Tumgik
#چین-افریقہ تعلقات
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا روس پر اقتصادی پابندیوں کے مطلوبہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں؟
Tumblr media
اب تک روسی معشیت کو تباہ ہو جانا چاہیے تھا۔ اتنا کہ عوام حکومت پر دباؤ ڈالتی کہ وہ یوکرین کے ساتھ مذاکرات کر کے کسی تصفیے پر پہنچ جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے ملک کی معیشت ترقی کر رہی ہے اور جب سے روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا حکم دیا ہے، معاشی شعبے میں بہت کچھ ہوا ہے۔ پہلے روبل کی قیمت میں کمی آئی، پھر جلد ہی بحال ہو گئی۔ روس اپنی ہی جارحیت کی وجہ سے تیل اور گیس کی بلند ہو جانے والی قیمتوں کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہا ہے۔ درآمدات تھوڑی دیر کے لیے کم ہوئیں، لیکن اب وہ اپنی جنگ سے پہلے کی سطح پر واپس آگئی ہیں۔ روس کو فوجی اعتبار سے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کافی تعداد میں فوجیوں کی جانیں گئیں لیکن جب تک کہ وہ براہ راست متاثر نہ ہوں، زیادہ تر روسی شہریوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس صورت حال کی بدولت اور صدر پوتن کی جانب سے داخلی سطح پر اختلاف رائے کو دبانے کے نتیجے میں یوکرین سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ روس فوجی رسد جاری رکھ کر جنگ کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
اس کے باوجود امریکی حکومت مارچ 2022 میں پیش گوئی کر رہی تھی کہ روسی معیشت جلد ہی ’15 فیصد تک سکڑ جائے گی‘ اور یہ کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران روسی شہری جس معیار زندگی کا لطف اٹھا رہے تھے، وہ باقی نہیں رہے گا۔ 400 سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اشیائے صرف کی تیاری اور تفریح کے شعبے سے ہے، کے روس سے چلے جانے کی صورت میں روسی شہریوں کو وہ سامان اور تفریح میسر نہیں ہو گا، جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔ روس پر پابندیاں لگانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ گھٹنے ٹیک دے۔ اس پالیسی نے کام نہیں کیا۔ کم از کم اس حد تک نہیں جو ان کا مقصد تھا۔ سال 2014 کے بعد سے جب روس نے کرائمیا پر حملہ کیا، سزا دینے کے اقدامات کے 10 ادوار ہو چکے ہیں رواں ہفتے کے اختتام پر جی سیون سربراہ اجلاس کا 11واں نمبر ہے۔  ویب سائٹ کاسٹیلم ڈاٹ اے آئی، جو روس کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ جاپان میں جی سیون کے اجلاس سے قبل اور یوکرین پر حملے کے بعد روس پر تقریباً ساڑھے بارہ ہزار پابندیاں لگائی گئیں۔ 2014 سے لگائی گئی 2695 پابندیاں ان کے علاوہ ہیں۔ تقریباً دس ہزار افراد ان پابندیوں کی زد میں آئے۔
Tumblr media
ان میں سفری پابندیوں سمیت روسی گیس، کوئلے اور تیل کی برآمدات، پرتعیش سامان کی فروخت، پیشہ ورانہ خدمات، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے فنڈز تک رسائی، حکومتی قرضوں اور روسی بینکوں کی طرف سے بین الاقوامی ادائیگیوں کے نظام ’سوئفٹ‘ کے استعمال پر پابندی شامل ہے۔ روس کے تقریباً 300 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ جی سیون کے اجلاس میں برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے سخت مؤقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ روس یوکرین میں جنگ کی ’قیمت ادا کرے۔‘ روسی ہیروں، تانبے، ایلومینیم اور چاندی کی درآمدات کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ افراد سمیت مزید 300 روسی اداروں، بحری جہازوں اور طیاروں کو اب بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ جی سیون رہنماؤں کے بقول: ’ہم مزید پابندیاں لگا رہے ہیں اور اقدامات کر رہے تاکہ روس اور ان کے لیے قیمت بڑھ جائے، جو اس کی جنگ کی حمایت کر رہے ہیں۔‘ سیاسی رہنما طویل عرصے سے بدمعاش ممالک کو روکنے کے لیے پابندیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں یہ تابوتوں میں گھر لوٹنے والے فوجیوں کو دیکھنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ شاذ و نادر ہی کام کرتے ہیں۔ ایک مثال جس کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے وہ اقوام متحدہ کی جانب سے نسل پرستانہ دور حکومت کے دوران جنوبی افریقہ پر لگائی گئی تجارتی پابندیاں تھیں۔ درحقیقت یہ معاشی تنہائی نہیں تھی جو برسوں تک برداشت کی گئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس کی وجہ مصائب اور خونریزی ختم کرنے کے لیے داخلی سطح پر سامنے آنے والے مطالبات تھے۔ جنوبی افریقہ کے معاملے میں پابندی کا اطلاق اقوام متحدہ نے کیا تھا، لیکن روس کے حوالے سے پابندیاں اقوام متحدہ یا باقی دنیا کی بجائے صرف امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان کی طرف سے لاگو کی گئی ہیں۔ جنوبی امریکہ، افریقہ، مشرق وسطیٰ، انڈیا، پاکستان، چین اور باقی ایشیائی ممالک پر مشتمل ’گلوبل ساؤتھ‘ روس سے تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آدھی دنیا اب بھی روس کے ساتھ تجارت کے لیے کھلی ہے۔   پوتن چین اور انڈیا کو بڑے پیمانے پر تیل اور گیس بیچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے قریبی حلقے کے اراکین، دا اولیگارچز، انفرادی اقدامات سے متاثر ہو کر لندن، نیویارک اور پیرس سے دبئی جیسی جگہوں پر منتقل ہو گئے ہیں اور اپنے انتہائی شاہانہ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ شاید پوتن پر اولیگارچز کے اثر و رسوخ کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ اگر انہوں نے شکایت کی ہے تو ان کی آہیں سننے والا کوئی نہیں ہے۔ مقامی کاروباری افراد، جن میں سے بہت سے سابق عملے کے ارکان ہیں، نے رخصت ہونے والی غیر ملکی فرموں کے روس میں کاروبار سنبھال لیے ہیں۔ وہ ممالک جو پابندیوں میں شامل نہیں ہیں انہوں نے اپنی مصنوعات کے لیے نئے دروازے کھول لیے ہیں اور وہ ان کی جگہ لے رہے ہیں، جو اب وہاں ممنوع ہو چکے۔ اسی وقت ’متوازی‘ درآمدات، مغرب سے روس کو تیسرے ملک کے ذریعے غیر قانونی فروخت، بھی عروج پر ہے۔ 
آرمینیا ایسا ہی ایک مرکز ہے، قازقستان اور سربیا بھی ایسے ہی دیگر سہولت کار ممالک ہیں۔ 2021 میں قازقستان نے روس کو ایک بھی واشنگ مشین برآمد نہیں کی۔ اس سال یہ ایک لاکھ سے زیادہ مشینیں روس بھیجے گا۔ سربیا روس کو 10 ہزار ڈالر سے کم مالیت کے موبائل فون برآمد کرتا تھا، اب ان کی کھیپ دسیوں کروڑوں ڈالرز میں بھیجی جا رہی ہے۔ اگرچہ پابندیاں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر رہی ہیں لیکن ان کا کچھ اثر ہو رہا ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک مشکل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغربی کمپنیاں بھی اپنی جگہ کھو دیں گی۔ اسی طرح اولیگارچز کو وہ مکمل آزادی حاصل نہیں ہے، جو انہوں نے کبھی حاصل کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اس کا جادوئی علاج نہ ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ پابندیاں پوتن کو اپنی فوجی جارحیت کو بڑھانے سے روک رہی ہوں۔ وہ ایک تعطل میں قید ہو گئے ہیں اور اس طرح یہ سوچ آخر کار رک جائے گی۔ یہ مرحلہ ابھی دور ہے اور بلاشبہ اس مقام تک پہنچنے سے پہلے مزید پابندیاں لگائی جانی ہیں۔
کرس بلیک ہرسٹ   نوٹ: کرس بلیک ہرسٹ ایوارڈ یافتہ مصنف، تجزیہ نگار اور انڈپینڈنٹ کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کی کتاب ’دا ورلڈز بگسٹ کیش مشین‘ (The World's Biggest Cash Machine) اسی سال شائع ہو گی۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
1 note · View note
risingpakistan · 1 year
Text
ایران - سعودی تعلقات کی بحالی سے پاکستان کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
Tumblr media
چین ان دونوں ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی اور معاشی تعلقات مستحکم کرنے کے حوالے سے اقدامات کر رہا تھا یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان ثالث کے کردار کے لیے چین ایک فطری انتخاب تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خطے کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کا یہ تعلق زیادہ عرصے تک برقرار رہ پائے گا؟ دیکھا جائے تو ماضی میں اس طرح کی بہت سی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں تو کیا اس بار یہ کامیاب ہو پائے گی؟ کیا امریکا مشرقِ وسطی میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کے لیے اقدامات کرے گا؟ اور اس سب کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کے جوابات خطے اور پوری دنیا پر اپنے گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کے نوجوان اور متحرک ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں ملک میں ’تبدیلی‘ آرہی ہے۔ سعودی عرب تیل کی برآمدات پر اپنے انحصار کو کم کر کے اپنی معیشت کو متنوع بنانے پر توجہ دے رہا ہے۔ سعودی عرب کے وژن 2030ء ملک کو ایک ایسا مرکز بنانے کا اعادہ کرتا ہے جو ’3 برِاعظموں افریقہ، ایشیا اور یورپ کو جوڑے گا‘۔ سماجی طور پر سعودی عرب کا معاشرہ اس قدامت پسندی کو آہستہ آہستہ ختم کررہا ہے جوکہ آلِ سعود سے منسوب تھی۔
