میں فاطمہ ہوں، ایک بلاگر جو اپنے خیالات اور تجربات کو فاطمہ رائیٹس پہ بلاگ کے ذریعے شیئر کرتی ہوں ۔"
Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
فرعون کا دسترخوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعظم صاحب ایک نئی مسجد بنوارہے تھے مسجد کی تزئین و آرائش پہ روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا کیونکہ اعظم صاحب کے پاس دولت کی کمی نہ تھی مسجد کی زمین کے لیئے ایک بیوہ عورت کا پلاٹ بہت اونے پونے داموں میں لیا گیا تھا بیوہ عورت فریاد کرتی رہ گئی کہ اسکو اتنا پیسہ تو دیا جائے جس سے وہ ایک جھونپڑی ہی بناسکے یتیم بچے کہاں جائیں گے مگر اعظم صاحب اور انکے وفاداروں نے اسکی فریاد تک نہ سنی اور چند ہزار کی معمولی رقم اس بیوہ کو دے کر وہ پلاٹ اپنے قبضے میں کرلیا ۔
مسجد کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا رمضو جو ایک غریب مزدور تھا وہ خود بھی مسجد کی تعمیر میں مزدوری کرتا رہا، اس امید پر کہ کچھ نہ کچھ نصیب ہو گا۔ مسجد تعمیر ہوگئی تھی اور شام کو مسجد عوام کے لیئے کھولیں جانی تھی ۔ کھانے کا خاص اہتمام کیا گیا تھا علاقے کے معزز لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ رمضو اپنی چھوٹی سی جھونپڑی میں اپنے دو بچوں کے ساتھ بیٹھا تھا
بابا ہمیں بھی کھانا ملے گا ناں رمضو کے بچے جو چار دن سے فاقہ کشی کررہے تھے کھانے کی اشتہا انگیز خوشبوؤں سے بلبلا اٹھے ۔ ہاں بیٹے کھانا ضرور ملے گا اللہ کے گھر سے سب ملتا ہے اور صاحب بہت نیک ہیں دیکھ کتنے پیسے لگا کر مسجد بنائی ہے ۔ رمضو اپنے بھوکے بچوں کو تسلی دینے لگا اسکو بھی بھوک ستانے لگی مگر آج بھوک مٹ جانی تھی نماز عشاء کے بعد مسجد کھلی اور تمام معززین مسجد کے اندر چلے گئے اب کھانے کی خوشبو تیز ہوگئی رمضو ایک پرانی سی پتیلی کے کر مسجد پہنچا کہ وہاں سے کھانا مانگ کے گھر لے جائے
اؤئے کدھر چلا آرہا ہے ۔
اعظم صاحب کے وفاداروں نے رمضو کو پیچھے دھکا دیا
صاحب کھانا لینے آیا ہوں
جا اوئے کھانا تجھ جیسے لوگوں کے لیئے نہیں ہے
وفادار نے حقارت سے کہا
صاحب صاحب بچے تین دن سے بھوکے ہیں اللہ کا گھر ہے صاحب ۔ اللہ کے گھر تو سب ملتا ہے صاحب بڑے صاحب نے آج کھانا کیا ہے میرے بچے بھوکے ہیں ۔ رمضو گھگھیاتا رہا فریاد کرتا رہا مگر وفاداروں نے اسکی ایک نہ سنی اور رمضو نامراد واپس لوٹ آیا ۔
بھوک سے بیتاب دونوں بچے دوڑ کر رمضو کے قریب آئے
بابا کھانا لائے
نہیں بیٹا کھانا ہمارے لیئے نہیں ہے
مگر بابا اپ نے تو کہا تھا کہ اللہ کے گھر سے سب ملتا ہے
معصوم سوال پہ رمضو کی آنکھیں بھیگ گئیں
ہاں بیٹا مگر یہ کھانا فرعون کے دسترخوان کا ہے اور فرعون کے دسترخوان میں غریب کے لیئے کچھ نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 20 جون 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
🌹لفظ جو احساس کی زباں بنے 🌹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلوں سے خوشبو چرا کر
محبت کی ریشمی ڈور میں
لفظوں کے موتی پروئے ہیں
یہ لفظ عکس ہیں
کسی کی ان چھوئی محبت کے
یہ لفظ صدا ہیں
خاموش احساسات کے
یہ لفظ آئینہ ہیں
ایک حسینہ کے عشق کا
رکھنا ان لفظوں کو سنبھال کر اے دل
کہ لفظوں کے ہنر کا جادو
ہر کوئی نہیں جانتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ❤️💞
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 2 جون 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔

0 notes
Text
0 notes
Text
میں رائٹر نہیں ہوں، مگر لفظ مجھ سے لپٹ جاتے ہیں
کبھی کبھی ہم اپنے آپ کو لفظوں میں ڈھالتے ہیں، اور تب احساس ہوتا ہے کہ ہم نے جتنا جیا ہے، وہ سب کہیں نہ کہیں ہمارے اندر محفوظ تھا۔ میں کوئی مشہور رائٹر نہیں، مگر جب دل بھر آتا ہے، تو لفظ خودبخود قلم سے لپٹنے لگتے ہیں۔ یہ تحریر میرے اپنے جذبات، میرے تجربات، اور انہی خاموش سچائیوں کا عکس ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کوئی پروفیشنل رائٹر نہیں ہوں۔
نہ میں نے ادب کے اصول پڑھے، نہ ہی کسی لفظ کی تراش خراش سیکھی۔
ہاں، مگر جب بھی لکھا…
دل سے لکھا۔
جذبات سے لکھا۔
میں نے اس زندگی کے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔
اپنوں کے بدلتے بے شمار روپ دیکھے۔
جنہیں اپنی دنیا سمجھا،
جنہیں ایک خاص مقام دیا—
وہی بدلتے لہجے میں
یوں بولے کہ گویا وہ کبھی میرے تھے ہی نہیں۔
"نہیں فاطمہ، ہم وہ نہیں
جو تم سمجھتی تھیں..."
