Tumgik
#نئے سربراہ
emergingpakistan · 2 years
Text
عمران خان کی نا اہلی
پاکستانی جمہوریت کا المیہ یہ رہا کہ اس کے مقدر میں ہمیشہ کم نصیبی ہی آئی۔ پروڈا اور ایبڈو جیسے کالے قوانین ماضی میں جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئے۔ آج کے زمانے میں نیب وہی کچھ کر رہا ہے جو ماضی میں ایبڈو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ ہماری جمہوریت کے دامن میں نااہلیاں ہیں، پھانسیاں ہیں اور جلاوطنیاں ہیں۔ سزائیں اور کال کوٹھڑیاں ہیں، ہماری جمہوریت کا دامن محترمہ بے نظیر بھٹو کے دن دہاڑے قتل کے خون سے رنگین ہے اور میاں نواز شریف کی بار بار سزا کا داغ بھی اس کی پیشانی پر نمایاں ہے۔ جمہوریت کے قبرستان میں عمران خان کی نااہلی کی صورت میں ایک تازہ قبر کھودی گئی ہے۔ اب معلوم نہیں اس میں کیا کچھ دفن ہو گا۔ جمہوری روایات مدت ہوئی دم توڑ چکیں، شخصی احترام کی باتیں تو قصۂ پارینہ بن گئیں، اب اس دور میں اور کیا کچھ دفن ہونا ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ماضی میں بھٹو کی پھانسی پر عوامی اتحاد نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر تحریک انصاف نے جشن منایا تھا، اسی طرح عمران خان کی نااہلی پر پی ڈی ایم کی اتحادی پارٹیاں شاداں و فرحاں نظر آ رہی ہیں۔
ہمارے سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ کب سمجھیں گے کہ ہمارے نظام انصاف نے کبھی جمہوریت کی شان میں اضافہ نہیں کیا۔ اب پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لیے پر تولے جا رہے ہیں۔ کوئی تو صاحبِ دانش ہو، جو اس کلاس کو یہ بتائے کہ ان کے سیاسی مسائل کا حل عدالتوں کے پاس نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کی طاقت میں ہے۔ آخر کب تک انصاف کی راہداریوں میں سیاستدان بے لباس ہوتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو کب ہوش آئے گا کہ وہ اپنے باہمی تنازعات کے حل کیلئے گیٹ نمبر 4 کی طرف یا عدالتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے عوام سے رجوع کریں کیوں کہ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ تو عوام ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے گزشتہ جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں متفقہ فیصلے کے ذریعے نااہل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں ان کی وہ نشست خالی قرار دے دی جس سے وہ پہلے سے ہی مستعفی ہو چکے تھے۔
وہ حالیہ ضمنی انتخاب میں جیتی ہوئی چھ نشستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جن پر ابھی انہوں نے حلف ہی نہیں اٹھایا۔ اب یہ بحث اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آیا الیکشن کمیشن کسی کو نااہل قرار دینے کا مجاز ہے یا نہیں، دوسری طرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلائے جانے کا بھی امکان ہے۔ آرٹیکل 63/1-P کے تحت نااہلی موجودہ اسمبلی کی دستوری میعاد پوری ہونے تک رہے گی جب کہ فوجداری مقدمہ چلنے کی صورت میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 174 کی رو سے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب شخص کو تین سال قید اور ایک لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ ان قانونی نکات کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح کے احکامات سے نہ تو سیاسی جماعت ختم کی جا سکتی ہے نہ ہی کسی سیاسی شخصیت کا کیریئر ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی لیکن انکی پارٹی آج بھی زندہ ہے۔ میاں نواز شریف جلاوطن ہوئے، پھر نااہل ہوئے، ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کی، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون اپنی جگہ پر قائم ہے، یہ الگ بات ہے کہ میاں شہباز شریف کے بعض عوام دشمن اقدامات کی بدولت عوام میں مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کو نااہل کر کے وہ ان کی سیاست ختم کر دے گا تو یہ سوچ درست نہیں۔ نااہلی کے فیصلے کے باوجود عمران خان آج ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے، جس کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ اس نوعیت کے متنازع فیصلے کبھی عوام میں مقبول نہیں ہو سکے۔ اگر ان فیصلوں کی کوئی وقعت ہوتی تو ’’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘‘ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس قاضی فائز عیسٰی یہ نہ کہتے کہ عدالتوں کے ذریعے نواز شریف کو غلط سزا دلوائی گئی۔جسٹس عیسٰی کا عدالتی سیاسی فیصلوں پر کھلا تبصرہ یہ بتا رہا ہے کہ عدالت، عظمیٰ ہو یا عالیہ، اب ان فیصلوں کا مزید بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کی عدالتوں میں اب یہ بات کھلے عام کہی جانے لگی ہے کہ عدلیہ کے ماضی میں کیے گئے فیصلوں سے ملک میں جمہوریت عدم استحکام کا شکار ہوئی۔اس لئے سیاستدانوں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے جمہوری اور آئینی میثاق پر اتفاق کرنا ہو گا۔ تب ہی پارلیمنٹ کا وقار بحال ہو گا۔ اگر سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جھگڑے کوئی اور ادارہ نمٹاے گا تو انہیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس سے جمہوریت کا ادارہ روز بروز طبعی موت کی طرف بڑھتا جائے گا۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ اس نوعیت کی متنازع مداخلت سے نہ تو ملک کی جمہوریت کو استحکام نصیب ہوا اور نہ ہی آئندہ ممکن ہے۔ ایسے غیر جمہوری اقدامات سے نہ بھٹو کو سیاست کے میدان سے نکالا جا سکا، نہ نواز شریف کا کردار ختم کیا جا سکا اور نہ ہی عمران خان کو بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ کا سیاسی منظر نامہ تشکیل دینے کیلئے مل بیٹھنا ہو گا۔
اگرچہ سیاسی میدان سے کوئی اچھی خبر نہیں ملی تاہم اس خبر نے پوری قوم کو سرشار کر دیا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے نکلنے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ نون کے آخری دور میں جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے اپنے شکنجے میں لیا تھا تب اس کی کوئی سمت واضح نہ تھی۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ صرف تمام اداروں کو منظم کیا بلکہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیئے گئے اہداف کو مقررہ مدت سے پہلے ہی مکمل کر لیا۔ اس خوشخبری پر آرمی چیف مبارکباد کے مستحق ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ بھی تحسین کا حقدار ہے جن کی محنتیں رنگ لائیں اور پاکستان عالمی برادری میں سرخرو ہوا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
googlynewstv · 15 days
Text
کیا واقعی نئے عبوری سیٹ اپ کے لیے تیاریوں کا آغاز ہو گیا ہے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار کنور محمد دلشاد نے کہا ہے کہ معیشت کو سنبھالنے اور ملکی کو صحیح ڈگر پر ڈالنے کے لیے فیصلہ ساز ایک عبوری انتظامی سیٹ اپ پر کام کر رہے ہیں جس کا سربراہ بنگلہ دیش ماڈل کی طرز پر ایک چیف ایڈوائزر ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے عبوری سیٹ اپ میں نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جیسے عہدوں کے نام تبدیل کر دے جائیں گے اور قابل اور دیانت دار افراد کو عوام کی خدمت کا موقع دیا جائے گا۔…
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
محسن نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین منتخب
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی پی سی بی کے نئے سربراہ منتخب ہو گئے،محسن نقوی بلا مقابلہ چیئرمین پی سی بی منتخب ہوئے ہیں۔ پی سی بی کے بورڈ  آف گورنر کے ممبران نے کرکٹ بورڈ کے نئے سربراہ کا انتخاب کیا، مصطفیٰ رمدے محسن نقوی کے حق میں دستبرار ہوئے۔ محسن نقوی کی بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ تین سال کیلئے تقرری ہوئی ہے۔ محسن نقوی وزیر اعلیٰ پنجاب کی کُرسی سے دستبردار ہونے کے بعد بطور  پی سی بی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
قابل اعتماد اور عوام دوست رہنما ہے کون؟
Tumblr media