وژن 2030ء کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سعودی عرب امریکا کے ساتھ اپنے سیکیورٹی تعلقات پر نظرثانی کر کے اور دیگر عالمی طاقتوں بالخصوص چین تک رسائی کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسی کو نئی شکل دے رہا ہے۔ دوسرا اہم اقدام یہ ہے کہ سعودی عرب اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات کے قیام کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکیہ، قطر حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ بھی ممکنہ طور پر سعودی عرب اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے جبکہ ایران کے ساتھ تعلقات کی حالیہ بحالی اس بات کا عندیہ ہے کہ ان کی یہ اندرونی اور بیرونی پالیسیاں اسی ایجنڈے سے مطابقت رکھتی ہیں جس پر عمل ��رآمد کے لیے وہ کوشاں ہیں۔ دوسری طرف ایران بھی سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتا تھا۔ ایران اس وقت امریکی پابندیوں کی وجہ سے سنگین معاشی بحران میں مبتلا ہے جو ملک کے ہر شعبے پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پھر ایرانی معاشرے میں لوگوں کے سماجی پابندیوں سے تنگ آنے کے آثار بھی نمایاں ہو رہے ہیں جیسا کہ ہم نے خواتین کی قیادت میں ملک گیر مظاہروں کی صورت میں ہم نے دیکھا۔ مزید برآں لبنان، شام، عراق اور یمن میں پراکسی جنگوں کی فنڈنگ بھی معاشی بحران کا شکار ایران کے لیے مہنگا ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے میں قابلِ فہم طور پر ایران اپنے ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ تناؤ کو کم کرنا چاہتا ہے اور خطے میں اسے تنہا اور الگ کرنے کی امریکا کی کوششوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔
Tumblr media
ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے چین کا یہ سفارتی اقدام جغرافیائی سیاست اور جغرافیائی معیشت میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چین کی توانائی کی ضروریات کا ایک بڑا حصہ سعودی تیل سے پورا ہوتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ دسمبر میں ریاض کے دورے پر پہنچے تھے جہاں انہوں نے ماحول دوست توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کلاؤڈ خدمات اور دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے 34 معاہدے طے کیے جن کا تخمینہ تقریباً 30 ارب ڈالر ہے۔ سعودی عرب نے خطے کے 30 سربراہانِ مملکت اور کاروباری حضرات کے ساتھ صدر شی جن پنگ کے اجلاس کی میزبانی بھی کی۔ چین ایران کو کثیرالجہتی تعلقات میں بھی شامل کررہا ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے حال ہی میں بیجنگ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے 2021ء میں طے پانے والے 25 سالہ جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ معاہدے کے تحت 20 اہم معاہدوں پر دستخط کیے جس کے بعد چینی سرمایہ کار ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ چین نے ایران پر امریکی پابندیاں ہٹانے، جوہری معاہدے کو بحال کرنے اور شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس (BRICS) میں ایران کو شامل کرنے کی حمایت کی ہے۔
امریکا جس کا اس وقت چین کے ساتھ مقابلہ اپنے عروج پر ہے، اس نے نئی پیشرفت کا انتہائی محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے لیکن وہ اس اقدام کو چین کی جانب سے دنیا بھر میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کی کوشش کے زمرے میں دیکھ سکتا ہے۔ اس تناظر میں یہ نئی پیش رفت مشرقی وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسی کے لیے ایک دھچکے کی مانند ہے۔ کئی دہائیوں تک امریکا سعودی عرب کا کلیدی دفاعی سپلائر اور سیکیورٹی کا ضامن تھا۔ حال ہی میں ان دونوں کے تعلقات میں دراڑیں اس وقت نمودار ہوئیں جب واشنگٹن سعودی عرب کو تیل کی سپلائی بڑھانے اور تیل کی قیمتوں پر آمادہ کرنے میں ناکام رہا جس کے حوالے سے امریکا کا خیال تھا کہ یہ یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کا ساتھ دے گا۔ مزید قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2018ء میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکا کی جانب سے سعودی عرب کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تنقید کی گئی۔ صدر جو بائیڈن نے اس سعودی عرب کی ریاست کو دنیا سے کاٹ دینے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور چین کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے کے لیے سعودی عرب کے عملی اقدامات واشنگٹن کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔
امریکا جو اپنی انڈو-پسیفک حکمت عملی کے تحت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے، وہ یقینی طور پر آنے والے مہینوں میں جوابی اقدامات کرے گا حالانکہ سفارتکاری کے بجائے عسکری طاقت پر حد سے زیادہ انحصار کرنے سے امریکا کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ بھارت جسے امریکا نے جنوبی ایشیا میں اپنے اتحادی کے طور پر چنا تھا وہ بھی روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کو ترجیح دے رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے امریکا سے دُور ہونے کے بعد، پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ امریکا اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے نئے مواقع کی تلاش میں ہے۔ اسرائیل بھی ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے اس نئی پیش رفت سے ناخوش ہے لیکن اس نے اپنے آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ لیکن وہ ایران کو تنہا کرنے پر اب بھی بضد ہے، اسرائیل نے عرب دنیا کے ساتھ ہم آہنگی کی جانب قدم اٹھایا ہے جبکہ چین کے ساتھ اپنے اقتصادی روابط میں بھی مسلسل اضافہ کیا ہے۔ تو یہ پیش رفت پاکستان کے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے؟ ہماری حکومت نے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس سے مسلم دنیا میں ہماری جامع کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔
چین اور ان دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی روابط بڑھ رہے ہیں، پاکستان جو ان تینوں ریاستوں کے بالکل قریب واقع ہے، اس تبدیلی سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے اقتصادی بحران سے نکلنا ہو گا اور ان ممالک سے صنعتی زونز اور زرعی شعبے میں ممکنہ سرمایہ کاری کو جذب کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ سعودی عرب پاکستان میں اپنی آئل ریفائنری لگانے پر آمادہ ہے جس کے لیے زمینی کام کو تیز کرنا ہو گا۔ ایران کے ساتھ ہمیں سرحدی مارکیٹوں کو وسعت دینی چاہیے جبکہ بارٹر تجارت کا بہترین استعمال بھی کرنا چاہیے۔ گوادر بندرگاہ کو کامرس اور تجارت کا علاقائی مرکز بنانے اور اسے مکمل طور پر فعال بنانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک سے صنعتی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے اسپیشل اکنامک زونز کو بھی متحرک کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ سفارتی محاذ پر نتیجہ خیز اور عملی سفارت کاری، خاموشی اور احتیاط سے کیسے کی جاتی ہے۔
اعزاز احمد چوہدری  یہ مضمون 18 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
چین کی مستقل مزاجی اور نئی سرد جنگ
اکتوبر 2022ء چین کے عروج کے حوالے سے تاریخی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ صدر شی جن پنگ کو مرکزی کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے، وہ تیسری مدت کیلئے چین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ بے مثال کامیابی شی جن پنگ کو چین کا مقبول ترین رہنما ثابت کرتی ہے، جو ماؤزے تنگ کے پیش رو ہیں۔ شی جن پنگ کے تیسری مدت کیلئےانتخاب کا مطلب یہ ہے کہ چین ترقی، اقتصادی برتری، عالمی وعلاقائی روابط اور سالمیت کی اپنی موجودہ پالیسیوں کو برقرار رکھے گا۔ بیجنگ کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتے اثر و رسوخ پر دنیا محض حیرت میں مبتلا ہے جبکہ مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ انتہائی خوف میں مبتلا ہے۔ دنیا بھر کیلئے ماضی میں چین کے ساتھ اپنے معاملات پر نظرِ ثانی اور مستقبل کا لائحہِ عمل مرتب کرنے کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔ سوویت یونین اس کا براہ راست حریف تھا۔ جنگ کے خاتمے سے لے کر 1989 میں سوویت یونین کی تحلیل تک دنیا دو دھڑوں میں تقسیم رہی۔ 
لبرل دنیا کے نظریہ سازوں نے اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی پالیسی اپنائی۔ اس وقت چین ایک ترقی پذیر ملک تھا۔ یہ غربت، جنگوں اور ٹوٹ پھوٹ کے مسائل سے دو چار تھا۔ چین کو روس کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کیلئے امریکہ نے چین کو مغربی دنیا میں متعارف کرایا اور اسے عالمی تجارت کے مرکزی دھارے میں رسائی دی۔ یوں جب امریکی یورپ پر اپنے تسلط کو یقینی بنانے میں مصروف تھے، چین نے مستقل مزاجی سے اپنی معیشت کو ترقی دی۔ وہ ٹیکنالوجی کے فروغ کی پالیسی پر عمل کے ساتھ ساتھ برآمدات کو وسعت دینے کی پالیسی پر عمل کرنے میں کامیاب رہا۔ صنعت و تجارت کے شعبے مرکزی کمیونسٹ پارٹی کی توجہ کے مرکز بن گئے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ کو یونی پولر دنیا ورثے میں ملی، امریکہ لبرل ازم پر عمل پیرا رہا۔ چین ڈبلیو ٹی او کے اہم ارکان میں سے ایک بن گیا۔ اس کی سستی لیبر، سخت محنت اور مستقل مزاجی نے امریکی کمپنیوں کو چینی فیکٹریوں کے دروازوں تک پہنچا دیا۔ 
ایک زمانے میں، چینی مصنوعات کو کمتر سمجھا جاتا تھا لیکن وہ دن گزر چکے، کیونکہ امریکی اور یورپی کمپنیوں کی اکثریت نے اپنی مینوفیکچرنگ شین زین اور شنگھائی کی فیکٹریوں میں منتقل کر دی۔ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں، چین اور اس کے عوام نے تمام اندازے اور اعداد و شمار الٹ کے رکھ دیے ہیں۔ اب چین کا جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ چکا ہے، یورپ پہلے ہی چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔ چین نے عسکری طور پر بھی غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ جاپان میں اس کی موجودگی اور تائیوان میں اس کے اسٹرٹیجک اثاثے امریکہ کیلئے ناقابلِ برداشت ہیں۔ اب ایک نئی سرد جنگ نمو پا چکی ہے جو سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ہونے والی سرد جنگ سے کہیں زیادہ گنجلک ہو سکتی ہے۔ چین عددی برتری رکھتا ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں اس کی موجودگی ہے۔ 