اور جب جب ان رشتوں نے زخم دیے،
غیروں نے آ کر مرہم رکھا۔
تب سمجھ آیا…
انسان کی فطرت کڑوی نہیں ہوتی،
مگر وہ آستین کے سانپ
جنہیں اپنا سمجھا،
ان کے زہر سے میرا دل میری روح
میرے جذبات
سب نیلوں نیل ہوگئے ۔
زندگی نے بہت کچھ سکھایا۔
وقت نے اتنا بدلا
کہ اپنا بھی اپنا نہ رہا۔
تب میرے لفظوں نے میرا ساتھ دیا ۔
میں رائٹر نہیں ہوں…
مگر دکھ، درد، اور سچائیاں
جب بھی حد سے بڑھیں،
میرے لفظ مجھ سے لپٹ جاتے ہیں
شائد وہ مجھے اپنے انداز
میں تسلی دیتے ہیں
شائد اسی لیئے کہتے ہیں
کہ قلم سے زیادہ طاقتور دنیا میں کچھ نہیں
اور الفاظ سے بہترین ترجمان کوئی نہیں
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 9 اپریل 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text

کہانی
*ایک سچی محبت کی*
قسط نمبر 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے فائلیں ایک طرف رکھیں اور کرسی سے ٹیک لگا لی۔ تھکن اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
فون کی بیل بجی، اس نے فون اٹھایا۔ اسفندیار کی کال آ رہی تھی۔
"ہیلو، کیا حال ہیں؟" اس نے زبردستی لہجے میں خوشگواری گھول دی۔
"کہاں ہو؟" مختصر سوال آیا۔
"آفس میں ہوں۔" جواب بھی اتنا ہی مختصر تھا۔
"آج لنچ باہر کریں؟" یہ حکم تھا یا اجازت، وہ سمجھ نہیں پائی۔
"آہ... ٹھیک ہے، کب تک آؤں؟" اس نے فائلوں کے ڈھیر پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
"میں آ جاؤں گا۔"
"اوکے، میں انتظار کروں گی۔"
"اوکے، بائے۔"
کال ختم ہو چکی تھی، اور وہ فائلوں کو دیکھ کر سوچنے لگی کہ باس کو کیا جواب دے گی۔
***
"کیا کھاؤ گی؟" اسفندیار نے مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"کچھ بھی، ہلکا پھلکا آرڈر کر دو۔" اس کے لہجے میں جلدی کا تاثر نمایاں تھا۔
"بہت جلدی میں لگ رہی ہو؟" طنز تھا یا سوال، وہ جان نہیں پائی۔
"نہیں، بس آفس میں بہت کام چھوڑ کر آئی ہوں۔"
"تمہاری پھوپھو کا کیسے آنا ہوا؟"
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ کافی عرصے بعد آئیں۔"
"وہ بابا اور دادی سے ملنے آئی تھیں۔"
"اچھا..." اسفندیار نے سر ہلایا اور چند لمحے خاموشی چھائی رہی۔
پھر اس نے جیب سے ایک چھوٹا سا باکس نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
"یہ کیا ہے؟" سدرہ نے حیرانی سے پوچھا۔
"کھول کر دیکھو۔"
اس نے باکس کھولا تو اندر ایک چمکدار انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔
"یہ کیا ہے، اسفند؟" وہ جان کر بھی انجان بنی۔
"کوئی لڑکا کسی لڑکی کو رنگ کیوں دیتا ہے؟" اسفندیار کے لبوں پر ہلکی مسکراہٹ تھی۔
"اسفند، میں اسے قبول نہیں کر سکتی۔" اس کے لہجے میں نرمی تھی مگر الفاظ میں مضبوطی۔
"کیوں؟" اسفندیار نے چبھتا ہوا سوال کیا۔
"یہ فیصلہ بڑوں کے کرنے کا ہے، ہمارا نہیں۔"
"کیوں، تمہیں مجھ سے محبت نہیں؟"
"اسفند، ایسی بات نہیں ہے۔" وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
اسفندیار نے خاموشی سے انگوٹھی کا باکس اٹھایا اور جیب میں رکھ لیا۔
"چلو، تمہیں کام بہت ہیں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"اسفند، اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟" سدرہ نے صفائی دینے کی کوشش کی۔
"اٹھو۔" وہ بائیک کی چابی اٹھا چکا تھا۔
"میں چلی جاؤں گی۔" اس نے ناراضی جتائی۔
اسفند یار مزید کچھ کہے بغیر آگے بڑھ چکا تھا۔
سدرہ حیران کھڑی رہ گئی، پھر غصے میں آفس چلی گئی۔
***
"مس سدرہ، میں نے آپ کو فائلز دی تھیں۔" آفس پہنچتے ہی باس نے بلا لیا۔
"سر، مجھے ایک دن کا وقت اور دیجیے، میں کل مکمل کر دوں گی۔"
باس نے اس کے چہرے پر نظریں جمائیں، جہاں بہت کچھ لکھا تھا۔
"ہمم... اوکے، مگر کل تک۔" باس نے نرمی سے اجازت دی، اور وہ اپنے کیبن میں چلی گئی۔
***
"اب تو ناراضی ختم کر دو۔" چار دن بعد، سدرہ نے آفس سے آدھے دن کی چھٹی لی اور اسفندیار کو ملنے پر راضی کیا۔ دونوں سمندر کنارے کھڑے تھے۔ اسفند یار آگے چل رہا تھا، سدرہ پیچھے۔
"میں ناراض ہوں، یا تم؟" اس نے بے وجہ شکوہ کیا۔
"چار دن بعد تمہیں میری یاد آئی ہے؟" اسفند نے نرمی سے کہا۔ کوئی جواب نہ پاکر اسنے پلٹ کر دیکھا تو سدرہ اسے اپنے نقش قدم پہ چلتی نظر آئی اسکے چہرے پہ معصومیت تھی ۔ یہ منظر اسفند یار کو بہت پیارا لگا ۔ کاش وہ اس لمحے کو اپنی مٹھی میں قید کر سکتا
سدرہ اس کے نقش قدم پر قدم رکھتے ہوئے چل رہی تھی، جیسے وہ اس کی ہر راہ پر چلنا چاہتی ہو۔ اچانک وہ اسفندیار سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
"کیا دیکھ رہے ہو؟" مصنوعی برہمی سے پوچھا۔
اسفند ہلکے سے مسکرایا، مگر سدرہ نظریں چرا گئی۔
"اسفند، میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ میں انگوٹھی کیسے رکھ لیتی؟ یہ فیصلہ بڑوں کا ہے، ہمارا نہیں۔ جب وہ ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے، تو ہمیں خود کیوں فیصلہ لینا چاہیے؟"
اسفند یار اس کی باتیں سن ہی کہاں رہا تھا؟ وہ تو ان ہواؤں کو محسوس کر رہا تھا، جو سدرہ کی زلفوں سے کھیل رہی تھیں۔ سورج کی کرنیں اس کی سنہری لٹوں کو مزید چمکا رہی تھیں۔
"اب چپ کیوں ہو؟" سدرہ نے گڑبڑا کر پوچھا۔
"کچھ نہیں، بس..."
کچھ دیر وہ خاموشی سے سمندر کنارے ٹہلتے رہے۔
"گھر چلیں؟"
"ہاں، چلو۔" اسفند یار مسکرا دیا، اور سدرہ بھی اس کی مسکراہٹ پر خوش ہو گئی۔
دونوں نے واپسی کے لیے قدم بڑھا دیے۔ پیچھے لہریں ان کے ساتھ چلتے قدموں کے نشان مٹا رہی تھیں۔
(جاری ہے...)
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 15 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text

کہانی:
ایک سچی محبت کی
قسط نمبر 4
اسفند! میں اس دن واقعی بہت لیٹ ہو گئی تھی...
اسفند! آج کل آفس کا کام بہت زیادہ ہے...
اسفند! باس گھر سے بھی کام دیتے ہیں...
وضاحتیں... صفائیاں... غلط نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو مجرم سمجھنا...
مشکل سے ہی سہی، مگر اسفند مان گیا تھا، اور سدرہ کے لیے یہی کافی تھا۔ اب وہ کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہوتی، اسفند کے میسج کا جواب ضرور دیتی۔ کبھی کبھی تو کھانے سے بھی زیادہ ضروری اسے اسفند کی کال ریسیو کرنا لگتا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔ یہ کیسی آزمائش تھی، جو اس کی محبت کے درمیان آ گئی تھی؟
"سدرہ، کیا سوچ رہی ہو؟ اندر چلو!"
دادی کی آواز پر سدرہ چونک گئی۔
"مغرب ہو گئی اور مجھے پتہ بھی نہ چلا..." اس نے آسمان کی طرف دیکھا، ایک گہری سانس لی اور اپنا لیپ ٹاپ بند کر کے اندر چلی گئی۔ دادی حسرت سے اسے جاتے دیکھتی رہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج چھٹی تھی، سب گھر پر موجود تھے۔ سارہ نے بریانی دم پر لگائی اور کھانے کی تیاریوں پر ایک نظر دوڑائی۔ چکن ہانڈی، دھواں گوشت، چکن تکہ، سلاد، رائتہ— سب کچھ تیار تھا۔ میٹھے میں سدرہ نے رات ہی کسٹرڈ بنا کر فریج میں رکھ دیا تھا۔
آج پھوپھو آرہی تھیں
"سدرہ، ابو کو کہنا جب پھوپھو آ جائیں تو روٹیاں لیتے آئیں۔" سارہ نے سدرہ سے کہا، جو دادی کے کمرے کی صفائی کر رہی تھی۔
"اچھا۔" سدرہ نے مختصر جواب دیا۔
"بیٹا، سب کھانا تیار ہے؟" دادی نے سارہ سے پوچھا۔
"جی اماں، سب تیار ہے، آپ پریشان نہ ہوں۔" سارہ نے نرمی سے مسکرا کر جواب دیا تو دادی بھی ہلکے سے مسکرا دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کی خوشبو گھر میں پھیل چکی تھی۔ سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا اور خوب تعریف بھی ہوئی۔ کھانے کے بعد دادی کے کمرے میں بیٹھک جمی۔ دادی اپنی بیٹی سے مل کر خوش تھیں، کافی عرصے بعد ان کی ملاقات ہو رہی تھی۔ جب سے پھوپھو اسلام آباد شفٹ ہوئی تھیں، کراچی آنا بہت کم ہو گیا تھا۔ آج وہ آئی تھیں، تو دادی کی خوشی دیدنی تھی۔
سدرہ ان سب کو دیکھ رہی تھی— محبت، خلوص، اپنائیت سے بھرپور رشتے۔ مگر کہیں نہ کہیں اس کے دل میں ایک خلش بھی تھی... کیا اسفند اور اس کی محبت بھی اتنی مضبوط ثابت ہوگی؟کھانے کے بعد سدرہ سب کے لیے آئس کریم لے آئی۔ سب بڑے اماں کے کمرے میں بیٹھ گئے، جبکہ پھوپھو کے دونوں بچے، شہریار اور مدحت، سارہ کے کمرے میں آ گئے۔
مدحت ابھی میٹرک کے امتحان دے کر فارغ ہوئی تھی اور کافی معصوم اور بھولی بھالی لگ رہی تھی۔ سارہ کو اس کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگا۔ دوسری طرف شہریار ایک سمجھ دار اور سلجھا ہوا نوجوان تھا، جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور اپنے والدین کا فرماں بردار بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور سناؤ شیری، شادی کب کر رہے ہو؟" سدرہ نے ہنستے ہوئے بات چھیڑی۔
"ابھی کہاں؟ ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا ہے۔" شہریار نے ہنستے ہوئے بات ٹال دی۔
"ہو سکتا ہے کہ بھائی کو کوئی پسند ہو اور وہ بتا نہیں رہے ہوں!" مدحت نے شرارت سے اپنے بھائی کو چھیڑا تو سدرہ بھی مسکرا اٹھی۔
"بچے بڑوں کے معاملات میں نہیں بولتے۔" شہریار نے مصنوعی ناراضی کا اظہار کیا، تو مدحت منہ بنا کر چپ ہو گئی۔
سارہ خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی، "اگر میرے بھی بہن بھائی ہوتے تو شاید میرے گھر میں بھی ایسا ہی ماحول ہوتا..." اس کے اکلوتے پن کا شکوہ پھر سے دل میں جاگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خوشگوار دن گزار کر پھوپھو واپسی کا ارادہ کر رہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
"السلام علیکم!" اسفندیار نے اندر آتے ہی سلام کیا، تو سب نے مشترکہ جواب دیا۔
"غزل ، یہ اسفندیار ہیں، میری دوست بتول کا بیٹا۔" سارہ نے اپنی نند غزل سے اسفند یار کا تعارف کروایا، تو پھوپھو نے محض سر ہلا دیا۔
"آنٹی، امی نے یہ آپ کے لیے بھجوایا ہے۔" اسفندیار نے ایک باؤل سارہ کی طرف بڑھایا، جو وہ لے کر کچن کی طرف بڑھ گئیں ۔
"آؤ، اسفند! بیٹھو۔" سدرہ نے کہا، تو وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
"اسفند، یہ میرے پھوپھو کے بیٹے شہریار اور یہ ان کی بیٹی مدحت ہیں۔" مختصر تعارف کے بعد رسمی سلام دعا ہوئی۔
"اچھا، اب میں چلتا ہوں۔" اسفندیار اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔
"ارے، بیٹھو تو سہی!" سارہ نے حیرانی سے کہا۔
"نہیں ��نٹی، میں اب چلتا ہوں، اللہ حافظ!" اسفندیار جاتے ہوئے ایک پل کے لیے سارہ پر نظر ڈال کر باہر نکل گیا۔
(جاری ہے........)
