Tumgik
Photo
Tumblr media
جنابِ وزیراعظم ! تفتیش ایسے ہوتی ہے | حیدر جاوید سید یہ 1982ء کے جاڑے (سردیوں) کے دن تھے لاہور کے شاہی قلعہ میں پہنچے سال بھر سے اوپر ہو چلا تھا۔ گزرے ایک سال کے دوران تفتیش کرنے والوں نے جو ستم ڈھائے ان کا تصور دہلا دینے کے لئے بہت تھا۔ زندگی گزر نہیں رہی تھی بلکہ گھسٹ رہی تھی۔ ایک سرد دوپہر میں پھر سے کوٹھڑی سے نکا ل کر تفتیش کاروں کے حضور ملزم پیش کیا گیا۔ تفتیشی ٹیم کے سربراہ نے ملزم کی شکل دیکھتے ہی غلاظت میں لتھڑی بدترین گالیوں سے سواگت کیا۔ گالیوں کا سلسلہ رکا تو رعونت بھرے لہجے میں بولا ’’میں حیران ہوں کہ تم جیسے غدار کو اب تک زندہ کیوں رکھا گیا ہے۔ مار کے گاڑھ دیتے۔ یہاں کتنے مر کھپ گئے‘‘۔ ایک لمبا بھاشن تھا اور تقریرِ حب الوطنی۔ کچھ دیر بعد گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے بولا ، ’’طبیعت صاف کراوئے اس حرام زادے دی‘‘۔ کوٹھڑیوں سے لانے والے اہلکار وحشیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ۔ سواگت خوب ہوا۔ دلِ ناتواں نے جم کر سواگت کا لطف لیا۔ نقاہت ، سال بھر کی اسیری، اس دوران ہوا تشدد ان سب کی وجہ سے دلِ ناتواں، جسم کو کتنی دیر تک کھڑا رکھ پاتا؟ بالآخر دھم سے زمین پر چاروں شانے چت۔ اس دوران کانوں میں آواز پڑی ، ’’کھڑا کر اوئے اس۔۔۔۔ دے یار نوں۔ سالا ڈرامہ بہت کردا اے‘‘۔ زمین سے اٹھائے گئے وہ بھی ٹھوکروں سے۔ ملزم قدموں پر کھڑا ہوا تو سوال ہوا ،’’کیا کہتے ہو فوج کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے اور بغاوت کا ایجنڈا کس نے دیا تھا‘‘؟ ’’فوج کے خلاف نہیں منتخب حکومت اور وزیرِ اعظم کاتختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے خلاف لکھا بھی اور چند نشستوں میں باتیں بھی کیں۔ مگر یہ تو میں اپنے تحریری بیان میں لکھ چکا ہوں‘‘۔ ’’زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں کہ پہلے تم نے کیا لکھا اور کہا۔ اب جو پوچھا جارہا ہے اس کا جواب دو۔ تمہارے رسالے (ہفت روزہ جدوجہد کراچی) کو پیپلز پارٹی ہر مہینے کتنی امداد دیتی تھی؟ تمہیں تنخواہ نصرت بھٹو دیتی تھیں‘‘؟ ’’جی نہیں۔ میرا پیپلز پارٹی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ جب تعلق ہی نہیں تھا تو کیسی امداداور کیسی تنخواہ‘‘ میں نے جواب دیا۔’’بَن اوئے اس کنجر نوں تے لٹکا چھت نال (باندھو اس کنجر کو اور چھت کے ساتھ لٹکاؤ) حکم کی تعمیل ہوئی اور ملزم کو الٹا لٹکا دیا گیا۔ ایک بار پھر تشدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ کمر اور کوہلے پر پڑنے والی بید کی ضربیں شدید تھیں۔ تکلیف اس سے شدید مگر داد فریاد کیسی ؟ کی بھی کیوں جاتی؟ انسانوں کی شکل میں موجود ان وردی پوش درندوں کو زعم تھا کہ وہ بڑے ماہر تفتیش کار ہیں اور پتھروں کو بھی بولنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میری بدقسمتی یہ تھی کہ مجھ سے جن معاملات کی تفتیش پچھلے سال بھر سے جاری تھی۔ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ فوجی حکومت کا مخالف ہونے سے مجھے رتی برابر بھی انکار تھا نہ شرمندگی مگر یہ ڈرامہ باز تفتیش کار کبھی مجھے بھارت پہنچا دیتے کبھی کہتے سوویت یونین کے کراچی قونصلیت سے رقم لے کر اس اسلامی انقلاب (ان کے بقول جنرل ضیاء کی آئین شکنی اسلامی انقلاب تھا) کے خلاف سرگرم عمل ہوں۔ اب یہ بات نکال لائے کہ جس ہفت روزہ (جدوجہد کراچی) میں میں کام کرتا تھا وہ پیپلز پارٹی کی امداد سے چلتا تھا اور مجھے تنخواہ محترمہ نصرت بھٹو ذاتی طور پر دیتی تھیں۔ اس تنخواہ کا حق ادا کرنے کے لئے میں اسلامی فوجی حکومت کی مخالفت کرتا تھا۔ کافی دیر تک الٹا لٹکنے اور تشدد سہنے کے بعد اس تفتیش کار کے کہنے پر مجھے چھت سے بندھے رسے سے اتارنے کا حکم دیا۔ سانس بحال ہوئے تو اس نے پوچھا ’’ہاں بھئی اتنی ڈوز کافی ہے سچ بولنے کے لئے یا مزید خوراک دوں‘‘؟ ’’آپ کے سوالات میری سمجھ سے باہر ہیں۔ جن باتوں سے میرا تعلق ہی نہیں ان کے حوالے سے کوئی بیان کیسے دے دوں‘‘؟ ’’تم بھونکتے بہت ہو حرامی۔ یہ شاہی قلعہ ہے تمہاری اماں کا گھر نہیں جو تمہاری بکواس سنتے رہیں گے۔ کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا تمہاری۔ کپڑے اتارو اس بہن ۔۔۔۔ کے‘‘ کچھ ہی دیر میں ٹھنڈے فرش پر ننگے پاؤں الف ننگا کھڑا تھا۔ ’’ہاں اب تم شروع ہو گے بولنا یا پھر مزید ڈوز دی جائے‘‘؟ ’’میں نے جو عرض کرنا تھا کر دیا‘‘۔’’ کتے کے بچے تمہاری ماں کا۔۔۔۔ جو سوال کیا ہے اسی کاجواب دو‘‘۔ میری خاموشی پر اس کا غصہ بے قابو ہو گیا اور وہ درندہ صفت اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اورکمرے میں موجود اہلکاروں کے ہاتھوں میں موجود دونوں بید (ڈنڈے) لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ سر، پاؤں، بازو ہر جگہ ڈنڈے برس رہے تھے۔ شدید سردی میں ٹھنڈے فرش پرننگا کھڑا ملزم کتنی دیر تک تشدد سہتا رہا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہوش اس طرح آیا کہ انہوں نے میرے جسم کے نازک حصوں میں مرچیں ڈال دی تھیں۔ ان مرچوں کی جلن میری چیخوں کو نہ روک سکی ، ساری ہمت ہوا ہو ئی اور میں چیخنے لگا۔’’ڈرامے نہ کرو غدار کتے کافر۔ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں سے مال لے کر پیٹ بھرنے والے اب بھونکتے ہو۔ مجھے اپنے سوالوں کے جواب چاہیے‘‘۔ ’’میرے پاس کسی سوال کا جواب نہیں۔ جتنا ظلم کر سکتے ہو کر لو‘‘۔ ’’بھین ۔۔۔ کے بچے ہم ظلم کر رہے ہیں تم پر؟ ۔ تم توغدار ہو۔ بھڑوے تم ہمیں اسلام کے محافظوں کو ظالم کہتے ہو؟ یہی تمہارے آقاؤں کے مال کا اثر ہے جو تم کھاتے رہے ہو۔ وہ ایرانی عورت (محترمہ نصرت بھٹو کا خاندان ایران سے متحدہ ہندوستان آیا تھا اور تقسیم کے وقت کراچی آکر آباد ہوا) تم جیسے نوجوانوں کو خرید کر اسلامی نظام کو ناکام بنانے کی سازش کر رہی ہے‘‘۔ درندہ ایک بارپھر مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ بے رحمی اور غلاظت اس شخص پر ختم تھی۔ ’’اسے اس کی کوٹھڑی میں ڈال آؤ میں دیکھوں گا یہ ماں کا۔۔۔ کتنے دن نہیں بولتا‘‘۔ اپنے کپڑے اٹھائے بوجھل قدموں کے ساتھ اہلکاروں کے ساتھ چلتا ہوا کوٹھڑی تک گیا اور دروازہ کھول کر انہوں نے دھکا دیا میں اندر جا گرا۔ نوٹ:لاہور کے شاہی قلعہ میں ڈیڑھ سال جاری رہنے والی تفتیش کے ایک دن کی کہانی لکھنے کی وجہ پچھلے چند دنوں سے نون لیگیوں کا یہ راگ ہے کہ شریف خاندان اور خود نواز شریف نے پانامہ کیس کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش اور شاملِ تفتیش ہو کر تاریخ رقم کی ہے۔ تفتیش کیسے ہوتی ہے شریفین کو کیا معلوم؟ کاش کبھی ان کا اصلی تفتیش سے پالا پڑ جائے اور پھر معلوم ہو کہ تاریخ کیسے رقم ہوتی ہے جناب وزیراعظم اور شریفین و حواریان کو۔
0 notes
Text
توہینِ مذہب پر مختلف ممالک میں سزائیں-آصف محمود
توہینِ مذہب پر مختلف ممالک میں سزائیں-آصف محمود
ہم بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر ہونیوالی تقریب سے فارغ ہونے کے بعد چائے کی ٹیبل پر آپس میں گفتگو کررہے تھے، موضوع تھا مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں نوجوان مشال خان کی بے دردی سے ہلاکت اور اُس کے بعد ہونے والی پیش رفت۔
پادری شاہد معراج کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی المناک اور افسوسناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اور گرفتار کئے جانیوالے ملزمان کو قرار واقعی سزا ملنی چائیے۔ سردار…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستان کب تک کشمیریوں کے صبر کا امتحان لے گا؟-سعد فاروق
پاکستان کب تک کشمیریوں کے صبر کا امتحان لے گا؟-سعد فاروق
انسانوں کے قتل عام،ٹارچر خواتین کی عصمت دری، معصوم بچوں پر بیہمانہ تشدد اور ان کے قتل میں بدنام زمانہ بھارتی فوج کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 70 سال سے بھارت نے بدترین ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے اور لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی 8 سال سے لیکر 80 سال تک کی کشمیری خاتون بھارتی درندگی کا نشانہ بنی پوری دنیا میں کہیں کسی غیر مسلم کو کانٹا بھی…
View On WordPress
0 notes
Text
قطر سے ایک مکتوب۔پروپیگنڈے سے حقیقت تک۔ ممتاز شیریں
قطر سے ایک مکتوب۔پروپیگنڈے سے حقیقت تک۔ ممتاز شیریں
آپ سب نے گذشتہ دنوں ایک تصویر دیکھی ہوگی جس میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز ، مصری صدر سیسی اور ٹرمپ ایک گلوب پر ہاتھ رکھے کھڑے ہیں اور تمام مسلم ممالک کے نمائندے ان کے پیچھے دست بستہ و صف بستہ کھڑے ہیں اس تصویر نے دنیا کو جو پیغام دیا وہ شاید کسی بڑے خطاب سے بھی ممکن نہیں تھا ۔ قطر ایک جزیرہ نما ملک ہے جس کے تین اطراف خلیج فارس اور ایک طرف اس کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے سعودی عرب نے اپنے…
View On WordPress
0 notes
Photo
Tumblr media
مسند خالی ہوجائے گی تو مجھے پہچانوگے | عامر حسینی رات کا آخری پہر تھا-سردی اپنے جوبن پر تھی-کوفہ کی گلیوں میں سناٹا چھایا ہوا تھا-دور کہیں سے کبھی کبھی کتّوں کے بھوں بھوں وقفے وقفے سے سنائی دے جاتی تھی-
0 notes
Photo
Tumblr media
ک،ق،ن،مسلم لیگ | مجتبیٰ شیرازی سارا کیا دھرا تو نام نہاد معاشی ترقی کے چیمپین فیلڈ مارشل ایوب خان کا ہے جنہوں نے بنیادی جمہوریت کے نام پر سماج کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو سیاست کے سفید جوڑے پہنا کر اپنی انتخابی بارات کا حصہ بنایا ۔ایک انتہائی محتاط اندازے کے باوجود اُن حضرات میں اکثریت پولیس یا مقامی انتظامیہ کے مخبروں یعنی ٹاؤٹس کی تھی ۔اب کسے نہیں معلوم کہ ان مخبروں کا معاوضہ چھوٹے موٹے جرائم کے سرکاری اجازت نامے ہوتے ہیں۔سیاست کا سفید جوڑا زیب تن کرنے کے بعد ان مخبروں کو پتہ چلا کہ بڑے بڑے جرائم کے لئے بھی سرکاری اجازت ناموں کا حصول ممکن ہے لیکن اس کے لئے ڈنڈے پر چھوٹا موٹا جھنڈا ہونا ضروری ہے سو سرکاری سر پرستی میں بڑے بڑے جرائم کا آغاز ہوا۔ رہی سہی کسر ضیاالحقی غیر جماعتی س��است نے نکال دی کہ انہی سفید پوش مجرموں کی سفارشات پر محکمہ مال ،پولیس اور دیگر قومی اداروں میں ان کے بھائی بند بھرتی ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سفید پوشوں کے ڈیرے یک جا اور یک جہت ہوگئے ۔اس سلسلے میں تفصیلات کے لئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ۔ایک زمانے تک تھانوں میں بستہ الف اور بستہ ب کے نام سے جرائم پیشہ افراد کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا تھا اگر اُس ریکارڈ کو ملاحظہ کیا جائے تو عصر حاضر کے بہت سے راہنماؤں کے شجرہائے اصل کھولے جاسکتے ہیں۔ان سفید پوشوں کی نسلیں چھینا جھپٹی اور مارا ماری کے معزز پیشے سے وابستہ رہی ہیں۔ یہ رویے اور رحجانات اُن کے توسط سے سیاست میں نہ صرف در آئے ہیں بلکہ اب تو راسخ اور ناقابل تنسیخ بھی ہو چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حوالے سے نون لیگی ارشادات کو اگر اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ان ارشادات کے انداز اور لفظیات کی سنگینی پر حیرت میں خاطر خواہ کمی اور افاقہ ہو سکتا ہے۔چھانگا مانگا مارکہ وزارت اعلیٰ مہم سے سپریم کورٹ پر حملے تک جہاں نون لیگ کی داستانِ حریت زباں ز د عام ہے وہاں مشرف بہ پرویز کاروائیوں کے دوران ان شیروں کی جانب سادھی گئی امن پسندی ان کی اصلیت کھولنے کے لئے کافی ہے۔بظاہر کمزور کے مقابلے میں یہ دہاڑتے شیر خاکی چیتوں کے سامنے بھیگی بلی نہیں بلکہ چوہوں کی طرح بلوں میں گھس کر اقتدار کی ملائی پر ہاتھ صاف کرنے کی کوششوں میں عافیت جانتے ہیں۔ کچھ سیانے یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ جملہ سرگرمیاں زیب داستان سے زیادہ نہیں ۔پردے کے کہیں بہت پیچھے کہانی کا طے شدہ انجام اس قسط وار داستانِ غیض و غضب سے بہت مختلف ہے ۔یہ مار دہاڑ سے بھر پورقسطیں عوام کو سوچے سمجھے انجام کے بارے میں الجھن میں رکھنے کے لئے ہیں ۔سیانے اپنے اس تجزیے پر ماضی کو گواہ بناتے ہیں کہ عظمیٰ ہو یا عالیہ ، ایف آئی اے ہو یا پی آئی اے دو چار قسطوں میں پانچ سات مارکٹائی اور رونے دھونے کے سین ہوتے ہیں اور پھر ہیروئین انہی سفید پوشوں کے ساتھ ناچتی دکھائی دیتی ہے۔کنونشن ہو یا ق،ض ہو یا ن مسلم لیگ مسلم لیگ ہوتی ہے اورہیروئین ہمیشہ ک،ق،ض،ن پڑھتی انہی درگاہوں کی ہو جاتی ہے
0 notes
Photo
Tumblr media
امام علیؑ | سید حسن اسلام میں شخصیت پرستی کی اگر بات کی جائے تو مسلمان اپنے بزرگوں کے کارنامے، فضائل اور انکی عقلی باتیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اسلام آئے چودہ سو سال ہوئے ہیں اور اس عرصہ میں ہزاروں شخصیات ایسی گرزی ہیں جن کا تذکرہ ادبی، جنگی، اور فلسفی لحاظ سے آج بھی زندہ ہے۔ انہیں شخصیات میں ایسی بھی شخصیات زیرِغور ہیں جنہیں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مذہب کے لوگ بھی پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں۔ ایسی ہی شخصیات میں ایک ایسا نام جو ہر مسلم اور غیر مسلم کے لبوں پر ہے، میں بات کر رہا ہوں اسلام کی بہادرترین شخصیت امامِ متقیان حضرت علیؑ ابن ابی طالب کی۔ تاریخِ اسلام کے چند ایسے ناموں میں آپ کا شمار ہوتا ہے جنہیں اسلام کی بااثر شخصیات میں شمار کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مکہ مکرمہ میں جناب ابو طالب ابن عبدالمطلب کے گھر میں آنکھ کھولنے والے اس بچے کا نام علیؑ تجویز کیا گیا۔ ماں نے نام حیدرؑ رکھا۔ اگر میں امام علیؑ کے ناموں اور دیگر القابات کا ذکر کرنے بیٹھ جاؤں تو شائد میں تھک جاؤں گا میرا قلم جواب دے دے گا مگر امام علیؑ کے نام اور القابات ختم نہ ہوں۔ یہ دور وہ تھا کہ اسلام نہیں آیا تھا اس سے پہلے ہی امام علیؑ رسولِ خداﷺ کے ساتھ رہنے لگے تھے۔ اور جب آپﷺ نے اسلام کا اعلان کیا تو امام علیؑ گویا اس وقت چھوٹے تھے مگر پہلے فرد تھے جنہوں نے اسلام کو اپنا دین چنا۔ بلکہ میں یوں کہوں کہ اسلام چاہتا تھا علیؑ مجھے اپنے لیے چنے۔ جس طرح علیؑ نے اپنی پیدائش کے لیے کعبہ نہیں چنا بلکہ دوران طواف کعبہ کی دیوار میں دراڑ پڑتی ہے، مادرِ حیدرؑ اندر تشریف لے جاتی ہیں جہاں آپؑ کی ولادت ہوئی۔ اللہ اکبر۔ جب سے اسلام کو یہ شرف حاصل ہوا امام علیؑ نے اعلانِ یقین کیا تب سے لے مرتے دم تک جب جب اسلام کو آپؑ کی ضرورت پڑی آپ نے اپنی موجودگی کو یقینی بنایا۔ کوئی جنگی مرحلہ ہو یا علمی مسئلہ امام علیؑ ہر وقت حاضر رہے۔ رسولﷺ نے متعدد احادیث میں ذکرِ علیؑ کیا اور فضائل علیؑ بیان کیے۔ جیسا کہ اہل سنت کتب میں درج ہے کہ رسولﷺ فرماتے ہیں کہ" میں شہرِ علم ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہیں"۔ اسی طرح قرآن میں متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے امام علیؑ سے متعلق آیتوں کا نزول فرمایا۔ جن میں آیت تطہیر، آیت مباہلہ، سورۃ دہر کی 3 مخصوص آیات اور اس کے علاوہ متعدد آیات ہیں جہاں چھپے الفاظ میں فضائل علیؑ ملتے ہیں۔ جب آخری حج کر کے رسولﷺ واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے تو وحی ہوئی کہ" وہ پیغام دو جس کا حکم ہوا، اور اگر نہ دیا تو سمجھو رسالت ہی ادا نہیں ہوئی"(مفہوم) گویا لوگوں کو جمع کیا گیا اور جہاں یہ ماجرا ہوا وہ مقام غدیر خم کا تھا۔ رسولﷺ نے تمام حاجیوں کے سامنے امام علیؑ کا ہاتھ بلند کر کے ولایت کا اعلان کیا اور بتا دیا "من کنت مولا فہذا علی مولا" یعنی جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علیؑ مولا ہیں۔ اور میرے بعد علیؑ میرے جانشین ہیں۔ حدیث میں یہ بھی ملتا ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ "میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اور قرآن اور اپنی عطرت" یہاں عطرت سے مراد امام علیؑ اور دیگر امامؑ ہیں۔ امام علیؑ شجاعت کا علمبردار، بہادری کا پیکر اور تلوار چلانے کے ماہر تھے۔ خدا نے آپ کو ذوالفقار سے نوازا تھا۔ کمال ذوالفقار سے زیادہ آپ کا تھا کہ زورِ بازو اتنا ہونا چاہیے تھا کہ ذوالفقار کو سنبھالا جائے۔ جس جنگ میں آپ نے حصہ لیا اس جنگ کا نقشہ پلٹ دیا۔ جنگ بدر ہو یا احد، خندق ہو یا خیبر تمام جنگیں امام علیؑ نے تمام کی جیت اسلام کی جھولی میں ڈالی۔ ایک عرصہ کے بعد لڑی جانے والی جنگیں صفین و جمل بھی امام علیؑ کے حصہ میں آئیں اور دشمنِ دین کو ہار نصیب ہوئی۔ امام علیؑ کے اگے مرحب و عنتر جیسے بھی نہیں چل سکے تو یہ ننھے منافقین کیسے چل پاتے۔ علم میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ دورِ رسالت میں آپؑ کچھ نہیں بولتے تھے کیوں کہ اس وقت خود رسولﷺ اس کام کے لیے موجود تھے مگر رحلتِ رسول خدا ﷺ کے بعد آپؑ نے جو دعویٰ کیا کوئی اور کر ہی نہیں سکتا تھا۔ منبرِ رسولﷺ سے آپ نے صداِ سلونی بلند کری جس کا مطلب تھا آو میں دعوت دیتا ہوں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کو جو پوچھنا ہے پوچھو اس سے پہلے تم مجھے کھو دو۔ انصاف کی کیا دلیل ہوگی جو یہ کہے کہ مسلمانوں کا فیصلہ قرآن سے یہودیوں کا فیصلہ توریت سے اور عیسائیوں کا فیصلہ انجیل سے کروں گا۔ امام علیؑ پر لکھنے والے لکھتے چلے گئے مگر فضائل ختم نہیں ہوئے۔ اور میں نے تو ابھی شروع ہی کیا تھا۔ البتہ کوشش کروں گا کہ ہر پہلو الگ الگ سے بیان کروں۔ کام مشکل اور تحقیق والا ہے مگر کوشش میں حرج نہیں۔ آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ ہمیں سنتِ رسولﷺ پر عمل اگر کرنا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ کس طرح امام علیؑ نے اپنی زندگی گزاری۔ کیوں کہ سنتِ رسولﷺ پر عمل کرنے والی شخصیت میں امام عالی جنابؑ کا اول نمبر ہے۔
0 notes
Text
جی ہاں یہ ہندوستان ہی کی تصویر ہے-سہیل انجم
جی ہاں یہ ہندوستان ہی کی تصویر ہے-سہیل انجم
اس ایک تصویر نے ہندوستان کی روح کو ہلا کر اور ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کسی کو یقین نہیں آرہا کہ یہ ہندوستان ہی کی تصویر ہے۔ اس ہندوستان کی جو اکیسویں صدی میں برق رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ اس ہندوستان کی جس کے بارے میں حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ بدل رہا ہے۔ آج ہر دردمند دل یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ آخر اس قسم کی تصویریں کب تک دیکھنی پڑیں گی۔ لیکن شاید اس سوال کا کوئی جواب کسی…
View On WordPress
0 notes
Photo
Tumblr media
منجمد حالت میں کھڑا پاکستان-ایاز امیر پاکستان کا پرانا سیاسی نظام، جس کے سرخیل شریف ہیں، جان لیوا لمحات سے گزر رہا ہے۔ ہر چیز اسی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ شریفوں پہ گرنے والے افتاد کوئی بے معانی عمل نہیں، یہ کہیں زیادہ تیز و تند نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ کچھ سادہ لوح یار دوست ان سب واقعات کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ ڈاکٹر جانسن نے کیا خوب کہا تھا کہ حب الوطنی بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔ آج ایسا لگتا ہے کہ آخری پناہ گاہ جمہوریت بن گئی ہے۔ یہ کیا خوب بات ہوئی کہ دنیا جہان کی لوٹ مار کریں، جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کے انبار لگائیں، باہر اس دولت کو خوبصورت طریقے سے چھپائیں لیکن جب آپ سے کچھ سوال کیا جائے، جیسا کہ اب شریف خاندان سے کیا جا رہا ہے، تو آپ چلا اُٹھیں کہ یہ تفتیش نہیں، جمہوریت پر ایک حملہ ہے۔  نوجوان شریف، حسین نواز، کو تو حسین شہید سہروردی بھی یاد آ گئے۔ سہروردی فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں عتاب کا نشانہ بنے تھے۔ حسین نواز کہتے ہیں کہ سہروردی سے لے کر اب تک سیاست دانوں پر ہی ظلم ڈھائے گئے ہیں۔ گویا اُنھوں نے خود کو اور اپنے والد صاحب کو نہ صرف سہروردی بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی صف میں بھی لا کھڑا کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شریفوں کا سب سے بڑا طبقاتی دشمن تو بھٹو تھا‘ جنہوں نے اُن کی اتفاق فائونڈری کو قومی تحویل میں لیا۔ مزید برآں، جس فوجی آمر نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا، اُس کے سب سے چہیتے سیاسی شاگرد نواز شریف تھے۔ تو اگر آج بھٹو کے ساتھ ہی اپنے آپ کو کھڑا کرتے ہیں تو یہ عمل دلچسپی سے خالی نہیں۔  یہ کوئی سازش نہیں ہو رہی۔ الزام جنرل راحیل شریف پر لگتا تو پھر بھی کوئی تُک تھی۔ اُن کے بارے میں وزیرِ اعظم صاحب کو اور اُن کی جماعت کو بہت سی شکایات تھیں۔ یہ بھی شکایت تھی کہ 2014ء کے دھرنوں کے پیچھے اُس وقت کے کچھ جرنیل ریشہ دوانیاں کر رہے ہیں‘ لیکن سازش کا الزام موجوہ فوجی سربراہ‘ جنرل قمر باجوہ، پر بالکل مضحکہ خیز ہے۔ بلکہ جنرل باجوہ کو تو خود بھاری تنقید کا سوشل میڈیا پر سامنا کرنا پڑا۔ یہ تاثر پھیلا کہ ڈان لیکس کے حوالے سے اُنھوں نے شریفوں پہ ہاتھ ہولا رکھا ہے۔ عدلیہ کے بارے میں بھی عجیب سے عجیب تر افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ عدلیہ کی کیا شریفوں سے لڑائی ہے؟ ابھی تک تو یہ کہا جا رہا تھا کہ عدلیہ کی قیادت... اس سے زیادہ کہنا مناسب نہیں ہے... شریفوں کی طرف جھکائو رکھتی ہے۔ اب ایک دم اُن سے ہمدردی رکھنے والے حلقے یہ تاثر پھیلا رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ ان کے خلاف کسی قسم کی دشمنی رکھتی ہے۔ شریف خاندان جتنا مشکلات کی دلدل میں پھنس رہا ہے، اتنی ہی احمقانہ سازش کی تھیوریاں اُڑائی جا رہی ہیں۔  ابھی کچھ عرصہ پہلے تک عقل کا تقاضا یہی سمجھا جا رہا تھا کہ اگلے انتخابات میں شریف خاندان کی جیب میں ہیں۔ اور اس یقین کے لیے یہ دلیل یہ دی جا رہی تھی کہ عدلیہ بھی ان کے ساتھ ہے، اور دوسرے جی ایچ کیو میں بھی معاندانہ رویہ رکھنے والی قیادت نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی جے آئی ٹی نے اپنے کام کا آغاز کیا، ان سب خوش فہمیوں کے غباروں سے ہوا نکلنا شروع ہو گئی۔ اور میڈیا میں موجود شریفوں کے ہمدرد، جن کی تعداد کم نہیں ہے، دہری سازش کی باتیں کرنے لگے۔ ایک سازش شریف خاندان کے خلاف اور دوسری جمہوریت کے۔ گویا جمہوریت اور شریف خاندان کو ایک دوسرے کے نعمل البدل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ مرتبہ حکمران طبقے کو دوسری بار مل رہا ہے۔ جب نواز شریف کو 1999ء میں عہدے سے ہٹا کر جیل میں ڈالا گیا تو راتوں رات فوجی آمریت کی چھتری تلے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے جمہوریت کے چمپئن بن گئے۔  جلاوطنی کے دوران سعودی میزبانوں نے اُنہیں ہر ممکن آرام فراہم کیا، اُن کی رہائش کے لیے ایک محل مختص کیا گیا۔ ظاہر ہے دستر خوان پُرتکلف ہوتا اور کیونکہ خود سے کسی چیز کا مطالعہ کرنے کی سردردی کبھی نہیں لی تو نمازِ مغرب کے بعد پاکستانی پریس میں شائع ہونے والے اُس دن کے وہ مضامین باآواز بلند پڑھ کر سنائے جاتے جن میں فوجی حکومت پر تنقید اور نواز شریف کی توصیف کی گئی ہوتی لیکن تمام تر سعودی آسائشوں کے باوجود دونوں شریف بھائی مقدس سرزمین کی بجائے گناہ گار مغرب کی فضا میں سانس لینا چاہتے تھے۔ پہلے شہباز شریف نے مقدس سرزمین سے جانے میں کامیاب ہوئے۔ اُنھوں نے ایک تحریری درخواست کی جس کے صفحات پر اوپر نیچے اُنھوں نے دستخط کیے کہ کمر کے درد کے علاج کے لیے اُن کا نیویارک جانا ناگزیر ہے۔  یہ ایک چکوالی، جنرل مشرف کے انتہائی قریبی دوست، ریٹائرڈ بریگیڈئیر نیاز احمد آف دولمیال تھے جنہوں نے شریف خاندان کی وکالت کرتے ہوئے شہباز شریف کو نیویارک جانے کی اجازت دلوائی۔ بعد میں نواز شریف کی لندن روانگی میں بھی اُنہی کا ہاتھ تھا۔ اُس وقت شریف فیملی کے پاسپورٹس ریاض میں پاکستانی مشن کے پاس تھے۔ بریگیڈیئر صاحب کی مہربانی سے پاسپورٹس خاندان کو واپس ملے تھے۔ جب نواز شریف لندن گئے تو اُن کا قیام کہاں تھا؟ اُنہی فلیٹس میں جن کی ملکیت ��ور منی ٹریل کے بارے میں جے آئی ٹی تحقیقات کر رہی ہے۔  لیکن اگر سازش نہیں تو جو سٹیج پاکستان میں سجتا جا رہا ہے اُس کے معانی کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید شریف خاندان کا ماضی ہے جو اُن کے دامن گیر ہو رہا ہے۔ اگر یہ سازش ہے تو خود ساختہ ہے اور اس کا سکرپٹ کسی اور نے نہیں، شریفوں نے ہی لکھا ہے۔ بدقسمتی اُن کی یہ ہے کہ پاناما کی بلا اُن کے سر پر آسمان سے گری، ورنہ نہ سکینڈل بنتا، نہ پرانے راز فاش ہوتے، نہ حسین نواز وغیرہ کو کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑتا۔ لیکن دشمنوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کسی پاکستانی ہاتھ نے اس مسئلے کو مرنے نہیں دیا تو وہ عمران خان کا ہے۔ نہ صرف اُنھوں نے اس مسئلے کو زندہ رکھا بلکہ سپریم کورٹ تک پہنچا دیا، اور پھر معاملات اپنی رفتار پکڑتے گئے۔ سپریم کورٹ کے پاس معاملہ آیا تو شریف خاندان کی مشکلات تب اجاگر ہوئیں جب اُن کے پاس پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے الزامات کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ تھا، نہ رقم کی ترسیل کا کوئی ثبوت، نہ کوئی دستاویز، نہ کوئی قابلِ یقین گواہی۔ لے دے کے حکمران خاندان کو اُن دو قطری خطوط کا سہارا لینا پڑا جن کی بدولت شبہات تو کیا دور ہونے تھے، طنز و مزاح کا دسترخوان بچھ گیا۔ تو کہاں ہے سازش؟ کیا کوئی پسِ پردہ ہاتھ ہے جو ان واقعات کو کنٹرول کر رہا ہے؟ کیا کوئی خفیہ ایجنسی ایسا کر رہی ہے؟  شریف خاندان بہت سے کیسز اور معاملات میں بچ نکلے ہیں۔ قدرت کی اُن پہ یہ خاص مہربانی سمجھیں۔ لیکن اب وہ ایک ایسی مشکل سے دوچار ہیں جس سے بچ نکلنا آسان نہیں لگتا۔ اورکیونکہ وہ صاحبِ اقتدار ہیں، اس صورتِحال کی قیمت مملکت کو بھی چکانی پڑ رہی ہے۔ حکمرانی یوں لگتا ہے کہ رک گئی ہے۔ پاکستان ساکت و جامد کھڑا لمحات کی گنتی کر رہا ہے۔ یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا تو جکڑے ہوئے پہیے آزاد ہوں گے اور ملک آگے کی طرف جا سکے گا۔  dunya.com.pk
0 notes
Photo
Tumblr media
اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے-گل نوخیز اختر اگر آپ ابھی تک ریاض ہسپتالوی صاحب سے نہیں ملے تو سمجھ لیں کہ آپ کی کوئی دُعا کام آ گئی ہے۔ موصوف ہسپتال میں رہنے کے اتنے شوقین ہیں کہ جس دن گھر میں بیٹھے بور ہو رہے ہوں‘ ایک انگڑائی لیتے ہیں اور کسی ہسپتال کی طرف چل پڑتے ہیں۔ انہیں بیمار ہونے کی بیماری ہے۔ سر میں معمولی سا درد بھی محسوس ہو تو فوراً گھر میں شور مچا دیتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ دن میں چھ دفعہ ایمبولینس کال کرنا ان کا دل پسند مشغلہ ہے۔ اب تو کئی دفعہ ریسکیو 1122 پر کال کریں تو آگے سے آپریٹر خوشگوار موڈ میں پوچھ لیتا ہے 'اور سنائیں ہسپتالوی صاحب! اللہ نہ کرے کوئی خیریت تو نہیں؟‘‘۔ اب ذرا تھوڑا سا ہسپتالوی صاحب کے بارے میں بتاتا چلوں۔ آپ کی عمر 60 سال ہے‘ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب بچوں کی شادی ہو چکی ہے اور گھر میں اب تین بہوئیں‘ ہسپتالوی صاحب کی اہلیہ اور وہ خود ہوتے ہیں۔ بیٹوں کو شکایت ہے کہ ان کے باپ نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا‘ اپنی زندگی انہوں نے اپنی محنت سے بنائی ہے جبکہ ہسپتالوی صاحب کا کہنا ہے کہ 25 ہزار روپے کی نوکری میں انہوں نے بچوں کو پال پوس کر جوان کر دیا ‘ شادیاں کر دیں‘ یہی بہت ہے۔ ہسپتالوی صاحب کو صحت مند رہنے سے نفرت ہے۔ بیماری اور نقاہت ان کا پہلا پیار ہے۔ سگریٹ بھی اسی جذبے سے پیتے ہیں۔ ایک دفعہ کسی دوست نے انہیں امپورٹڈ سگریٹ کی ڈبیا گفٹ کی تو ایک نظر دیکھنے کے بعد منہ بنا کر واپس کر دی کہ 'میں صرف کینسر والے پیتا ہوں‘۔ رات کو سوتے ہوئے جناب کا ہاتھ بھی سن ہو جائے تو فرط جذبات سے مغلوب ہوکر شور مچا دیتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ آئے دن ڈاکٹر سے اس اُمید پر اپنا چیک اپ کرواتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی تو کوئی 'خوشخبری‘ سننے کو ملے گی۔ ان کے گھر والے شدید عذاب میں مبتلا ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا بڑا بیٹا بتا رہا تھا کہ ابا جی نے ایک عجیب کام شروع کر دیا ہے‘ رات کے کھانے میں سالن میں 'گٹکا‘ ڈال کر کھاتے ہیں کیونکہ کہیں پڑھ لیا تھا کہ گٹکا کھانے سے کینسر ہو سکتا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جتنا وہ بیماری کے لیے ترستے ہیں اتنا ہی بیماری ان سے دور بھاگتی ہے۔ وہ جتنی زیادہ بد پرہیزی کرتے ہیں اتنے ہی صحت مند ہوئے جاتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح پتا ہے کہ تربوز کے بعد پانی پینے سے ہیضے کا خطرہ ہوتا ہے‘ لہٰذا وہ تربوز کے ساتھ نہ صرف پانی پیتے ہیں بلکہ کئی دفعہ تربوز کے ٹکڑے چائے میں بھگو بھگو کر بھی کھاتے ہیں... اس کے باوجود ہیضہ تو دور کی بات ان کے پیٹ میں درد تک نہیں ہوتا۔ مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینا ان کی عادت ہے‘ اس کے باوجود نہ ان کے چہرے پر پھلبہری کے نشانات نمودار ہوئے نہ کوئی اور مسئلہ ہوا۔ موصوف بیماری کے اتنے ترسے ہوئے ہیں کہ پچھلے دنوں زکام ہوا تو قبلہ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی‘ فوراً دوستوں کو گروپ میسج میں یہ خوشخبری سنائی کہ 'ہیپاٹائٹس سی‘ کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ہسپتالوی صاحب کوئی بہت زیادہ مذہبی انسان نہیں‘ اس کے باوجود جب جب نماز پڑھتے ہیں انتہائی خشوع و خضوع سے اپنے لیے بھرپور بیماری کی دُعا کرتے ہیں۔ محلے میں کسی کے شدید بیمار ہونے کی اطلاع سنتے ہیں تو بھاگ کر پہنچتے ہیں اور پتا کرتے ہیں کہ مریض کو یہ بیماری کیسے لگی؟ اس کے بعد ہر وہ کام کرتے ہیں جس کے بعد یہ بیماری انہیں بھی لگ سکے... لیکن بیماری ان سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔ لوگ ڈاکٹر سے بیماری کا علاج کرانے جاتے ہیں لیکن ہسپتالوی صاحب ڈاکٹر کے پاس بیماری لگوانے کے طریقے پوچھنے جاتے ہیں۔ ایک دن ٹی وی میں سن رہے تھے کہ سخت گرم پانی سے نہانے کے بعد یکدم ٹھنڈے یخ پانی سے نہایا جائے تو پورا جسم اکڑ جاتا ہے اور انسان کو فالج ہو سکتا ہے۔ فوراً گیزر آن کیا‘ سخت گرمی میں پانی مزید گرم کیا‘ ایک ٹب میں پانی بھر کے اس میں دو پٹیاں برف کی ڈالیں... پہلے گرم پانی میں تڑپتے ہوئے غسل فرمایا‘ پھر برفیلا پانی خود پر انڈیل لیا... ایک جھرجھری سی لی اور کچھ لمحوں کے لیے پتھر کے ہو گئے۔ چکر کھا کر گرے اور بمشکل کپڑے پہن کر رینگتے ہوئے باہر نکلے۔ گھر میں شور مچ گیا۔ ہسپتالوی صاحب بتاتے ہیں کہ وہ دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ بس اب وہ کبھی چلنے کے قابل نہ ہو پائیں... لیکن دعا قبول نہیں ہوئی۔ دس پندرہ منٹ بعد ہی سارے اثرات ختم ہونا شروع ہو گئے اور ہسپتالوی صاحب دوبارہ پہلے والی پوزیشن میں آ گئے۔ اُس رات وہ بہت روئے‘ خدا سے شکوہ کیا کہ مجھ سے ایسی کون سی خطا ہو گئی ہے کہ میری دعا قبول ہی نہیں ہوتی۔ اسی دوران انہیں تھوڑی سی کھانسی آئی‘ دل میں اک لہر سی اٹھی کہ شاید 'ٹی بی‘ ہو گئی ہو‘ فوراً ہسپتال پہنچے... لیکن مایوسی ہوئی‘ ساری رپورٹس نارمل تھیں۔ پچھلے دنوں مجھے رات کے وقت ہسپتالوی صاحب کے بیٹے کا فون آیا کہ ابا جی کی حالت شدید خراب ہے اورکچھ ہی دیر میں ان کا آپریشن ہونے والا ہے۔ فون سنتے ہی میں نے جلدی سے گاڑی نکالی اور ہسپتال کی طرف دوڑا دی۔ میں ان کے بیٹے سے پوچھنا بھول گیا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے؟ تاہم پوچھنا ضروری بھی نہیں تھا‘ اپنی صحت کے ساتھ ہسپتالوی صاحب جو 'کھلواڑ‘ کرتے رہتے تھے ان کی وجہ سے ایسی خبر آنا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ مجھے حیرانی اس بات کی تھی کہ کچھ روز پہلے تک تو ہسپتالوی صاحب کی تمام رپورٹس نارمل تھیں‘ پھر اب اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ نوبت آپریشن تک آ گئی۔ میں وارڈ میں داخل ہوا تو ہسپتالوی صاحب کا منجھلا بیٹا بھاگتا ہوا میرے پاس آ گیا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ میں نے اسے تسلی دی اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ گھبرا کر بولا 'ابا جی نے زہریلی گولیاں کھا لی ہیں‘۔ میں اچھل پڑا... زہریلی گولیاں؟ یعنی خود کشی؟ بیٹے نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا... جی ہاں... اور اب ڈاکٹر ان کے معدہ صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہتے ہیں بچنے کی امید بہت کم ہے۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا... مجھے یقین تھا کہ ہسپتالوی صاحب نے بقائمی ہوش و حواس یہ حرکت کی ہے اور صرف اس لیے کی ہے تاکہ وہ ہسپتال داخل ہو سکیں۔ اُس رات اُن کی اہلیہ سمیت ان کی ساری فیملی ہسپتال میں کسی بُری خبر کے انتظار میں موجود رہی۔ دو گھنٹے بعد ڈاکٹرز نے خوشخبری سنائی کہ اب ہسپتالوی صاحب کی حالت خطرے سے باہر ہے لیکن انہیں دو دن ہسپتال میں ہی رہنا ہو گا۔ دو دن بعد جب ہسپتالوی صاحب ہمیشہ کی طرح خوش و خرم ہسپتال سے باہر نکل رہے تھے تو میں نے ان کے کان میں پوچھا 'حضور بڑی مشکل سے خود کشی کا کیس ہوتے ہوتے بچا ہے‘ یہ کیا حرکت تھی؟... خدا کے لیے دوبارہ ایسا نہ کیجئے گا‘۔ ہسپتالوی صاحب چلتے چلتے رک گئے... میری طرف دیکھا اور نم آلود آنکھیں صاف کرتے ہوئے آہستہ سے بولے 'زہر کی گولیوں کے بدلے مجھے دو دن کے لیے اپنے بیٹے مل گئے... دو دن کے لیے سب کا دھیان میری طرف ہی رہا... دو دن کے لیے مجھے لگا جیسے میں بھی زندہ ہوں...‘‘۔ dunya.com.pk
0 notes
Photo
Tumblr media
رمضان اور غیر مسلم-ممتاز شیریں ہمیں کتنا اچھا لگتا ہے جب ہمیں کوئی غیر مسلم "السلام علیکم " کہتا ہے یاہماری کسی بات کے جواب میں "انشااللہ "کہتا ہے یا رمضان کے احترام میں روزے دار مسلمانوں کے سامنے کھانے پینے سے احتراز کرتا ہے !لیکن بطور پاکستانی مسلمان شاید ہی ہم نے کبھی سوچا ہو کہ کسی غیر مسلم کو ہمار ے منہ سے کیا سننا اچھا لگتا ہے ۔ کسی ہندو کو اُس کے مذہب کے مطابق سلام کرنا تو دور کی بات ، یہاں تو یار لوگوں کا ایمان ہیلو یا گڈ مارننگ کہنے سے خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔اِس ایمان کا معاملہ تو یہ ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی ہم ایک دوسرے کو یوں مبارک بادیں دینا اور وصول کرنا شروع کردیتے ہیں جیسے اس ماہ ہمارے وہ تمام گناہ بھی دھل جائیں گے جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے حالانکہ جس قسم کے گناہوں کا ہم ارتکاب کرتے ہیں اُن کی معافی تو روز محشر بھی ملنا مشکل ہے ۔ کسی کو بھٹی میں زندہ جلا دینا ، یتیم بھتیجے کی جائداد ہڑپ کر جانا ، بچوں کے ہاتھ پیر توڑ کے بھیک منگوانا ، محنت کشوں سے غلاموں کی طرح کام لینا ، کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرکے بیچنا،عورتوں پر تشدد کرنا ، مزدوروں سے بیگار لینا ، جعلی ادویات بیچنا ،لوگوں کے گردے نکال کے فروخت کرنا،بہتان لگانا، جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا۔ مکروہ گناہوں کی چند ایسی مثالیں ہیں جن کی معافی محض رمضان کے روزے رکھنے سے نہیں مل سکتی ۔وہ غفور الرحیم ہی نہیں قہار اور عادل بھی ہے ۔سو۔اگر کسی شخص کا خیال ہے کہ وہ بے گناہ کا قتل کرکے یا کسی کا گردہ بیچنے کے بعد محض اس لئے بخشا جائے گا کہ اُس نے رمضان کے روزے رکھ لیے ہیں تو پھر معاذاللہ ایسا شخص خدا سے" بارگیننگ "کرنا چاہ رہاہے ۔ بات غیر مسلموں کی ہو رہی تھی۔ مسیحی بھائیوں کی زبان سے اللہ کا شکر ہے سن کر خوش ہونا ہمیں آتا ہے مگر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا کچھ فرض بھی ہے ۔کیاہی اچھا ہو اگر آج رمضان کی برکت سے ہم قرآن و حدیث میں وہ احکامات بھی پڑھ لیں جو غیر مسلموں ، ان کے عقائد اور ان سے سماجی اور سیاسی تعلقات کے بارے میں دئیے گئے ہیں ، ذرا دیکھیں توہمارا دین کیا کہتا ہے۔ ملاحظہ ہو سورة المائدہ کی آیت 5: "آج تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے" کیا کوئی بتا سکتا ہے دین کی کس روایت کے تحت ہم غیر مسلموں کے برتن علیحدہ رکھتے تھے ،بعض لوگ تو شاید اب بھی یہ حرکت کرتے ہوں ،جبکہ قرآن کا واضح حکم موجود ہے کہ اہل کتاب کا کھانا حلال ہے اِس سے مراد یہ بھی ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے جیسے یہودی جانور کو ذبح کرتے ہیں جسے" کوشر" کہا جاتا ہے ۔غیر مسلموں کے بارے میں حکم ہے :'اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بے ادبی سے بے سمجھے برا (نہ ) کہہ بیٹھیں ۔ ' (سورة الانعام ، آیت 108)۔ یعنی کسی کے خدا کو برا نہ کہو ، کہیں وہ تمہارے خدا کو بھی برا کہنا شروع کردیں۔ مشرکین سے سلوک کے بارے میں سورة توبہ میں ارشاد ہوا :'اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواست گار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو ۔اس لئے کہ یہ بے خبر لوگ ہیں ۔' (سورة توبہ ، آیت 6) ۔ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن میں مشرکین اور غیر مسلم یا اہل کتاب کی علیحدہ درجہ بندی کی گئی ہے ، مشرکین سے مراد خاص طور سے مشرکین مکہ ہیں جنہیں قرآن براہ راست مخاطب ہے، جبکہ اہل کتاب یا دیگر غیر مسلم اِن کے بعد آتے تھے ، گویا مشرکین مکہ وہ لوگ تھے جو اسلام کے بد ترین دشمن تھے ، اُن کے بارے جب قرآن کا یہ حکم ہے کہ اگر اُن میں سے کوئی پناہ کا طلب گار ہو تو اسے پناہ دو تو باقی غیر مسلموں سے تواسلام کہیں زیادہ حسن سلوک کا مطالبہ کرتا ہے۔ قرآن کا ایک اور حکم دیکھئے :'جن لوگو ں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھرو ں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ۔ خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ " (سورة الممتحنہ ، آیت 8)۔ مسلمانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ پالیسی کا تعین یہاں قرآن نے ہمارے لئے کردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات قرآن کا مظہر تھی ، بے شمار احادیث اور واقعات ہیں جن میں غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلق کا بیان کیا گیا ہے ۔ بخاری شریف کی ایک روایت ملاحظہ ہو، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ نبی ﷺ ا س کے لئے کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے ۔ہم نے کہا :یا رسول اللہ ﷺ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔ (صحیح بخار ی ، جلد 2، باب 49) ۔ایک لڑائی میں حضرت اسامہ بن زید نے ایک شخص کو قتل کر دیا باوجود اس کے کہ وہ کہہ چکا تھا کہ مسلمان ہے۔ آپ ﷺ کو علم ہوا تو آپ ﷺ حضرت اسامہ پر ناراض ہوئے اور ان کے یہ جواز پیش کرنے پر کہ وہ شخص دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا 'کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا ۔ ' گویا یہ اصول طے کر دیا گیا کہ ایک شخص اپنا جو عقیدہ بیان کرے گا وہی درست مانا جائے گا ، کسی کو اُ س عقیدے پر شک کرنے کا اختیار اللہ کے نبی ﷺ نے نہیں دیا۔رسول اللہ ﷺ نے غیر مسلموں کو مسجد نبوی میں اجازت دی ، ہمسایوں سے بلا تفریق مذہب حسن سلوک کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں ،تمام ادیان کے پیروکاروں کو اپنے اپنے دین کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی اجازت دی ،کہیں غیر مسلموں کی عبادت گاہیں گرائیں نہ انہیں عبادت کرنے سے روکا گیا ، بلکہ مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں، فتح مکہ کے موقع پر اپنے ان بد ترین دشمنوں اور مشرکوں کو بھی معاف فرمایا جن میں سے کئی تو آپ ﷺ کے قریبی ساتھیوں کے قاتل تھے۔ مذہبی رواداری کی مثال میثاق مدینہ سے بڑھ کر کیا دی جا سکتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے معاہدہ کیا کہ جس میں تمام مذاہب کے لوگوں اور قبائل کو ایک امت کہا گیا ، معاہدے کے مطابق کسی فریق کی جنگ کی صورت میں مسلمان غیر مسلموں کی مدد کریں گے اور غیر مسلم ، مسلمانوں کی اعانت کریں گے ۔ یہودیوں کے تعلقات جن قوموں سے دوستانہ ہوں گے ان کے حقوق مسلمانوں کی نظر میں یہودیوں کے برابر ہوں گے۔ ہمیں رمضان پورے جوش و جذبے کے ساتھ منانا چاہیے مگر اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم اقلیتوں کے جذبات اور ضروریات کا بھی خیال رکھنا چاہیے جنہیں شاید ہم نہایت آسانی کے ساتھ نظر انداز کر دیتے ہیں ۔آپ کے گھر ، دفتر یا فیکٹر ی میں اگر کوئی غیر مسلم ہے تو اسے کھانے پینے کی پوری آزادی دیں ، ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے
0 notes
Photo
Tumblr media
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے-شاہانہ جاوید صبح سے انتظار ہے کب مدھوبالا تشریف لائیں اور کب پھیلا ہوا کچن اور برتنوں کا اشنان ہو یعنی دھلائی. یہ ہماری وہ مہربان ہیں جو ہفتے میں دو چھٹیاں تو ضرور مارتی ہیں ہائے باجی کل چھوٹی کو بخار ہوگیاتھا اس لیے نہیں آئی کبھی چھوٹے کو موشن آگئے، کبھی چرسی میاں نے اتنا مارا کہ ہلا بھی نہیں جارہا تھا. آپ کہیں گے ہم انھیں مدھو بالا کیوں کہہ رہے ہیں تو جناب چاہے کتنی ہی پریشان کیوں نہ ہوں کتنی ہی تکلیف میں ہوں، محترمہ کے چہرے پہ ایک ٹیڑھی مسکراہٹ سجی رہتی ہے. صبح آتے ہی سلام کے بعد باجی جی پہلے چائے پلاؤ جسم میں گرمی چستی آئے تو کام شروع کروں.پہلے ہم ان کی خاطر داری کرتے ہیں جب جاکر وہ کام شروع کرتی ہیں اور کام کے ساتھ ساتھ اتنی باتیں اور محلے بھر کے قصے سنا سنا کر پکا دیتی ہیں ہمیں کہناہی پڑتا ہے بس کر بھئی اتنی غیبت نہیں کرتے. ان کے پاس مشوروں کا ٹوکرا بھی ہے جو وقفے وقفے سے ہم پر انڈیلتی رہتی ہیں باجی آپ بھی نا وہ نان اسٹک پتیلیاں لے لو مانجھنے کا جھنجھٹ ہی ختم. ہا ہائے یہ کیا صبح سے گوشت گلانے کے لیے چڑھا دیتی ہیں، کوکر میں پکاؤ منٹوں میں گل جاتا ہے اب ہم اسے کیا بتائیں پریشر کوکر سے ہمیں ڈر لگتا ہے کب ہمارے ملکی نظام کی طرح پھٹ جائے اور چاروں طرف سالن بکھرا ہوا ہو ہم کپڑوں پر چپکی بوٹیاں نوچ رہے ہوں سیاستدانوں کی طرح جنہیں اس ملک سے سب کچھ لوٹ کھسوٹ کر بھی سکون نہیں ملتا. مدھو بالا جی پریشر کوکر میں کھانا مزےکا نہیں پکتا وہ ہم پر ایک مسکراہٹ نچھاور کر کے نیا حکم صادر کرتی ہیں ��اجی آپ بھی نا سامنے لال کوٹھی والی بیگم کی طرح ��وپ خرید لیں سچی پوچھا لگانے کا مزا تو موپ میں ہے ہم ابھی اپنے دفاع میں کہنے والے ہی ہوتے ہیں کے ایک اور اعلان صادر ہوتا ہے باجی آج کپڑے زیادہ ہیں مشین لگالیتی ہوں چلو بھئی ہمیں مانتے ہی بنتی ہے دیکھو رنگین کپڑے ہاتھ سے دھونا ، کوئی پرواہ نہیں باجی جی. ایک اور مہرباں ہیں مالی صاحب جی انھیں صاحب اس لیے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے آتے ہیں اپنی مرضی کے وقت پر کبھی دس بجے دن کو کبھی چار بجے آتے ہی پانی کا ایک گلاس ان کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے یہ ان کا فرمان ہے. تھوڑا سستانے کے بعد لان کی صفائی شروع کرتے ہیں چونکہ ہمیں باغ بانی کا شوق ہے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ پودوں کی دیکھ بھال میں لگ جاتے ہیں، باجی کھاد ڈالے دن ہو گئے کھاد کی دو بوریاں لے آتا ہوں ساتھ مٹی بھی. ارے بھیا ابھی پندرہ دن پہلے تو کھاد ڈالی تھی اتنی جلدی جلدی کھاد نہیں ڈالتے پودے جل جاتے ہیں، اگر غلطی سے کھاد ڈالنے کا کہہ دو تو باجی تین سو کی بوری ہوتی ہے دو بوری کے چھ سو دے دیں، بھیا ہم خود نرسری گئے تھے ڈیڑھ سو کی بوری ہوتی ہے لیکن مہربان کی مہربانی سے پیسے دینے پڑتے ہیں جی یہ ہے زبردستی کی ٹھگی. ایک اور مہرباں ہیں سبزی والے جی روزانہ زبردستی بیل بجا کر سبزی خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں باجی آج پیاز سستا ہے، آج آلو لے لیں، ٹماٹر کے بھاؤ گر گئے ہیں ہم منع کرتے رہیں گے کہ کچھ نہیں لینا، باجی بوہنی نہیں ہوئی آپ لے لیں بسم الله کرکے اب چونکہ ہم نرم دل بھی ہیں بلاوجہ ہی کچھ نہ کچھ خرید لیتے ہیں بعد میں سوچتے ہیں حضرت کچھ مہنگا نہیں دے گئے . ہاں دودھ والے مہربان کا تو ذکر ہی نہیں آیا وہ محترم صبح ہی صبح بیل پر ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول جاتے ہیں جب تک سارا گھر نہ اٹھ جائے گیٹ تک جاتے جاتے سو آوازیں لگائیں سنتے ہی نہیں ہم شکایت کریں کہ کل دودھ پھٹ گیا تھا، باجی آپ نے ڈیپ فریزر میں نہیں رکھا ہوگا. دودھ پتلا آرہا ہے پانی ملارہے ہو کیا نہیں جی بھینس ہی کچھ زیادہ دودھ پی لیتی ہے چارہ کم کھارہی ہے ایسا ہی دودھ دےرہی ہے سنی آپ نے منطق، سائنس کو بھی مات دے دی. آخری مہرباں تو رہ ہی گئے جی کچرا اٹھانے والےمحترم وہ ہمارے لیے محترم ہیں کیونکہ ہمارے گھر کا سارا کچرا اٹھا کر صفائی کردیتے ہیں. ان کا انداز ہی نرالا ہے کبھی روز آتے ہیں کبھی دو دو دن نہیں آتے ہم ان کی خاطر کچرا سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے سنبھال کر کیوں، کیونکہ ان کا نادر شاہی حکم ہے کہ باجی گیلا کچرا الگ تھیلی میں، گتا کاغذ کا کچرا الگ تھیلی میں ، خالی شیشے کی بوتلیں اور چھوٹی موٹی ٹوٹی پھوٹی اشیاء الگ ہم ان کی خاطر کچرا چننے والوں کی طرح پہلے کچرا بینتے ہیں پھر الگ الگ باندھ کر رکھتے ہیں کہ جناب جب آئیں گے تو ہم ان کے حوالے یہ خزانہ کریں گے. کبھی ہم سوچتے ہیں جب ہم ملک سے باہر رہتے تھے تو یہ سب کام منٹوں میں نبٹا لیتے تھے اور ا س کے علاوہ بھی دوسرے کام کرتے تھے یہ اپنے ملک میں آکر ہم کس طرح کے مہربانوں میں پھنس گئے ہیں لیکن جناب چونکہ ہمارا ملک ایک الگ مزاج کا ہے اس لئے یہ انداز بھی یہاں پر برداشت کرنا پڑرہا ہے ان مہربانوں کے بغیر زندگی محال ہے اور اگر یہ نہ ہوں تو اکیلے یہ سب کام کرنا ممکن نہیں یہاں ہم سب ایک بڑے خاندان کی صورت میں رہتے ہیں جہاں دکھ سکھ سانجھے ہیں اور ان مہربانوں کا ہونا بھی ضروری ہے. ٹرن ٹرن بیل کی آواز ہمیں ہوش میں لے آئی کہیں مدھوبالا واپس نہ چلی جائیں تو ہم تو چلے گیٹ کھولنے اور آپ لوگوں کے لیے یہ تحریر چھوڑے جارہے ہیں پڑھئیے اور سر دھنئیے.
0 notes
Photo
Tumblr media
کوئٹہ کا انسانی المیہ | میثم اینگوتی کوئٹہ شہر پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور آبادی کے لحاظ سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کا دارالحکومت ہے ۔ کوئٹہ شہر سطح سمندر سے تقریباً 1700 میٹر سے 1900 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور اپنے بہترین معیار کے پھلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ یہ بنیادی طور پر خشک پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے جہاں سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔کوئٹہ میں بلوچ پشتوں اور ہزارہ قبائل آبادہیں۔ بلوچستان جہاں عرصہ دراز سےانتشار اور تفرقے کی آگ لگی ہوئی ہے۔اس آگ کو سلگانے میں جہاں ناداں اور خیانت کار حکمرانوں کا ہاتھ ہے وہاں مغرور اور خود سر بلوچ سرداروں کا ہاتھ بھی ہے۔ قیام پاکستان کے فورا بعد بلوچ عوام پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیااور ان کے اندر احساس محرومی کو پیدا کیا گیا۔چاہے وہ قبائلی سرداوں اور وفاقی بیوروکریسی کے درمیاں مک مکاؤ کا دور ہو یا بلوچ سرداروں اور وفاقی اداروں کے درمیاں اختیارات اور اقتدار کی جنگ کا۔ ہر حال میں بلوچ عوام محرومی اور مفلسی کی تصویر بنے رہے۔اقتدار اور طاقت کی ڈور سے دور بلوچ عوام ہمیشہ عسرت اور غربت میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی بلوچ عوام کی اکثریت معدنی وسائل اور دولت سے مالا مال صوبے کی آبادی ہونے کے باوجود غربت اور جہالت کی زندگی گزارتی ہے۔ بلوچ عوام کی غربت و افلاس اور احساس محرومی کا فائدہ بیرونی ممالک نے اٹھایا، خاص کر جب ایک ڈکٹیٹر نے عالمی طاقتوں کی باہمی جنگ میں سادہ لوح مسلمانوں کو ایندھن بنایا۔ اس وقت بلوچوں میں مذہبی عصبیت اور بنیاد پرستی کا بیج بویا گیا۔اور طرح طرح کی دہشت گرد تنظیموں نے کوئٹہ شہر کو اپنا مرکز بنا لیا۔یہی وہ ددور تھا جب عالمی طاقتوں نے بھی بلوچستان پر نظریں گاڑ دیں اور بلوچ عسکریت پسندوں کو نہ صرف سیاسی پناہ دی بلکہ ذمہ دار ذرائع کے مطابق انھیں مالی امداد اور تربیت بھی فراہم کی گئی۔عالمی استعمار نے دنیا کی واحدمسلم ایٹمی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے اپنا کارڈ بڑے شاطرانہ طریقے سے کھیلا۔ بلوچستان میں لگی ہوئی آگ کو مزید ہوا دینے کے لئےخلیجی ممالک سےامداد دلوا کر فرقہ وارانہ تشدد کو بھی فروغ دیاگیا۔بس کیا تھا کوئٹہ کو لسانی اور مذہبی بنیادوں پر قتل گاہ بنادیاگیا۔جیسا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی منظم نسل کشی کے المناک سانحات کے بعد معتبر سیاسی اور مذہبی شخصیت مولانا شیرانی نے اس بات کا بر ملا اظہار کیا کہ شیعہ ہزارہ قبائل کے قتل میں برادر اسلامی ملک سعودی عرب ملوث ہے۔ افسوس صد افسوس ہماری قومی حمیت اور غیرت ختم ہو چکی ہے۔ہم آئی،ایم ، ایف کے قرضوں ، امریکی ڈالر اور خلیجی مملک سے ریال لے کر ڈکار لیتے ہیں۔ہم میں خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا پیارا وطن اپنی خودمختاری کی دہائی دیتا نظر آتا ہے۔ کوئٹہ جو ایک زمانے میں امن و آشتی کا شہر تھا اور لوگ باہمی محبت و اخوت سے رہتے تھے۔لسانیت اور فرقہ واریت کا کوئی وجود نہ تھا۔لیکن جب اسے عالمی طاقتوں کی نظر لگ گئی تو قبرستاں کا سماں پیش کرنے لگا۔کوئٹہ کی تہذیب و ثقافت ، علم و ادب اور فنون لطیفہ اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں ہزارہ قبائل کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ہزارہ برادری اپنا تعلق وسطی افغانستان کے ہزارہ جات سے بتاتی ہے۔لیکن سیاسی عدم استحکام اور منظم نسل کشی کی وجہ سےاب پوری دنیا میں موجود ہیں۔پاکستان میں ہزارہ افراد کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔اور وہ کوئٹہ میں انیسویں صدی سے آباد ہیں۔ انھوں نے زندگی کے تمام میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔۶۵ء کی جنگ کا فاتح ہیروجنرل موسی اور دیگر نامور چمپینزاور سپوت اس دھرتی کو ہزارہ کی ماؤں نے دیئے۔جب کوئٹہ کو عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے وقتی مصالحت کی بنیاد پر دہشت گردوں اور درندوں کے حوالے کیا تو ان کا سب سے پہلا اور آسان شکار ہزارہ قبیلے کے شیعہ عوام تھے۔ بیرونی آقاؤں کے اشارے پر انہیں اپنے وطن اور شہر سے نکال باہر کرنے کے لئے باقاعدہ نسل کشی کا آغاز کیا گیا۔جس کی طرف بی بی سی کی ایک رپورٹ یوں اشارہ کرتی ہے۔ " کوئٹہ میں رہائش پذیر شیعہ ہزارہ اپنے عقیدے اور نسل دونوں کی بنیاد پر نشانہ بنائے جا رہے ہیں اور ہزارہ تنظیموں کے مطابق جہاں تقریبا ایک سال میں ایک ہزار سے زائد ہزارہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں وہیں دو لاکھ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے" ہزارہ شیعہ وکلاء ، ڈاکٹرز، بینکرز، سول و ملٹری آفیسرز ،تاجر، سٹوڈنٹس ، کھلاڑی، مزدور، جوان ،بچے اور مرد و عورت سب کو ایک ایک کر کے نشانہ بنایا گیا۔ کہیں مستونگ میں زائرین کو بسوں سے اتار کر شناختی کارڈز چیک کر کے مارا گیاتو کہیں ہزارہ کی آبادیوں پر مہلک حملے ہوئے ۔ہزاروں افراد مجروح ہوئے اور ہزاروں معذوری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ہزاروں عورتیں بیوہ ہوئیں اور لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔سانحہ کیرانی روڈ ، سانحہ ہزارہ ٹاؤن، سانحہ علی آباد ہزارہ شیعوں کی نسل کشی کا بین ثبوت ہے۔ آج کوئٹہ کے ہزارہ علاقے ویران او قبرستان آباد نظر آتے ہیں۔ ان قبروں کی الگ الگ کہانیاں ہیں۔کتبوں میں شہداء کے نام کے ساتھ تاریخ ولادت و شہادت اور مقام شہادت لکھی ہوئی ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو ہزارہ قبرستان جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ ستم اپنی جگہ ہے کہ ہزارہ شیعوں کے قاتلوں کو مکمل حکومتی ، سیاسی اور انتظامی شخصیات نے پناہ دی ہوئی ہے۔ پھر کیا تھا ؟ کوئٹہ کے در ودیوار ان کے خون سے رنگین ہوتے گئے اور شہر، بازار اور گلیاں ویران ہوتی گئیں۔ آئے روز کے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ نے انھیں اس قدر مجبور کیا کہ وہ اپنی زندگی کے تحفظ کی خاطر دھرتی ماں کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ کاروبار چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہوئے۔ اور جو زندگی کے چراغ کو جلائے رکھنے کے لئے سات سمندر پار جانا چاہتے تھے اور بے نشاں سمندروں نے جن کی زندگی کا دیا بجھا دیا ان کی کہانی بھی بہت پر دردناک ہے۔ شاید کوئٹہ شہرتو مسکرانا بھی بھول گیا ہوگا۔سینکڑوں لاشیں اٹھا کر ابھی ان کا چہلم بھی منا نہیں پاتے کہ دوسرا دھماکہ ہوجاتا ہے۔ جناب صدر ،وزیر اعظم اوروزراءکی طرف سے روایتی مذمتی بیانات اور قاتلوں کو عبرت ناک سزائیں دینے کی یقیں دہانی اور قصہ ختم ۔ میڈیا پر دانشوران قوم نام نہاد مذہبی، سیاسی،سماجی اور انسانی حقوق کے نمائندے بھی اپنے اپنے بیانات ریکارڈ کرا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ دہشت ،بربریت اور وحشت کے کارندے چند دن آرام کرنے کے بعد اپنی خون آشام تلواریں بے نیام ہاتھوں میں لئے کوئٹہ پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ انسانیت کا خون پھر سے ارزاں ہوجاتا ہے۔ اور یہ شیطانی کارندے دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ کہاں ہے ریاستی ادارے، سیکورٹی ایجنسیز ، انسانی حقوق کے علمبردار این جی اوز۔۔۔؟ لیکن یاد رکھنا ہوگا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے.ظلم پھر ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے۔ کفر کی حکومت باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔
0 notes
Photo
Tumblr media
پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان | عرفان اعوان عمران خان نے پاکستانی سیاست میں ایک نئی روایت ڈالی اور نوجوان نسل کو براہ راست سیاست میں لے آیا حالانکہ جس وقت عمران خان سیاست میں نام پیدا کررہا تھااس وقت پاکستان کے کالجز اور یونیورسٹیز میں سیاست پر پابندی تھی اس لیئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پی ٹی آئی نے کالج اور یونیورسٹی سے اپنے آپ کو منوایاہے بلکہ عمران خان نے کالج اور یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ کو باہر رہ کر اپنے قریب کیااور پھر یہی لوگ اس کا ہراول دستہ بنے۔عمران خان نے نوجوانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر جاکر اپنے والدین کو کہیں کہ وہ پی ٹی آئی کوووٹ دیں اور پھر سب نے دیکھا کہ پی ٹی آئی نے اسی لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کیے۔ اسی الیکشن میں عمران خان نے وعدہ کیا کہ وہ نوجوانوں کو ٹکٹ دیں گے اور اسمبلی میں لے کرجائیں گے جس پر کسی حد تک عمل بھی ہوا اور عوام نے ان نوجوانوں کو دل کھول کر ووٹ بھی دئیے۔ وقت نے پلٹا کھایا اور پی ٹی آئی دوسری بڑی جماعت بن گئی اور اب جب الیکشن کا سال شروع ہواجاتا ہے تو دھڑادھڑ پرانے سیاسی گھرانوں اور مختلف جماعتوں کے دھتکارے ہوئے سیاستدان پی ٹی آئی میں شامل ہونا شروع ہوگئے ہیں تو یہ نوجوان نسل کیلئے مقام حیرت ہے کیونکہ 2013کے الیکشن سے پہلے جب لوگ اسی طرح شامل ہونے کا کہتے تھے تو عمران خان کا جواب ہوتا تھا کہ ٹکٹ میں اپنے ورکرز سے پوچھ کردونگا لیکن اب تو شمولیت ہی ٹکٹ کے وعدوں معاہدوں پر ہورہی ہیں ۔ کیا عمران خان اپنی قوم سے مایوس ہوچکا ہے یا اپنے نوجوانوں سے یقین اُٹھ چکا ہے جو الیکٹ ایبلز کی طرف کھنچا چلاجارہا ہے۔ جب الیکٹ ایبلز کی ضرورت تھی تب ڈٹے رہے اور تمام ق لیگ نوا ز شریف سمیٹ کر لے گیا اور اب جب عام لوگوں نے دوسری بڑی جماعت بنا دیا تو گھوڑوں کی سیاست میں کود گئے۔ پچھلے دنوں پاکستان تحریک انصاف کے ایک انتہائی ذمہ دار اورپڑھے لکھے دوست کے پاس بیٹھا تھا تو انہوں نے گفتگو کے دورآن کہا کہ عمران خان کو چاہیے تھا کہ پورے پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں پچاس کے قریب نوجوان اور خواتین کو اپنا امیدوار بنا کر میدان میں ابھی سے اُتار دے اور ان کے الیکشن کی ذمہ داری جہانگیر ترین ، عبدالعلیم خان اور عثمان ڈار جیسے سرمایہ داروں پر ڈال دینی چاہیے ۔پھر پورا ایک سال ان نوجوانوں اور خواتین کی اپنے اپنے شعبے میں خدمات کو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور جلسوں کے ذریعے عوام تک پہنچانا چاہیے ۔ پھر جب ان کے سامنے چاہے بڑے بڑے نام بھی الیکشن میں آگئے تو تحریک انصاف کے یہ امیدوار عوام کی طاقت سے تمام برجوں کو الٹا کررکھ دیں گے ۔ عمران خان تک اگر یہ تجویز پہنچ جائے تو مجھے یقین ہے کہ اس پر ضرور سوچیں گے لیکن ان کے گرد موجود انصاف پینل چونکہ روایتی سیاستدانوں پر مشتمل ہے اس لئے عمران خان کے چاہنے کے باوجود ایسی تجاویز پرعمل مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اب پاکستان تحریک انصاف کے نام نہاد انٹرا پارٹی الیکشن کی طرف آتے ہیں جس میں ایک طرف تو روایتی پرانے چہروں کو عمران خان کے زیرسایہ انصاف پینل کی طرف سے امیدوار نامزد کیا گیا اور دوسری طرف گمنام عام لوگوں پر مشتمل احتساب پینل میدان میں اُتارا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن کمیشن کی الیکشن کروانے والی شرط پوری ہوگئی لیکن وہ تبدیلی نظر نہیں آئی جس کا عمران خان ہمیشہ سے وعدہ کرتے آئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ الیکشن صاف شفاف تھااور تما م لوگوں نے اپنی مرضی سے ووٹ دیا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک ووٹر ایک میسج کے ذریعے پورے پینل کوووٹ دے رہا ہے تو وہی ووٹر تمام امیدواروں کو الگ الگ ووٹ بھی دے سکتا تھا ۔ پھر پتہ چلتا کہ کس طرح بائیس فی صد ووٹرز عمران خان کے خلاف ووٹ دیتے ہیں یا اٹھہتر فی صد شاہ محمود ، جہانگیر ترین ، عبدالعلیم خان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ عمران خان کے پینل میں یونین کونسل لیول کے امیدوار بھی اگر وائس چئیرمین اور جنرل سیکرٹری کے امیدوار ہوتے تو انہوں نے اسی طرح ووٹ لینے تھے کیونکہ پورے پینل کو ووٹ تو ایک ہی جانا تھا جبکہ دوسرے بڑے بڑے نام اگر دوسرے پینل میں ہوتے تو انہوں نے ہارجانا تھا۔ یہ الیکشن اگر پینل کی بجائے امیدوار کی بنیاد پر ہوتے تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوتی اور اسے تاریخ میں لکھا جاتا لیکن افسوس کہ یہاں بھی ایک رسم ہی پوری کی گئی ہے اور عمران خان کے گرد قائم حصار ٹوٹنے سے بچ گیا ہے۔ عمران خان کی نیت اور کوشش پر کوئی بھی محب وطن پاکستانی شک نہیں کرسکتا لیکن عمران خان کوعین عروج پر ایک روایتی گھیرے میں پھنسا دیا گیا ہے اور وہ دن بدن مزید پھنستے چلے جارہے ہیں ۔ جب تک عمران خان کو سیاست نہیں آتی تھی وہ صحیح سمت میں اور کامیاب جارہا تھا لیکن جب سے وہ سیاسی ہوتا جارہا ہے وہ اپنی سمت بھی تبدیل کرتا نظر آرہاہے ۔ قوم کی نظریں ابھی بھی عمران خان پر جمی ہوئی ہیں اور عوام تبدیلی چاہتی ہے ۔ اس تبدیلی کیلئے عمران خان کو حصار سے باہر نکلنا ہوگا ، اپنے فیصلے خود کرنے ہونگے اور یوتھ کو یقین دلانا ہوگا کہ میری کامیابی کی ضمانت الیکٹ ایبلز کی بجائے آپ ہی ہو۔
0 notes
Photo
Tumblr media
سرائیکی سوال اور پیپلزپارٹی کے مجاہدین کا رویہ | حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب کے ایشو پر پچھلے مہینہ بھر سے پیپلزپارٹی اور سرائیکی قو م پرستوں کے درمیان جاری بحث میں دلیل بہت کم لوگوں کا ہتھیار ہے۔ جذبات کی دو دھاری تلوار سے مخالف رائے رکھنے والے کی گردن ہر کوئی مارنا چاہتا ہے۔ پیپلزپارٹی کو سیاسی قبلہ اور سرائیکی وسیب کا محسن قرار دیتے جیالے ”مجاہدین“ ایک طرح کی ہٹ دھرمی کو رزق بنائے ہوئے ہیں تو چند قوم پرست بھی تندوتیز انداز میں لاٹھیاں لہراتے میدان میں موجود ہیں۔ یہ بحث شروع تو سینٹ میں قومی زبانوں کی قرارداد کے بعد ہوئی۔ اس حوالے سے اپنی معروضات ان سطور میں عرض کرچکا۔ مکرر عرض کرنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اوّلاً یہ کہ بھٹو صاحب کی پیپلزپارٹی کی قیادت و ترجمانی اب جن کے ہاتھوں میں ہے وہ سوال کو اسی طرح کفر سمجھتے ہیں جیسے مذہبی جماعتیں۔ اطاعت امیر واجب ہے تو اعلان کیجئے ایک نئے عقیدے کا۔ سیاسی جماعت کوتو سوال بھی سننا ہوتے ہیں اور تنقید بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ چند خامیوں کے باوجود پیپلزپارٹی اب بھی بہرطور سیاسی جماعت ہے البتہ یہ لیفٹ کی پارٹی نہیں سنٹرل لبرل جماعت ہے۔ ثانیاً یہ کہ آخر یہ کیوں تصور کرلیا گیاکہ سرائیکی وسیب کے رائے دہندگان پیپلزپارٹی کے باج گزار مزارع ہیں؟ اس پر ستم یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کے مجاہدین دوسروں کا تمسخر اڑاتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی نے پچھلے دور میں جب جنوبی پنجاب اور بہاول پور صوبے کے لئے دو صوبوں کی قرارداد منظور کی تو پیپلزپارٹی نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ مجھ سے طالب علموں نے اس وقت بھی سوال اٹھایا تھاکہ آخر ایسی کیا مجبوری تھی کہ سرائیکی صوبے کی بات کرتے کرتے اچانک دو صوبوں والی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈال دیا گیا؟ پیپلزپارٹی کا جواب تھاکہ ”جو ایک صوبہ نہیں مان رہے تھے ان سے دو نئے صوبوں کی قرارداد منظور کروانا ہماری سیاسی فتح ہے“۔ اس وقت بھی عرض کیا تھا سرائیکی وسیب کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک کو اس دو صوبوں والی قرارداد کی وجہ سے بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ پنجاب اسمبلی میں دو صوبوں والی قرارداد پہلے منظور ہوئی اور سینٹ سے سرائیکی صوبے کے حق والی قرارداد بعد میں۔ یہاں یہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ سینٹ سے سرائیکی صوبے کے حق میں منظور کروائی گئی قرارداد کی آئینی حیثیت کوئی نہیں  کیونکہ تنہا سینیٹ قانون سازی کا اختیار ہی نہیں رکھتی یہ ایک سیاسی ہتھیار تھا اور طفل تسلی ورنہ جب پیپلزپارٹی اٹھارہویں ترمیم لارہی تھی تو جنرل ضیاءدور کی اس ترمیم کو ختم کیا جاسکتا تھاکہ جس صوبے میں نیا صوبہ بننا ہو اس کی اسمبلی دوتہائی اکثریت سے نئے صوبے کے حق میں منظوری دے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس ترمیم میں ارکان پارلیمان کو پارٹی مالکوں کا بندہ بے دام بنانے کی شق تو شامل کی گئی بہت سارے کالے قوانین بھی اس ترمیم کے ذریعے ختم ہوئے مگر صوبوں کی ازسرنو تشکیل اور نئے صوبوں کے قیام کا کُلی اختیار قومی اسمبلی اور سینٹ کو نہ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے لئے سیاسی سودے بازی کی ضرورت کو نظرانداز کیوں کیا گیا؟ ایک سادہ جواب یہ ہے کہ اے این پی اور شیرپاؤ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے معاملے پر مقامی لوگوں کے جذبات کے برعکس پشتون ولی کی سیاست کررہے تھے آئینی ترامیم کے لئے عددی اکثریت سے محروم پی پی پی مجبور تھی۔ خدا کے بندو یہی ہم کہتے ہیں کہ عددی اکثریت کے بغیر لڑے گئے مقدمے سے سرائیکی عوام کو نقصان ہوا۔ ثانیاً یہ کہ 2013ءکے انتخابات کے لئے پی پی پی کے منشور میں 2008ءکی طرح سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ نہیں تھا۔ پھر یہ انتخابات شفاف تھے ہی نہیں خود زرداری اسے آر اوز کا انتخابات کہتے آرہے ہیں۔ ان انتخابات کو جواز بناکر اٹھتے بیٹھتے یہ طعنہ دیناکہ سرائیکیوں نے کون سا پیپلزپارٹی کو ووٹ دیئے تھے۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رُک کر حساب کرلیجئے کہ 2013ءکے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سرائیکی وسیب سے کتنے ووٹ ملے اور باقی پنجاب سے کتنے۔ دھاندلی برانڈ انتخابات کے نتائج پر رودالوں کی طرح کوسنے اچھی بات نہیں۔ اٹھتے بیٹھتے طعنہ بازی اور تحقیر سے پیپلزپارٹی کی خدمت نہیں کررہے یہ دوست بلکہ سرائیکی وسیب میں اس کے لئے کانٹے بورہے ہیں۔ تاریخ و سیاست کے مجھ سے طالب علم کے لئے پیپلزپارٹی سیاسی جماعت ہے مذہبی عقیدہ ہرگز نہیں۔ سرائیکی قوم پر احسان جتانے والے پیپلزپارٹی کے اقتدار کے پانچ ادوار میں سرائیکی وسیب سے اسے ملے ووٹوں کو کیا کہیں گے۔ بجا ہے کہ بھٹو دور میں تعلیمی ادارے اور دیگر منصوبے منظور ہوئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں بھی اشک شوئی کا اہتمام ہوا۔ 2008ءسے 2013ءکے درمیانی پانچ سالہ وفاقی دور اس میں چار سال تک پیپلزپارٹی پنجاب حکومت کا بھی حصہ رہی۔ سرائیکی وسیب کو اجتماعی طور پر کیا ملا۔ کتنی بڑی صنعتیں‘ درسگاہیں اور دوسرے منصوبے؟ نشتر گھاٹ تک تو مکمل نہ کروا سکی پیپلزپارٹی۔ پیپلزپارٹی کے پانچوں وفاقی ادوار میں قومی اسمبلی میں سرائیکی وسیب سے کتنے ایم این اے تھے اور پنجاب سے کتنے۔ ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہرگز نہیں جو ہمارے دوست بتاتے ہیں یا جواب میں یہ پوچھتے ہیں کہ نواز‘ سراج الحق‘ عمران نے کیا دیا سرائیکی وسیب کو۔ حضور انہوں نے سرائیکی وسیب کا کب نام لیا کب کوئی وعدہ کیا جو ان سے جواب طلب کریں ہم؟ المیہ یہ ہے کہ جس مسئلہ پر تحمل سے دلیل کے ساتھ بات ہونی چاہیے اس پر ٹھٹھہ اڑاتے اور توہین کرنے پر بضد ہیں جیالے۔ پنجاب اسمبلی میں دو صوبوں کی قرارداد تنہا مسلم لیگ (ن) نے پیش کی یا اسمبلی میں موجود جماعتوں نے مل کر؟ ریکارڈ دیکھ لیجئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ چند دوست بضد ہیں کہ سرائیکی لوگ سر جھکائے ان کی باتوں پر ایمان لے آئیں۔ خدا کے بندو ابھی چند دن قبل پی پی پی پارلیمنٹیرین کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بہاول پور کے ایک وفد سے ملاقات میں بہاول پور صوبے کی حمایت کی تجدید کی۔ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی۔ ذاتی طور پر مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سرائیکی کاز کو پیپلزپارٹی نے مین سٹریم میں لے جانے میں بنیادی کردار ادا کیا مگر اس کردار کی ایک حد بہرطور تھی اور ہے۔ مکرر عرض کردیتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے سرائیکی صوبے کے لئے جو پارلیمانی کمیشن بنایا تھا اس میں مولوی عبدالغفور حیدری کو شامل کرنا اتنا ہی غلط تھا جتنا فرحت اللہ بابر جیسے متعصب شخص کو اس کا سربراہ بنانا۔ سو آج کوسنے دینے‘ احسان جتانے اور تمسخر اڑانے کے بجائے ٹھنڈے دل سے صورتحال پر غور کرنا لازم ہے۔ سیاست میں سوالات اور مکالمے کا دروازہ بند ہوجائے تو پھر یہ جمہوری سیاست نہیں ملوکیت کی ایک قسم بن جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی زندہ حقیقت ہے تو سرائیکی ایشو بھی زندہ حقیقت ہے۔ حیرانی ہوتی ہے جب سب جانتے ہوئے بھی یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ سرائیکی ایشو پر گئی۔ جناب گیلانی اس منصب سے غیرآئینی اور غیراعلانیہ جوڈیشل مارشل لاءکی وجہ سے محروم ہوئے مگر وجوہات اور تھیں۔ باردیگر عرض کروں گا کہ اگر پیپلزپارٹی کے دوستوں اور سوشل میڈیا مجاہدین نے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے دوسری رائے کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ مذہبی چمونوں سا سلوک جاری رکھا تو نقصان پیپلزپارٹی کا ہوگا۔ اچھا ایک سادہ سی بات تو بتا دیجئے پیپلزپارٹی کو سندھ کے دیہی علاقے سے 100فیصد سندھی ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ میرا جواب یہ ہے کہ سیاسی جماعت کے حامی بھی ہوتے ہیں اور مخالف بھی۔ سرائیکی مسئلہ پر پیپلزپارٹی کے ترجمان بنے مجاہدین کا رویہ سیاسی طور پر درست نہیں۔ لوگوں سے سوال کرنے کا حق نہ چھینئے۔ جمہوریت کے لئے پیپلزپارٹی کی قربانیاں سر آنکھوں پر مگر حضور قربانیاں دینے والے کارکن اسی سماج کا حصہ تھے آسمان سے نہیں اترے تھے۔ اس لئے تاریخ کو مسخ کرکے دوسری رائے رکھنے والوں کا تمسخر اڑانے کے بجائے اپنی قیادت سے دوعملی اپنانے کی وضاحت طلب کیجئے۔ مجھے یہی عرض کرنا تھا اگر ناگوار نہ گزرا ہوتو۔ بشکریہ روزنامہ خبریں ملتان
0 notes
Photo
Tumblr media
قطر اورسعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے نقصانات | انور عباس انور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ قطر تاریخی طور پر دہشت گردی کی مالی معاونت کرتا آ رہا ہے،رومانیہ کے صدر سے ملاقات کے بعد امریکی صدر نے کہا کہ خلیجی ملک (قطر) کے لیے موقع ہے کہ وہ مالی معاونت ترک کردے،صدر ٹرمپ نے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی معاونت کو جلدی سے روکیں۔ دوسری جانب قطر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کرے گا۔ لگتا ہے کہ ریاض میں ہونے والی عرب امریکہ کانفرنس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں سمیت تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے، کہ عالم اسلام ایک لڑی میں پروئے رہیں، ان کا اتحاد ایسے ہو جیسے تسبیح کے دانے ایک ہوتے ہیں، اسلامی کانفرس تنظیم ، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کا قیام انہیں مقاصد کے حصول کے پیش نظر عمل میں لایا گیا،ان تنظیمات کی تشکیل کے پس پردہ اغراج و مقاسد میں یہ بھی شامل تھا کہ ان تنظیموں کے رکن ممبر ممالک اپنے اختلافات ان کے پلیٹ فارم پر حل کریں گے۔ مراکش کے دارالحکومت رباط میں اسلامی کانفرنس تنظیم کا قیام 25 ستمبر 19699 کو باقاعدہ عمل میں نآیا اور اس پر 57 ممالک کے نمانئدوں نے دستخط کیے ،ا ور 1969 میں رباط فروری 1974 میں لاہور میں ہونے والی اسلامی کانفرنس جس سج دھج اور جوش و جذبے سے انعقاد پذیر ہوئیں وہ اپنی مثال آپ تھیں، لاہور کانفرس میں رکن ممالک نے ہماری اپنی کوتاہیوں کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے والے بنگلہ دیش کو اجلاس میں شریک کرنے پر آمادہ کیا۔ان دو کانفرنسوں کے بعد اسلامی کانفرنس تنظیم رکن ممالک کے مابین پیدا ہونے والے مسائل اور جھگڑوں کو نبٹانے میں کسی خاطر خواہ کردار کی ادائیگی میں کامیاب نہیں ہوئی، 19744 کے بعد اس تنظیم کے اجلاس تو بہت ہوئے ،لیکن کام کچھ نہیں ہوا بس حکمرانوں کی آنیاں جانیاں لگی رہیں، اسلامی کانفرنس کے لیے پہلی آزمائش عراق ایران جنگ تھی، جو 10سال تک جاری رہی، اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق برسراقتدار تھے اور ایران میں امام خمینی کا سکہ چلتا تھا، اور عراق پہ صدام حسین کا طوطی بولتا تھا، امریکا اور بعض عرب ممالک کی آشیر باد سے صدام حسین نے اسلامی انقلاب کو مضبوط کرنے میں مصروف ایران پر حملہ کردیا، اس جنگ میں کیمیکل اور زہریلی گیس والے ہتھیار بھی استعمال کیے گئے ،لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے، دونوں ممالک کی اقتصادیا ت و معاشیات کی چولیں ہل گئیں، سب سے زیادہ نقصان عراق کا ہوا، جس کے باعث اس نے کویت پر چڑھائی کی، نتیجہ عراق پر امریکی اتحادیوں کی بمباری کی صورت نکلا۔ ایران عراق جنگ کے دوران اسلامی کانفرنس کے بہت وفود ایران پہنچے، لیکن امام خمینی نے ایک ہی سوال سامنے رکھا"آپ بتائیں حملہ آور کون ہے عراق یا ایران؟ اسلامی کانفرنس کے وفود جن میں ہمارے حکمران ضیا ئالحق بھی موجود ہوتے تھے، یہ تسلیم کرتے کہ حملہ آور عراق ہے" لیکن امام خمینی کے اس استدلال پر کہ قرآن کا حکم ہے جو مسلمان دوسرے مسلمان سے زیادتی کا مرتکب ہو باقی مسلمان مل کر اس کے خلاف لڑیں، اسلامی کانفرنس کے وفود خاموشی اختیار کر لیتے، لیکن قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوئے عراق کے خلاف اقدامات کرنے سے کنی کتراتے،اسلامی کانفرنس کے لیے اپنی افادیت اجاگر کرنے کے لیے عراق ایران جنگ کو حل کرنا بہترین موقع تھا جو اس نے گنوا دیا۔ اب قطر اور سعودی قیادت میں دیگر عرب ممالک کا تنازع کھڑا ہوا ہے، اسلامی کانفرنس کو اس کے حل کا موقعہ دیئے بنا قطر کے خلاف اقدامات کئے گئے ہیں، اور یہ سب کچھ ریاض میں ہونے والی عرب امریکا اسلامی کانفرنس کے انعقاد کے محض چند روز بعد ہی ہوگیا، ظاہر ہے قطر کے خلاف شکایات پہلے بھی موجود تھیں ، انہیں ریاض کانفرنس میں کیوں حل کرنے کی سعی کی گئی؟ایسا نہ کرنے سے قطر کے خلاف اقدامات سے بو آ رہی ہے کہ یہ سب ریاض کانفرنس میں خصوصی طور پر شریک ہونے والے امریکی صدر ٹرمپ کی ہدایات یا رہنمائی میں کیا گیا ہے۔ قطر پر لگائے گئے سعودی ،بحرینی،اماراتی الزامات نئے نہیں ہیں،قطر اور سعودی عرب کے اتحادیوں کے بیچ اختلافات کی آگ سے دھواں کافی عرصہ سے اٹھتا دکھائی دے رہا تھا،قطر پر الزامات میں کہا گیا ہے کہ قطر خطے میں دہشت گردی کے فروغ میں کوشاں ہے، خاص کر سعودی عرب کو شکایت ہے کہ قطر اس کے مشرقی صوبے قطیف میں حکومت مخالف گروپس کی مدد کر رہا ہے اور شام میں بشار الاسد کے مخالفین کو کچلنے میں اس کے ساتھ تعاون کرتاہے، بحرین کا الزام ہے کہ وہ بحرین میں ایران نواز ملیشیا کی حمایت، نصرت میں ملوث ہے، اس کے علاوہ قطر کے امیر پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے قطر کی سرکاری نیوز ایجنسی کے ذریعہ سعودی عرب کی پالیسیوں پر تنقید کرکے دہشت گردی کے خلاف اسلامی عسکری اتحاد میں رہنے کا جواز کھو دیا ہے۔ان الزامات کی قطر کی جانب سے مسلسل تردید کی جا رہی ہے ،لیکن اس کی کوئی سننے کو آمادہ نہیں، ان الزامات میں صداقت کس قدر ہے ؟ اس کے متعلق حقائق تو کسی انکوائری کے ذریعے منظر عام پر آسکتے ہیں، سعودی اتحاد اس کے لیے رضامند ہر گز نہیں ہوگا۔ سعودی عرب اور اس کے ساتھ کھڑے عرب ممالک جس نوعیت کے الزامات قطر پر عائد کر رہے ہیں ، کچھ ممالک خصوصا ایران ، شام اور لبنان بھی ایسے ہی اعتراضات سعودی عرب پر کرتے چلے آ رہے ہیں، یعنی سعودی عرب شام میں بشارالااسد مخالف گروپوں کی سرپرستی کرتاہے، بحرین میں آل خلیفہ حکومت کے خلاف سراپا اختجاج بحرینی عوام کو کچلنے میں سعودی فورسسز ملوث ہیں، کچھ لوگ چند روز قبل تہران میں دہشت گردی کے واقعات کو ریاض کانفرنس سے جوڑتے ہیں۔ قطر کی حکومت بھی ڈٹ گئی ہے، وہ اپنے موقف پر قائم ہے،قطر نے اپنی پالیسیوں کے باعث عالمی سطح پر اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے، خصوصی طور پر عرب ممالک قطر میں قائم الجزیرہ ٹی وی کی ترقی اور اس کے بے باکانہ تجزئیوں ، اور پروگراموں سے خائف ہیں، عرب ممالک کے تمام ٹی وی چینلوں پر قدغن لگی ہوئی ہے جب کہ الجزیرہ آزادانہ طور پر کام کرتاہے، قطر اب بھی معاملات کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دے رہا ہے، مگر قطر کی ترقی سے خائف سعودی اتحاد کچھ اور ہی سوچ رہا ہے،۔ اس لڑائی میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہوگی، سعودی عرب کی محبت میں غرق ہوکر قطر کے خلاف سعودی عرب کا ساتھ دینے سے بے حد پیچیدگیاں پیدا ہونے کے امکانات روشن ہیں،حکومت کو خاص قطری حکمران خاندان سے اپنے مراسم،کاروباری معاملات اور سعودی عرب سے دینی لگاؤ کے باعث توازن برقرار رکھنا ہوگا کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ مشرق وسطی کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں، اس تبدیلی میں طاقت کے مراکز بھی بدلنے والے ہیں اور اس خطے کی قیادت بھی کسی اور کو منتقل ہونے کی پیشن گوئیاں ہو رہی ہیں۔ ریاض کانفرنس میں اربوں ڈالرز کی اسلحہ خریداری کے سودے آنے والے وقت کی طرف کافی اشارے دے رہے ہے،اس ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قیادت آگے بڑھے اور اسلامی کانفرنس کو متحرک کرے اور مشرق وسطی میں لگنے والی آگ کو آغاز میں ہی بجھانے کی کوششیں کرنے کی ابتدا کرے اور اس بات کا خیال رکھنا بھی لازمی ہوگا کہ جو غلطی جنرل ضیاء الحق نے عراق ایران جنگ کے دوران کی تھی اسے نہ دہرایا ھجائے، یعنی کہ جنرل ضیا نے جھوٹے کو جھوٹا کہنے سے پہلو تہی کرکے اس جنگ کو برسوں پر محیط کیا، اب جھوٹے کو جھوٹا کہنا ہوگا ، اگر قطری غلطی پر ہیں تو انہیں اس بات کا احساس دلایا جائے اور اگر سعودی عرب اور اسے ساتھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں تو انہیں سیدھی راہ دکھانے میں کسی قسم کا "اولا" نہ رکھا جائے، یہی ہمارا اس لڑائی میں کردار ہونا چاہیے۔ورنہ یہ کشیدگی عالم اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ جس سے دشمنوں کے دل کی مرادیں پوری ہوں گی۔
0 notes
Photo
Tumblr media
کیا کلکتہ میں چڑیاں ہوتی ہیں ؟ | عامر حسینی سوشل میڈیا نے کم از کم میری کچھ بھاؤناؤں کو اچھے سے پورا کیا ہے اور میں نے کم از کم سوشل میڈیا کے دور سے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں کبھی اپنی ان بھاؤناؤں کو پورا ہوتے دیکھ پاؤں گا۔ایک بڑا سا ریڈیو جو لکڑی کی میز پہ سر شام رکھ دیا جاتا تھا اور ہم سب گھر والے اس میز کے گرد نیچے فرش پہ بچھی دری پہ بیٹھ جاتے اور بی بی سی اردو کی نشریات سننے لگتے تھے۔مہ پارہ صفدر سے خبریں سنی جاتی تھیں۔کبھی نہ ان کی تصویر دیکھی اور جب وہ پاکستان ٹیلی ویژن پہ خبریں پڑھتی تھیں اس وقت کا بھی ہمیں کچھ پتا نہیں تھا۔ایک دن میری کسی پوسٹ پہ فیس بک پر مہ پارہ صفدر کا لائک دیکھا اور پھر کمنٹ پڑھا تجسس ہوا کہ یہ کون سی مہ پارہ صفدر ہیں تو یہ جان کر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی کہ یہ میری پسندیدہ صدا کار ہیں۔ایک دن دی نیشن میں لکھنے والے لکھاری عباس زیدی فیس بک پہ میرے دوست ہوگئے اور ان سے بات چیت بھی ہونے لگی۔ہفت روزہ نصرت کے زیدی صاحب سے یاد اللہ ہوئی اور پھر چل سو چل۔گوادر سے کے بی فر��ق اور ممبئی سے رحمان عباس۔شام سے احتشام اور بیروت سے امل سعد ، اردن سے مرحوم ناھض ھتر اور بیروت ہی سے الاخبار کے ایڈیٹر ابراہیم امین��ایک دن جان ریس مرحوم لندن سے آگئے جن کی 'انقلاب کا الجبراء' پڑھ کر ہوش جاتے رہے تھے۔خشک مزاج الیکس سے یاد اللہ ہوئی۔ایران سے کامریڈ بہرام اور ایک دن ایرانی اداکارہ و ڈائریکٹر شبنم طلوعی ٹوئٹر سے فیس بک تک آئیں اور ان سے بات چیت ہوئی۔قرۃ العین طاہرہ نامی فلم میں ان کی اداکاری کے جوہر دیکھنے والے ہیں۔باغی اختر عباس اور اپنے آپ کی تلاش میں مگن علی جون صاحب اور دیکھیں یہ آکسفورڈ کے ظہور الحق بھی تو میرے علاقے کے ہونے کے باوجود مجھے یہیں سوشل میڈیا پہ ملے۔میں یہ سب باتیں آج یہاں کیوں لکھ رہا ہوں؟ دلّی دوبارہ جانا چاہتا ہوں ،تازہ وجہ تصنیف حیدر ہیں۔ان کے سامنے بیٹھ کر کچھ دیر ان سے ان کی شاعری سننا چاہتا ہوں۔ممبئی جاکر رحمان عباس سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ممبئی سنٹرل اسٹیشن سے ساجد رشید کے گھر کے قریب ترین اسٹیشن تک ٹرین کا سفر کرنا چاہتا ہوں ۔اس کافی ہاؤس کی یاترا کرنا چاہتا ہوں جہاں کبھی مرحوم باقر مہدی بیٹھا کرتے تھے۔ میرا خواب ہے کلکتہ دیکھنے کا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا۔کلکتہ میں کئی وجوہات کی بنا پہ دیکھنا چاہتا ہوں لیکن اس کی تازہ ترین وجہ جس نے کلکتہ دیکھنے کی خواہش اور شدید کردی ہے سومی اینگلو انڈین بنگالن ہیں۔ان کی باتوں نے کلکتہ دیکھنے کی خواہش کو آگ دکھادی ہے۔اینگلو انڈین کلکتہ کے بنگالی خاندان میں جنمی یہ ادیبہ اور مترجم مجھ سے جب ہم کلام ہوئی تو مجھے یوں لگا جیسے میں کسی سائے سے گفتگو کررہا ہوں۔یہ چار زبانیں جانتی ہے۔تین میں پڑھتی اور لکھتی ہے، دو میں سوچتی ہے۔اور ایک میں خواب دیکھتی ہے۔میں نے پوچھا کہ بغیر سوچے کیسے وہ کونسی زبان ہے جس میں یہ لکھ بھی لیتی ہے اور پڑھ بھی لیتی ہے تو کہنے لگی فرنچ اور ساتھ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔اب مجھے نہیں پتا کہ کھلکھلا کر ہنسی بھی تھی یا نہیں کیونکہ ہماری بات چیت صرف لکھ کر ہورہی تھی اور اس نے کھل کر ہنسنے کا ایموجی بھیجا تھا۔کہتی ہے کہ انگریجی اس کے جذباتی صورت کی زبان ہے ۔لینگويج آف ایموشنل میک اپ۔کہتی ہے کلکتہ اس کے لئے کبھی کولکتہ نہیں ہوسکتا۔اس نے کلکتہ کے ایسے محلے میں آنکھ کھولی جہاں ہر طرف بس اینگلو انڈین بنگالی رہتے تھے اور اس کا گھر ریپن اسٹریٹ میں تھا۔پھر وہاں سے یہ نارتھ کلکتہ میں منتقل ہوگئی جہاں بنگالی کلچر کے کسٹوڈین بہت جیادہ انگریجی زدہ تھے۔انجیلی سائزڈ تھے۔سائیکل رکشہ گھسیٹتے لاغر بدن،ناقابل اعتبار ٹرام،سرخ اینٹوں سے بنی دیواریں اور ارسٹو کریٹس بنگالی ان سب نے اسے اینگلیسائزڈ کردیا۔کیا کلکتہ اب بھی ویسا ہی ہے؟ ہاں نا، جہاں نہیں ہوتا میں تخیل سے کرلیتی ہوں۔ اس کے جواب نے مجھے ساکت کردیا۔میں بھی تو کراچی اور لاہور کو جہاں یہ ویسا نہیں ہوتا جیسا میرے دماغ میں بسا ہوا ہے ویسا کرلیتا ہوں۔میں نے یہ سوچا اور ترنت اسے بتا بھی دیا۔میری پہلی استانی بھی میتھوڈسٹ چرچ کی پیروکار تھیں اور اس نے بتایا کہ وہ بھی متھوڈسٹ اسکول میں پڑھی جہاں بائبل والی انگریجی پڑھی استانیاں تھیں۔اس نے اپنا پہلا محبت نامہ انگریجی میں لکھا۔ایسا پتر جو کبھی جس کے لئے لکھا گیا اسے بھیجا نہ گیا۔شاعری کے اولین شبد بھی اسی زبان میں اس نے لکھے تھے۔فرانسیسی ایسی زبان ہے جس میں وہ ٹھیک سے نہ تو سوچ سکتی ہے اور نہ اس میں محسوس کرسکتی ہے لیکن وہ اس میں لکھ لیتی ہے آسانی سے۔لیکن خواب تو یہ بس انگریجی میں دیکھتی ہیں۔اینگلو ہندوستانی بنگالن کو اپنی زبان سے پیار 21 سال کی عمر میں ہوا جب یہ اپنے دادا کی لائبریری میں گھسیں اور وہاں انہوں نے انگریجی میں ٹیگور کو پڑھا۔کہنے لگی،"تمہارے کو پتا ہے؟ ٹیگور کو بدیشی جبان میں پڑھنا بلاسفیمی خیال کیا جاتا ہے؟میں نے کہا پھر تو زیادہ تر لوگ اس بلاسفیمی کے مرتکب ہوئے ہیں،اس نے فوری کہا نہیں میرا مطلب تھا کسی بنگالی کا پڑھنا۔کہتی ہے میں خواب گر ہوں اور سوشلسٹ بھی لیکن لٹریچر کو کسی ڈسکورس کو سامنے رکھ کر نہیں پڑھتی۔اسے اردون دھتی رائے سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے اور بنّا پھول کو بھی یہ بہت چاہتی ہے۔سیتہ جیت رے کی طرح بننا اس کا خواب ہے لیکن اس کو تعبیر میں ڈھالنے کی اس نے کبھی کوشش نہیں کی۔بنگال کا جب کبھی میں تصور باندھتا ہوں تو بہت تیز،موسلادھار بارش اور بارش سے پہلے بہت حبس اور چپ چپا کردینے والا موسم میرے ذہن میں آجاتا ہے۔لیکن پھر بھی کلکتہ کا نام سنکر مجھ پہ ایک رومانویت سی طاری ہوجاتی ہے۔لیکن یہ اس رومانویت سے بالکل الگ سی شئے ہے جو کراچی میں یاد کی شکستہ دیواروں سے گلے لپٹتے ہوئے مجھ پہ طاری ہوتی ہے یا لارنس باغ میں بدھا کے درخت کے سامنے "اس" کی موجودگی میں طاری ہوا کرتی تھی۔ہارمونیم سے سومی کو عشق ہے اور یہ اسے بجاتی ہے بقول اپنے من میں ڈوب کر۔ایک کلپ اس نے بھیجا ہارمونیم کی موسیقی کا پیچھے چڑیوں کے چہچہانے کی آواز تھی۔"کیا کلکتہ میں چڑیاں ہوتی ہیں ؟" ۔"نہیں تو ، کوے ہوتے ہیں"۔اس نے ذرا چڑ کر جواب دیا تو مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔
0 notes