Tumgik
#یوکرین
urduchronicle · 8 months
Text
یوکرین کی فوج کے لیے اسلحہ خریداری میں 40 ملین ڈالر غبن کا انکشاف
یوکرین کی ایس بی یو سیکیورٹی سروس نے کہا ہے کہ اس نے ملک کی فوج کی طرف سے اسلحے کی خریداری میں بدعنوانی کے سکینڈل کا پردہ فاش کیا ہے جو کہ تقریباً 40 ملین ڈالر کے برابر ہے۔ بڑے پیمانے پر خریداری کے دھوکہ دہی، جس کی تصدیق یوکرین کی وزارت دفاع نے کی ہے، روس کے تقریباً دو سال پرانے حملے سے دوچار ملک میں بڑا سکینڈل ہے۔ بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی لڑائی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے کیونکہ یوکرین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
ویگنر کرائے کے باس نے بکموت کی وجہ سے بھرتی مہم کا انکشاف کیا | روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
یوگینی پریگوزین کا کہنا ہے کہ انہوں نے روس کے 42 شہروں میں بھرتی کے مراکز کھولے ہیں تاکہ باخموت میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے رینک بھر سکیں۔ کرائے کی فوج کے سربراہ یوگینی پریگوزن نے کہا کہ ان کی ویگنر کی نجی فوج نے روس کے 42 شہروں میں بھرتی کے مراکز کھولے ہیں کیونکہ وہ روس کے لیے لڑائی میں بھاری نقصان کے بعد فوج کی صفوں کو بھرنا چاہتے ہیں۔ یوکرین کا شہر باخموت. جمعہ کو ایک پرجوش آڈیو پیغام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 10 days
Text
روس اوریوکرین کےمابین جنگی قیدیوں کاتبادلہ
روس اور  یوکرین کےدرمیان متحدہ عرب امارات کی ثالثی میں ایک بارپھرجنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ روسی وزارت دفاع نے تصدیق کی ہےکہ روس اور یوکرین کے درمیان206 جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے۔روس نےیوکرین کےایک103 اور یوکرین نےبھی روس کے 103 جنگی قیدی رہا کیے ہیں۔رہاہونے والے افراد یوکرین کےکورسک ریجن میں ہونے والی لڑائی کے دوران قیدی بنائے گئے تھے۔  امریکی صدارتی دفتر وائٹ ہاؤس نےواضح کیا ہے کہ یوکرین پر…
0 notes
emergingpakistan · 27 days
Text
مقبول میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے بانی پاول دروف کون ہیں؟
Tumblr media
39 سالہ پاول دروف روس میں پیدا ہوئے تھے مگر اب وہ دبئی میں رہتے ہیں۔ ٹیلی گرام ایپ کو بھی دبئی سے چلایا جا رہا ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق دروف کے پاس 15.5 ارب ڈالر کے اثاثے ہیں۔ دروف نے 2013 کے دوران ٹیلی گرام کی بنیاد رکھی تھی۔ انھوں نے 2014 میں روس ��ھوڑ دیا تھا جب حکومت نے ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’وی کے‘ پر حزب اختلاف کی سرگرمیوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی وہ کمپنی فروخت کر دی تھی۔ دروف کی جانب سے صارفین کا ڈیٹا دینے سے انکار پر روس میں 2018 کے دوران ٹیلی گرام پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ مگر 2021 میں یہ پابندی ہٹا دی گئی تھی۔ فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور وی چیٹ کی طرح ٹیلی گرام کو بھی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر روس، یوکرین اور سابقہ سوویت یونین ریاستوں میں ایک مقبول میسجنگ ایپ ہے۔
Tumblr media
دروف کے پاس فرانس اور متحدہ عرب امارات دونوں کی شہریت ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ روس اب بھی انھیں ایک روسی شہری تصور کرتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ فرانس میں روسی سفارتخانے نے اس گرفتاری کے بعد فوری اقدامات کیے ہیں، اس کے باوجود کہ انھیں دروف کے نمائندوں کی طرف سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی۔ سفارتخانے کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس گرفتاری پر وضاحت طلب کی ہے اور دروف کو قونصلر رسائی اور تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حکام روس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ٹیلی گرام پر یہ سوال پوچھا ہے کہ کیا انسانی حقوق کی مغربی تنظیمیں دروف کی گرفتاری پر خاموش رہیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے دوران روس میں ٹیلی گرام کی بندش پر انھی تنظیموں نے تنقید کی تھی۔
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urdunewskanpur · 1 month
Text
یوکرین کی پیشقدمی روس نے مسترد کیا
Tumblr media
0 notes
mediazanewshd · 2 months
Text
0 notes
apnabannu · 4 months
Text
یوکرین جنگ: کیا جدید مغربی ہتھیاروں کا ’روس کے اندر‘ استعمال جنگ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے؟
http://dlvr.it/T7mssT
0 notes
online-urdu-news · 4 months
Text
روس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے 13 فضائی ڈرون کو بے اثر کر دیا ہے۔
ماسکو میں دریائے ماسکوا کے کنارے روسی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹر کے اوپر ایک روسی قومی ترنگا جھنڈا ہے۔ | فوٹو کریڈٹ: اے ایف پی روس کی وزارت دفاع نے 30 مئی کو کہا کہ اس نے جنوبی کراسنودار کے علاقے میں اور ملحقہ جزیرہ نما کریمیا کے قریب یوکرین کے 13 فضائی ڈرونوں کو بے اثر کر دیا۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ 30 مئی کی صبح، “کراسنودار کے علاقے میں طیارہ شکن دفاعی نظام کے ذریعے پانچ یوکرائنی فضائی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduintl · 4 months
Text
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس چیف کے سربراہ کی اہلیہ کو زہر دے دیا گیا
متعدد یوکرائنی میڈیا نے منگل کو نامعلوم انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ یوکرین کے ملٹری انٹیلی جنس چیف کی اہلیہ کو زہر دیا گیا ہے۔ ماریانا بڈانووا، کریلو بوڈانوف کی اہلیہ ہیں، جو یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی جی آر یو کے سربراہ ہیں، جو 21 ماہ کی جنگ کے دوران روسی افواج کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں نمایاں طور پر شامل رہے ہیں۔ یوکرین میں بڈانوف کے عوامی پروفائل میں اضافہ ہوا ہے،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
روس یوکرین جنگ: اہم واقعات کی فہرست، دن 381 | روس یوکرین جنگ کی خبریں۔
روس-یوکرین جنگ اپنے 381 ویں دن میں داخل ہونے پر، ہم اہم پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ صورتحال 11 مارچ 2023 بروز ہفتہ ہے: لڑائی یوکرین تباہ شدہ شہر باخموت کے لیے جنگ جاری رکھے گا کیونکہ جنگ ختم ہو گئی ہے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک معاون نے کہا ہے کہ موسم بہار میں یوکرائنی جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی سے پیشگی روس کی بہترین فوجی قوتیں ہیں۔ روسی افواج نے باخموت کے مشرقی حصے اور شمال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistanmilitarypower · 8 months
Text
ایف 16 پاکستان سمیت دنیا بھر کی فضائی افواج میں آج بھی اتنا مقبول کیوں ہے؟
Tumblr media
F-16 لڑاکا طیارے نے اپنی پہلی پرواز سنہ 1974 میں بھری تھی، اور آج 50 سال گزرنے کے باوجود یہ لڑاکا طیارہ مختلف ممالک کی افواج کے لیے اُتنا ہی اہم ہے جتنا کہ 50 سال پہلے تھا۔ اور اگر پچاس برس پہلے اس لڑاکا طیارے کی آزمائشی پرواز کے دوران اگر پائلٹ حاضر دماغی کا مظاہرہ نہ کرتا تو ایف 16 پروگرام شاید کبھی آگے نہ بڑھ پاتا۔ جب پائلٹ فل اوسٹریکر 20 جنوری 1974 کو کیلیفورنیا میں ایڈورڈز ایئر فورس بیس میں جنرل ڈائنامکس ’وائی ایف -16‘ پروٹو ٹائپ کے کاک پٹ میں بیٹھے تو اُن کا مشن نسبتاً سادہ تھا، یعنی ایک تیز رفتار ٹیکسی ٹیسٹ جس کے تحت طیارے کو اپنے انجن کی طاقت کے تحت زمین پر آگے بڑھنا تھا وائی ایف 16 کو صرف ایک ماہ قبل ہی عوام کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس کی پہلی پرواز فروری 1974 کے اوائل تک نہیں ہوئی تھی۔ لیکن مستقبل کے اس معروف لڑاکا طیارے کو لے کر کچھ اور ہی عزائم تھے۔ جیسے ہی پائلٹ اوسٹریکر نے طیارے کی ناک کو زمین سے تھوڑا سا اوپر اٹھایا، تو وائی ایف-16 نے اتنی تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا کہ طیارے کا لیفٹ ونگ اور دائیں ٹیل ٹارمیک سے ٹکرا گئے۔ ’سیئٹل پوسٹ انٹیلیجنس‘ نے اس پرواز کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ جیسے جیسے پائلٹ اوسٹریکر کو طیارے پر کنٹرول رکھنا مشکل ہو رہا تھا اور طیارہ بائیں جانب سلپ ہونے گا تو پائلٹ کو احساس ہوا کہ انھیں اس آزمائشی ٹیسٹ کے طے شدہ حدود و قیود سے باہر نکلنا پڑے گا اور طیارے کے گرنے سے پہلے اسے اڑانا ہو گا۔
کچھ دل دہلا دینے والے لمحات کے بعد پائلٹ اوسٹریکر نے اتنی رفتار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ پروٹو ٹائپ ہوا میں جا سکے اور اڈے پر واپس اترنے سے پہلے ڈرامائی طور پر چھ منٹ طویل پرواز مکمل کر سکے۔ اپنی مہارت کی وجہ سے پائلٹ اوسٹریکر نے ایک ایسے طیارے کو زندہ کرنے میں مدد کی تھی جو انسانی یادداشت میں سب سے کامیاب طیاروں میں سے ایک بن گیا ہے۔ گذشتہ 50 برسوں کے دوران 4600 سے زائد ایف 16 طیارے فیکٹری سے تیار ہو کر محو پرواز ہو چکے ہیں اس لڑاکا طیارے کی پیدوار فی الحال رکنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اگر پائلٹ اوسٹریک اپنے پہلے ٹیکسی ٹیسٹ میں وائی ایف -16 کو گرنے سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو دنیا کی بہت سی فضائی افواج میں شاید ایف -16 کی شکل میں کسی لڑاکا طیارے کی بڑی کمی ہوتی۔ اس طیارے کے ڈیزائن نے سول ایوی ایشن پر دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں، مثال کے طور پر مسافر ایئر لائنز میں بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہو چکا ہے جسے سب سے پہلے ایف سولہ طیارے میں استعمال کیا گیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی نہ کوئی ایف 16 طیارہ دن کے کسی بھی وقت، دنیا کے کسی حصے میں محوِ پرواز ہو۔
سنہ 1978 میں امریکی فضائیہ میں شامل ہونے کے بعد ایف -16 کو ناروے سے چلی اور مراکش سے سنگاپور تک دنیا کی 25 دیگر فضائی افواج نے اڑایا ہے۔ ایک چھوٹے، ہلکے اور انتہائی تیز رفتار ڈاگ فائٹر کے طور پر ڈیزائن کیے گئے ایف-16 نے زمینی حملے سے لے کر اینٹی شپنگ اور فوٹو جاسوسی سے لے کر زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل لانچرز کو تباہ کرنے کے کردار نبھائے ہیں۔ سنہ 2015 کے بعد سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ فوجی فکسڈ ونگ طیارہ رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دو ہزار سے زیادہ ایف 16 طیارے آج بھی عالمی سطح پر فعال ہیں۔ روس کے حملے کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے جو فوجی امداد مانگی تھی اس میں جدید ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایف 16 طیارے دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ یوکرین کے پائلٹ اس وقت ڈنمارک میں ایف 16 طیاروں کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور موسم گرما میں یوکرین کو ان طیاروں کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ رواں برس جنوری کے اوائل میں سلوواکیہ ایف-16 طیارے حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوا ہے۔
Tumblr media
پانچ دہائیوں تک کسی فرنٹ لائن لڑاکا طیارے کو سروس میں رکھنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دنیا میں فضائی افواج کو اب بھی ایف 16 طیارے کیوں چاہییں؟ شاید اس کی وجہ اس کے ڈیزائن سے متعلق کچھ حقیقی اختراعی پہلو اور ویتنام جنگ میں فضائی لڑائی سے سیکھے گئے کچھ سخت سبق ہیں۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکہ نے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کی نئی ٹیکنالوجی کو دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے بہترین ہتھیار کے طور پر اپنایا تھا۔ جب 1965 میں ویتنام کی جنگ شروع ہوئی تو اس کے کچھ فرنٹ لائن لڑاکا طیارے جیسے ایف -4 فینٹم 2، کے پاس گنیں نہیں تھیں۔ امریکی فوجی منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ طیارے کے میزائل کافی ہوں گے۔ تاہم، میزائلوں سے لیس امریکی لڑاکا طیارے ویتنام میں جنگ ��ڑھنے کے ساتھ ہی چھوٹے اور چاق و چوبند اور سوویت ساختہ مگ لڑاکا طیاروں کا مقابلہ کرنے لگے۔ شمالی ویتنام کے کچھ مگ طیارے تقریباً سوویت طیاروں سے ملتے جلتے تھے جو 1950 کی دہائی کے اوائل میں جزیرہ نما کوریا پر لڑے تھے، اور اب مغرب میں انھیں تقریباً متروک سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، قریبی یا دوبدو لڑائی میں، جہاں امریکی لڑاکا اپنے میزائلوں کو استعمال میں نہیں لا سکتے تھے، وہ زبردست حریف ثابت ہوتے تھے۔
سنہ 1965 اور 1968 کے درمیان، امریکی جنگی طیاروں نے شمالی ویتنام کے طیاروں کو کہیں زیادہ مار گرایا، لیکن یہ فرق ڈرامائی طور پر کم ہو گیا۔ چھوٹے اور سنگل انجن والے مگ طیاروں کے مقابلے میں بڑے اور دو انجن والے امریکی لڑاکا طیاروں کو دور سے تلاش کرنا آسان تھا۔ اس کا ایک حل یہ تھا کہ امریکی بحریہ کے ’ٹاپ گن‘ جیسے تربیتی سکول قائم کیے جائیں، جس نے امریکی ہوابازوں کو ڈاگ فائٹ کا کھویا ہوا فن سکھایا۔ یہ ویتنام جنگ کے اختتام سے پہلے عمل میں آیا۔ ڈاگ فائٹ پہلی عالمی جنگ میں شروع ہوئی تھی جب چھوٹے ہوائی جہازوں کی رفتار ایک کار جیسی تھی لیکن اب کئی سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جیٹ طیاروں میں اسی طرح کی لڑائی ایک بالکل مختلف تجربہ ہے۔ تیز رفتاری کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ دیر تک سخت موڑ میں کشش ثقل کی قوتوں یا جی فورس کے تابع ہیں۔ لیکن امریکہ میں سوویت طیاروں کا مقابلہ کے لیے ایک اور پروگرام ترتیب دیا گیا۔ 1960 کی دہائی کے آخر میں سوویت مگ 25 کے ابھرنے سے امریکی دفاعی سربراہان پہلے ہی پریشان تھے، جو ایک بڑا لڑاکا طیارہ تھا جو آواز کی رفتار سے تین گنا زیادہ رفتار سے پرواز کر سکتا تھا۔
پینٹاگون کی جانب سے مگ-25 کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طاقتور انٹرسیپٹر کے مطالبے کے نتیجے میں میکڈونیل ڈگلس ایف-15 ایگل تیار کیا گیا، جو ایک بڑا اور تیز رفتار انٹرسیپٹر ہے جو ریڈار گائیڈڈ میزائلوں سے انتہائی اونچائی پر دشمن کے طیاروں کو مار گرانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ویتنام جنگ سے امریکہ نے جو سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ اسے ایک ایسے چھوٹے چاق و چوبند طیارے کی ضرورت ہے جو دشمن کے طیاروں کو ہیٹ سیکنگ میزائلوں اور بندوقوں سے مار گرا سکے آنے والے دنوں میں امریکی ایئرفورس کو ایسے سینکڑوں جنگی طیاروں کی ضرورت ہونی تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ نیٹو ممالک اور دوسری امریکی اتحادی بھی اس کی پیروی کریں گے۔ اس منافع بخش منصوبے کے لیے پانچ ڈیزائن دوڑ میں شامل ہو گئے، جن میں سے دو جلد ہی سب سے آگے نکل گئے جن میں جنرل ڈائنامکس (اب لاک ہیڈ مارٹن کا حصہ) سے وائی ایف -16 اور حریف نارتھروپ سے وائی ایف -17۔ وائی ایف -16 کو سب سے پہلے ڈاگ فائٹ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جس کے تحت اس کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں اور کاک پٹ کو ایسے بنایا گیا جو پائلٹ کو بہتر نظارہ مہیا کرتا ہے۔ اس کا کاک پٹ بالکل ابتدائی جیٹ لڑاکا طیاروں جییسا ڈیزائن کیا گیا تھا۔
برطانیہ میں رائل ایروناٹیکل سوسائٹی میں ملٹری ایوی ایشن کے ماہر ٹم رابنسن کا کہنا ہے کہ ’کم از کم ’فائٹر مافیا‘ کا ایک حصہ جو اسے آگے بڑھا رہا تھا وہ کوریا اور ایف-86 سیبر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ کسی ایسی چیز کو دیکھ رہے تھے جو واقعی قابل عمل تھی اور ببل چھتری کے ساتھ پائلٹ کے لیے واقعی بہت اچھا نظارہ رکھتی تھی۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ایک یہ خیال پیش کیا گیا کہ ریڈار کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد انفراریڈ کی تلاش کرنے والے دو میزائل اور ایک گن رکھنا ہے اور انھیں ان چیزوں کو ختم کرنا پڑے گا۔ وہ سوویت طیاروں کی تعداد کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے: ’خدا، ہمیں ان میں سے بہت سے کی ضرورت ہو گی، ہمیں ان میں سے بہت سے بنانے ہوں گے۔‘ نئے جیٹ کو ایف -15 کی طویل رینج کی ضرورت نہیں تھی چنانچہ یہ بہت چھوٹا اور ہلکا ہو سکتا تھا اور ایف -15 کے دو انجنوں کے برعکس اسے ایک انجن کی ضرورت ہو گی۔ کم وزن اور طاقتور انجن کا یہ امتزاج ایک اعلی ’تھرسٹ ٹو ویٹ تناسب‘ پیدا کرتا ہے، جس نے نہ صرف تیز رفتار کو قابل بنایا بلکہ تیزی سے موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جو ڈاگ فائٹ کے لیے انتہائی موزوں ہے۔
ایف -16 کو ڈاگ فائٹ میں 9 جی تک برداشت کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا (جس کا مطلب ہے کہ زمین پر 1 کلو گرام وزن اچانک 9 کلو گرام ہو گا)�� ہائی جی پر پرواز کرنے سے ایئر فریم اور پائلٹ دونوں پر بہت زیادہ دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ ہائی جی موڑ میں پائلٹ کو ہوش میں رکھنے میں مدد کے لیے، ایف 16 میں کاک پٹ سیٹ کو دوبارہ موڑ دیا جاتا ہے جس سے پائلٹ پر کچھ اثرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جیف بولٹن ایوی ایشن جرنلسٹ اور براڈکاسٹر ہیں جنھوں نے دو بار ایف 16 کے دو نشستوں والے ورژن میں پرواز کی ہے، جو پائلٹ کی تربیت اور خصوصی مشن دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے جن لڑاکا طیاروں میں پرواز کی ہے ان میں ایف 16 ایسا طیارہ ہے جو ایک دستانے کی طرح آپ کے گرد لپٹ جاتا ہے۔‘ ’میں قد تقریباً 6 فٹ 4 انچ ہے، لہذا یہ میرے لیے ایک تنگ جگہ ہے، لیکن میں پھر بھی اپنی نشست کو نیچے کر سکتا تھا اور میں اپنا ہاتھ اپنے ہیلمٹ اور چھتری کے درمیان رکھ سکتا تھا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ نے طیارے کو ’پہن‘ رکھا ہے۔‘
آنے والے دنوں میں ایف 16 کا کاک پٹ کا ڈیزائن صرف ایک لیٹی ہوئی نشست اور ایک اچھے نظارے سے کہیں آگے گیا۔ طیارے کے ڈیزائنرز نے پہلی عالمی جنگ کے بعد سے لڑاکا طیاروں کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک کو ختم کر دیا، یعنی پائلٹ کی ٹانگوں کے درمیان ایک کنٹرول سٹک کی بجائے ایف -16 میں کاک پٹ کے دائیں طرف جوائے سٹک طرز کا کنٹرولر تھا، بالکل اسی طرح جیسے آپ کمپیوٹر گیم ’فلائٹ سمولیٹر‘ میں استعمال کرتے ہیں۔ ایف 16 کو اصل میں کم اونچائی پر ایف 15 کی مدد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن جلد ہی یہ پتہ چلا کہ ایف 16 کے ایئر فریم نے اسے بھاری بوجھ، زیادہ ایندھن اور ایک بڑا ریڈار لے جانے کی اجازت دی۔ اکیسویں صدی میں ایف 16 طیارے زمینی حملے کے طیارے کے طور پر اہم ہو گئے ہیں جس کے بارے اس کے ڈیزائن کرنے والوں نے 1970 کی دہائی میں سوچا نہیں تھا۔ ایف سولہ کے ڈیزائن نے اسے زیادہ سے زیادہ کردار نبھانے کے قابل بنایا ہے جس نے اسے فضائی افواج کے لیے انتہائی پرکشش بنا دیا رابنسن کا کہنا ہے کہ ’جہاں کوئی تنازع ہے، وہاں شاید ایف 16 طیارے بھی ہوں گے۔‘
رابنسن کا کہنا ہے کہ ایف 16 کا پہلا عرفی نام ’فائٹنگ فالکن‘ تھا، لیکن یہ نام اس پر کبھی جما نہیں ہے۔ ’اب اسے (عرفی نام) کوئی بھی استعمال نہیں کرتا ہے۔ زمین پر کھڑے ایف 16 طیارے بہت ہی ’فیوچرسٹک‘ (یعنی مستقبل کی شے) لگتے ہیں لیکن فضا میں اس حقیقت کا آپ پر انکشاف بھی ہوتا ہے۔ رابنسن کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا طیارہ ہے جو پائلٹوں کو ان کی جسمانی حدود سے باہر دھکیل سکتا تھا نہ صرف اس لیے کہ یہ 9 جی تھا بلکہ یہ بھی کہ یہ کتنی تیزی سے آئے گا۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ ’جب میں پہلی بار ایف سولہ میں سوار ہوا تو انسٹرکٹر نے مجھ سے کہا کہ ’ٹھیک ہے، اب یہ طیارہ آپ کا ہوا۔‘ پائلٹ نے بولٹن کو مشورہ دیا کہ ’یہ بہت حساس ہے۔ تو بس اس بات کو ذہن میں رکھو کہ ایف 16 کی کنٹرول سٹک پر زیادہ طاقت نہ لگائی جائے۔‘ بولٹن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کا آغاز ایلرون رول سے کیا تھا، جہاں طیارہ اونچائی کھوئے بغیر 360 ڈگری تک گھوم جاتا ہے۔ ’تو میں نے جب اسے انجام دیا، تو انسٹرکٹر نے میری طرف دیکھا اور کہا ’یار، یہ بہت اچھا تھا۔‘ انسٹرکٹر نے کہا کہ نئے پائلٹ پہلے ایف 16 کے کنٹرولر پر بہت زیادہ طاقت لگاتے تھے۔ بولٹن کا کہنا ہے کہ یہ طیارہ اس قدر ریسوپانسو ہے کہ ’یہ انسٹرکٹرز کا سر کنوپی کے اطراف سے ٹکراتا ہے۔‘
بولٹن اس سے قبل ایف 5 جیسے امریکی طیاروں میں پرواز کر چکے ہیں، جو ایک طویل عرصے تک ٹاپ گن مشقوں میں سوویت جیٹ طیاروں کا کردار ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ واٹرز اپنے ایف 16 فلائنگ کیریئر کے اختتام پر ایئر شوز میں نمائشی اور ایروبیٹگ پروازیں کرتے رہے ہیں۔ انھیں آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے پہلی بار ایف 16 کے کاک پٹ میں کب قدم رکھا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ جولائی میں فینکس میں تھا اور درجہ حرات 48 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ’بہت زیادہ گرمی، جیٹ کا شور اور پھر آپ ایک ایسے طیارے میں چھلانگ لگا رہے ہیں جسے آپ نے چند بار کنٹرولڈ اور آرام دہ ماحول میں سمولیٹر میں چلایا ہے۔‘ واٹرز کا کہنا ہے کہ تقریباً 5,000 فٹ کی بلندی پر انھوں نے اپنا ماسک گرایا اور وہ پہلی بار ایف 16 اڑانے کی گرمی اور جوش و خروش کے باعث پسینے سے بھیگ گئے تھے۔ ’میں نے اس لمحے سے لطف اندوز ہونے کے لیے صرف ایک منٹ لیا۔یہ ایک بہت ہی ناقابل یقین سنسنی تھی۔ اور اس وقت تک کی سب سے طاقتور چیز جو میں نے اڑائی تھی۔‘
واٹرز کا کہنا ہے کہ ایف-16 کو اڑانے کا واحد مشکل حصہ اسے اتارنا یا لینڈنگ کروانا ہے۔ ’اسے اچھی طرح سے اتارنا کچھ آسان نہیں ہے کیونکہ یہ طیارہ ہمیشہ محو پرواز رہنا چاہتا ہے! آپ دیکھتے ہیں کہ ایف 16 وہ کام کرتے ہیں جسے ہم 'ببل' یا 'باؤنس' کہتے ہیں۔ آپ روایتی طور پر اسے روک نہیں سکتے، فلائی بائی وائر نہیں چاہتا کہ آپ ایسا کریں، وہ اسے اڑتا رہنا چاہتا ہے۔‘ واٹرز نے 2019 میں ایف 16 کو اڑانا چھوڑ دیا تھا۔ ’میں اب بھی اسے یاد کرتا ہوں۔ ایف 16 پر سٹریپنگ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ ٹیلی فون کے کھمبے کے آخری حصے پر بیٹھے ہیں اور آپ کی پیٹھ پر راکٹ موٹر لگی ہوئی ہے۔‘ تاہم اب ایف 16 کی جگہ امریکہ اور نیٹو کی کچھ فضائی افواج میں لاک ہیڈ ساختہ لڑاکا طیارے ایف 35 کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ہر ایف 35 کی قیمت 100 ملین ڈالر سے زیادہ ہے اور اسے دشمن کے طیاروں کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایڈ-آن کے بغیر ایف-16 کی قیمت ایف 35 کی قیمت کا صرف ایک تہائی ہو سکتی ہے۔ وہ 2056 میں ہو گا جب ایف 35 کی پہلی پرواز کے 50 سال مکمل ہوں گے مگر اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس وقت بھی ایف 16 طیارے کہیں نہ کہیں پرواز کر رہے ہوں گے۔
سٹیفن ڈولنگ عہدہ,بی بی سی فیوچر
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
ٹرمپ کا دنیا کی جنگیں ایک فون پر ختم کرنے کااعلان
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر صدارتی الیکشن جیت گیا تو ایک فون کال پر دنیا بھر کی جنگیں ختم کردوں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کاانتخابی مہم سے خطاب میں کہنا تھا کہ روس یوکرین اور حماس اسرائیل کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو ایسی جنگیں صرف ایک ٹیلی فون کال پر ختم کروں گا ۔اگر میں امریکہ کا صدر ہوتا تو اسرائیل کو کبھی غزہ میں گھسنے کی اجازت نہ دیتا ۔ ٹرمپ نے جوبائیڈن کو سخت…
0 notes
emergingpakistan · 5 months
Text
نسل کشی میں اسرائیل کے شراکت دار ممالک
Tumblr media
امریکا کے سینئر ترین جنرل اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل چارلس براؤن کا کہنا ہے کہ اگرچہ اسرائیل کی بھرپور فوجی امداد جاری رہے گی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل کی ہر عسکری فرمائش پوری ہو سکے۔ ایسی صورت میں خود ہماری فوجی تیاری اور صلاحیتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جنرل صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے ؟ مگر پوری دنیا کو معلوم ہے کہ جہاں امریکی کانگریس اسرائیل کی ہر فرمائش کی حمائیت میں فولادی دیوار بن کے کھڑی ہے۔ وہاں سینیٹ کی اکثریتی ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی لیڈر چک شومر جیسے روائیتی اسرائیل نواز سیاست دان کی جانب سے اسرائیل کی نسل کش غزہ پالیسی کی مخالفت اور اسرائیل کی فوجی امداد پر شرائط عائد کرنے کا مطالبہ سوائے ذرا دیر کے لیے ایک خوشگوار حیرت پیدا کرنے کے سوا کوئی تیر نہیں مار سکتا۔ اگرچہ امریکی قوانین کے تحت کسی بھی ملک کو غیر مشروط طور پر اسلحہ فروخت نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ تحریری طور پر ضمانت نہ دے کہ یہ اسلحہ کن حالات میں ��ور کن ممکنہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہو گا اور کسی ایسے مشن میں استعمال نہیں ہوگا جس سے مروجہ بین الاقوامی جنگی قوانین کے انسانی پہلوؤں کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت نہتے شہریوں اور سویلین املاک کے خلاف اس اسلحے کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ استعمال سے پہلے عام شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا لازمی ہے۔
مگر امریکی محکمہ دفاع اور خارجہ کے سینئیر اہلکار نجی طور پر اعتراف کرتے ہیں کہ سات اکتوبر کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے ایسا کوئی ریویو نہیں کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امریکی اسلحے کا استعمال بین الاقوامی اور امریکی قوانین کی حدود میں ہے یا ان حدود سے تجاوز کیا جا چکا ہے۔ ایسی صورت میں اسرائیل کو امریکی اسلحے کی فراہمی فوری طور پر روکنا یا محدود کرنا پڑے گی۔ چنانچہ نہ تو کانگریس کی جانب سے ایسے کسی ریویو کا اب تک مطالبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی بائیڈن انتظامیہ اس ’’ مشکل ‘‘ وقت میں اسرائیل کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہے۔ الٹا اسرائیل کے لیے چودہ ارب ڈالر کی ہنگامی فوجی امداد کا پیکیج کانگریس کے زیرِ غور ہے۔ جب کہ بائیڈن انتظامیہ ایمرجنسی اختیارات کے تحت سو سو ملین ڈالر کے ٹکڑوں میں مسلسل اسرائیل کو انسان کش اسلحہ پہنچا رہی ہے۔ اتنی مالیت کا اسلحہ کسی امریکی اتحادی کو بیچنے کے لیے کانگریس کی پیشگی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اور بائیڈن انتظامیہ اس قانونی چور دروازے کو بھرپور طریقے سے اسرائیلی اسلحہ خانے کو تازہ دم رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
Tumblr media
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( سپری ) کے مطابق امریکا اسرائیل کی اڑسٹھ فیصد فوجی ضروریات پوری کرتا ہے۔ سالانہ چار ارب ڈالر دفاعی گرانٹ کی مد میں دیے جاتے ہیں اور جو اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے اس کی قیمت اسی امریکی گرانٹ سے منہا ہو جاتی ہے۔ گویا اسرائیل کو بیشتر امریکی اسلحہ مفت میں پڑتا ہے۔ اس میں ایم سولہ ساخت کی اسالٹ رائفل سے لے کر ایف تھرٹی فائیوا سٹیلتھ طیاروں اور نام نہاد اسمارٹ بموں سمیت سب ہی کچھ شامل ہے جو اس وقت غزہ پر مسلسل آزمایا جا رہا ہے۔ امریکا نے اسرائیل میں اپنی ضروریات کے لیے بھی اسلحہ خانہ بنا رکھا ہے۔ اس اسلحہ خانے سے اسرائیل بھی اپنی ہنگامی ضروریات کے لیے ہتھیار نکلوا سکتا ہے۔ یہیں سے یوکرین کو بھی امریکی ہتھیار بھیجے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ امریکا اسرائیل کو میزائیل حملوں سے محفوظ رکھنے والی آئرن ڈوم چھتری کے لیے بھی ٹیکنالوجی اور اینٹی میزائیل سسٹم فراہم کرتا ہے۔ اسرائیل کو ایف پینتیس طیاروں کی جو کھیپ فراہم کی گئی ہے۔ اس کے لیے فاضل پرزے اور اضافی آلات نیدر لینڈز اور برطانیہ میں قائم امریکی عسکری گوداموں سے سپلائی کیے جاتے ہیں۔ فی الحال ایک ڈچ عدالت نے حکومتِ ہالینڈ پر اضافی سامان فراہم کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
عدالت کو ’’ شبہہ ‘‘ ہے کہ ایف پینتیس طیارے فوجی اہداف کے ساتھ ساتھ شہری اہداف کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ مگر ڈچ حکومت نے اس عدالتی حکم سے بچنے کا یہ راستہ نکالا ہے کہ ایف پینتیس کے آلات کسی تیسرے یورپی ملک کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ وہاں سے یہ آلات باآسانی اسرائیل کو تھما دیے جاتے ہیں تاکہ نسل کشی کے کام میں اسرائیل کا ہاتھ رکنے نہ پائے۔ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک جرمنی ہے۔ جو چوبیس فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ دو ہزار بائیس میں اسرائیل کو جتنا جرمن اسلحہ فروخت ہوا۔ دو ہزار تئیس میں اس سے دس گنا زائد اسلحہ دیا گیا۔ جرمنی دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں سے بہیمانہ سلوک کے جس احساسِ جرم میں مسلسل مبتلا ہے، وہ اس کے ازالے کے لیے اسرائیل کی ہر فرمائش پوری کرنے کا اپنے تئیں پابند ہے تاکہ فلسطینی خون سے اسرائیل کی پیاس بجھ سکے اور اسرائیل وقتاً فوقتاً جرمنی کو اس کا ماضی نہ یاد دلائے۔ برطانیہ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ وہ اسرائیلی کی پندرہ فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ 
برطانیہ نے ہی اسرائیل کو تاریخی طور پر جنم دینے کی راہ ہموار کی تھی۔ لہٰذا دونوں ممالک کے تعلقات کوئی عام سا سفارتی بندھن نہیں بلکہ باپ بیٹے والا تعلق ہے۔ اٹلی نے پچھلے پانچ ماہ میں اسرائیل کو تئیس لاکھ ڈالر کے دفاعی آلات فراہم کیے۔ مگر کچھ ممالک نے اسرائیل کی فوجی امداد روک دی ہے۔ مثلاً کینیڈا اسرائیل کو سالانہ چار بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ فی الحال اس نے نئے سودے روک دیے ہیں۔ جاپان کی اٹوچو کارپوریشن نے اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ایل بیت کے ساتھ شراکت داری منجمد کر دی ہے۔ فروری میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اسرائیل کے خلاف جزوی فیصلے کی روشنی میں اسپین نے اسرائیل کے لیے اسلحے کی برآمد کے لائسنس معطل کر دیے ہیں۔ بلجئیم نے بارود کی برآمد معطل کر دی ہے۔ اگرچہ یہ پابندیاں بے نظیر اور خوش آیند ہیں۔ مگر تمام سرکردہ تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ امریکی تادیبی پابندیوں کے بغیر اسرائیل کو من مانی سے روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکا چاہے تو آج رات جنگ رک سکتی ہے۔ مگر امریکا اس نسل کشی سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ راز فی الحال یا بائیڈن جانتا ہے یا پھر خدا۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نیٹو ہے کیا اور اس کا قیام کیوں عمل میں آیا؟
Tumblr media
نیٹو دراصل 'نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن' کا مخفف ہے، جسے سن 1949 میں قائم کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کے قیام کا اولین اور اہم مقصد یورپ میں سوویت یونین کے پھیلاؤ کے خطرے کو روکنا تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے یورپ میں قوم پرستانہ رجحانات کی بحالی کو روکنے اور براعظم میں سیاسی انضمام کو فروغ دینے کے لیے بھی اسے ایک آلے کے طور پر دیکھا۔ تاہم حقیقت میں اس کا قیام پہلی بار سن 1947 میں اس وقت ہوا تھا، جب برطانیہ اور فرانس نے جنگ کے نتیجے میں جرمن حملے کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اتحاد کے طور پر ڈنکرک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس سیاسی اور فوجی اتحاد کے اصل بانی 12 ارکان: امریکہ، برطانیہ، بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے اور پرتگال ہیں۔ اجتماعی سیکورٹی اس وقت اس تنظیم کے 31 ارکان ہیں اور یہ اتحاد تمام ارکان کی اجتماعی سیکورٹی کے طور پر کام کرتا ہے، جس کا مقصد اگر کسی رکن ملک کو کسی بیرونی ملک سے خطرہ لاحق ہو، تو اسے فوجی اور سیاسی ذرائع سے باہمی دفاع فراہم کرنا ہے۔ اجتماعی سکیورٹی کی بنیاد چارٹر کے آرٹیکل پانچ پر مشتمل ہے، جس میں اس کا تفصیلی ذکر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ''تمام فریق اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکہ میں ان میں سے کسی ایک پر یا ایک سے زیادہ کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے، تو اسے سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ایسا مسلح حملہ ہوتا ہے، تو ان میں سے ہر ایک انفرادی طور پر یا تمام فریق اقوام متحدہ کے چارٹر کے تسلیم شدہ آرٹیکل 51 کی طرف سے خود کے دفاع کے اپنے حق کا استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔''  "جس پر بھی حملہ ہو، اس کے دفاع کے لیے ادارہ انفرادی طور پر یا دیگر فریقوں کے ساتھ مل کر فوری طور پر، مسلح فورس کے ذریعے یا جو بھی کارروائی ضروری سمجھی جائے، شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی کو بحال اور برقرار رکھنے کے لیے تمام فریقوں کی مدد کرے گا۔'' سن 2001 میں 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ نے اس اتحاد کے چارٹر میں اس آرٹیکل پانچ کا اضافہ کیا اور تبھی سے یہ نافذ ہوا۔
Tumblr media
سوویت روس کے خلاف طاقت کا مظاہرہ سوویت یونین نے بھی سن 1955 میں سات دیگر مشرقی یورپی کمیونسٹ ریاستوں کے ساتھ اپنا ایک الگ فوجی اتحاد بنا کر نیٹو کو جواب دیا، جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔ لیکن دیوار برلن کے گرنے اور سن 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کی وجہ سے یورپ میں سرد جنگ کے بعد ایک نئے سکیورٹی آرڈر کی راہ ہموار ہو گئی۔ سوویت یونین سے آزاد ہونے کے بعد وارسا معاہدے کے بھی کئی سابقہ ممالک نیٹو کے رکن بن گئے۔ ویزگراڈ گروپ کے ارکان ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے سن 1999 میں نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ پانچ برس بعد 2004 میں نیٹو نے بلغاریہ، ایسٹونیا، لاتوئیا، لتھوانیا، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووینیا پر مشتمل نام نہاد ولنیئس گروپ کو بھی تسلیم کر لیا۔ البانیہ اور کروشیا نے سن 2009 میں شمولیت اختیار کی جب کہ مونٹی نیگرو اور شمالی مقدونیہ نے سن 2020 میں ایسا کیا۔ فن لینڈ رواں برس اپریل میں نیٹو میں شامل ہوا، جو سب سے نیا رکن ہے۔ اس کے نورڈک پڑوسی ملک سویڈن نے بھی بلاک میں شامل ہونے کے لیے درخواست دی ہے، تاہم اس کے الحاق کی کوشش کو فی الحال ترکی اور ہنگری نے روک رکھا ہے۔ تین ممالک : بوسنیا ہرزیگوینا، جارجیا اور یوکرین کو فی الحال اس فہرست میں رکھا گیا ہے، جو اس میں شامل ہونے کے ''خواہش مند'' ہیں۔
نیٹو کی اوپن ڈور پالیسی روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے پس منظر میں نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے کییف کی خواہش ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ تاہم روس کے لیے سابق سوویت یونین کی جمہوریہ ہونے کی وجہ سے یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا تصور ایک سرخ لائن ہے۔ نیٹو کی نام نہاد اوپن ڈور پالیسی، جیسا کہ معاہدے کی دفعہ 10 میں بیان کیا گیا ہے، کسی بھی اس یورپی ملک کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دیتی ہے جو ''شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی میں اضافہ اور تعاون کر سکتا ہو۔''۔ نیٹو کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ ''نیٹو کی رکنیت کے خواہشمند ممالک سے بھی کچھ سیاسی، اقتصادی اور عسکری اہداف کو پورا کرنے کی توقع کی جاتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اتحاد کی سلامتی کے ساتھ ہی اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی بن سکیں گے۔''
 روب موڈگے 
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
mingleup · 1 year
Text
youtube
امریکہ مخالف اتحاد تشکیل پا گیا، پاکستان، روس، چائنہ، ایران اور مشرق وسطی کے ممالک شامل۔
امریکہ۔ یوکرین جنگ کو ہوا دینے میں مصروف، یوکرین کو جدید اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی مہیا کر دی۔
پاکستانی سیاستدانوں کو صرف سیاست کے بجائے ملک کی فکر کرنا چاہیئے۔
0 notes