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 14 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text

کہانی:
*ایک سچی محبت کی*
قسط نمبر 3
سدرہ اور اسفندیار کی محبت آہستہ آہستہ پروان چڑھ رہی تھی۔ دونوں کے گھروں میں ان کے رشتے کی بات چل نکلی، مگر اسفندیار چاہتا تھا کہ پہلے اپنی بہنوں کی شادی کا فرض ادا کرے۔ سدرہ کو اسفند کی یہ سوچ بہت پسند آئی— جو شخص اپنی بہنوں کے لیے اتنا سوچ سکتا ہے، وہ اس کی زندگی میں بھی یقیناً اچھا ساتھی ثابت ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سدرہ کے آفس میں نئے باس آ گئے تھے، جس کے بعد کام کا دباؤ بہت بڑھ چکا تھا۔ گھر آ کر بھی وہ آفس کے کام میں مصروف رہتی، جس کی وجہ سے اسفندیار سے بات چیت کم ہونے لگی۔ اکثر وہ اس کے میسجز کا مختصر جواب دے کر دوبارہ کام میں لگ جاتی۔ اسفند نے بھی کچھ نہیں کہا، مگر اسے یہ تبدیلی محسوس ضرور ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن آفس میں بہت دیر ہوگئی تھی، اور جب سدرہ نکلی تو وین جا چکی تھی۔ وہ پریشان تھی کہ گھر کیسے جائے۔ اس نے اسفندیار کو کال ملانے کی کوشش کی، مگر بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ نہ ہو سکا۔ سڑک سنسان ہو رہی تھی اور کوئی آٹو یا ٹیکسی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔
"مس سدرہ، ابھی تک گھر نہیں گئیں؟" اچانک حسن کی گاڑی اس کے قریب آ کر رکی۔
"میری وین چلی گئی ہے، کوئی آٹو دیکھ رہی ہوں۔" سدرہ نے مختصر جواب دیا۔
"یہاں اتنی رات کو کہاں آٹو ملے گا؟ میں ڈراپ کر دیتا ہوں، آئیں بیٹھیں۔" حسن نے پیشکش کی۔
"نہیں، بہت شکریہ، میں چلی جاؤں گی۔" سدرہ نے منع کر دیا۔
"مس سدرہ، وقت دیکھیں، دیر ہو جائے گی۔ میں ویسے بھی اسی طرف جا رہا ہوں، بیٹھ جائیں۔"
سدرہ نے کچھ لمحے سوچا۔ مغرب کا وقت قریب تھا اور سڑک پر اکیلی کھڑے رہنے سے بہتر تھا کہ وہ حسن کے ساتھ چلی جائے۔ وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دو بج چکے تھے۔ سدرہ نے فائنل فائل سیو کی اور لیپ ٹاپ بند کیا۔ اسی وقت اسفند کی کال آ گئی۔
"اس وقت کال؟" سدرہ حیران ہوئی۔
"ہیلو، کیسی ہو؟" اسفند نے نرمی سے پوچھا۔
"سب خیر ہے؟ اس وقت کال کی؟" سدرہ نے فوراً سوال کیا۔
"ہاں، بس نیند نہیں آ رہی تھی، تو سوچا تم سے بات کر لوں۔"
"اچھا..." چند لمحے خاموشی رہی۔
"آفس میں کام کیسا چل رہا ہے؟"
"بہت کام بڑھ گیا ہے، نئے باس نے سب کو مصروف کر دیا ہے۔"
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اسفندیار کا اگلا سوال سدرہ کو چونکا گیا۔
"آج کسی اور کے ساتھ آئی تھی؟"
سدرہ ایک پل کے لیے چپ ہو گئی۔ اسفند کو کیسے معلوم ہوا؟
"ہاں... وہ اصل میں دیر ہو گئی تھی، بتایا نا کہ کام بہت ہے۔"
"اچھا..." اسفند نے مختصر جواب دیا۔
"اسفند، میں تمہیں سمجھا سکتی ہوں..." سدرہ نے وضاحت دینے کی کوشش کی۔
"کل بات کریں گے۔"
اسفند نے سرد لہجے میں کہا اور کال کاٹ دی۔
سدرہ فون کو دیکھتی رہ گئی۔ کیا وہ ناراض ہو گیا ہے؟
چلو، کل سمجھا دوں گی... اس نے خود کو تسلی دی، مگر دل میں ایک انجانا سا بوجھ محسوس ہونے لگا۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔)
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 13مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text

کہانی ۔
*ایک سچی محبت کی*
قسط نمبر 2
سدرہ اور اسفندیار، دونوں کا تعلق مڈل کلاس گھرانوں سے تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد سدرہ نے ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری شروع کی، جبکہ اسفندیار بھی ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتا تھا۔ سدرہ کے والد سرکاری ملازم تھے، اور خوش قسمتی سے دادا کا گھر ہونے کی وجہ سے کرائے کی پریشانی نہیں تھی۔
محلے میں رہنے کے باعث دونوں خاندانوں کے درمیان اچھے تعلقات تھے، اور یہی قربت سدرہ اور اسفندیار کی دوستی کا سبب بنی۔ مگر یہ دوستی کب اور کیسے محبت میں بدل گئی، یہ بس وہی جانتے تھے۔ یہ کوئی فلمی محبت نہیں تھی، نہ ہی کوئی دکھاوے کا رشتہ—یہ بس دلوں کی خاموش سرگوشیاں تھیں، جنہیں لفظوں کی ضرورت نہیں تھی۔
گرمی کی دوپہر میں سارہ نے کڑھی بنائی تھی۔ کھانے کے دوران انہوں نے سدرہ سے کہا،
"بیٹا، شام کو بتول آنٹی کے گھر کڑھی دے آنا۔"
سدرہ نے سر ہلا دیا، جیسے یہ کام معمول کی بات ہو۔
کھانے کے بعد سارہ آرام کے لیے کمرے میں چلی گئیں، جبکہ سدرہ لیپ ٹاپ سنبھال کر بیٹھ گئی۔ دادی نماز پڑھ کر اس کے پاس آئیں، کچھ آیات پڑھیں اور اس پر پھونک دیا۔
"کیا ہوا دادی؟ کچھ کہنا ہے؟" سدرہ نے ان کے چہرے کی سنجیدگی کو دیکھ کر پوچھا۔
دادی نے ایک لمحے کو اسے دیکھا، پھر آہستہ سے کہا،
"نہیں، کچھ نہیں کہنا۔"
اور خاموشی سے چلی گئیں، اپنی نصیحتیں دل میں لے کر۔ ان کی سب سے اہم نصیحت نماز کی تھی، مگر آج کے بچوں کے پاس سننے کا وقت کہاں ہوتا ہے؟
---
شام کو جب سدرہ بتول آنٹی کے گھر پہنچی، تو دروازہ مسلسل بجانے کے باوجود کوئی جواب نہ آیا۔
"آرہا ہوں بھ��ی! کیا خزانے کی چابی دینے آئے ہو؟" اندر سے اسفند کی چڑچڑی آواز آئی، اور دروازہ کھلتے ہی اس کا غصے سے بھرا چہرہ نمودار ہوا—مگر سامنے سدرہ کو دیکھ کر یکدم تاثرات بدلے اور مصنوعی غصے سے بولا،
"تم ہو! صبر نہیں آتا تمہیں؟"
سدرہ ہلکی سی ہنسی، "تم نے ہی تو دروازہ کھولنے میں اتنی دیر کر دی!"
وہ بے تکلفی سے اندر آ رہی تھی جب اسفند نے کہا،
"گھر میں کوئی نہیں ہے۔"
سدرہ کے قدم ٹھٹھک گئے۔ ایک لمحے کے لیے عجیب سا احساس ہوا کہ وہ اسفند کے ساتھ اکیلی ہے۔ اس نے جلدی سے کڑھی آگے بڑھائی،
"امی نے آنٹی کے لیے بھیجی ہے، تم ان کو دے دینا، میں چلتی ہوں۔"
"ارے، بیٹھو! آنٹی آتی ہوں گی۔"
اسفند نے دروازے کی کنڈی لگا دی۔ سدرہ کی گھبراہٹ بڑھنے لگی۔
"نن-نہیں، میں چلتی ہوں۔" وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
"آج تو کوئی نہیں ہے گھر پر، آرام سے بات کریں گے۔" اسفند نے شرارت سے کہا۔
سدرہ کی گھبراہٹ عروج پر تھی کہ اچانک کمرے سے بتول آنٹی نکلیں۔
"ارے سدرہ آئی ہے؟ آؤ بیٹا، وہاں کیوں کھڑی ہو!"
