Tumgik
#ہائیکورٹ
googlynewstv · 2 months
Text
چیف جسٹس ہائیکورٹ سے چیف الیکشن کمشنر کی اہم ملاقات
الیکشن ٹربیونلز کی تقرری کے معاملے پر چیف جسٹس عالیہ نیلم اور چیف الیکشن کمشنر کے مابین اہم ملاقات ہوئی۔ سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو چیف جسٹس عالیہ نیلم سے مشاورت کیلئے ملاقات کی ہدایت کی تھی۔ چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے مابین ملاقات میں الیکشن ٹربیونل کی تشکیل کا معاملہ زیر بحث آئے گا۔ملاقات میں رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ…
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 43 ایم این ایز کی ڈی نوٹیفکیشن معطل کر دی۔
لاہور: لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) نے بدھ کے روز پاکستان تحریک انصاف کے ان 43 قانون سازوں کی ڈی نوٹیفکیشن معطل کر دی جنہوں نے استعفوں کی منظوری کو چیلنج کیا تھا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو ان کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے سے روک دیا۔ جسٹس شاہد کریم پی ٹی آئی کے ایم این ایز کی درخواست کی سماعت کر رہے تھے جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 7 months
Text
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں وزیراعظم کو پیر کے روز طلب کر لیا
لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نگران وزیر اعظم کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جو لوگ بھی اس کام میں ملوث ہیں انکو پھانسی ہونی چاہیے،عام طور پر ایک بار پھانسی ہوتی ہے ان کیسسز میں ملوث افراد کو دو دفعہ پھانسی ہونی چاہیے،ابھی نگران وزیراعظم کو طلب کرتا ہوں اور پھر منتخب وزیراعظم کو بھی طلب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء ��یں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
mediazanewshd · 18 days
Text
1 note · View note
apnabannu · 3 months
Text
ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کا تنازع: لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس عالیہ نیلم کون ہیں؟
http://dlvr.it/T97fft
0 notes
meta-bloggerz · 3 months
Text
جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس،جوڈیشل کمیشن نے متفقہ منظوری دیدی
لاہور،اسلام آباد(کورٹ رپورٹر،دنیا نیوز) چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی جوڈیشل کمیشن نے متفقہ طورپر جسٹس عالیہ نیلم کو لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس نامزد کردیا۔  جبکہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کیلئے جسٹس شفیع محمد صدیقی کی منظوری دے دی۔ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے ججز، وزرائے قانون ، ممبر پاکستان و پنجاب بار کونسل سمیت بارہ ممبران نے شرکت کی ، چیف جسٹس…
0 notes
urduintl · 4 months
Text
0 notes
googlynewstv · 3 months
Text
 اسلام آباد ہائیکورٹ:لاپتہ افراد کیس میں 2018کا فیصلہ ،جرمانے بحال
لاپتہ افراد کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا حکم، لاپتہ افراد کیس میں جسٹس اطہرمن اللہ کا 2018کا فیصلہ برقرار،عدالت نے جرمانے بھی بحال کردیئے۔ عدالت نے لاپتہ ساجد محمود کی اہلیہ کی درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ کا 2018 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے خصوصی بینچ نے جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔وفاقی حکومت کی فیصلے کے خلاف اپیلیں عدالت نے مسترد کردیں۔ 2018کے سیکریٹری…
0 notes
urduchronicle · 7 months
Text
سندھ ہائیکورٹ نے حلیم عادل شیخ کو مزید مقدمات میں گرفتار کرنے سے روک دیا
سندھ ہائیکورٹ  نے پولیس کو پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کو مزید مقدمات میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ دو نومبر 2023 کی پولیس رپورٹ کے مطابق حلیم عادل شیخ 21 مقدمات میں نامزد ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ  میں پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کی متعدد مقدمات میں گرفتاریوں کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے پولیس کو حلیم عادل شیخ کو مزید مقدمات میں گرفتار کرنے سے روک دیا، عدالت نے حکم دیا کہ حلیم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 8 months
Text
عمران خان نے سائفر کیس کی کارروائی اور سرکاری وکلاء صفائی کی تقرری کو چیلنج کردیا
اسلام آباد: بانی پی ٹی آئی نے سائفر کیس کی کارروائی اور سرکاری وکلاء صفائی کی تقرری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سائفر کیس کی کارروائی کے خلاف درخواست دائر کردی گئی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سائفر کیس میں عدالت کا 26جنوری کا حکم کالعدم قرار دیا جائے، سرکاری وکلا کی تقرری کے بعد سے کی گئی کارروائی کو بھی کالعدم قرار دیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mediazanewshd · 5 months
Link
0 notes
apnabannu · 3 months
Text
ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کا تنازع: لاہور ہائیکورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس عالیہ نیلم کون ہیں؟
http://dlvr.it/T950Hr
0 notes
meta-bloggerz · 3 months
Text
محسن نقوی کی وزارت خطرے میں؟نااہل قرار دینے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
لاہور ہائیکورٹ نے سینیٹر، وفاقی وزیر داخلہ و چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کو سینیٹ کی نشست سے نااہل قرار دینے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی اس طرح محسن نقوی کی وزارت خطرے میں آگئی,ایک دن قبل شہری مشکور حسین نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی سینیٹ کی نشست سے نااہلی کے لیے ندیم سرور ایڈووکیٹ کے توسط سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
قاضی فائز عیسیٰ کا جسٹس منیر سے موازنہ
Tumblr media
گاہے خیال آتا ہے شاید ہم پاکستانیوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ آج تک ہم جسٹس منیر کو اسلئے مطعون کرتے چلے آئے ہیں کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کرنیکی روایت کیوں ڈالی مگر اچانک مزاج بدلا تو اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اسلئے ہدف تنقید بنا لیا گیا ہے کہ انہوں نے نظریہ ضرورت کے بجائے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنا کیوں شروع کر دیئے ہیں۔ میرا خیال ہے ایک بار ہم یہ طے کر لیں کہ عدلیہ کو آئین و قانون کی رو سے کام کرنا چاہئے یا پھر اخلاقیات، آئین کی روح اور سیاسی مصلحت جیسی مبہم اصطلاحات کے پیش نظر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر تو آئین کے بجائے آئین کی روح، اخلاقی تقاضوں اور زمینی حقائق کے تحت کام چلانا ہے تو پھر یہ سب اصول بدلتے رہیں گے۔ ہر چیف جسٹس کی اپنی لغت اور اپنی تشریح و تعبیر ہو گی۔ لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ ہر عدالتی فیصلے کو آئین و قانون کی کسوٹی پرجانچنے کے بعد رائے دی جائے۔ سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ جس طرح اے این پی کو ایک موقع دیدیا گیا اور چتائونی دینے کے بعد لالٹین کا انتخابی نشان لوٹا دیا گیا اسی طرح پی ٹی آئی کو بھی جرمانہ کر دیا جاتا، اس قدر سخت سزا نہ دی جاتی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر پارٹی الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے دستور کے مطابق پارٹی الیکشن کروانے کی پابند ہے۔ 
مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے دستور میں لکھا ہے کہ ہر تین سال بعد انٹرا پارٹی الیکشن ہونگے۔ لیکن الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق جماعتی انتخابات کیلئے پانچ سال کی مہلت دی گئی ہے۔ اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن مئی 2019ء میں ہوئے تھے اور پانچ سال کی مہلت مئی 2024ء میں ختم ہو گی اسلئے عوامی نیشنل پارٹی کو جرمانہ کر کے انتخابی نشان لوٹا دیا گیا مگر پی ٹی آئی کی واردات کتنی گھنائونی ہے، آپ سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔2017ء میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے، کتنے شفاف تھے، اس تفصیل میں نہیں جاتے۔ اب 2022ء میں پانچ سال پورے ہونے سے پہلے دوبارہ انتخابات کروانے تھے۔ الیکشن کمیشن نے مئی 2021ء میں جب عمران خان وزیراعظم تھے، تب پہلا نوٹس جاری کیا۔ پی ٹی آئی نے اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ کچھ عرصہ بعد دوسرا نوٹس جاری کیا گیا اور 13 جون 2022ء کی ڈیڈلائن مقرر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس تاریخ سے پہلے انتخابات نہ کروائے تو پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا جائیگا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرف سے جون 2022ء میں الیکشن کمیشن کو بتایا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن ہو گئے ہیں۔ 
Tumblr media
اگرچہ حقیقی انتخابات کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں ہوتے مگر ضابطے اور قانون کے مطابق رسمی کارروائی ضرور کی جاتی ہے مگر پی ٹی آئی نے رسمی انتخابات کا تکلف اور تردد بھی گوارہ نہ کیا۔ 13 ستمبر 2023ء الیکشن کمیشن نے اس جعلسازی اور فراڈ کا سراغ لگا لیا۔ قانونی تقاضا تو یہ تھا کہ اسی موقع پر انتخابی نشان واپس لے لیا جاتا لیکن مقبول سیاسی جماعت کو ایک موقع اور دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کروانے کا موقع دیدیا۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے اس نوٹس کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ اور پھر 2 دسمبر 2023ء کو نام نہاد انتخابات کے ذریعے نئی قیادت کا اعلان کر دیا گیا۔ جب انہیں چیلنج کیا گیا اور الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ دیا تو لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کے بجائے پشاور ہائیکورٹ سے حکم امتناع لے لیا گیا۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کا دفاع تو ان کے وکلاء نے بھی نہیں کیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ انتخابات کے لئے محض رسمی کارروائی بھی پوری نہیں کی گئی۔مثلاً سپریم کورٹ میں سماعت کے د وران سوال ہوا، پارٹی الیکشن کے لئے کوئی نامزدگی فارم تو بنایا ہو گا؟
بتایا گیا، جی نامزدگی فارم ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ چیف جسٹس نے اسی وقت ویب سائٹ کھولی تو وہاں نامزدگی فارم موجود نہیں تھا۔ دعویٰ کیا گیا کہ پارٹی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے لئے پچاس ہزار روپے فیس مقرر کی گئی تھی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا، کس اکائونٹ میں وہ فیس جمع ہوئی، اس کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ بھی تو اپنے سیاسی مخالفین سے رسیدیں مانگتے رہے ہیں تو ایسی کوئی رسید ہے تو پیش کر دیں۔ مگر کوئی ثبوت ہوتا تو سامنے آتا۔ جب اور کوئی جواب نہیں بن پاتا تو کہا جاتا ہے کہ دیگر جماعتوں کے انتخابات بھی تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) یا کسی اور سیاسی جماعت کے لوگوں نے اپنے پارٹی انتخابات کو چیلنج کیا؟ کسی اور سیاسی جماعت نے اس نوعیت کے فراڈ اور جعلسازی کا ارتکاب کیا؟ کیا کسی اور سیاسی جماعت کو اس قدر مہلت ملی جتنی پی ٹی آئی کے حصے میں آئی؟ عدالت میں کہا گیا، اکبر ایس بابر کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا، انہوں نے کب استعفیٰ دیا؟ کسی اور پارٹی میں شمولیت اختیار کی یا پھر کب انہیں پارٹی سے نکالا گیا، کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔ پی ٹی آئی کے وکلا ء خاموش رہے۔ کہا جاتا ہے کہ تکنیکی بنیادوں پر ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو میدان سے باہر کر دیا گیا۔ قانون نام ہی تکنیک کا ہے۔ ہم سب اپنی آمدنی و اخراجات سے متعلق جو گوشوارے جمع کرواتے ہیں کیا وہ 100 فیصد ٹھیک ہوتے ہیں، نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص گوشوارے جمع ہی نہ کروائے یا پھر جعلسازی کرتا پکڑا جائے تو ٹیکنیکل گرائونڈز پر اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
azharniaz · 1 year
Text
اسلام آباد میں سرکاری رہائش کیلیے خالی ہونے سے مشروط لیٹرز غیر قانونی قرار - ایکسپریس اردو
سرکاری رہائش گاہ کے منتظر جنرل ویٹنگ لسٹ میں شامل وفاقی ملازمین کا ڈیٹا تیار کرنے کی ہدایت اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں سرکاری رہائش کے لیے ‘سبجیکٹ ٹو ویکنسی’ (خالی ہونے سے مشروط) الاٹنمنٹ لیٹرز کا اجرا غیر قانونی قرار دے دیا۔ جسٹس بابر ستار نے کنٹریکٹ ملازم سمیرا صدیقی کی الاٹمنٹ منسوخی کیخلاف درخواست خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ ‘سبجیکٹ ٹو ویکنسی’ تمام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes