Tumgik
#میانمار
urduchronicle · 10 months
Text
میانمار نے افیون کی پیداوار میں افغانستان کو پیچھے چھوڑ دیا
اقوام متحدہ کی منگل کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان حکومت کے کریک ڈاؤن کے بعد میانمار 2023 میں افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا، جس نے افغانستان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، میانمار نے اس سال اندازاً 1,080 میٹرک ٹن افیون کی پیداوار کی، افیون ہیروئن کی پیداوار میں استعمال ہوتی ہے۔ UNODC کے مطابق، پچھلے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
صدرمملکت کو 7ممالک کے سفرا نے سفارتی اسناد پیش کردیں
 صدر آصف علی زرداری کو 7 ممالک کے سفراء نے سفارتی اسناد پیش کر دیں۔ صدر مملکت کو زمبابوے، تاجکستان، روانڈا، ارجنٹائن، میانمار، کمبوڈیا اور بوٹسوانا کے سفراءنے اسناد پیش کیں۔بعد ازاں ، سفراء نے صدر مملکت سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔ صدر مملکت آصف زرداری نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں ،دوست ممالک پاکستان کے سرمایہ کاری دوست ماحول سے فائدہ اٹھائیں،غیر ملکی سرمایہ کار…
0 notes
risingpakistan · 9 months
Text
بے وطنوں کی دنیا
Tumblr media
16 دسمبر پھر آ گیا ہے۔ یہ 52 سال قبل مشرقی پاکستان میں آیا تھا۔ وہ پاکستان اور مشرقی پاکستان جس کی بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں۔ یقیناً آڑے وہی ہیں جنہیں مشیر کاظمی نے کہا تھا۔ کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
اب اس 16 دسمبر میں غزہ کی جھلک شامل ہو رہی ہے۔ اس لیے بات صرف مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے محصورین پاکستان کی ہو گی کہ پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۔ فلسطین میں بھی یہ واردات کی جانے کی تیاری ہے۔ وہ محصورین پاکستان جن کے ساتھ اب نام کی حد تک بھی پاکستان کا نا�� اور شناخت باقی نہیں رہی۔ بس ایک یاد ہے جو بہت تلخ، تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ ان محصورین کا تذکرہ اس لیے کیا جانا چاہیے کہ اس لہو کا اتنا تو حق ہے۔ یہ وہ لہو تھا جو ’پاکستان کے لیے بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا۔‘   ایک طرف وہ خون تھا جو البدر و الشمس کے مشرقی پاکستانی نوجوانوں نے پاکستان کے لیے دیا تھا اور بعد ازاں اس خون کی قربانی دینے والوں کو ابھی کل کی بات ہے مطیع الرحمٰن نظامی سے پروفیسر غلام اعظم تک پھر قربان ہونا پڑا۔ ان ہی قربانی دینے والوں میں وہ محصورین پاکستان ہیں جو 1971 سے لے کر آج تک وہیں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں بے بسی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کئی نسلیں انہی کیمپوں میں جی جی کے مرنے اور مر کے جینے پر مجبور ہیں۔ انہیں بنگلہ دیش قبول اور برداشت کرنے کو تیار ہے نہ پاکستان کی اتھارٹیز اپنے ہاں واپس لانے کو تیار ہیں۔ اپنے ہاں واپس لانے کی بات اس لیے کہی ہے کہ یہ سب اول و آخر پاکستانی تھے مگر پاکستان کی اتھارٹیز نے انہیں اپنے لیے ’بوجھ‘ سمجھ لیا۔ کبھی کبھی لگتا ہے ساری مسلم مملکتیں فلسطینی اتھارٹی کی طرح ہی بے بس اور کمزور ہیں۔ بے حس و حرکت، بے اختیار اور بے معنی۔ 1997 میں محصورین پاکستان کے قائد الحاج نسیم خان کی طرف سے اس وقت کی پاکستان کی منتخب اور دو تہائی اکثریت رکھنے والی عوامی جمہوری حکومت کے سامنے تجویز پیش رکھی تھی۔ محصورین کے نمائندہ فورم ’ایس پی جی آر سی‘ کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی اتھارٹیز باہم مل بیٹھ کر محصورین کے مستقبل کا فیصلہ کریں مگر اس وقت کی حکومت نے اس تجویز کو ’عزت دو کا مطالبہ‘ مان کر نہ دیا۔