آنٹی کو دیکھ کر سدرہ نے سکون کا سانس لیا اور فوراً آگے بڑھ کر کڑھی کا ڈونگا پکڑایا۔
"امی نے بھیجا ہے، آپ رکھ لیں۔"
آنٹی کچن میں چلی گئیں تو سدرہ نے پلٹ کر اسفند کو گھورا،
"تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟"
اسفند نے مسکرا کر کہا،
"اچھا! اور تم جو اتنی دیر سے بیل بجا رہی تھیں، اس کا کیا؟"
سدرہ نے گردن جھٹکی اور ناک سکوڑتی اندر آنٹی کے پاس چلی گئی، جبکہ اسفند مسکراتے ہوئے اسکے پیچھے چل دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی محبت بے ساختہ لمحوں میں، چھوٹی چھوٹی باتوں میں، ایک شرارت میں چھپی ہوتی ہے۔ مگر کیا یہ شرارت ہمیشہ ہنسی خوشی میں بدلتی ہے؟ یا پھر قسمت کچھ اور طے کر چکی ہوتی ہے؟
جاننے کے لیے مکمل کہانی ضرور پڑھیں!
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
✍🏻 تحریر: فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ: 12 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text

کہانی
*ایک سچی محبت کی*
قسط نمبر 1
"سدرہ! جاگ جاؤ بیٹا، فجر کی نماز ادا کرلو، وقت نکل رہا ہے۔" دادی نے چوتھی بار آواز دی، مگر وہ تھوڑا سا کسمسائی اور دوبارہ کمبل میں منہ چھپا لیا۔
"سدرہ! اٹھو، ساڑھے سات ہو رہے ہیں۔"
امی کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھی، کمبل ایک طرف پھینکا اور گھڑی پر نظر ڈالی تو واقعی ساڑھے سات بج چکے تھے۔ جلدی سے بیڈ چھوڑا، واش بیسن پر پہنچی اور چند چھپاکے مار کر منہ دھو لیا۔
"آرام سے ناشتہ کرو، اتنی جلدی مت کھاؤ، پھندا لگ جائے گا۔" دادی نے ناگواری سے اسے گھور کر کہا۔
"اممم... دادی، دیر ہو رہی ہے۔" سدرہ نے بس اتنا کہا اور جلدی جلدی نوالے نگلنے لگی۔
تبھی وین کی آواز آئی اور وہ ناشتہ ادھورا چھوڑ کر جلدی سے بیگ سمیٹتی باہر لپکی۔ دادی نے سارہ کی طرف دیکھا، جو خاموشی سے ناشتہ کر رہی تھیں۔
"سارہ، کبھی تو خود اپنی اولاد کو نماز کی ہدایت دو... مگر جب ماں ہی خود نہیں پڑھتی تو اولاد کیا سیکھے گی؟" دادی نے ٹھنڈی سانس بھری اور خاموشی سے اٹھ کر چلی گئیں۔ سارہ نے ایک پل کو دادی کی بات سنی، مگر وہ چپ چاپ ناشتہ کرتی رہیں۔
دفتر میں اسفند فائلوں میں الجھا ہوا تھا۔ جب کچھ لمحوں کی فرصت ملی تو اس نے سکون سے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موند لیں۔ یکدم ایک چہرہ ذہن میں ابھرا، اور اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ جیسے ہی ہوش میں آیا، فون نکالا اور نمبر ملایا۔
"ہیلو..." دوسری طرف سے دلفریب آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
"قسم سے، آدھی تھکن تو تمہاری آواز سن کر ہی اتر گئی۔" اسفند کا لہجہ گمبھیر مگر نرم تھا۔
"اچھا؟" دوسری طرف سے شرمیلی ہنسی سنائی دی۔
"چلو، آج لنچ باہر کرتے ہیں۔"
"نہ بابا! آج باس نے بہت کام دیا ہے۔" اس نے میز پر بکھری فائلوں کی طرف دیکھ کر کراہتے ہوئے جواب دیا۔
"یار، بس تھوڑی دیر کی بات ہے۔" اسفند نے اصرار کیا۔
"مجھے پتہ ہے، تمہاری یہ 'تھوڑی دیر' کم از کم ایک گھنٹے پر محیط ہوتی ہے!" وہ شرارت سے ہنسی۔
اسفند بھی کھل کر ہنس دیا۔ قریب بیٹھے اس کے کولیگ نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھا تو اسفند نے فوراً سنبھل کر خود کو مصروف ظاہر کیا۔
(جاری ہے...)
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 12 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
وقت اور نصیب کا فلسفہ: ایک منفرد انداز
زندگی کا ہر لمحہ ایک ان کہی داستان ہے، جسے ہم اپنی خواہشات کے دھارے پر بہتے ہوئے جلدی سے مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب نے یہ جملہ کئی بار سنا ہے کہ "کوئی بھی چیز وقت سے پہلے نہیں اور نصیب سے زیادہ نہیں"۔ مگر کیا ہم نے کبھی اس کے گہرے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کی ہے؟
انسانی فطرت ہے کہ وہ جلد بازی کرتا ہے۔ ہر چیز کا طلبگار، وہ وقت سے پہلے ہی اپنی خواہشات کا حصول چاہتا ہے۔ لیکن قدرت کا نظام ایک دقیق ترازو پر قائم ہے۔ جو شے ہمارے لیے لکھی گئی ہے، وہ ہم تک ضرور پہنچے گی لیکن تب جب وقت کا سورج اس پر اپنی روشنی ڈالے گا۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کے لیے بےتحاشہ دعائیں کرتے ہیں، راتوں کو جاگ کر آنسو بہاتے ہیں، مگر وہ ہمیں نہیں ملتی۔ ہم مایوس ہو جاتے ہیں، قسمت کو کوستے ہیں، مگر پھر کچھ عرصے بعد جب وہی چیز ہمیں ملتی ہے تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ہمیں پہلے مل جاتی تو شاید ہم اس کی قدر نہ کر پاتے یا وہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی۔
وقت سے پہلے ملنے والی چیز اکثر بے قدر ہو جاتی ہے، اور نصیب سے زیادہ ملنے والی چیز آزمائش بن جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہمیں اپنی خواہشوں کو دفن کر دینا چاہیے، بلکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر چیز کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے۔
خواب دیکھنا برا نہیں ہے، کوشش کرنا لازم ہے، لیکن جلد بازی ہمارے لیے وہ دروازے بند کر سکتی ہے جنہیں وقت خود کھولنا چاہتا ہے۔ صبر کرنا، شکر ادا کرنا اور یقین رکھنا کہ جو کچھ ہمارے نصیب میں ہے، وہ ٹھیک وقت پر ہمارے دروازے پر دستک دے گا۔
اگر ہم کسی چیز کے نہ ملنے پر غمزدہ ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یا تو وہ ہمارے نصیب میں نہیں یا پھر اس کا وقت ابھی نہیں آیا۔ صبر اور قناعت کا یہ سفر کٹھن ضرور ہے، مگر اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔
وقت کا پہیہ کبھی رکتا نہیں اور نصیب کا لکھا کبھی بدلتا نہیں۔ جو ہمارے لیے بہتر ہے، وہ ہمیں وقت پر ملے گا اور جو ہمارے لیے نہیں، وہ چاہے ہم لاکھ کوشش کر لیں، ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔
زندگی کا اصل حسن یہی ہے کہ ہم اپنی کوشش جاری رکھیں اور اپنے رب پر بھروسہ کریں کہ وہ ہمیں بہترین وقت پر بہترین عطا کرے گا۔ کیونکہ کوئی بھی چیز وقت سے پہلے نہیں اور نصیب سے زیادہ نہیں۔
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 9 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
**کوانٹم آئینہ: متوازی کائنات کا دروازہ**
### باب 11: حقیقت کی سرحد پر
پروفیسر لارنس نے گہرے سانس لیے، اس کے سامنے وہی چمکتا ہوا آئینہ تھا جس نے اسے اس مافوق الفطرت دنیا میں دھکیلا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ اس نے آئینے میں جھانکا، جہاں روشنی اور تاریکی کی لہریں آپس میں الجھ رہی تھیں۔
سامنے کھڑا سایہ اب مزید واضح ہو چکا تھا۔ وہ ایک قد آور مخلوق تھی، جس کی آنکھیں نیلے شعلوں کی مانند چمک رہی تھیں۔ "پروفیسر، تمہیں فیصلہ کرنا ہوگا... تم یہاں کے قوانین بدلنے آئے ہو یا واپس جانے؟" مخلوق کی آواز گونجی۔
پروفیسر لارنس نے اپنے ہاتھ میں موجود کوانٹم کرسٹل کو سختی سے تھام لیا۔ "میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس دنیا کا اصل راز کیا ہے؟ یہ جگہ حقیقت میں کیا ہے؟"
مخلوق نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر بولی، "یہ متوازی کائناتوں کا دروازہ ہے۔ ہر وہ انتخاب جو تم نے اپنی دنیا میں نہیں کیا، یہاں ایک متبادل حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ تم نے یہاں آ کر توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ اب یا تو تم اس دنیا کا حصہ بنو گے یا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔"
پروفیسر کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اگر وہ یہاں کا حصہ بن گیا تو کبھی واپس نہ جا سکے گا، اور اگر واپس گیا تو شاید یہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔
### باب 12: واپسی یا فنا؟
روشنی کی ایک زبردست لہر پروفیسر کے ارد گرد پھیلنے لگی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کا جسم ہلکا ہو رہا ہے، جیسے وہ کسی نادیدہ قوت کے زیر اثر ہو۔
"یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہوگا، پروفیسر!" مخلوق نے آخری بار کہا۔
پروفیسر نے آنکھیں بند کر کے لمحہ بھر کے لیے سوچا، پھر اچانک اپنے ہاتھ میں موجود کوانٹم کرسٹل کو آئینے کی طرف اچھال دیا۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور آئینہ لرزنے لگا۔ روشنی کی کرنیں چاروں طرف پھیلنے لگیں۔ پروفیسر نے ایک زوردار جھٹکا محسوس کیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
جب اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں، تو وہ اپنی لیبارٹری میں تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی، مگر آئینہ... وہ آئینہ غائب ہو چکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوانٹم کرسٹل کی بجائے صرف ایک ہلکی سی روشنی کا ذرہ باقی تھا۔
کیا وہ سب خواب تھا؟ کیا وہ حقیقت میں متوازی کائنات تک گیا تھا؟
پروفیسر لارنس نے ایک گہری سانس لی اور کمپیوٹر کی طرف بڑھا۔ شاید کہانی ختم نہیں ہوئی تھی... شاید یہ ابھی شروع ہوئی تھی۔
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 3 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
کوانٹم آئینہ: متوازی کائنات کا دروازہ
باب 9: سرحد کے پار
پروفیسر لارنس نے آئینے کی چمکتی ہوئی سطح پر ہاتھ رکھا، اور ایک زوردار جھماکا ہوا۔ وہ اچانک خود کو ایک نئی، مگر حیران کن جگہ پر پاتے ہیں۔ یہ کوانٹم ریلم کا ایک اور حصہ تھا—ایک متوازی دنیا جہاں قوانین مختلف تھے۔
یہاں فضا میں نیلے اور جامنی رنگ کی روشنی کے دھارے بہہ رہے تھے، اور خلا میں معلق بادل کسی غیر مرئی توانائی سے جُڑے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ دور ایک عجیب و غریب عمارت دکھائی دے رہی تھی، جس کی دیواریں شفاف مگر زندہ معلوم ہو رہی تھیں۔
لارنس نے اپنے گرد نظر دوڑائی۔ جیسے ہی وہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں، ان کے سامنے نیبروس نمودار ہو جاتا ہے—یہ اب پہلے سے زیادہ طاقتور محسوس ہو رہا تھا۔
"میں نے کہا تھا، پروفیسر، یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا!" نیبروس کی آواز خلا میں گونجی۔
لارنس نے فوراً اپنی جیب سے وہی کرسٹل نکالا جو انہوں نے زمین پر اپنے ساتھ رکھا تھا۔ جیسے ہی کرسٹل نے روشنی خارج کی، نیبروس نے ایک قدم پیچھے ہٹایا۔ "یہ... یہ کیسے ممکن ہے؟" نیبروس حیرت زدہ نظر آیا۔
یہاں کچھ تھا جو نیبروس کے قابو سے باہر تھا۔ مگر لارنس کے پاس وقت کم تھا۔ انہیں اس جگہ کے رازوں کو سمجھنا تھا، ورنہ وہ ہمیشہ کے لیے اس متوازی کائنات میں قید ہو سکتے تھے۔
باب 10: روشنی اور سایہ
پروفیسر لارنس نے نیبروس کے الفاظ کے پیچھے چھپے راز کو سمجھنے کی کوشش کی، مگر ان کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ کرسٹل کی روشنی اب بھی نیبروس کے گرد ایک حفاظتی دائرہ بنا رہی تھی، مگر یہ کب تک چل سکتا تھا؟
اچانک، فضا میں ایک زوردار گونج سنائی دی، جیسے کوئی دروازہ کھل رہا ہو۔ لارنس نے مڑ کر دیکھا—کوانٹم آئینہ دوبارہ متحرک ہو چکا تھا، مگر اس کی سطح پر اب ایک مختلف منظر تھا۔ اس بار، وہ اپنی ہی دنیا کی جھلک دیکھ سکتے تھے، مگر کچھ عجیب تھا۔ ہر چیز ایک سایہ دار دھند میں لپٹی ہوئی لگ رہی تھی۔
نیبروس نے مسکراتے ہوئے کہا، "یہ تمہاری دنیا ہے، مگر اس کا ایک دوسرا رخ۔ روشنی کے بغیر، ہر چیز بگڑ جاتی ہے۔ اور تمہارا وہاں جانا، تمہیں ہمیشہ کے لیے ایک قیدی بنا دے گا۔"
لارنس کو فیصلہ کرنا تھا—کیا وہ واپس جائیں اور اس حقیقت کا سامنا کریں، یا نیبروس کے کھیل کو مزید قریب سے سمجھیں؟
تبھی، روشنی کا ایک جھماکا ہوا اور آئینے کے دوسری طرف سے ایک آواز ابھری: "پروفیسر! جلدی کریں!" یہ ایوا کی آواز تھی۔ وہ کس طرح آئینے کے دوسری طرف پہنچی؟
نیبروس غصے میں چیخا، "یہ ناممکن ہے! وہ دروازہ صرف میرے قابو میں ہے!"
لارنس نے موقع ضائع کیے بغیر کرسٹل کو مضبوطی سے تھاما اور آئینے کی طرف دوڑ لگا دی۔ مگر جیسے ہی انہوں نے چھوا، سب کچھ دھندلا گیا...
جاری ہے…
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 3 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
**عنوان: "کوانٹم آئینہ: متوازی کائنات کا دروازہ"
باب 7: نئے سوالات، نئی حقیقتیں
پروفیسر لارنس نے کرسٹل کو غور سے دیکھا۔ اس کے اندر ایک عجیب سی روشنی چمک رہی تھی، جیسے کہ وہ زندہ ہو۔ وہ ابھی تک حیران تھے کہ یہ سب ایک خواب تھا یا حقیقت۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے آئینے کو دوبارہ چھوا، کرسٹل نے ایک مدھم سی روشنی خارج کی اور آئینے کی سطح ایک بار پھر لرزنے لگی۔
یہ دیکھ کر پروفیسر کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ کیا آئینہ اب بھی فعال تھا؟ کیا وہ دوبارہ کوانٹم ریلم میں جا سکتے تھے؟
انہوں نے فوراً اپنے نوٹس نکالے اور ہر چیز کو لکھنا شروع کر دیا۔ اگر یہ سب کچھ سچ تھا، تو یہ دنیا کی سب سے بڑی دریافت تھی۔ لیکن اگر یہ صرف ان کا وہم تھا، تو شاید وہ اپنی پوری زندگی اس معمے کو سمجھنے میں گزار دیتے۔
باب 8: خطرہ واپس لوٹ آیا
اگلی رات، جب پروفیسر اپنی تحقیق میں مصروف تھے، انہیں یوں محسوس ہوا جیسے کوئی ان کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا، مگر وہاں کچھ نہ تھا۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے کرسٹل کو اٹھایا، ان کی پشت پر ایک مدھم سایہ نمودار ہوا۔
یہ نیبروس تھا، جو تباہ نہیں ہوا تھا بلکہ کسی نہ کسی طرح اس کرسٹل کے ذریعے زمین پر آ چکا تھا۔ پروفیسر کو اب ایک بڑے معرکے کے لیے تیار ہونا تھا، کیونکہ نیبروس کے عزائم صرف کوانٹم ریلم تک محدود نہیں تھے۔
جاری ہے…
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 3 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
لفظوں کی ڈور سے بندھی محبت
آج وہ اداس بیٹھی تھی۔ لگتا تھا جیسے کوئی سناٹا اس کی روح میں اتر آیا ہو۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ مغرب ہونے کو تھی، پرندے اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔ وہ یونہی چند لمحے ساکت بیٹھی رہی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ وہ لپک کر فون کی طرف بڑھی، جیسے اگر ایک لمحے کی بھی تاخیر ہوتی، تو کال منقطع ہوجاتی۔
"ہیلو!" اس کی آواز میں بے قراری تھی۔
"السلام علیکم، کیسی ہیں آپ؟"
"کہاں تھے آپ؟ کتنے دن بعد کال کی!" دل کا شکوہ بے ساختہ لبوں پر آ گیا۔
"آں ہاں… انتظار تھا میرا؟" دوسری طرف سے شوخ آواز ابھری۔
"نہیں… ایسا کچھ نہیں۔" اس نے دل کو ڈپٹ کر مصنوعی وضاحت دی۔
"میں بیمار تھا۔"
وہ چونک گئی۔ "کیوں؟ خیر تو ہے؟" اب اس کے لہجے میں فکر نمایاں تھی۔
"بس بخار تھا۔"
"اچھا…"
چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔
"مجھے یاد نہیں کیا تم نے؟"
وہ کیا بتاتی کہ اس نے کتنا یاد کیا تھا…
"بولو نا!" دوسری طرف سے التجا بھری آواز آئی۔
وہ نظریں چرانے لگی۔ "اب کیسے ہیں آپ؟"
"یہ میرے سوال کا جواب ہے؟"
وہ الجھ گئی۔ ہلکی سی سانس خارج کی اور جلدی سے بولی، "میں رکھتی ہوں فون… ابو شاید دروازے پر ہیں!"
بہانہ کمزور تھا۔
"ڈرپوک۔" دوسری طرف سے مسکراتا ہوا خطاب ملا۔
اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ فون رکھ دیا۔
---
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 5 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
ایک جھوٹی کہانی
رات کی تاریکی میں وہ اپنی ڈائری کے آخری صفحے پر لکھ رہی تھی:
"یہ میری کہانی ہے، مگر شاید سچ نہیں۔ یا شاید میں خود ایک جھوٹ ہوں۔"
حصہ اول: دھوکہ
نایاب ایک عام سی لڑکی تھی، یا شاید غیر معمولی۔ زندگی کے ابتدائی سالوں میں اس نے سیکھا تھا کہ سچ بولنے والے ہمیشہ تکلیف میں رہتے ہیں اور جھوٹ جیت جاتا ہے۔ لیکن وہ اب بھی امید رکھتی تھی کہ کسی نہ کسی دن سچ کی جیت ہوگی۔
پھر ایک دن، وہ شخص آیا۔ بظاہر وہ ایک سادہ، محبت کرنے والا انسان تھا، جو نایاب کی معصومیت اور خلوص کی قسمیں کھاتا تھا۔ نایاب کو یقین آگیا کہ سچا پیار اب بھی وجود رکھتا ہے۔ وہ اس کے لفظوں کے جال میں ایسی پھنسی کہ خود کو بھی بھول گئی۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ محبت کبھی کبھی ایک بہترین جھوٹ بھی ہوسکتی ہے۔
حصہ دوم: فریب
نایاب نے اپنی زندگی کے سب سے قیمتی سال اس رشتے کو سنوارنے میں گزار دیے۔ ہر دن وہ یقین دلاتی کہ اس کے جذبات سچے ہیں، لیکن ایک دن حقیقت کا پردہ ہٹ گیا۔ وہ شخص جسے وہ اپنی دنیا سمجھ بیٹھی تھی، کسی اور دنیا میں آباد تھا۔
ایک دن اس نے دیکھا کہ وہی محبت کرنے والا شخص کسی اور لڑکی کے ساتھ اُسی وعدوں کو دہرا رہا تھا جو کبھی نایاب کے کانوں میں رس گھولتے تھے۔
"تم تو میری زندگی ہو!"
"میرے بغیر تم کیسے رہو گی؟"
"یہ دنیا جھوٹی ہے، بس تم سچی ہو۔"
یہ جملے سن کر نایاب کو احساس ہوا کہ اس کی زندگی ایک جھوٹ تھی، یا شاید وہ خود ایک جھوٹ تھی جو سچائی کو پہچان نہیں سکی۔
حصہ سوم: خودغرض رشتے
جب نایاب نے اس سے سوال کیا تو جواب میں صرف خاموشی ملی۔ اور خاموشی سب سے بڑا دھوکہ ہوتی ہے۔ وہ ہر رشتے کو ایک بار پھر جانچنے لگی۔ دوست جو ہمیشہ اس کے کندھے پر سر رکھ کر روتے تھے، خود اسے کبھی سہارا نہیں دیتے تھے۔ خاندان جو ہمیشہ نصیحتیں دیتا تھا، خود مشکل وقت میں کنارہ کر گیا تھا۔
نایاب کو احساس ہوا کہ دنیا میں رشتے صرف اپنی ضرورتوں کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ یہاں سب کچھ وقتی تھا، سب کچھ ایک فریب تھا۔
حصہ چہارم: سچ یا جھوٹ؟
نایاب نے ڈائری بند کی اور آئینے میں خود کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ لڑکی نظر نہیں آرہی تھی جو کبھی سچائی پر یقین رکھتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا سچ واقعی کوئی حیثیت رکھتا ہے، یا سچ بھی ایک جھوٹ ہے جو ہمیں تسلی دینے کے لیے بولا جاتا ہے؟
نایاب نے ایک آخری جملہ لکھا:
"یہ ایک جھوٹی کہانی ہے، جو شاید مکمل طور پر سچ ہو۔"
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 3 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
**عنوان: "کوانٹم آئینہ: متوازی کائنات کا دروازہ"
**باب 1: پراسرار آئینہ**
سن 1893، پیرس کی ایک قدیم لائبریری میں، پروفیسر ایڈورڈ لارنس ایک صدیوں پرانے آئینے کی تحقیق کر رہے تھے۔ یہ آئینہ سادہ نہیں تھا، بلکہ اس میں کوئی اور ہی دنیا جھلک رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے آئینے کے پیچھے ایک متوازی کائنات موجود ہو۔
ایک رات، جب پروفیسر اس آئینے کا معائنہ کر رہے تھے، اچانک آئینے کی سطح لہرانے لگی۔ جیسے ہی انہوں نے ہاتھ بڑھایا، وہ آئینے کے اندر کھینچ لیے گئے۔
**باب 2: متوازی کائنات**
پروفیسر خود کو ایک بالکل نئی دنیا میں پاتے ہیں۔ یہ جگہ روشنی اور سائے کا عجیب امتزاج تھی، جہاں عمارتیں کشش ثقل کے بغیر معلق تھیں، اور وقت مختلف رفتار سے بہہ رہا تھا۔ یہاں کے لوگ شفاف، نیلی روشنی کے بنے ہوئے تھے، جو ذہن کے ذریعے بات چیت کرتے تھے۔
یہاں کے حکمران، "زیفن"، نے پروفیسر کو بتایا کہ یہ دنیا "کوانٹم ریلم" کہلاتی ہے اور یہ دنیا ہمارے زمان و مکان سے باہر ہے۔ یہ دنیا سائنس اور جادو کا امتزاج تھی، جہاں خیالات کو مادی شکل میں ڈھالا جا سکتا تھا۔
**باب 3: واپسی یا قید؟**
زیفن نے پروفیسر کو خبردار کیا کہ اگر وہ یہاں زیادہ دیر رکے، تو وہ واپس نہیں جا سکیں گے، کیونکہ کوانٹم ریلم میں وقت کی فریکوئنسی زمین سے مختلف تھی۔ ہر ایک دن یہاں زمین پر سو سال کے برابر تھا۔
پروفیسر نے جلد واپسی کا فیصلہ کیا، لیکن جیسے ہی وہ آئینے کی طرف بڑھے، ایک تاریک قوت نے ان کا راستہ روک لیا۔ یہ "نیبروس" تھا، جو روشنی کا مخالف تھا اور پروفیسر کو وہیں قید کرنا چاہتا تھا تاکہ زمین کی دنیا کا علم چرا سکے۔
**باب 4: فیصلہ کن لمحہ**
پروفیسر کو ایک انتخاب دیا گیا: یا تو وہ یہاں ہمیشہ کے لیے رک جائیں اور کوانٹم ریلم کا علم حاصل کریں، یا پھر زمین پر واپس جا کر اس راز کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں۔
کوانٹم ریلم میں زیفن نے پروفیسر کو ایک طاقتور کرسٹل دیا، جس کی مدد سے وہ نیبروس کا سامنا کر سکتے تھے۔ لیکن نیبروس نے اپنا ایک جال بچھا رکھا تھا۔ اس نے پروفیسر کو ایک فریب میں مبتلا کر دیا، جہاں وہ اپنے ماضی اور مستقبل کو ایک ساتھ دیکھ سکتے تھے۔
**باب 5: کرسٹل کی طاقت**
پروفیسر نے زیفن کے دیے ہوئے کرسٹل کو استعمال کیا۔ جیسے ہی اس نے اسے اپنے دل کے قریب رکھا، پورا ماحول بدلنے لگا۔ روشنی اور تاریکی کے درمیان ایک جنگ چھڑ گئی۔ نیبروس نے پروفیسر کو اپنی دنیا میں قید کرنے کی آخری کوشش کی، لیکن کرسٹل کی روشنی نے اسے ختم کر دیا۔
پروفیسر نے جلدی سے آئینے کی طرف دوڑ لگائی اور جیسے ہی وہ اس کے قریب پہنچے، سب کچھ تیزی سے گردش کرنے لگا۔ اچانک، وہ زمین پر واپس آ گئے۔
**باب 6: حقیقت یا وہم؟**
پروفیسر نے خود کو اسی لائبریری میں پایا۔ آئینہ اپنی جگہ پر موجود تھا، لیکن اب اس کی سطح مکمل طور پر ساکن تھی۔ اس نے سوچا، کیا یہ سب حقیقت تھی یا ایک خواب؟ لیکن جیسے ہی اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، وہاں وہی کرسٹل موجود تھا۔
یہ راز ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوا تھا… شاید کبھی، کسی اور کوانٹم ریسرچر کو یہ آئینہ دوبارہ ملے اور وہ اسی سفر پر نکلے، جس پر پروفیسر ایڈورڈ لارنس گئے تھے۔
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 2 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text
عورت ڈرتی ہے اونچی آواز سے، عورت ڈرتی ہے غصہ کرنے سے، عورت ڈرتی ہے اپنے پسندیدہ مرد کے دور ہونے سے، عورت ڈرتی ہے مرد کی توجہ بٹنے سے، عورت ڈرتی ہے عزت پہ حرف آنے سے۔ لیکن کبھی تم نے سوچا کہ جب عورت اتنی ڈرپوک ہوتی ہے تو بعض عورتیں ظالمانہ حد تک مضبوط کیسے ہوتی ہیں؟ کیسے وہ اتنی بہادری سے دنیا کا مقابلہ کرتی ہیں؟
اس کی وجہ صرف ایک ہے—جب عورت کا اعتبار توڑا جائے، تب وہ خود کو خاموشی سے سمیٹ کر، خود کو جوڑ کر، توڑنے والوں کو تنہا ہی توڑ دیتی ہے۔ جب عورت کی محبت میں کسی اور کو شریک کیا جائے، تب وہ اپنے دل میں موجود اپنے پسندیدہ شخص کو نکالنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتی۔ جب عورت کی اولاد کی خوداعتمادی پر نفسیاتی حملہ کیا جائے، تب وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتی، بلکہ اپنی اولاد کی سب سے مضبوط ڈھال بن جاتی ہے۔
یہ وہی عورت ہے جسے دنیا کمزور سمجھتی ہے، مگر جب وقت آتا ہے تو وہ اپنی ہی راکھ سے دوبارہ جنم لیتی ہے۔ وہ اپنی ہمت، صبر اور قربانی سے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی نسلوں کو بھی سنوارتی ہے۔
سوچو، جب یہ کمزور عورت ایک طاقتور مرد کو پیدا کرتی ہے، اسے پال پوس کر جوان کرتی ہے، تو کیا سے کمزور سمجھا جا سکتا ہے ؟
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 1 مارچ 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes