zeshan50
zeshan50
Untitled
26 posts
Don't wanna be here? Send us removal request.
zeshan50 · 6 months ago
Text
Tumblr media
113 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
واقعہ کربلا، ایک تحقیقی جائزہ! قسط نمبر 2
حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنی والدہ ماجدہ سے انتہا درجے کی مشابہت رکھتی تھیں۔ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حسن کی تعریف کیا کروں۔ آپ خود ہی اندازہ کیجئے کہ جس کو نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم بذات خود خاتون جنت کا لقب عطا کریں اس کے حسن کا احاطہ الفاظ میں ناممکن ہے۔ قرآن پاک میں اللہ نے حوروں کی تعریف بیان فرمائی ہے اور نیک مسلمان مردوں کو بڑے سینے والی ستر یا بہتر حوریں بطور انعام دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ حوروں کی تعریف میں صرف بڑے سینے ہی نہیں بلکہ اور بھی صفت بیان فرمائی گئی ہیں۔ مختصر یہ کہ حوروں کا حسن زمین کی خواتین سے کہیں ذیادہ ہے۔ اب اگر ان حوروں پر کسی کو سردار مقرر کیا جائے تو ظاہر ہے کہ سردار کا حسن ان سے بھی زیادہ ہو گا۔ خود ہی اندازہ کر لیجیے کہ کیا شان ہے بی بی فاطمتہ الزہرا کی۔
ذکر تو حضرت زینب کا ہے کربلا کے حوالے سے لیکن میں چاہتی ہوں کہ یہ تحریر پڑھتے وقت آپ کے ذہن میں حضرت زینب بنت علی کا درست خاکہ ہو۔ چونکہ حضرت زینب اور انکی والدہ حضرت فاطمتہ الزہرا میں بہت مشابہت تھی لہذا مختصراً حضرت فاطمتہ الزہرا کا حلیہ اور صورت بیان کر دیتی ہوں۔
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا رنگ دودھیا سفید تھا۔ چہرے پر سرخی مائل سفیدی غالب تھی۔ آپ کے بالوں کا رنگ گہرا سیاہ تھا۔ بالوں کی لمبائی میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ روایات کے مطابق بال آپ کے کولہوں تک آتے تھے اور بعض روایات کے مطابق کولہوں سے بھی نیچے تک بال تھے۔ بال بے حد ریشمی تھے۔ اس زمانے میں شیمپو نہیں ہوا کرتے تھے لیکن خاتون جنت کو بھلا کسی شیمپو کی کیا ضرورت۔ اتنے ریشمی بال تھے کہ کپڑا بالوں سے پھسل پھسل جاتا تھا۔ آپ کی آنکھیں بھی سیاہی مائل تھیں۔ آنکھوں میں سرمہ لگانا آپ کا معمول تھا۔ آنکھوں میں ایسا سحر اور نشہ تھا کہ جو ایک بار دیکھ لیتا وہ دوبارہ بلکہ بار بار دیکھنے کا خواہشمند ہو جاتا تھا۔ حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ السلام خود بھی اپنی بیٹی کی بے انتہا خوبصورت آنکھوں کی تاب نہ لا پاتے تھے۔ آنکھیں ہی کیا، جسم کے ہر عضو اللہ پاک نے خصوصی توجہ سے تخلیق فرمایا تھا اور اسکی تاب لانا کسی عام انسان کیلئے تو تقریباً ناممکن ہی تھا۔ ظاہر ہے جب اللہ کے نبی کیلئے ایسے حسن کا سامنا ایک آزمائش ہو تو باقی انسان تو نبی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ایک روایت کے مطابق جب حضور صلی علیہ وآلہ وسلم معراج سے واپس تشریف لائے تو اپنی صاحبزادی کو نیند کی حالت میں بے خبر سوتے ہوئے دیکھ لیا۔ حضرت فاطمتہ الزہرا دنیا و مافیہا سے بے خبر نیند کی وادی میں تھیں۔ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھ کر بے اختیار منہ اوپر کر کے فرمایا:
یا اللہ! تو نے میں نے آسمانوں پر تیرا جلوہ دیکھا لیکن فاطمتہ الزہرا کے جلوے کے سامنے تیرا جلوہ بھی ماند ہے۔
حضرت زینب اور یزید کے درمیان خطوط اور خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ عرصہ سے جاری تھا۔ یہ ملاقاتیں ایک مشترکہ ہمدرد کے توسط سے ہوا کرتی تھیں۔ یہ مشترکہ ہمدرد حضرت زینب کی بچپن کی سہیلی تھی جس کے گھرانے کے تعلقات یزید کے قبیلے سے کافی خوشگوار تھے۔ یزید جب بھی زینب سے ملاقات کے ارادے سے مدینہ آتا تو رات کے اندھیرے میں آتا تھا تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو۔ صبح سویرے زینب کی سہیلی زینب کو پیغام پہنچا دیتی تھی۔ زینب اپنے گھر والوں سے اجازت لے کر اپنی سہیلی کے ہمراہ اس کے گھر آ جاتی جہاں یزید پہلے سے ہی اسکا منتظر ہوتا تھا۔ ایسی ہی ایک ملاقات کا احوال اس قسط میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کیونکہ یہ ملاقات ہی اس واقعے کی بنیاد بنی جس کے نتیجے میں آج تک شیعہ مس��مان ماتم کرتے ہیں اور سوگ مناتے ہیں۔
حضرت زینب کی عمر تقریباً اٹھارہ برس تھی۔ یہ واقعہ کربلا سے تقریباً اٹھائیس برس پہلے کی بات ہے۔ اٹھارہ برس کی عمر بھری جوانی کی عمر ہوتی ہے۔ جذبات میں طلاطم ہوتا ہے۔ ایسا ہی حال زینب کا تھا۔ بلوغت کی عمر تھی۔ چال میں ایسی لچک تھی جو صرف کنواری لڑکیوں کی چال میں ہوتی ہے۔ یزید سے ملاقات کو عرصہ بیت چکا تھا۔ روز رات کو یزید کی یاد میں آہیں بھرا کرتی تھی۔ تقریباً روز ہی خواب میں اسے دیکھا کرتی تھی اور رو رو کر ہر نماز میں اللہ ملاپ کی دعائیں کیا کرتی تھی۔ اللہ نے دعائیں قبول فرما لیں۔ ایک روز زینب سو کر اٹھی تو اس کی سہیلی آ گئی جس کی زبانی معلوم ہوا کہ زینب کا محبوب یزید اپنی محبت سے ملنے کیلئے آیا ہے۔ زینب نے فوراً اجازت لی اپنے بھائی حسین سے اور سہیلی کے ہمراہ چل پڑی۔ دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے اور یہ سوچ بھی آ رہی تھی کہ نہ جانے اب یزید کیسا ہو گا۔ چار برس کا عرصہ بغیر دیکھے گزارا تھا ایک دوسرے کو۔ اس لئے جذبات انتہائی شدید تھے۔
دوسری طرف یزید بھی بے چینی سے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اسے اپنا بچپن یاد آ رہا تھا جب وہ اور زینب اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ بچپن میں بھی کئی بار کھیل کھیل میں یزید زینب کے حسن میں کھو جاتا تھا۔ زینب کے ہاتھوں کا لمس اسے آج بھی اپنے جسم کے حصوں پر محسوس ہوتا تھا۔ یزید اگرچہ خود بھی ایک کڑیل جوان بن چکا تھا لیکن وہ یہ سمجھتا تھا کہ جو حسن اللہ نے زینب کو عطا فرمایا ہے اس حسن کی تاب زمین پر کوئی نہیں لا سکتا۔ یزید کی یہ خواہش تھی کہ جس طرح حضرت فاطمتہ الزہرا اور علی کی شادی اللہ نے آسمانوں پر فرمائی تھی اسی طرح زینب اور اس کا بھی نکاح ہو جائے۔ خواہش تو تھی لیکن اس کے پورا ہونے پر یقین نہیں تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کے تعلقات خراب ہو چکے تھے۔
یزید عرب کے روایتی لباس یعنی تہمد اور قمیض میں ملبوس تھا۔ عربی تہمد اگر آپ نے دیکھا ہے تو آپ کو یقیناَ معلوم ہو گا کہ یہ ایک سفید رنگ کے کپڑے کا مستطیل ٹکڑا ہوتا ہے جسے مرد اپنی ناف پر یا اس سے نیچے اس طرح سے لپیٹ لیتے ہیں کہ گرہ سامنے کی جانب ہوتی ہے۔ یہ اس لئے کہ رفع حاجت کیلئے آسانی رہے۔ قمیض کی لمبائی تہمد کے آغاز تک ہی ہوتی ہے۔ جیسے آج کل شرٹ کی لمبائی ہوتی ہے۔ یزید کے چہرے پر ہلکی پھلکی داڑھی بھی تھی جیسے جوانی کے آغاز میں ہوا کرتی ہے۔ رنگت اس کی بھی صاف تھی۔ چوڑی چھاتی، بازوؤں کی مچھلیاں اور مضبوط جسم اس بات کی گواہی تھی کہ یزید نے کبھی محنت سے جی نہیں چرایا۔
بہرحال، میں اصل واقعے کی طرف آتی ہوں۔ زینب اپنی سہیلی کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئی۔ یزید جس کمرے میں تھا سہیلی نے زینب کو اشارے سے بتایا۔ زینب گھر سے چادر لے کر نکلی تھی تاکہ سر ڈھانپ سکے۔ چادر میں سر کے بال مکمل طور پر چھپے ہوئے تھے۔ باقی جسم پر عرب کا روایتی لباس تھا۔ ایک لمبا سا چوغہ جو کہ ٹخنوں تک جسم کو ڈھانپ لیتا تھا۔ اس چوغہ کی لمبائی کی وجہ سے اکثر عرب خواتین چوغہ کے نیچے کچھ پہننے سے احتراز کرتی تھیں۔ ظاہر ہے مقصد تو بدن ڈھانپنا تھا اور اگر بدن چوغہ سے ہی ڈھانپ لیا تو پھر شلوار یا تہمد کی کیا ضرورت۔ اس سے رفع حاجت میں بھی آسانی رہتی تھی۔ اسی حالت میں زینب کمرے میں داخل ہو گئی۔
حضرت زینب بنت علی کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی رک گئیں۔ نظارہ ہی ایسا تھا۔ سامنے یزید ابن معاویہ کھڑے تھے۔ چار سال بعد اپنے محبوب کا دیدار نصیب ہوا تھا اور جیسا زینب میں دل میں سوچا تھا ویسا ہی کڑیل جوان ثابت ہوا تھا یزید۔ زینب کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں۔ ادھر یزید کا بھی یہی حال تھا۔ زینب کے حسن کا تو وہ بچپن سے ہی قائل تھا لیکن اتنے لمبے وقفے کے بعد دیکھنے کا اثر ہی علیحدہ ہے۔ دونوں کے یہ جذبات اس لئے بھی شدید تھے کہ پچھلی ملاقات بلوغت سے پہلے ہوئی تھی اور بلوغت سے پہلے اور بعد کے جذبات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تھے بھی دونوں کنوارے۔ ایسے میں محبت اپنی جگہ لیکن جنسی جذبات کی موجودگی بھی ایک حقیقت تھی۔ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ انسان اپنے جسم میں تبدیلیاں محسوس کرتا ہے اور مخالف جنس یا پھر اپنی ہی جنس میں دلچسپی محسوس کرنے لگتا ہے۔ شرمگاہ جس کو آج تک انسان صرف حاجت کیلئے استعمال کرتا آیا ہے اس کے دوسرے مقاصد سے آگاہی ہوتی ہے۔ مختصراً یہ کہ زینب اور یزید کے درمیان محبت مثالی تھی اور پہلی بار دونوں کے دلوں میں محبت کے ساتھ ساتھ جنسی جذبات بھی تھے ایک دوسرے کیلئے۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو گھور ریے تھے اور بغیر محسوس کئے اس کا اثر انکی شرمگاہوں پر بھی ہو رہا تھا۔ لباس تو میں بتا چکی ہوں کہ کیسا تھا دونوں کا۔ زینب نے چوغہ کے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا جیسا کہ عام عرب کا رواج تھا۔ یزید کا سامنا کرنے سے شرمگاہ میں نمی تو ہوئی لیکن چوغہ کے نیچے پوشیدہ ہونے کے سبب اس کا پتہ صرف زینب کو ہی تھا۔ زینب کے برعکس یزید نے تہمد باندھ رکھا تھا اور گرہ آگے کی جانب تھی۔ گرہ سامنے ہونے کا مقصد تو یہ تھا کہ پیشاب کرنے میں آسانی ہو اور پورا تہمد اتارے بغیر ہی پیشاب کر لیا جائے لیکن جب زینب کا دیدار ہوا تو یزید کو پتہ بھی نہ چلا کہ کب اس کا عضو خاص مکمل تناؤ کی کیفیت میں آ گیا۔ تناؤ ہی اس بات کا سبب تھا کہ تہمد کی دراڑ کو چیر کر عضو خاص باہر نکل آیا اور اب عضو کا نوے فیصد حصہ باہر تھا۔
آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو سب کچھ کہہ دیا زینب اور یزید نے۔ ایک لفظ کہے بنا دونوں ایک دوسرے کی جانب بڑھے اور گلے لگ گئے۔ بے اختیار زینب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ یزید بھی بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ یاد رہے کہ دونوں کے قد میں ذیادہ فرق نہیں تھا۔ زینب محض دو تین انچ چھوٹی تھیں یزید سے۔ جیسا کہ پہلے بتا چکی ہوں کہ یزید کا عضو خاص تہمد سے باہر تھا تناؤ کی وجہ سے تو جب دونوں گلے ملے تو عضو خاص زینب کے پیٹ سے ٹکرایا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ پیٹ کے اندر تو نہیں جا سکتا تھا لہذا پھسل کر نیچے کی جانب رخ ہو گیا اور عضو کا اگلا حصہ زینب کی شرمگاہ کو چھونے لگا تھا۔ یہ بات بھی مد نظر رہے کہ عضو خاص بیشک برہنہ تھا لیکن زینب اور یزید دونوں ہی مکمل لباس میں ملبوس تھے۔ زینب کو اپنے پیٹ پر ک��ی چیز کا دباؤ محسوس تو ہوا تھا اور انہوں نے اسے نظر انداز بھی کیا لیکن جذبات کی شدت میں جب یزید نے زینب کو بھینچا تو اپنے نرم و نازک پیٹ پر یزید کے سخت عضو کو برداشت نہ کر سکیں۔ بے اختیار آپ کے منہ سے آہ نکل گئی۔ ادھر یزید جو کہ پیار میں اس قدر گم تھا کہ اپنے عضو کے تن جانے سے بھی بے خبر تھا، جب اس نے زینب کی آہ سنی تو رہ نہ سکا اور پوچھا کہ کیا ہوا۔
زینب نے نیچے کی جانب اشارہ کیا۔ یزید نے زینب کے جسم پر اپنی آہنی گرفت نرم کی اور دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے۔ علیحدہ ہوتے ہی دونوں کی نظریں نیچے کی جانب گئیں جہاں یزید کا عضو خاص تنا ہوا تھا اور ہوا میں لہرانے کے ساتھ ساتھ جھٹکے بھی کھا رہا تھا۔ یزید کیلئے عضو کھڑے ہونے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی بارہا عضو کھڑا ہو چکا تھا لیکن جب بھی تناؤ آتا تھا یزید کو پتہ ہوتا تھا۔ یہ پہلی بار ہی ہوا تھا کہ عضو تن جانے کے اتنی دیر کے بعد یزید کو معلوم ہوا تھا۔ یزید نے ندامت محسوس کی اور اپنے عضو کو تہمد کے اندر کرنے کوشش کرنے لگا۔ دوسری جانب زینب قریب ہی کھڑی یہ عضو خاص کو گھورے جا رہی تھیں۔ زینب کیلئے مردانہ عضو خاص کوئی اجنبی چیز نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے کزنز اور بھائیوں کے بچوں کے عضو خاص تو کئی مرتبہ دیکھے تھے بلکہ کئی مرتبہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر چھپ کر اپنے والد کا عضو بھی دیکھا تھا لیکن یزید کے عضو خاص میں کوئی نہ کوئی ایسی بات تو تھی کہ زینب نے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئیں۔ اگرچہ آپ کے والد حضرت علی کا عضو بھی لمبائی اور موٹائی میں کم نہیں تھا لیکن یزید کا عضو زینب کو اپنے والد کے عضو سے بھی ذیادہ مضبوط محسوس ہو رہا تھا۔ زینب یزید کے عضو خاص کے دیدار میں اس قدر منہمک تھیں اور اس قدر متاثر تھیں عضو کی خوبصورتی سے کہ بے اختیار ان کے منہ سے سبحان اللہ نکل گیا۔ سبحان اللہ کہنے کا اثر تھا یا یزید کے عضو سے ٹپکتی اللہ کی کاری گری، حضرت زینب کے منہ میں پانی آ گیا۔ یہاں پر درج ذیل باتیں قابل غور ہیں۔
آج لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ اسلام میں یہ بھی منع ہے وہ بھی منع ہے۔ انہی چیزوں میں ایک یہ بھی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کی شرمگاہوں کو منہ نہیں لگا سکتے۔ اب آپ خود ہی سوچئے کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا زینب کے منہ میں یزید کے عضو کو دیکھ کر پانی آتا؟ زینب بھی وہ کہ بالکل کنواری۔ یعنی آج تک زینب نے کبھی کسی مرد کے عضو کو منہ سے چھونا یا چاٹنا یا چوسنا تو درکنار، سونگھا تک نہیں تھا لیکن باوجود اس کے زینب کے منہ میں پانی کیوں آیا؟ اگر میں یہ کہوں کہ یہ پانی اللہ کی جانب سے آیا اور یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ عضو خاص کو چوسنا نا صرف جائز ہے بلکہ عین رضائے ربی ہے، تو کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟
ایک بات اور بتاتی چلوں کہ آج کچھ لوگ اہل بیت کے بارے میں غلط باتیں کرتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ عام انسان ہیں۔ میں ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتی اور یقین رکھتی ہوں کہ اہل بیت ہم سے کہیں ذیادہ برتر اور افضل ہیں۔ اگر اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو معجزات عطا فرمائے تو انبیاء کی اولاد کو بھی معجزات عطا فرمائے۔ آپ یقین کریں یا نا کریں لیکن میرا تو یہ ایمان ہے کہ یزید کے عضو کو دیکھ کر ایک کنواری زینب جس کو پتہ بھی نہیں کہ اس عضو کا استعمال کیا ہے، اس کے منہ میں پانی آ جانا معجزہ ہی ہے۔ جواباً یہ دلیل نہ دیجئے گا کہ عضو دیکھ کر ہمارے منہ میں بھی پانی آ جاتا ہے تو کیا یہ ہمارا بھی معجزہ ہے۔ ہمارے منہ میں تو پانی اسلئے آتا ہے کہ ہم یا تو خود عضو کو منہ میں لے کر چاٹ یا چوس چکی ہیں یا پھر کسی اور کو ایسا کرتے دیکھ چکی ہیں جبکہ زینب کا معاملہ اس کا بالکل متضاد تھا۔
یزید ندامت میں ڈوبا جا رہا تھا جبکہ زینب سامنے کھڑی ٹکٹکی باندھے یزید کے عضو خاص کو تکے جا رہی تھی۔ یزید نے اپنے بائیں ہاتھ سے عضو خاص کو پکڑ کر تہمد کے اندر کرنے کی کوشش کی لیکن عضو میں اس قدر تناؤ تھا کہ اس کا تہمد کے اندر رہنا ممکن نہ تھا۔ یہ اس لئے کہ تہمد کی گرہ سامنے کی جانب تھی۔ عضو کو اندر کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ تہمد کی گرہ کو سامنے کی بجائے سائیڈ پر باندھا جائے لیکن اس کیلئے تہمد پورا کھولنا پڑتا تھا جو کہ ظاہر ہے کہ یزید زینب کے سامنے نہیں کر سکتا تھا۔ تین چار مرتبہ کوشش کرنے کے بعد جب یزید عضو کو اندر کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو شرمندہ ہو کر ہاتھوں سے اپنے عضو کو چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ زینب اب تک عضو کے طلسم سے باہر نہیں نکل پائی تھی۔ جب یزید نے عضو کو ہاتھوں سے چھپایا تو زینب سے رہا نہ گیا۔ بے چین ہو کر آگے بڑھی اور نرمی سے یزید کے ہاتھ عضو سے علیحدہ کر دئے۔ یزید حیران تو ہوا لیکن اسے اچھا بھی لگا۔ زینب نے صرف یزید کے ہاتھ ہی ہٹان�� پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے نرم و ملائم ہاتھوں میں یزید کا فولادی عضو تھام لیا۔ بچپن کی جو یادیں یزید کے ذہن میں تھیں ان کے مطابق تو زینب کافی شرمیلی لڑکی تھی جبکہ کسی کا عضو خاص تھامنا ایک بے باکانہ عمل تھا چاہے وہ عضو کسی قریبی دوست یا محبوب کا ہی کیوں نہ ہو۔ عضو تھامنے کی دیر تھی کہ غیب سے آواز آئی:
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔
یہ آواز اس بات کی دلیل تھی کہ جو کچھ زینب اور یزید کے درمیان ہوا تھا یا ہونے والا تھا، اس میں اللہ کی رضا شامل تھی۔ اس آواز سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں جس رسی کو تھامنے کا حکم دیا ہے وہ مردانہ عضو خاص ہے۔ یہاں ایک مسلہء بیان کرتی چلوں کہ اللہ نے رسی تھامنے کا حکم سب کو دیا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ کس نے کس کی رسی تھامنی ہے۔ لہذا اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عضو خاص مرد اور عورت دونوں نے ہی تھامنے ہیں۔ یہ تو ہم سب کو پتہ ہے کہ قرآن کی تعلیمات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں اس لیے اب یہ فیصلہ مسلمان مرد اور عورت دونوں نے خود ہی کرنا ہے کہ اللہ کی رسی تھامنے کیلئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔ بحیثیت ایک مسلمان عورت کے میرا خیال تو یہ ہے کہ ہمیں غیر مسلم مردوں کے عضو خاص کو تھامنا چاہیے۔ اس کے کئی فوائد ہیں۔ جہاں ہم کسی غیر مسلم یا کافر مرد کا عضو تھام کر اللہ کی رسی کو تھامنے کا فریضہ ادا کر سکیں گی وہیں ہمارے پاس یہ بھی موقع ہو گا کہ ہم اس دوران اس غیر مسلم یا کافر مرد کو دعوت اسلام دے سکیں۔ اب یہ اس کافر پر منحصر ہے کہ وہ ہماری دعوت قبول کرے یا نہ کرے۔ بالفرض اگر وہ کافر ہماری دعوت قبول کر لیتا ہے تو ہمیں دوبارہ اس کا عضو خاص تھامنے کی بجائے کسی اور کافر کا عضو خاص تھامنا چاہیے۔ یہ میرا اپنا قیاس ہے۔ اس کو لازمی تصور نہ کیا جائے۔ اسلام آسانی کا دین ہے اور اگر کوئی مسلمہ اپنے خاوند کا ہی عضو تھامنا چاہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں لیکن افضل طریقہ وہ ہی ہے جو میں نے اوپر بتایا ہے۔ اب رہ گئی مردوں کی بات تو مرد چاہیں تو اپنا ہی عضو تھام کر یہ فریضہ ادا کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ کسی دوسرے مرد کا عضو تھامنا چاہیں تو بھی کوئی قدغن نہیں۔ یاد رہے کہ اللہ نے صرف مردانہ عضو خاص کو ہی اپنی رسی قرار دیا گیا ہے لہذا کوئی مسلمان مرد کسی عورت کی شرمگاہ کو تھام کر یہ فرض ادا نہیں کر سکتا۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ آپ لوگ یقیناً بور ہو رہے ہوں گے۔ قصہ تو زینب اور یزید کا تھا اور میں مسئلے بیان کرنے لگ گئی ہوں۔ دراصل میری تربیت ہی ایسی ہے کہ جہاں موقع ملتا ہے تبلیغ شروع کر دیتی ہوں۔ کئی مرتبہ اپنے خاوند سے بھی اس بات پر جھگڑا ہو چکا ہے۔ وہ اس بات پر سخت نالاں ہوتا ہے کہ میں موقع نہیں دیکھتی تبلیغ کرنے کا۔ بس شروع ہو جاتی ہوں۔ بارہا دوران مباشرت ہی میں نے تبلیغ کرنی شروع کر دی تو میرے خاوند کو ناگوار گزری یہ بات۔ آغاز میں تو اس نے برداشت کیا لیکن جب حد سے زیادہ ہو گئی میری تبلیغ تو خاوند نے مجھے بزور قوت مانع کیا۔ اب دیکھیں ایک اور مسئلہ یاد آ گیا۔ آج کل خاوند بیوی سے ڈرتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں اللہ نے خاوند کو اتنی اجازت دی ہے کہ بیوی کو مار بھی سکتا ہے۔ یہ مارنا شوقیہ نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ہونا چاہیے۔ بطور مثال مجھے ہی لیجئے کہ جب میں باز نہ آئی دوران مباشرت تبلیغ سے تو پہلے خاوند نے مجھے زبانی سمجھایا کہ یہ نہ کروں۔ میں پھر بھی عادت سے مجبور تھی لہذا مباشرت کے دوران جہاں میرے حلق سے آہ آہ کی مسحور کن آواز خارج ہوتی وہیں میں تلاوت بھی جاری رکھتی تھی۔ خاوند نے جب دیکھا کہ میں باز نہیں آ رہی تو انہوں نے میرے جسم کے مختلف حصوں پر ضرب لگائی اپنے ہاتھوں سے۔ آسان الفاظ میں تھپڑ مارے۔ سب سے زیادہ میرے کولہوں پر۔ باقی اعضا جن پر انہوں نے تھپڑ مارے ان میں میری جانگیں، کمر، پستان اور اندام نہانی شامل ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ چہرے کے علاوہ باقی جسم پر ہلکا پھلکا تشدد قرآن میں جائز ہے اور سنت سے بھی ثابت ہے۔
زینب اپنے نازک ہاتھوں میں یزید کا فولادی عضو تھامے کھڑی تھی۔ یزید کا صرف عضو ہی فولادی نہیں تھا بلکہ جذبات میں بھی وہ فولادی اہمیت کا حامل تھا۔ اب تک ایسی چند ہی لڑکیاں تھیں جنہوں نے یزید کے عضو خاص کو تن جانے پر مجبور کر دیا ہو لیکن وہ تناؤ عارضی تھا۔ یہ تناؤ جو غیر ارادی طور پر زینب کی کشش سے ہوا یہ تناؤ تو ایسا تھا کہ یزید کو اپنے بدن سے آگ نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔ بات ہی ایسی تھی۔ زینب کا حسن ہی یزید کو پاگل کر دینے کیلئے کافی تھا۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھے جا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں پیغام دئے جا رہے ہیں ایک دوسرے کو۔ زینب دل میں سوچ رہی تھی کہ یہ کیا ہو گیا۔ اس کے ذہن میں ابھی تک وہ غیبی آواز بھی گونج رہی تھی جس نے یزید کے عضو خاص کو اللہ کی رسی قرار دیا تھا۔ زینب کو یہ پتہ تھا کہ ان کے نانا پر وحی نازل ہوتی ہے اور نبی کے خاندان کا رتبہ بھی وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ جس گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں وہ کوئی معمولی گھرانہ نہیں۔ بہرحال اس آواز کے بعد سے زینب کے دل میں سکون بھر گیا تھا اور اب زینب نے یزید کے عضو کو صرف پکڑا ہی نہیں ہوا تھا بلکہ اس پر اپنے ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ یزید کے عضو خاص کے ختنے نہیں ہوئے تھے اور عضو پر کھال موجود تھی۔ شاید یہ اسی کھال کا اثر تھا جس نے زینب کو مجبور کر دیا کہ وہ ہاتھ پھیرتی رہے۔ نہ صرف یزید بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام میں سے بھی کسی نے ختنے نہیں کروائے۔ ختنہ ایک بدعتِ شرعی ہے۔ قرآن و حدیث میں ختنہ کا کوئی حکم نہیں۔ خود ہی سوچیں کہ ایک ایسا شخص جو کہ نبی ہو اور رحمت اللعالمین ہو وہ کیسے کسی ایسے کام کی اجازت دے سکتا ہے جس سے کسی انسان کو تکلیف ہو۔ ختنہ کی تکلیف کا اندازہ تو سب مسلمان مردوں کو ہو گا ہی۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اللہ نے اگر عضو خاص کے اوپر کھال بنائی ہے تو اس کا کوئی مقصد ہو گا۔ بہرحال اصل قصہ کی جانب آتی ہوں۔
یہ خیال بھی زینب کے دل میں آ رہا تھا کہ کیا یہ عضو خاص اتنا مقدس اور قیمتی ہے کہ اللہ نے خصوصاً اس کیلئے اپنا پیغام بھیجا؟
زینب نے کئی مرتبہ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کی تھی ��ور اس دوران وہ ہمیشہ حجرہ اسود کا بوسہ لیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ اپنے نانا کی چیزوں کا بھی عقیدت سے بوسہ لینا خاندان نبوی میں عام عمل تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ یہی سکھایا تھا کہ بوسہ ایک مقدس عمل ہے جو مقدس کاموں کیلئے ہے۔ ان سوچوں نے زینب کو یزید کے عضو خاص کا بوسہ لینے پر اکسا دیا لیکن اپنے محبوب سے نظریں چرانا بھی انہیں گوارا نہ تھا اس لیے زینب عضو کو تھامے ہوئے آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتی گئیں۔ نیچے بیٹھ کر عضو خاص آپ کے منہ مبارک سے بہت قریب آ گیا تھا۔
زینب یزید سے ملنے اپنی سہیلی کے گھر گئی ہوئی تھی اور انکے بھائی امام حسین علیہ السلام گھر میں بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے۔ زینب نے اپنی طرف سے تو خوب بہانہ بنایا تھا کہ وہ اپنی سہیلی کے گھر جا رہی ہے اس کا ہاتھ بٹانے لیکن امام حسین کے دل میں ایک شبہ سا تھا کہ کہیں دال میں کچھ کالا تو نہیں۔ یہی سوچ سوچ کر پریشان ہوئے جا رہے تھے کہ زینب نے جوانی کے جوش میں اگر کچھ کر ڈالا تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ بلا آخر آپ نے یہی فیصلہ کیا کہ انہیں تسلی کرنی چاہیے کہ زینب کسی غلط کام میں ملوث نہیں ہے۔ اسی اطمینان کیلئے آپ اس کی سہیلی کے گھر کی جانب چل دئے۔ زینب کو گئے ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا۔ صبح گئی تھی اور اب ظہر کا وقت تھا۔
دوسری طرف زینب اور یزید دونوں کو غیبی آواز سنائی دی تھی اور اب بھی وہ غیبی آواز ان دونوں کی رہنمائی فرما رہی تھی۔ ان دونوں کی یہی متفقہ سوچ تھی کہ یہ غیبی آواز اللہ کی جانب سے ہے۔ پہلے اس غیبی آواز نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم فرمایا عین اس وقت جب زینب یزید کا عضو تھام چکی تھی۔ اب تو زینب نیچے بیٹھ چکی تھیں اور یزید کا عضو آپ کے چہرہ اقدس سے محض چند انچ دور تھا۔ عضو تناسل سے نکلتی ہوئی بھینی بھینی خوشبو آپ کی ناک کے نرم و نازک نتھنوں میں گھستی جا رہی تھی۔ ایسی خوشبو آج تک زینب نے نہ سونگھی تھی۔ خوشبو ناک میں جانے سے زینب کے ذہن پر ہلکی ہلکی مدہوشی طاری ہونے لگی تھی جیسے کوئی نشہ ہو اس خوشبو میں۔ لیکن یہ مدہوشی انتہائی معمولی تھی۔
عضو مکمل سختی اور تناؤ کی حالت میں تھا زینب کے نازک ہاتھوں میں پھڑپھڑاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ عضو کا اگلا حصہ سرخی مائل ہو رہا تھا جیسے خون کی زیادتی کی وجہ سے جسم کے بعض حصے ہو جاتے ہیں۔ زینب ٹکٹکی باندھے عضو کو گھور رہی تھیں۔ یزید کی نظریں نیچے اپنی محبوبہ پر ہی تھیں۔ جن نظروں سے زینب یزید کے عضو کو گھور رہی تھیں ان نظروں نے یزید کے جذبات کو کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عضو کے اگلے حصے سے اب لیس دار مادے کا ایک قطرہ چمکتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ زینب نے عضو کو پکڑ تو لیا تھا لیکن اب اس کے جذبات ملے جلے تھے۔ اسے اپنی شرمگاہ میں بھی نمی محسوس ہو رہی تھی۔ جہاں تک عضو کا تعلق ہے، اسے زینب نے اپنے محبوب کے اطمینان کیلئے تھاما تھا لیکن جب اللہ نے اسے اپنی رسی قرار دیا تو اب زینب کے جذبات میں عقیدت کا تاثر بھی آ گیا تھا۔ اسی کا اثر تھا کہ زینب نے یزید کے عضو کے اگلے حصے پر اپنے باریک گلابی ہونٹ رکھ دئے۔ زینب کی آنکھیں خود بہ خود بند ہو گئیں۔ یزید بھی زینب کے ہونٹوں کو اپنے عضو پر محسوس کر کے پاگل سا ہو گیا تھا اور بے اختیار اپنے ہاتھ زینب کے سر پر رکھ دئے جو کہ ابھی تک مکمل ڈھکا ہوا تھا۔ زینب نے تو محض اپنے ہونٹ ہی رکھے تھے عضو کے اگلے حصے پر لیکن جو نمی وہاں موجود تھی، وہ ہونٹوں سے سرایت کرتی ہوئی منہ میں داخل ہو گئی۔ کہنے کو تو ایک قطرہ تھا اس لیس دار مادے کا لیکن یزید کے عضو کی لمبائی چوڑائی اور موٹائی کی مناسبت سے دیکھا جائے تو عام قطرے سے دس گنا زیادہ بڑا تھا۔ زینب آنکھیں بند کئے مکمل وجد کی سی کیفیت میں آ چکی تھیں۔ اب ان کے دونوں ہاتھ عضو پر تھے اور سختی سے بھینچے ہوئے تھیں۔ یزید نے اپنے ہاتھ زینب کے سر پر رکھے۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ نبی زادی اب ہوش میں نہیں بلکہ سرور میں ہے۔ یزید نے تو اپنی طرف سے نرمی سے ہی ہاتھ رکھے تھے لیکن شاید زینب جیسی نازک دوشیزہ کیلئے یہ نرمی بھی کافی سخت تھی۔ یزید کے ہاتھ رکھنے کی دیر تھی کہ زینب کو اپنے سر پر ایسا دباؤ محسوس ہوا کہ جیسے ان کے سر کو پیچھے سے دھکیلا جا رہا ہو۔ چونکہ وہ تو مدہوشی کی سی حالت میں تھیں لہذا بجائے اس کے کہ اپنا سر پیچھے ہٹاتیں، ان پر اس کے برعکس ہی اثر ہوا۔ اس دباؤ کی وجہ سے ان کا منہ تھوڑا سا کھلا اور یزید کے عضو کا اگلا حصہ آپ کے دہن مبارک کے اندر داخل ہو گیا۔
یزید کے عضو سے نکلنے والے مادے کے قطرے جب زینب کی زبان سے چھوئے تو انہیں اس کا ذائقہ نمکین سا لگا۔ نمکین ذائقہ سے انکی زبان مبارک واقف تھی۔ ہزاروں مرتبہ نمکین چیزیں نوش فرمائی تھیں لیکن ایسا نمکین ذائقہ کبھی نہ چکھا تھا۔ تھا تو نمکین ہی لیکن باقی تمام نمکین چیزوں سے مختلف بلکہ ان سب سے بہتر۔ زینب تو پہلے ہی عضو تناسل کی خوشبو سے مدہوش ہوئے جا رہی تھی۔ جب اتنی مزے دار چیز زبان سے ٹکرائی تو ان کے جذبات کئی گنا بڑھ گئے۔ یزید کے عضو تناسل سے مادہ منویہ کا صرف ایک قطرہ ہی نکلا تھا لیکن اس ایک قطرے نے زینب کے اندر وہ پیاس جگا دی کہ جس سے مجبور ہو کر انہوں نے عضو تناسل کو اپنے ہونٹوں سے بھینچ لیا اور زبان سے چوسنے لگیں۔ روایات میں آتا ہے کہ زینب نے اس قدر زور سے چوسا کہ ان کا اپنا منہ خون کی زیادتی سے سرخ انگارہ ہو گیا۔
یزید بھلا کیسے لا تعلق رہ سکتا تھا۔ بی بی زینب کا سر اس کے ہاتھوں میں تھا۔ جیسے جیسے زینب کے دہن کی گرفت عضو تناسل پر مضبوط ہوتی گئی، ویسے ویسے ہی یزید کے ہاتھوں کی گرفت زینب کے سر پر بھی مضبوط ہوتی گئی۔ زینب کے من میں تو صرف ایک ہی چاہت تھی اس وقت۔ ایک ہی طلب تھی۔ اس قطرے کے ذائقے والا اور مادہ مل جائے بس۔ یہی سوچ انہیں چوسنے پر مجبور کر رہی تھی۔ دوسری طرف یزید کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ طاقتور ہونے کے باوجود اب وہ پگھلتا جا رہا تھا۔ آخر کب تک خود کو قابو میں رکھتا۔ جب عضو تناسل ایک نبی زادی کے منہ میں ہو تو بے قابو ہونا ایک فطری امر ہے۔ نبی زادی بھی ایسی کہ والدہ جس کی خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا ہوں۔ یزید ہوش کی دنیا سے جوش کی دنیا میں داخل ہو رہا تھا۔ کمرے میں نورانی ماحول تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جنت سے خوشبوئیں آ رہی ہیں اور چاروں سو نور ہی نور پھیلا ہو۔ یزید کے ہاتھوں کی گرفت بی بی زینب کے سر پر مضبوط ہوتی گئی اور اس نے سر مبارک پکڑ کر آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ یہ بالکل اضطراری عمل تھا۔ آج کل ہم پورن فلموں میں مختلف مغربی خواتین کو مردوں کے عضو تناسل منہ سے چوستے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کی ایجاد ہے اور مغرب سے نفرت ہمیں بچپن سے ہی سکھائی جاتی ہے۔ یاد رکھئے مغرب کی ترقی کے پیچھے ایک ہی راز ہے کہ انہوں نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی سنتیں اپنا لیں اور ہماری تباہی کے پیچھے بھی ایک ہی راز ہے کہ ہم نے وہ سنتیں ترک کر دیں۔ آج بھی اگر کوئی مسلمہ عضو منہ میں لیتی ہے تو اس کے دل میں یہ ہی سوچ ہوتی ہے کہ وہ مغرب کی نقالی کر رہی ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مغرب کی نقالی نہیں کر رہی بلکہ مغرب نے ہمارے آباؤاجداد کی نقالی کی ہے۔ افسوس صد افسوس۔ اگر یہی عمل کرتے ہوئے ہماری خواتین یہ سوچیں کہ یہ سنت اہل بیت ہے۔ یہ فاطمہ کی سنت ہے۔ یہ عائشہ صدیقہ کی سنت ہے۔ یہ ماریہ قبطیہ کی سنت ہے۔ یہ خدیجہ کی سنت ہے۔ یہ آمنہ بی بی کی سنت ہے۔ یہ حلیمہ کی سنت ہے۔ یہ زینب کی سنت ہے۔ یہ ہر صحابیہ کی سنت ہے۔ اگر یہ سوچ لیا جائے تو ہمیں اس کا اتنا ثواب ملے کہ جس کا احاطہ الفاظ میں ناممکن ہے۔
انمالاعمال بالنیات
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
یہ اللہ کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
میں امید کرتی ہوں کہ آج سے آپ سب اس عمل کو سنت سمجھ کر کریں گی۔ جزاکِ اللہ۔
یزید زینب کا سر تھام کر آگے پیچھے کر رہا تھا اس حالت میں کہ اس کا مضبوط عضو تناسل زینب کے نازک دہن میں آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ آغاز میں تو صرف عضو کا اگلا حصہ ہی منہ میں جا رہا تھا لیکن زینب جیسی جنتی دوشیزہ کے منہ کو اپنے عضو پر محسوس کر کے یزید آپے اے باہر ہوتا جا رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب نہ صرف اس کی گرفت زینب کے سر پر ذیادہ مضبوط ہو گئی تھی بلکہ اس کوشش تھی کہ عضو کا ذیادہ سے ذیادہ حصہ زینب کے منہ کے اندر داخل ہو۔ زینب نے تو جوش عقیدت میں عضو تناسل کا بوسہ لیا تھا اور چوسنے کی وجہ وہ لذیذ نمکین مادہ تھا جس کا ایک قطرہ ہی چکھ پائی تھیں۔ لیکن اب زینب کیلئے عضو تناسل کو اپنے منہ میں سمانا مشکل ہو رہا تھا۔ عضو تناسل بھی اچھا خاصا توانا تھا۔ اس کا اگلا حصہ تو با آسانی منہ میں سما جاتا تھا لیکن جب یزید نے زیادہ سے زیادہ حصہ منہ میں گھسانے کی کوشش کی تو زینب کو پریشانی محسوس ہوئی۔ یزید کی حالت سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ لذت کی ان بلندیوں تک پہنچ چکا ہے جہاں آج سے پہلے کبھی نہیں پہنچا تھا۔ یزید کے دھکوں سے عضو تناسل کی وہ لمبائی جو زینب کے منہ میں داخل ہوتی تھی، بتدریج بڑھتی جا رہی تھی۔ زینب اگرچہ تکلیف میں تھی لیکن اس جنتی لڑکی نے منہ سے آواز نہ نکالی یا کوئی ایسا عمل نہ کیا جس سے یزید کی لذت میں خلل واقع ہوتا۔ جو آوازیں زینب کے حلق سے برآمد ہو رہی تھیں وہ صرف عضو خاص کے ان کی زبان اور منہ کے اندرونی حصے پر رگڑ سے پیدا ہو رہی تھیں۔ دوسری جانب یزید حالت سرور میں دنیا و مافیہا سے بیگانہ دھکے لگا رہا تھا۔ یہ دھکے شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے تھے۔ اس کا اندازہ زینب کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسؤں کے قطروں سے بخوبی ہو رہا تھا۔ زینب ناز و نعم میں پلی لڑکی تھی۔ آج تک باپ اور بھائیوں نے ان کے سب ارمان پورے کئے تھے۔ ہر خواہش پوری کی تھی۔ اپنے محبوب یزید کی خوشی کیلئے زینب نے یہاں تک بھی برداشت کیا کہ یزید نے اپنا مکمل عضو آپ کے منہ میں ڈالا دیا۔ حلق تک پہنچ گیا لیکن آپ نے منہ سے کوئی نا خوشگوار کلمہ ادا نہیں کیا۔ یہ عروج تھا اس محبت کا۔ آج لوگ ہیر رانجھا، سسی پنوں اور رومیو جولیٹ کے قصے پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے محبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ حالانکہ جو داستان مسلمان خواتین خصوصاً اہل بیت کی خواتین نے رقم کیں ان کے سامنے ہر رومانوی قصہ حقیر معلوم ہوتا ہے۔ خدارا اپنی تاریخ پڑھئے۔ یہ التجا ہے میری مسلمانوں سے۔ زینب نے یزید کیلئے جو کچھ کیا وہ سبق ہے ہمارے لئے کہ ہمیں محبوب کی خوشی کیلئے تکالیف بھی سہنی پڑیں تو اس پر برا نہیں ماننا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے۔ یہ تمام تکالیف عارضی ہوتی ہیں۔
جب یزید اپنا عضو تناسل حضرت بی بی زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں مسلسل داخل اور خارج کر رہے تھا تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ تکلیف کا سبب تو عیاں ہی ہے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ یزید کے طاقتور عضو تناسل کو مکمل طور پر اپنے اندر سما سکتا لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے یزید رک جاتے۔ سرور کی جن بلندیوں پر یزید پہنچ چکے تھے وہاں عقل و مافیہا کا تو دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ بس جوش تھا، سرور تھا اور ایک ایسا احساس تھا جس کے سامنے دنیا کا ہر جذبہ حقیر تھا۔ نتیجتاً، یزید اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن میں مکمل داخل کرنے کیلئے زور لگاتے رہے اور ہر گزرتے دھکے کے ساتھ عضو دہن سے گزرتا ہوا حلق میں داخل ہوتا گیا یہاں تک کہ عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن اور حلق میں سما گیا۔ حالت یہ تھی کہ تقریباً نصف حصہ عضو تناسل کا دہن میں تھا اور نصف حصہ حلق میں۔ ایسے میں جب یزید اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن سے باہر نکالتے اور دوبارہ اندر داخل کرتے تو زینب کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ کھانسی بھی آتی لیکن کھانس نہ پاتی تھیں۔ ظاہر ہے، کیسے کھانستیں۔ اتنا بڑا، لمبا اور موٹا عضو تناسل جب حلق میں پھنسا ہو تو کھانسنا تو بہت دور کی بات ہے، حلق سے سوائے غوں غاں کے کوئی آواز نہیں نکلتی۔ یہ بات بھی آپ سب ذہن میں رکھیں کہ یزید میں عام انسانوں کے مقابلے میں ذیادہ طاقت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یزید جب اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن میں اندر باہر کر رہے تھے تو اس عمل میں بلا کی سی تیزی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی مشین چل رہی ہو اور فل سپیڈ پر چل رہی ہو۔ ایسے میں بس کمرے میں تین طرح کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ ایک آواز یزید کی تھی جو کہ غیر ارادی طور پر ان کے منہ سے آہ آہ کی شکل میں نکل رہی تھی۔ یہ آواز یزید کے سرور کا پتہ دیتی تھی۔ دوسری آواز حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی تھی لیکن شاید اسے آواز کہنا مناسب نہیں کیونکہ آواز سے ذیادہ یہ ان کی ناکام کھانسی اور دبی دبی چیخ معلوم ہوتی تھی۔ تیسری آواز یزید کے عضو تناسل کے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن کے اندرونی حصے سے رگڑ کھانے سے پیدا ہو رہی تھی۔ سچ پوچھیں تو سب سے بلند یہی آواز تھی۔ زینب کے ہاتھ یزید کے کولہوں پر تھے جبکہ انکے منہ مبارک سے تھوک نکل کر بہہ رہا تھا۔ شاید یہ تھوک ہی تھا جو چپڑ چپڑ کی آواز پیدا کرنے کا سبب بن رہا تھا۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اتنی شدید تکلیف دہ حالت میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں۔ اسکی وجہ یہ تو تھی ہی کہ یزید ان کے محبوب تھے لیکن ایک وجہ اور بھی تھی اور یہ دوسری وجہ نہایت اہم تھی۔ دوسری وجہ رضائے الٰہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب غیبی آواز کی صورت میں یزید کے عضو تناسل کو اپنی رسی قرار دیا تھا اور است تھامنے کا حکم صادر فرمایا تھا تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جیسی پاکیزہ صفت نورانی شخصیت یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ اللہ کے حکم کے بر عکس کوئی کام کریں یا ایسا سوچیں بھی۔ اللہ تعالیٰ نے تھامنے کا حکم دیا تھا لیکن یہ واضح نہیں فرمایا تھا کہ اللہ کی رسی یعنی عضو تناسل کو تھامنے کیلئے اپنے جسم کے کس حصے کو استعمال کرنا ہے۔ آج کل علما اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ لکھ جاتے ہیں کہ تھامنے کیلئے ہاتھ استعمال کرنے چاہئیں۔ یہ بالکل غلط اور نامناسب ہے۔ اللہ کے کلام کو اپنی مرضی سے نہیں ڈھالا جا سکتا اور اللہ کے کلام میں جہاں کوئی بات واضح نہ ہو وہاں اپنی مرضی سے بات کو واضح کرنا جہالت، خودغرضی اور گناہ کی علامت ہے۔ اللہ کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ یقیناً اس کام میں بھی اللہ کی حکمت ہو گی۔ میری تحقیق کے مطابق تو اس میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس نعمت اور ثواب کو محدود نہیں کرنا چاتے تھے اسی لئے یہ واضح کرنے کی بجائے کہ کس طرح تھاما جائے، اس بات کو اوپن چھوڑ دیا۔ اب یہ مسلمان خواتین اور مرد دونوں پر منحصر ہے کہ کس طرح تھامیں۔ جس طرح سے دل چاہے تھام لیں۔ ثواب ہی ثواب ہے۔ بس تھامنا شرط ہے۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے تو اللہ کی رسی کو تھامنے کیلئے پہلے ہاتھوں کا استعمال فرمایا اور پھر اپنے دہن اور حلق سے بھی تھامنے کا شرف حاصل کیا۔ ایک بات یہاں میں بتانا چاہوں گی کہ اللہ کی برگزیدہ ہستیاں جب بھی کسی مشکل میں گرفتار ہوتی ہیں تو اللہ کو پکارتی ہیں۔ سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے کہ جنہیں کفار نے آگ کے الاؤ میں زندہ پھینک دیا تھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی بدولت اللہ نے اس آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا اور آگ کو ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی راحت کا سبب بنا دیا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے بھی عین اس وقت یہ واقعہ یاد کر کے اللہ سے مدد مانگی جب ی��ید کا عضو تناسل آپ کے حلق کو چیر رہا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اللہ کو دل ہی دل میں یاد فرمایا اور دعا مانگی کہ یا اللہ میں نے تیرے حکم کے مطابق تیری رسی تھام لی بلکہ انتہائی مضبوطی سے تھام رکھی ہے۔ یا اللہ اس رسی کو میرے لئے راحت کا سبب بنا۔
اللہ کی رحمت جوش میں آ گئی۔ ظاہر ہے جب اللہ کے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی دعا کرے تو اللہ کیوں نہ قبول فرمائیں گے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی آنکھیں بند تھیں۔ یزید کی آنکھیں بھی بند تھیں۔ عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن میں تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دل میں خشوع و خضوع کی کیفیت تھی۔ یزید کے دک میں سرور کی انتہا کی کیفیت تھی۔ ایسے میں حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یزید کے عضو تناسل سے گاڑھے نمکین لیس دھار مادے کی گرم دھار نکلی ہو۔ یہ احساس صرف ایک لمحے کیلئے ہی ہوا تھا کیونکہ اس دھار کے نکلنے کے بعد یزید کے عضو تناسل نے صبر نہیں کیا بلکہ مسلسل دھاریں نکالنے لگا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو جہاں اپنی دعا قبول ہونے کی بے انتہا خوشی محسوس ہو رہی تھی وہیں ان کیلئے اس مادے کو اپنے منہ میں سنبھالنا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا تھا جو کہ مسلسل یزید کے عضو تناسل سے خارج ہوتا جا رہا تھا۔ جب یہ مادہ عضو تناسل سے خارج ہونا شروع ہوا تو نکلنے کی شدت بہت تیز تھی جس کی وجہ سے پہلے جھٹکے کا ذیادہ تر مادہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے حلق سے ہوتا ہوا آپ کے پیٹ مبارک میں چلا گیا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اس مادے کے ایک قطرے کو پانی زبان پر پہلے محسوس فرما چکی تھیں اور اس کی لذت سے آشنا تھیں۔ یہ اس مادے کی بے انتہا لذت ہی تھی کہ جس نے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ آپ اس مادے کو اپنے منہ میں رکھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کا منہ اس مادے سے بھر گیا۔ یزید کا عضو اپنے منہ میں تھام کر مادہ منویہ کو اپنے حلق میں نہ اترنے دینا اور نہ ہی باہر گرنے دینا۔ یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ یہ کام اس لئے بھی غیر معمولی تھا کہ یزید کا عضو تناسل بھی غیر معمولی تھا اور اس سے نکلنے والے مادے کی مقدار بھی کافی زیادہ تھی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے کوشش تو بہت کی لیکن با امر مجبوری وہ ذیادہ دیر تک مادہ منویہ اپنے منہ میں برقرار نہ رکھ سکیں۔ یزید کے عضو تناسل سے نکلنے والے مادے کے شدت میں ہر جھٹکے کے ساتھ کمی آتی جا رہی تھی۔ یاد رہے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا تعلق اہل بیت سے تھا۔ آپ بچپن سے آب زم زم پیتی ہوئی پروان چڑھی تھیں۔ بعض روایات کے مطابق تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج سے واپسی پر جنت سے حوض کوثر کا پانی بھی حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کو پلایا تھا جس کی کچھ مقدار حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنی اولاد کو پلائی تھی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا آج سے پہلے یہی سمجھتی آئی تھیں کہ سب سے لذیذ ذائقہ حوض کوثر کے دودھ کا ہے اور اس کے بعد آب زم زم کا نمبر ہے لیکن جب آپ رضی اللہ عنہا نے یزید کے عضو تناسل سے نکلنے والے مادے کا ذائقہ اپنی زبان مبارک پر محسوس کیا تو آپ کو یہ ذائقہ آب زم زم اور آب کوثر سے کہیں ذیادہ لذیذ معلوم ہوا۔ لذیذ کا لفظ بھی اس مادے کے ذائقے کی تاثیر کیلئے ناکافی ہے کیونکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے بعد میں اپنی سہیلی کو بتایا کہ لاکھوں آب کوثر اور آب زم زم بھی مل کر یزید کے عضو تناسل سے نکلنے والے مادے کے ایک قطرے کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔
بہرحال حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کیلئے مادے کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے میں آپ کے دل میں یہ بات آئی کہ اس قیمتی مادے کے لذیذ ذائقے سے فائدہ اٹھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے نگلا نہ جائے بلکہ ذیادہ سے ذیادہ دیر تک منہ میں رکھ کر فائدہ اٹھایا جائے۔ یہی سوچ کر حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے ذائد مادہ منہ سے خارج کر دیا جو کہ آپ کے ہونٹوں سے نکل کر بہتا ہوا آپ کے کپڑوں پر اور زمین پر گر گیا۔ یزید کا عضو اب جھٹکے مار مار کر سست 🐌 ہوتا ہوتا واپس اپنے خول میں سمٹ گیا تھا لیکن تھا اب بھی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے منہ میں ہی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جان چکی تھیں کہ اب اس عضو سے مادے کا اخراج مکمل ہو چکا ہے۔ یہی سوچ کر آپ نے آخری مرتبہ اس نرم عضو کو چوسا اور پھر اپنے ہونٹوں اور زبان کی گرفت عضو تناسل پر نرم کی اور آہستہ آہستہ اسے اپنے منہ سے خارج کر دیا۔
یزید کے عضو تناسل سے مادہ منویہ کے اخراج کے بعد عضو تناسل تو ڈھیلا ہو ہی گیا تھا، یزید کی اپنی حالت بھی ایسی ہو گئی تھی کہ جیسے بہت ہی مشقت والا کام کیا ہو۔ انہوں نے اپنے ہاتھ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے سر سے ہٹائے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اپنے دہن سے عضو کو خارج کر دیا تھا لیکن مادہ منویہ اب بھی آپ کے منہ میں موجود تھا۔ دراصل اس مادہ منویہ کے لذیذ ذائقے کی وجہ سے آپ اسے پینے سے ہچکچا رہی تھیں لیکن اس صورتحال میں ذیادہ دیر تک منہ میں رکھنا ممکن نہیں تھا نہ ہی یہاں کوئی چیز موجود تھی جس میں اس مادے کی کثیر مقدار کو محفوظ کیا جا سکتا۔ مجبوراً حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو یہ مادہ منویہ اپنے حلق سے اتارنا ہی پڑا۔ یہ بات یاد رہے کہ اس تمام عمل کے دوران یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے بدن پر مکمل لباس موجود رہا تھا۔ محض یزید کا عضو تناسل ہی ان کے تہمد کی دراڑ سے باہر آ سکا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ جسم ڈھانپا ہونے کے باوجود حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان نمی محسوس ہو رہی تھی۔ آپ نے عضو تناسل منہ سے نکالا اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔ یزید کا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے منہ سے نکلا تو سکڑ کر چھوٹا ہو چکا تھا اور فوراً ہی تہمد کے اندر سما گیا۔
جیسے ہی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کھڑی ہوئیں، مسجد سے ظہر کی اذان شروع ہو گئی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اپنا حجاب درست کیا جو کہ یزید کی طاقتور گرفت کی وجہ سے سر سے سرک گیا تھا۔ یزید چونکہ خفیہ طور پر مدینہ آیا تھا اس لیے مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا اس کیلئے ممکن نہیں تھا۔ ممکن تو یہ بھی نہیں تھا کہ وہ نماز چھوڑ دے۔ وہ ہی کیا اس زمانے میں ہر مسلمان مرد اور عورت سب ہی نماز کے پابند تھے۔ نماز کو ہر کام پر فوقیت دی جاتی تھی۔ آج کی طرح نہیں کہ نماز پڑھتے ہی نہیں۔ یہاں ایک بات آپکے گوش گزار کرنا چاہوں گی۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ پیدائشی مسلمانوں کے مقابلے میں وہ لوگ اسلام کے زیادہ قریب ہیں جو کہ بعد میں مسلمان ہوئے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہم لوگ نماز اول تو پڑھتے ہی نہیں ذیادہ تر، دوسرا یہ کہ نہ پڑھنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں مثلاً میرا جسم پاک نہیں یا میرے کپڑے صاف نہیں جبکہ بعد میں مسلمان ہونے والے یہ باتیں نہیں بناتے بلکہ نماز کے وقت نماز ادا کرتے ہیں خواہ کسی بھی حالت میں ہوں۔ ایک انگریز عورت جو مسلمان ہو چکی تھی اس نے بتایا کہ وہ باقاعدگی سے ساحل سمندر پر جایا کرتی تھی۔ یورپی ملکوں میں ساحل سمندر پر اکثر لوگ برہنہ نہاتے ہیں۔ یہ خاتون بھی برہنہ نہانا پسند کرتی تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب سے مسلمان ہوئی تھیں انہوں نے نماز قضا نہیں کی اگرچہ کتنا ہی ضروری کام کیوں نہ ہو۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ سمندر کی لہروں میں برہنہ نہا رہی ہیں۔ نماز کا وقت ہوا تو وہیں سمندر کے پانی سے وضو کیا اور پانی سے باہر آ کر ریت پر نماز ادا کر لی۔ غور کریں۔ انہوں نے ہماری طرح بہانے نہیں بنائے۔ ان کی جگہ کوئی پیدائشی مسلمان ہوتا یا ہوتی تو سب سے پہلے تو یہ کہنا تھا کہ بنا کپڑوں کے نماز نہیں ہو گی، پھر کہنا تھا جگہ نہیں ہے پڑھنے کیلئے۔ یقین مانیے یہ سب حیلے بہانے ہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز اللہ کیلئے ہے اور اللہ کیلئے سب سے اہم چیز نیت ہے۔ اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ نماز کہاں ادا کی کیسے ادا کی یا کس حالت میں ادا کی۔ اگر آپ کی نیت صاف ہے تو اللہ قبول فرمانے والے ہیں۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ باوضو رہتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی اور امت کو بھی یہی تلقین فرماتے تھے کہ ہمیشہ باوضو رہنا چاہیے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا بھی معمول تھا کہ سو کر اٹھنے کے بعد حاجت سے فارغ ہو کر وضو فرماتی تھیں۔ آج بھی باوضو ہو کر ہی یزید سے ملنے کیلئے تشریف لائی تھیں۔ یزید بھی باوضو ہو کر ہی سفر روانہ ہوا تھا۔ اب تک کوئی ایسا عمل نہیں ہوا تھا کہ جس سے وضو کے باطل ہونے کا اندیشہ ہوتا۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے جو یزید کے عضو تناسل کو چوما اور اس سے نکلنے والے مادے کو نہ صرف چکھا بلکہ اپنے حلق کے راستے سے پیٹ میں اتار لیا، کیا اس سے وضو باطل نہیں ہوا؟ اس کا جواب میں آپ کو دیتی ہوں۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں کو جب دھویا کرتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہمد پر اور بعض اوقات قمیض پر بھی جا بجا سفید رنگ کے سخت قسم کے داغ لگے ہوتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے مادہ منویہ نکل کر جم گیا ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر صاف کیا کرتی تھی۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو کر اٹھے اور نماز پڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وضو کے بغیر ہی نماز پڑھیں گے؟ جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے خدیجہ! میرا اور میرے خاندان والوں کا وضو اتنا کچا نہیں جو نیند سے ٹوٹ جائے۔
اوپر جو میں نے احادیث بیان کی ہیں ان سے کئی باتیں واضح ہو جاتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم بھی ایک انسان تھے، عام انسانوں کی طرح ان کی بھی جنسی طلب اور خواہشات تھیں، ان کے عضو تناسل سے بھی مادہ منویہ کا اخراج ہوتا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نبی نور کے بنے ہوئے تھے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ دوسری بات یہ کہ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کا مادہ منویہ تہمد پر چپک کر خشک ہو جاتا تھا اور حضور اس حالت میں نماز بھی پڑھتے تھے۔ تیسری بات یہ کہ نیند سے وضو ٹوٹنا ہمارے لئے تو ممکن ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے خاندان والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ مادہ منویہ کے اخراج، اسے چھونے چکھنے یا پینے سے وضو کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ نماز کیسے ادا کی جائے کیونکہ سب لوگ تو مساجد میں ہی نماز ادا کیا کرتے تھے جہاں امام جماعت کرواتا تھا۔ گھر میں نماز ادا کرنے کا یہ پہلا واقعہ تھا حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اور یزید دونوں کے لیے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جس سہیلی کے گھر تشریف لائی تھیں وہ بھی اذان کی آواز سنتے ہی مسجد کی جانب روانہ ہو چکی تھی۔
نماز پڑھنے پر تو یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا دونوں کا اتفاق تھا۔ سوال امامت کا تھا۔ یزید اہل بیت کے مقام اور مرتبہ سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا تعلق دنیا کے معزز ترین خاندان سے ہے اور ان کی موجودگی میں یزید کو نماز کی امامت کا خیال بھی اپنے ذہن میں نہیں لانا چاہئے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو بھی اس بات کا احساس تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بنا کچھ کہے آپ نے جائے نماز بچھائی اور امامت کیلئے قبلہ رخ ہو کر کھڑی ہو گئیں۔
ذرا رکئے اور چودہ سو سال فارورڈ آ کر سوچئے کہ آج اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے۔ باقی باتیں تو اپنی جگہ لیکن عورت سے نماز کی امامت کا حق بھی چھین لیا گیا۔ رنگ برنگے مفتیوں نے فتاویٰ جاری کر دئے کہ عورت نماز کی امامت نہیں کر سکتی، نہ ہی عورت لیڈر ہو سکتی ہے۔ یاد رکھئے کہ یہ سب علما سو ہیں۔ جب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ وہ نماز کی امامت کرے تو یہ کون ہوتے ہیں اس سے یہ حق چھیننے والے۔ یہ سلسلہ تب شروع ہوا تھا جب حضور صلی علیہ وآلہ وسلم تبلیغ کے سلسلے میں دور دراز کا سفر کیا کرتے تھے اور ان کی غیر موجودگی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا امامت کے فرائض انجام دیا کرتی تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد باقی امہات المومنین نے بھی یہ فریضہ انجام دیا۔ سب سے ذیادہ لمبے عرصے تک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے امامت فرمائی کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبا عرصہ حیات رہی تھیں۔
ایک اور مسلہ بتاتی چلوں کہ جب نماز با جماعت کے کل ارکان کی تعداد دو ہو تو مقتدی کو امام کے پیچھے اس طرح کھڑا ہونا پڑتا ہے کہ دونوں میں فاصلہ ایک بالشت سے ذیادہ نہ ہو۔ یزید نے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے عقب میں اسی طرح کھڑے ہو کر باآواز بلند تکبیر پڑھی۔ تکبیر مکمل ہونے پر حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے بلند آواز میں اللہ اکبر کہا اور ہاتھ کانوں تک اٹھا کر اپنے پستانوں پر باندھ لئے۔ قارئین کے علم میں اضافے کی نیت سے یہ بتانا چاہتی ہوں کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک میں خواتین اور مردوں کی نماز کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ درست غلط کا تو پتہ نہیں البتہ یہ ضرور پتہ ہے کہ جس طریقے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی خواتین نے نماز ادا کی وہ غلط نہیں ہو سکتا۔ آج خواتین پستانوں سے اوپر ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتی ہیں۔ یہ طریقہ نہ جانے کس نے ایجاد کیا لیکن یہ طریقہ درست نہیں۔ اس سے نماز مکروہ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ درست طریقہ پر نماز ادا کرنے کیلئے ہاتھ پستانوں کے عین اوپر ہونے چاہئیں۔ دائیاں ہاتھ دائیں پستان پر اور بائیاں ہاتھ بائیں پستان پر۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے ہاتھ اپنے پستانوں پر باندھ لئے۔ یاد رہے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی آواز انتہائی سریلی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ ان کی آواز سننے کا بعض لوگوں پر ایسا اثر ہوتا تھا کہ کھانا پینا بھول جاتے تھے۔ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان کی آواز میں یہ لذت صرف خاندان اہل بیت سے تعلق کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ آپ رضی اللہ عنہا کی کوئی خاص خوراک بھی تھی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ ان کی آواز کیوں سریلی تھی اس پر تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی آواز کے جادوئی اور سریلی ہونے پر سب متفق ہیں۔ اتنی سریلی آواز میں اللہ اکبر سن کر یزید بھی سکتے میں آ گئے تھے۔ اس ملاقات میں حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی بامعنی آواز پہلی بار ہی سنی تھی انہوں نے۔ اس سے پہلے تو محض غوں غاں کی آوازیں ہی سن پائے تھے جب اپنا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں پھنسایا ہوا تھا۔ آواز تو غوں غاں کی بھی یزید کیلئے کم دلچسپ نہیں تھی لیکن اس غوں غاں کا مقابلہ اس آواز سے تو ہر گز نہیں کیا جا سکتا جس سے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اللہ اکبر کہا تھا۔ یقیناً یہ اسی آواز کا جادو تھا کہ یزید کا عضو تناسل جو کہ مادہ منویہ کے اخراج کے بعد اب سکڑ کر تہمد کے اندر سو رہا تھا، اس میں پھر سے زندگی کے آثار نمودار ہونے لگے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے پہلے دل میں ثنا پڑھی، پھر سورہ فاتحہ اور پھر ایک اور سورۃ پڑھی۔ دل میں اس لئے کہ یہ ظہر کی نماز تھی اور بلند آواز میں تلاوت کا حکم صرف فجر مغرب اور عشا کی نمازوں کیلئے ہے۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اس میں خشوع و خضوع کی اہمیت بے پناہ ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خشوع و خضوع مثالی تھا۔ وہ لوگ نماز پڑھتے تھے تو ان کی تمام تر توجہ اللہ کی جانب ہوتی تھی اور دل دنیاوی خیالات اور خواہشات سے پاک ہوتا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی تمام تر توجہ نماز پر ہی مرکوز تھی لیکن یزید کو آج زندگی میں پہلی مرتبہ نماز میں خشوع و خضوع برقرار رکھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ اس میں اس کا قصور بھی نہیں تھا۔ اتنے عرصے کے بعد اپنی بچپن کی محبوبہ سے ملاقات ہوئی تھی اور ملاقات بھی ایسی کہ محبوبہ نے انہیں جنت کی سیر ہی کروا دی تھی۔ یزید کا ذہن بار بار گزرے لمحات کی طرف جا رہا تھا۔ ان لمحات کی طرف جن میں یزید کا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے دہن مبارک میں تھا۔ دراصل اس وقت تو یزید اس قدر سرور کی حالت میں تھا کہ اسے اپنے ارد گرد کا کچھ پتہ نہ چل سکا لیکن اب جبکہ وہ کافی حد تک ٹھنڈا ہو چکا تھا تو وہ واقعات اس کے ذہن میں آتے جا رہے تھے۔ یزید نے لاکھ کوشش کی کہ ان خیالات کو جھٹک کر نماز کی جانب توجہ دے لیکن ان خیالات نے پیچھا نہ چھوڑا۔ سونے پر سہاگہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی سریلی آواز تھی۔ جب حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے رکوع میں جانے کیلئے اللہ اکبر کہا تو اس وقت تک یزید کا عضو تناسل تقریباً نوے فیصد تن چکا تھا اور تہمد سے باہر لٹکا ہوا تھا۔ چونکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا اور یزید کے درمیان فاصلہ صرف ایک بالشت کا تھا اس لئے دوران قیام تو کوئی مسلہ نہیں ہوا لیکن جب رکوع میں جانے کیلئے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا جھکیں تو تو ان کے کولہے پیچھے کی جانب ہوئے جس کی وجہ سے یزید کا عضو تناسل آپ رضی اللہ عنہا کے کولہوں کے درمیانی حصے سے چھو گیا۔ یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ یزید کا عضو فوراً اسی تناؤ کی کیفیت میں واپس آ گیا جس میں وہ پہلے تھا۔
137 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
واقعہ کربلا، ایک تحقیقی جائزہ! قسط نمبر 4
ایک طرف تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں گئیں اور دوسری طرف دروازہ کھلا اور امام حسین علیہ السلام کمرے میں داخل ہوئے۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے یزید آپ کی ہمشیرہ کے اوپر سجدے کیلئے جھکا۔ تہمد سے باہر نکلا ہوا عضو تناسل بھی امام حسین علیہ السلام کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ سجدے میں جانے کی وجہ سے عضو تناسل کا ملاپ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے جسم کے جس حصے سے ہوا وہ اندام نہانی کا داخلی حصہ تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے بدن پر کپڑوں کی موجودگی کی وجہ سے داخل تو نہ ہو پایا لیکن اس کی وجہ سے یزید بہت غیر آرام دہ حالت میں آ گیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام سکتے کی سی حالت میں یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ایک مرتبہ تو دل میں آیا کہ ابھی تلوار لا کر گردن اڑا دیں یزید کی لیکن یہ سوچ محض ایک لمحے کیلئے ہی تھی۔ آخر کو آپ کی رگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خون تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ک�� نرمی اور رحمدلی تو پورے جہان میں مشہور تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دوران تبلیغ کفار کے مظالم کی کوئی حد نہ تھی لیکن کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی حیثیت میں کسی سے بدلہ لیا ہو۔ امام حسین علیہ السلام کی سوچ پر بھی رحمدلی کے جذبات غالب آ گئے۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے جو منظر تھا، اگرچہ وہ آپ کیلئے تکلیف دہ تھا لیکن یہ عمل چونکہ نماز کے اندر تھا اس لئے تکلیف دہ ہونے کے باوجود قابل احترام بھی تھا۔
نماز کی اہمیت کا اندازہ کیجئے۔ اگر آج کل کے کسی نوجوان کے سامنے ایسا منظر ہو کہ کوئی اجنبی اس کی ہمشیرہ کو چھوئے تو لڑائی ایک ناگزیر امر ہے۔ لڑائی بھی ایسی کہ ہاتھا پائی اور خون خرابا بھی عین ممکن ہے۔ ایسے میں ہم تو نماز کا لحاظ بھی نہیں کریں گے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہم لوگ نماز کو سمجھ ہی نہیں سکے تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ ہم لوگ نماز کے نام پر ٹکریں مارتے ہیں تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ نماز میں ہمیں کوئی سرور نہیں آتا تو کیا یہ غلط ہے؟ اگر میں یہ کہوں کہ نماز میں خشوع و خضوع تو دور کی بات ہے، ہمارے دل سے دنیاوی خیالات ہی نہیں نکلتے تو کیا یہ غلط ہے؟ یہ سب سچ ہے۔ ایک کروا سچ۔ نماز تو وہ تھی جو دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پڑھی جاتی تھی۔ ایسی نماز کہ جس پر فرشتے بھی رشک کرتے تھے۔ نماز کا اتنا احترام تھا اسلام کے اولین دور کے مسلمانوں میں کہ نہ تو نماز قضا کرتے تھے نہ ہی کسی کی نماز میں خلل ڈالتے تھے۔ ایسا اس لئے تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت خود فرمائی تھی۔ ان کے دلوں اور اذہان میں اللہ کا تصور نقش کر دیا تھا۔ آج ہمارے دل میں اللہ کا تصور ہے ہی نہیں۔ محض دکھاوے کے مسلمان ہیں ہم۔ اگر آپ لوگ جاننا چاہتے کہ نماز میں خشوع و خضوع کیسے پیدا کیا جائے تو اس کیلئے میری اس موضوع پر تحریر ملاحظہ فرمائیں۔
ایک طرف تو حضرت امام حسین علیہ السلام کے سامنے یہ منظر تھا کہ یزید آپ کی ہمشیرہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے اوپر سجدہ ریز تھا دوسری طرف آپ کے ذہن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز کے بارے میں فرمودات گردش کر رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اب آپ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اس کی جگہ اب پیار محبت کے جذبات نے لے لی تھی۔ اس تبدیلی میں کوئی بہت زیادہ وقت صرف نہیں ہوا تھا بلکہ یہ لمحات کی بات تھی۔ یہ بتانا میں ضروری سمجھتی ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کو سخت نا پسند فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ غصہ شیطان کی جانب سے ہوتا ہے اور اگر غصہ آئے تو وضو کر لینا چاہیے۔ یہ بھی فرمایا کہ اگر کھڑے ہوئے غصہ آئے تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہوئے غصہ آئے تو لیٹ جاؤ اور اگر لیٹے ہوئے آئے تو استغفار پڑھو۔ جس قسم کی صورتحال کا سامنا حضور صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا وہ اس صورتحال سے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے سامنے تھی، اس سے کہیں ذیادہ شدید تھیں۔ نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم پر کفار نے مظالم کے پہاڑ توڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے ساتھ جو کچھ کفار نے کیا وہ ناقابل یقین حد تک ظلم تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا اور غصہ نہ کیا۔ یہی وہ سبق تھا جو امام حسین علیہ السلام نے یاد رکھا اور ہم نے بھلا دیا۔
میں تو یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں محسوس کرتی کہ آج جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کشمیر میں، فلسطین میں اور برما اور دیگر ممالک میں۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ خندہ پیشانی سے صبر کیا جائے۔ بجائے ان لوگوں کو گالیاں دینے کے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ اللہ چاہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی غیر مسلم فوجی کو ہدایت کی روشنی مل جائے۔ کسی غیر مسلم کا اسلام قبول کرنا کوئی معمولی عمل نہیں۔ اگر میں حضور صلی علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں تشریح کروں تو حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کی مسلمان خواتین کی عزت لٹ جائے اور اس کی وجہ سے کوئی غیر مسلم مسلمان ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا ہر گز نہیں بلکہ بہت معمولی قیمت ہے۔
بہرحال، موضوع سے ہٹنے پر معذرت۔ واپس لوٹتی ہوں۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں تھیں۔ سبحان ربی الاعلی پڑھ تو رہی تھیں لیکن دھیان یزید کے عضو تناسل کی جانب تھا کیونکہ عضو تناسل کا دباؤ آپ کو اندام نہانی پر محسوس ہو رہا تھا۔ اگرچہ کپڑا درمیان میں ہونے کے سبب جسمانی ملاپ نہ ہوا تھا لیکن جذبات میں اس قدر طلاطم پیدا ہو گیا تھا کہ اب اندام نہانی اندر سے مکمل تر تھی اور بے رنگ سا مادہ اندام نہانی کے باہری حصوں پر بہنے لگا تھا۔ اسی کے سبب کپڑا بھی گیلا ہو گیا تھا۔ نماز سے پہلے جب حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے یزید کے عضو تناسل کو بوسہ دیا اور چوسا تھا اور اس میں سے نکلنے والے مادے کو نوش فرمایا تھا تو آپ رضی اللہ عنہا کو اس مادے میں سے خوشبو محسوس ہوئی تھی۔ اسی خوشبو سے آپ رضی اللہ عنہا میں سرور کی سی کیفیت میں آ گئی تھیں۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت پاک صاف ہیں۔ اگرچہ انسان ہیں اور ہماری طرح ان کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، صفائی ستھرائی کا خیال بھی وہ ہماری طرح ہی رکھتے تھے بلکہ ہم سے ذیادہ ہی، لیکن ان پاکیزہ افراد کے پاک اجسام سے ہمہ وقت ایک بھینی بھینی خوشبو، ایک مہک آتی رہتی تھی۔ یہ مہک آج کل کے پرفیوم سے کہیں ذیادہ اطمینان بخش تھی۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی جب تک اندر سے تر تھی، تب تک تو صرف انہیں ہی اس بات کا علم تھا لیکن جب یہ مادہ اندام نہانی سے باہر نکلا تو کپڑا تو تر ہوا ہی، اس کا ایک اثر اور بھی ہوا۔ وہ اثر یہ تھا کہ کمرے میں ایک خوشگوار تیز مہک پھیل گئی۔ یزید کو کپڑے کے تر ہونے کا احساس تو ہو ہی گیا تھا کیونکہ ان کا عضو تناسل کپڑے کے ساتھ مس تھا بلکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی کے ساتھ ہی مس تھا۔ کپڑا کوئی بہت موٹا نہ تھا۔ عرب کی گرمی مشہور ہے۔ گرم کپڑے تو کوئی بھی نہ پہنتا تھا۔ لباس سب ہی لوگ باریک پسند کرتے تھے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کا چوغہ بھی باریک سا ہی تھا۔ کپڑے کا رنگ بھی سفید تھا۔ گیلا ہونے پر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کپڑا بے رنگ ہو۔ اندام نہانی سے نکلنے والے مادے کے سبب جہاں ایک خوشبو کمرے میں رچ گئی تھی وہیں اس کی وجہ سے یزید کے جذبات بھی سہ آتشہ ہو گئے تھے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی کمر مبارک پر سر رکھے یزید کی زبان سے سبحان ربی الاعلی متواتر نکل رہا تھا۔ حکم تو یہ ہے کہ سبحان ربی الاعلی تین مرتبہ پڑھا جائے ہر سجدے میں لیکن یزید اور زینب بنت علی رضی اللہ عنہا دونوں ہی ایسی حالت میں تھے کہ انہیں گنتی کا ہوش ہی نہ تھا۔ یزید کے عضو تناسل کا دباؤ بھی اب اندام نہانی پر بڑھتا جا رہا تھا۔
افوہ۔ یہ بتانا تو میں بھول ہی گئی کہ حضرت امام حسین علیہ السلام جب کمرے میں داخل ہوئے تھے تب تک سجدے کا آغاز تو ہو چکا تھا لیکن کپڑا گیلا نہ ہوا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کو یزید کا عضو تناسل تہمد سے نکل کر ان کی ہمشیرہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی کو چھوتا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔ ان کے غصے کی وجہ بھی یہ عضو تناسل ہی بنا تھا۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غصہ اس بات پر ہے کہ عضو تناسل انکی ہمشیرہ کے بدن سے مس ہوا تھا خواہ کپڑوں کے اوپر سے ہی لیکن کچھ علما نے یہ بھی قلمبند کیا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے غصے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یزید کا عضو تناسل دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے لاشعوری طور پر اس کا اپنے عضو تناسل سے موازنہ کیا تھا اور اپنا عضو تناسل لمبائی موٹائی اور ہئیت میں اس سے کمتر پایا تھا۔ اگرچہ یہ روایات تعداد میں ہیں لیکن قرین قیاس معلوم ہوتی ہیں۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپنے سے بہتر انسان کو دیکھ کر حسد یا رشک ہوتا ہی ہوتا ہے۔ غصہ تو جیسے تیسے رفع ہو گیا تھا لیکن اب اس کی جگہ محبت نے لے لی تھی۔ امام حسین علیہ السلام کو اپنی ہمشیرہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا پر فخر بھی ہو رہا تھا کہ باوجود اپنے محبوب کی موجودگی کے، نماز قضا نہ ہونے دی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ نماز بھی با جماعت ادا کرنے کو ترجیح دی۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن رکھا تھا کہ جہاں دو بالغ مرد اور عورت تنہا ہوں تو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر تو ہر گز شک نہ تھا لیکن یہ سوچ کر انکا سینہ مزید چوڑا ہو گیا کہ انکی ہمشیرہ نے شیطان کے ورغلانے کے باوجود نماز قائم کی۔ جب ان کا دل رحم اور محبت کے جذبات سے لبریز ہوا تو یہ بات بھی ان کے ذہن میں آئی کہ یہ یقیناً اللہ کی جانب سے انکے لئے موقع ہے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی امامت میں نماز ادا کر لیں۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی نماز میں امامت کا ثواب اور انعام کا امام حسین علیہ السلام کو اچھی طرح اندازہ تھا بلکہ یقین تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے کافی عرصے سے نماز کی امامت نہیں کی تھی۔ آج جب امام حسین علیہ السلام نے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو امامت کرتے دیکھ پایا تو غصہ رفع ہوتے ہی ایک لمحہ ضائع کئے بغیر صف میں کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا اور نماز میں شامل ہو گئے۔ چونکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں تھیں اس لئے امام حسین علیہ السلام بھی سجدے میں ہی چلے گئے۔ سجدے میں جا کر امام حسین علیہ السلام نے تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی پڑھا اور سجدے سے اٹھنے کیلئے امام کی آواز کے منتظر ہو گئے۔ منتظر ہو تو گئے لیکن منتظر ہی رہے۔ سجدہ تھا کہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا۔ امام حسین علیہ السلام سجدے کی حالت میں ہی یہ سوچ رہے تھے کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سجدے میں سے اٹھ کیوں نہیں رہیں۔ ابھی وہ یہ سوچ یہ رہے تھے کہ انہیں کمرے میں موجود خوشبو میں یکلخت اضافہ سا ہو گیا۔ وجہ تو امام حسین علیہ السلام کو معلوم نہیں تھی لیکن یہ خوشبو ان کے نتھنوں کو بہت بھلی محسوس ہوئی۔ امام حسین علیہ السلام خوشبو میں مگن سجدے میں سبحان ربی الاعلی کا ورد کرنے لگے۔ یہ خوشبو تو میں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی سے نکلنے والے مادے کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام مسلسل ورد کر رہے تھے کہ اچانک ایک ایسی آواز کانوں میں پڑی کہ جیسے کوئی کپڑا پھٹتا ہے۔
کپڑا تو بہرحال کپڑا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی سے نکلنے والا مادہ کوئی تیزاب تو نہ تھا کہ کپڑے کو گلا دیتا۔ تو پھر کپڑا کیسے پھٹا؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب نہ تو حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے پاس تھا نہ ہی یزید کے پاس۔ جواب تو امام حسین علیہ السلام کے پاس بھی نہ تھا لیکن امام حسین علیہ السلام کو تو پتہ بھی نہ تھا یہ کپڑا جو پھٹا تھا وہ کسی اور کا نہیں بلکہ انکی ہمشیرہ کا تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے پاس اگرچہ بہت زیادہ کپڑے نہیں تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے سادگی کا درس دیا تھا ہمیشہ لیکن یہ کپڑے کوئی بہت زیادہ پرانے نہیں تھے بلکہ جو سوٹ آپ نے پہن رکھا تھا وہ تو گزشتہ عید پر ہی خود سیا تھا۔ عید کو گزرے ابھی ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا۔ یاد رہے کہ یہ محرم کا مہینہ تھا اور دس تاریخ تھی۔ ایسے میں کپڑے کا پھٹنا حیران کن تو تھا۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ کپڑا بھی نیا تھا، باریک ضرور تھا لیکن مضبوط تھا، اس کے باوجود پھٹا کیوں؟ میرے علم کے مطابق اور مختلف تاریخی روایات کی روشنی میں، یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کپڑے کا پھٹنا منشائے الٰہی تھی۔ میں نے تو اس موضوع پر جتنا سوچا ہے میرا ایمان اس بات پر اتنا ہی مضبوط ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کئے کہ یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا ایک دوسرے سے قریب تر ہوتے جائیں۔ کپڑے کے پھٹنے کو معجزہ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ معجزہ اللہ کی جانب سے ہی ہوتا ہے اور عقل سے بالاتر ہوتا ہے۔ یہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔
بہرکیف، کپڑا پھٹا اور پھٹتے ہی یزید کا عضو تناسل تیزی سے حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی سے ٹکرایا۔ کوشش تو یہ ہی تھی کہ اندر داخل ہو جاتا لیکن حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی کا داخلی حصہ ایسا تنگ تھا کہ اس میں تو کسی باریک چیز کا داخلہ بھی کافی مشکل تھا۔ یہ بات نہیں تھی کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نے اس میں کوئی چیز داخل کر کے چیک کی ہو، دراصل اس کی بناوٹ سے ہی ایسا معلوم ہوتا تھا۔ اندام نہانی کے باہری ہونٹ ہلکے گلابی رنگ کے تھے لیکن اندام نہانی سے نکلتے مادے کے سبب ان کا رنگ گہرا ہو گیا تھا۔ ان ہونٹوں کے ارد گرد اور اوپر ناف سے نیچے چھوٹے چھوٹے سنہری رنگ کے بال اگے ہوئے تھے۔ بال بہت چھوٹے بھی نہیں تھے اور بہت لمبے بھی نہیں تھے۔ بالوں میں گھری اندام نہانی کو پہلی نظر دیکھ کر بے اختیار منہ سے سبحان اللہ نکلتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ یہ خوبصورتی کی انتہا تھی۔ ذہن میں ایسا گمان ہوتا تھا کہ اگر اندام نہانی میں ایسا حسن ہے تو جو اس اندام نہانی کی مالکن ہے اس کا حسن تو ملکوتی ہی ہو گا۔ بات بھی ایسی ہی تھی۔ ظاہر ہے جب والدہ خاتون جنت ہوں تو پھر بیٹی کا حسن ملکوتی ہی ہو گا نا۔
حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا بالکل کنواری تھیں۔ اب تک آپ کو یہی معلوم تھا کہ شرمگاہ کا مقصد حوائج ضروری سے فارغ ہونا ہے۔ یہ اور بات تھی کہ جب آپ پیشاب کرنے کے بعد اندام نہانی کو پانی سے دھویا کرتی تھیں تو ہاتھ اندام نہانی سے چھو جاتے تھے جس سے آپ کو ایک عجیب سا احساس ہوتا تھا۔ اس احساس کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے تو ممکن نہیں۔ سمجھانے کیلئے اتنا بتا دوں کہ یہ احساس اس احساس سے ملتا جلتا تھا جو آپ کو یزید کا عضو تناسل تھامنے سے ہوا تھا۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بعض اوقات آپ دوران پیشاب ہی اندام نہانی کو چھو لیتی تھیں۔ کچھ پیشاب کی گرمی اور کچھ آپ کے جذبات کی گرمی، ایسے میں آپ اپنی شہادت کی انگلی کو اندام نہانی میں داخل کرنے کی کوشش کرتیں۔ انگلی کا محض اگلا حصہ ہی آپ داخل کر پاتی تھیں۔ شاید اللہ کو یہی منظور تھا کہ آپ کا پردہ بکارت برقرار رہے۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہو۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو بہرحال اس بات کا علم تو تب ہی ہو گیا تھا کہ شرمگاہ کا مقصد صرف پیشاب ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے لیکن مکمل ادراک نہ ہوا تھا۔
یزید کا عضو تناسل عام مردوں سے بڑا تھا جبکہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی اتنی تنگ تھی کہ کسی نا بالغ بچی کی معلوم ہوتی تھی۔ ایسے میں یزید کا عضو تناسل کا بہت چھوٹا سا حصہ اندر داخل ہو پایا۔ تقریباً آدھا انچ۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا سبحان ربی الاعلی پڑھ رہی تھیں جب عضو تناسل آپ کی اندام نہانی سے مس ہوا تو بے اختیار سبحان ربی الاعلی قدرے بلند آواز میں پڑھ دیا۔ نہ صرف سبحان ربی الاعلی پڑھا بلکہ پڑھنے کے انداز میں اور آواز میں یہ بات واضح تھی کہ آپ یقیناً کسی چیز سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ امام حسین علیہ السلام جو کہ اندام نہانی کی خوشبو میں ہی مگن سبحان ربی الاعلی کا ورد کر رہے تھے، اپنی ہمشیرہ کی آواز سن کر چونکے۔ سوچنے بھی لگے کہ آخر ایسی آواز میں اور بلند آواز میں پڑھنے کا مقصد کیا ہے۔ سجدے کی طوالت پر تو پہلے ہی حیران تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے خود بھی بہت طویل نمازیں ادا کی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی لمبے لمبے سجدے کرتے دیکھا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی امامت میں سجدہ اس قدر طویل ہوا ہو۔ نماز میں ہونے کے سبب نگاہیں ادھر ادھر کرنا تو ناممکن تھا۔ اس لئے نہ تو سجدے کی طوالت کی وجہ ہی جان سکے نہ ہی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی ذو معنی آواز میں سبحان ربی الاعلی پڑھنے کی۔ آخر کار دل کو تسلی یہ ہی سوچ کر دی کہ یقیناً حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا نماز کے دوران بے انتہا سرور کی حالت میں ہیں اور وجد کی حالت میں ہونے کی وجہ سے آپ کو یہ احساس نہیں ریا کہ انکی آواز بلند ہو چکی ہے۔ امام حسین علیہ السلام تو یہ سوچ کر مطمئن ہو گئے تھے لیکن یزید قطعاً مطمئن نہیں تھے۔ آپ کا عضو تناسل حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کی اندام نہانی میں داخلے کیلئے بے چین تھا۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کو اپنی اندام نہانی میں یزید کے عضو تناسل کا دباؤ محسوس ہونے لگا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ آپ کی اندام نہانی کسی کے سامنے بے پردہ ہوئی تھی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ آپ کے بدن کو کسی ایسے مرد نے چھوا تھا جو کہ نا محرم تھا۔ ایسے میں حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا کے جذبات میں چڑھاؤ قدرتی تھا۔ یہ اسی چڑھاؤ کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کی اندام نہانی اندر باہر سے تر ہو گئی تھی اور اب چکناہٹ بہت بڑھ گئی تھی۔ اندام نہانی سے نکلنے والا مادہ یزید کے عضو تناسل پر بھی لگ گیا تھا جس سے اس کا اگلا حصہ چکنا ہو کر ایسے چمک رہا تھا کہ اس میں اپنا عکس دیکھا جا سکتا تھا۔
جن لوگوں نے اندام نہانی کو دیکھا ہے اور اس کا مشاہدہ کیا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی کی اندام نہانی تنگ ضرور ہوتی ہے لیکن اس کا سوراخ ایسا ہوتا ہے کہ تنگ ہونے کے باوجود عضو تناسل یا عضو تناسل سے مشابہ کسی چیز کا داخلہ ناممکن نہیں ہوتا۔ یہ سوراخ لچک دار ہوتا ہے۔ زور لگانے پر دہانہ بڑا ہو جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ میں بالغ لڑکیوں کی اندام نہانی کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔ نابالغ بچیوں میں اگرچہ یہ خصوصیت ہوتی تو ہے لیکن ان کا معاملہ قدرے مختلف ہوتا ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے لکھوں گی جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق پر روشنی ڈالوں گی۔ فی الحال اتنا جان لیجئے کہ اندام نہانی کے دہانے کا تنگ ہونا مرد کیلئے زیادہ لطیف ہوتا ہے اور عضو تناسل ڈالنے میں اسے بے انتہا لذت محسوس ہوتی ہے۔
ایک تو اندام نہانی چکنی تھی، اوپر سے اب یزید کا عضو تناسل بھی اس مادے کی وجہ سے چکنا ہو چکا تھا۔ چکناہٹ کی وجہ سے اب عضو تناسل آہستہ آہستہ اندر جگہ بنا رہا تھا۔
ایک بات نوٹ کر لیں کہ یزید اور حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا دونوں ہی لذت مباشرت سے نا بلد تھے۔ دونوں کیلئے ہی پہلا موقع تھا۔ دونوں کو اب تک یہ بات معلوم نہیں تھی کہ مباشرت کا طریقہ کیا ہے۔ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا تھا۔ علامہ اقبال نے اس بارے میں شعر بھی کہا تھا:
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
میں اس شعر کی مخالفت نہیں کر رہی۔ بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اگر اسماعیل کو کسی انسان نے آداب فرزندی نہیں سکھائے بلکہ سکھانے والا اللہ تھا تو یہاں یزید اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو بھی آداب مباشرت سکھانے والا کوئی انسان نہیں، اللہ خود تھا۔
سکھائے کس نے زینب کو آداب مباشرت۔
ایک بار درود شریف پڑھ لیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
43 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
میں بلال حبشی کو کیوں چاہتی تھی؟
آج مجھے اپنی امت کے لوگوں کی باتیں سن کر افسوس ہوتا ہے جو مجھ پر اور امہات المومنین پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں۔ بلال حبشی ایک طاقتور انسان تھے۔ اسلام سے پہلے غلام تھے کافر کے۔ محنت کر کر کے جسم ایسا مضبوط و توانا تھا کہ باڈی بلڈر لگتے تھے۔ آج کل کے باڈی بلڈر تو ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آئیں۔ اسلام لانے کے بعد اذان دیتے تھے مسجد نبوی میں۔ ہمارا گھر تو ساتھ ہی تھا۔ جب چھت پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تو میں انہیں دیکھا کرتی تھی۔ وہ بھی اذان دیتے وقت مجھے دیکھتے تھے۔ ایسے ہی آنکھوں آنکھوں میں عشق کی منازل طے کر لیں۔ میرے والد چونکہ اکثر تبلیغ پر ہوتے تھے اسلئے گھر میں صرف میں اور میری بہنیں ہوتی تھیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ابو بکر کو کہہ جاتے تھے کہ گھر کا دھیان رکھنا۔ ابو بکر کبھی کبھار بلال حبشی کی ڈیوٹی لگا دیتے تھے۔ ایسی ہی ڈیوٹیوں میں بلال حبشی اور میرا جسمانی تعلق قائم ہو گیا۔ میری بہنوں کی شادیاں ہو گئیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شادی یہ کہہ کر روک دی کہ اللہ کے حکم کا انتظار ہے۔ ادھر بلال حبشی جب بھی موقع پاتے مجھے گھر آ کر دبوچ لیتے تھے۔ میرا رنگ دودھ کی طرح سفید اور ریشم کی طرح نرم جسم تھا جبکہ بلال حبشی کوئلے سے ذیادہ سیاہ اور لوہے کی طرح سخت تھے۔ دوران مباشرت سختی اختیار کرتے تھے۔ میرے نازک بدن پر ان کے بازو گڑ گڑ جاتے تھے۔ لیکن ہم اس بات کا دھیان رکھتے تھے کہ میں کہیں حاملہ نہ ہو جاؤں۔ اس لئے مادہ میرے پستانوں پر یا شرمگاہ کے باہر نکال دیا کرتے تھے۔ منہ پر بھی کئی بار نکالا۔ اتنے کالے بلال کا مادہ منویہ میری طرح بالکل سفید ہوتا تھا۔ ذائقہ بھی بہترین تھا۔ میں انہیں مذاق میں کہتی تھی کہ کہ آپ کا مادہ تو مجھے آب زم زم سے افضل لگتا ہے۔ وہ بھی ہنس دیا کرتے تھے۔ لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بلال سے غلطی ہوئی اور میری شرمگاہ کے اندر ہی خارج ہو گئے ایک مرتبہ۔ جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ دو مہینے بعد میرا پھولا پیٹ دیکھ کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھانپ گئے۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ یہ کس کا ناجائز تخم ہے میرے پیٹ میں۔ فوراً مسجد نبوی جا کر علی کو بلوایا اور کہا اللہ کا حکم ہے کہ فاطمتہ الزہرا سے شادی کر لو۔ میرا نکاح پڑھا کر مجھے روتے ہوئے رخصت کر دیا۔ بعد میں حسین پیدا ہوئے۔ اسی لئے کہا تھا پہلے کہ یہ علی کی اولاد نہیں تھے۔
62 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
ماشاءاللہ 💞
آج کل یہ ٹرینڈ بہت عام ہو چکا ہے
ہماری مائیں اور بہنیں اندرون گلیوں میں موجود دکانوں اور مارکیٹس میں جاکر خریداری کرتی ہیں اور پیسے دینے کے بجائے اپنی جسموں کو ہی استعمال کرکے شاپنگ بھی کرتی ہیں اور دکانداروں کے بھی مزے کرواتی ہیں
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
126 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
اسلام میں بیوی یا لونڈی سے ہم بستری کے آداب
اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں انسان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا ہے اور ہر چیز کا طریقہ درج ہے۔ آدمی اور عورت کے تعلق سے کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا جاننا ضروری ہے مگرہم میں سے اکثر نہیں جانتے کیوں کہ دینی کتاب ہم پڑھتے نہیں اور عالم دین پوچھنے میں شرم آتی ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ ذیادہ تر مسائل کے بارے میں آپ کو آگاہ کر دوں لیکن اگر آپ کے ذہن میں پھر بھی تشنگی ہو تو بلا جھجک پوچھ سکتے ہیں۔
✍ یاد رکھیں ان مسائل کا سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
“حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کو زنا کی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے غذا کی کیونکہ یہ میاں بیوی کی طہارت کا سبب ہے” “`(احیاء العلوم جلد 2 ص: 29)”`
جب شوہر اپنی بیوی یا لونڈی سے زنا یعنی مباشرت کا ارادہ کرے اور بالخصوص شادی کی پہلی رات جسے سہاگ رات بھی کہتے ہیں اور اس کے بعد جب بھی تو شوہر کو چاہیے کہ ان آداب و طریقہ کار کے مطابق عمل کرے ان شاءاللہ شیطان کی دست برد یعنی مداخلت سے محفوظ رہیں گے اور نیک صالح اولاد پیدا ہو گی۔
مباشرت سے پہلے میاں بیوی دو رکعت نماز مکمل ننگے ہو کر ایسے پڑھیں کہ عورت مرد کے آگے ہو.. نماز کے بعد شوہر اپنی دلہن کی شرمگاہ کے تھوڑے سے بال نرمی اور محبّت سے پکڑ کر یہ دعا پڑھے*
*(اللھم انی اسئلک خیرھا وخیر ماجبلتھا علیہ واعوذ بک من شرھا وشر ماجبلتھا علیہ)*
نماز اور اس دعا کی ب��کت سے میاں بیوی کے درمیان محبّت اور الفت قائم ہوگی ان شاء اللّه تعالی “`(ابو داؤد ، ص : 293)”`
اس کے بعد دس 10 مرتبہ *الله اكبر* پڑھے پھر شرمگاہ کو بوس و کنار یعنی چومنا💋 چاہے تو کہے *بسم اللہ العظیم اللہ اکبر اللہ اکبر* اور *سورہ اخلاص ایک مرتبہ پوری پڑھے*
*چند اہم مسائل* ✍
1⃣ مباشرت کے وقت دنیاوی کام کاج کی بات کرنا مکروہ ہے اس سے بچے کے توتلے ہونے کا خطرہ ہے. ہاں عورت کو چاہیے کہ جب مرد کا عضو پوری طاقت سے اس کو جھٹکا دے تو وہ اللہ کے نام کی تسبیح بیان کرے….
2⃣ زنا کےوقت عورت کی شرم گاہ کی طرف نظر نہ کرنے سے بھی بچنا چاہیے کہ بچے کا اندھا ہونے کا امکان ہے… شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی شرمگاہ کو دیکھے اور کسی آئنے وغیرہ کے زریعے بیوی کو بھی زنا کے دوران شرمگاہ اور عضو تناسل کو دیکھنا چاہیے۔
3⃣ بالکل برہنہ ننگے ہمبستری مباشرت صحبت کریں۔ لباس چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو جسم پر نہیں ہونا چاہیے ورنہ بچے کے بے حیاء ہونے کا اندیشہ ہے۔
“`(فتاویٰ رضویہ جلد 9 : ص : 46)“شوہر اور بیوی کو گھر میں برہنہ رہنا چاہیے اس سے محبت بڑھتی ہے
کمرے میں زیادہ پاور کے بلب کا اہتمام ضرور کریں اور کپڑے بالکل اتار کر زنا کریں. ننگے ہو کر ہمبستری کرنا گدھا گدھی کی طرح جفتی کرنا کہلائے گا جو کہ شریعت کے نزدیک پسندیدہ عمل ھے اور سنت ہے۔
4⃣ ہمبستری کے وقت شوہر کو بیوی کی شرمگاہ پر ہاتھ رکھ کر اور بیوی کو شوہر کے عضو تناسل کو پکڑ کر بسم اللّه شریف پڑھنا سنّت ہے اور یہ دعا پڑھے *اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان مارزقتنا*
مگر یاد رہے کی ستر کھولنے کے بعد پڑھے اور سب سے بہتر ہے کہ جب شرمگاہ میں داخل کرنے لگے تب ہی بسم اللّه شریف پڑھ کر دایاں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اندر داخل کریں اگر ہمیشہ ایسا کرتا رہے گا تو شیطان شرمگاہ سے باہر ہی ٹھر جائے گا ورنہ وہ بھی آپکے ساتھ زنا میں شریک ہوگا”`(تفسیر نعیمی جلد 2 ، ص : 410)“`
5⃣ عورت کے اندر مرد کے مقابلے 100 گناہ زیادہ شہوت ہے مگر اس پر حیاء کو مسلط کر دیا گیا ہے تو اگر مرد جلدی فارغ ہو جاتا ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنی عورت کو ہر حیض کے بعد دو سے تین مرتبہ کسی ایسے مرد یا مردوں کے ساتھ ہمبستری کرواے جو اس کی شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کر سکے ”`(فتاویٰ رضویہ ، جلد 9 ، ص 183)“`
6⃣جماع کے وقت کسی اور کا تصور کر کے بھی زنا کر سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مباشرت کے وقت اپنی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کا تصور کیا کرتے تھے۔
7⃣ جماع کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہاں بس اتنا خیال رہے کہ نماز فوت نا ہونے پائے اس لیے اگر دوران جماع ابھی منی نہیں نکلی ہو تو مرد عورت اس حالت میں نماز اد کر لیں. ایسی حالت میں عورت آگے ہو گی اور مرد اس کی کمر پر سجدہ کر سکتا ہے.. دوران نماز اگر عضو تناسل نکل جائے تو عورت دایاں ہاتھ سے پکڑ کر عضو تناسل واپس شرمگاہ میں ڈال سکتی ہے. ”`(فتاویٰ رضویہ جلد 1 ص 584)“`
8⃣ مرد کا اپنی عورت کی چھاتی کو منہ لگانا جائز ہے مگر اس طرح کہ دودھ حلق سے نیچے اترے یہ حلال ہے لیکن اگر وہ دودھ منہ سے تھوک دے تو توبہ کرے مگر اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آتا”`(در مختار ، جلد 2 ، ص ، 58)“`
9⃣ مرد و عورت کو ایک دوسرے کا ستر شرم گاہ دیکھنا چھونا چومنا اور چاٹنا جائز ہے. حکم یہی ہے کہ مقام مخصوص شرمگاہ کی طرف لازمی دیکھا جائے ورنہ نسیان یعنی حافظہ کمزور ہونے کا مرض ہوتا ہے اور نگاہ بھی کمزور ہو جاتی ہے ”`(رد المختار جلد 5 ، ص ، 256)“`
1⃣0⃣ہمبستری مباشرت سے فراغت کے بعد مرد و عورت کو کپڑے سے اپنا ستر نہیں صاف کرنا چاہیے کیونکہ اس کا استمعال کرنا نفرت اور جدائی کا سبب ہے. مرد اور عورت دونوں زنا کے بعد ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چاٹ کر صاف کر دیں… اگر چاٹ نہ سکیں تو منی کو ادھر ہی خشک ہونے دیں.. ”`(کایمیاے سعادت ، ص ، 265)“`
جماع کے فورا بعد پانی پینا صحت کے لیے مفید نہیں لہذا اگر بہت ضروری ہو تو ایک دوسرے کا پیشاب پی سکتے ہیں..
میاں بیوی کا عمل زنا یعنی مباشرت ایک نہایت پاکیزہ عمل ہے اس لیے اس کے بعد غسل کرنے کی ضرورت نہیں..
519 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی ایک نماز
اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الااللہ
Tumblr media
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہہ کی توتلی آواز میں اذان کی آواز جیسے ہی سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی شہزادی خاتون جنت حضرت سیّدہ بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے کانوں میں پہنچی، آپ نماز فجر کیلئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ سیدہ خاتون جنت گھر میں اکیلی تھیں۔ والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال پُرملال ہو چکا تھا اور والد محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نئی نویلی چھوٹی سی دلہن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر اپنی سہاگ رات منا رہے تھے۔
اوپر اوپر سے تو فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن اندر ہی اندر سے آپ انتہائی ناراض تھیں اپنے والد محترم کے صنف مخالف میں حد سے زیادہ دلچسپی لینے کی وجہ سے۔
خیر، یہ کسی اور وقت کا قصہ ہے۔ فی الحال تو آپ فجر کیلئے اٹھیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا یہ معجزہ تھا کہ آپ کے گھر میں چراغ کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ سیدہ کے ہاشمی جسم مبارک سے پھوٹنے والے نور کی روشنی اتنی تھی کہ گھر تو روشن تھا ہی لیکن گھر کے دروازے کی جگہ جو پردہ لگا تھا وہ بھی باہر سے بے حد روشن ہو جاتا تھا۔ بی بی فاطمتہ الزہرا نے وضو کیا اور نماز کیلئے جانماز بچھائی۔ قبلہ رخ ہو کر نماز کی نیت کی اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ سینے پر باندھ لئے۔ نہایت خشوع و خضوع سے نماز ادا کر رہی تھیں۔ ساری توجہ اللہ کی کبریائی کی طرف مرکوز تھی۔ اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں گئیں۔ رکوع میں جا کر سبحان رہی العظیم کہہ رہی تھیں کہ اچانک کسی نے ایک جھٹکے سے آپ کی شلوار مبارک نیچے کھینچ دی۔ نیچے کچھ پہننے کا رواج نہ تب تھا مسلمانوں میں نہ ہی اب ہے۔ لہذا شلوار اترنے کی وجہ سے آپ کی شرمگاہ مبارک برہنہ ہو گئی۔ لیکن آفرین ہے اسلام کی اس عظیم فرزند پر کہ اپنے بابا محمد کا یہ قول نہ بھولیں کہ بیٹی نماز نہ توڑنا چاہے کچھ ہو جائے۔ رکوع مکمل کر کے کھڑی ہوئیں اور سجدے میں چلی گئیں لیکن انہیں کیا علم تھا کہ اللہ نے آج انکی اور انکی اسلام سے محبت کی آزمائش کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سجدے میں جا کر اللہ کی بڑائی بیان کر رہی تھیں کہ اچانک کوئی چیز پیچھے سے آپکی شرمگاہ میں داخل ہو گئی۔ بچی تو تھیں نہیں آپ کہ پتہ نہ چلتا۔ آپ کو یہ معلوم تھا کہ کسی نے اپنا عضو تناسل آپکی شرمگاہ میں داخل کر دیا ہے اور اب دھکے لگا رہا ہے۔
بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے منہ مبارک سے سبحان رہی الاعلیٰ اب زور سے نکل رہا تھا کیونکہ اس نامعلوم مرد کے دھکے ناقابل برداشت ہوتے جا رہے تھے اور اس کے عضو کی لمبائی موٹائی بھی کافی زیادہ تھی۔ آپ پھر بھی بھرپور کوشش کر رہی تھیں کہ توجہ نماز پر ہی رہے۔ آخر کچھ دیر دھکے لگانے کے بعد اس شخص نے اپنا عضو نکال لیا آپ کی نرم و نازک ملائم شرمگاہ سے اپنا مادہ منویہ آپ کی شرمگاہ کے اندر خارج کرنے کی بجائے آپ کے چوتڑوں پر نکال دیا۔ بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا میں اب نماز مکمل کرنے کی بھی سکت نہ تھی۔ لہذا اسی حالت میں سجدے میں اللہ کو پکارتی رہیں حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے۔
جب اپنی ناز و نعم میں پلی لاڈلی بیٹی کو اس حالت میں دیکھا تو آپ کو دکھ پہنچا۔ لیکن ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتوں سے رغبت کا جذبہ بہت ذیادہ تھا لہذا دکھ کا احساس ایک لمحے میں فنا ہو گیا اور اس کی جگہ ہوس نے لے لی۔ جی ہاں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہی پیاری بیٹی کا اس حالت میں ریپ کر دیا۔
اس کے کچھ دن بعد بی بی فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئی تھیں لہذا بدنامی کے ڈر سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ان کا نکاح کر دیا گیا۔ اب پتہ نہیں حسن اور حسین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں یا حضرت علی کی۔
337 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
اسلام علیکم و رحمة الله وبركاته میری پیاری تمام مسلمان بہنوں جاگ جاو اب تہجد کا وقت ہو گیا ہے اٹھ کئ اچھی طرح اپنی پھدیاں دھو کے صاف کر لو خشوع خضوع سے وضو کرو اور تہجد کی نماز ادا کرو اور فجر کی ذان ہونے تک جائے نماز پہ بیٹھ کے اپنی اپنی پھدیاں مسلتی رہو پھر دوبارہ پھدیاں دھو کے فجر کی نماز ادا کرو کیوں کہ نماز میں ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے
179 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
احادیث میں زوجہ کے حقوق
اگرچہ کہنے کو سب جانتے ہیں کہ بیوی کے نان و نفقہ، خرچ اور سامان آرائش و سکون کی ذمہ داری شوہر پر ہے
لیکن یہ جاننا صرف الفاظ کی حد تک ہے دیگر مسائل کی طرح یہاں بھی اکثریت اسلام کی روح سے ناواقف ہے.
شوہر پر واجب ہے ہر طرح سے بیوی کے سکون کا اہتمام کرے نا صرف جسمانی بلکہ جنسی طور پر بھی، شوہر کو چاہیے اپنی بیوی کے لیے بہترین لن کا انتظام کرے اور بیوی سے بھی پوچھے اسے کس طرح کا لن چاہیے اور پھر بیوی کے پسندیدہ لن کی تلاش یقینی بنائے تاکہ بیوی سکون حاصل کرے اور شوہر اپنے فریضے سے سبکدوش ہو.
بہترین طرز کے سامان آرائش کا بیوی کے لیے انتظام کرے ہلکی، پتلی جالی دار قمیض بیوی کو زیب تن کروائے اور بازاروں میں پھرائے.
یاد رکھو مسلمان وہ ہے جو دوسرے مسلمان کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے تو جب تمہیں اپنی بیوی کا جسم عزیز ہے اور تمہیں اس کی چھاتیاں پسند ہے تو پھر اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو بھی یہ جسم اور چھاتیاں پیش کیوں نہیں کرتے کیوں اپنے ایمان سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو
151 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
215 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
684 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
سورة الزنا:
بسم للہ شیطان الرحمن الرحیم
قل ھو اللہ شیطان احد، اللہ گانڈو، لم یلدبھڑوا چوت ولم ولم یکن رنڈی الفاطمہ کفوا احد
ترجمہ: شروع شیطان کے نام سے جو مہربان رحم والا ہے
سورة الزنا: کہہ دو کہ شیطان ایک ہے اس کا کوئی معبود نہیں اور اللّٰہ گانڈو ہے اور چوت کا بھڑوا ہے کہہ دو کہ فاطمہ اس کی رنڈی ہے
جزاک للہ خیر
163 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
اسلام میں بیوی یا لونڈی سے ہم بستری کے آداب
اسلام محض ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں انسان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا ہے اور ہر چیز کا طریقہ درج ہے۔ آدمی اور عورت کے تعلق سے کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا جاننا ضروری ہے مگرہم میں سے اکثر نہیں جانتے کیوں کہ دینی کتاب ہم پڑھتے نہیں اور عالم دین پوچھنے میں شرم آتی ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ ذیادہ تر مسائل کے بارے میں آپ کو آگاہ کر دوں لیکن اگر آپ کے ذہن میں پھر بھی تشنگی ہو تو بلا جھجک پوچھ سکتے ہیں۔
✍ یاد رکھیں ان مسائل کا سیکھنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
“حضرت سیدنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان کو زنا کی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے غذا کی کیونکہ یہ میاں بیوی کی طہارت کا سبب ہے” “`(احیاء العلوم جلد 2 ص: 29)”`
جب شوہر اپنی بیوی یا لونڈی سے زنا یعنی مباشرت کا ارادہ کرے اور بالخصوص شادی کی پہلی رات جسے سہاگ رات بھی کہتے ہیں اور اس کے بعد جب بھی تو شوہر کو چاہیے کہ ان آداب و طریقہ کار کے مطابق عمل کرے ان شاءاللہ شیطان کی دست برد یعنی مداخلت سے محفوظ رہیں گے اور نیک صالح اولاد پیدا ہو گی۔
مباشرت سے پہلے میاں بیوی دو رکعت نماز مکمل ننگے ہو کر ایسے پڑھیں کہ عورت مرد کے آگے ہو.. نماز کے بعد شوہر اپنی دلہن کی شرمگاہ کے تھوڑے سے بال نرمی اور محبّت سے پکڑ کر یہ دعا پڑھے* *(اللھم انی اسئلک خیرھا وخیر ماجبلتھا علیہ واعوذ بک من شرھا وشر ماجبلتھا علیہ)* نماز اور اس دعا کی برکت سے میاں بیوی کے درمیان محبّت اور الفت قائم ہوگی ان شاء اللّه تعالی “`(ابو داؤد ، ص : 293)”` اس کے بعد دس 10 مرتبہ *الله اكبر* پڑھے پھر شرمگاہ کو بوس و کنار یعنی چومنا💋 چاہے تو کہے *بسم اللہ العظیم اللہ اکبر اللہ اکبر* اور *سورہ اخلاص ایک مرتبہ پوری پڑھے*
*چند اہم مسائل* ✍
1⃣ مباشرت کے وقت دنیاوی کام کاج کی بات کرنا مکروہ ہے اس سے بچے کے توتلے ہونے کا خطرہ ہے. ہاں عورت کو چاہیے کہ جب مرد کا عضو پوری طاقت سے اس کو جھٹکا دے تو وہ اللہ کے نام کی تسبیح بیان کرے….
2⃣ زنا کےوقت عورت کی شرم گاہ کی طرف نظر نہ کرنے سے بھی بچنا چاہیے کہ بچے کا اندھا ہونے کا امکان ہے… شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی شرمگاہ کو دیکھے اور کسی آئنے وغیرہ کے زریعے بیوی کو بھی زنا کے دوران شرمگاہ اور عضو تناسل کو دیکھنا چاہیے۔
3⃣ بالکل برہنہ ننگے ہمبستری مباشرت صحبت کریں۔ لباس چاہے کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو جسم پر نہیں ہونا چاہیے ورنہ بچے کے بے حیاء ہونے کا اندیشہ ہے۔
“`(فتاویٰ رضویہ جلد 9 : ص : 46)“شوہر اور بیوی کو گھر میں برہنہ رہنا چاہیے اس سے محبت بڑھتی ہے۔کمرے میں زیادہ پاور کے بلب کا اہتمام ضرور کریں اور کپڑے بالکل اتار کر زنا کریں. ننگے ہو کر ہمبستری کرنا گدھا گدھی کی طرح جفتی کرنا کہلائے گا جو کہ شریعت کے نزدیک پسندیدہ عمل ھے اور سنت ہے۔
4⃣ ہمبستری کے وقت شوہر کو بیوی کی شرمگاہ پر ہاتھ رکھ کر اور بیوی کو شوہر کے عضو تناسل کو پکڑ کر بسم اللّه شریف پڑھنا سنّت ہے اور یہ دعا پڑھے *اللھم جنبنا الشیطان و جنب الشیطان مارزقتنا* مگر یاد رہے کی ستر کھولنے کے بعد پڑھے اور سب سے بہتر ہے کہ جب شرمگاہ میں داخل کرنے لگے تب ہی بسم اللّه شریف پڑھ کر دایاں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اندر داخل کریں اگر ہمیشہ ایسا کرتا رہے گا تو شیطان شرمگاہ سے باہر ہی ٹھر جائے گا ورنہ وہ بھی آپکے ساتھ زنا میں شریک ہوگا”`(تفسیر نعیمی جلد 2 ، ص : 410)“
5⃣ عورت کے اندر مرد کے مقابلے 100 گناہ زیادہ شہوت ہے مگر اس پر حیاء کو مسلط کر دیا گیا ہے تو اگر مرد جلدی فارغ ہو جاتا ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنی عورت کو ہر حیض کے بعد دو سے تین مرتبہ کسی ایسے مرد یا مردوں کے ساتھ ہمبستری کرواے جو اس کی شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کر سکے ”`(فتاویٰ رضویہ ، جلد 9 ، ص 183)“`
6⃣جماع کے وقت کسی اور کا تصور کر کے بھی زنا کر سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ روایات میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مباشرت کے وقت اپنی والدہ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کا تصور کیا کرتے تھے۔
7⃣ جماع کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہاں بس اتنا خیال رہے کہ نماز فوت نا ہونے پائے اس لیے اگر دوران جماع ابھی منی نہیں نکلی ہو تو مرد عورت اس حالت میں نماز اد کر لیں. ایسی حالت میں عورت آگے ہو گی اور مرد اس کی کمر پر سجدہ کر سکتا ہے.. دوران نماز اگر عضو تناسل نکل جائے تو عورت دایاں ہاتھ سے پکڑ کر عضو تناسل واپس شرمگاہ میں ڈال سکتی ہے. ”`(فتاویٰ رضویہ جلد 1 ص 584)“`
8⃣ مرد کا اپنی عورت کی چھاتی کو منہ لگانا جائز ہے مگر اس طرح کہ دودھ حلق سے نیچے اترے یہ حلال ہے لیکن اگر وہ دودھ منہ سے تھوک دے تو توبہ کرے مگر اس سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آتا”`(در مختار ، جلد 2 ، ص ، 58)“`
9⃣ مرد و عورت کو ایک دوسرے کا ستر شرم گاہ دیکھنا چھونا چومنا اور چاٹنا جائز ہے. حکم یہی ہے کہ مقام مخصوص شرمگاہ کی طرف لازمی دیکھا جائے ورنہ نسیان یعنی حافظہ کمزور ہونے کا مرض ہوتا ہے اور نگاہ بھی کمزور ہو جاتی ہے ”`(رد المختار جلد 5 ، ص ، 256)“`
1⃣0⃣ہمبستری مباشرت سے فراغت کے بعد مرد و عورت کو کپڑے سے اپنا ستر نہیں صاف کرنا چاہیے کیونکہ اس کا استمعال کرنا نفرت اور جدائی کا سبب ہے. مرد اور عورت دونوں زنا کے بعد ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چاٹ کر صاف کر دیں… اگر چاٹ نہ سکیں تو منی کو ادھر ہی خشک ہونے دیں.. ”`(کایمیاے سعادت ، ص ، 265)“`
جماع کے فورا بعد پانی پینا صحت کے لیے مفید نہیں لہذا اگر بہت ضروری ہو تو ایک دوسرے کا پیشاب پی سکتے ہیں..
میاں بیوی کا عمل زنا یعنی مباشرت ایک نہایت پاکیزہ عمل ہے اس لیے اس کے بعد غسل کرنے کی ضرورت نہیں..
Tumblr media
#Mazhabi #FuckAllah #Lusmin
17 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
گھر کی عزت پارٹ 12
آپ سب کی فرمائش پہ میں اس سٹوری کو آگے لکھ رہی صبح 8 بجے کمرے پہ دستک ہوئ تو ہماری آنکھ کھلی آنکھ کھلتے ہی نظارہ دیکھ کہ میرا دل ایک دفعہ مسرور ہوگیا میری ماں میں اور قاری صاحب بالکل ننگے ایک دوسرے سے لپٹے پڑے تھے امی کہ لٹکتے پستان قاری صاحب کی پیٹھ پہ دب رہے تھے اور قاری صاحب مجھے اپنی باہوں میں لیے لیٹے تھے ان کا لن میرے پیٹ پہ ٹچ ہورہا تھا دروازے پہ پھر دستک ہوئ تو مجھے ہوش آیا کہ گھر میں ہم اکیلے نہیں ہیں میں نے قاری صاحب کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور ہاتھ اوپر سے لیجا کہ امی کو ہلایا امی تھوڑا ہل کہ قاری صاحب سے اور چپک گئ مجھے دیکھ کہ غصہ بھی آیا اور ہنسی بھی کہ دیکھو کیسے بے شرموں کی طرح لپٹ رہی میں نے تھوڑا زور سے ماں کی ٹھوڑی سے ہلایا امی اٹھ گئ اور میری طرف دیکھ کہ مسکرا کہ بولی کیا ہے میں ہنس دی اور بولی تیری گندی اولاد ہے باہر جو مسلسل دروازہ کھٹکا رہی شلوار قمیض پہن اور باہر جا امی مسکرا دی اور بولی ہاں ان کو تو سکول جانا ہے اور اٹھنے لگی اور اپنی شلوار قمیض پہننے لگی تبھی امی کو یاد آیا امی کہنے لگی صبا تیری شلوار کہاں ہے میں ایک دم کہ لیے ڈر گئ مجھے یاد آیا کل تو میں بنا شلوار کہ اندر کمرے میں آئ تھی میری شلوار تو ڈائننگ ٹیبل پہ پڑی تھی امی بولنے لگی تو دھیان سے کیوں نہیں کرتی کنجری مجھے امی سے صبح صبح گالی سن کہ بہت غصہ آیا اور بولی کتی کی بچی نہیں رہا دھیان تونے بھی تو غور نہیں کیا اتنی بڑی گشتی ہوگئ ہے اتنا خیال تو رکھ سکتی امی چپ ہوگئ اور بولی ابھی کچھ نہیں کرنا باہر چل کہ دیکھتی ہوں تیری بہن اور بھائ پتا نہیں کیا سوچیں گئے تو کوئ یہاں سے کپڑے پہن لے اور جلدی باہر آجانا میں سنبھال لوں گئ
مجھے کچھ حوصلہ ہوا میں تھوڑی دیر قاری صاحب کو سوتے ہوے چومنے لگی میرے ہونٹوں کہ لمس سے قاری صاحب بیدار ہوے اور انہوں نے مجھے دبوچ لیا اور یونہی ننگے میرے اوپر پورے آگئے اور بولے تیری ماں کہاں ہے میں ہنس دی اور بولی وہ میرے بہن بھائ کو ناشتہ دینے گئ ہے میری اوپر چڑھ کہ آپ کو وہ کیسے یاد آگئ قاری صاحب نے ایک بوسہ دیا اور بولے جان تیری امی کہ سامنے تیرے ساتھ زنا کا الگ ہی مزا ہے میں تھوڑی شرارت میں انہیں سائیڈ پہ کیا اور بولی صبر کریں ابھی میری ماں میری شلوار کو سنبھالنے گئ مجھے اس کی مدد کو جانا ہے کہیں کوئ مسئلہ نہ بن جاے قاری صاحب کہنے لگے ٹھیک ہے جلدی آنا میں تھوڑا آرام کرلوں رات تم دونوں رنڈیوں نے تھکا دیا میں ہنستے ہوے اٹھی اور امی کی الماری سے کپڑے لیے اور ایک پرانا سوٹ پہن کہ ںاہر آگئ وہاں عمران اور فاطمہ بیٹھے مجھے عجیب نظروں سے غور رہے تھے مجھے شک ہوا جیسے ان کو سب معلوم ہوگیا میں ان سے کوئ بات نہیں کی اور سیدھا کچن میں ماں کہ پاس چلی گئ کچن کی شلف پہ پڑی میری شلوار مجھے اور حیرت میں ڈال دی امی بھی تھوڑی پریشان لگ رہی تھی میں نے امی سے آہستہ سے پوچھا کیا ہوا سب ٹھیک ہے امی میری طرف دیکھ کہ تھوڑا غصہ سے بولی تو بہت لاپرواہ ہے ہوس میں اتنا اندھا پن بہت نقصان اٹھواتا میں پھر بولی ہوا کیا ہے تو امی کہنے لگی فاطمہ کو شک ہوگیا ہے وہ عجیب سوال پوچھ رہی تھی کہہ رہی تھی ماں آپ دونوں ایک کمرے میں سو رہی اور باجی کی شلوار یہاں صحن میں کیا کر رہی میں نے بات سنبھالنے کہ لیے بولا بیٹی وہ کپڑے بدل کہ اپنی شلوار سلائ کر رہی تھی تو اس پہ بولی ماں اس شلوار پہ کوئ نئ سلائ نہیں لگی تب میرے پاس اس کہ سوالوں کہ جواب نہیں ہیں میں بہت بگڑ گئ تھی اور بولی تو کیا ہوا پتا چلتا ہے تو چلے مجھے کوئ پریشانی نہیں ہے اس کو دو تھپڑ مار کہ چپ کروا دوں گی امی میری طرف حیرت سے دیکھنے لگی اور بولی گشتی حوس میں اتنی اندھی ہوگئ ہے تجھے معلوم نہیں کیا کیا بولی جا رہی اپنی مباشرت کہ لیے تو بچوں کو مارے گی اگر اس نے تیرے باپ کو کچھ بتا دیا تو کیا ہوگا میں تھوڑا پریشان ہوئ لیکن ظاہر نہیں کیا اور بولی میری کتی ماں تو خوامخواہ پریشان ہورہی ہے ان دونوں کو سکول کہ لیے روانہ کر آج کا دن ہم مزا کریں گے امی کچھ نہیں بولی لیکن پریشانی ان کہ چہرے سے عیاں تھی میں بھی تھوڑی گھبراہٹ میں تھی لیکن چہرے سے کوشش کررہی تھی کہ پریشانی واضح نہ ہو میں نے ناشتہ پکڑا اور فاطمہ اور عمران کی طرف لے جانے لگی میں چاہتی تو امی کہ ہاتھ بھی ناشتہ بھیج سکتی تھی لیکن میں خود جاننا چاہتی تھی کہ بات کہاں تک پہنچ چکی ہے ناشتہ لے کہ ڈائینگ ٹیبل پہ جا کہ ان کو دیا تو وہ دونوں اب بھی مجھے مجرموں کی طرح دیکھ رہے تھے میں نے ہمت کر کہ فاطمہ سے کہا جلدی سے ناشتہ ختم کرو سکول کہ لیے لیٹ ہورہی ہو فاطمہ اب اتنی چھوٹی بچی بھی نہیں تھی جو اتنی بڑی بات کو معمولی جان کہ نظر انداز کر دے اس نے مجھ سے بولا باجی کیا چل رہا میں ہڑبڑا گئ اور تیزی سے بولی کیا مطلب کیا چل رہا وہ کچھ نہیں بولی اور چپ چاپ ناشتہ کرنے لگی عمران بھی آج الگ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا اللہ اللہ کر کہ ان کا ناشتہ ہوا اور وہ گیٹ کی طرف جانے لگے جیسے انہوں نے گیٹ کھول کہ باہر گئے میری جان میں جان آئ میں نے گلاس پانی کا پیا اور فاطمہ اور عمران کہ بدلے رویے پہ غور کرنے لگی اتنے میں کچن سے امی کی آواز آئ تو میں سوچوں سے باہر آئ مجھے یاد آیا کہ میں اور میری ماں اب اچھی عورتیں نہیں رہیں میں کچن میں گئ امی ابھی میرے لیے اور قاری صاحب کہ لیے ناشتہ بنا رہی تھی مجھے رات امی کہ ٹھمکے یاد آے اور میرے چہرے پہ ایک سمائل آگئ امی نے مجھے ہنستے دیکھ کہ بولا کیا ہوا بیٹی تیرے بہن بھائ چلے گئے میں امی کہ تھوڑا قریب آئ اور امی کی گانڈ پہ ہاتھ پھیر کی بولی ہاں کتی چلے گئے امی ابھی فاطمہ اور عمران کو لے کہ سیریس تھی تو کچھ خاص ری ایکٹ نہیں کیا الٹا مجھ سے بولی تھوڑی شرم کیا کر میں ہاتھ آگے کر کہ آہستہ سے امی کہ منہ پہ طمانچہ مارا اور بولی ہاے میری بے غیرت ماں تجھ پہ شرافت تھوڑی بھی سوٹ نہیں کرتی رات تو پورے جوش میں ٹھمکے لگا رہی تھی اب امی تھوڑا شرما گئ اور بولی زناکاری کی لت لگنے سے پہلے تو اور میں شریف ہی تو تھی میں نے امی کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کہ منہ میں اپنی جیب ڈال دی امی بھی اب تک امی گرم ہوچکی تھی اور میری جیب کو چاٹنے لگی میں نیچے ہاتھ لیجا کہ امی کی گانڈ دبا رہی تھی میں نے ہاتھ اوپر کیا اور شلوار میں ڈالنے لگی ہاتھ نہیں گیا میں امی سے اپنا منہ الگ کیا اور ان کہ چہرے پہ ایک اور تپھڑ دے مارا امی سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی میں بولی کنجری تو یہ آزار بند کیوں پہنتی ہے تو ایک رنڈی ہے اور رنڈی ہر وقت بستر گرم کرنے کو تیار رہتی اپنی شلوار میں آئندہ کہ بعد لاسٹک ڈالنا سمجھی امی ہنس دی اور بولی میری رانی بیٹی میرے چوتڑ بہت بڑے ہیں لاسٹک نہ
ٹھہری تو میں بولی پھر بھی لاسٹک ہی ڈالنا سمجھی میری ہر بات ماننا امی نے میری شلوار شلف سے میری طرف کر کہ بولی یہ دیکھ لے لاسٹک کہ نقصان قاری صاحب کہ لن کہ لیے پاگل ہو کہ صحن میں ہی اتر گئ اب ہم دونوں ہنسنے لگی تبھی امی نے کہا چلو ناشتہ کرنے چلتے ہیں قاری صاحب اٹھ گئے میں امی کو روک لیا اور بولی ایسے جاے گئ تو میرے قاری صاحب کہ پاس امی حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگی میں امی سے بولی ہمارے قاری صاحب اندر برہنہ حالت میں لیٹے اور ہم ان کی رنڈی ہو کہ کپڑوں میں ان کہ سامنے جائیں چلو میں تو نئ رنڈی ہوں میں کپڑوں میں چلی بھی جاوں کوئ بات نہیں لیکن تیری اوقات ہے ان کپڑوں کی امی میری ایسی فحش باتوں سے بہت گرم ہونے لگی امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹی ہم بنا کپڑوں کہ جائیں گی لیکن یاد سے رات جو غلطی ہوئ وہ دوبارہ نہ ہو میں امی سے بولی کتی کیا ہی مزا ہو عمران اور فاطمہ بھی ہمارے کھیل میں شامل ہوجائیں پھر تو پورا گھر ہماری مرضی کہ مطابق ہوگا امی نہیں جانتی تھی کہ میں ہر حد پار کر چکی ہوں اب مجھے صرف اور صرف کسی مرد کہ نیچے رہنے میں سرور تھا اس کہ لیے میں سب کچھ کرنے کو تیار تھی امی کو میری بات بہت بری لگی اور بولی بیٹی سوچ سمجھ کہ بولا کرو تم بولتے ہوے بالکل بھی خیال نہیں کرتی میں ہنس دی اور امی کی شلوار کا ناڑا کھول دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم ماں بیٹی بالکل ننگی ہوگئ میں شلف پہ ناشتہ کی ٹرے پکڑی تو امی کہنے لگی اپنے کپڑے تو اٹھا لے میں مسکرا کہ بولی لگتا تجھے تیری اوقات پھر بتانی پڑے گی اتنا کہنا تھا کہ امی ملازمہ کی طرح اپنے اور میرے کپڑے اٹھا کہ میرے پیچھے چلنے لگی میں دروازے کہ پاس پہنچ کہ بولی زاہدہ دروازہ کھولو امی نے لاک کھولا اور پھر ہم دونوں اندر گئے قاری صاحب بالکل سیدھے لیٹے تھے ان کا لن آدھا کھڑا تھا میں نے ناشتہ سائیڈ پہ رکھا اور سیدھا اپنا ان کہ لن کہ پاس لیجانے لگی تو امی نے پیچھے سے کہا بیٹی ناشتہ تو کرلو میں مسکرا کہ بولی ماں منہ میٹھا تو کرلوں تو امی بھی ہنس دی میں نے آہستہ سے لن کی منڈی کو پکڑا اور لن کو چوما قاری صاحب کی آنکھ کھل گئ اتنے میں ان کا لن میرے منہ میں تھا قاری صاحب یہ نظارہ دیکھ کہ بہت خوش ہوے اور پیار سے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولے اسے کہتے ہیں گڈ مارننگ امی کی طرف دیکھ کہ بولے کنجری اپنی بیٹی سے سیکھ اپنے آشنا کو کیسے خوش رکھا جاتا امی کی بے عزتی ہر پل مجھے مزا دیتی تھی پتا نہیں کیوں جس ماں کی میں اتنی عزت کرتی تھی اس شیطانی کام میں جتنی امی کی عزت اترے یا اتارو اتنا مزا آتا تھا
میں قاری صاحب سے بولی جان سیکھ جاے گئ آہستہ آہستہ آپ اور میں سیکھائیں گے مل کہ اپنی کتی کو اس بات پہ امی کا تھوڑا منہ بنا اور میں تھوڑا اوپر آکہ قاری صاحب کہ ہونٹوں کو بوسہ دے کہ بولی جان ناشتہ ٹھنڈا ہوجاے گا اور میں گرم آپ ناشتہ کرلیں پھر مجھے بھی ٹھنڈا کرنا ہے قاری صاحب نے جواباً مجھے چوما اور امی کو اشارے سے ناشتہ لانے کا کہا ہم تینوں ننگے تھے قاری صاحب ناشتہ سامنے رکھ کہ بیٹھے میں بس ان کہ کھڑے لن کو دیکھ رہی تھی تبھی قاری صاحب نے مجھے خوش کرنے کہ لیے امی سے مخاطب ہوے اور بولے بے غیرت عورت تو ہمارے ساتھ بیٹھ کہ ناشتہ کرے گی یہ الفاظ میرے کانوں میں رس گھول گیے امی بھی ایک دم سے پریشان ہوگئ اور بولی جان ہم سب ساتھ ہی کریں گے ناشتہ تبھی قاری صاحب نے میرے سامنے امی کہ منہ پہ ایک تھپڑ مارا اور بولے میں اپنی جان سے اکیلے ناشتہ کرنا تجھے اتنی اجازت دے سکتا تو زمین پہ بیٹھ کہ کر میں اگے بڑھ کہ قاری صاحب کہ لن پہ ایک اور بوسہ دیا اور اپنے ہاتھ سے بریڈ کا سلائس پکڑ کہ قاری صاحب کو کھلانے لگی امی چپ چاپ اپنا ناشتہ لے کہ نیچے بیٹھ گئ اور ہمارے حرکتیں دیکھنے لگی قاری صاحب نے بھی ایک سلائس اٹھایا اور میرے منہ کی طرف بڑھانے لگے میں نے انہیں روکا تو امی اور قاری صاحب تھوڑے حیران ہوے میں نے قاری صاحب کہ ہاتھ پہ چوم کہ بولی جان میں اپنے دن کا پہلا کھانا اپنے شیر کو لگاے بغیر کیسے کھا سکتی تو قاری صاحب ہنس دیے اور امی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کہ دیکھنے لگی میں نے امی کی طرف دیکھا اور کھل کہ ہنسی اور بریڈ کو قاری صاحب کہ ہاتھ سے پکڑ کہ ان کہ لن کو مسلنے لگی جس پہ رات کی ہماری ٹھکائ کا سوکھا پن میرے تھوک سے گیلا ہو کہ بریڈ پہ جیم کی طرح لگنے لگا میں نے وہ بریڈ امی کو دکھا کہ پہلے چوما پھر مزے سے کھانے لگی امی میری ایسی حرکتیں دیکھ کہ دھنگ رہ گئ تھی میں قاری صاحب سے ایسے ہی گندے سے گندے طریقے سے ناشتہ کرنے لگی میں نے اپنے ہاتھ سے بریڈ کا ٹکڑا دیا تو قاری صاحب بولے جان تم کھاو نہ تو میں بولی جان یہ میں نے ہی کھانا ہے آپ بس تھوڑا اسے اپنے مبارک منہ سے چھبا دے امی پہ تو جھٹکے پہ جھٹکا لگ رہا تھا لیکن امی میری ایسی حرکتوں سے بہت گرم ہو رہی تھی قاری صاحب نے بریڈ کو منہ میں ڈالا اور ایک منٹ تک چھبایا تبھی میں ان کہ منہ کہ نیچے منہ کر دیا اور کھول کہ انتظار کرنے لگی قاری صاحب کہ منہ سے بریڈ تھوک میں بھرا ہوا میرے منہ میں آنے لگا بریڈ تو براے نام ہی رہ گیا تھا بس تھوک ہی تھوک میرے منہ میں آرہا تھا جو میں کھائ جا رہی تھی اب بریڈ کا ایک سلائس بچ گیا تھا تو میں نے ٹرے سائڈ پہ کی تو دیکھا قاری صاحب کا لن اپنے پورے جنون میں تھا میں نے اسے چوما اور پوچھا جان کونسا سوراخ چاہیے تو قاری صاحب ںولے جان صبح صبح تو تمہاری گانڈ ہی مارنی چاہیے میں ہنس دی اور ان کی طرف پیٹھ کر کہ اپنے چوتڑ کھول کہ ان کو اپنی نرم ملائم گانڈ پیش کرنے لگی اتنے میں میری ماں کو پتا نہیں کیا ہوا اور وہ اٹھ کہ میری گانڈ کو چاٹنے لگی امی کا ایسا کرنا مجھے اور بھی پاگل کر رہا تھا تبھی میں ںولی زاہدہ اپنی بیٹی کہ یار کا لن پکڑ کہ اپنی بچی کی گاںڈ مروا امی یہ سب کچھ بہت انجواے کر رہی تھی اور اپنے ہاتھ سے قاری صاحب کا لن میری گانڈ کہ سوراخ پہ سیٹ کیا اور بولی سرکار میری بچی کی گانڈ مارلو میرے لیے اس سے بڑھ کہ مزا کچھ نہیں تھا میری ہر گندی حرکت سے امی محظوظ تھی اب قاری صاحب نے دھکوں کی برسات میری گاںڈ پہ کردی ادھر امی میرے منہ کی طرف آی اور میری جیب چوسنے لگی اور ساتھ بولنے لگی واہ میری بچی میں اپنے آپ کو بہت بڑی گشتی سمجھتی تھی لیکن تیرا کوئ جواب نہیں تیری جرات کہ آگے تیری ماں بہت چھوٹی ہوگئ ہے مجھے اپنے جیسا بنا دے میرے لیے مزا دوبالا ہوگیا ایک طرف میری گانڈ پہ قاری صاحب کا لن حملہ آور تھا دوسری طرف میری ماں میری بے شرمی بے غیرتی کو سراہتے جا رہی تھی قاری صاحب بولے بیٹی میرا ہونے والا بتاو کیا ارادہ میں فوراً سے گھومی اور اپنی ٹٹی سے بھرے لن کو پورے جوش سے چوسنے لگی امی تو اب مارے حیرت کہ پاگل ہوے جا رہی تھی تبھی قاری صاحب کہ لن نے میرے منہ میں جھٹکا مارا میں سمجھ گئ اور میں نے قاری صاحب کہ لن کو اپنے نرم ہونٹوں سے جھکڑ لیا تبھی قاری صاحب کا فوارہ میرے منہ میں پھٹا آج قاری صاحب پہلے سے بہت زیادہ پانی نکالا اور پانی نکلتے ہی نڈھال سے ہو کہ بیٹھ گئے میں نے اپنی چاے پکڑی اور اس میں منی کو تھوکنے لگی کہ تبھی مجھے ماں کا خیال آیا تو میں نے اشارے سے امی کو اپنی چاے لانے کا اشارہ کیا اور باقی کی منی پلس میرا تھوک امی کی چائے میں تھوک دی امی ��یران و پریشان تھی میں منہ پونچھ کہ امی سے بولی زاہدہ تم نے اتنی تعریف کی اس لیے میں اپنی محنت کا پھل تمہیں انعام کہ طور پہ دے رہی امی اس بات پہ مجھے شکریہ بولنے لگی تبھی میں نے بریڈ کا سلائس پکڑا اور اسے قاری صاحب کا لن صاف کرنے لگی وہ بریڈ بھی آدھا میں نے ماں کو
دیا پھر ہم نے ساتھ میں مل کہ چائے پی اور امی سے برتن وغیرہ اٹھائیں اب میں پوری بے شرم بن گئ تھی امی کو ملازمہ کی طرح ٹریٹ کر رہی تھی جانے کیوں امی کو اس پہ اعتراض ہونے کی بجاے بہت خوشی مل رہی تھی اس کہ بعد ایک دفعہ امی کو قاری صاحب سے زنا کرنے کا موقع دیا اور خود بچوں کہ آنے تک قاری صاحب کہ نیچے رہی اس دوران وقفوں میں ہم کھانا پینا کرتے رہے اور رات کی ہوئ غلطی پہ تبصرا بھی کیا جس پہ قاری صاحب نے کہا دیکھو زاہدہ تمہاری بچی ہے تو کل یا پرسوں کو اسے پتا تو چلے گا کیوں نہ ہم اسے اپنے ساتھ ملا لے جس پہ ماں تھوڑا راضی بھی ہوئ اور نہ نہ بھی کرتی رہی وہ اگلے پارٹ میں بتاوں گی کہ کیسے ان کو شامل کیا آپ لوگ مشورہ دے سکتے ہیں آپ کی راے دہی کا بہت شکریہ
56 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
شرم و حیا کے نام پر جتنا پاکستان کے مولویوں نے اسلام کو استعمال کیا ہے اس کی شاید کوئی مثال نہ ملے۔ نہ صرف مسلمان ملکوں میں بلکہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ایسی منافقت کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ پاکستان کے مولویوں نے اسلام کا جو چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا وہ یا تو برقعہ پوش نقاب پوش خاتون کا ہے جس کے جسم کا کوئی حصہ کسی کو نظر نہیں آتا یا پھر ایک ایسے مرد کا ہے جو خون کا پیاسا انتہا پسند ہے جو تمام غیر مسلموں کو قتل کر دینا چاہتا ہے۔ میں کوئی عالمہ نہیں ہوں۔ اسلام کی اتنی ہی تعلیم ہے میری جتنی اکثر لوگوں کی ہوتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس سالوں میں جو کچھ محسوس کیا ہے اس سے آپ بھی اتفاق کریں گے۔
پاکستان میں اسلام صرف یہ ہے کہ عورت کو کپڑے پہنا دو۔ کپڑے پہناؤ اور اوپر اور کپڑے پہناؤ۔ کپڑوں میں دفن کر دو۔ یہ یہاں کا اسلام ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنے کپڑے پہنانے کہ باوجود بھی یہاں عورتوں پر ظلم و ستم کے واقعات کم نہیں ہوئے۔ اب بھی عورتیں ویسی ہی غیر محفوظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پردے کے علاوہ بھی اسلام میں بہت کچھ ہے۔ اس کی تعلیم ہمیں کیوں نہیں دی جاتی مثلاً دوسروں سے حسن سلوک، غریبوں کی مدد، حسن اخلاق وغیرہ۔ لیکن نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا کے سامنے ہمارا اچھا امیج نہ چلا جائے۔
میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان کے مسائل کی جڑ یہ مولوی ہیں۔ انہوں نے اسلام کو ہمارے لئے مشکلات کا دین بنا دیا ہے۔ بچپن سے ہمارے ذہنوں میں یہی ڈال دیا جاتا ہے کہ یہ کام کرو ورنہ اللہ سزا دے گا۔ یہ نہ کرو ورنہ اللہ سزا دے گا۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو ذبردستی بچپن سے ہی یہ عادت ڈال دی جاتی ہے کہ نقاب کرو، گھر سے باہر برقعہ پہن کر نکلو۔ اور اگر پھر بھی کوئی ریپ کر دے تو قصوروار عورت لڑکی یا بچی ہی قرار پاتی ہے۔ اتنی پابندیوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کسی مسلمان لڑکی کو موقع ملتا ہے تو وہ وہ سب کچھ کرتی ہے جس سے اس کو اتنے عرصے تک روک کر رکھا گیا۔ نادیہ علی، شازیہ سہاری اور بہت سی مثالیں مل جائیں گی آپ کو۔
ان لوگوں نے ہمیں شروع سے ایسا طرز زندگی اپنانے پر مجبور کیا ہے کہ ہم کسی اور طرز زندگی کو اپنانا تو دور کی بات ہے، انہیں برا سمجھنے لگے ہیں۔ ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی۔ اگر آپ کو آتی ہے تو مجھے بھی بتائیں۔ پردے کا فائدہ آخر کیا ہے۔ اگر کوئی میرے بال دیکھ لے، میرا چہرہ دیکھ لے، میرے جسم کا کوئی حصہ دیکھ لے یا حتیٰ کہ میری شرمگاہ بھی دیکھ لے تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ ذیادہ سے ذیادہ یہ ہو گا کہ اس کے دل میں ہیجان انگیز جذبات پیدا ہوں گے تو جذبات پر قابو رکھنا ہر کسی کی ذاتی ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں اس پردے کی وجہ سے ہم دنیا کی باقی اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ جب ملک کی آدھی سے ذیادہ آبادی گھروں میں بیٹھ کر ظلم سہے گی تو خاک ترقی ہو گی۔ مغرب کو دیکھیں۔ انہوں نے مذہب کو ہر کسی کا ذاتی معاملہ قرار دیا۔ وہاں سب برابر ہیں۔ کوئی جرم کرتا ہے تو سزا پاتا ہے۔ مسلمانوں سے نفرت تو مسلمانوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ دقیانوسی پردے اتار پھینکیں۔ نہ صرف یہ پردے بلکہ کپڑے بھی۔ کوئی فائدہ نہیں ان کپڑوں کا۔ کوئی کام ایسا نہیں جو بنا کپڑوں کے نا ہو سکے۔ آئیے میرے ساتھ مل کر ایسے پاکستان کی بنیاد رکھیں جہاں سب ننگے ہوں۔ اور سب برابر ہوں۔ قانون سب کیلئے یکساں ہو۔
57 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
Jo Jo Real Unlimited Mazhabi Log Hain No Matter Boys and Girls Proof do or WhatsApp group bnany main meri help Karo....
جو جو رئیل انلمٹڈ مذہبی ہیں صرف وہی
سب بہنوں اور بیٹیوں سے میں حضرت اجنبی آپکا نبی گزارش کرتا ہوں کہ یہ گروپ ایک بہت ہی پاکیزہ عبادت کیلیے بنایا گیا ہے لہذا اس گروپ میں بلا جھجک آپ کوئی سوال کر سکتی ہیں کچھ پوچھ سکتی یا بتا بھی سکتی ہیں سب یہاں پر ہم بالخصوص جو سید زادیاں ہیں اور ہم اسلام کو ننگا کرنے پیدا ہوئے ہیں اور اگر کوئی سیدہ نہیں بھی ہے تو کوئی بات نہیں آپ پھر بھی سیدہ کو بدنام کریں اس میں سب کی بھلائی ہے بیشک اللہ مادرچود ہے
کچھ اہم قواعد و ضوابط واضح کرتا چلوں میں:
1. اس گروپ میں سب کو آزادی رائے خیال کا حق حاصل ہے مگر دھیان رہے ہر وہ بات کریں جس سے اللہ اور محمد کی گانڈ پھٹ جائے.
2. اللہ کو گالی دیں سب کو گالی دیں جتنی بھی گندی گالی ہوگی میں سب کو اتنی ہی عزت دونگا اور اس کی پھدی کو پاک کردونگا
3. محمد پر درود بھیجیں لیکن درود میں اس کی تذلیل کریں اور ہر بات پر اس کو بدنام کریں
4. ننگی رہا کریں اور ہر وقت پیشاب کی خوشبو لیجیے
5. پاکیزہ رہیں اور پاکیزگی کیلیے سب سے بہترین چیز آپ کا پیشاب ہے اور میل اتارنے کیلیے آپ کی ٹٹی مبارک عمدہ ہے
6. اپنی ماں اور بہن کو بھی گالیاں دیں ماں کی گالی دینا 70000 نیکیاں کمانا اور سننا اس سے بھی افضل ہے
7. اذان کے وقت مجرا کریں بیشک اذان کی توہین سب سے بہتر ہے
8. قرآن کو ٹٹی کرنے کیلیے اور پیشاب کیلیے استعمال کریں اور بیشک پیشاب پینا انتہائی افضل ترین سنت ہے پاکدامن بی بی خدیجہ الکنجری کی
9. اگر کسی نے قرآن پڑھنا ہے اور تلاوت کرنی ہے وقت کے ساتھ میں نازل کرونگا جس سے پڑھ کے پھدی سے نور نکلے گا
آپکا اپنا مذہبی نبی
86 notes · View notes
zeshan50 · 6 months ago
Text
تبلیغ اسلام
حسب معمول خانہ کعبہ میں برہنہ حج جاری تھا۔ مرد اور خواتین دور دور سے یہ سعادت حاصل کرنے کیلئے جوق در جوق خانہ کعبہ کا رخ کر رہے تھے۔ خاندان کے خاندان دور دراز شہروں سے سفر کر کے آتے تھے۔ خانہ کعبہ کی حدود میں آ کر بچے بوڑھے جوان خواتین مرد سب لباس سے بے نیاز ہو جاتے تھے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے۔ خانہ کعبہ میں بتوں کا راج تھا۔ جو لوگ عبادت کا زیادہ ذوق رکھتے تھے وہ خانہ کعبہ کے اندر بھی چلے جاتے تھے لیکن دیکھا گیا تھا کہ اندر جانے والوں میں زیادہ تر جوڑے ہی ہوتے تھے خواہ یہ جوڑے مرد خواتین کے ہوں یا خواتین کے یا پھر صرف مردوں کے ہی کیوں نہ ہوں۔ سب کو معلوم تھا کہ اندر جا کر کونسی عبادت کرتے ہیں یہ سب لیکن کسی کی زبان پر نہیں آتا تھا۔
ایک طرف تو یہ تقریبات جاری تھیں، دوسری طرف ایک آدمی مکہ میں لوگوں کو بتوں کی پوجا سے روک رہا تھا۔ آج تک وہ آدمی خانہ کعبہ میں لوگوں کو نہیں منع کرتا تھا لیکن آج نہ جانے کیا دل میں سمائی کہ خانہ کعبہ میں عین برہنہ حج کے دوران اپنے نئے مذہب کی تبلیغ کیلئے پہنچ گیا جس کو وہ اسلام کا نام دیتا تھا۔ خود کو وہ ایک ایسے خدا کا پیغمبر کہتا تھا جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اس شخص کا نام محمد بن عبداللہ تھا۔ گو کہ عبداللہ کے اس شخص کا والد ہونے میں بہت سے لوگوں کو شک تھا۔
خیر، خانہ کعبہ میں پہنچ کر اس شخص نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ چند ایک لوگوں نے اس کی بات سننا گوارا کیا۔ لیکن وہ بھی دھن کا پکا معلوم ہوتا تھا۔ مسلسل ان لوگوں کی عبادت میں خلل ڈالتا رہا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ شخص باز نہیں أ رہا تو کچھ ہٹے کٹے مرد اس کی جانب بڑھے اور اس سے مکالمہ شروع کر دیا۔
کیا مسئلہ ہے تمہارا؟ کیوں ہمیں عبادت سے روکتے ہو تم؟
محمد: تم لوگ غلط خدا کو پوجتے ہو۔ اللہ پر ایمان لے آؤ۔
اللہ کون ہے؟
وہ ساری کائنات کا خالق ہے۔
ہم نے تو آج تک اسے نہیں دیکھا۔ ہم کیسے مان لیں اسے؟
اس بات پر محمد کی بولتی بند ہو گئی اور وہ اس بات پر اصرار کرنے لگا کہ وہ ایک نیک آدمی ہے اور ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ لیکن اس کی بات پر لوگوں کو یقین نہ آیا اور انہوں نے محمد کے سامنے اللہ کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ بعض نے اللہ کے بارے میں نازیبا کلمات بھی کہے۔ کچھ نے محمد کے خدا کو جانوروں سے ملا دیا مثلاً کتا اور سور کہہ دیا۔ محمد سے برداشت نہ ہوا اور اس نے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن لوگ بہت غصے میں آ چکے تھے۔ طواف کرنے کی بجائے لوگوں کا ہجوم اب یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ چاروں طرف برہنہ لوگ۔ درمیان میں محمد۔ اتنے میں ایک شخص غصے میں آگے بڑھا اور محمد کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔ محمد کبھی کسی سے لڑا نہیں تھا نہ ہی لڑنا پسند کرتا تھا۔ لیکن اس شخص کی دیکھا دیکھی کچھ اور لوگوں نے بھی محمد پر ہاتھ صاف کر دئے۔ اور محمد کو ٹھڈوں لاتوں اور گھونسوں سے بے حال کر دیا۔ لباس پھاڑ کر رکھ دیا۔
اتفاق سے اس ہجوم میں ایک خیر خواہ بھی موجود تھا محمد کا لیکن اکیلا ہونے کے ناطے وہ کوئی مدد تو نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے بجائے مدد کرنے کے اس نے محمد کے گھر اطلاع پہنچا دی۔ گھر پر محمد کی بیوی خدیجہ اور جوان بیٹی فاطمتہ تھی۔ فاطمتہ کو اپنے بابا کے بارے میں یہ خبر ملی تو رہ نہ سکی اور فوراً پہنچ گئی اپنے پیارے بابا کی مدد کرنے لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔
وہاں پہنچ کر کیا دیکھتی ہے کہ لوگوں نے محمد کو رسی سے باندھ دیا ہے اور کچھ لوگ مار رہے ہیں۔ محمد لباس سے بے نیاز کر دیا گیا تھا۔ کچھ لوگ محمد پر تھوک رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ پکار اپنے اللہ کو۔ مدد کیوں نہیں کرتا تیری کتے۔ محمد میں جواب دینے کی بھی سکت نہیں تھی۔ فاطمتہ نے آگے بڑھ کر محمد کی مدد کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ہجوم کے جذبات کا اندازہ درست نہیں لگایا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے بابا کو چھڑا کر گھر لے جائے لیکن لوگوں کا کچھ اور ہی ارادہ تھا۔ فاطمتہ جیسے ہی محمد کے قریب پہنچی ایک حبشی نے آگے بڑھ کر دبوچ لیا۔ اور گود میں اٹھا کر محمد سے بولا۔ سن محمد کتے، کسی رنڈی کے بچے۔ سور کی اولاد۔ یہ تیری نرم و نازک بچی۔ اس کتی کی عزت تیرے سامنے لوٹوں گا۔ اگر تو اور تیرا خدا سچا ہے تو اسے مجھ سے بچا کر دکھا۔ اگر تو نے بچا لیا تو ہم سب مسلمان ہو جائیں گے اور اگر نہ بچا سکا تو اس کتی ہم سب باری باری چودیں گے۔
محمد میں اتنی ہمت ہی نہ تھی کہ جواب دے پاتا۔ بس دل ہی دل میں اپنے اللہ سے دعا کرتا رہا۔ ادھر حبشی نے فاطمتہ کو ننگی کر دیا تھا۔ ہجوم سے لوگ حبشی کے حق میں نعرے بھی لگا رہے تھے اور محمد اور فاطمتہ کو گالیاں بھی دے رہے تھے۔ فاطمتہ کو ننگی کر کے محمد کے سامنے عزت لوٹی گئی۔ نہ صرف اس حبشی نے بلکہ باری باری بہت سے لوگوں نے فاطمتہ کی شرمگاہ کی پاکیزگی ختم کر دی۔ جب تک بے ہوش نہ ہو گئی وہ بے چاری تب تک وحشیوں کی طرح اس کے جسم سے کھلواڑ جاری رہا۔ محمد بے چارہ دعائیں کر کر کے تھک چکا تھا لیکن اللہ کی مدد نہ پہنچی۔
قصہ مختصر یہ کہ فاطمتہ کے بے ہوش ہونے کے بعد ان لوگوں نے دونوں کو اٹھا کر خانہ کعبہ کی حدود سے باہر پھینک دیا اور حج کی تقریبات شروع کر دیں دوبارہ سے۔ محمد بڑی مشکل سے اپنی بے ہوش لخت جگر کو اٹھا کر گھر تک پہنچا۔ راستے میں جس نے بھی ننگے محمد کو اپنی ننگی بیٹی کو اٹھا کر لے جاتے دیکھا تو رحم کی بجائے تھوکنے کو ترجیح دی۔
128 notes · View notes