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی شروعات امریکہ نے سوویت معیشت کو نقصان پہنچا کر کی، چین کے معاملے میں صورتحال الٹ ہے۔ چین کھلی اور آزاد منڈی میں امریکی معیشت کا مقابلہ کر رہا ہے، جو سوویت یونین کبھی نہیں کر سکا۔ اس وقت مارکیٹ پر امریکی مصنوعات اور معیشت کا غلبہ تھا اور ان کھلی منڈی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ تاہم اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر کھلے عام اس کا اعتراف کیا اور تجارتی تحفظ پسندی کا فلسفہ متعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ چینی مصنوعات امریکی منڈیوں میں غیر منصفانہ مراعات کے ساتھ فروخت ہو رہی ہیں۔ امریکی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ کی معیشت غیر منصفانہ طرز عمل کی وجہ سے خسارے میں جا رہی ہے، جبکہ یہ امریکی صنعتوں کی ناکامی اور چینی برآمدات کی کم لاگت کا اثرہے۔ نئی سرد جنگ میں امریکہ اپنی ناکام خارجہ اور داخلہ پالیسی کی وجہ سے پسپا ہو رہا ہے۔ یہ ویت نام، عراق، افغانستان اور شام میں بڑی ناکامیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ امریکہ مزید فوجی مہمات کا متحمل نہیں رہا۔
نیٹو کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے، یورپ جنگ کے دہانے پر ہے۔ اس بار یوکرین پر روسی حملے اور یوکرین کیلئے مغرب کی حمایت نے چین کے خلاف روسی تعاون کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف اقدامات کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔ چین اپنی فوجی اور اقتصادی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین نے ایشیا میں اپنے قدم جمانے کے بعد اب افریقہ اور وسطی ایشیا تک دائرہ پھیلا لیا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ چین کو الگ تھلگ رکھ کر اور اسے تیسری دنیا کے مسائل میں الجھا کر ترقی سے روکا جا سکتا ہے لیکن اب، بہت دیر ہو چکی ہے، یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ چین ایک دہائی سے بھی کم عرصہ میں کرۂ ارض پر غلبہ پالے گا۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ امریکہ کی بجائے بیجنگ کے اتحادی ہوں گے۔ مغربی دنیا کے حقیقت پسند چین کے عروج کو امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لبرل ازم ختم ہو چکا ہے۔ 
چین دنیا کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک ہے جبکہ امریکہ کی تاریخ صرف چند سو سال پرانی ہے۔ چین اپنی عدم تشدد کی پالیسی، دیگر اقوام کے احترام اور باہمی ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ سرمایہ دارانہ لالچ ، فاسٹ فوڈ کلچر، ہالی ووڈ اور جمہوریت کے نام پر جنگوں سے دنیا کو متعارف کرواتا رہا جس نے عراق، ویت نام اور افغانستان جیسے ممالک کو تباہ کیا۔ اسرائیل جیسی ظالم قوموں کی پشت پناہی کی اورفلسطینیوں کے قتلِ عام کی کھلی اجازت دی۔ یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی شاذ و نادر ہی پرامن رہی ہے، طاقت کے پرانے نظام اتنی آسانی سے مفلوج نہیں ہوں گے، ہم ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر ہیں۔
امتیاز رفیع بٹ (مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
امریکہ نے خطرناک کووِڈ تناؤ کی جلد شناخت کرنے پر سافرین سائنسدانوں کی تعریف کی۔
امریکہ نے خطرناک کووِڈ تناؤ کی جلد شناخت کرنے پر سافرین سائنسدانوں کی تعریف کی۔
واشنگٹن: ریاستہائے متحدہ نے ہفتے کے روز جنوبی افریقہ کی تعریف کی کہ وہ اومیکرون نامی نئے کوویڈ تناؤ کی تیزی سے شناخت کر رہا ہے اور اس معلومات کو دنیا کے ساتھ بانٹ رہا ہے – چین کی طرف سے ناول کورونویرس کے اصل پھیلنے سے نمٹنے پر ایک بمشکل پردہ دار تھپڑ۔ محکمہ خارجہ نے کہا کہ سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی تعلقات اور تعاون کی وزیر نیلیڈی پانڈور سے بات کی اور انہوں نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
امریکہ نہیں چاہتا تھا پاکستان چین کے ساتھ تعلقات بڑھائے،ایوب خان نے کیا جواب دیا؟عمر ایوب کے انکشافات، بڑا دعویٰ کردیا اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ امریکہ نہیں چاہتا تھا پاکستان چین کے ساتھ تعلقات بڑھائے،صدر ایوب خان نے امریکہ کو بتایا چین پاکستان کا ہمسایہ ہے اور پاکستان تعلقات ختم نہیں کرے گا،ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ سے ایشیاء افریقہ اور یورپی ممالک کو فائدہ ہوگا،2030 تک پاکستان کی آدھی بجلی قابل تجدید ذرائع توانائی سے حاصل کی جائے گی۔ جمعرات کو تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
0 notes
mypakistan · 9 years
Text
چین سے بھرپورمعاشی فائدہ اٹھانے کی ضرورت
پاکستان اور چین کے درمیان جس قدر گہری اور پرخلوص دوستی ہے اسکی دنیا میں شاید ہی کوئی مثال ہو۔ دونوں دوست ممالک نے اس دوستی کو اس بلند ترین مقام تک پہنچانے کیلئے ہمیشہ بڑی محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے۔ چین پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے بے شمار منصوبوں میں تعاون کررہا ہے جس کی سب سے بڑی حالیہ مثال پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات 1949ءمیں چین کی آزادی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہوگئے جو آج کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند اور مضبوط ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی موقع ہوپاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے موقف کی بھرپور حمایت کی اور کھل کر ساتھ دیا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع پیدا ہوا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ اُس وقت چین عالمی سطح پر تنہا کھڑا تھا لیکن پاکستان نے چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے پاک چین دوستانہ تعلقات زیادہ تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہوئے۔ اسی طرح 1965ءمیں جب بھارت نے کشمیر تنازع پر پاکستان کیخلاف جنگ چھیڑی تو چین پاکستان کے ساتھ آن کھڑا ہوا اور دونوں ممالک کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔
ہمارے دوست ملک چین نے ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود چین نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے مدد کی۔ اسکے علاوہ ٹینک سازی اور طیارہ سازی سمیت اسلحہ سازی کی صنعت کو مستحکم کیا جس کی وجہ سے آج پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوچکا ہے۔ البتہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشی میدان میں ہم چین سے اُتنا زیادہ فائدہ نہیں اٹھاپائے جتنا اٹھاسکتے تھے۔
 چین بھی پاکستان جیسا ملک تھا اور اُسکے معاشی مسائل بھی تقریباً ویسے ہی تھے جیسے کہ پاکستان کے لیکن اسکے بعد سے آج تک چین نے اس قدر تیزی سے ترقی کی ہے کہ ساری دنیا حیران و پریشان ہے۔ 1.37ارب آبادی والے چین کا جی ڈی پی 11.21ٹریلین ڈالر، برآمدات 2.343 ٹریلین ڈالر جبکہ ا مپورٹ 1.96ٹریلن ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ امریکہ سے لیکر افریقہ تک ہر جگہ مارکیٹیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں ۔
البتہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ موجودہ حکومت اور فوجی قیادت نے چین کے ساتھ تعلقات کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کررکھا ہے جو کرنا بھی چاہیے کیونکہ چین پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی راہداری کا جو معاہدہ طے پایا ہے وہ ان شاءاللہ ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولے گا۔ چین سے بھرپور معاشی فائدہ اٹھانے کیلئے ہمارے اداروں کو بڑا اہم کردار نبھانا چاہیے جو کہ فی الحال نظر نہیں آرہا۔ مثال کے طور پر کچھ ہفتے قبل چین کے شہر ارمچی میں ہونےوالی نمائش یورایشیا میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ 
اس نمائش کو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے سپانسر کیا تھا، ہینڈی کرافٹ، ماربل، جیولری، فرنیچر اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی تیس پاکستانی کمپنیوں نے اس میں سٹال لگائے لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں کیونکہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال خریداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اسکی بنیادی وجہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی جانب سے منصوبہ بندی کا فقدان تھاجبکہ اتھارٹی نے اس اہم ایونٹ کی تشہیر بھی نہیں کی۔
عموماً یہ ہوتا ہے کہ سٹال کی قیمت کا پچاس فیصد ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان دیتی ہے جبکہ بقیہ پچاس فیصد سٹال ہولڈر برداشت کرتا ہے۔ اس سال سٹال کی قیمت ایک لاکھ بتاکر پچاس ہزار روپے سٹال ہولڈرز سے لیے گئے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سٹال کی قیمت ہی پچاس ہزار روپے تھی۔
جب قومی ادارے تاجروں کے ساتھ یہ سلوک کریں تو چین کی مارکیٹ سے فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے البتہ پاکستانی سفارتخانے نے بڑے اچھے تعاون کا مظاہرہ کیا، پاکستانی کمرشل قونصلر ڈاکٹر ارفع اقبال بیجنگ خود آئیں اور پاکستانی تاجروں کی حوصلہ افزائی کی۔ وہاں میری چائنہ کونسل فار پرموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ کے وینکی لین سے بڑے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی جس کے دوران دوطرفہ تجارتی امور اور پاک چین اکنامک کاریڈور پر تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ صرف وینکی لین ہی نہیں بلکہ جتنے بھی چینی تاجروں سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے پاکستان کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہوئے دوطرفہ تجارت بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
 یہ بہت ضروری ہے کہ برآمدات کے حوالے سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان جیسا اہم قومی ادارہ تاجروں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار نہ کرے بلکہ انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کرے تاکہ یہ تاجر پاکستان کی بیرونی تجارت کو فروغ دینے اور ملک کی معاشی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ چین دنیا کی بہت بڑی معاشی قوت ہے اور خوش قسمتی سے نہ صرف ہمارا ہمسایہ بلکہ بہترین دوست اور پاکستان سے ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہے۔ اگر ہم چین کی دوستی اور طاقت سے فائدہ نہ اٹھاسکے تو ہم بہت ہی بدقسمت ہونگے۔
  سید محمود غزنوی
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
وزیر اعظم سے ایتھوپین ہم منصب کی ملاقات
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/129255/
وزیر اعظم سے ایتھوپین ہم منصب کی ملاقات
وزیر اعظم عمران خان سے ایتھوپین ہم منصب ابی احمد کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں خطے کی صورتحال اور عالمی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی سائیڈ لائن پر وزیر اعظم عمران خان سے ایتھوپین ہم منصب ابی احمد کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں خطے کی صورتحال اور عالمی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور بھی زیر غور آئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے آپس میں سیاسی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کی تجویز دی جبکہ دونوں ممالک کا متواتر اعلیٰ سطح کے وفود کے تبادلوں پر بھی اتفاق ہوا۔
اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دے رہا ہے، کمرشل سرگرمیوں کے فروغ کے لیے عوامی رابطوں کا تبادلہ ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افریقہ میں امن و استحکام کے لیے کردار جاری رکھے گا۔
اس سے قبل وزیر اعظم نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین جدید دور میں کامیابی کی عظیم مثال ہے، چین نے ترقی کو فروغ دے کر معاشرے کو تبدیل کردیا۔ یہ تبدیلی چینی قیادت کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ تھا کہ چینی صدر نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا نظریہ پیش کیا ہے، منصوبہ معاشی استحکام اور عوامی رابطے کی رکاوٹیں توڑ سکے گا، معیشت کی مضبوطی اور عوامی خوشحالی کے لیے منصوبہ شاندار ہے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا تھا کہ چین کا ابتدائی شراکت دار بننا پاکستان کے لیے قابل فخر ہے، دونوں ممالک میں خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جا رہے ہیں۔ موٹر وے، ہائی ویز اور ریلوے کا نظام بہتر کیا جا رہا ہے۔
0 notes
cleopatrarps · 6 years
Text
چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند
ہانگ کانگ : بن بلینڈ اور نکولل لیو
چین چاہتا ہے کہ اس کی ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورسز بیرون ملک بڑا کردار ادا کرے، صدر چی جنگ پنگ نے ان کے بین الاقوامی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زیادہ طاقتور خارجہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
چین کی مسلح پولیس کیلئے انٹیلیجنس کے سربراہ جو ملک کی انسداد دہشتگردی فورسز کو چلارت ہیں،ژانگ ژاؤ نے قومی نیوز ایجنسی شنوا کو ہفتے کے اختتام پر کی نے کہا کہ انسداددہشتگردی کی تیاریوں کو ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی توسیع کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ہمیں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے ایک محافظ قوت، بیرون ملک مفادات کی حفاظت کیلئے رہنما فورس اور عالمی جنگ کیلئے ایلیٹ فورس بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔
چین نے 2015 میں وسیع پیمانے پر انسداد دہشتگردی کا نیا قانون منظور کیا جو فوج اور پولیس کو بیرون ملک انسداد دہشت گردی مشن منعقد یا شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ قانون چین کے انسداد دہشت گردی فورسز کے لئے بین الاقوامی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ہے، تھنک ٹینک یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے پاس چین کی فوجی طاقت کے بیرون ملک مقاصد کے استعمال میں ڈرمائی تبدیلی کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
ریاستی تھنک ٹینک چین کا ادارہ برائے معاصر بین الاقوامی تعلقات میں انسداد دہشتگردی ریسرچ کے سربراہ لی وی نے کہا کہ بیرون ملک کوئی بھی کارروائیاں مقامی حکومتوں کے ساتھ کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ یہ یکطرفہ نہیں ہوں گی لیکن امریکی حکومت کے انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے برعکس مقامی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہونا ضروری ہے۔
لی وی نے مزید کہا کہ چین کا بیرونی انسداد دہشتگردی توجہ نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلیجنس کے اشتراک اور عدالتی تعاون پر بھی ہوگی، بالخصوص ان ممالک میں جو شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر سرمایہ کاری اقدام کا حصہ ہیں۔
ہانگ کانگ میں لنگاننگ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ژانگ بوہوئی نے کہا کہ چین اس کی عالمی بننے کی حکمت عملی کے حتمی دور میں داخل ہورہا ہے اور کہ یہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے تناؤ والے حصوں میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے غیر ملکی فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔
پروفیسر ژانگ نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو اس کی ترقی سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کوچین سے عالمی حکمرانی کے لئے چین سے بوجھ اٹھانے کیلئے عظیم کاندھوں کی توقع ہے، انسداد دہشتگردی ایک شعبہ ہے جہاں چین آنے والے برسوں میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایلیٹ اسنو لیوپرڈ کمانڈوز سمیت چینی یونٹس،جو عوامی مسلح پولیس کا حصہ ہیں،پہلے افغانستان اور عراق میں چینی سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیرون ملک تعینات کی گئی تھیں۔
چین دنیا بھر کی انسداد دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی مشقوں میں بھی شامل ہے،جیساکہ اس کے شہریوں کو ملک اوربیرون ملک تھائی لینڈ سے مالی میں حالیہ دہشتگردی کے حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
صدر شی جنگ پنگ چین کو مزید مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو موافق ہونے کیلئے کوشاں ہیں، اور مسلح افواج کو ڈپلومیسی کا اہم ذریعہ دیکھتے ہیں۔
شی جنگ پنگ کے نگرانی کے تحت پی ایل اے نے جدید پروگرام کو تیز کردیا ہے اور اس کی عالمی رسائی کو بڑھادیا ہے،گزشتہ برس جبوتی میں بحریہ کا اڈہ کھولا، 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کو نکالنے کے بعد سے یہ اس کا پہلا غیر ملکی اڈہ ہے۔
پیپلز آرمڈ پولیس کے مسٹر ژانگ نے کہا کہ چین کی انسداد دہشتگردی فورسز یہ یقینی بنانے کیلئے وہ بیرون ملک آپریٹنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتی ہیں،کی اپ گریڈنگ کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی افواج کو تربیت دی گئی ہے کہ ’مصیبت اور موت سے خوفزدہ نہ ہوں‘ کیونکہ وہ اپنی وسیع ذمہ داریاں لیتے ہیں۔
The post چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2ODWXuH via Today Urdu News
0 notes
party-hard-or-die · 6 years
Text
چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند
ہانگ کانگ : بن بلینڈ اور نکولل لیو
چین چاہتا ہے کہ اس کی ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورسز بیرون ملک بڑا کردار ادا کرے، صدر چی جنگ پنگ نے ان کے بین الاقوامی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زیادہ طاقتور خارجہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
چین کی مسلح پولیس کیلئے انٹیلیجنس کے سربراہ جو ملک کی انسداد دہشتگردی فورسز کو چلارت ہیں،ژانگ ژاؤ نے قومی نیوز ایجنسی شنوا کو ہفتے کے اختتام پر کی نے کہا کہ انسداددہشتگردی کی تیاریوں کو ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی توسیع کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ہمیں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے ایک محافظ قوت، بیرون ملک مفادات کی حفاظت کیلئے رہنما فورس اور عالمی جنگ کیلئے ایلیٹ فورس بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔
چین نے 2015 میں وسیع پیمانے پر انسداد دہشتگردی کا نیا قانون منظور کیا جو فوج اور پولیس کو بیرون ملک انسداد دہشت گردی مشن منعقد یا شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ قانون چین کے انسداد دہشت گردی فورسز کے لئے بین الاقوامی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ہے، تھنک ٹینک یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے پاس چین کی فوجی طاقت کے بیرون ملک مقاصد کے استعمال میں ڈرمائی تبدیلی کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
ریاستی تھنک ٹینک چین کا ادارہ برائے معاصر بین الاقوامی تعلقات میں انسداد دہشتگردی ریسرچ کے سربراہ لی وی نے کہا کہ بیرون ملک کوئی بھی کارروائیاں مقامی حکومتوں کے ساتھ کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ یہ یکطرفہ نہیں ہوں گی لیکن امریکی حکومت کے انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے برعکس مقامی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہونا ضروری ہے۔
لی وی نے مزید کہا کہ چین کا بیرونی انسداد دہشتگردی توجہ نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلیجنس کے اشتراک اور عدالتی تعاون پر بھی ہوگی، بالخصوص ان ممالک میں جو شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر سرمایہ کاری اقدام کا حصہ ہیں۔
ہانگ کانگ میں لنگاننگ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ژانگ بوہوئی نے کہا کہ چین اس کی عالمی بننے کی حکمت عملی کے حتمی دور میں داخل ہورہا ہے اور کہ یہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے تناؤ والے حصوں میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے غیر ملکی فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔
پروفیسر ژانگ نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو اس کی ترقی سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کوچین سے عالمی حکمرانی کے لئے چین سے بوجھ اٹھانے کیلئے عظیم کاندھوں کی توقع ہے، انسداد دہشتگردی ایک شعبہ ہے جہاں چین آنے والے برسوں میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایلیٹ اسنو لیوپرڈ کمانڈوز سمیت چینی یونٹس،جو عوامی مسلح پولیس کا حصہ ہیں،پہلے افغانستان اور عراق میں چینی سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیرون ملک تعینات کی گئی تھیں۔
چین دنیا بھر کی انسداد دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی مشقوں میں بھی شامل ہے،جیساکہ اس کے شہریوں کو ملک اوربیرون ملک تھائی لینڈ سے مالی میں حالیہ دہشتگردی کے حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
صدر شی جنگ پنگ چین کو مزید مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو موافق ہونے کیلئے کوشاں ہیں، اور مسلح افواج کو ڈپلومیسی کا اہم ذریعہ دیکھتے ہیں۔
شی جنگ پنگ کے نگرانی کے تحت پی ایل اے نے جدید پروگرام کو تیز کردیا ہے اور اس کی عالمی رسائی کو بڑھادیا ہے،گزش��ہ برس جبوتی میں بحریہ کا اڈہ کھولا، 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کو نکالنے کے بعد سے یہ اس کا پہلا غیر ملکی اڈہ ہے۔
پیپلز آرمڈ پولیس کے مسٹر ژانگ نے کہا کہ چین کی انسداد دہشتگردی فورسز یہ یقینی بنانے کیلئے وہ بیرون ملک آپریٹنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتی ہیں،کی اپ گریڈنگ کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی افواج کو تربیت دی گئی ہے کہ ’مصیبت اور موت سے خوفزدہ نہ ہوں‘ کیونکہ وہ اپنی وسیع ذمہ داریاں لیتے ہیں۔
The post چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2ODWXuH via Daily Khabrain
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
یہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کب ہوا؟
Tumblr media
گزرے جمعہ کو دو بڑے واقعات ہوئے۔ پہلا یہ کہ دوسری بڑی عالمی سپرپاور کی پیپلز کانگریس نے صفر کے مقابلے میں دو ہزار نو سو بانوے ووٹوں سے شی جن پنگ کو تیسری مدت کے لیے صدر منتخب کر لیا۔ گویا کم ازکم اگلے پانچ برس بھی چین اسی داخلی و خارجہ ٹریک پر آگے بڑھے گا جس پر آج ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان مسابقت میں مزید تیزی آئے گی۔ اگرچہ کوویڈ نے چینی معیشت کو سست رفتار کر دیا ہے اور اس میں گزشتہ برس محض تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اگلے برس کے لیے پانچ فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس سست رفتاری کے باوجود تازہ ترین جائزے کے مطابق اکیسویں صدی میں کلیدی اہمیت کی حامل چوالیس میں سے سینتیس ٹیکنالوجیز کی تحقیق و ترقی میں چین امریکا سے آگے نکل گیا ہے۔ اب خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی امریکا عالمی سطح پر چین سے پیچھے دکھائی دے رہا ہے۔ چینی سفارت کاری پہلے سے کہیں زیادہ بااعتماد اور اثر پذیر نظر آ رہی ہے۔ چین جنوبی امریکا، افریقہ اور مشرقِ وسطی میں بھی اپنی خارجہ و اقتصادی ڈپلومیسی کے گر آزما رہا ہے۔
یہ علاقے کچھ عرصہ پہلے تک امریکا کا روائیتی حلقہِ اثر سمجھے جاتے تھے۔ مگر امریکا کے مقابلے میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے چینی شرائط اتنی آسان ہیں کہ سفارتی گاہک کے لیے انھیں رد کرنا اتنا آسان نہیں۔ نہ داخلی پالیسی بدلنے کا مطالبہ نہ انسانی حقوق کا جھنجھٹ اور نہ ہی خارجہ پالیسی کے اہداف بدلنے کی ضد۔ مثلاً جس روز شی جن پنگ کی تیسری صدارتی مدت کی توثیق ہوئی عین اسی دن چین، ایران اور سعودی عرب نے ایک مشترکہ پالیسی دھماکا کیا۔ یہ اس قدر اچانک تھا کہ مشرقِ وسطی کے تنازعات میں آٹھ دہائیوں سے مرکزی کردار ادا کرنے والے امریکا کو بھی مکمل خبر نہیں ہوئی کہ دھماکے سے پہلے کے چار دنوں میں بیجنگ میں چینی سرپرستی میں مشرقِ وسطی کے دو اہم ترین ممالک کے مابین کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ تین دارالحکومتوں سے بیک وقت یہ خبر ریلیز ہوئی کہ چین کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب نے سات برس سے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگلے دو ماہ میں یہ تعلقات مکمل طور سے معمول پر آ جائیں گے۔
Tumblr media
اس سلسلے میں کوششیں پچھلے دو برس سے جاری تھیں اور اس بابت سہہ فریقی اعلامیے میں عراق اور اومان کی درپردہ مصالحتی کوششوں کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ بظاہر دو ممالک کے سفارتی تعلقات کا ٹوٹنا اور بحال ہونا کوئی ایسی انہونی خبر نہیں لیکن جب کسی خطے کے دو بااثر طاقتور ممالک کے سینگ کئی برس سے بری طرح پھنسے ہوں تو پھر ایسی خبر بریکنگ نیوز تو بنتی ہی ہے۔ دس برس سے جاری یمن کی لڑائی میں سعودی عرب کا براہ راست اور ایران کا بلاواسطہ کردار، شام کی خانہ جنگی میں دونوں ممالک کا اپنے اپنے طفیلیوں کی معرفت کھلا خونی مقابلہ، خلیج تعاون کونسل کے تین رکن ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کو ناکام بنانے میں ایران کا کلیدی کردار، مشرقی سعودی عرب میں شیعہ اقلیت کا دو طرفہ مناقشے میں ایندھن بننا اور سب سے بڑا تنازعہ یعنی ایران کا جوہری پروگرام جس کے سبب متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، اسرائیل اور امریکا ایک طرف ، ماسکو اور تہران دوسری طرف اور بیچ میں چین کے خلیج میں ہر طرف پھیلے تزویراتی و معاشی مفادات۔ اور ان مفادات کے سبب ایران سمیت تمام خلیجی ممالک کا چین پر اظہارِ اعتماد۔
ٹرمپ کے بعد کے امریکا کے بارے میں خلیجی ریاستوں کی حکمران نئی نسل کی سوچ اور پرانی نسل کے تاریخی برتاؤ میں اس قدر فرق ہے کہ تیس برس پہلے تک اتنی تیز رفتار تبدیلیوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک جانب ایران گزشتہ چار دہائیوں سے مغرب کے ساتھ سفارتی و اقتصادی و مفاداتی شطرنج کھیلنے کے سبب مغرب کی نفسیاتی کمزوریوں کی تشخیص کا ماہر ہو گیا ہے۔ دوسری جانب خلیج کی دو ابھرتی طاقتوں یعنی امارات اور سعودی عرب میں برسرِاقتدار آنے والی نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے برعکس اس راز کو بہت بہتر انداز میں سمجھ لیا ہے کہ بین الا قوامی اور علاقائی سیاست میں مروت ، دوستی ، تاریخی تعلق اور کاروبار کا ایک ہی مطلب ہے۔ عملیت پسندی اور مفادات۔ نہ کوئی دوستی مستقل ہے نہ دشمنی۔ کسی کا ایجنٹ ہی بننا ہے تو پھر اپنے مفادات کا آلہ کار بننا زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ نئے سعودی عرب اور امارات کے لیے کچھ بھی انہونا یا خلافِ معمول نہیں۔ دنیا میں دنیا کے رواجوں کے حساب سے چلو اور آخرت کو فرد کی سوچ پر چھوڑ دو۔
کل ترکی سے دشمنی تھی آج ترکی سے دوستی ہے۔ کل اسرائیل کا نام لینا تک حرام تھا آج اسرائیل سے کسی بھی سطح کے تعلقات میں کوئی خبریت ہی باقی نہیں رہی۔اگر روس تیل کی پیداوار کے نرخوں کے تعین میں ساجھے داری کے لیے سودمند اتحادی ہے تو پھر امریکا کی خوشنودی کا انتظار کیوں کیا جائے۔ اب تو عملی صورت یہ ہے کہ اگر امریکا دو کام کرنے کو کہے گا تو ایک کام امریکا کو بھی ہماری مرضی کا کرنا ہو گا۔ ورنہ تمہارے لیے تمہاری راہ ہمارے لیے ہماری۔ آپ روٹھیں یا منیں۔ گھر پے نہیں آتے یا گھر پے نہیں بلاتے تو کوئی بات نہیں۔ بازار میں تو آپ یقیناً ہم سے ملنا پسند کریں گے۔ وہیں بھاؤ تاؤ بھی ہو ہی جائے گا۔  خارجہ پالیسی اب آپ کی خواہشات کے تابع نہیں بلکہ منڈی کی طلب و رسد کے تابع ہو گی۔ تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ امریکا چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ سے مسلسل پریشان ہوتا چلا جا رہا ہے۔ معاشی و جغرافیائی و سفارتی لحاظ سے اب چین کا گھیراؤ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے ہر ملک نے یہ سیکھ لیا ہے کہ معیشت اور نظریے اور آئیڈیل ازم کو گڈ مڈ کرنا پرلے درجے کی نادانی ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال خود امریکا ہے جو بیک وقت چین کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا حریف ہے۔ بھارت چین کا سب سے بڑا علاقائی تجارتی ساجھے دار اور سب سے بڑا علاقائی دشمن ہے۔ مگر روس اور یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں بھارت اور چین لگ بھگ ایک پیج پر ہیں۔ یہی گر اب دوسرے ممالک نے بھی ازبر کر لیے ہیں۔ دشمنی اپنی جگہ کاروبار اپنی جگہ اور دشمنی بھی ویسے ہی کرو اور اتن�� ہی کرو جیسے کاروبار کرتے ہو۔ وفا اور بے وفائی فرد پر سجتے ہیں بین اللمملکتی تعلقات پر نہیں۔ ثبوت کے لیے چینی نگرانی میں سعودیوں اور ایرانیوں کا ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 9 years
Text
چین سے بھرپورمعاشی فائدہ اٹھانے کی ضرورت
پاکستان اور چین کے درمیان جس قدر گہری اور پرخلوص دوستی ہے اسکی دنیا میں شاید ہی کوئی مثال ہو۔ دونوں دوست ممالک نے اس دوستی کو اس بلند ترین مقام تک پہنچانے کیلئے ہمیشہ بڑی محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے۔ چین پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے بے شمار منصوبوں میں تعاون کررہا ہے جس کی سب سے بڑی حالیہ مثال پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات 1949ءمیں چین کی آزادی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہوگئے جو آج کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند اور مضبوط ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی موقع ہوپاکستان اور چین نے ایک دوسرے کے موقف کی بھرپور حمایت کی اور کھل کر ساتھ دیا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع پیدا ہوا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ اُس وقت چین عالمی سطح پر تنہا کھڑا تھا لیکن پاکستان نے چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے پاک چین دوستانہ تعلقات زیادہ تیزی سے بہتری کی جانب گامزن ہوئے۔ اسی طرح 1965ءمیں جب بھارت نے کشمیر تنازع پر پاکستان کیخلاف جنگ چھیڑی تو چین پاکستان کے ساتھ آن کھڑا ہوا اور دونوں ممالک کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔
ہمارے دوست ملک چین نے ہر موقع پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود چین نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے مدد کی۔ اسکے علاوہ ٹینک سازی اور طیارہ سازی سمیت اسلحہ سازی کی صنعت کو مستحکم کیا جس کی وجہ سے آج پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر ہوچکا ہے۔ البتہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ معاشی میدان میں ہم چین سے اُتنا زیادہ فائدہ نہیں اٹھاپائے جتنا اٹھاسکتے تھے۔
 چین بھی پاکستان جیسا ملک تھا اور اُسکے معاشی مسائل بھی تقریباً ویسے ہی تھے جیسے کہ پاکستان کے لیکن اسکے بعد سے آج تک چین نے اس قدر تیزی سے ترقی کی ہے کہ ساری دنیا حیران و پریشان ہے۔ 1.37ارب آبادی والے چین کا جی ڈی پی 11.21ٹریلین ڈالر، برآمدات 2.343 ٹریلین ڈالر جبکہ ا مپورٹ 1.96ٹریلن ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ امریکہ سے لیکر افریقہ تک ہر جگہ مارکیٹیں چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں ۔
البتہ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ موجودہ حکومت اور فوجی قیادت نے چین کے ساتھ تعلقات کو اپنی اوّلین ترجیحات میں شامل کررکھا ہے جو کرنا بھی چاہیے کیونکہ چین پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی راہداری کا جو معاہدہ طے پایا ہے وہ ان شاءاللہ ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولے گا۔ چین سے بھرپور معاشی فائدہ اٹھانے کیلئے ہمارے اداروں کو بڑا اہم کردار نبھانا چاہیے جو کہ فی الحال نظر نہیں آرہا۔ مثال کے طور پر کچھ ہفتے قبل چین کے شہر ارمچی میں ہونےوالی نمائش یورایشیا میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ 
اس نمائش کو ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے سپانسر کیا تھا، ہینڈی کرافٹ، ماربل، جیولری، فرنیچر اور ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی تیس پاکستانی کمپنیوں نے اس میں سٹال لگائے لیکن وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں کیونکہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال خریداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اسکی بنیادی وجہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی جانب سے منصوبہ بندی کا فقدان تھاجبکہ اتھارٹی نے اس اہم ایونٹ کی تشہیر بھی نہیں کی۔
عموماً یہ ہوتا ہے کہ سٹال کی قیمت کا پچاس فیصد ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان دیتی ہے جبکہ بقیہ پچاس فیصد سٹال ہولڈر برداشت کرتا ہے۔ اس سال سٹال کی قیمت ایک لاکھ بتاکر پچاس ہزار روپے سٹال ہولڈرز سے لیے گئے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سٹال کی قیمت ہی پچاس ہزار روپے تھی۔
جب قومی ادارے تاجروں کے ساتھ یہ سلوک کریں تو چین کی مارکیٹ سے فائدہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے البتہ پاکستانی سفارتخانے نے بڑے اچھے تعاون کا مظاہرہ کیا، پاکستانی کمرشل قونصلر ڈاکٹر ارفع اقبال بیجنگ خود آئیں اور پاکستانی تاجروں کی حوصلہ افزائی کی۔ وہاں میری چائنہ کونسل فار پرموشن آف انٹرنیشنل ٹریڈ کے وینکی لین سے بڑے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی جس کے دوران دوطرفہ تجارتی امور اور پاک چین اکنامک کاریڈور پر تفصیلاً گفتگو ہوئی۔ صرف وینکی لین ہی نہیں بلکہ جتنے بھی چینی تاجروں سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے پاکستان کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہوئے دوطرفہ تجارت بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔
 یہ بہت ضروری ہے کہ برآمدات کے حوالے سے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان جیسا اہم قومی ادارہ تاجروں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار نہ کرے بلکہ انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کرے تاکہ یہ تاجر پاکستان کی بیرونی تجارت کو فروغ دینے اور ملک کی معاشی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ چین دنیا کی بہت بڑی معاشی قوت ہے اور خوش قسمتی سے نہ صرف ہمارا ہمسایہ بلکہ بہترین دوست اور پاکستان سے ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہے۔ اگر ہم چین کی دوستی اور طاقت سے فائدہ نہ اٹھاسکے تو ہم بہت ہی بدقسمت ہونگے۔
  سید محمود غزنوی
0 notes
Text
چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند
ہانگ کانگ : بن بلینڈ اور نکولل لیو
چین چاہتا ہے کہ اس کی ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورسز بیرون ملک بڑا کردار ادا کرے، صدر چی جنگ پنگ نے ان کے بین الاقوامی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زیادہ طاقتور خارجہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
چین کی مسلح پولیس کیلئے انٹیلیجنس کے سربراہ جو ملک کی انسداد دہشتگردی فورسز کو چلارت ہیں،ژانگ ژاؤ نے قومی نیوز ایجنسی شنوا کو ہفتے کے اختتام پر کی نے کہا کہ انسداددہشتگردی کی تیاریوں کو ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی توسیع کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ہمیں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے ایک محافظ قوت، بیرون ملک مفادات کی حفاظت کیلئے رہنما فورس اور عالمی جنگ کیلئے ایلیٹ فورس ب��نے کی کوشش کرنا چاہئے۔
چین نے 2015 میں وسیع پیمانے پر انسداد دہشتگردی کا نیا قانون منظور کیا جو فوج اور پولیس کو بیرون ملک انسداد دہشت گردی مشن منعقد یا شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ قانون چین کے انسداد دہشت گردی فورسز کے لئے بین الاقوامی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ہے، تھنک ٹینک یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے پاس چین کی فوجی طاقت کے بیرون ملک مقاصد کے استعمال میں ڈرمائی تبدیلی کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
ریاستی تھنک ٹینک چین کا ادارہ برائے معاصر بین الاقوامی تعلقات میں انسداد دہشتگردی ریسرچ کے سربراہ لی وی نے کہا کہ بیرون ملک کوئی بھی کارروائیاں مقامی حکومتوں کے ساتھ کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ یہ یکطرفہ نہیں ہوں گی لیکن امریکی حکومت کے انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے برعکس مقامی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہونا ضروری ہے۔
لی وی نے مزید کہا کہ چین کا بیرونی انسداد دہشتگردی توجہ نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلیجنس کے اشتراک اور عدالتی تعاون پر بھی ہوگی، بالخصوص ان ممالک میں جو شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر سرمایہ کاری اقدام کا حصہ ہیں۔
ہانگ کانگ میں لنگاننگ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ژانگ بوہوئی نے کہا کہ چین اس کی عالمی بننے کی حکمت عملی کے حتمی دور میں داخل ہورہا ہے اور کہ یہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے تناؤ والے حصوں میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے غیر ملکی فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔
پروفیسر ژانگ نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو اس کی ترقی سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کوچین سے عالمی حکمرانی کے لئے چین سے بوجھ اٹھانے کیلئے عظیم کاندھوں کی توقع ہے، انسداد دہشتگردی ایک شعبہ ہے جہاں چین آنے والے برسوں میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایلیٹ اسنو لیوپرڈ کمانڈوز سمیت چینی یونٹس،جو عوامی مسلح پولیس کا حصہ ہیں،پہلے افغانستان اور عراق میں چینی سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیرون ملک تعینات کی گئی تھیں۔
چین دنیا بھر کی انسداد دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی مشقوں میں بھی شامل ہے،جیساکہ اس کے شہریوں کو ملک اوربیرون ملک تھائی لینڈ سے مالی میں حالیہ دہشتگردی کے حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
صدر شی جنگ پنگ چین کو مزید مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو موافق ہونے کیلئے کوشاں ہیں، اور مسلح افواج کو ڈپلومیسی کا اہم ذریعہ دیکھتے ہیں۔
شی جنگ پنگ کے نگرانی کے تحت پی ایل اے نے جدید پروگرام کو تیز کردیا ہے اور اس کی عالمی رسائی کو بڑھادیا ہے،گزشتہ برس جبوتی میں بحریہ کا اڈہ کھولا، 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کو نکالنے کے بعد سے یہ اس کا پہلا غیر ملکی اڈہ ہے۔
��یپلز آرمڈ پولیس کے مسٹر ژانگ نے کہا کہ چین کی انسداد دہشتگردی فورسز یہ یقینی بنانے کیلئے وہ بیرون ملک آپریٹنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتی ہیں،کی اپ گریڈنگ کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی افواج کو تربیت دی گئی ہے کہ ’مصیبت اور موت سے خوفزدہ نہ ہوں‘ کیونکہ وہ اپنی وسیع ذمہ داریاں لیتے ہیں۔
The post چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2ODWXuH via
0 notes
rebranddaniel · 6 years
Text
چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند
ہانگ کانگ : بن بلینڈ اور نکولل لیو
چین چاہتا ہے کہ اس کی ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورسز بیرون ملک بڑا کردار ادا کرے، صدر چی جنگ پنگ نے ان کے بین الاقوامی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زیادہ طاقتور خارجہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
چین کی مسلح پولیس کیلئے انٹیلیجنس کے سربراہ جو ملک کی انسداد دہشتگردی فورسز کو چلارت ہیں،ژانگ ژاؤ نے قومی نیوز ایجنسی شنوا کو ہفتے کے اختتام پر کی نے کہا کہ انسداددہشتگردی کی تیاریوں کو ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی توسیع کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ہمیں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے ایک محافظ قوت، بیرون ملک مفادات کی حفاظت کیلئے رہنما فورس اور عالمی جنگ کیلئے ایلیٹ فورس بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔
چین نے 2015 میں وسیع پیمانے پر انسداد دہشتگردی کا نیا قانون منظور کیا جو فوج اور پولیس کو بیرون ملک انسداد دہشت گردی مشن منعقد یا شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ قانون چین کے انسداد دہشت گردی فورسز کے لئے بین الاقوامی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ہے، تھنک ٹینک یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے پاس چین کی فوجی طاقت کے بیرون ملک مقاصد کے استعمال میں ڈرمائی تبدیلی کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
ریاستی تھنک ٹینک چین کا ادارہ برائے معاصر بین الاقوامی تعلقات میں انسداد دہشتگردی ریسرچ کے سربراہ لی وی نے کہا کہ بیرون ملک کوئی بھی کارروائیاں مقامی حکومتوں کے ساتھ کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ یہ یکطرفہ نہیں ہوں گی لیکن امریکی حکومت کے انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے برعکس مقامی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہونا ضروری ہے۔
لی وی نے مزید کہا کہ چین کا بیرونی انسداد دہشتگردی توجہ نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلیجنس کے اشتراک اور عدالتی تعاون پر بھی ہوگی، بالخصوص ان ممالک میں جو شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر سرمایہ کاری اقدام کا حصہ ہیں۔
ہانگ کانگ میں لنگاننگ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ژانگ بوہوئی نے کہا کہ چین اس کی عالمی بننے کی حکمت عملی کے حتمی دور میں داخل ہورہا ہے اور کہ یہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے تناؤ والے حصوں میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے غیر ملکی فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔
پروفیسر ژانگ نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو اس کی ترقی سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کوچین سے عالمی حکمرانی کے لئے چین سے بوجھ اٹھانے کیلئے عظیم کاندھوں کی توقع ہے، انسداد دہشتگردی ایک شعبہ ہے جہاں چین آنے والے برسوں میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایلیٹ اسنو لیوپرڈ کمانڈوز سمیت چینی یونٹس،جو عوامی مسلح پولیس کا حصہ ہیں،پہلے افغانستان اور عراق میں چینی سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیرون ملک تعینات کی گئی تھیں۔
چین دنیا بھر کی انسداد دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی مشقوں میں بھی شامل ہے،جیساکہ اس کے شہریوں کو ملک اوربیرون ملک تھائی لینڈ سے مالی میں حالیہ دہشتگردی کے حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
صدر شی جنگ پنگ چین کو مزید مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو موافق ہونے کیلئے کوشاں ہیں، اور مسلح افواج کو ڈپلومیسی کا اہم ذریعہ دیکھتے ہیں۔
شی جنگ پنگ کے نگرانی کے تحت پی ایل اے نے جدید پروگرام کو تیز کردیا ہے اور اس کی عالمی رسائی کو بڑھادیا ہے،گزشتہ برس جبوتی میں بحریہ کا اڈہ کھولا، 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کو نکالنے کے بعد سے یہ اس کا پہلا غیر ملکی اڈہ ہے۔
پیپلز آرمڈ پولیس کے مسٹر ژانگ نے کہا کہ چین کی انسداد دہشتگردی فورسز یہ یقینی بنانے کیلئے وہ بیرون ملک آپریٹنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتی ہیں،کی اپ گریڈنگ کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی افواج کو تربیت دی گئی ہے کہ ’مصیبت اور موت سے خوفزدہ نہ ہوں‘ کیونکہ وہ اپنی وسیع ذمہ داریاں لیتے ہیں۔
The post چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2ODWXuH via Urdu News Paper
0 notes
dragnews · 6 years
Text
چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند
ہانگ کانگ : بن بلینڈ اور نکولل لیو
چین چاہتا ہے کہ اس کی ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورسز بیرون ملک بڑا کردار ادا کرے، صدر چی جنگ پنگ نے ان کے بین الاقوامی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زیادہ طاقتور خارجہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
چین کی مسلح پولیس کیلئے انٹیلیجنس کے سربراہ جو ملک کی انسداد دہشتگردی فورسز کو چلارت ہیں،ژانگ ژاؤ نے قومی نیوز ایجنسی شنوا کو ہفتے کے اختتام پر کی نے کہا کہ انسداددہشتگردی کی تیاریوں کو ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی توسیع کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ہمیں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے ایک محافظ قوت، بیرون ملک مفادات کی حفاظت کیلئے رہنما فورس اور عالمی جنگ کیلئے ایلیٹ فورس بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔
چین نے 2015 میں وسیع پیمانے پر انسداد دہشتگردی کا نیا قانون منظور کیا جو فوج اور پولیس کو بیرون ملک انسداد دہشت گردی مشن منعقد یا شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ قانون چین کے انسداد دہشت گردی فورسز کے لئے بین الاقوامی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ہے، تھنک ٹینک یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے پاس چین کی فوجی طاقت کے بیرون ملک مقاصد کے استعمال میں ڈرمائی تبدیلی کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
ریاستی تھنک ٹینک چین کا ادارہ برائے معاصر بین الاقوامی تعلقات میں انسداد دہشتگردی ریسرچ کے سربراہ لی وی نے کہا کہ بیرون ملک کوئی بھی کارروائیاں مقامی حکومتوں کے ساتھ کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ یہ یکطرفہ نہیں ہوں گی لیکن امریکی حکومت کے انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے برعکس مقامی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہونا ضروری ہے۔
لی وی نے مزید کہا کہ چین کا بیرونی انسداد دہشتگردی توجہ نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلیجنس کے اشتراک اور عدالتی تعاون پر بھی ہوگی، بالخصوص ان ممالک میں جو شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر سرمایہ کاری اقدام کا حصہ ہیں۔
ہانگ کانگ میں لنگاننگ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ژانگ بوہوئی نے کہا کہ چین اس کی عالمی بننے کی حکمت عملی کے حتمی دور میں داخل ہورہا ہے اور کہ یہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے تناؤ والے حصوں میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے غیر ملکی فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔
پروفیسر ژانگ نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو اس کی ترقی سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کوچین سے عالمی حکمرانی کے لئے چین سے بوجھ اٹھانے کیلئے عظیم کاندھوں کی توقع ہے، انسداد دہشتگردی ایک شعبہ ہے جہاں چین آنے والے برسوں میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایلیٹ اسنو لیوپرڈ کمانڈوز سمیت چینی یونٹس،جو عوامی مسلح پولیس کا حصہ ہیں،پہلے افغانستان اور عراق میں چینی سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیرون ملک تعینات کی گئی تھیں۔
چین دنیا بھر کی انسداد دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی مشقوں میں بھی شامل ہے،جیساکہ اس کے شہریوں کو ملک اوربیرون ملک تھائی لینڈ سے مالی میں حالیہ دہشتگردی کے حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
صدر شی جنگ پنگ چین کو مزید مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو موافق ہونے کیلئے کوشاں ہیں، اور مسلح افواج کو ڈپلومیسی کا اہم ذریعہ دیکھتے ہیں۔
شی جنگ پنگ کے نگرانی کے تحت پی ایل اے نے جدید پروگرام کو تیز کردیا ہے اور اس کی عالمی رسائی کو بڑھادیا ہے،گزشتہ برس جبوتی میں بحریہ کا اڈہ کھولا، 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کو نکالنے کے بعد سے یہ اس کا پہلا غیر ملکی اڈہ ہے۔
پیپلز آرمڈ پولیس کے مسٹر ژانگ نے کہا کہ چین کی انسداد دہشتگردی فورسز یہ یقینی بنانے کیلئے وہ بیرون ملک آپریٹنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتی ہیں،کی اپ گریڈنگ کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی افواج کو تربیت دی گئی ہے کہ ’مصیبت اور موت سے خوفزدہ نہ ہوں‘ کیونکہ وہ اپنی وسیع ذمہ داریاں لیتے ہیں۔
The post چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2ODWXuH via Today Pakistan
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند
ہانگ کانگ : بن بلینڈ اور نکولل لیو
چین چاہتا ہے کہ اس کی ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورسز بیرون ملک بڑا کردار ادا کرے، صدر چی جنگ پنگ نے ان کے بین الاقوامی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زیادہ طاقتور خارجہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
چین کی مسلح پولیس کیلئے انٹیلیجنس کے سربراہ جو ملک کی انسداد دہشتگردی فورسز کو چلارت ہیں،ژانگ ژاؤ نے قومی نیوز ایجنسی شنوا کو ہفتے کے اختتام پر کی نے کہا کہ انسداددہشتگردی کی تیاریوں کو ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی توسیع کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ہمیں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے ایک محافظ قوت، بیرون ملک مفادات کی حفاظت کیلئے رہنما فورس اور عالمی جنگ کیلئے ایلیٹ فورس بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔
چین نے 2015 میں وسیع پیمانے پر انسداد دہشتگردی کا نیا قانون منظور کیا جو فوج اور پولیس کو بیرون ملک انسداد دہشت گردی مشن منعقد یا شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ قانون چین کے انسداد دہشت گردی فورسز کے لئے بین الاقوامی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ہے، تھنک ٹینک یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے پاس چین کی فوجی طاقت کے بیرون ملک مقاصد کے استعمال میں ڈرمائی تبدیلی کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
ریاستی تھنک ٹینک چین کا ادارہ برائے معاصر بین الاقوامی تعلقات میں انسداد دہشتگردی ریسرچ کے سربراہ لی وی نے کہا کہ بیرون ملک کوئی بھی کارروائیاں مقامی حکومتوں کے ساتھ کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ یہ یکطرفہ نہیں ہوں گی لیکن امریکی حکومت کے انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے برعکس مقامی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہونا ضروری ہے۔
لی وی نے مزید کہا کہ چین کا بیرونی انسداد دہشتگردی توجہ نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلیجنس کے اشتراک اور عدالتی تعاون پر بھی ہوگی، بالخصوص ان ممالک میں جو شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر سرمایہ کاری اقدام کا حصہ ہیں۔
ہانگ کانگ میں لنگاننگ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ژانگ بوہوئی نے کہا کہ چین اس کی عالمی بننے کی حکمت عملی کے حتمی دور میں داخل ہورہا ہے اور کہ یہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے تناؤ والے حصوں میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے غیر ملکی فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔
پروفیسر ژانگ نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو اس کی ترقی سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کوچین سے عالمی حکمرانی کے لئے چین سے بوجھ اٹھانے کیلئے عظیم کاندھوں کی توقع ہے، انسداد دہشتگردی ایک شعبہ ہے جہاں چین آنے والے برسوں میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایلیٹ اسنو لیوپرڈ کمانڈوز سمیت چینی یونٹس،جو عوامی مسلح پولیس کا حصہ ہیں،پہلے افغانستان اور عراق میں چینی سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیرون ملک تعینات کی گئی تھیں۔
چین دنیا بھر کی انسداد دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی مشقوں میں بھی شامل ہے،جیساکہ اس کے شہریوں کو ملک اوربیرون ملک تھائی لینڈ سے مالی میں حالیہ دہشتگردی کے حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
صدر شی جنگ پنگ چین کو مزید مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو موافق ہونے کیلئے کوشاں ہیں، اور مسلح افواج کو ڈپلومیسی کا اہم ذریعہ دیکھتے ہیں۔
شی جنگ پنگ کے نگرانی کے تحت پی ایل اے نے جدید پروگرام کو تیز کردیا ہے اور اس کی عالمی رسائی کو بڑھادیا ہے،گزشتہ برس جبوتی میں بحریہ کا اڈہ کھولا، 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کو نکالنے کے بعد سے یہ اس کا پہلا غیر ملکی اڈہ ہے۔
پیپلز آرمڈ پولیس کے مسٹر ژانگ نے کہا کہ چین کی انسداد دہشتگردی فورسز یہ یقینی بنانے کیلئے وہ بیرون ملک آپریٹنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتی ہیں،کی اپ گریڈنگ کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی افواج کو تربیت دی گئی ہے کہ ’مصیبت اور موت سے خوفزدہ نہ ہوں‘ کیونکہ وہ اپنی وسیع ذمہ داریاں لیتے ہیں۔
The post چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2ODWXuH via Urdu News
0 notes
newestbalance · 6 years
Text
چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند
ہانگ کانگ : بن بلینڈ اور نکولل لیو
چین چاہتا ہے کہ اس کی ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورسز بیرون ملک بڑا کردار ادا کرے، صدر چی جنگ پنگ نے ان کے بین الاقوامی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے زیادہ طاقتور خارجہ پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
چین کی مسلح پولیس کیلئے انٹیلیجنس کے سربراہ جو ملک کی انسداد دہشتگردی فورسز کو چلارت ہیں،ژانگ ژاؤ نے قومی نیوز ایجنسی شنوا کو ہفتے کے اختتام پر کی نے کہا کہ انسداددہشتگردی کی تیاریوں کو ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی توسیع کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
ہمیں قومی سلامتی کی حفاظت کے لئے ایک محافظ قوت، بیرون ملک مفادات کی حفاظت کیلئے رہنما فورس اور عالمی جنگ کیلئے ایلیٹ فورس بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔
چین نے 2015 میں وسیع پیمانے پر انسداد دہشتگردی کا نیا قانون منظور کیا جو فوج اور پولیس کو بیرون ملک انسداد دہشت گردی مشن منعقد یا شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ قانون چین کے انسداد دہشت گردی فورسز کے لئے بین الاقوامی کردار کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ہے، تھنک ٹینک یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی جانب سے ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کے پاس چین کی فوجی طاقت کے بیرون ملک مقاصد کے استعمال میں ڈرمائی تبدیلی کی قیادت کی صلاحیت ہے۔
ریاستی تھنک ٹینک چین کا ادارہ برائے معاصر بین الاقوامی تعلقات میں انسداد دہشتگردی ریسرچ کے سربراہ لی وی نے کہا کہ بیرون ملک کوئی بھی کارروائیاں مقامی حکومتوں کے ساتھ کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ یہ یکطرفہ نہیں ہوں گی لیکن امریکی حکومت کے انسداد دہشت گردی سرگرمیوں کے برعکس مقامی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہونا ضروری ہے۔
لی وی نے مزید کہا کہ چین کا بیرونی انسداد دہشتگردی توجہ نہ صرف فوجی کارروائیوں بلکہ انٹیلیجنس کے اشتراک اور عدالتی تعاون پر بھی ہوگی، بالخصوص ان ممالک میں جو شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر سرمایہ کاری اقدام کا حصہ ہیں۔
ہانگ کانگ میں لنگاننگ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ژانگ بوہوئی نے کہا کہ چین اس کی عالمی بننے کی حکمت عملی کے حتمی دور میں داخل ہورہا ہے اور کہ یہ وسطی ایشیا اور افریقہ کے تناؤ والے حصوں میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ملوث ہونے کیلئے تیار ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کی بات ہے کہ چین اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لئے غیر ملکی فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کرے۔
پروفیسر ژانگ نے کہا کہ مغربی حکومتوں کو اس کی ترقی سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر دنیا کوچین سے عالمی حکمرانی کے لئے چین سے بوجھ اٹھانے کیلئے عظیم کاندھوں کی توقع ہے، انسداد دہشتگردی ایک شعبہ ہے جہاں چین آنے والے برسوں میں نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔
ایلیٹ اسنو لیوپرڈ کمانڈوز سمیت چینی یونٹس،جو عوامی مسلح پولیس کا حصہ ہیں،پہلے افغانستان اور عراق میں چینی سفارتی مشن کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بیرون ملک تعینات کی گئی تھیں۔
چین دنیا بھر کی انسداد دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی مشقوں میں بھی شامل ہے،جیساکہ اس کے شہریوں کو ملک اوربیرون ملک تھائی لینڈ سے مالی میں حالیہ دہشتگردی کے حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
صدر شی جنگ پنگ چین کو مزید مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت کو موافق ہونے کیلئے کوشاں ہیں، اور مسلح افواج کو ڈپلومیسی کا اہم ذریعہ دیکھتے ہیں۔
شی جنگ پنگ کے نگرانی کے تحت پی ایل اے نے جدید پروگرام کو تیز کردیا ہے اور اس کی عالمی رسائی کو بڑھادیا ہے،گزشتہ برس جبوتی میں بحریہ کا اڈہ کھولا، 1950 کی دہائی میں شمالی کوریا کو نکالنے کے بعد سے یہ اس کا پہلا غیر ملکی اڈہ ہے۔
پیپلز آرمڈ پولیس کے مسٹر ژانگ نے کہا کہ چین کی انسداد دہشتگردی فورسز یہ یقینی بنانے کیلئے وہ بیرون ملک آپریٹنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگیوں کو سنبھال سکتی ہیں،کی اپ گریڈنگ کی جارہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی افواج کو تربیت دی گئی ہے کہ ’مصیبت اور موت سے خوفزدہ نہ ہوں‘ کیونکہ وہ اپنی وسیع ذمہ داریاں لیتے ہیں۔
The post چین دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عالمی کردار کا خواہشمند appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2ODWXuH via Urdu News
0 notes