Tumgik
#محکمہ انسانی حقوق سندھ
breakpoints · 2 years
Text
NCHR کا خیال ہے کہ پراسیکیوشن ناظم جوکھیو کیس میں تاخیر کر رہا ہے۔
NCHR کا خیال ہے کہ پراسیکیوشن ناظم جوکھیو کیس میں تاخیر کر رہا ہے۔
کراچی: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے جام عبدالکریم کی درخواست ضمانت میں مداخلت کرنے کے لیے جمعہ کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔ سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے این سی ایچ آر کے رکن انیس ہارون نے موقف اختیار کیا کہ حکومتی اہلکار ناظم جوکھیو قتل کیس کی تحقیقات کو متاثر کرنے کی کوششیں کررہے ہیں اور محکمہ پراسیکیوشن کی…
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
نویں سے بارہویں جماعت کے طلبا کیلئے اہم خبر۔!! تعلیمی نصاب میں نیا مضمون شامل، حکومت نے واضح کردیا
Tumblr media
نویں سے بارہویں جماعت کے طلبا کیلئے اہم خبر۔!! تعلیمی نصاب میں نیا مضمون شامل، حکومت نے واضح کردیا کراچی (جی سی این نیوز) نویں سے بارہویں جماعت کے طلبا کیلئے اہم خبر۔ سندھ حکومت نے نویں سے بارہویں تک بنیادی حقوق سے متعلق مضمون تعلیمی نصاب میں شامل کردیا، اے اے جی سندھ نے کہا سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں بنیادی حقوق نصاب تعلیم کا حصہ بنے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں آئین میں دیےگئے بنیادی انسانی حقوق نصاب میں شامل کرنےکی درخواست پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت بنیادی انسانی حقوق کو نصاب تعلیم کاحصہ بنانے کے لیے اہم پیشرفت سامنے آئی ، سندھ حکومت نے بنیادی حقوق سے متعلق مضمون تعلیمی نصاب میں شامل کردیا۔ محکمہ تعلیم سندھ نے پیش رفت رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ نویں سے بارہویں تک بنیادی حقوق سےمتعلق مضمون کتب میں شامل کردیے۔ اے اے جی سندھ نے کہا کہ آئین عوام کوکون سے حقوق دیتا ہے، طلبا حصول تعلیم میں جان سکیں گے، سندھ پہلا صوبہ ہے جہاں بنیادی حقوق نصاب تعلیم کا حصہ بنے ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے رپورٹ پیش کیے جانے کےبعد عدالت نےدرخواست نمٹا دی۔ Read the full article
0 notes
dailyswail · 5 years
Photo
Tumblr media
سرائیکی ،سندھی ،پشتون ،بلوچ ہوشیار باش ۔۔۔شہزاد عرفان سندھ کے عوام پر یہ سب سے بڑا اور خطرناک حملہ ہوا ہے اس گھناؤنے جرم کےارتکاب کی جرات تو آج تک کسی آمر نے نہیں کی - خبر کے مطابق وفاقی حکومت کی درخواست پر سندھ حکومت نے صوبے کی جامعات میں علاقائی قومی پروگرامز جس میں ہر طرح کے نیشنل ایونٹس شامل ہیں پر پابندی عائد کردی ہے ، وفاقی محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سیکریٹری سلیم احمد رانجھا نے چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ کو ایک مراسلہ بھیجا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سیکورٹی ایجنسی کے ذریعے علم میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ جامعات میں علاقائی قومی پروگرامز منعقد کیے جا رہے ہیں، نسلی اور فرقہ وارانہ نوعیت کے ایسے پروگرامز کے نتیجے میں قوم پرستانہ و لسانی نوعیت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں لہٰذا یہ بات آپ کے علم میں لائی جاتی ہے کہ اپنے تعلیمی اداروں میں ایسی لسانی / علاقائی / فرقہ ورانہ نوعیت کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کریں، مزید برآں ایسی سرگرمیوں میں شامل ہونے والے طلبا سے کہا جائے کہ وہ شرکت س ے گریز کریں۔واضح رہے کہ سندھ کی کئی جامعات میں سندھی ٹوپی اجرک ڈے، بلوچی ڈے، وائٹ دے سمیت علاقائی قومی پروگرامز منعقد ہوتے ہیں تاہم اب جامعات میں اس کی اجازت نہیں ہوگی اور جامعات کی انتظامیہ اس طرح کے پرگرام کرنے والے طلبہ کے خلاف کارروائی کرے گی۔ یعنی اب سیکرٹی ایجنسیاں یہ طے کریں گی کہ قومی ثقافتی پروگرامز لسانی اور فرقہ واریت پر مبنی ہوتے ہیں ؟ کیا یہ طے کرنا کسی سیکورٹی ادارے کا کام ہے؟ عوام تو آج تک یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان اور کشمیر کتنے میں بیچا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری کس نے پوری کرنی تھی ؟ اس کا جواب ندارد ہے ۔ پاکستان کا ستر فیصد کل بجٹ سیکورٹی اداروں پر خرچ ہوتا ہے ملک کا دیوالیہ نکل گیا ہے سیکورتی ایجنسیاں ہاؤسنگ پراجکٹ سے لے کر دوھ بسکٹ قربانی کی کھالوں کی خریدو فروخت میں مصروف ہیں انھیہں سندھی ٹوپی اجرک اور پشتون کی ٹوپی کلہ اور بلوچ کی پگڑی سے ڈر لگتا ہے ؟ آج یہ سندھ پر ہوا ہے کل یہ قانون پاکستان بھر کے تمام تعلیمی اداروں میں نا فذ العمل ہوگا جسکا مقصد نوجوان نسل کوتعلمی اداروں میں اپنی دھرتی کی ثقافت اور اسے سے جڑے ہزاروں سالہ مقامی بیانیہ سے دور رکھنا ہے تاکہ ان سے ان کی مقامی شناخت نوچ لی جائے ان کی مادری زبان جس میں ان کے درد اور خوشی کا اظہار ہوتا ہے اسے تالا لگا دیا جائے- اس مذموم حرکت سے مقامی بیانیہ کا گلہ گھوٹنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ نوجوان نسل کو اس دھرتی کی حقیقی مقا می مزاحمتی تاریخ ، ثقافت ادب زبان اور اسکے اظہار سے دور کیا جاسکے عوام ہر سطح پر ایسے قانون کی مخالفت کریں گے یہ پاکستان میں قومی شناخت کے بنیادی حقوق کے خلاف ایک سازش ہے اور اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے خلاف ریاست کی اپنے عوام کے خلاف گھناؤنی چال ہے - مقامی ثقافت کے اظہار کے خلاف یہ آمرانہ حکم کل پاکستان کے ہر شہر گلی محلہ گاؤں کے ہرشخص پر نافذ کیا جائے گا - اب یہ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ پاکستان میں حکومت کسی جمہوری ادارے کی نہیں بلکہ باوردی بندوق بردار سیکورٹی ادارے ہی اس ملک کو چلا رہے ہیں - اس کالے قانون کے خلاف پاکستان بھر کے تمام طلبا اور روشن خیال عوام کو سندھی عوام کا ساتھ دینا چاہیے ورنہ یہ عفریت ایک دن بلوچوں اور پشتونوں کی طرح تمام سرائیکوں کو بھی زندہ نگل لے گا - شہزاد عرفان
0 notes
saraikinewss · 5 years
Photo
Tumblr media
سابق ایس ایس پی راؤ انوار کوں ھک وݙا جھٹکا لگ گئیا کراچی (سرائیکی نیوز۔ ویب ڈیسک) امرکا نے سابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی ) ملیر راؤ انوار کوں بلیک لسٹ کریندے ہووئے انہاں تے پابندی عائد کر ݙیتی ھِ ، امریکی محکمہ خزانہ دی طرفوں انسانی حقوق دے عالمی ݙینھ دے موقع تے اعلامیہ جاری کتا گئیا ھِ جیندے مطابق وزارت خزانہ نے ٦ مختلف ملکاں تے ١٨ بندیاں تے معاشی پابندی عائد کر ݙیتی ھِ جیندے ءچ راؤ انوار دا ناں وی شامل ھِ اعلامیے دے مطابق کراچی دے ضلع ملیر ءچ کافی عرصے توں تعینات رھاوݨ والے سندھ پویس دے سابق ایس ایس پی راؤ انوار تے انسانی حقوق دی سنگین خلاف ورزیاں دے الزام ءچ اے پابندی لائی گئی ھِ کہ امریکی حکام دے مطابق راؤ انوار بالواسطہ یا بلاواسطی انسانی حقوق دی سنگین خلاف ورزی دے ذمہ دار ھِ