Tumblr media
نتیجہ یہ ہے کہ 52 سال بیت گئے مگر یہ محصورین پاکستان آج تک اپنے وطن پاکستان آ سکے، نہ لائے جا سکے اور نہ ہی پاکستان اتھارٹیز (پی اے) کو قبول ہونے کی نوید پا سکے۔ کیا کل کلاں اسی حالت میں فلسطینیوں کو دیکھنے کی سازش بروئے کار ہے؟ محصورین پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل انہی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پل کر جوان اور بوڑھی ہو گئی۔ مگر ان کی قسمت نہ کھل سکی۔ اب ان کے بڑے جنہوں نے اپنے پیارے پاکستان کے لیے بنگلہ دیش بنانے والوں کی مخالفت مول لی تھی، انہی بنگلہ دیش کی ’حسینہ‘ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں اور مقامات پر 70 کیمپوں میں سے 1992 کے رابطہ عالم اسلامی کے تعاون سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق اس وقت دو لاکھ 35 ہزار 440 کی تعداد میں موجود تھے۔ اب ان کی آبادی کیا ہے، اس آبادی کا مسقبل کیا ہے، ہماری بلا سے! والی صورت حال ہے۔ اس سلسلے میں بے تعلقی و اجنبیت کی ایک موٹی دیوار حائل ہے۔ جی ہاں مفادات کی دیوار، بےحسی کی دیوار اور احسان فراموشی کی دیوار۔ ہم عالم اسلام کا ایک قلعہ ہیں، اس قلعے کی اونچی فصیلوں کو کون پھلانگ سکتا ہے۔ ماسوائے ایبٹ آباد میں بھی دو مئی کو سرحدیں پھلانگ کر آ جانے والوں کے۔
انہیں محصورین پاکستان کے پڑوس میں میانمار کے بے وطن بنا دیے گئے روہنگیا مسلمان بھی ہیں۔ صدیوں سے میانمار کے باشندے ہونے کے باوجود ان روہنگیا مسلمانوں کو اندھی طاقت اور مذہب کا متعصبانہ استعمال کرنے والوں نے انہیں نکال باہر کیا۔ ہاں یہ درست ہے کہ ’روہنگیا‘ کو بمباری کر کے اور جدید ترین بحری بیڑوں کو قریب تر منگوا کر نکال باہر نہیں کیا گیا۔ ان پر صرف فوجی بندوقوں سے گولیاں برسا کر یا پھر ان کے گھروں کو آتش گیر مادے سے آگ لگا کر پہلے انہیں بے گھر کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں جلاتے اور مارتے ہوئے زندگی سے بیگانہ یا گھروں اور ملکی سرحدوں سے دور کر دیا۔ مشرقی پاکستان اور میانمار کی ان ہی مثالوں نے مجبور کیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر یا اردن میں محصور کر دیے جانے کے درد کو ابھی محسوس کر لیا جائے۔ ان کی بے گھری اور بے وطنی کے دکھ کو سمجھ لیا جائے کہ واقفان حال اور کھلی آنکھیں رکھنے والے سارے دیکھ رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر سات اکتوبر سے ’ایف 35‘ طیاروں کی مدد سے جاری بمباری اور چند ہفتوں سے شروع کر دی گئی ’مرکاوا‘ ٹینکوں سے گولہ باری یہی بتا رہی ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں سے غزہ کو پاک کر دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
حماس کے صفائے کا نام محض اصطلاحاً لیا جا رہا ہے تاکہ راستے میں سلامتی کونسل آ جائے تو اس پر ویٹو کا ہتھیار چلایا جا سکے۔ کوئی مسلمان ملک آنے کا سوچے یا زبانی ردعمل بھی دے تو اس کی قیادت کو اپنے پاس بلا لیا جائے۔ اگر ضروری ہو تو دھمکا دبکا دیا جائے۔ دولت و طاقت کے تمام نشے میسر ہونے کے باوجود سب ’آب غلیظ‘ کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت اب تک غزہ کے 80 فیصد سے زائد رہائشی فلسطینیوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے۔ جی ہاں! بےگھر، بےدر اور آنے والے دنوں میں بے وطن کر دیے جانے کے خطرے کی زد میں ان فلسطینیوں کے آنے کا سو فیصد امکان بتایا جا رہا ہے۔ زبان و بیان کے فخر اور غرور کے تاج سروں پر سجائے پھرنے والے اور دنیا کے کئی خطوں میں پھیلے سب گونگے لوگ عملاً گونگے شیطان سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ایک اندر کے آدمی اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’اونروا‘ کے سربراہ فلپ ارزارمینی نے لنکا ڈھا دی ہے۔ انہوں نے ’لانس اینجلس ٹائمز‘ میں لکھے گئے اپنے تازہ ترین مضمون میں خبردار کیا ہے کہ ’اسرائیل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی طرف دھکیل دیا جائے۔‘
اگرچہ اسرائیل اس امر کی تردید کرتا ہے اور غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے سب سے بڑے مؤید و معاون امریکہ سمیت دیگر وغیرہ وغیرہ فلسطینیوں کے انخلا کے بظاہر حق میں نہیں ہیں۔ لیکن جس طرح منظم انداز میں غزہ پر بمباری کے لیے اسرائیل کو ہر طرح سے اور مسلسل مدد فراہم کی جا رہی ہے تو اس سے صاف لگتا ہے کہ سب کا اصلاً ایک ہی مقصد ہے کہ فلسطین کو فلسطینیوں سے پاک کر کے اسرائیلی قبضے کو آگے بڑھا لیا اور مستحکم کر لیا جائے۔ ’اونروا‘ سربراہ فلپ لازارینی کے اس تحریر کردہ مضمون کے مندرجات اس لیے بھی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتے ہیں کہ وہ نہ صرف ’اندر‘ کے آدمی ہیں بلکہ غزہ جنگ کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہ غزہ سے فلسطینیوں کی بے گھری کے چشم دید گواہ ہیں۔ سلامتی کونسل سے امریکہ کی جنگ بندی کے خلاف ویٹو کی تازہ گواہی اس پر مستزاد ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے بھی امریکہ کے حالیہ دورے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد دوحہ کانفرنس میں خطاب کے دوران یہی کہا ہے کہ ’اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلنے کی منظم پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔‘ 
اور تو اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتوتیو گوتیریش نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے طور اطوار کے بعد جو ’حاصل کلام‘ پیش کیا ہے وہ یہی ہے ’اقوام متحدہ ’جیو سٹریٹیجک‘ تقسیم کی وجہ سے مفلوج ہو گئی ہے۔‘ بلاشبہ اقوام متحدہ پہلے بھی تیسری دنیا کے بسنے والوں اور مسلمان اقوام کے لیے بالخصوص ایک فالج زدہ ’باڈی‘ رہی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کو طاقتوروں کے ساتھ مل کر کھیلنے کے لیے بھی جو لبادہ ضروری معلوم ہوتا تھا اب اس سے چھین لیا گیا ہے۔ غزہ میں تو بہت ساری مہذب دنیا اور عالمی اداروں کے چہروں کا خوشگوار سا لگنے والا غازا فلسطینی بچوں کے خون سے دھل کر صاف ہو گیا ہے۔ وگرنہ گوتریش اور ان کے پیش رو سیکریٹری جنرل حضرات کے سامنے ہی 75 برسوں سے فلسطین و کشمیر پر ان کی قراردادیں اسرائیل و انڈیا کی طرف سے سرعام ہی تو روندیں جاری رہی تھیں۔ فلسطینیوں کا حق واپسی، آزاد ریاست کا حق سب اقوام متحدہ کی موجودگی میں اسرائیلی صوابدید اور من مانیوں کی نذر رہا ہے۔
کیا اقوام متحدہ کو نظر نہیں آتا رہا کہ فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی اسرائیل کو دیے گئے ہتھیاروں کے علاوہ امریکہ و یورپ کی سرپرستی میں کروائے گئے اوسلو معاہدے ایسے معاہدوں کی صورت بھی نہیں کی جاتی رہی؟ ان سازشی معاہدوں پر بھی عمل نہ کرا سکنا اقوام متحدہ کے پیدائشی فالج زدہ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ یہی صورت کشمیر کے حوالے سے انڈین کردار کی رہی۔ پانچ اگست 2019 کے انڈین اقدام سے اپنے ہی آئین کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کے لیے موجود اکلوتی کڑی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اب بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار اور ’آر ایس ایس‘ کے انداز میں کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کا ادارہ اس بارے میں کبھی کوئی حس و حرکت دکھا سکا یا اب دکھا سکے گا؟ یہ مفلوج عالمی ادارہ اگر تھوڑا بھی واپس آنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے لیے چمڑے کے ایک ٹکڑے کی طرح محسوس کر لے، سانس اور اوسان بحال ہو گئے تو افاقہ ہو جائے گا، ورنہ ہمیشہ کی موت کا اعلان کرنے کا جواز رد نہ کیا جا سکے گا۔
کیونکہ اسرائیل اور بھارت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عالمی طاقتوں کا ایک لاڈلا مشرق وسطیٰ میں ہے اور دوسرا جنوبی ایشیا میں۔ ایک فلسطینیوں کے حق واپسی اور حق خود ارادیت کو کچل رہا ہے اور فلسطینیوں کو بے گھر کر کے مار رہا ہے تو دوسرا کشمیریوں کے ساتھ یہی سلوک پچھلے 75 سال سے کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی عمل داری کے دونوں باغی ہیں۔ دونوں سرکشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حق میں فیصلے سے کشمیر کی ’ڈیموگرافی‘ تبدیل کر کے قضیہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس مقدمے کی عدالت میں سماعت کے دوران کبھی اقوام متحدہ کا نوٹس نہ لینا شرمناک سے کم نہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک زیر التوا معاملے پر کیسے فیصلہ دے سکتی ہے۔ ہماری بات چھوڑیں ہم تو اپنے ملک کے اندر چوک چوراہوں پر اپنی عزت بچا کر بھاگ رہے تھے اور پاک وطن کی معیشت کی جلیبی کو سیدھا کرنے میں مگن ہیں۔ اسی بے عملی کا نتیجہ ہے کہ اب محصورین کے پاکستانی ماڈل کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل بروئے کار لا رہا ہے۔
فلسطینیوں کو پہلے غزہ سے اور پھر مغربی کنارے سے نکال کر ادھر ادھر دھکیل دو�� پھر انہیں واپسی سے روکنے کے لیے طاقت استعمال کرتے رہو۔ ان کے کیمپوں پر بمباری کرتے رہو۔ انہیں اسی صحرائے سینا میں گھماتے پھراتے اور مارتے دباتے رہو۔ جس میں کئی صدیاں پہلے خود یہودیوں نے 40 سال اسی صحرا میں بھٹک بھٹک کر گزار دیے تھے۔ کم از کم 40 سال تو ان فلسطینیوں پر بھی یہ خواری مسلط کی جا سکتی ہے۔ پھر کون سا مسئلہ فلسطین، کون سے آزادی پسند فلسطینی، کہاں کی حق واپسی کے لیے سنبھال سنبھال کر رکھی گئی چابیاں اور کون سے سرزمین فلسطین پر آبائی گھر؟ اتنے عرصے میں تو آسانی سے مسجد اقصیٰ کے مینارے بھی یورپ و امریکہ ہی نہیں خلیج و عرب میں ابھر چکے عظمت کے نئے نئے میناروں کے سامنے ایک بھولی بسری تاریخ بن چکے ہوں گے۔ اسرائیل کی یہ سوچ اس تناظر میں کافی کارگر ہوتی نظر آتی ہے کہ ہر طرف سناٹا ہے، خاموشی ہے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کا سکہ رائج ہے۔ 16 دسمبر کی طرح ہتھیار ڈالنے والا ماحول شرق سے غرب تک پھیل چکا ہے۔ عرصے سے طاؤس و رباب اول طاؤس و رباب آخر کا ماحول ہے۔ ایسے میں بے وطنوں میں اضافہ کرنا کیونکر ممکن یا مشکل ہو سکتا ہے۔
تو کیوں نہ بے وطنوں کی ایک نئی دنیا بسا دی جائے، غزہ سے باہر، رفح کے اس پار اور صحرائے سینا کے بیچوں بیچ، ایک بے آب و گیاہ دنیا۔ امریکہ اور مغربی وغیرہ وغیرہ کی مدد سے۔ جہاں لوگ پاکستانی محصورین اور روہنگیا محاجرین کو بھول گئے وہیں فلسطینیوں کے لیے کون تڑپے گا؟
منصور جعفر  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
thefootofan · 11 months
Link
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
ہندوستانی ریلوے پہنچے گی چین کی سرحد تک
نئی دہلی//حکومت نے پڑوسی ممالک – چین، نیپال، بنگلہ دیش، میانمار اور بھوٹان کے ساتھ ریلوے رابطے کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور نئے مالی سال کے بجٹ میں بھی اس کا التزام کیا ہے ، جن میں سکم کی چین کے ساتھ سرحد پر نتھو لا پاس تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شامل ہے ۔ سکم کے علاوہ ذرائع کے مطابق اس بار کے بجٹ میں ریلوے کی التزامات میں نیپال کے ساتھ سات ریلوے لنکس، بھوٹان کے ساتھ دو لنک، میانمار کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
ہندوستانی ریلوے پہنچے گی چین کی سرحد تک
نئی دہلی//حکومت نے پڑوسی ممالک – چین، نیپال، بنگلہ دیش، میانمار اور بھوٹان کے ساتھ ریلوے رابطے کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور نئے مالی سال کے بجٹ میں بھی اس کا التزام کیا ہے ، جن میں سکم کی چین کے ساتھ سرحد پر نتھو لا پاس تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شامل ہے ۔ سکم کے علاوہ ذرائع کے مطابق اس بار کے بجٹ میں ریلوے کی التزامات میں نیپال کے ساتھ سات ریلوے لنکس، بھوٹان کے ساتھ دو لنک، میانمار کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
ہندوستانی ریلوے پہنچے گی چین کی سرحد تک
نئی دہلی//حکومت نے پڑوسی ممالک – چین، نیپال، بنگلہ دیش، میانمار اور بھوٹان کے ساتھ ریلوے رابطے کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور نئے مالی سال کے بجٹ میں بھی اس کا التزام کیا ہے ، جن میں سکم کی چین کے ساتھ سرحد پر نتھو لا پاس تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ شامل ہے ۔ سکم کے علاوہ ذرائع کے مطابق اس بار کے بجٹ میں ریلوے کی التزامات میں نیپال کے ساتھ سات ریلوے لنکس، بھوٹان کے ساتھ دو لنک، میانمار کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
میانمار: بدبودار پانی میں روزگار تلاش کرتی خواتین
مایو اپنی ’ریور کلینرز‘ کی ٹیم کے ساتھ پلاسٹک کی عارضی کشتی کو خلیج ینگون کے گندے پانی میں اتارتی ہیں تاکہ اسے پلاسٹک اور ٹِن کے ڈبوں سے پاک کیا جا سکے۔ ان کے ساتھ تقریباً دس افراد کا ایک گروپ صبح سویرے پازنڈانگ کریک پر کام کرنے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔ انہیں یہ کام کرنا ہے کیوں کہ 2021 میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے بعد میانمار کو معاشی مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ خلیج کا پانی گندا اور بدبودار ہے۔ یہ لوگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
بھارت میں انتہا پسندوں کا میانمار کےطرز پر مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ .. عالمی برادری خاموش Yes Urdu - Overseas Urdu News | Yes Urdu
(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)بھارت میں ہندو انتہا پسند مذہبی رہنما کھلے عام بھارت میں مسلمانوں کی میانمار طرز کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔قلیتوں کو بھارت میں اس سے پہلے اپنی بقا کے خدشات اتنے شدید نہ تھے جتنے موجودہ بی جے پی حکومت نے وزیراعظم مودی کی قیادت میں پیدا کر دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت آر ایس ایس کے ساتھ مل کر بھارت سے تمام اقلیتوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کئی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
toptopic4u · 2 years
Text
بھارت میں انتہا پسندوں کا میانمار کےطرز پر مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ .. عالمی برادری خاموش Yes Urdu - Overseas Urdu News | Yes Urdu
(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)بھارت میں ہندو انتہا پسند مذہبی رہنما کھلے عام بھارت میں مسلمانوں کی میانمار طرز کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔قلیتوں کو بھارت میں اس سے پہلے اپنی بقا کے خدشات اتنے شدید نہ تھے جتنے موجودہ بی جے پی حکومت نے وزیراعظم مودی کی قیادت میں پیدا کر دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت آر ایس ایس کے ساتھ مل کر بھارت سے تمام اقلیتوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کئی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
سرکاری ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال، آنگ سانگ سوچی کومزید7 سال قید کی سزا
سرکاری ہیلی کاپٹر کا غلط استعمال، آنگ سانگ سوچی کومزید7 سال قید کی سزا
آنگ سانگ سوچی گزشتہ برس فوجی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جیل میں ہیں:فوٹو:فائل ینگون: میانمار کی رہنما آنگ سانگ سوچی کو سرکاری ہیلی کاپٹر کے غلط استعمال پر مزید 7 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق میانمار کی نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سانگ سوچی کوعہدے ہٹنے کے باوجود سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر مزید 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ میانمار کی 77 سالہ رہنما آنگ سانگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
میانمار نے ٹیلی کام فراڈ کے 31 ہزار ملزم چین کے حوالے کر دئیے
چینی حکام نے منگل کو کہا کہ میانمار کے حکام نے ٹیلی کام فراڈ کے 31 ہزار مشتبہ ملزموں کو چین کے حوالے کیا ہے جب سے دونوں ممالک کے قانون نافذ کرنے والے افسران نے ستمبر میں آن لائن گھوٹالوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ وزارت پبلک سیکیورٹی نے ایک بیان میں کہا کہ مشتبہ افراد میں 63 “فنانسرز” اور کرائم سنڈیکیٹس کے سرغنہ شامل ہیں جنہوں نے چینی شہریوں کو بڑی رقم کا دھوکہ دیا۔ وزارت نے کہا کہ کریک ڈاؤن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
افغان مہاجرین اور کمہار کا گدھا
Tumblr media
نا کوئی یہ پہلا موقع ہے نہ ہی آخری کہ غیر قانونی افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ چھلے چالیس برس سے سارا گیم اندازوں پر چل رہا ہے۔ مثلاً دراصل کتنے پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں؟ پینتالیس لاکھ، چالیس لاکھ یا تیس لاکھ؟ ان میں رجسٹرڈ کتنے ہیں؟ چودہ لاکھ، دس لاکھ، آٹھ لاکھ؟ بغیر دستاویزات کے کتنے ہیں سترہ لاکھ یا پونے آٹھ لاکھ؟ واپس کتنے گئے اور دوبارہ آ گئے؟ اگست دو ہزار اکیس میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد کتنے نئے پناہ گزین آئے؟ پونے دو لاکھ، ساڑھے تین لاکھ یا چھ لاکھ؟ کتنے روزانہ سرحد پار سے آتے ہیں اور کہاں کہاں جاتے ہیں؟ ان میں سے کتنے اقوامِ متحدہ کے وظیفے پر گزارہ کر رہے ہیں؟ کتنے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور کتنے پاکستانیوں کے کاروباری شراکت دار ہیں؟ مذکورہ بالا سوالوں میں سے کسی ایک کا حتمی جواب نہ تو حکومتِ پاکستان کے کسی ایک ادارے کے پاس ہے اور نہ ہی اقوامِ متحدہ کے پاس۔ جب یہ بنیادی معلومات ہی آپس میں نہیں ملتیں تو پھر کس بنیاد پر یہ اعلان کیا گیا کہ اگر اکتیس اکتوبر تک غیر قانونی تارکینِ وطن نے پاکستان نہیں چھوڑا تو انہیں حراست میں لے کے ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
پاکستان میں محض افغان ہی نہیں بلکہ بنگالی، برمی، ایرانی، وسطی ایشیائی اور مشرقِ وسطی و شمالی افریقہ کے بھی باشندے موجود ہیں۔ فرض کریں کہ حکومتِ پاکستان واقعی ان سب کو نکالنے میں سنجیدہ ہے تو عملاً یہ کیسے ہو پائے گا؟ ایسے ہر کریک ڈاؤن میں ہراول ادارہ مقامی پولیس ہوتی ہے۔ کیا کسی جامع کریک ڈاؤن کے لیے پولیس کے پاس ضروری تکنیکی تربیت و آگہی ہے؟ تاکہ غیر قانونی گیہوں کے ساتھ ساتھ قانونی گھن نہ پس جائے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر بار ایسی مہم میں پولیس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ اندھا دھند گرفتاریاں ہوتی ہیں اور پھر قانونی و جائز غیر ملکیوں کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کر کے پیسے لے کے چھوڑا جاتا ہے۔ فرض کریں کریک ڈاون کے نتیجے میں افغان پناہ گزینوں سمیت ہر قومیت کے مجموعی طور پر پانچ لاکھ افراد حراست میں لے لیے جاتے ہیں۔ مگر افغانستان، بنگلہ دیش، ایران یا کوئی بھی عرب ملک ان پناہ گزینوں کو واپس لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ تب حکومتِ پاکستان ان لاکھوں غیر قانونی پناہ گزینوں کو کہاں اور کتنی دیر رکھے گی؟ اس مہم کو بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے ایک عالمگیر انسانی مسئلہ بننے سے کیسے روکے گی؟
Tumblr media
فرض کریں کہ یہ سب ممالک اپنے اپنے شہریوں کو واپس لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی ٹرانسپورٹیشن کیسے ہو گی؟ اس ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کون دے گا؟ میزبان ملک؟ اپنے لوگ وصول کرنے والا ملک؟ اقوامِ متحدہ یا کوئی اور ادارہ؟ اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا تو مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا نے میانمار کے لگ بھگ پانچ لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بسانے کی پیش کش کی تھی۔ شرط یہ تھی کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم یا پھر متمول ممالک انہیں طیاروں یا بحری جہازوں کی مدد سے گیمبیا پہنچا دیں۔ مگر یہ اتنا بڑا اور مہنگا کام تھا کہ امیر خلیجی ریاستوں نے بھی کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گذشتہ ایک عشرے سے روہنگیا پناہ گزین کس طرح اور کہاں کہاں خانماں برباد ہیں۔ ایران میں اس وقت لگ بھگ چونتیس لاکھ افغان پناہ گزین ہیں۔ ان میں سے سات لاکھ اسی ہزار کے پاس ضروری دستاویزات ہیں جبکہ باقی یا تو عارضی شناختی کارڈ پر ہیں یا پھر دستاویزات کے بغیر۔ ان میں سے لگ بھگ چھ لاکھ پناہ گزین طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد آئے۔
اگرچہ چورانوے فیصد مہاجرین شہری علاقوں میں اور چار فیصد ایران افغان سرحد کے ساتھ ساتھ بیس کیمپوں میں رہتے ہیں۔ مگر ان کی نقل و حرکت محدود ہے۔ انہیں روزگار کے لیے عارضی ورک پرمٹ بنوانا پڑتا ہے۔ ایرانی انٹیلی جینس ہمہ وقت نظر بھی رکھتی ہے اور حساس اداروں کے پاس ان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ رہتا ہے۔ انہیں محدود پیمانے پر صحت و تعلیم کی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ لیکن اگر کوئی پناہ گزین بغیر کسی دستاویز کے پکڑا جائے یا مقامی قانون کو توڑنے کا مرتکب ہو تو اسے فوری طور پر ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ حالیہ برس کے پہلے چھ ماہ میں لگ بھگ ڈھائی لاکھ پناہ گزینوں کو واپس سرحد پار بھیجا گیا۔ جب افعانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر پاکستان میں داخل ہوئی تو اس وقت کی عمران حکومت نے اعلان کیا کہ نئے آنے والوں کو ملک بھر میں پھیلنے سے روکنے کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ بیس کلومیٹر کی پٹی میں قائم کردہ کیمپوں میں رکھا جائے گا۔ ایسے کتنے کیمپ بنائے گئے؟ خدا بہتر جانتا ہے۔ نئے آنے والے پناہ گزین بھی پہلے سے موجود پناہ گزینوں کی بھیڑ میں جذب ہو گئے۔
اس وقت کئی لاکھ پناہ گزین وہ ہیں جن کی تین نسلوں نے افغانستان نہیں دیکھا۔ جو بچے اور ان کے بچے اور ان کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں کس کیٹیگری میں رکھا جائے گا اور افغانستان کی کوئی بھی حکومت آخر انہیں کیوں قبول کرے گی ؟ اکثر متمول پناہ گزین پاکستان کے راستے خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ جو متوسط پناہ گزین ہیں وہ پاکستانی شناحتی کارڈ اور پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام دو ہزار سولہ تک اس منظم ریکٹ سے انکار کرتے رہے مگر جب مئی دو ہزار سولہ میں طالبان کے امیر المومنین ملا اختر منصور ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنے اور ان کی گاڑی سے پاکستانی شہریت کی دستاویزات برآمد ہوئے۔ اس کے بعد پاکستانی اداروں نے جھینپ مٹانے کے لیے ایک اندرونی ادارہ جاتی کریک ڈاؤن شروع کیا اور وہ بھی کچھ ہفتے میں ہانپ گیا۔ سرحد پار سے کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں حالیہ تیزی کے بعد پاکستانی ریاست کو پھر غصہ آیا ہے اور ہر بار کی طرح یہ غصہ پناہ گزینوں پر ہی نکل رہا ہے۔ مگر یہ غصہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان کی طرح جلد تھم جائے گا۔ کیونکہ بغیر تیاری کے غصے کا ایک ہی انجام ہوتا ہے۔ آپ میں سے کون کون اس محاورے سے ناواقف ہے کہ ”کمہار پے بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دئیے”
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
hindiurdunews · 2 years
Text
بھارت میں انتہا پسندوں کا میانمار کےطرز پر مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ .. عالمی برادری خاموش Yes Urdu - Overseas Urdu News | Yes Urdu
بھارت میں انتہا پسندوں کا میانمار کےطرز پر مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ .. عالمی برادری خاموش Yes Urdu – Overseas Urdu News | Yes Urdu
(اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک)بھارت میں ہندو انتہا پسند مذہبی رہنما کھلے عام بھارت میں مسلمانوں کی میانمار طرز کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔قلیتوں کو بھارت میں اس سے پہلے اپنی بقا کے خدشات اتنے شدید نہ تھے جتنے موجودہ بی جے پی حکومت نے وزیراعظم مودی کی قیادت میں پیدا کر دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت آر ایس ایس کے ساتھ مل کر بھارت سے تمام اقلیتوں کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کئی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
میانمار: بدبودار پانی میں روزگار تلاش کرتی خواتین
مایو اپنی ’ریور کلینرز‘ کی ٹیم کے ساتھ پلاسٹک کی عارضی کشتی کو خلیج ینگون کے گندے پانی میں اتارتی ہیں تاکہ اسے پلاسٹک اور ٹِن کے ڈبوں سے پاک کیا جا سکے۔ ان کے ساتھ تقریباً دس افراد کا ایک گروپ صبح سویرے پازنڈانگ کریک پر کام کرنے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔ انہیں یہ کام کرنا ہے کیوں کہ 2021 میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے بعد میانمار کو معاشی مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ خلیج کا پانی گندا اور بدبودار ہے۔ یہ لوگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
میانمار: بدبودار پانی میں روزگار تلاش کرتی خواتین
مایو اپنی ’ریور کلینرز‘ کی ٹیم کے ساتھ پلاسٹک کی عارضی کشتی کو خلیج ینگون کے گندے پانی میں اتارتی ہیں تاکہ اسے پلاسٹک اور ٹِن کے ڈبوں سے پاک کیا جا سکے۔ ان کے ساتھ تقریباً دس افراد کا ایک گروپ صبح سویرے پازنڈانگ کریک پر کام کرنے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔ انہیں یہ کام کرنا ہے کیوں کہ 2021 میں اقتدار پر فوج کے قبضے کے بعد میانمار کو معاشی مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ خلیج کا پانی گندا اور بدبودار ہے۔ یہ لوگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes