Tumgik
#کشمور
emergingpakistan · 1 year
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
Tumblr media
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔ 
Tumblr media
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes · View notes
urduchronicle · 8 months
Text
سندھ میں اساتذہ اور عمارتیں نہ ہونے پر 2640 سکول بند پڑے ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹس کی رپورٹ، 2 ماہ میں فعال کیا جائے، عدالتی حکم
سندھ ہائیکورٹ نے صوبہ سندھ میں تعلیمی نظام اور اسکولوں کی کمی سے متعلق کیس کا فیصلہ سنادیا۔جسٹس صلاح الدین پہنور نے 113 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ سندھ بھر کے جوڈیشل مجسٹریٹس کی رپورٹس میں تہلکہ خیز انکشافات ہوئے ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹس کی رپورٹس کے مطابق حکومت سندھ نےاساتذہ کی کمی،عمارتین اور فرنیچر نا ہونے کے باعث 2 ہزار 6 سو 40  اسکول بند کردیئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کندھ کوٹ کشمور ضلع…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
جب شیر بلی کی تنخواہ پر کام کرنے لگے
Tumblr media
ویسے پچھتر برس میں ایسا کون سا وزیرِ اعظم یا وزیر گزرا ہے جو لاڈلا ہونے کی سند لیے بغیر اپنے عہدے پر آیا بھی ہو اور ٹک بھی پایا ہو۔ پچپن برس پہلے اپنے بچپن میں رحمے نائی کی دکان سے سردار موچی کے کھوکھے اور تانگہ سٹینڈ کے جیرو کوچوان تک ہر ماجھے ساجھے کن کٹے کو پورے تیقن سے یہی کہتے سنا کہ اگر کوئی امریکہ کا لاڈلا نہ ہو تو اس کی اجازت کے بغیر پتا تک نہیں ہلا سکتا۔ پھر اس آقا جاتی فہرست میں سعودی عرب بھی شامل ہو گیا۔ مگر آج کی جنریشن سمجھتی ہے کہ اب نہ وہ امریکہ رہا نہ اس کے ویسے وفادار۔ سعودی عرب بھی اب پہچانا نہیں جاتا۔ ان دونوں سمیت کسی کو بھی پاکستان کی شکل میں ویسٹ اوپن کارنر پلاٹ کی فی الحال ضرورت نہیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اب تو جرنیل جسے چاہیں وہی ہیرو۔ نہ چاہیں تو وہی ہیرو زیرو۔ جو خود کو لاڈلا نہیں سمجھتے انھیں بھی سردار اپنا کام نکلوانے کے لیے اٹھا کے لے جاتا ہے اور اپنی مرضی کے نکاح نامے اور طلاق نامے پر ایک ساتھ دستخط کروا لیتا ہے۔
سندھ کے ایک اسٹیبلشمنٹی چہیتے وزیرِ اعلی جام صادق علی کے بارے میں مشہور تھا کہ جس پر مہربان ہوتے تو سرکاری دکان پر دادا جی کی فاتحہ کے مصداق کوئی بھی پلاٹ یا قطعہِ اراضی بخش دیتے اور جب متعلقہ سیکریٹری ممنمناتا کہ حضور نے جو پلاٹ اپنے جس لاڈلے کو کوڑیوں کے مول بخشا ہے قانون میں اس کی گنجائش نہیں بنتی۔ اس اعتراضِ بے جا پر جام صاحب گرجتے کہ بابا میں نے تیرے کو سیکرٹری مفت کا مشورہ دینے کے لیے نہیں کام کرنے کے لیے رکھا ہے۔ میں نے آرڈر نکال دیا ہے اب اس کے لیے قانون ڈھونڈنا تیرا کام ہے۔ ورنہ قانون مجھے تیرے تبادلے یا ڈیموٹ کرنے یا او ایس ڈی بنا کے کراچی سے نکال کے کشمور میں پھینکنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ ذرا سی ترمیم و اضافے کے ساتھ یہ ’جام صادق ڈاکٹرائن‘ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا چکی ہے۔ مہربان ہو تو کھل جا سم سم، ہر مقدمہ خارج، ہر موڑ پر سرخ قالین، دانے دنکے کے اسیر ہر کبوتر کو لاڈلے کے کندھے پر بیٹھنے کا اشارہ، ہر قانون و ضابطہ موم کی ناک۔
Tumblr media
سنگ دل ہو جائے تو قدموں تلے سے وہی سرخ قالین کھینچ کر، کبوتروں کو سیٹی بجا کر واپس چھت پر اتار کر، بدلے حقائق کی چلچلاتی دھوپ میں ننگے پاؤں چلواتے ہوئے سوائے جیل کے ہر دروازہ ایک ایک کر کے بند، مقدمات کا مسلسل پتھراؤ، ایک مقدمے میں ضمانت کے بدلے دس نئے پرچے تیار اور کردار کشی کی واشنگ مشین میں ڈال کے دھلائی الگ۔ اب ہر لاڈلا تو ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘ نہیں گا سکتا۔ کچھ سائیڈ پکڑ لیتے ہیں، کچھ سیاسی پلاسٹک سرجری کروا لیتے ہیں، کچھ ’باہرلے ملخ‘ چلے جاتے ہیں اور کچھ شیر معافی تلافی کر کے بلی کی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے پھر سے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے کیونکہ مالک مکان کبھی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ کرائے دار پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ تمام شرائط کاغذ پر طے ہوتی ہیں۔ مثلاً مالک مکان کی اجازت کے بغیر کوئی اضافی کیل دیوار میں نہیں ٹھونکی جائے گی۔ کوئی دروازہ، کھڑکی اور روشندان تبدیل نہیں ہو گا۔ دیواروں کو داغ دھبوں سے پاک رکھا جائے گا۔ کوئی شے تبدیل کروانی ہو تو مالک سے درخواست کی جائے گی۔ اگر اس نے مناسب سمجھا تو درخواست قبول کر لے گا۔ نہ سمجھا تو اس سے فالتو کی جرح نہ کی جاوے۔ کرایہ ہر ماہ کی طے شدہ تاریخ تک پہنچا دیا جائے یا جمع کرا دیا جائے۔
پانی کی موٹر مسلسل نہیں چلے گی۔ تمام یوٹیلٹی بلز باقاعدگی سے مقررہ تاریخ سے پہلے پہلے ادا کرنا ہوں گے۔ ٹوٹ پھوٹ کے نقصان کی بھرپائی بھی کرائے دار کی ذمہ داری ہو گی۔ کرایہ نامہ گیارہ ماہ کے لیے ہو گا۔ مالک مطمئن ہو گا تو معاہدے کی تجدید ہو گی ورنہ گھر خالی کرنا پڑے گا۔ اور اگلا معاہدہ کم از کم دس فیصد اضافی کرائے کے ساتھ ہو گا۔ پھر بھی اگر مالک کو ضرورت ہو یا وہ جز بز ہو جائے تو ایک ماہ کے نوٹس پر گھر خالی کرا سکتا ہے تاکہ اسے اونچے کرائے پر کسی اور کو چڑھا سکے۔ جھگڑا تب شروع ہوتا ہے جب کرائے دار چھ ماہ گزرنے کے بعد اپنے تئیں انوکھا لاڈلا بن کے فرمائشیں شروع کر دیتا ہے، اضافی ایگزاسٹ فین لگوا دو، پانی کی موٹر پرانی ہے اس کی جگہ بڑی موٹر ہونی چاہیے۔ گیلری کی ریلنگ بدصورت ہے اسے بھی بدلنا ہو گا۔ اے سی کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا لہذا سنگل کے بجائے ڈبل کنکشن کی تار بدلوا دو۔ گھر فوری طور پر خالی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دوسرے برس کے لیے بھی ابھی سے معاہدہ کر لو۔ زبردستی کی تو عدالت جاؤں گا اور کرایہ تمھیں دینے کے بجائے فیصلہ ہونے تک عدالت میں جمع کرواتا رہوں گا وغیرہ وغیرہ۔
تگڑے کرائے دار مالک مکان کو دبا لیتے ہیں۔ مگر ہم نے تو پچھلے پچھتر برس میں کرائے داروں کا سامان ہی سڑک پر دیکھا ہے اور احتجاج یا قانون کی دھمکی دینے پر مالک مکان کے مسٹنڈوں کے ہاتھوں چھترول اور پرچے کا اندیشہ الگ۔ ایسی صورت میں کم از کم اس محلے میں ایسے بدعقلوں کو کوئی اور اپنا مکان کرائے پر نہیں دیتا۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے بھیا۔ 
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
newsworld123 · 1 year
Text
الیکشن کیلئے تیار ہیں، سیاسی مخالفین کو ووٹ کی طاقت سے ہرائیں گے، بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پی پی الیکشن کےلیے تیار ہے، ہم اپنے سیاسی مخالفین کو ووٹ کی طاقت سے ہرائیں گے۔ صوبائی حکومت اور بلدیاتی انتخابات میں جیت کے بعد وفاق بھی پیپلز پارٹی کا ہوگا۔  کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن تاریخی الیکشن تھے، کراچی سے کشمور تک جیالوں کی حکومت ہوگی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
ملک میں لوگ ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار، پولیس نے سندھ بارڈر پر بینرلگا دئیے
 پاکستان میں لوگ ہنی ٹریپ کا شکار ہونے لگے پولیس بھی ڈاکوؤں کے طریقہ کار سے پریشان ہوگئی۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق ملک میں لوگ ہنی ٹریپ کا شکار ہونے لگے ہیں ڈاکوؤں کی جانب سے دلفریب زنانہ آواز نکال کر لوگوں کو ورغلا کر اغوا کیا جاسکتا ہے۔ سندھ کے شہر کشمور، گھوٹکی کے کچے کے ڈاکو زنانہ آواز میں ورغلاتے ہیں جو لوگ ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں انہیں یرغمال بنا کر تاوان طلب کیا جاتا ہے۔ پولیس نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moazdijkot · 2 years
Text
ضلع خیبر کے ٹرک ڈرائیور سندھ میں اغوا، دو کروڑ تاوان کا مطالبہ
ضلع خیبر کے ٹرک ڈرائیور سندھ میں اغوا، دو کروڑ تاوان کا مطالبہ
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلعے خیبر سے تعلق رکھنے والے ٹرک ڈرائیور عمران آفریدی کو سندھ کے شہر کشمور میں اغوا کرنے کے بعد نامعلوم افراد نے ان کی رہائی کے بدلے دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا ہے۔ لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے عمران آفریدی کے بھائی راج ولی کے مطابق ’عمران کو گاڑی کی فروخت کے بہانے بلا کر سندھ سے اغوا کیا گیا اور اب اغوا کار ان پر تشدد کی ویڈیو بھیج کر دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
thetodaynews24 · 3 years
Text
کشمور میں ٹیکسی ڈرائیور کو اغوا کیا گیا۔
کشمور میں ٹیکسی ڈرائیور کو اغوا کیا گیا۔
سکھر… رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مغوی ڈرائیور کی بیوی ماہم نے پریڈی پولیس اسٹیشن کراچی میں ایف آئی آر درج کروانے کے لیے شکایت درج کرائی تھی ، اس کے شوہر پر شک تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور ، کراچی کا رہائشی رشید بٹ اغوا ہوا تھا ، جب وہ مسافر کو  لے کر جا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اطلاع دی کہ وہ کچھ مسافروں کے ساتھ کندھ کوٹ جا رہا ہے ، اس نے بتایا کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ رابطے میں تھا جب اس نے…
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 4 years
Photo
Tumblr media
کشمور زیادتی کیس، ملزم خیراللّٰہ بگٹی کو ریمانڈ پرجیل بھیج دیا گیا صوبہ سندھ کے علاقے کشمور میں پیش آنے والے کمسن بیٹی اور ماں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے افسوسناک واقع میں ملوث ملزم خیراللّٰہ بگٹی کو 14روزہ ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
کندھ کوٹ الیکشن کمیشن دفتر سے 4 ملازمین کی لاشیں برآمد
سندھ کے ضلع کشمور کی تحصیل کندھ کوٹ میں الیکشن کمیشن آفس سے 4 ملازمین کی لاشیں ملنے کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے ملازمین ای ایم ایس میں پولنگ عملے کی ڈیٹا انٹری کر رہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کےملازمین پر ڈیٹا انٹری جلد مکمل کرنے کا دباؤ تھا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کا کہنا ہے کہ ملازمین کمرے میں سو رہے تھے، گیس لیکج کے باعث جاں بحق ہوئے، اطلاع…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
ڈاکٹر اجمل ساوند کو مرنا ہی تھا
Tumblr media
نیٹ فلیکس کی ڈاکومینٹری ’’ہماری کائنات‘‘ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کی گریٹ بیرئیر ریف کے طویل سفید ریتلے ساحل پر سبز دھاری دار کچھوے ہزاروں کی تعداد میں ایک مخصوص موسم میں خونی مچھلیوں اور شکاری پرندوں سے بچتے بچاتے آتے ہیں اور ہزاروں انڈے ریت میں دبا کے پھر نیلگوں سمندر کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ سورج کی گرمی سے ریت میں دبے انڈوں سے نوزائیدہ بچے نکل کے جیسے ہی سمندر کی طرف دوڑ پڑتے ہیں تو فضا میں منڈلاتے بھوکے پرندے اور ساحل سے ذرا پرے منتظر بڑی مچھلیاں ان پر ایک ساتھ یلغار کر دیتے ہیں۔ ہزاروں نوزائیدہ کچھوؤں میں سے بمشکل چار پانچ ہی سمندر میں اترنے کے بعد زندہ رہتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم طبعی عمر کو پہنچ پاتے ہیں۔ ہزاروں میں سے چار پانچ بچ جانے والے کئی کئی ہزار کلو میٹر تک سمندر چھاننے اور خطرات سے آنکھ مچولی میں ایک عمر گذارنے کے بعد دوبارہ انڈوں کا ذخیرہ پیٹ میں دبائے اپنی جنم بھومی کی جانب واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں تاکہ یہ انڈے اسی ریت میں دبا سکیں جس کی حدت سے انھوں نے کئی سال پہلے ��نم لیا تھا۔ یہ سلسلہ لاکھوں برس سے اسی طرح چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔
جب مجھے ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کی اطلاع ملی تو یہی کہانی یاد آ گئی۔ کتنی مشکل سے قبائلی ریت میں دبے ہزاروں انڈوں میں سے اجمل ساوند جیسے بچے نکلتے ہیں اور انھیں انتقام و جہالت و ذہنی پسماندگی و محرومی کے خمیر سے پیدا ہونے والے پرندے، شارکیں اور وہیل مچھلیاں چٹ کر جاتی ہیں۔ ہزاروں میں سے بمشکل پانچ دس بچے بچیاں آگے بڑھ پاتے ہیں اور ان میں سے بھی آدھے کسی حادثے یا غیر طبعی موت یا انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر جو بچ جاتے ہیں وہ جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کے دوبارہ اپنی امنگوں کے انڈے لے کر اسی ریت کی طرف دوڑتے ہیں جس ریت سے وہ جنمے تھے۔ کشمور ، جیکب آباد ، شکار پور ، گھوٹکی ، سکھر ، لاڑکانہ یا شمالی سندھ کے دیگر اضلاع یا آس پاس کے اور اضلاع۔ شاید ہی کوئی قبیلہ دعویٰ کر سکے کہ اس کی کسی دوسرے قبیلے سے کبھی دشمنی نہ رہی ہو اور زن، زر، زمین اور انا کے منحوس چکر نے اس کے بچے نہ کھائے ہوں۔ لگ بھگ پندرہ برس قبل مجھے خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں ’’ غیرت کے کاروبار‘‘ پر بی بی سی اور یونیورسٹی کے مشترکہ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ زیادہ تر لڑکے لڑکیاں مقامی یا آس پاس کے اضلاع کے تھے۔ 
Tumblr media
یہ سب بچے مجھے ان نوزائیدہ کچھوؤں جیسے لگے جو آدم خور پرندوں اور جانوروں سے بچ کے علم کے سمندر میں اپنی شناخت ڈھونڈنے کے لالچ میں غوطہ زن ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ میزبانوں نے ایک درمیانے درجے کے قبائلی سردار کو بھی اس سیمینار میں بطور مرکزی مہمان مدعو کیا تاکہ کاروکاری ، سنگ چٹی ( تاوان میں لڑکیوں کو دینے کا رواج )، جرگہ، فیصلہ، بدلہ۔ ان سب کی فارسی سمجھ سکیں۔ سردار صاحب کو لڑکوں لڑکیوں نے گھیر لیا اور وہ وہ سوالات داغے کہ جنھیں اٹھانے کی جرات صرف جوان خون ہی کر سکتا تھا۔ سردار صاحب نے ت��لیم کیا کہ یہ سب جہالت ہے جس کی آج کے زمانے میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ خونی گرداب پوری پوری نسلیں نگل رہا ہے مگر بقول سردار صاحب یہ رواج ، دشمنیاں ، غیرت کا جدی پشتی تصور اگلی نسل میں بھی چلے گا۔ بھلے ایک عام قبائلی لڑکا اور لڑکی کتنا بھی پڑھ لکھ جائے۔ بھلے سردار انگوٹھا چھاپ بھی ہو  مگر رہے گا وہ سردار۔ بھلے اس کا بیٹا اور پوتا آکسفورڈ سے بھی پڑھ کے آ جائے۔لیکن جب اپنے گاؤں آئے گا اور گدی پر بیٹھے گا تو روشن خیالی شہر میں ہی چھوڑ کے آنا پڑے گا۔ ورنہ ماحول اسے اور اس کی سرداری کھا جائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور ویسے ہی ٹھیک ہو گیا جیسا آپ چاہتے ہو تو پھر سردار کو کون پوچھے گا۔
ڈاکٹر اجمل ساوند یا اس جیسوں کو ہوش سنبھالتے ہی اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ انھیں انیسویں صدی پار کر کے بیسویں اور پھر اکیسویں صدی میں صرف اپنے ہی بل بوتے پر گھپ اندھیروں کو چیرتے ہوئے آگے جانا ہے۔ ڈاکٹر اجمل جب کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں داخل ہوا ہو گا، جب مہران انجینئرنگ یونیورسٹی میں اپنا مستقبل کات رہا ہو گا، جب شاہ عنائیت جھوکی اور لطیف ، چومسکی اور ایڈورڈ گبن کو پڑھ رہا ہوگا۔ جب پیرس کی ڈیکارت یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کے جن کو قابو میں لا کے اسے ڈاکٹریٹ کا لباس پہنا رہا ہو گا۔ اجمل جب مغرب سے حاصل کردہ سائنسی زاویہ نظر اپنے اندر سمو کر اکیسویں صدی سے واپس انیسویں صدی میں چھلانگ لگانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو رہا ہو گا۔ جب اپنے اردگرد کے چھوٹے چوٹے اذہان کو جگنو بنانے کے خبط میں مبتلا ہو کر واپس اپنی جنم بھومی کی طرف لوٹا ہو گا اور آئی بی اے سکھر میں بیٹھ کر اس دھوکے میں مبتلا ہوا ہو گا کہ اسے بھلا کون مارے گا ؟ اسے کون کسی اور کی دشمنی کی مشین میں ایک اور گنا سمجھ کے کیوں پیلے گا۔ تب اسے یہ تھوڑی معلوم ہو گا کہ جہالت کے ہاتھ میں تھمی بندوق کی ایک گولی اس کے پورے علم اور تمام خوابوں پر بھاری ہے۔
ایک سندرانی نے ایک ساوند کو مار دیا۔ کوئی ساوند پھر کسی سندرانی کو مار دے گا۔ ڈاکٹر اجمل کی خوش نیتی، تپسیا، درویشی، وطن پرستی اور علم شناسی گئی بھاڑ میں۔ وہ علامہ اقبال یا فراز فینن ہی کیوں نہ ہو مگر ہے تو ساوند۔ اور ساوند کوئی بھی ہو دشمن ہے۔ جیسے سندرانی کوئی بھی ہو، ہے تو ٹارگٹ وغیرہ وغیرہ۔  آسمان پر منڈلاتے خونی پرندوں ، ساحل کے آس پاس گشت کرتی شارکوں اور تاک میں بیٹھے مردار خور گدھوں کے جھنڈ کے لیے ڈاکٹر اجمل صرف ایک وقت کا رزق تھا اور بس۔ مگر اچھی خبر یہ ہے کہ کچھوؤں کے بچے پیدا ہوتے ہی سمندر کی طرف بھاگنا بند نہیں کر سکتے۔ بھلے ان میں سے دو چار ہی ڈبکی لگا پائیں۔ خیر اور شر کا ڈرامہ یونہی چلے گا۔ بس کردار بدلتے رہیں گے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
aurangzebmahar · 4 years
Video
youtube
Kashmoor men Karachi se Aane wale Aurat Alisha ki beti jis ko Jense Ziya...
کشمور سے کراچی سے آنے والی عورت کی بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ بھی معصوم بچی کو جس کی عمر 4 سال بتایا جا رہا ہے
0 notes
teztareen · 4 years
Text
کراچی کے تاجروں کا کل سے کاروبار کھولنے کا اعلان۔
کراچی کی مختلف تاجر تنظیموں کی جانب سے کل سے کاروبار کھولنے کا اعلان ۔
کراچی (تیز ترین ) پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین سندھ تاجر اتحاد جمیل پراچہ نے کہا کہ 28 دن سے کراچی بند ہے اور لوگ سسک رہے ہیں۔ کراچی سے کشمور تک کا تاجر بدحالی اور مشکالات کا شکار ہے۔ چھوٹے تاجر اوران کے ملازم فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ جمیل پراچہ کا کہنا تھاکہ دوسرا راستہ یہ ہےکہ اہل خانہ کے ساتھ وزیراعلیٰ ہاؤس پہنچ جائیں اور دکانوں کی چابیاں وزیراعلیٰ ہاؤس میں جمع کرادیں
https://teztareen.net/%da%a9%d8%b1%d8%a7%da%86%db%8c-%da%a9%db%92-%d8%aa%d8%a7%d8%ac%d8%b1%d9%88%da%ba-%da%a9%d8%a7-%da%a9%d9%84-%d8%b3%db%92-%da%a9%d8%a7%d8%b1%d9%88%d8%a8%d8%a7%d8%b1-%da%a9%da%be%d9%88%d9%84%d9%86%db%92/
1 note · View note
msnsial · 2 years
Text
جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال
جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال
رمک سے لے کر کشمور تک 450 کلومیٹر کی پٹی انڈس ہائی وے سے پہاڑ تک 50 کلومیٹر تک کے تمام گاؤں ڈُوب گئے۔ایک بھی چھوٹا قصبہ یا گاؤں باقی نہیں بچا۔اربوں کا نقصان ، سینکڑوں اموات۔ تاریخ کا سب سے بڑا کوہ سلیمان کا سیلاب جس نے اتنی تباہی پھیلائی۔ 2022 کا سال آفت کا سال ہے ، پہلے جانوروں میں مُوذی وائرس پھیلا جس سے سرکاری رپورٹ کے مطابق پُورے سرائیکی وسیب میں 80 ارب مالیت کے جانور ہلاک ہوئے اور اب سیلاب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔
سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔
سینیٹر سرفراز احمد بگٹی۔ – پاکستان کی قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سینیٹر سرفراز احمد بگٹی کے قافلے کو ہفتے کے روز ڈیرہ بگٹی میں سوئی کشمور روڈ کی حدود میں ہونے والے دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی ممتاز کھتران نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا جیو ٹی وی کہ دھماکے کا ہدف سینیٹر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیر داخلہ بلوچستان محفوظ رہے تاہم…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
urduchronicle · 1 year
Text
کشمور میں ڈاکوؤں سے 9 مغوی بازیاب کرا لیے، باقی 10 بھی جلد بازیاب کرا لیے جائیں گے، وزیراعلیٰ سندھ
وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے کہا ہے کہ کشمور میں 9 مغویوں کو بازیاب کرالیا گیا ہے، پولیس ڈاکوؤں کو ٹریس کررہی ہے، باقی 10 مغویوں  کو بھی بازیاب کرالیں گے۔ کندھ کوٹ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچے کے علاقے میں پولیس کی چوکیاں بنائی جارہی ہیں، حکومت اور پولیس اغواکاروں کیلئے سخت اقدامات کررہی ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ بزدل ڈاکو اب چھوٹے بچوں کو اغوا کر رہے ہیں، بزدل ڈاکو اپنی شکست دیکھ کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
محمد بخش بریڑو۔ لائق تقلید ۔ قابل تحسین
 جب صدر۔ وزیر اعظم۔ وفاقی صوبائی وزراء۔ قائدین۔ روزانہ ہمارا سر ندامت سے جھکا رہے ہیں۔  جب یونیورسٹیاں۔ ادارے۔ دانشور۔ روزانہ تہذیب کو دفن کر رہے ہیں۔ تمدن کی خاک اڑارہے ہیں۔ جب نیکیوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ بدی کی ریٹنگ بڑھ رہی ہے۔ سچ منہ چھپائے پھر رہا ہے۔ جھوٹ لینڈ روور۔ ڈبل کیبنوں میں فراٹے بھر رہا ہے۔ اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ حقائق کو بیانیوں کے غبار میں چھپایا جارہا ہے ۔ اعزاز اقربا میں بانٹے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کے قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے رابطے کیے جارہے ہیں۔عین اس وقت ایک دور افتادہ قصبے صرف 34 ہزار آبادی والی بستی۔ پنجاب۔ سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع کشمور میں محمد بخش بریڑو! تم نے ایک بروقت اور برمحل بہت ہی خطرناک فیصلہ کر کے پورے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کر دیے ہیں۔ تم پاکستان کا غرور بن گئے ہو۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شعور ہو گئے ہو۔ باب الاسلام سندھ کی دہلیز پر محمد بخش بریڑو میں محمد بن قاسم کی جرأت اتار دی گئی ہے۔ تم سندھ ہو۔ تم پاکستان ہو۔
تمہارے اس بروقت اقدام نے سیاسی تقرریوں پر آنے والے نا اہل۔ رشوت خور۔ ظالم۔ سفاک پولیس والوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ تم نے ہم جیسے زبانی جمع خرچ کرنے والے بقراطوں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ تم نے ثابت کر دیا ہے کہ پولیس والوں کے بھی ضمیر ہوتے ہیں۔ تم نے صورت حال کی نزاکت کا ادراک کیا۔ بڑے عہدے والوں کی طرح سوچ بچار اور مصلحتوں میں نہیں پڑے۔ یہ نہیں دیکھا کہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے پیچھے کوئی وڈیرا تو نہیں۔ کوئی وزیر تو نہیں۔ کوئی بڑا فوجی افسر تو نہیں۔ تم نے صرف یہ دیکھا کہ ایک مظلوم بہن فریاد لے کر آئی ہے اور ایک بیٹی درندوں کے چنگل میں ہے۔ اس کو زندہ سلامت برآمد کرنا ہے۔ ضرورت تھی ایک اور بیٹی کی۔ جو ان درندوں کی شرط پوری کرنے کے بھیس میں ان کو گرفتار کروا سکے۔ تم نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا۔ اپنے گھر کی آبرو عزت سے بات کی۔ وہ تمہارا خون ہے۔ تمہاری تربیت ہے۔ وہ بھی ایک ایسے خطرناک مشن کے لیے تیار ہو گئی۔ جس کی اشرافیہ والے جرأت نہیں کرتے۔
سندھ ،پنجاب ، کے پی ، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کی مائیں تیری بلائیں لے رہی ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک پاکستان کی بیٹیاں اپنی بہن تمہاری صاحبزادی کے لیے پیار، محبت، خلوص کے گجرے بھیج رہی ہیں۔ پاکستان کے غیرت مند نوجوان محمد بخش بریڑو کو اپنا رول ماڈل قرار دے رہے ہیں۔ تیری یہ جرأت۔ یہ کارروائی ثابت کر رہی ہے کہ ابھی جہان تگ و دو میں غیرت باقی ہے۔ حمیت تیمور کے گھر سے گئی نہیں ہے۔ سندھو ندی کی لہروں کی قسم۔ بحیرۂ عرب کی موجوں کی سوگند۔ اجرک اور سندھی ٹوپی کی عظمت تم نے بلند کر دی ہے۔ یہ قوم تمہارا احسان کسی صورت اتار نہیں سکے گی۔ کوشش کریں گے کہ اخبارات کے سنڈے ایڈیشنوں کے سرورق پر تم جلوہ گر ہو۔ تمہاری صاحبزادی کی جراتوں کی داستانیں رقم ہوں۔ تفریحی ٹی وی چینل کشمور میں پھوٹنے والی ان کونپلوں پر ڈرامے بنائیں۔ پولیس والوں کا مضحکہ اڑانے والے اب پہلے بہت سوچیں گے کہ اب پولیس کی شناخت محمد بخش بریڑو بن گیا ہے۔ 
قوم نے وادیٔ نیلم سے۔ اسکردو سے وزیرستان سے گنڈا سنگھ والا سے دالبندین تک۔ طورخم تک کھوکھرا پار تک جس طرح اسے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قوم کے نزدیک ایک مثالی پولیس والے کے خدو خال اور کردار کیا ہونا چاہئے۔ اسے محمد بخش بریڑو کی طرح فرض کا شدت سے احساس۔ بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ قومی مفاد کے حصول کے لیے اپنے گھرانے کو خطرے میں ڈالنے سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ معاملے کی سنگین نوعیت دیکھ کر اس انداز سے فوری کارروائی کرنے کا راستہ تراشنا چاہئے آفریں ہے کشمور کے ایس ایس پی امجد شیخ پر۔ وہ بھی اپنے اے ایس آئی کے اس دلیرانہ اقدام پر فخر کر رہے ہیں۔ بہت پُر جوش ہیں۔ وہ انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کی طرف سے سینٹرل پولیس آفس میں محمد بخش بریڑو اور اس کے اہل خانہ کی پذیرائی پر بھی والہانہ مسرت میں ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کی طرف سے آئوٹ آف ٹرن ترقیوں پر پابندی نہ ہوتی تو محمد بخش بریڑو کا درجہ بھی بڑھ جاتا۔ 
اس ترقی سے کہیں زیادہ وہ اعزاز ہے جو اسے مایوس، مسائل میں گھری، حکمرانوں کے بروقت فیصلے نہ کرنے سے پریشان قوم نے محمد بخش بریڑو کو بخشا ہے۔ ہم نے کتنے گارڈ آف آنر دیکھے ہیں جو ان سیاسی اور فوجی حکمرانوں کو دیے گئے جو ہرگز اس کے اہل نہیں تھے۔ لیکن سینٹرل پولیس آفس کراچی میں محمد بخش بریڑو کو دیے جانے والے گارڈ آف آنر نے ہمارا سیروں خون بڑھا دیا ہے۔ کاش ہمیں یہ منظر وہیں دیکھنے کو ملتا۔ اس پولیس ہیڈ کوارٹر میں نامعلوم کتنے غلط اور مصلحت کوشی کے مناظر دیکھے ہیں۔ ہم یہ جائز پذیرائی والا منظر بھی دیکھ لیتے۔ جہاں یہ اے ایس آئی سندھ پولیس کے ماتھے کا جھومر بن گیا۔ 2 دسمبر 1966 کو کندھ کوٹ میں پیرل بریڑو کے گھر آنکھ کھولنے والا محمد بخش میٹرک کے بعد 25 جنوری 1990 میں ایک کانسٹیبل کی حیثیت سے بھرتی ہوا۔ تربیت پوری دلجمعی سے حاصل کی۔ پہلے بھی وہ جراتمندی کے مظاہرے کر چکا ہے۔ 
اٹھارہ اپریل 1998 میں تھانہ ٹھل کی حدود میں گشت کے دوران کچھ مجرموں سے ٹکرائو میں اپنی بائیں ٹانگ میں پانچ گولیاں بھی کھا چکا ہے۔ پھر بھی اس نے جرأت سے منہ نہیں موڑا۔ 2001 میں ایک بدنام زمانہ ڈاکو ممتاز منگھن ہار کو بڑی بہادری سے گرفتار بھی کیا ہے۔ سندھ پولیس میں اب 10607881۔ ملازمت نمبر امر ہو گیا ہے۔ جتنے تھانوں میں اس کی تقرری ہوئی۔ ان کی حدود میں رہنے والے سب محمد بخش بریڑو کو پیار سے یاد کرتے ہیں۔ اللہ جسے چاہے عزت دے۔ 54 سالہ بریڑو 5 اگست 2009 میں ہیڈ کانسٹیبل اور 26 مارچ 2019 کو اے ایس آئی کے درجے پر فائز ہوا ہے۔ آئیے ہم سب قادر مطلق سے التجا کریں کہ اس فرض شناس پولیس افسر کو مزید کامرانیاں عطا کرے۔ اس کے خاندان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ پاکستان کے دوسرے پولیس آفیسروں اور سپاہیوں کو اس کی تقلید کی توفیق دے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ورکشاپ محلہ کندھ کوٹ سندھ۔ اس کے ذاتی پتے پر پھول بھیجیں۔ خط لکھیں۔ یہ آپ کا فخر ہے۔ ہم سب کی لاج اس نے رکھی ہے۔ اس کی فرض شناسی سے پاکستان کی ایک ماں۔ پاکستان کی ایک بیٹی درندوں کے چنگل سے نکل کر اب آزاد ہے۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note