں، سرحدوں پر وطن کے دفاع کا فریضہ انجام دینے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، بلاشبہ آپ قوم کا فخر اور وقار ہیں، آپ کی جرأت و بہادری اور بہترین حربی صلاحیتوں نے ملک کا ناقابلِ تسخیر بنادیا، آج کی پریڈ پیغام دے رہی ہے کہ ہم پر امن قوم ہیں مگر دفاع سے غافل نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں دہشت گردی دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطہ ہے لیکن ہم نے طویل جنگ کے بعد اس عفریت کو قابو کرلیا اب اس پر مزید کام کی ضرورت ہے، افغانستان میں امن پاکستان کے لیے ضروری ہے، اس کی خودمختاری، جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، افغانستان کے عوام طویل جنگ سے نجات چاہتے ہیں، ان کی خوہش میں ان کے ساتھ ہیں۔
صدرِ پاکستان نے کہا کہ آج کی پریڈ میں سعودی عرب، چین، ترکی، آذربائیجان، بحرین اور سری لنکا کی افواج کے نمائندوں کی شرکت نے ہمارے ولولوں کو جلا بخشی، یہ ان ممالک کی پاکستان کے ساتھ دوستی کا بھرپور اظہار ہے جس پر وہاں کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں، مہاتیر محمد کی خصوصی آمد پر ان کے مشکور ہیں، قوم معزز مہمانوں کا گرم جوشی سے خیر مقدم کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں پر کشیدہ صورتحال کے باجود پریڈ کا انعقاد افواج کے بلند حوصلوں کا مظہر ہے، جوانوں اور افسران کے پرعزم چہرے، جدید حربی سامان کی نمائش ملکی سلامتی کی ضمانت ہے، پاکستان محفوظ ہے، ہماری معاشی اور معاشرتی ترقی بہت عرصے سے سیکیورٹی حالات کی وجہ سے متاثر رہی، اب پاکستان کو ترقی و کامیابی کے راستے پر لے جانے کا وقت آگیا، ترقی یافتہ ملک شہدا اور غازیوں کے لیے بہترین تحفہ ہوگا۔
آخر میں صدرِ پاکستان نے شاندار پریڈ کے انعقاد پر پریڈ کمانڈر، شرکا اور منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
جمہوری ملک ہونے کے ناطے ہم لڑائی پریقین نہیں رکھتے بلکہ امن چاہتے ہیں، صدر پاکستان @ArifAlvi #PakistanDay #ResolutionDay #23rdMarch #PakistanZindabad #PakDayParade2019 #MuhammadAliJinnah #Pakistan #aajkalpk اسلام آباد: صدرِ مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ پاکستان ایک حقیقت اور ہم ایک زندہ و تابندہ آزاد قوم ہے اور بھارت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا۔ اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں مشترکہ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں آزادی جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی اور اس سے بڑھ کر ہمیں اپنے وطن کی حفاظت کی ہمت بخشی۔ انہوں نے کہا کہ آج کے روز مسلمانوں نے قرار داد کی صورت میں آزادی کے حصول کا عزم باندھا اور ایسی آزاد ریاست کی جدوجہد شروع کی جہاں معیشت، معاشرت اور سیاست کو دین اسلام کی روشنی میں اتار سکیں اور دنیا کے لیے مثالی ریاست کا نمونہ پیش کرسکیں۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ قوم اس دن کو اس عہد کی تجدید کے ساتھ منارہی ہے کہ ہم قائد و اقبال کے نظریاتی تصور اور اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کل اور مستقبل کی صور گری کریں گے، پاکستان کو اللہ کی عظیم نعمت تصور کرتے ہوئے اس کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کو یقینی بنائیں گے، پرعزم قوم کے طور پر اقبال اور قائد کے افکار کی تعمیر کریں گے۔ عارف علوی نے کہا کہ آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے بے شمار قربانیاں دینی پڑتی ہیں، جب پاکستان ہماری پہچان بنا تو ہمیں لامحدود چیلنجز کا سامنا تھا، ہماری زندگیوں میں بہت سے نشیب و فراز آئے اور ہم پر جنگیں مسلط کی گئیں، ہمیں حالیہ تاریخ میں اپنی قومی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج دہشگردی کا سامنا کرنا پڑا، ہم دنیا کی واحد قوم ہیں جس نے اتنی لمبی لڑائی لڑی، جانی و مالی قربانی دی مگر بے پناہ حوصلے سے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور دہشت گردوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ صدر مملکت نے مزید کہا کہ ہم قوم کے عزم اور افواج پاکستان کی جرأت و بہادری کی بدولت نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ امن و قومی تعمیر و ترقی کے راستے پر گامزن ہوئے، آج ہم ابھرتی ہوئی معاشی قوت کے ساتھ دفاعی لحاظ سے مضبوط اور پر امن ایٹمی طاقت ہیں، ہم دنیا کے تمام ممالک کی خودمختاری اور سلامتی کا احترام کرتے ہیں۔ ان کا کہناتھاکہ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ امن کی خواہش کو ہرگز ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، پاکستان ایک حقیقت ہے اور ہم زندہ و تابندہ آزاد قوم ہیں، بھارت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا، ان کی قیادت کی تنگ نظری ہوگی اگر وہ ہمیں 1947 کے نظریات اور تصورات کی عینک سے دیکھیں گے، یہ خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے، خطے کو امن کی ضرورت ہے، ہمیں جنگ کے بجائے تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے، ہماری اصل جنگ غربت اور بیروزگاری کے خلاف ہے۔ عارف علوی نے کہا کہ ہم ذمہ دار قوم ہیں، ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل تعمیر کررہے ہیں، ہم تلخیوں اور نفرتوں کو ختم کرکے خوشحالی کے بیج بونا چاہتے ہیں، ہم جمہوری ملک ہونے کے ناطے لڑائی پر یقین نہیں رکھتے، ہر مسئلے کو مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، اس ضمن میں بھارت کا رویہ نامناسب اور غیر ذمہ دارانہ رہا ہے جس کی بدولت خطہ امن کے مسلسل خطرات سے دوچار ہے، پلوامہ حملے کے بعد کی صورتحال اس کی تازہ مثال ہے جس میں بلا ثبوت پاکستان پر الزام لگادیا گیا، دھمکی آمیز پیغامات سے جنگ کی فضا پیدا کی گئی۔ اسلام آباد میں یوم پاکستان پر مسلح افواج کی شاندار پریڈ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی، اس کا جواب دینا ہمارا فرض ہے، ہماری افواج تیار تھی اور قوم کی دعائیں و حمایت ان کے ساتھ تھی،ہم نے بہترین حکمت عملی سے مؤثر اور فوری جواب دیا، اس پر پوری قوم اپنی افواج کو زبردست خراج تحسین پیش کرتی ہے، دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر نہ صرف انہوں نے ذمہ داریاں پوری کیں بلکہ اپنی اہلیت اور برتری ثابت کردی۔ عارف علوی نے کہا کہ بلاشبہ افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیت، اہلیت اور معیار کا کوئی ثانی نہیں، سرحدوں پر وطن کے دفاع کا فریضہ انجام دینے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، بلاشبہ آپ قوم کا فخر اور وقار ہیں، آپ کی جرأت و بہادری اور بہترین حربی صلاحیتوں نے ملک کا ناقابلِ تسخیر بنادیا، آج کی پریڈ پیغام دے رہی ہے کہ ہم پر امن قوم ہیں مگر دفاع سے غافل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں دہشت گردی دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطہ ہے لیکن ہم نے طویل جنگ کے بعد اس عفریت کو قابو کرلیا اب اس پر مزید کام کی ضرورت ہے، افغانستان میں امن پاکستان کے لیے ضروری ہے، اس کی خودمختاری، جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، افغانستان کے عوام طویل جنگ سے نجات چاہتے ہیں، ان کی خوہش میں ان کے ساتھ ہیں۔ صدرِ پاکستان نے کہا کہ آج کی پریڈ میں سعودی عرب، چین، ترکی، آذربائیجان، بحرین اور سری لنکا کی افواج کے نمائندوں کی شرکت نے ہمارے ولولوں کو جلا بخشی، یہ ان ممالک کی پاکستان کے ساتھ دوستی کا بھرپور اظہار ہے جس پر وہاں کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں، مہاتیر محمد کی خصوصی آمد پر ان کے مشکور ہیں، قوم معزز مہمانوں کا گرم جوشی سے خیر مقدم کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں پر کشیدہ صورتحال کے باجود پریڈ کا انعقاد افواج کے بلند حوصلوں کا مظہر ہے، جوانوں اور افسران کے پرعزم چہرے، جدید حربی سامان کی نمائش ملکی سلامتی کی ضمانت ہے، پاکستان محفوظ ہے، ہماری معاشی اور معاشرتی ترقی بہت عرصے سے سیکیورٹی حالات کی وجہ سے متاثر رہی، اب پاکستان کو ترقی و کامیابی کے راستے پر لے جانے کا وقت آگیا، ترقی یافتہ ملک شہدا اور غازیوں کے لیے بہترین تحفہ ہوگا۔ آخر میں صدرِ پاکستان نے شاندار پریڈ کے انعقاد پر پریڈ کمانڈر، شرکا اور منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔
0 notes
zoyajehanbeen-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
خوابوں کی تعبیر کھیتوں میں فصل سوکھنا محمد عتیق، شیخوپورہ خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے کھیتوں کا جائزہ لے رہا ہوں اور  اپنے ہمسائیوں کی فصل دیکھ کر سوچتا  ہوں  کہ ان کا کھیت سرسوں سے لدا پڑا  ہے جبکہ اس سال اچھی کھاد استعمال کرنے کے باوجود میری فصل اتنی کم کیوں ہے اور واقعتاً میرا  لگا  ہوا سرسوں کافی سوکھا ہوا اور کم نمو یافتہ ہوتا  ہے جس کو دیکھ کہ میں بہت رنجیدہ ہوتا  ہوں اور ڈیرے کی طرف چل پڑتا ہوں۔ تعبیر :۔ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم سے واسطہ پڑ سکتا  ہے۔کاروباری معاملات میں بھی کسی رکاوٹ یا پریشانی کا سامنا ہو سکتا  ہے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور ہر جمعرات حسب توفیق صدقہ و خیرات کیا کریں۔ اس کے علاوہ اپنے گھر میں پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کریں ۔ سر کے بال کٹنا طیبہ نورین، سرگودھا خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں ہوں اور کہیں جانے کے لئے جلدی جلدی تیار ہو رہی ہوں، ساتھ ہی دل میں یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ میں نے بہت دیر کر دی ہے۔ جب بال بنانے کے لئے میں اپنی چوٹی کھولتی ہوں تو وہ پوری کی پوری میرے ہاتھ میں آ جاتی ہے جس کو دیکھ کہ میں چیخنے لگ جاتی ہوں کہ کس نے میرے سارے بال کاٹ دئیے۔ اسی شور میں میری آنکھ کھل گئی اور میں نے  فوراً  اٹھ کر اپنے بال چیک کئے کیونکہ اتنا مضبوط تصور تھا ان کے کٹنے کا ۔ تعبیر :۔ خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی ناگہانی آفت یا پریشانی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ خاص طور پہ گھریلو معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔گھریلو معاملات کو کبھی حد سے بڑھنے نہ دیں۔ خاص طور پر اپنے میاں کے ساتھ غیر ضروری  بحث سے گریز کریں۔ بلکہ ان کو جو بھی کھانے یا پینے کو دیں اس پہ ایک مرتبہ یا ودود اور ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ کے پھونک مار دیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں۔ درخت پر چڑھنا سعدیہ کوثر، لاہور خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے کالج کے ٹرپ کے ساتھ کہیں گئی ہوئی ہوں اور وہاں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کے درخت پہ چڑھنے کا مقابلہ کرتی ہوں کہ کون جلدی درخت پہ چڑھتا  ہے۔ ہم تین دوستیں تیزی سے درخت پہ چڑھتی ہیں ۔ میں سب سے پہلے اوپر مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی ہوں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔ تعبیر : اچھا خواب ہے جو کہ خوشی پہ دلیل کرتا ہے۔ اس کا تعلق تعلیمی معاملات اور گھریلو دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اللہ کی مہربانی سے عزت و توقیر میں اضافہ ہو گا۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔ بھنا ہوا گوشت کھانا مطلوب علی خاور، لاہور خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں دعوت پہ گیا ہوا ہوں اور وہاں پہ ہم کو ایک تھال میں انتہائی لذیز بھنا ہوا گوشت ملتا ہے۔ ہم سب جیسے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اس پر  پیٹ تو بھر جاتا ہے مگر نیت سیر نہیں ہوتی۔ سچ پوچھیں تو میں نے زندگی میں کبھی اتنا لذیذ کھانا نہیں کھایا۔ تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات پہ دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے آپ کو مال و دولت عطا کریں گے۔ مال و وسائل میں اضافے سے رزق میں بھی برکت ہو گی اور اس سے زندگی میں آسانی پیدا ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور حسب توفیق صدقہ وخیرات کیا کریں۔ زنگ آلود چھری جواد علی خان، لاہور خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں بقر عید کے لئے جانور قربان کرنے کے لئے چھری لا کر رکھتا ہوں اور با��ی کی چی��یں بھی اکٹھی کر کے قربانی کے لئے کام شروع کرتا ہوں مگر کیا دیکھتا ہوں کہ میری چھری بہت زنگ آلود ہوتی ہے اور اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ سبزی تک کاٹ سکے، جانور کاٹنا تو ناممکن  سی بات تھی۔ یہ دیکھ کر میں بہت رنجیدہ و پریشان ہوتا ہوں اور اٹھ کر گھر کے اندر چلا جاتا ہوں ۔ تعبیر: آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اب اس کا تعلق گھریلو، تعلیمی یا کاروباری دنیا سے بھی ہو سکتا ہے۔ آپ چلتے پھرتے وضو بے وضو یا حی یا قیوم کا ورد  کیا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ ممکن ہو سکے تو روزانہ حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں یا مالی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تو چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا اہتمام کریں ۔ مشروب پینا رقیہ بی بی، نواب شاہ خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی کے گھر آئی ہوئی ہوں ، بظاہر کسی جاننے والے کا نہیں لگتا ، مگر وہاں کافی رشتے دار موجود ہوتے ہیں۔ میں ایک کمرے میں بیٹھی اپنی کچھ کزنز سے باتیں کر رہی ہوتی ہوں کہ جانے کیوں اٹھ کر ادھر ادھر گھومنے لگ جاتی ہوں ۔ ایک کمرے میں ٹیبل پر کچھ گلاس پڑے ہوتے ہیں اور ساتھ مختلف قسم کے مشروبات، میں پانی کی بوتل اٹھا کر ایک انتہائی نازک اور صصفا گلاس میں مشروب ڈال کر پیتی ہوں۔ جس سے مجھے فرحت و تازگی کا احساس ہوتا ہے جیسے  عام طور پر مشروبات پینے کے بعد  محسوس ہوتا ہے ۔ اس کے بعد مجھے کچھ خاص یاد نہیں کہ پھر کیا ہوا۔ تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظا ہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی سے عمر میں برکت اور بیماری سے شفاء ہو گی، جس سے گھر میں آرام و سکون ملے گا، رزق میں اضافہ ہو گا جس سے یقینی طور پر کاروبار میں بھی برکت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ مال و نعمت میں اضافہ فرمائیں گے۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اورکثرت سے یاشکور پڑھا کریں۔ کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں۔ کتاب کا مطالعہ کرنا نادیہ علی، راولپنڈی خواب: میں  نے دیکھا کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی ہوں۔ میری سٹڈی ٹیبل پر جہاں میں اپنی کتابیں رکھتی ہوں وہاں میری بہن کی بھی کچھ کتب پڑی ہوتی ہیں۔ میں ایسے ہی ایک کتاب اٹھا کر اس کا مطالعہ شروع کردیتی ہوں۔ اس میں کافی دلچسپ باتیں لکھی ہوتی ہیں، خاص طور پر مذہبی، صوفیانہ  اور روحانی موضوعات لکھے ہوتے ہیں۔ میں مزے سے اس کو پڑھتی ہوں اور دل میں سوچتی ہوں کہ آپی سے کہوں گی کہ اس طرح کی اور کتابیں بھی لے کر آئیں۔ تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کے علم میں اضافہ ہو گا اور اس علم سے آپ فائدہ بھی اٹھائیں گے۔  برے کاموں سے پرہیز ہو گا اور نیکی کی طرف آپ کا ذہن رہے گا ۔ علم کی روشنی سے راہ نجات ہو گی۔ اس نور سے آپ خود کو اور دنیا کو روشن کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت  سے یا علیم کا وردکیا کریں ۔ امی کے ساتھ شاپنگ بسم اللہ بی بی، قصور خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اور میری امی شاپنگ کرنے گئی ہوئی ہیں اور پارکنگ میں ایک افغانی قالین بیچ رہا  ہے ۔ وہ قالین  زبردستی ہم کو بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ میری امی تو ذوق و شوق سے اس سے بھاؤ تاؤ کرنے لگی ہوتی ہیں، مگر مجھے بہت کوفت ہو رہی ہوتی ہے۔ اس بھاؤ تاؤ کے دوران ایک نیا قالین کھلنے پر مجھے بھی پسند آجاتا ہے۔ میں بھی بھاؤ تاؤ کرنے لگ جاتی ہوں اور آخرکار ہم اپنی من چاہی قیمت پر اس کو خرید لیتے ہیں۔ پھر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے اور میں امی کے ساتھ اس بارے بحث کرتی گھر آجاتی ہوں ۔ تعبیر :۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کاروبار یا ملازمت میں ترقی ہو گی ۔ اس طرح کاروبار میں ایک مخلص یا ایماندار ساتھی بھی مل سکتا ہے۔ گھریلو معاملات میں بھی آرام  و سکون ہو گا۔ مال و وسائل میں بہتری آئے گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاشکور یا عزیز کا ورد بھی کیا کریں۔ بزرگ تحفہ دیتے ہیں عمران عالم، فیصل آباد خواب:۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے سسرال میں اپنی جٹھانی کے گھر دعوت پر ہوں اور میرے علاوہ میرے والدین بھی اس دعوت میں مدعو ہیں اور ہم سب کھانے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ اسی دوران ایک مہمان کی آمد ہوتی ہے اور میں بھی سب کے ساتھ ان بزرگ کے احترام میں باہر نکل کر کھڑی ہو جاتی ہوں۔ وہ بزرگ میری چٹھانی کے کوئی ملنے والے ہوتے ہیں۔ چائے کے بعد میں ان کو الوداعیہ کلمات ادا کر رہی ہوتی ہوں تو وہ مجھے ایک باکس تحفے میں دیتے ہیں۔ میں گھر آکر اس کو کھولتی ہوں تو اس میں ایک قرآن پاک اور آب زم زم ہوتا ہے۔ میں آب زم زم پی لیتی ہوں اور قرآن کی تلاوت شروع کردیتی ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ تعبیر:۔آپ کا خواب سعد ہے اور اس بات پر دلیل کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ کو دین کی سمجھ بوجھ عطاء ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں با ترجمہ تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کیا کریں۔ کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی کردیا کریں ۔ ہرے رنگ کے سانپ سویرا خان، پشاور خواب:۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی جنگل میں ہوں۔ جہاں ہر طرف ہرے بھرے درخت اور سبزہ ہے۔ میرے پیچھے ہرے رنگ کے سانپ بھاگ رہے ہیں۔ میں ان سے آگے بھاگ رہی ہوں۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اس وقت اتنا وقت نہیں تھا کہ میں تعبیر معلوم کرتی۔ کبھی کبھار یہ خواب یاد آجاتا ہے تو پریشان ہو جاتی ہوں۔ تعبیر:۔ آپ کے خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کی تمام پریشانیوں کا خاتمہ تو ہو چکا ہے۔ اب آپ اپنی پوری توجہ پڑھائی پر دیں۔ مگر صدقہ لازمی حسب توفیق دیتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک کامیاب ڈاکٹر بنائے، آمین۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو یاحیی یا قیوم کا ورد کرتی رہا کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
shiningpakistan · 6 years
Text
کیا مودی حکومت ختم ہو رہی ہے؟
بھارت میں عام انتخابات کا مرحلہ وار آغاز ہو چکا ہے، اور حال ہی میں بھار ت کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں جس میں زبردست شکست کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) کا زوال شروع ہو چکا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ختم ہو رہی ہے؟ اسی کے ساتھ حکمران جماعت بی جے پی میں ایسی چہ مگوئیاں بھی شروع ہو گئی ہیں کہ آیا اس شکست کی اصولی ذمہ داری وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی کے قومی صدر امیت شاہ کو لینا چاہیے کیوں کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک ہوئے تمام ریاستی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کا سہرا بھی انہی دونوں رہنماوں کے سر باندھا جاتا رہا ہے۔ 11 دسمبر کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہندی خطے کی تین انتہائی اہم ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اپنی حکومت بنانے جا رہی ہے۔
راہول گاندھی جس سے مسلم اقلیت کو اس بار خاصی اُمیدیں ہیں، نے کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کا خاص خیال رکھیں گے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ، فوج اور میڈیا جیسے ملک کے اہم اداروں کی معتبریت بچانے کے لئے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی اقتدار سے بے دخلی یقینی بنائی جائے۔ اس کے لئے زبردست محنت کی جائے گی۔ بی جے پی کو اس کا مقام دکھا دیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان ریاستوں میں بی جے پی وزراء اعلیٰ نے جو ترقیاتی کام شروع کئے تھے کانگریس انہیں پایہ تکمیل کو پہنچائے گی۔ اسمبلی انتخابات میں کانگریس 2 ریاستوں میں ہاری ہے لیکن 3 ریاستوں میں اسے کامیابی ملی ہے۔
بی جے پی نے نوجوانوں کو روزگار دینے، بدعنوانی مٹانے اور کسانوں کے قرض معافی کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے وعدہ پورا نہیں کیا جس سے لوگ ان سے ناخوش تھے۔ ان نتائج کے برعکس 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی مجموعی طورپر 282 سیٹوں میں سے 62 اسے انہی تین ریاستوں سے ملی تھیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے راجستھان کی تمام 25 سیٹیں، چھتیس گڑھ کی گیارہ میں سے دس اور مدھیہ پردیش کی 29 میں سے 27 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی کے امکانات پر بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
بھارت میں چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ان اسمبلی انتخابات کو وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ”لٹمس ٹیسٹ“ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور اس پیش رفت کو ’مودی برانڈ‘ کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ ’مودی برانڈ‘ کی چمک دمک کو کس طرح برقرار رکھے۔ میرے خیال میں یہ مودی کی مسلم دشمنی کا شاخسانہ ہے کہ وہ اب وہ ناقابل تسخیر نہیں رہے۔ عوام کو اب یہ حقیقت سمجھ میں آ چکی ہے کہ مودی بھگوان نہیں ہیں اور انہیں بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ عوام اب کسی خوف کے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور ماضی میں جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ تمام کامیابیوں کا سہرا اپنے سر لیتے رہے ہیں، اسی طرح اس شکست کی ذمے داری بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔ یہ قبول کرنا چاہیے کہ اُن کی پاکستان مخالف اور مسلم مخالف پالیسیاں غلط تھیں، آج کے دور میں جب دنیا سمٹ رہی ہے تو اُن کی تنگ ذہنی کسی طور پر بھی کام نہ آسکی۔
اور دنیا کو یاد ہے کہ مودی حکومت کس طرح مسلمانوں پر مظالم ڈھاتی رہی ہے۔حالیہ دنوں میں مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا۔ لب لباب یہ ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی کا نچوڑ یہ ہے کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے۔ تب ہی تو اخلاق احمد کو گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے تو کبھی پہلو خان کو راستے میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے تو کبھی لاوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان پر اعتراض ہوتا ہے۔ اور اب بقرعید میں قربانی روکنے کیلئے زیادہ تر ایسے جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے جو قربانی کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ جب لوگ قربانی کیلئے بھینس نہیں خرید سکیں گے تو پھر بکرے کس قیمت میں ملیں گے۔؟ ظاہر ہے کہ اب بقرعید کے موقع پر بکروں کے دام آسمان سے باتیں کریں گے۔ ان حالات میں بیچارے غریب مسلمان کیسے قربانی کریں گے۔ یعنی اب یہ حکم ہے کہ ہم تمہیں تمہارے مذہبی تہوار بھی آسانی سے منانے نہیں دیں گے۔ راقم مستقل یہ لکھتا رہا ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر غلام بنا دیا جائے، جب کوئی قوم آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق چل نہیں سکتی تو پھر اس قوم کو غلام نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔ بہرکیف اسمبلی انتخابات کے نتائج حکمران بی جے پی سے زیادہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے لیے تشویش کا موجب ہیں کیوں کہ ان دونوں رہنماوں نے الیکشن کے دوران جتنا زور لگایا تھا اور جس طرح تمام حربے آزمائے تھے، اس انتخابی شکست کے بعد ان کی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہے گی اور اگر پارٹی کا ناراض دھڑا سرگرم ہو گیا، تو ان دونوں رہنماوں کی پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔ کیوں کہ ان نتائج نے مودی کی برتری کے لیے سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اب ان کی زبان بدل جائے گی، لہجہ نرم ہو جائے گا اور وہ جارحانہ تقریروں کے بجائے موضوعات پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کریں گے۔ اور ویسے بھی نریندر مودی کو اپنی سیاست پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے کیوں کہ یہی وقت کی آواز ہے۔
محمد اکرم چودھری  
0 notes