0 notes
urdubbcus-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
’ماحولیاتی تبدیلی‘ یہ انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے بدلتے موسم ، سردی اور گرمی کی شدت ، صحرائوں میں گرتے برف کے ذرے اور سرد ترین علاقوں میں ہلاکت خیز گرمی اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ موسم کے تیور بدل رہے ہیں۔ مختلف خطوں میں روایتی موسموں کا دورانیہ حیرت انگیز طور پر سکڑ رہا ہے اور ان کی جگہ وہ موسم لے رہے ہیں جو کبھی وہاں کے باسیوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے۔ گذشتہ سال یورپ میں تاریخ کی سخت ترین گرمی پڑی جس سے نہ صرف معمولات متاثر ہوئے بلکہ کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ آج کل سخت سردی کی لپیٹ میں آیا امریکا اور کینیڈا اور شدید بارشوں سے دوچار سعودی عرب خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں قطب شمالی سے اٹھنے والے گرداب Polar Vortexسے امریکا کی شمالی ریاستیں اور کینیڈا شدید سردی لپیٹ میں آگیا، اسے ہلاکت خیز سردی کا نام دیا گیا۔ درجۂ حرارت منفی 50 سے اوپر تک پہنچا، جس سے نظام زندگی مفلوج ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق گرم ملبوسات کے بغیر صرف 5 منٹ کھلی فضا میں رہنا زندگی کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ شاید تاریخ میں پہلی بار متاثرہ علاقوں میں ڈاک کی ترسیل کا نظام مکمل مفلوج ہوگیا، ریل گاڑی کو چلانے کے لیے پٹریوں پر آگ دہکائی گئی۔ لگ بھگ تین درجن لوگ زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے غالباً سخت سردی سے جھنجلا کر ٹویٹ کی کہ ’’گلوبل وارمنگ واپس آجائو‘‘ جس پر موسمیاتی ماہرین نے واضح کیا کہ جس عالمی حدت کو آپ اس سردی کے باعث یاد کر رہے ہیں قطب شمالی سے سردی کو امریکا کی جانب دھکیلنے کے پیچھے اسی کی کارستانی ہے۔ اسی لیے اسے ماحول دشمن کہا جاتا ہے۔ دراصل امریکا اور اس جیسے دیگر ترقی یافتہ ممالک جو گرین ہائوس گیسز کے حقیقی اور سب سے بڑے محرک (Producer) ہیں ان خطرناک گیسوں کو ختم کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے، اور اب اس موقع پر وہ گلوبل وارمنگ کا ذکر چھیڑ کر دنیا کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ درجۂ حرارت بڑھنے کی جو باتیں کی جاتی ہیں وہ بے معنی ہیں، کیوںکہ امریکا میں تو سردی بڑھ رہی ہے! موسمی تغیرات اور ان سے ہونے والے نقصانات کی بات تو سب کرتے ہیں مگر یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ دنیا بہت پہلے یہ جان چکی تھی کہ یہ سب ہونے جارہا ہے۔ 1750ء سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب اور عسکری میدان میں ایک دوسرے پر سبقت کی خواہش نے دنیا کے ماحول کو تباہ برباد کردیا، لیکن الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق آج ترقی یافتہ کہلائے جانے والے ممالک جو اس تمام تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں متوسط اور ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی آلودگی کا بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ طویل عرصے تک دنیا کی فضائوں کو زہر آلود اور پانیوں کو گدلا کرنے کے باوجود یہ ممالک اب بھی عملی اقدامات سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ ایسے اقدامات جن سے اس آلودگی کی افزائش کو روکا جائے۔ اس موسمی بگاڑ کے پیچھے کارفرما وجوہات میں گرین ہائوس گیسز بھی شامل ہیں، جن کا بڑا حصہ غیرمحفوظ صنعتوں سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ روایتی ایندھن پر چلنے والی گاڑیاں جو بڑی مقدار میں دھواں خارج کرتی ہیں آلودگی کا بہت بڑا سبب ہیں۔ کاربن اور دیگر زہریلی گیسز کے پیداواری عوامل کو انسانیت کی بقاء کے لیے ختم یا محدود کرنا بہت ضروری ہے، کیوںکہ یہ سانس اور دیگر بیماریوں کی وجہ تو ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ زمین کے درجۂ حرارت میں بھی غیرمعمولی اضافے کا باعث ہیں، جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، جس سے ہمارا روایتی موسمی نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ اسی طرح دیگر ایسے امور پر عمل بھی بہت ضروری ہیں جو اس موسمی تبدیلی کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں جن میں سر فہرست ماحول دوست درختوں کا لگانا ہے جو ایک جانب غذائی ضروریات بھی پورا کرتے ہیں اور دوسری جانب فضا کو بھی نکھارتے ہیں، کیوںکہ دن بدن بڑھتے شہروں اور رہائشی علاقوں سے جنگلات بری طرح متاثر ہوئے اور درختوں کو بے انتہا کاٹا گیا ہے۔ کلائمٹ چینج کی ایک اور بہت بڑی وجہ مصنوعی کھاد، ہائبرڈ بیج اور کیڑے مار ادویات کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو پورا ملک ہی ان موسمی تبدیلیوں سے پریشان ہے لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان کی 1050کلومیٹر ساحلی پٹی کا ایک قابل ذکر اور مصروف حصہ سندھ میں واقع ہے۔ اس تمام ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیروں کا ذریعہ معاش مچھلی اور جھینگے کا شکار ہے ، کیوںکہ یہ بیلٹ نہ صرف شکار کے لیے موزوں ہے بلکہ یہاں واقع تمر کے جنگلات دنیا بھر سے آنے والی انواع اقسام کی سمندری حیات کے لیے افزائش نسل کا پُرکشش مقام بھی ہے۔ مینگرووز یا تمر کے جنگلات ایک جانب مچھلیوں اور دیگر سمندری حیات کی نرسری کا کام کرتے ہیں جہاں ان کی خوب افزائش ہوتی ہے اور دوسری جانب یہ قیمتی پودا ساحلی پٹی کو کٹائو سے بھی بچاتا ہے۔ یہ جنگلات جہاں بدلتے موسموں اور صنعتی فضلے کی زد میں ہیں وہیں ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ماحول دشمن لالچی عناصر ان جنگلات کو مختلف بہانوں سے نقصان پہنچا رہے ہیں اور فروخت کررہے ہیں۔ اس گھنائونے کاروبار کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، کیوںکہ قدرتی ماحول کو اپنی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے ان جنگلات کا قائم رہنا ناگزیر ہے۔ سمندر کے پانیوں میں زہر گھولتا صنعتی فضلہ ہماری آبی حیات کو بھی ختم کر رہا ہے۔ مچھلیوں کی کئی اقسام معدوم ہوچکی ہیں اور باقیوں کی بقا خطرے میں ہے۔ اس سارے عمل سے نہ صرف ہمارے ماہی گیر بے روزگار ہورہے ہیں بلکہ ملکی سطح پر اہم ایکسپورٹس کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہمارے جنگلات اور زراعت ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بہت متاثر ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہیٹ اسٹروک جو کہ ہر سال کئی قیمتی جانوں کے زیاں کا سبب بنتا ہے اب ایک عام سی بات ہوچکی ہے۔ کلائمٹ چینج کے سبب پانی کی شدید قلت بھی ہورہی ہے ، جس سے زرعی فصلوں کو نقصان اور جنگلات میں کمی دیکھنے میں آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بارشیں بھی کم ہورہی ہیں۔ موسمی تغیرات کا سب سے بڑا اثر پانی پر ہورہا ہے۔ بڑھتے درجۂ حرارت کے باعث پگھلتے گلیشئرز ، بارشوں کی کمی اور بے ترتیبی سے پانی کے قدرتی ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ پانی کی کمی سے ہماری زرعی پیداوار بھی سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ زیریں سندھ کی ساحلی پٹی میں پینے کے پانی کا بھی فقدان ہے۔ ریت اڑاتے دریاؤں کے پاس سمندر کو دینے کے لیے کچھ بھی تو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر تیزی سے ہماری زمینوں کو نگل رہا ہے۔ ماہی گیر نمائندوں کے مطابق پانی کی بلند ہوتی سطح سے پاکستان کی جنوبی ساحلی پٹی بالخصوص سندھ میں اب تک بہت سے گائوں قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ ٹھٹھہ کے قریب واقع ماہی گیروں کی قدیم بندرگاہ کیٹی بندر کو بھی آہستہ آہستہ سمندر نگل رہا ہے۔ مچھیروں کی اس بندرگاہ میں اب صرف ایک جیٹی موجود ہے، جن کی تعداد کبھی چار ہوا کرتی تھی۔ سمندر کی بڑھتی سطح کے باعث کراچی بھی خطرات لاحق ہیں۔ ماہی گیروں کی طرح کسان بھی پانی کی کمی سے بہت متاثر ہیں اور فصلیں کاشت کرنے اور ان سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ زیرزمین ناقابل استعمال پانی کی سطح بلند ہونے سے زمین ناقابل کاشت ہوکر برباد ہورہی ہیں۔ اس ساری صورت حال سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور متاثرہ افراد کی قوت خرید میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی کے باعث بڑھتی قیمتیں اور وسائل کی عدم دست یابی کے باعث آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غذائی کمی کا بھی شکار ہے۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجوہات کو نہ روکنا دراصل انسانی حقوق کی پامالی کا بھی باعث ہے اور یہ سب کچھ بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو درپیش یہ چیلینجز مختلف فورمز پر زیربحث رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان تمام ماحولیاتی تبدیلیوں بابت پالیسیوں کو جاننے اور پالیسی سازوں تک عوامی اور سماجی آواز پہنچانے کی غرض سے ایک اہم سیمینار منعقد ہوا۔ پی سی ہوٹل کراچی کی پرشکوہ عمارت کے کانفرنس ہال میں منعقدہ اس بیٹھک میں سندھ کے 6 اضلاع سے عوامی اور سماجی نمائندوں نے شرکت کی، اس کے علاوہ حکومت سندھ ، محکمہ آبپاشی اور محکمۂ موسمیات وغیرہ کے نمائندے بھی موجود تھے۔ پاکستان فشر فوک فورم اور آکسفام پاکستان کے باہمی تعاون سے ہونے والی اس تقریب کا مقصد موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والے مسائل اور حل کے لیے حکومتی پالیسی کو زیربحث لانا تھا۔ سیمینار میں آبی ماہر فتح مری نے بتایا کہ سندھ ویسے ہی غذائی قلت کا شکار ہوتا جارہا ہے جیسے کبھی ہم افریقہ کو دیکھتے تھے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بار بار آنے والے سیلاب، پانی کی قلت یا سمندر کی سطح بڑھنا، ان سب عوامل سے سندھ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ہمیں بدلتے موسموں کے عوامل کو روکنے کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو بھی بدلنا ہوگا تاکہ اس صورت حال سے مطابقت پیدا کرسکیں، جیسے کینیڈا وغیرہ جیسے ممالک اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال رہے ہیں۔ کلائمٹ چینج کے باعث ہماری جی ڈی پی بھی متاثر ہے جس سے غربت بڑھ رہی ہے۔ ایک سماجی کارکن نے بتایا کہ سندھ میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے گلاب کے پھول کی کاشت 50 فی صد رہ گئی ہے۔ سردار سرفراز ڈائریکٹر میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سندھ نے بتایا کہ کس طرح عالمی درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے سمندر کی سطح بھی بلند ہورہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر فرانس اور پولینڈ میں حالیہ سالوں میں اس موضوع پر بڑی بڑی کانفرنسز ہوئی ہیں، تاہم آلودگی پیدا کرنے والے بڑے ممالک نہ صرف کلائمٹ چینج کے موضوع پر کوئی پالیسی بننے کے مخالف ہیں بلکہ دنیا کو گرین ہائوس گیسز میں کسی قسم کی کمی کی یقین دہانی بھی نہیں کروانا چاہتے۔ پاکستان کے 26 شہروں کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ مون سون کا موسم سکڑ رہا ہے، خاص طور سندھ میں جہاں بارشیں زیادہ تر مون سون کے موسم میں ہوتی ہیں بارشیں نہ ہونے سے پانی کی شدید کمی کا شکار ہے، جب کہ ساحلی پٹی میں آنے والے سمندری طوفانوں کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ��یمینار کے منتظم پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ انسانوں نے قدرت کو فتح کرنے کی کشمکش میں ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماحول کا توازن بگڑنے سے درجۂ حرارت بڑھ گیا ہے، بارشیں کم ہوگئی ہیں، طوفانوں میں شدت ہے۔ فضا میں گرین ہائوس گیسز کی مقدار بڑھنے سے سمندر کا درجۂ حرارت بھی بڑھ رہا ہے جس سے سمندری حیات خطرات سے دوچار ہیں۔ اور سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے جس سے ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی ساحلی آبادیاں ختم ہورہی ہیں جب کہ بڑے شہر بھی سونامی جیسے خطرات کی زد میں ہیں۔ اگر سمندر کی سطح اسی طرح بلند ہوتی رہی تو سندھ کے تین اضلاع ٹھٹھہ، بدین اور سجاول کے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ ساحلی پٹی میں پینے پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ زیرزمین پانی ناپید اور ناقابل استعمال ہوتا جارہا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی قلت سے انڈس ڈیلٹا میں دریا کا پانی نہیں جارہا۔ دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک جو اس ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں وہ گرین ہائوس گیسز کو کم کرنے کے بجائے دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیں درخت لگانے اور آبادی کو کنٹرول کرنے جیسے حل بتاکر خود گرین ہائوس گیسز کی پیداوار میں مصروف ہیں۔ جب تک ان گیسز میں کمی نہیں کی جاتی اُس وقت تک ماحول میں بہتری کی امید فضول ہے۔ سندھ کی سطح پر اس حوالے سے جلدازجلد ایک جامع پالیسی بہت ضروری ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز، سول سوسائٹی، ماہی گیر، کاشت کار اور عوامی نمائندوں کی مشاورت سے بننی چاہیے، تاکہ پاکستان اس صورت حال کا مقابلہ احسن انداز میں کرسکے۔ The post ’ماحولیاتی تبدیلی‘ یہ انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
سندھ حکومت نے کل سے کون کونسے سرکاری دفاترکھولنے کا اعلان کردیا
Tumblr media
کراچی (جی سی این رپورٹ) سندھ حکومت نے11مئی کل پیر سے9 سرکاری دفاترز کھولنے کا اعلان کردیا ہے، ان میں محکمہ اوقاف، سوشل اینڈ ویلفیئر، انسانی حقوق، محکمہ سرمایہ کاری، محکمہ صنعت وتجارت، منیارٹی، انفامیشن ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورمحکمہ ورکس اینڈ سروسز شامل ہیں۔ محکمہ داخلہ سندھ کے نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے کل پیر سے صوبے میں 9 سرکاری محکموں کے دفاترز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔جس کے تحت ان دفاترز میں حکومتی ہدایات کے تحت ایس اوپیز پر عمل کیا جائے گا۔ ان میں محکمہ اوقاف، سوشل اینڈ ویلفیئر، انسانی حقوق، محکمہ سرمایہ کاری، محکمہ صنعت وتجارت، منیارٹی، انفامیشن ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورمحکمہ ورکس اینڈ سروسز شامل ہیں۔سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن میں 31 مئی تک توسیع کرتے ہوئے صوبے میں جمعہ ، ہفتہ ، اتوار کو سخت لاک ڈاؤن عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔شاپنگ مالز، شادی ہالز، تعلیمی اداروں، سیلون، حجام، اور بیوٹی پارلز، سینما، سی ویو، تفریحی مقامات، مذہبی اور سیاسی اجتماعات پر پابندی برقرار رہے گی۔ تعمیراتی شعبے سے وابستہ کاروباری سرگرمیاں صرف ایس اوپیز کے تحت کھولی جاسکیں گی۔ دکانوں پر آنے والے گاہکوں کے درمیان سماجی فاصلہ رکھنا دکاندار کی ذمہ داری ہوگی۔ گاہکوں کو ماسک پہننا، سینیٹائزر، اور سماجی فاصلہ رکھوانا مارکیٹس صدور کی ذمہ داری ہوگی۔انٹراور انٹراسٹی ٹرانسپورٹ سروس پر پابندی عائد ہوگی۔ تمام کاروبار صبح 8بجے سے شام 4 بجے تک کھلیں گے۔ سندھ میں شام 5 سے صبح 8بجے تک عوام کے گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد ہوگی۔ صوبے میں محکمہ سوشل اینڈ ویلفیئر، محکمہ سرمایہ کاری، انفامیشن ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے محکمے کھول دیے جائیں گے۔ مزید برآں وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ نے کل پیر سے صوبے بھر میں دکانیں کھولنے کا اعلان کردیا ہے۔دکانیں صبح 6 سے شام 5 بجے تک کھلیں گی جبکہ شاپنگ مالز بند رہیں گے۔ وزیراعلی سندھ سے کراچی کے تاجروں نے کاروبار کھولنے سے متعلق بات چیت کے لیے خصوصی ملاقات کی، اس موقع پر مراد علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ سندھ میں شاپنگ مالز کے علاوہ پیر سے تمام مارکیٹیں صبح6 بجے سے شام 5بجے تک کیلئے کھلیں گی، مارکیٹیں ایس او پی کے تحت کھولی جائیں گی۔انہوں نے متنبہ کیا کہ ایس او پی پر عمل درآمد کی ذمہ داری تاجروں پر ہوگی، سماجی فاصلے پر سختی اور خصوصی توجہ دینا ہوگی، اگر کیسز بڑھتے ہیں تو پھر مزید سخت فیصلے لینے پڑیں گے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ عوام کی صحت ہماری اولین ترجیح ہے ، ہم وفاقی حکومت سے وقت بوقت بات کرتے رہے، پبلک ٹرانسپوٹ، ایئر پورٹ کھولنے پر میں نے اعتراض کیا تھا، وفاقی حکومت رات کو کاروبار کھولنا چاہتی تھی جس پر ہم نے اعتراض کیا، وفاقی حکومت نے ہماری بات تسلیم کی،یہ ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم کاروبار بند رکھنا چاہتے ہیں، یہ چاروں صوبوں اور وفاق کا متفقہ فیصلہ تھا۔ Read the full article
0 notes
mypakistan · 7 years
Text
تھر کا انسانی المیہ
سندھ کے ضلع تھر پارکر میں قحط اور ناکافی طبی سہولتوں کی بنا پر گزشتہ کئی سال سے بچوں سمیت انسانی اموات کا افسوسناک سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے سال 2016 کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ تھر پارکر میں قلت خوراک اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں کے باعث 13 سو سے زائد بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ محکمہ صحت کے ذرائع نےصرف سال رواں میں 172 سے زائد بچوں کی اموات کی تصدیق کی ہے۔ تھر کے انسانی المیہ کا عدلیہ کی جانب سے بھی سوموٹو نوٹس لیا گیا لیکن تاحال یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ 
ایک خبر کے مطابق سول اسپتال مٹھی میں صحت کی سہولتیں اور معیاری ادویہ نہ ہونے کی وجہ سے مزید تین بچوں سمیت پانچ افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ کئی روز تک موسلا دھار بارشیں ہونے کے باوجود علاقے میں ہنوز غذائی قلت برقرار ہے اور انتظامیہ کی جانب سے مچھر مار اسپرے بھی نہیں کیا گیا جس سے وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔ تھر کے دور دراز دیہات سے مٹھی اسپتال آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد چکن گونیا، ملیریا، گیسٹرو میں مبتلا بتائی گئی ہے، غذائی قلت کے شکار مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق ضلع بھر میں وبائی امراض پر قابو پانے کے لئے میڈیکل ٹیمیں بھیجی جا رہی ہیں۔
تھر میں غذائی بحران کے مستقل حل اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ حکومتی سطح پر تھر کے باسیوں کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جائے اس حوالے سے تھر پر یو این کی تازہ رپورٹ کی سفارشات سے بھی مدد مل سکتی ہے ۔ علاقے میں مضبوط انفراسٹرکچر کی تعمیر پر غور کیا جانا چاہئے۔ ضلع میں اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ وہاں پر بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنانے سے بچوں سمیت انسانی جانوں کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ مریضوں کی جانب سےمقامی اسپتالوں و طبی مراکز میں غیر معیاری ادویہ کی جو شکایات سامنے آرہی ہیں ان کا دور کیا جانا بھی ضروری ہے۔
اداریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کل سے کون سے سرکاری دفاتر کھولے جا رہے ہیں؟ حکومت نے اعلان کر دیا
کل سے کون سے سرکاری دفاتر کھولے جا رہے ہیں؟ حکومت نے اعلان کر دیا
کراچی (نیوز ڈیسک ) سندھ حکومت نے11مئی کل پیر سے9 سرکاری دفاترز کھولنے کا اعلان کردیا ہے، ان میں محکمہ اوقاف، سوشل اینڈ ویلفیئر، انسانی حقوق، محکمہ سرمایہ کاری، محکمہ صنعت وتجارت، منیارٹی، انفامیشن ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورمحکمہ ورکس اینڈ سروسز شامل ہیں- محکمہ داخلہ سندھ کے نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے کل پیر سے صوبے میں 9 سرکاری محکموں
کے دفاترز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے-جس کے تحت ان دفاترز میں…
View On WordPress
0 notes
dailyswail · 5 years
Text
محکمہ انسانی حقوق سندھ کے سیکریٹری گھر سے آفس جاتے ہوئے مبینہ طورپر لاپتہ
محکمہ انسانی حقوق سندھ کے سیکریٹری گھر سے آفس جاتے ہوئے مبینہ طورپر لاپتہ
محکمہ انسانی حقوق سندھ کے سیکریٹری بدر جمیل گھر سے آفس جاتے ہوئے مبینہ طورپر لاپتہ ہوگئے۔اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ نے انہیں گرفتار کرنے کی تردید کردی۔
وزیراعلی نے بھی معاملے کا نوٹس لے لیا۔بدر جمیل نے اینٹی کرپشن کورٹ سے عبوری ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر رکھی ہے۔
محکمہ انسانی حقوق سندھ کے سیکریٹری بدر جمیل گھر سے آفس جاتے ہوئے مبینہ طورپر لاپتہ۔ صوبائی سیکریٹری کی اہلیہ نے ایس ایس پی سائوتھ سے رابطہ…
View On WordPress
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ
کراچی — 
حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کے 86 فی صد مقدمات کو حل کر لیا گیا ہے۔
جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق یہ رپورٹ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد 3758 تھی جن میں سے 3238 افراد واپس آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب بھی 520 مقدمات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں جن میں سے 156 لاپتا افراد کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے پاس زیر التوا ہیں۔
جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت بھی لاپتا افراد سے متعلق 364 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان تمام مقدمات اور کمشن میں التواء کیسز کو ملا کر کُل 520 افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مسنگ پرسنز کے 86 فی صد کیسز حل کئے گئے ہیں، جبکہ باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جبری گمشدہ افراد کے 23 خاندانوں کو 5 لاکھ روپے فی کس مالی مدد بھی دی ہے۔
لاپتا افراد سے متعلق کمشن وفاقی وزارت داخلہ نے 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کیا تھا اور صوبہ سندھ سے جبری گمشدہ افراد کے کیسز کی سماعت کمشن نے کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اوقات میں کی تھی۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل رکن اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں لاپتا افراد مل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جانب مزید لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے جب تک شہریوں کو گمشدہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر دستخط کرنا چاہیئیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بغیر کسی انتظار کے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور حراستی مراکز میں لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ گمشدہ افراد سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ایم کیوایم کا دعوی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن لاپتا کیے گئے جن میں سے بہت سوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ کے لاپتا کارکنوں کی جانب سے عدالتوں میں پیش ہونے والے معروف وکیل مزمل میو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کے پیارے واپس بھی آئے ہیں تاہم اس کے باوجود اب بھی ایم کیو ایم کے 100 سے زیادہ ایسے کارکن موجود ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان گمشدہ افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سندھ حکومت کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت نے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کے روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسانی حقوق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کہا گیا ہے کہ حکومت قوانین میں ترمیم کر کے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ اور یہ مقدمات ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کے واقعات ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس میں بسا اوقات پولیس، انٹیلی جینس ادارے، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدمات، غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے الزامات کی فوج سختی سے تردید بھی کرتی آئی ہے۔
The post سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sTAfGx via Urdu News
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ
کراچی — 
حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کے 86 فی صد مقدمات کو حل کر لیا گیا ہے۔
جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق یہ رپورٹ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد 3758 تھی جن میں سے 3238 افراد واپس آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب بھی 520 مقدمات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں جن میں سے 156 لاپتا افراد کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے پاس زیر التوا ہیں۔
جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت بھی لاپتا افراد سے متعلق 364 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان تمام مقدمات اور کمشن میں التواء کیسز کو ملا کر کُل 520 افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مسنگ پرسنز کے 86 فی صد کیسز حل کئے گئے ہیں، جبکہ باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جبری گمشدہ افراد کے 23 خاندانوں کو 5 لاکھ روپے فی کس مالی مدد بھی دی ہے۔
لاپتا افراد سے متعلق کمشن وفاقی وزارت داخلہ نے 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کیا تھا اور صوبہ سندھ سے جبری گمشدہ افراد کے کیسز کی سماعت کمشن نے کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اوقات میں کی تھی۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل رکن اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں لاپتا افراد مل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جانب مزید لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے جب تک شہریوں کو گمشدہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر دستخط کرنا چاہیئیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بغیر کسی انتظار کے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور حراستی مراکز میں لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ گمشدہ افراد سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ایم کیوایم کا دعوی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن لاپتا کیے گئے جن میں سے بہت سوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ کے لاپتا کارکنوں کی جانب سے عدالتوں میں پیش ہونے والے معروف وکیل مزمل میو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کے پیارے واپس بھی آئے ہیں تاہم اس کے باوجود اب بھی ایم کیو ایم کے 100 سے زیادہ ایسے کارکن موجود ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان گمشدہ افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سندھ حکومت کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت نے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کے روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسانی حقوق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کہا گیا ہے کہ حکومت قوانین میں ترمیم کر کے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ اور یہ مقدمات ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کے واقعات ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس میں بسا اوقات پولیس، انٹیلی جینس ادارے، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدمات، غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے الزامات کی فوج سختی سے تردید بھی کرتی آئی ہے۔
The post سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sTAfGx via Daily Khabrain
0 notes
katarinadreams92 · 6 years
Text
سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ
کراچی — 
حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کے 86 فی صد مقدمات کو حل کر لیا گیا ہے۔
جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق یہ رپورٹ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد 3758 تھی جن میں سے 3238 افراد واپس آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب بھی 520 مقدمات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں جن میں سے 156 لاپتا افراد کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے پاس زیر التوا ہیں۔
جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت بھی لاپتا افراد سے متعلق 364 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان تمام مقدمات اور کمشن میں التواء کیسز کو ملا کر کُل 520 افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مسنگ پرسنز کے 86 فی صد کیسز حل کئے گئے ہیں، جبکہ باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جبری گمشدہ افراد کے 23 خاندانوں کو 5 لاکھ روپے فی کس مالی مدد بھی دی ہے۔
لاپتا افراد سے متعلق کمشن وفاقی وزارت داخلہ نے 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کیا تھا اور صوبہ سندھ سے جبری گمشدہ افراد کے کیسز کی سماعت کمشن نے کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اوقات میں کی تھی۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل رکن اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں لاپتا افراد مل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جانب مزید لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے جب تک شہریوں کو گمشدہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر دستخط کرنا چاہیئیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بغیر کسی انتظار کے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور حراستی مراکز میں لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ گمشدہ افراد سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ایم کیوایم کا دعوی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن لاپتا کیے گئے جن میں سے بہت سوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ کے لاپتا کارکنوں کی جانب سے عدالتوں میں پیش ہونے والے معروف وکیل مزمل میو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کے پیارے واپس بھی آئے ہیں تاہم اس کے باوجود اب بھی ایم کیو ایم کے 100 سے زیادہ ایسے کارکن موجود ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان گمشدہ افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سندھ حکومت کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت نے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کے روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسانی حقوق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کہا گیا ہے کہ حکومت قوانین میں ترمیم کر کے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ اور یہ مقدمات ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کے واقعات ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس میں بسا اوقات پولیس، انٹیلی جینس ادارے، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدمات، غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے الزامات کی فوج سختی سے تردید بھی کرتی آئی ہے۔
The post سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sTAfGx via Hindi Khabrain
0 notes
rebranddaniel · 6 years
Text
سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ
کراچی — 
حکومت سندھ کے ��حکمہ داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کے 86 فی صد مقدمات کو حل کر لیا گیا ہے۔
جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق یہ رپورٹ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد 3758 تھی جن میں سے 3238 افراد واپس آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب بھی 520 مقدمات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں جن میں سے 156 لاپتا افراد کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے پاس زیر التوا ہیں۔
جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت بھی لاپتا افراد سے متعلق 364 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان تمام مقدمات اور کمشن میں التواء کیسز کو ملا کر کُل 520 افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مسنگ پرسنز کے 86 فی صد کیسز حل کئے گئے ہیں، جبکہ باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جبری گمشدہ افراد کے 23 خاندانوں کو 5 لاکھ روپے فی کس مالی مدد بھی دی ہے۔
لاپتا افراد سے متعلق کمشن وفاقی وزارت داخلہ نے 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کیا تھا اور صوبہ سندھ سے جبری گمشدہ افراد کے کیسز کی سماعت کمشن نے کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اوقات میں کی تھی۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل رکن اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں لاپتا افراد مل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جانب مزید لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے جب تک شہریوں کو گمشدہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر دستخط کرنا چاہیئیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بغیر کسی انتظار کے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور حراستی مراکز میں لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ گمشدہ افراد سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ایم کیوایم کا دعوی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن لاپتا کیے گئے جن میں سے بہت سوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ کے لاپتا کارکنوں کی جانب سے عدالتوں میں پیش ہونے والے معروف وکیل مزمل میو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کے پیارے واپس بھی آئے ہیں تاہم اس کے باوجود اب بھی ایم کیو ایم کے 100 سے زیادہ ایسے کارکن موجود ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان گمشدہ افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سندھ حکومت کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت نے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کے روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسانی حقوق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کہا گیا ہے کہ حکومت قوانین میں ترمیم کر کے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ اور یہ مقدمات ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کے واقعات ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس میں بسا اوقات پولیس، انٹیلی جینس ادارے، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدمات، غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے الزامات کی فوج سختی سے تردید بھی کرتی آئی ہے۔
The post سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sTAfGx via Urdu News Paper
0 notes
Text
سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ
کراچی — 
حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کے 86 فی صد مقدمات کو حل کر لیا گیا ہے۔
جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق یہ رپورٹ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد 3758 تھی جن میں سے 3238 افراد واپس آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب بھی 520 مقدمات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں جن میں سے 156 لاپتا افراد کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے پاس زیر التوا ہیں۔
جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت بھی لاپتا افراد سے متعلق 364 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان تمام مقدمات اور کمشن میں التواء کیسز کو ملا کر کُل 520 افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مسنگ پرسنز کے 86 فی صد کیسز حل کئے گئے ہیں، جبکہ باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جبری گمشدہ افراد کے 23 خاندانوں کو 5 لاکھ روپے فی کس مالی مدد بھی دی ہے۔
لاپتا افراد سے متعلق کمشن وفاقی وزارت داخلہ نے 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کیا تھا اور صوبہ سندھ سے جبری گمشدہ افراد کے کیسز کی سماعت کمشن نے کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اوقات میں کی تھی۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل رکن اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں لاپتا افراد مل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جانب مزید لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے جب تک شہریوں کو گمشدہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر دستخط کرنا چاہیئیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بغیر کسی انتظار کے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور حراستی مراکز میں لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ گمشدہ افراد سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ایم کیوایم کا دعوی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن لاپتا کیے گئے جن میں سے بہت سوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ کے لاپتا کارکنوں کی جانب سے عدالتوں میں پیش ہونے والے معروف وکیل مزمل میو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کے پیارے واپس بھی آئے ہیں تاہم اس کے باوجود اب بھی ایم کیو ایم کے 100 سے زیادہ ایسے کارکن موجود ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان گمشدہ افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سندھ حکومت کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت نے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کے روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسانی حقوق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کہا گیا ہے کہ حکومت قوانین میں ترمیم کر کے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ اور یہ مقدمات ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کے واقعات ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس میں بسا اوقات پولیس، انٹیلی جینس ادارے، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدمات، غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے الزامات کی فوج سختی سے تردید بھی کرتی آئی ہے۔
The post سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دع��یٰ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sTAfGx via
0 notes
dragnews · 6 years
Text
سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ
کراچی — 
حکومت سندھ کے محکمہ داخلہ نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں لاپتا افراد کے 86 فی صد مقدمات کو حل کر لیا گیا ہے۔
جبری گمشدگی اور لاپتا افراد کے کیس سے متعلق یہ رپورٹ حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو بھجوا دی ہے۔
وائس آف امریکہ کو ملنے والی اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں لاپتا افراد کی تعداد 3758 تھی جن میں سے 3238 افراد واپس آ چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب بھی 520 مقدمات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں جن میں سے 156 لاپتا افراد کے کیسز کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے پاس زیر التوا ہیں۔
جبکہ سندھ ہائی کورٹ میں اس وقت بھی لاپتا افراد سے متعلق 364 مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ان تمام مقدمات اور کمشن میں التواء کیسز کو ملا کر کُل 520 افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں اب تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے مسنگ پرسنز کے 86 فی صد کیسز حل کئے گئے ہیں، جبکہ باقی ماندہ افراد کی تلاش کا کام بھی جاری ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جبری گمشدہ افراد کے 23 خاندانوں کو 5 لاکھ روپے فی کس مالی مدد بھی دی ہے۔
لاپتا افراد سے متعلق کمشن وفاقی وزارت داخلہ نے 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قائم کیا تھا اور صوبہ سندھ سے جبری گمشدہ افراد کے کیسز کی سماعت کمشن نے کراچی اور اسلام آباد میں مختلف اوقات میں کی تھی۔
رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کمشن پاکستان کی کونسل رکن اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا فی الحال مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں لاپتا افراد مل رہے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری جانب مزید لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
زہرہ یوسف نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے جب تک شہریوں کو گمشدہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے جبری گمشدگیوں پر دستخط کرنا چاہیئیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں بغیر کسی انتظار کے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور حراستی مراکز میں لوگوں کو رکھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ گمشدہ افراد سے متعلق متحدہ قومی موومنٹ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ ایم کیوایم کا دعوی ہے کہ اس کے سینکڑوں کارکن لاپتا کیے گئے جن میں سے بہت سوں کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
متحدہ قومی مومنٹ کے لاپتا کارکنوں کی جانب سے عدالتوں میں پیش ہونے والے معروف وکیل مزمل میو ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہت سے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کے پیارے واپس بھی آئے ہیں تاہم اس کے باوجود اب بھی ایم کیو ایم کے 100 سے زیادہ ایسے کارکن موجود ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ ان کے مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان گمشدہ افراد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
سندھ حکومت کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت نے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کے روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت انسانی حقوق سے متعلق ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق کہا گیا ہے کہ حکومت قوانین میں ترمیم کر کے شہریوں کو جبری گمشدہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی۔ اور یہ مقدمات ملک کی سول عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔
پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کے واقعات ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے جس میں بسا اوقات پولیس، انٹیلی جینس ادارے، فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ایسے غیر قانونی اقدمات، غیر آئینی اور انسانی حقوق کے خلاف سرگرمیوں کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسے الزامات کی فوج سختی سے تردید بھی کرتی آئی ہے۔
The post سندھ حکومت کا 86 فی صد لاپتا افراد کی واپسی کا دعویٰ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sTAfGx via Today Pakistan
0 notes
gcn-news · 5 years
Text
کیا بیٹیوں کے ساتھ کوئی ایسا بھی کرتا ہے؟
کراچی (جی سی این رپورٹ) کراچی کے علاقے ناظم آباد میں بیٹی پر تشدد کرنے والا باپ گرفتار۔ مکنیکل انجینئر ہوں، طلاق ہو چکی ہے، بچی کی گھر میں بہت لڑائیاں ہوتی تھیں، بچیاں حد سے بڑھ گئیں تو مجھے مارنا پڑا۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے ناظم آباد میں اپنی بیٹی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنانے والے باپ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سنگدل باپ نے انتہائی بے دردی کے ساتھ اپنی بیٹی پر تشدد کیا، تشدد کے دوران بننے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ملزم کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جس پر صوبائی حکومت حرکت میں آئی اور واقعے کی تحقیقات شروع ہوئیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی جی سندھ کلیم امام نے باپ کی جانب سے بیٹی پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کا نوٹس لیا اور ایس ایس پی سینٹرل کو فوری طور پر ملزم کو گرفتار کرنے کی ہدایت جاری کی جس پر پولیس نے باقاعدہ کارروائی شروع کر دی۔ تشدد کرنے والے آدمی کی شناخت دلدار بھٹی کے نام سے ہوئی جس پر پولیس نے دلدار بھٹی نامی ملزم کو گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے بعد ملزم دلدار بھٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ بچی کو گھر میں لڑائی کرنے کی وجہ سے مارا، ملزم کا کہنا ہے کہ میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، بچیاں حد سے بڑھ رہی تھیں اس لیے ان کو مارنا پڑا۔ ملزم نے پولیس کو بتایا کہ میں مکنیکل انجینئر ہوں، غریب ہوں جس کے باعث طلاق ہو چکی ہے۔ https://www.facebook.com/KarachiNewsAlerts1/videos/243962386593933/ ملزم نے بتایا کہ طلاق کے بعد بچوں کا خرچہ میں برداشت کرتا ہوں، میری سابقہ بیوی نے مجھے خود بلایا تھا اور گھر آ کر بچوں کو سمجھانے کا کہا تھا۔ ملزم کا مزید کہنا ہے کہ غربت کی وجہ سے میری طلاق ہوئی ہے، اگر غربت نہ ہو تو میں بچوں کو اپنے پاس رکھوں۔ علاوہ ازیں ملزم نے بچی پر تشدد کا اعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کا بھی اظہار کیا ہے۔ قبل اس کے وزیراعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق ویرجی کوہلی نے ناظم آباد کے علاقے میں سنگدل باپ کی جانب سے بیٹی پر بدترین تشدد کرنے کے واقعہ کی میڈیا پر چلنے والی خبر پر نوٹس لیتے ہوئے محکمہ انسانی حقوق سندھ کے متعلقہ افسران کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ متاثرہ لڑکی سے فوری ملاقات کریں اور اسے انصاف دلانے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں کسی بھی شخص یا ادارے کو انسانی حقوق کی پامالی کی اجازت نہیں دیں گے۔ تشدد کرنے والے شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی تا کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ پیش نہ آئے۔ Read the full article
0 notes