رواں برس پنجاب اور خیبرپختون خوا میں دو نئی پارٹیوں کے قیام کے بعد ایک نئی قومی سطح کی پارٹی کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تو یہ خواہش ہے کہ نئی پارٹی ایسی ہو جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدارکی خواہاں اور اپنے طور پر اقتدار کے حصول کے قابل ہو، جس پر عوام بھی اعتماد کر سکیں۔ نئی پارٹی کے قیام کے لیے سب سے اہم بات وہ شخصیت ہو جس کی سربراہی میں پارٹی وجود میں آئے۔ اب تک ملک میں اہم شخصیات نے پارٹیاں بنائیں نہ برسر اقتدار بالاتروں کی خواہش پر پارٹیاں بنائی گئیں اور تین آمر سربراہوں، ایوب خان دور میں مسلم لیگ کنونشن، جنرل ضیا دور میں پاکستان مسلم لیگ اور جنرل پرویز مشرف دور میں مسلم لیگ قائد اعظم بنائی گئی تھیں۔ تینوں کے نام مسلم لیگ پر تھے۔ مسلم لیگ کنونشن جنرل ایوب دور ہی میں ختم ہو گئی تھی جس کے بعد مسلم لیگ کے تین بڑے گروپ جونیجو، نواز اور چٹھہ میں تقسیم ہوئے اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی کی شناخت باقی ہے۔ مسلم لیگ (ق) چند علاقوں تک محدود ہے جس کے سربراہ چوہدری شجاعت طویل عرصے سے بیمار ہیں جس سے پرویز الٰہی گروپ الگ ہو کر پی ٹی آئی میں جا چکا ہے جو 9 مئی کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔
پیپلز پارٹی بغیر گروپنگ آصف زرداری اور بلاول بھٹوکی سربراہی میں قائم ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے (ش) نکالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی قیادت میں متحد ہے اور یہ تینوں پارٹیاں وفاقی اقتدار میں رہ چکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور کچھ قیادت قید ہے اور اس کے برطرف کیے گئے وزیر اعظم کو ابھی بے شمار مقدمات کا سامنا ہے اور خوش فہمی کے شکار اس کے رہنماؤں کو امید ہے کہ قید چیئرمین کے باوجود پی ٹی آئی بھی 2018 کے قید نواز شریف کی طرح اپنی مقبولیت کے باعث پی ٹی آئی کو کامیابی دلا دیں گے مگر وہ یہ بھول گئے کہ نواز شریف پر بنائے گئے مقدمات کمزور تھے اور بالاتروں کی حمایت بھی انھیں حاصل نہیں تھی جب کہ قید چیئرمین پی ٹی آئی پر بعض مقدمات درست بھی ہیں اور بعض سنگین بھی اور انھیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر سزا نہیں ہوئی بلکہ بعض مقدمات انھیں سالوں قید میں رکھیں گے۔ قید چیئرمین کی پارٹی جس طرح بنوائی گئی تھی ویسے ہی وہ بکھر چکی۔ آیندہ انتخابات 1970 جیسے نہیں ہوں گے کہ بھٹو صاحب کے ٹکٹ پر کھمبا بھی جیت سکتا ہے مگر اس وقت بھٹو صاحب آزاد تھے اور صرف مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں اکثریت لے سکے تھے۔
Tumblr media
چیئرمین پی ٹی آئی نہ صرف قید بلکہ سیاسی طور پر تنہا ہیں۔ ان کی پارٹی پر مال لگانے والے اپنی پارٹی بنا چکے۔ چیئرمین پی ٹی آئی دوسروں کے مال پر سیاست کے عادی رہے ہیں اور جو مال ان کے پاس ہے وہ اب ان کے مقدمات پر خرچ ہو رہا ہے اور انھیں مہنگے مہنگے وکیلوں کی خدمات معاوضے پر حاصل کرنا پڑ رہی ہیں اور اب صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی کروڑوں روپے خرچ کرنے پر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باریوں کے بعد پونے چار سال پی ٹی آئی کی حکومت بھی آزمائی جا چکی اور مختلف پارٹیوں میں موجود جو نمایاں چہرے ہیں وہ سب ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ماضی سے حکمران رہنے والوں نے الیکشن میں جو وعدے کیے، پارٹی منشور دیے ان میں چیئرمین پی ٹی آئی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے عوام سے کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ پی پی کہہ سکتی ہے کہ اس نے لوگوں کو روزگار دیا، (ن) لیگ کہہ سکتی ہے کہ اس نے 2018 تک ملک کو اندھیروں سے نکال کر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا تھا مگر پی ٹی آئی کے پاس صرف مظلومیت کی دہائی کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور نواز شریف بھی کہیں گے کہ ان کی تینوں حکومتیں اچھی کارکردگی کے باوجود ختم کی گئیں اور انھیں ناحق قید رکھا گیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے اس موقف میں کسی حد تک وزن بھی موجود ہے کیونکہ عوام نے دیکھا ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہو گئی تھی‘ اس کے علاوہ ملک کی کاروباری صورتحال بھی خاصی بہتر تھی‘ مڈل کلاس طبقے کے لیے اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ آج یہ طبقہ برداشت کر رہا ہے۔ تعمیراتی کام بھی زیادہ ہو رہے تھے جس کا اثر بھی معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا سبب بنا۔ عوام مہنگائی کے جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ذمے دار تینوں سابق حکمران جماعتیں ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور تینوں کی قیادت نے جیلیں بھی بھگتی ہیں اور خود کو بھی مالی طور پر مستحکم کیا ہے۔ عوام مہنگائی، کرپشن اور سابق حکمرانوں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر کسی نئی پارٹی کے منتظر نہیں بلکہ اسی جان لیوا مہنگائی سے چھٹکارا چاہتے اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آزما چکے اور پرانے حکمرانوں سمیت اب کسی نئی پارٹی کے نئے دعوؤں میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا مسئلہ کسی پارٹی کا اقتدار نہیں بلکہ انھیں درپیش مالی مسائل ہیں۔
ملک میں اب کوئی ایسی قومی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت میں نئی پارٹی بن سکے۔ نئی پارٹی کے خواہش مندوں میں کوئی بھی قومی اہمیت کا حامل نہیں۔ مفتاح اسمٰعیل نے اپنی وزارت میں عوام کو نظر انداز کیا۔ ہنس ہنس کر پٹرول بڑھاتے اور عوام پر ٹیکس نہ دینے کا الزام لگاتے رہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کبھی صوبائی الیکشن تک نہیں لڑا۔ ملک میں چینی کی مہنگائی کا ذمے دار بعض سیاستدانوں کو سمجھا جاتا ہے اور ان کی پارٹی میں وہ تمام لوگ ہیں جو پی ٹی آئی میں تھے اور پنجاب تک محدود ہیں۔ پرویز خٹک کی سیاست کے پی کے چند اضلاع تک محدود ہے اور یہ سب چیئرمین پی ٹی آئی کے وفادار اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے انھیں اب عوام کا خیال آیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا جہاں تک معاملہ ہے تو یاد رکھیں کہ نئی پارٹی کثیر سرمائے کے بغیر بن نہیں سکتی اور اب الیکشن کروڑوں کا کھیل بن چکے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی عوام دوست ثابت نہیں ہوا سب کے دعوے جھوٹے تھے۔ ہر پارٹی نے عوام کو مایوس کیا کوئی ایک رہنما قومی لیڈر ہے، نہ عوام میں مقبول تو نئی پارٹی کون بنائے گا؟
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
urdu-poetry-lover · 1 year
Text
روایت ہے کہ ایک جنگل میں شیر چیف ایگزیکٹو تھا۔ ادھر ایک ننھی سی چیونٹی محنت مزدوری کیا کرتی تھی۔ صبح سویرے وہ ہنستی گاتی کام پر آتی اور فوراً کام پر لگ جاتی اور ڈھیر سا کام نمٹا دیتی۔ شیر یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چیونٹی کسی قسم کی نگرانی اور راہنمائی کے بغیر اتنا زیادہ کام کر رہی ہے اور پیداوار کے ڈھیر لگائے کھڑی ہے حالانکہ اسے بہت واجبی سی تنخواہ ملتی تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر چیونٹی کسی قسم کی نگرانی کے بغیر اتنا کام کر رہی ہے تو اس کے سر پر ایک سپروائزر مقرر کر دیا جائے تو پھر وہ کتنا زیادہ کام کرے گی۔ یہ سوچ کر شیر نے ایک کاکروچ کی بطور سپروائزر تعیناتی کر دی جو اپنے وسیع تجربے اور بہترین رپورٹنگ کی وجہ سے مشہور تھا۔ کاکروچ نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلے تو حاضری کا سسٹم بنایا۔ اس نے ایک مکڑی کو بطور سیکرٹری بھی تعینات کر دیا تاکہ وہ دفتری امور میں اس کی مددگار ہو اور اس کی رپورٹس ٹائپ کرنے کے علاوہ ان کی موزوں طریقے سے فائلنگ کرے اور ٹیلی فون بھی سنبھالے۔ شیر نے کاکروچ کی رپورٹیں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔ اس نے کاکروچ کو کہا کہ میاں یہ سب پڑھنا میرا بہت وقت لیتا ہے، ایسا کرو کہ گراف کی شکل میں ایگزیکٹو سمری بھی بنایا کرو جس میں پیداوار کی شرح اور ٹرینڈ بھی دکھائی دیں اور اسے ایک پریزنٹیشن کی شکل میں بھی ای میل کیا کرو۔ میں یہ پریزنٹیشن جنگل کے بورڈ کی میٹنگ میں بھی پیش کروں گا تاکہ ڈائریکٹروں کو بھی علم ہو کہ جنگل بہت ترقی کر رہا ہے۔ کاکروچ کو یہ سب کچھ کرنے کے لئے ایک کمپیوٹر اور لیزر پرنٹر خریدنا پڑا اور اس نے ایک مکھی کو بطور آئی ٹی ایکسپرٹ نوکری دے دی جو انہیں سنبھالے اور پریزینٹشن بنائے۔ دوسری طرف چیونٹی حاضریاں لگا لگا کر، کاکروچ کو رپورٹیں دے دے کر اور مکھی کو پریزنٹیشن کے لئے مواد فراہم کر کر کے اپنی جان سے بیزار ہونے لگی۔ اس کا زیادہ وقت اب کام کی بجائے میٹنگوں میں صرف ہوتا۔ اس کا دن کا چین اور رات کا آرام لٹ گیا اور وہ اپنے کام سے تنگ آنے لگی۔ دوسری طرف شیر کو جب پریزنٹیشن دیکھ دیکھ کر علم ہوا کہ چیونٹی کے ڈیپارٹمنٹ کی پیداوار بہت متاثر کن ہے تو اس نے سوچا کہ ڈیپارٹمنٹ کو بڑھایا جائے تاکہ جنگل مزید ترقی کرے۔ اس نے ایک جھینگر کو اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا جو مینیجمنٹ کے سامنے بہت اچھی پریزنٹیشن دینے اور اچھا بولنے کے لئے مشہور تھا۔ جھینگر نے آتے ہی سب سے پہلے اپنے دفتر کے لئے ایک نئے قالین اور آرام دہ کرسی کا آرڈر دیا تاکہ اس کے دفتر کی ایگزیکٹو لک بنے۔ جھینگر کو بھی ایک کمپیوٹر اور پرسنل اسسٹنٹ کی ضرورت تھی جو اس کے لئے کام کو ترتیب دے سکے اور اس کے لئے بجٹ کنٹرول کرنے اور پیداوار کو ترقی دینے کی کی حکمت عملی بنانے میں معاون ہو۔ اس نے اپنے پرانے آفس سے ایک لیڈی بگ کا تبادلہ اپنے اس دفتر میں کروا لیا۔ چیونٹی کا ڈپارٹمنٹ اب ایک افسردہ جگہ تھی جہاں کوئی نہیں ہنستا مسکراتا تھا اور معمولی بات پر دوسرے سے جھگڑنے لگتا تھا۔ یہ ماحول دیکھ کر جھینگر نے شیر کو قائل کر لیا کہ ڈپارٹمنٹ کا حال بہتر کرنے کے لئے کسی ماہر سے سٹڈی کروائی جائے۔ چیونٹی کے ڈپارٹمنٹ کے اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ دیکھ کر شیر نے یہ محسوس کیا کہ ڈپارٹمنٹ پیداوار دن بدن گرتی جا رہی ہے اور اخراجات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور بحیثیت مجموعی ڈپارٹمنٹ خسارے میں جا رہا ہے۔ شیر نے ایک الو کو ڈپارٹمنٹ کی سٹڈی پر مامور کیا جو بزنس ری انجینرنگ کا ایک ماہر مشہور کنسلٹنٹ تھا تاکہ وہ ڈپارٹمنٹ کا آڈٹ کرے، پیداوار کے پہلے سے بہت کم ہونے کی وجوہات کا پتہ چلائے اور صورت حال بہتر کرنے کے لئے مشورے دے۔ الو نے ڈپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے انٹرویو کیے، کاکروچ کی رپورٹوں کے ڈھیر کا لفظ لفظ پڑھا، پیداوار کا عمل دیکھا اور تین مہینے میں دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ شیر کو پیش کر دی جس میں کارکنوں کے رویے، کام میں دلچسپی، پیداواری عمل اور عملے کی تنخواہوں کا مبسوط جائزہ لیا اور والیم ٹین میں یہ نتیجہ نکالا کہ ڈپارٹمنٹ اس لئے خسارے میں جا رہا ہے کیونکہ ادھر ضرورت سے بہت زیادہ عملے کو نوکری دی گئی ہے۔ شیر نے ایک ہفتہ لگا کر رپورٹ پڑھی۔ اس کے بعد اس نے چیونٹی کو نوکری سے نکال دیا کیونکہ الو کی رپورٹ کے مطابق وہ اپنے کام میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی اور وہ فیلڈ میں کام کرنے کی بجائے دن بھر ڈپارٹمنٹ کے دوسرے اہلکاروں کے دفتروں میں بیٹھی رہتی تھی۔ اس کا رویہ بھی بہت زیادہ منفی اور سرد تھا جو دفتر کے ماحول کو بلاوجہ تلخ کر رہا تھا اور کاکروچ کی بہترین رپورٹنگ اور جھینگر کی بہترین موٹیویشنل سپیچز کے باوجود پہلے سے کم پروڈکشن کر رہی تھی
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
انقلاب کی دستک
Tumblr media
پاکستانی قوم میں گزشتہ دو سالوں کے دوران بے چینی، نفرت اور غصے کا لاوہ تیزی سے پک رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے غریب کا چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ ایک طرف مہنگائی، سیاسی بے یقینی، اور معاشی ابتری نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے تو دوسری طرف اشرافیہ اور افسر شاہی کی مراعات میں اضافے نے قوم کے غصے کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر مفت بجلی اور حیران کن مراعات کے تذکرے نے نوجوان طبقے کی آنکھوں میں شعلے بھر دیے ہیں۔ پاور ڈویژن کے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت گریڈ ایک سے سولہ تک کے ایک لاکھ 73 ہزار ملازمین ماہانہ 33 کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں جنکی سالانہ مالیت 10 ارب روپے ہے۔ جبکہ گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کے 15 ہزار ملازمین سالانہ ایک ارب 25 کروڑ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ جسکا بوجھ پاکستان کے عوام برداشت کرتے ہیں۔ بازاروں میں ساہو کاروں نے اشیاء کی من مرضی کی قیمتیں مقرر کر رکھی ہیں۔ عام آدمی خود کشی کر رہا ہے یا جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سابق حکمراں طبقے نے اپنے جرائم معاف کرانے کے لیے پورا ملک داؤ پر لگا دیا۔ 
گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد تا حال زرعی زمینیں تباہ حالی سے دوچار ہیں جس سے غذائی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائی اشیا کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں رابطہ سڑکیں سفر کے قابل نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ وفاق میں قائم ہونے والی نگراں حکومت ابھی تک فعال نہیں ہو سکی۔ نئے وزراء اگرچہ اپنی قابلیت کے حوالے سے غیر متنازع ہیں لیکن ان کے ساتھ جو بیوروکریسی کام کر رہی ہے وہ پرلے درجے کی نااہل، نالائق اور کام چور افراد پر مشتمل ہے۔ وزارتوں کے سربراہ ایسے سرکاری افسران مقرر کیے گئے ہیں جو گریڈ 21 سے گریڈ 22 میں ترقی کے منتظر ہیں اور وہ ترقی میں ممکنہ رکاوٹ کے خوف سے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے سے ہچکچاتے ہیں۔ افسر شاہی کے اندر ایک طرف تو نیب نے خوف کے پنجے جما رکھے ہیں تو دوسری طرف نااہلی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمارے محترم نگران وزیراعظم اپنی شخصیت اور اہلیت کے اعتبار سے ایک ''مقبول و محبوب'' شخص ہیں لیکن وہ بھی جم کر کام کرنے کے بجائے دوروں پر نکل گئے ہیں۔ 
Tumblr media
چیف آف آرمی اسٹاف نے سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا تھا آج اس کی حالت یہ ہے کہ پاکستان آرمی کے علاوہ باقی تمام محکمے روایتی سستی اور کاہلی کا شکار ہیں۔ نئے سرمایہ کاروں کیلئے مناسب ماحول تو کیا پیدا ہونا تھا پہلے سے موجود سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے کیلئے سرخ فیتے کی ایک ایسی لائن کھینچ دی گئی ہے جس کو عبور کر کے اپنے جائز اور قانونی کام کروانا بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ رشوت کا ریٹ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ متوسط طبقے کا تاجر اپنے کام کیلئے سرکاری دفاتر کا رخ کرنے سے ہی خوف کھاتا ہے۔ قبل ازیں تو صرف پٹواری ہی رشوت لینے کیلئے بدنام تھا لیکن آج تو یوں لگتا ہے کہ پوری افسر شاہی تسبیح کی ایک دانے کی مانند اس دھاگے میں پروئی جا چکی ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی عدم موجودگی نے نہ صرف معمولی مسائل کو الجھا دیا ہے بلکہ عوام کے احساس محرومی میں اضافہ کر دیا ہے۔ اختیارات مراعات اور سہولتیں کے نشے کی لت میں مبتلا حکمران ابھی تک یہ محسوس نہیں کر پا رہے ایک خونی انقلاب پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
بجلی کے بلوں کی وجہ سے سیاسی لیڈروں کی رہنمائی کے بغیر عوام از خود مظاہروں میں مصروف ہیں۔ میرے شہر بھیرہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عورتوں اور بچوں نے بھی سیاسی قیادت کے بغیر از خود مظاہرہ کیا ہے۔ ہماری اشرافیہ یہ حقیقت کیوں فراموش کر رہی ہے کہ جب احتجاج کی باگ ڈور عوام کے پاس ہوتی ہے تو اس وقت وہی ہوتا ہے جو اس سے پہلے تیونس، الجزائر، مصر اور سری لنکا میں ہو چکا ہے۔ پاکستان کے عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل کر دیا گیا ہے۔ کوئی بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے ادھار لے رہا ہے تو کوئی اپنے گھر کا سامان یا زیور بیچ کر بل ادا کر رہا ہے۔ بجلی کی چوری اور حکومتی نااہلی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ جو بجلی چوری کرتا ہے وہ بل ادا نہیں کرتا جبکہ عام صارف اس کے حصے کا جرمانہ بھی ادا کرتا ہے۔ عام آدمی کو جب یہ معلوم ہوتا کہ حکمران اشرافیہ نہ تو بجلی کا بل اپنی جیب سے دیتی ہے، نہ پٹرول اپنی گرہ سے ڈلواتی ہے، انہیں گاڑیاں بھی مفت ملی ہوئی ہیں، وہ سرکاری دفاتر میں بجلی کا بے دریغ استعمال دیکھتے ہیں تو ان کے غصے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن اب مزید ایسا نہیں چلے گا۔ لوگوں کا صبر جواب دے چکا ہے۔
ادھار مانگ مانگ کر لوگ تنگ ا ٓچکے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ دنوں میں پٹرول مزید مہنگا ہو گا۔ جس سے ملک کے طول و عرض میں موجود احتجاج میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اور حالات میں خرابی کی تمام تر ذمہ داری حکمران اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے، نگران حکومت کو کچھ اہم فیصلے لینا ہوں گے، محکمانہ نااہلی اور حکمرانوں کی عیاشیوں کا مزید بوجھ عوام برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اب لوگ حالات کے بہتری کیلئے عام انتخابات کا بھی انتظار نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کو انداز حکمرانی میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ مفت کی عیاشی ختم کرنا ہو گی۔ عوام اور حکمرانوں کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج کم کرنا ہو گی۔ ورنہ انقلاب تو دستک دے ہی رہا ہے۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
 Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad.
Date: 06 July-2023
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی اورنگ آباد
علاقائی خبریں 
تاریخ:  ۶/ جولائی  ۳۲۰۲ء؁
وقت: ۰۱:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ ماتر بھومی‘ مادری زبان اور ماں کی اہمیت منفرد ہے: صدرِ جمہوریہ درَوپدی مُرمو کا عندیہ۔
٭ معاون پروفیسر کے عہدے کیلئے پی ایچ ڈی کی شرط UGC کی جانب سے منسوخ۔
٭ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے دونوں گروپوں کے اجلاس؛ ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کا سلسلہ جاری۔
٭ اجیت پوار گروپ کی جانب سے پارٹی نام اور انتخابی نشان پر دعوے سے متعلق انتخابی کمیشن میں درخواست؛ مخالف گروپ کی جانب سے کیویٹ داخل۔
٭ ریاست میں اب تک 20لاکھ 60ہزار ہیکٹر رقبے پر خریف کی تخم ریزی مکمل۔
اور۔۔ ٭ مراٹھواڑہ میں متعدد مقامات پر بارش؛ تخم ریزی میں تیزی۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
صدرِ جمہوریہ درَوپدی مُرمو نے زور دیکر کہا ہے کہ ماتر بھومی‘ مادری زبان اور ماں کی اہمیت منفرد ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ خاندان اور معاشرے میں ہم بول چال کیلئے اپنی مادری زبان ہی کا استعمال کریں۔ درَوپدی مُرمو کے ہاتھوں کل ناگپور میں بھارتیہ وِدّیابھون کی جانب سے تعمیر کیے گئے رامائن ثقافتی مرکز کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ دوسری زبانیں سیکھنا چاہیے لیکن اپنی مادری زبان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس نوتعمیر شدہ مرکز میں پہلی منزل پر رامائن کی دلچسپ نمائش ہے اور دوسری منزل پر1857 سے 1947 تک کے مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد تصویری شکل میں نمایاں کی گئی ہے۔
اس سے قبل صدرِ جمہوریہ نے گڈچرولی میں گونڈوانا یونیورسٹی کے جلسہئ تقسیمِ اسناد سے بھی خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے پسماندہ طبقات کی صورتحال تبدیل کرنے اور انھیں مرکزی دھارے میں لانے کیلئے تعلیم ہی اہم واسطہ ہے۔ اس یونیورسٹی میں طالبات کی کارکردگی کی ستائش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ خواتین کو استحکام بخشنے کی سمت ایک بڑا قدم ہے۔
اس جلسہئ تقسیمِ اسناد میں تمام طلباء و طالبات میں کُل 45 فیصد پوسٹ گریجویشن اور 61 فیصد سے زائد گولڈ میڈل جیتنے والا طالبات تھیں۔ جلسے میں چھ طلباء کو صدرِ مملکت کے ہاتھوں طلائی تمغے دئیے گئے۔ گونڈوانا یونیورسٹی کی انتظامی عمارت کا سنگ ِ بنیاد بھی کل درَوپدی مُرمو نے رکھا۔
***** ***** *****
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن UGC نے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے کیلئے ph.D کی شرط منسوخ کردی ہے۔ اب معاون پروفیسر کے عہدے پر راست بھرتی کیلئے نیٹ‘ سیٹ یا سلیٹ کم از کم اہلیت ہوگی۔ پی ایچ ڈی اب اختیاری اہلیت رہے گی۔ UGC کی جانب سے جاری کردہ ایک مکتوب میں کہا گیا ہے کہ یکم جولائی سے اس نئے قاعدے پر عمل درآمد ہوگا۔
***** ***** *****
اغذیہ، شہری رسد اور تحفظ ِ صارفین کے وزیر رویندر چوہان نے مہاراشٹر میں دھان کی خریداری کے عمل کے دائرے کو وسیع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نئی دہلی میں کل مرکزی وزیر برائے تقسیم ِ عامہ و اغذیہ پیوش گوئل کی زیرِ صدارت ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے متعلقہ وزراء کے اجلاس سے وہ خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جہاں چاول کی کاشت ہوتی ہے وہاں کے چنندہ افراد کو ہی دھان خریدنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس لیے کاشتکاروں کو معقول قیمت نہیں ملتی۔ اس لیے گرام پنچایت‘ بچت گروپ اور فوڈ پروسیسنگ اداروں کو بھی دھان خریدنے کی اجازت دینے کا انھوں نے مطالبہ کیا۔
***** ***** *****
نائب وزیرِ اعلیٰ اور راشٹروادی کانگریس کے رہنماء اجیت پوار نے کہا ہے کہ پارٹی کے بزرگ قائدین اب آرام کریں اور دوسری نسل کو آشیرواد دیں۔ کل پارٹی کارکنوں کے عام اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اجیت پوار نے کہا کہ پارٹی سربراہ شرد پوار کا وہ احترام کرتے ہیں تاہم اگر وہ پارٹی کی صدارت چھوڑنا نہیں چاہتے تو انھوں نے ماضی قریب میں استعفیٰ دینے کا اعلان کیوں کیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ اب شرد پوار ہمیں آشیرواد دیں اور اگر ہماری کوئی غلطی ہو تو اس کی نشاندہی کریں‘ ہم اسے ضرور تسلیم کریں گے۔ اجیت پوار نے کہا کہ سرکاری ملازمتوں میں 58سال یا 60 سال کی عمر میں سبکدوش ہونا پڑتا ہے‘ سیاست میں بی جے پی میں 75 برس کی عمر ہوجائے تو سیاست سے کنارہ کش کردیا جاتا ہے، لیکن 82 اور 83 سال کی عمر ہوجانے کے باوجود آپ کب رُکیں گے۔ شرد پوار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ 2014 میں بی جے پی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا تھا تو اب بی جے پی کیوں برداشت نہیں ہورہی۔ شردپوار نے خود کہا ہے کہ 2024 میں بھی نریندر مودی ہی وزیرِ اعظم بنیں گے تو پھر بی جے پی کی حمایت میں کیا چیز مانع ہے۔ اجیت پوار نے کہا کہ انھوں نے بی جے پی کی حمایت کا فیصلہ اکثریتی رائے کے ساتھ کیا ہے۔ قومی سطح پر حزبِ اختلاف کے متحد رہنے پر سوال اٹھاتے ہوئے اجیت پوار نے کہا کہ اب تک سیاست میں انھوں نے کئی بار اپنے فیصلے واپس لیے۔ چار پانچ بار نائب وزیرِ اعلیٰ بن کر ریکارڈ قائم کیا۔ تاہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی لگتا ہے میں بھی ریاست کا وزیرِ اعلیٰ بنوں۔ 
اس جلسے سے پارٹی کے کارگذار صدر پرفل پٹیل اور چھگن بھجبل نے بھی خطاب کیا۔ پرفل پٹیل نے کہا کہ وہ اپنے سیاسی سفر پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس میں بہت سارے انکشافات ہوں گے۔
***** ***** *****
اسی دوران پارٹی صدر شرد پوار نے بھی کل ممبئی میں پارٹی کے ایک علیحدہ جلسے سے خطاب کیا۔ جس میں پارٹی کارکنوں کی رہنمائی کرتے ہوئے انھوں نے بی جے پی پر سخت تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں این سی پی پر 70 ہزار کروڑ روپئے کی بدعنوانیوں کا الزام لگایا تھا لیکن اب راشٹروادی کانگریس کے رہنماؤں کو اقتدار میں کیونکر شامل کیا جارہا ہے۔ شرد پوار نے کہا کہ بی جے پی کے ساتھ جانے والوں کو خود پر اعتماد نہیں ہے اسی لیے یہ لوگ اُن کی تصویر استعمال کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب تک وہ مختلف انتخابی نشان پر انتخاب لڑچکے ہیں لیکن اب پارٹی کا نام اور نشان جانے نہیں دیں گے۔ اس موقع پر پارٹی کے ریاستی صدر جینت پاٹل نے پارٹی کارکنوں کو شرد پوار کے ساتھ وفادار رہنے کی تلقین کی۔
***** ***** *****
این سی پی کے اجیت پوار گروپ نے پارٹی کے نام اور انتخابی نشان پر اپنے دعوے سے متعلق انتخابی کمیشن میں درخواست داخل کی ہے۔ اجیت پوار نے نائب وزیرِ اعلیٰ کا حلف لینے سے دو دِن قبل 30 جون کو کمیشن کو یہ خط تحریر کیا۔ اس کے علاوہ کمیشن کو ایک اور قرارداد بھی بھیجی گئی جس میں اجیت پوار کو ہی پاٹی کا حقیقی صدر قرار دیتے ہوئے 40  ارکانِ اسمبلی و پارلیمان کے دستخط شدہ خط میں اجیت پوار کو متفقہ طور پر صدر منتخب کرنے کا اعلان کیا گیا۔
شرد پوار گروپ کے ریاستی صدر جینت پاٹل نے اس سلسلے میں انتخابی کمیشن میں کیویٹ داخل کرکے 9ارکانِ اسمبلی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
***** ***** *****
ریاستی اسمبلی میں این سی پی 53 ارکان ہیں۔ پارٹی انحراف کی کارروائی سے بچنے کیلئے اجیت پوار کو 36  ارکانِ اسمبلی کی حمایت ضروری ہے۔ انھوں نے 40 ایم ایل ایز کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ دوسری جانب شرد پوار نے دعویٰ کیا ہے کہ اجیت پوار کو صرف 9  ارکان کی حمایت ہے۔ ذرائع کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ شرد پوار کے ساتھ صرف 12  اور اجیت پوار کے ساتھ 41  ارکانِ اسمبلی ہیں۔ 
***** ***** *****
مرکزی وزیر جتندر سنگھ نے کہا ہے کہ G-20 ممالک‘ بین الاقوامی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے اختلافات کو فراموش کرکے ایک خاندان کی طرح کام کریں۔ وہ کل ممبئی میں G-20 ممالک کے تحقیق کے وزراء کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی منظر نامے میں تغیر کے پیشِ نظر سائبر حفاظت نہایت اہم ہے۔
***** ***** *****
ریاست میں اب تک 20لاکھ 60ہزار ہیکٹر رقبے پر خریف کی تخم ریزی مکمل ہوچکی ہے۔ جو کُل تخم ریزی کا صرف 14 فیصد ہے۔ اس بار بارش کا دیر سے آغاز اور اب تک بھی بوائی کیلئے ضروری بارش نہ ہونے سے خریف کی بوائی میں تاخیر ہورہی ہے۔
***** ***** *****
مراٹھواڑہ کے متعدد مقامات پر کل بارش ہوئی۔ پربھنی ضلع میں کل زوردار بارش کی خبریں ہیں۔ جون مہینے میں مکمل غیر حاضری کے بعد یہ پہلی ہی بارش ہے۔ جس سے کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اورنگ آباد شہر اور اس کے گرد و نواح میں بھی کل ہلکی بوندا باندی ہوئی۔
جالنہ ضلع میں بدنا پور اور عنبڑ تعلقوں کے کچھ علاقوں میں بھی کل موسلادھار بارش ہوئی۔ بدناپور تعلقے میں بارش کی شدت زیادہ تھی۔ یہ برسات کپاس کی فصلوں کیلئے کافی مفید ہے اور سویا بین کی تخم ریزی میں تیزی آئیگی۔
ہنگولی ضلع اور شہر میں بھی کل زوردار بارش ہوئی۔ جس کے باعث فصلوں میں نئی جان آگئی ہے۔ جنوبی گجرات اور کیرالا کے ساحلی علاقوں میں کم دباؤ کا پٹہ تیار ہوا ہے‘ جس سے آئندہ دو دِنوں میں ریاست میں تیز بارش کا امکان ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ ماتر بھومی‘ مادری زبان اور ماں کی اہمیت منفرد ہے: صدرِ جمہوریہ درَوپدی مُرمو کا عندیہ۔
٭ معاون پروفیسر کے عہدے کیلئے پی ایچ ڈی کی شرط UGC کی جانب سے منسوخ۔
٭ راشٹروادی کانگریس پارٹی کے دونوں گروپوں کے اجلاس؛ ایک دوسرے پر الزامات در الزامات کا سلسلہ جاری۔
٭ اجیت پوار گروپ کی جانب سے پارٹی نام اور انتخابی نشان پر دعوے سے متعلق انتخابی کمیشن میں درخواست؛ مخالف گروپ کی جانب سے کیویٹ داخل۔
٭ ریاست میں اب تک 20لاکھ 60ہزار ہیکٹر رقبے پر خریف کی تخم ریزی مکمل۔
اور۔۔ ٭ مراٹھواڑہ میں متعدد مقامات پر بارش؛ تخم ریزی میں تیزی۔
***** ***** *****
0 notes
pakistanpress · 1 year
Text
خان کو کون سمجھائے
Tumblr media
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو لیبیا، شام اورعراق بنانے کی طرف تیزی سے دھکیلا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا وہ ملک میں خانہ جنگی شروع کرانے کی پہلی جھلک تھی، جان بوجھ کر فوج اور دفاعی اداروں پر حملے کروائے گئے تاکہ اُس ادارے کو Demoralise کر دیا جائے جو پاکستان کے لیبیا، شام اور عراق بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مجھے نہیں معلوم واقعی کوئی سازش موجود ہے کہ نہیں لیکن حالات خانہ جنگی اور افراتفری کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ سب کو نظر آ رہا ہے کہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور یہاں وہ کچھ ہو رہا ہے جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا نہ دیکھا۔ عمران خان پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ کس نے بھڑکایا اور کس نے دفاعی اداروں پر پرتشدد حملے اور، جلائو گھیراو کیا۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ یہ اُن کے لوگ نہیں دوسری طرف اُنہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر direct حملے شروع کر دئیے اور تمام تر صورتحال کا ذمہ دار اُنہیں ٹھہرا دیا۔ نیب کے چیئرمین کیلئے ’’بے غیرت‘‘ جیسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ نیب چیئرمین کے ہینڈلرز بھی بے غیرت ہیں۔
دو دن کی قید کے بعد ملنے والی رہائی کے بعد عمران خان مزید بپھر گئے۔ جو کچھ 9 مئی کو ملک میں ہوا اُسے دیکھ کر خان صاحب کو ماحول کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تھا لیکن مجھے محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ جس انداز میں عدلیہ نے9 مئی کےانتہائی قابل مذمت واقعات اور فوج پر حملوں کے باوجود اُن کو ضمانتوں پر ضمانتیں دیں اور حکومت کو اُنہیں کسی بھی پرانے یا نئے کیس میں گرفتار کرنے سے روکا، اسے خان صاحب اور اُن کے سپورٹرزنے اپنی جیت تصور کیا۔ شاہد یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان خود کو پاکستان کا مضبوط ترین شخص سمجھتے ہوئے فوج کے سربراہ کو کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں لائیں گے اور فوجی تنصیبات کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی اب کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔ ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی وڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جس میں تحریک انصاف کے رہنما 9 مئی کے منصوبہ ساز دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیزی اور حملہ آوروں کے ساتھ موقع پر موجود پائے گئے لیکن عمران خان ماننے پر تیار نہیں۔
Tumblr media
اپنی رہائی کے بعد عمران خان نے آرمی چیف سے کھلی ٹکر لے لی ہے جس سے صورتحال پاکستان کیلئے بہت خطرناک ہو گئی ہے۔ اس صورت حال کی خرابی میں کیا عدلیہ کی کوئی ذمہ داری ہے؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی عمران خان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار اور میڈیا کا یہ الزام کہ خان صاحب کی ضمانت اور اُنہیں دوبارہ گرفتاری سے بچانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا اور اس سلسلے میں خواجہ طارق رحیم اور جیو کے سینئر رپورٹر قیوم صدیقی کی آڈیو لیک کا سامنے آنا بہت حیران کن تھا۔ دوسرے دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت یا کسی دوسرے ادارے کو عمران خان کو کسی بھی کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ عدلیہ نے عمران خان کو وہ سب کچھ دیا جو اُنہوں نے مانگا۔ یہاں تک کہ توشہ خانہ کیس جس میں عمران خان پیش ہونے سے کتراتے رہے اور اُن کی دو دن کی قید کے دوران اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں اُن پر فرد جرم عائدکی گئی، اُس کیس کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سٹے دے کر خان صاحب کے حق میں روک دیا۔ دوسرے دن اسلام آباد کی ایک عدالت نے عمران خان اور بشری بی بی کے عدت کے دوران نکاح والے کیس کو بھی ختم کر دیا۔
عدلیہ کی عمران خان پر ان بے مثال عنائتوں کو دیکھ کر حکومتی اتحاد نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور ججوں پر خوب طعن کیا جا رہا ہے اُنہیں عمران خان کی ٹائیگر فورس سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اب ڈر ہے، ایسا نہ ہو کہ حکومتی اتحاد کے دھرنے میں شامل عدلیہ کے خلاف بھڑکے ہوئے مظاہرین سپریم کورٹ پر ہی حملہ کر دیں جو ایک اور خطرناک عمل ہو گا اور موجودہ حالات کی مزید خرابی کا باعث بنے گا۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ حکومتی اتحاد کو سپریم کورٹ کے سامنے ایسا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔ اگر ایک طرف عدلیہ کو اپنے رویے اور انصاف کے دہرے معیارپر نظر ثانی کرنی چاہئے تو دوسری طرف حکومت حالات کی مزید خرابی کا ذریعہ مت بنے۔ باقی جہاں تک عمران خان کا معاملہ ہے تو مجھے نہیں معلوم اُن کو کون سمجھا سکتا ہے؟
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
Tumblr media
کہتے ہیں کہ سری لنکا تین ماہ پہلے ڈیفالٹ کر چکا تھا لیکن اس کا اعلان تین ماہ بعد کیا گیا۔ ڈیفالٹ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے بیل آئوٹ پیکیج دینے کیلئے شرط عائد کی کہ سری لنکا دفاعی بجٹ میں کٹوتی کرے اور فوج کا حجم کم کرے۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ سری لنکا کی فوج کو نصف کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کیلئے سری لنکا کی حکومت نے پہلے مرحلے میں فوجی اہلکاروں کی 16000 ( سولہ ہزار ) اسامیوں کو ختم کر دیا ہے اور نئے بجٹ میں ان کیلئے پیسے بھی نہیں رکھے ہیں۔ حکومت نے فوج میں رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی اسکیم بھی دی ہے تاکہ دفاعی اخراجات کم کئے جا سکیں۔ ان اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف سے ابھی تک ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ آئی ایم ا یف کو خوش کرنے کیلئے شاید سری لنکا کو مزید اقدامات کرنا پڑیں گے۔ پاکستان کی طرح سری لنکا کی فوج سے بھی داخلی امور میں بہت مدد لی جاتی ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اسے خصوصی ٹاسک سونپے گئے۔ 
فوج سے پولیسنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے، قدرتی آفات میں بھی فوج ریسکیو اور ریلیف کا کام کرتی ہے۔ سری لنکا کی سرحدوں کی صورت حال بھی کسی طرح اطمینان بخش نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے باوجود سری لنکا کے معاشی حالات نے اسے مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی افواج کا حجم کم کرے۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اگلے روز اپنے ایک بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ نہ کر جائے اور کہیں پاکستان سے بھی اپنی افواج میں کٹوتی کرنے کا مطالبہ نہ کر دیا جائے۔ عمران خان نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے، وہ خدشہ بے جواز نہیں لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ عمران خان کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار پی ڈی ایم کی حکومت ہے اور اگر ان کی ( یعنی عمران خان کی ) حکومت کا خاتمہ نہ کیا جاتا تو ایسی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ 
Tumblr media
عمران خان کے سیاسی مخالفین کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس صورت حال کی ذمہ دار عمران خان کی پونے چار سال کی حکومت ہے اور یہ کہ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کیلئے عالمی طاقتیں عمران خان کو اقتدار میں لائیں تاکہ وہ ان ( عمران خان ) سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرا سکیں۔ آج پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اس کی ذمہ داری موجودہ یا پچھلی دو تین سیاسی حکومتوں پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ یہ حالات اس نظام کے منہدم ہو جانے کا نتیجہ ہیں، جسکے ذریعہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے اس ملک کو چلایا ۔ پاکستان کو اس مرحلے تک پہنچانے کیلئے بہت پہلے سے کام ہو رہا تھا ۔ بقول کسے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق پاکستانی افواج دنیا کی ساتویں طاقتور ترین افواج ہیں۔ صرف یہی نہیں پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بھی ہے۔ اس کی معیشت کا اس حال تک پہنچنا انتہائی تشویش ناک ہے۔ آئی ایم ایف جو ’’ معاشی اصلاحات ‘‘ تجویز کر رہا ہے، وہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے کیلئے نہیں بلکہ کسی عالمی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے، جو ورلڈ آرڈر کے تحت چلتا ہے۔ 
یہ ورلڈ آرڈر امریکہ اور اس کے حواریوں کا بنایا ہوا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا آگے بڑھ کر ساتھ دیا۔ خصوصاً پاکستانی افواج نے اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا ۔ ایک زمانہ تھا ، جب امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستانی افواج زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ کمیونزم کی بڑھتی پیش قدمی کو روکنے کیلئے پاکستان کو دو عالمی دفاعی معاہدوں میں شامل کیا گیا۔ یہ دو عالمی معاہدے ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ٹریٹی آرگنائزیشن ( سیٹو ) اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( سینٹو ) یا معاہدہ بغداد تھے ۔ پاکستانی افواج نے اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستانی افواج اگرچہ تنظیم معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس ( نیٹو ) کا حصہ تو نہیں تھیں لیکن افغانستان میں دو دفعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں میں نیٹو افواج کا بھرپور ساتھ دیا ۔ امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ بڑی افواج بنانے کی حوصلہ افزائی کی اور بیانیہ یہ دیا گیا کہ پاکستان کو بھارت کا مقابلہ کرنا ہے، جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ 
امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کو سیکورٹی اسٹیٹ بننے کی طرف دھکیلا ، جہاں جمہوریت نہ پنپ سکی ۔ پاکستان کو اسی راستے پر چلتے رہنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کا طفیلی بنا دیا گیا ۔ اب آئی ایم ایف سے پاکستان شاید 23 واں پیکیج حاصل کرے گا ، جس کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اتنی بڑی اور مضبوط پاکستانی افواج کی ضرورت نہیں رہی اور اگر نہیں رہی تو کیا یہ بڑی اور مضبوط افواج امریکہ کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب آئی ایم ایف کی ان شرائط سے مل جائے گا ، جو پیکیج دینے کی صورت میں سامنے آسکتی ہیں ۔ اگر اس پیکیج میں فوج کا حجم کم کرنے یا دفاعی اخراجات کم کرنے کی شرط نہ لگائی گئی تو اگلے ایک دو سال میں نئے پیکیج کیلئے یہ شرط ضرور ہو گی ۔ خدشہ ہے کہ صرف فوج کا حجم کم کرنے کی شرط نہیں ہو گی۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی کوئی شرط سامنے آسکتی ہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ۔ اب ہمیں اعتراف کرنا پڑیگا کہ حالات کے ذمہ دار ہمارے حقیقی حکمران ہیں ، جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ ابتدا سے ان کی بنائی گئی غلط پالیسیاں نہ صر ف ملک اور عوام کو بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کو دلدل میں دھنساتی چلی گئیں۔ 
ہماری عدلیہ ، ہمارا میڈیا ، ہمارے دانشور اور ہمارے سیاست دان شریک مجرمان ہیں ۔ جن سیاست دانوں نے پاکستان کو اس راہ سے ہٹانے کی کوشش کی، اس نے اس کی خوف ناک قیمت ادا کی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر کوئی پیسہ کما کے اپنے بچوں کو باہر بھیج رہا ہے لیکن حالات سے فرار ممکن نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کو ختم کیا جائے۔ عوام پر زیادہ معاشی بوجھ ڈالنے کی بجائے ادارے اپنے اخراجات میں رضاکارانہ کمی کریں۔ ورنہ غریب عوام کی اکثریت تو پہلے ہی حالات کو بھگت رہی ہے، آزمائش اب کسی اور کیلئے ہو گی۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قبول کریں، نشان تبدیل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا: شرد پوار کا ادھو کو مشورہ - Siasat Daily
ممبئی: نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سربراہ شرد پوار نے جمعہ کو کہا کہ ‘تیر اور کمان’ کے نشان کو کھونے سے ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ عوام اس کے نئے نشان کو قبول کرے گی۔ پوار کی پارٹی ٹھاکرے کی شیوسینا کی حلیف ہےشرد پوار نے یاد دلایا کہ اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے 1978 میں ایک نیا نشان منتخب کیا تھا، لیکن اس کی وجہ سے پارٹی کو کوئی نقصان نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 months
Text
پرانے چہرے، نئی وزارتیں
Tumblr media
شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے چند روز بعد آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا جس نے ملک میں ایک ناقابلِ یقین صورتحال پیدا کی ہے۔ دو حریف اب سمجھوتے کے بندھن میں بندھ چکے ہیں۔ انتخابی نتائج نے دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اقتدار کی تقسیم کا نیا نظام پاکستان کی سیاست کی عجیب و غریب صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ جتنی زیادہ چیزیں بدلتی ہیں، اتنی ہی زیادہ وہ ایک جیسی رہتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اچھی آئینی پوزیشن لے کر بھی کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ نئے حکومتی نظام کے عارضی ہونے کا اشارہ ہے۔ رواں ہفتے حلف اٹھانے والی 19 رکنی وفاقی کابینہ میں 5 اتحادی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر وہی پرانے چہرے تھے جن سے تبدیلی کی امید بہت کم ہے۔ نئے ٹیکنوکریٹس کے علاوہ، وفاقی کابینہ میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے ہیں جو گزشتہ 3 دہائیوں میں کبھی حکومت میں اور کبھی حکومت سے باہر نظر آئے۔ ان میں سے اکثریت ان کی ہے جو پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی ایم) کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھے۔ تاہم سب سے اہم نئے وزیرخزانہ کی تعیناتی تھی جوکہ ایک مایہ ناز بین الاقوامی بینکر ہیں۔ محمد اورنگزیب کی کابینہ میں شمولیت نے ’معاشی گرو‘ اسحٰق ڈار سے وزارت خزانہ کا تخت چھین لیا ہے۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک اسحٰق ڈار کے بجائے ٹیکنوکریٹ کو وزیرخزانہ منتخب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے سائے سے باہر آرہے ہیں۔ یہ یقیناً مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی نوید ہے۔ اس کے باوجود نئے وزیر کے لیے چینلجز پریشان کُن ہوں گے۔ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کے لیے پاکستان کو اہم اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لگتا یہ ہے کہ وزیراعظم کے ایجنڈے میں معیشت سرِفہرست ہے اور ایسا بجا بھی ہے۔ کابینہ کے ساتھ اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کچھ ایسے اقدامات کو ترجیح دی جن سے ان کی حکومت کو حالات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ لیکن موجودہ بحران کے پیش نظر یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ اس کے لیے یقینی طور پر کوئی فوری حل دستیاب نہیں۔ اگلے چند مہینوں میں اقتصادی محاذ پر جو کچھ ہونے جارہا ہے اس سے کمزور مخلوط حکومت کے لیے صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کا پہلا کام نہ صرف آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی آخری قسط کے اجرا کو یقینی بنانا ہے بلکہ 6 ارب ڈالرز کے توسیعی فنڈز پر بات چیت کرنا بھی ان کے ایجنڈے میں شامل ہو گا کیونکہ یہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
Tumblr media
کمرشل بینکاری میں مہارت رکھنے والے نئے وزیرخزانہ کا یہ پہلا امتحان ہو گا۔ معاملہ صرف آئی ایم ایف معاہدے تک محدود نہیں بل��ہ انہیں قرضوں کی شرح میں کمی اور ریونیو بیس کو بڑھانا بھی ہو گا۔ مشکل حالات متزلزل نظام کے منتظر ہیں۔ ایک اور دلچسپ پیش رفت میں اسحٰق ڈار کو ملک کا وزیر خارجہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے عجیب و غریب صورتحال اور کیا ہو گی کہ خارجہ پالیسی کے امور کا ذمہ دار ایک ایسے شخص کو بنا دیا گیا ہے جو اکاؤنٹینسی کے پس منظر (جو بطور وزیرخزانہ ناکام بھی ہو چکے ہیں) سے تعلق رکھتا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی ہمارے خطے کی جغرافیائی سیاست میں پاکستان کو پیچیدہ سفارتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر اسحٰق ڈار وہ شخص نہیں جنہیں یہ اعلیٰ سفارتی عہدہ سونپا جاتا۔ یہ وہ آخری چیز ہونی چاہیے تھی جس پر نئی حکومت کو تجربہ کرنا چاہیے تھا۔ لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنے سب سے قابلِ اعتماد لیفٹیننٹ کو ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ اسحٰق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کے سینیئر ترین قیادت میں شامل ہیں، وہ نئی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور عہدیدار ہوں گے۔ ماضی میں بھی اتحادی جماعتوں سے بات چیت کرنے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
جہاں زیادہ تر مسلم لیگ (ن) کے وزرا پی ڈی ایم حکومت میں کابینہ کا حصہ بن چکے ہیں وہیں محسن نقوی کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی اتنا ہی حیران کن ہے جتنا کہ ڈیڑھ سال قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر ان کی تقرری تھی۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) یا کسی اتحادی جماعت سے نہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کابینہ کے اہم قلمدان کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان وزارت داخلہ اہم ترین وزارت ہے۔ اس سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملی کہ ان کی تقرری کے پیچھے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ فوج کی قیادت کے ساتھ محسن نقوی کے روابط کا اس وقت بھی خوب چرچا ہوا تھا جب وہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ اپنے نگران دور میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف پنجاب میں سنگین کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی بدنام ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عملی طور پر ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں عوامی سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدے سے نوازا گیا۔ محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری، اہم سرکاری عہدوں پر تقرریوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
اتنے کم وقت میں میڈیا ہاؤس کے مالک سے اہم حکومتی وزیر تک ان کا سفر کافی حیران کُن ہے۔ دوسری طرف انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر بھی برقرار رکھے کا امکان ہے اور وہ سینیٹ کی نشست کے لیے کھڑے ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہو گا کہ وہ مزید کتنا آگے جاتے ہیں۔ ابھی صرف کچھ وفاقی وزرا نے حلف اٹھایا ہے۔ کابینہ میں مزید تقرریاں ہوسکتی ہیں کیونکہ وزیراعظم کو اپنی حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے تمام اتحادی جماعتوں کی تعمیل کرنا ہو گی۔ صرف امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کابینہ پی ڈی ایم حکومت جتنی بڑی نہیں ہو گی جس میں 70 وزرا، وزرائے مملکت اور مشیر شامل تھے جس کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑا۔ 18ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکموں کی صوبوں میں منتقلی کے باوجود کچھ وزارتیں وفاق میں اب بھی موجود ہیں جو کہ عوامی وسائل کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سب سے اہم، ملک کو آگے بڑھنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرروت ہے۔ نومنتخب قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کا سوال نئی حکومت کو اُلجھائے رکھے گا۔ 
اپوزیشن کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال پہلے سے عدم استحکام کا شکار سیاسی ماحول کو مزید بگاڑ دے گا۔ حکومت کی جانب سے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھانے کا اشارہ نہیں مل رہا۔ گزشتہ ہفتے کے دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے مظاہروں میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ معیشت اور گورننس براہ راست سیاسی استحکام سے منسلک ہیں لیکن یہ اقتدار میں موجود قوت یہ اہم سبق بھلا چکی ہے۔
زاہد حسین 
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران میں قاتلانہ حملے میں جاں بحق
  حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں قاتلانہ حملے میں شہید کردیا گیا، حماس نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا جس کا بدلہ لیا جائے گا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ پر تہران میں ان کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا، وہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ایران میں موجود…
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
خیبر پختونخوا: 1988 سے تواتر کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے والے 5 سیاستدان اس بار بھی میدان میں
2024ءکے عام انتخابات میں جہاں بڑی تعداد میں نئے امیدوار پنجہ آزمائی کررہے ہیں وہیں خیبرپختونخوا میں غلام احمد بلور، آفتاب شیرپاؤ سمیت پانچ ایسے امیدوار بھی ہیں جو1988 سے تواتر کے ساتھ انتخابات لڑتے آرہے ہیں، ان میں سے 2امیدوار اس وقت پارٹیوں کے سربراہ بھی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور 70ءکی دہائی سے انتخابی میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں،دس مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا، 5بار کامیاب ہوئے،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قبول کریں، نشان تبدیل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا: شرد پوار کا ادھو کو مشورہ - Siasat Daily
ممبئی: نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سربراہ شرد پوار نے جمعہ کو کہا کہ ‘تیر اور کمان’ کے نشان کو کھونے سے ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ عوام اس کے نئے نشان کو قبول کرے گی۔ پوار کی پارٹی ٹھاکرے کی شیوسینا کی حلیف ہےشرد پوار نے یاد دلایا کہ اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے 1978 میں ایک نیا نشان منتخب کیا تھا، لیکن اس کی وجہ سے پارٹی کو کوئی نقصان نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قبول کریں، نشان تبدیل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا: شرد پوار کا ادھو کو مشورہ - Siasat Daily
ممبئی: نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سربراہ شرد پوار نے جمعہ کو کہا کہ ‘تیر اور کمان’ کے نشان کو کھونے سے ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ عوام اس کے نئے نشان کو قبول کرے گی۔ پوار کی پارٹی ٹھاکرے کی شیوسینا کی حلیف ہےشرد پوار نے یاد دلایا کہ اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے 1978 میں ایک نیا نشان منتخب کیا تھا، لیکن اس کی وجہ سے پارٹی کو کوئی نقصان نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 2 years
Text
ایران، سعودیہ تعلقات اور چین کا کردار
Tumblr media
برادر ہمسایہ ملک چین اپنے اندازِ سفارت کاری کی بدولت پوری دنیا میں ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس کی سفارتکاری کا ایک اہم پہلو خاموشی ہے۔ نہ تو وہ سفارتی عمل سے قبل شور مچاتا ہے اور نہ ہی سفارتی عمل کی تکمیل کے بعد غوغا بلند کرتا ہے۔ ایک طرف سی پیک کے ذریعے چین نے وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا کے ایک بہت بڑے خطے کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے تو دوسری طرف مختلف عالمی تنازعات میں مثبت کردار ادا کر کے عالمی سیاست کے میدان میں ایک بڑا کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ 7 دسمبر 2022ء کو چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی عرب کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا جسے عرب میڈیا میں نمایاں کوریج ملی دوسری طرف سعودی عرب کے کرائون پرنس محمد بن سلمان سعودی عرب کو اقتصادی طاقت بنانے اور اس کا ایک نیا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ولی عہد کے ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب اپنے تمام تنازعات سمیٹ کر ساری توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز کر رہا ہے۔ اس ویژن کے حامل رہنما کیلئے دنیا کے باہم متحارب ممالک سے تعلقات استوار کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ انہوں نے قطر سے خراب تعلقات کو ٹھیک کیا اور عالمی فٹبال کپ کا میچ دیکھنے کیلئے قطر چلے گئے۔ 
ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات کو محمد بن سلمان نے ایک نئی جہت دی ہے اور ترکی میں پانچ بلین ڈالر کا ڈیپازٹ رکھا۔ اس اقدام کے جواب میں ترکی نے عربوں کے مقابلے میں ایک متوازی اسلامی بلاک بنانے کی کوششیں ترک کرتے ہوئے عرب دنیا کیساتھ تعلقات بہتر کئے۔ سعودی عرب اور چین کی طرح ایران میں بھی نئے رجحانات کی حامل حکومت منتخب ہوئی جسے ایران کے روحانی سربراہ علی خامنہ ای کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ 14 فروری 2023ء کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا ایک اہم دورہ کیا۔ اس دورہ کے دوران کئی اقتصادی اور سیاسی فیصلے کئے گئے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب اور ایران تنازعہ کا خاتمہ ایک اہم عالمی پیش رفت ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی سینکڑوں سال پرانی تاریخ ہے تاہم ان تعلقات میں آخری بڑا بگاڑ 2016ء میں آیا اور دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ تاہم پرنس محمد بن سلمان نے ویژن 2030ء کے تحت ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا اور 2021ء میں عمان اور عراق کے تعاون سے سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات کے پانچ دور ہوئے بعد میں چین نے دونوں ممالک کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
Tumblr media
تاریخی طور پر سعودی عرب امریکی کیمپ کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں امریکی فوجی اڈے بھی موجود ہیں لیکن چین کی طرف سعودی عرب کا جھکائؤ اور حالیہ معاہدے نے سعودی عرب کی نئی ترجیحات واضح کر دی ہیں۔ 10 مارچ 2023ء کو چین میں سعودی عرب اور ایران کے مابین مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ عین اس دن جاری کیا گیا جب چینی صدر کے تیسرے صدارتی دور کے آغاز کا پہلا دن تھا۔ اس دن کے انتخاب نے چینی عزائم کو بھی واضح کر دیا کہ آنے والے پانچ برسوں میں چین تمام عالمی تنازعات میں ایک مثبت ثالث کا کردار ادا کریگا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانے دوبارہ کھولیںگے اور ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے۔ حالیہ معاہدے کے مطابق سعودی عرب اور ایران 1998ء میں ہونیوالے اقتصادی معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنائینگے اور 2001 ء کے سیکورٹی معاہدے پر بھی عمل کرینگے۔ 
مذاکرات کے تینوں فریق یعنی سعودی عرب، ایران اور چین نے علاقائی اور عالمی امن کیلئے تمام کوششیں بروئے کار لانے کا عزم بھی کیا۔ اس معاہدے کے بعد، سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازعے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں تشویش اور تنائؤ کا خاتمہ ہو گا۔ خطے میں امن نمو پذیر ہو گا۔ ایران بھی اپنے اقتصادی حالات بہتر کرنے کی راہ پر گامزن ہو گا۔ اس اہم معاہدے پر امریکہ نے اگرچہ ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے تاہم یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین نے پہلی مرتبہ کسی عالمی تنازعے پر بلا معاوضہ ثالثی کر کے امریکی اقتدار کو چیلنج کیا ہے۔ چین نے اس صلح کے عوض نہ تو فوجی اڈے طلب کئے ہیں اور نہ ہی کسی ملک کو مجبور کیا کہ وہ اس سے اسلحہ خریدے جس سے چین کے عالمی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین صلح سے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران اور پاکستان کے مابین تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان کے داخلی حالات میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی۔ 
عالمی سطح پر ہونیوالی اس پیشرفت سے تبھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب پاکستان میں ایک مستحکم سیاسی حکومت قائم ہو۔ موجودہ حکومت کی سفارتی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اتنے اہم مذاکرات میں پاکستان کو سرے سے اعتماد میں ہی نہیں لیا گیا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران چین اور سعودی عرب کا رویہ بھی موجودہ حکمرانوں کیلئے غور طلب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں میں اپنا کردار برقرار رکھنے کیلئے ایک مستحکم سیاسی حکومت وجود میں آئے ورنہ عالمی تنازعات میں بونے سیاسی لیڈروں کی کوئی وقعت نہیں ہوا کرتی۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes