ﮐﯿﺎ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ؟
ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ
ﻧﭽﻮﮌ ﺩﻭ ﮔﮯ ؟
ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮔﮯ ﻏﻢ ﮨﻤﺎﺭﮮ
ﺟﺐ ﺩﻝ ﺑﮭﺮﮮ ﮔﺎ
ﺗﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﮔﮯ؟
ﺑﺘﺎﺅ ﺟﺎﻧﺎﮞ ۔۔۔
ﯾﮩﯽ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ؟
ﯾﮧ ﺑﮯ ﺿﺮﺭ ﺳﺎ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ
ﻋﺎﺟﺰﯼ ﮐﺎ ﻟﺒﺎﺱ ﺍﻭﮌﮬﮯ
ﻏﻠﯿﻆ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺑﮩﺎ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻋﺘﺎﺏ ﻋﺒﺮﺕ
ﺑﮩﺖ ﺗﺴﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﯽ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﭼﭗ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﭼُﭗ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ؟
ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ
ﮨﯽ ﮔُﭗ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ۔۔ ؟
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﻏﻼﻡ ﺩﻝ ﺳﮯ
ﻧﮑﺎﻝ ﭘﮭﯿﻨﮑﻮ
ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﺁﺋﮯ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻣﯿﺮﯼ
ﻭﮦ ﺷﺎﻝ ﭘﮭﯿﻨﮑﻮ ۔۔
ﻭﮦ ﺷﺎﻝ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺟﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ
ﺍﺩﮬﺎﺭ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔۔۔۔۔
ﻭﮦ ﺷﺎﻝ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﮐﮧ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﺰﺍﮞ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﺎﻃﺮ ،
ﺑﮩﺎﺭ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﭼﮭﻮﮌﮮ
ﺗﻮ ﺍﺳﮑﻮ ﮐﮩﻨﺎ
ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮑﻮ ﺣﯿﺪﺭ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﯽ ﻧﮧ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻧﺎ
ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮧ ﺫﮐﺮ ﮐﺮﻧﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺟﮕﻨﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﻭﻧﮕﺎ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮑﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﻭﻧﮕﺎ ۔۔۔۔
ﻣﮕﺮ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺑﺪﻝ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ۔۔۔۔
ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺟﻮ ﻣﻔﺖ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺏ ﺗﻢ ﺍﻧﮑﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮ
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺻﻔﺤﮧ
ﺗﻢ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﮐﺘﺎﺏ ﻟﮑﮭﻮ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﭼﮭﻮﮌﯼ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻨﺎﺏ ﭼﮭﻮﮌﯼ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﻭﻋﺪﮮ ﺗﻮﮌﮮ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﯾﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﻮﮌﮮ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻼ ﺗﮭﺎ ﺣﯿﺪﺭ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻼ ﺗﮭﺎ ﺣﯿﺪﺭ
ﻟﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﮦ ﭼُﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﻟﮑﮭﻮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﮔُﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺗﻮ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﻠﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﺍﮐﯿﻼ
ﺟﯽ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺎ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ
ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ
ﺳﭻ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ
ﻧﮧ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ
ﺗﻮ ﭼﮭﻮﮌﻭ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﺎﺭﮮ
ﻓﻘﻂ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻦ ﻟﻮ
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻋﺬﺍﺏ ﺳﻦ ﻟﻮ
ﮐﮧ
ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔۔۔۔۔۔۔ ؟
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮔﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺷﺠﺮﮦ
ﺗﻮ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﺎ ﻋﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﻟﭩﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﻮﻟﯽ ﭘﺮ ﻭﮦ
ﺍﻧﺎ ﺍﻟﺤﻖ ﮐﺎ ﺟﻨﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝِ ﺑﺪﻭﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﯿﺨﻮﮞ ﺑﮭﮍﮎ ﺑﮭﮍﮎ ﮐﺮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﯿﻠﻮﮞ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺷﮑﺴﺘﮧ ﺳﺘﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮪ ﻟﻮﮞ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﺳﺎﺭﯼ
ﮐﺒﮭﯽ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔۔۔
ﺍﮔﺮ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﻧﮩﯽ ﯾﮧ ﮐﺎﻓﯽ۔۔۔۔۔
ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﮏ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗﻮ ﻓﺎﺭﮨﮧ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ
ﻧﺌﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺟﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔۔۔
ﺳﻦ ﻟﯿﺎ ﻧﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ؟
ﺟؔﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ
ﺟؔﻮﻥ ﮨﻮﮞ ميں
0 notes
عورت کی زبان سے، بگڑے پٹھان سے اور بن بلائے مہمان سے اللہ بچائے
درزی کے لارے سے، دیرینہ کنوارے سے، محبت میں ہارے سے اللہ بچائے
گدھے کی لات سے، پیسے والے جاٹ سے اور تھانے کی رات سے اللہ بچائے
پرانی بیوی سے ،خراب ٹی وی سے اور مخنث کی عاشقی سے اللہ بچائے
نکلے ہوئے کیل سے، خاتون کی دلیل سے اور بھوکی چیل سے اللہ بچائے
کوے کی مکاری سے، پولیس کی یاری سے اور ٹرک کی شاعری سے اللہ بچائے
پاوں کی موچ سے، رشتے دار کی سوچ سے اور مچھر کی فوج سے اللہ بچائے
پیشہ ور قصائی سے، پنڈ کے نائی سے اور محلے کی دائی سے اللہ بچائے
محبوب کے طعنے سے، بے وقت گانے سے اور بیگم کے بہانے سے اللہ بچائے
بھینس کی نادانی سے، اتھری جوانی سے اور کملی زنانی سے اللہ بچائے
😅😅😅
31 notes
·
View notes
نظم: سسی
پنل اب لوٹنا کیسا ؟
محبت خانوادے کے حرم میں گڑ گئی اب تو
میرے ہر خواب پہ مٹی کی چادر چڑھ گئی اب تو
میرے عشوے، میرے غمزے، ادائیں مر گئی اب تو
دعائیں مر گئی اب تو، وفائیں مر گئی اب تو
پنل صحرا گواہی ہے
یہ سانسوں کی طنابوں پہ تنا خیمہ گواہی ہے
ہتھیلی کی دراڑوں میں چھپے آنسو گواہی ہیں
کھنکتی ریت پہ الجھے اٹے گیسو گواہی ہیں
کہ میں نے انتہا سے انتہا تک تم کو مانگا ہے
شہر بھمبھور کے خستہ محلوں کے فقیروں سے
سڑک پر بچھ گئے ہر دم دعا کرتے غریبوں سے
یتیموں سے، ضعیفوں سے، دلوں کے بادشاہوں سے
نیازوں میں، دعاؤں میں، صداؤں میں پکارا ہے
اماوس رات میں اٹھ کر خلاؤں میں پکارا ہے
پنل تم کیوں نہیں آئے ؟
پرانی خانقاہوں میں ، شہر کے آستانوں پر
مزاروں، مسجدوں میں، مندروں میں دیکھ لو جا کر
کہیں تعویز لٹکے ہیں کہیں دھاگے بندھے ہونگے
کہیں دیوار پر کچھ خون کے چھینٹے پڑے ہونگے
پنل منظر دہائی ہے یہ سب اسکی گواہی ہے
کہ میں نے بے نشانی تک نشاں سے تم کو مانگا ہے
تمہارے کیچ کے رستے پہ میں ہر شام رکتی تھی
ہر اک راہرو کے پیروں کو پکڑ کر التجا کرتی
کہ میرا خان لوٹا دو، میرا ایمان لوٹا دو
کوئی ہنستا کوئی روتا کوئی سکہ بڑھا دیتا
کوئی تمہارے رستے کی مسافت کا پتہ دیتا
وہ سارے لوگ جھوٹے تھے سبھی پیمان کچے تھے
پنل تم ایک سچے تھے
پنل تم کیوں نہیں آئے ؟
پنل بھمبھور کی گلیاں ، وہ کچی اینٹ کی نلیاں
جنہوں نے خادماؤں کا کبھی چہرہ نہیں دیکھا
انھوں نے ایک شہزادی کا نوحہ سن لیا آخر
دھڑک جاتی ہیں وہ ایسے، اماوس رات میں جیسے
کسی خوابوں میں لپٹی ماں کا بچہ جاگ جاتا ہے
وہ سرگوشی میں کہتی ہیں
کہ دیکھو بھوک سے اونچا بھی کوئی روگ ہے دل کا
سنا کرتے تھے کہ یہ کام ہے بس پیر کامل کا
کہ وہ الفت کو مٹی سے بڑا اعجاز کر ڈالے
یہ کس گندی نے افشاں زندگی کے راز کر ڈالے
پنل میں گندی مندی ہوگئی میں یار کی بندی
سو میری ذات سے پاکیزگی کا کھوجنا کیسا ؟
پنل اب لوٹنا کیسا ؟
خدا کے واسطے مت دو
خدا کے پاس بیٹھی ہوں
رہین خانہ کرب و بلا کے پاس بیٹھی ہوں
فلک کے کائنہ خانہ جہاں سے روشنی جیسے دعائیں لوٹ آتی ہیں
زمیں سنگلاخ ویرانہ جہاں پر جانے والے لوٹ کر آتے نہیں لیکن
صدائیں لوٹ آتی ہیں
پنل آواز مت دینا
میں اب آواز کی دنیا سے آگے کی کہاںی ہوں
میں ان شہروں کی رانی ہوں
جہاں میں سوچ کے بستر پہ زلفیں کھول سکتی ہوں
جہاں میں بے کناں رازوں کی گرہیں کھول سکتی ہوں
جہاں پر وقت ساکت ہے نگاہ یار کی صورت
جہاں پر عاشقوں کے جسم سے انوار کی صورت
محبت پھوٹ کر اک بے کراں ہالے میں رقصاں ہیں
مگر آواز مت دینا
کہ ہر آواز صدمہ ہے
پنل آواز مت دینا
پنل تم آدمی نکلے
کسی حوا کی سونی کوکھ سے دوجا جنم لے کر بھی
تم اک آدمی نکلے
میں آدم جام زادی تھی میں شہر آرزو کی حسرت ناکام زادی تھی
مگر پھر بھی پنل تم سے، تمہارے دیدہ گم سے
میری چاہت نے جس انداز سے نظر کرم مانگا
بتاؤ اس طرح اتنی ریاضت کون کرتا ہے ؟
بتاؤ خاک سے اتنی محبت کون کرتا ہے ؟
تمہارے ہر طرف میں تھی ، میری آواز رقصاں تھی
میری یہ ذات رقصاں تھی
کہ جیسے پھر طواف زندگی کو زندگی نک��ے
کہ جیسے گھوم کر ہر چاک سے کوزہ گری نکلے
مگر تم آدمی نکلے
پنل تم آدمی نکلے
پنل واپس چلے جاؤ
کہاں اس لامکاں نگری میں ماتم کرنے آئے ہو
پنل یہ ریت کے ذرے یہ خواہش کے فرشتے ہیں
جو ان دیکھے پروں کے زعم میں ٹیلوں سینوں سے
اڑانیں چاہتے ہیں پار نیلے آسمانوں کی
انھیں کیا علم کہ وہ پار تیرے کیچ کے جیسا
یہ اونٹوں کی قطاریں میرے اشکوں کی قطاریں ہیں
جو میرے گال کے صحرا کے ٹیلے سے گزرتی ہیں
تو میرے دہن کے سوکھے کنویں تک رینگ جاتی ہیں
انھیں کیا علم کہ سوکھا کنواں بھمبھور کے جیسا
پنل یہ ریت کے ٹیلے
یہ احرام حقیقت ہیں نہ جانے کتنے احراموں تلے قبر محبت ہے
کہاں اس لامکاں نگری میں ماتم کرنے آئے ہو
تمہارے اشک اور نوحے یہاں کچھ کر نہیں سکتے
انھیں کہنا جو کہتے تھے فسانے مر نہیں سکتے
انھیں کہنا کہ وہ سسی جو آدم جام زادی تھی
جسے دل نے صدا تھی جو اشکوں کی منادی تھی
وہ سسی ہجر کی رسی پہ لٹکی مر گئی کب سے
طلاقیں لے کے پردیسی سہاگن گھر گئی کب سے
یہاں کوئی نہیں رہتا سوائے ریگ بسمل کے
پنل واپس چلے جاؤ
یہاں اندھی ہوائیں ٹھوکریں کھاتی ہیں ٹیلوں سے
پتہ دیتی ہیں جانے کون سے بے نام قاتل کا
یہاں کوئی نہیں رہتا
سوائے ریگ بسمل کے۔......!!!!!!!!
شاعر: عمران فیروز
1 note
·
View note