Don't wanna be here? Send us removal request.
Text
فوزیہ اور اسکے ابّو مجید صاحب
فوزیہ کا جتنا کردار خوبصورت تھا ، جتنی اس کی روح خوبصورت تھی ، اتنا ہی اسکا جسم خوبصورت تھا.سفید اور گلابی رنگ کا اک حسین سنگم تھی وہ.آنکھیں بڑی بڑی اور اتنی گہری کہ دیکھنے والا اپنی خوشی سے ان میں کھو کہ ڈوب سا جائے.گال ایسے نرم اور بھرے بھرے کے چھونے سے انگلیاں اندر دب سی جائیں..خوبصورت سی ناک کے نیچے گلابی ہونٹ، یوں بھرے ہوے جیسے چھونے پہ انسے رس سا ٹپک پڑے گا.گہرے براؤن گھنے لمبے بال ، اتنے لمبے کہ پتلی سی کمر پہ جا کے ٹکراتے تھے.چھاتیاں کپڑوں کے اوپر سے بھی اپنا پتہ بتاتی تھی کہ وہ کتنی موٹی اور کھڑی گول ہیں.پانچ فٹ اور چار انچ قد تھا فوزیہ کی.بھری بھری نرم تھائیز تھی اسکی.خوبصورت نرم ہاتھوں پہ پیاری پیاری سی نرم و نازک سی انگلیاں تھی
رات کے ایک بجے فوزیہ کے والد مجید صاحب شراب کے نشے میں اپنے روم سےنکلے ..لیونگ ایریا میں بس ایک مدھم سا بلب جل رہا تھا..فوزیہ کہ روم کہ پاس پہنچ کہ مجید صاحب نے جب ہینڈل گمایا تو روم لاک تھا..وہ چابیوں کہ گچھے کی جانب بڑہے جو لیونگ ایریا کہ ایک ڈرا میں موجود تھا..ہر چابی پہ لکھا ہوا تھا کہ وہ کس روم کی ہے..اپنی مطلقہ چابی کو ہاتھ میں تھام کر مجید صاحب دوبارہ فوزیہ کہ روم کہ سامنےپوہنچے ..چابی آہستہ سے کی ہول میں ڈالی اور لاک اوپن کیا اور نہایت آہستگی سے ہینڈل گمایا اور آرام سے دروازے کو کھولتا ہوا اندر داخل ہو گئے..اندر کا منظر دیکھ کر فوزیہ کے والد جہاں کھڑہے تھے وہی جم سے گئے
یہ ایک خوبصورت نفیس اور کشادہ سا کمرہ تھا ، کمرے کی ہر چیز سے نفاست نمایاں تھی امپوٹڈ ٹائلز ، خوبصورت پینٹ ، دل کو بھانے والی خوشبو ، آرام دے صوفے، سپرٹ ڈریسنگ روم.سیلنگ میں لگی بہت سی لائٹس میں سے ایک وائٹ مدھم لائٹ آن تھی، جس کی مدھم روشنی نے پورے روم کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا.فوزیہ بیڈ پہ کروٹ بدلے سو رہی تھی..وہ نہ کسی حجاب نہ کسی چادر کی لپیٹ میں تھی ، بس شلوار اور قمیض پہنے ہوے تھی..کھلے لمبے بال چاند سا چمکتا چہرا ، پتلی کمر کہ اوپر ابھاروں کی اٹھان ، پتلی کمر کے پیچھے شلوار سے بغاوت پہ تیار ایس..بھری بھری موٹی تھائز مجید صاحب کو اسے یوں لگا جیسے وہ پہلی بار اپنی بیٹی کو دیکھ رہے ہوں
گرمیاں اپنے عروج پر پہچ چکی تھی ، یوں مجید صاحب کی شہوت بھی اپنے عروج پہ تھی..فوزیہ انکی نوجوان بیٹی تھی اور ہر وقت انکے سامنے مختلف لباس میں موجود رہتی تھی..بغیر چھوے یوں دور دور سے دیکھ کر مجید صاحب کی شہوت جنون کی انتہا کو پہنچ چکی تھی..اسی انتہا پہ پہنچ کر ایک رات اسکے صبر نے جواب دے دیا، اور وہ اپنے کمرے سے نکلے اور اپنی بیٹی کہ روم کی چابی اٹھا کر اسکے روم کی جانب بڑہے..پہلے وہ جب روم میں داخل ہوہےتو فوزیہ اپنی پوری آب و تاب سے لیٹی سو رہی تھی..جس طرف کو وہ منہ کر کہ سو رہی تھی ، مجید صاحب اسی طرف موجود ایک آرام دے صوفے پہ بیٹھ گئے ، اور فوزیہ کا دیدار کرنے لگے
فوزیہ کی پتلی سی شلوار جواوپر تک ہو گئے تھی دیکھ کر مجید صاحب کو اپنے ٹروزر میں کچھ سخت سا ہوتا محسوس ہوا ، اک عجیب سے نشے کا سا احساس ہونے لگا – مجید صاحب نے ٹروذر میں سخت ہوتی چیز کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور دبانے اور مسلنے لگے..وہ فوزیہ کو سوتے دیکھے جا رہا تھے اور اپنا لن ٹروزر سے نکال کر ہلاۓ جا رہا تھے - پھر یہ مجید صاحب کا روزرات کا معمول ہی بن گیا ، رات گۓ فوزیہ کہ روم میں آ جاتے اور فوزیہ کو سوتا دیکھ کر صوفے مٹھ مارتے.ایک رات وہ روم سے باہر نکل رہے تھے کہ فوزیہ کی آنکھ کھل گئی اور اسنے مجید صاحب جو کے اسکے والد تھے کو روم سے باہر جاتے دیکھ لیا
ایک رات کو فوزیہ پھر سے اپنے ابّو کی سانسوں کی آوازیں سن کر وہ پھر سے گیلی ہو رہی تھی ، اسنے بہت کوشش کی کہ ایسا نہ ہو پر نہ چاہنے کہ باوجود ایسا ہو گیا..اس رات کو فوزیہ کے والد کی ہمّت صبر جواب دے چکا تھی ان سے اب اور برداشت نہ ہو پا رہا تھا وہ نیم دیوانگی کے عالم میں صوفے سے اٹھے اور ہاتھ بڑھا کر آہستہ سے فوزیہ کی چادر کو اس پر سے اتار کر سائیڈ پہ رکھا دی ، فوزیہ آنکھیں بند کئیے ہوے سوچنے لگی کہ’’ اف یہ کیا کرنے والے ہیں’’.. فوزیہ بیڈ کی ایک سائیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی مجید صاحب اسکے قریب زمین پر پاؤں کہ وزن پہ بیٹھ گئے اور فوزیہ کہ دائیں ابھار کو تھام لیا اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگے فوزیہ اب اپنے سگے والد کے ہاتھ اپنے سینے پر محسوس کرتے ہووے اور زیادہ گیلی ہونے لگی تھی.مجید صاحب کا لیفٹ ہاتھ آہستہ سے نیچے کی طرف کسکا اور فوزیہ کی قمیض سے اندر کی جانب داخل ہو گیا، اور فوزیہ کی برا سے جا ٹکرایا. فوزیہ کے والد لطف کی کائنات کو پانے کی تگ و دو میں مصروف تھے انکا ہاتھ فوزیہ کی برا سے اندر داخل ہو رہا تھا اور پھر آخر کار فوزیہ کا نرم موٹا ابھار انکے ہاتھ میں تھا..وہ اسکا ابھار دبارہے تھے اور اب لذت کی دنیا نے اپنے میں داخل ہونے والے دروازے سے کھول دیے تھے مجید صاحب کہ لئے- مجید صاجب نے فوزیہ کے سینے کے ابھار مسلتے ہووے سوتی ہوئی فوزیہ کو بولا بیٹی آنکھے کھولوں اپنے باپ سے اب کیا شرمانا اور فوزیہ کو اس انجان دنیا سے باہر لانے لگے. فوزیہ نے آنکھیں کھولی مگر خاموشی سے لیتی رہی اور فوزیہ کے ابّو فوزیہ کے جسم پر ہاتھ پھرتے ہووے مٹھ مارنے لگے
فوزیہ رات اپنے بیڈ پہ لیٹی اپنے آئی فون پہ پکچرز دیکھ رہی تھی کہ اچانک ایک پکچرز اوپن ہو گئی ،جو اسے کسی نے اپنے لن کی سینڈ کی تھی وہ گبھرا گئی اور سیل فون ایک طرف پھنکا اور سونے کی کوشش کرنے لگی..ابھی وہ نیند ہوش اپنے دہکتے جذبوں کی جنگ میں ہی مصروف تھی کہ اسے اپنے روم کی المینیم ونڈو کھلنے کی آواز سنائی دی..اسکے تو جسم سے جان ہی نکل گئی..اتنے میں اسنے کیا دیکھا کے کے مجید صاحب پھر سے کمرے میں داخل ہووے .وہ آنکھیں بند کر کے کروٹ بدلے لیٹی رہی
مجید صاحب ہائستہ سے چلتے ہووےاسکے پاس آئے اور زمین پہ پاؤں کہ بل بیٹھ گئے اور فوزیہ سے کہا ’’ بیٹی “.. مگر فوزیہ یوں لیٹی رہی جیسے وہ سوئی ہوئی ہے..جب اسکے دو تین بار پکارنے پہ فوزیہ نے کوئی جواب نہ دیا تو مجید صاحب آگے کو تھوڑا سا ہووے اور اپنے ہونٹ فوزیہ کے ہونٹوں پہ رکھ دیے اور کس کرنے لگے ..فوزیہ کے دہکتے جذبات میں جسے آگ سی لگ گئی اسنے اپنی روح سے بغاوت کا علان کر دیا اور مجید صاحب کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا. مجید صاحب کو اپنی قسمت پہ جیسے یقین نہ آیا پر اسے اتنا سرور آیا کہ وہ پاگلوں کی طرح فوزیہی کے ہونٹ چومنے لگے، فوزیہ بھی اب مجید صاحب کے ہونٹ چوم کر جواب رہی تھی. مجید صاحب اب ساتھ ساتھ اسکے نرم موٹے ابھار بھی دونوں ہاتھوں سے دبا دبا رہے تھے..پتا نہیں کتنی دیر وہ ایک دوسرے کو یوں ہی چومتے رہے کہ مجید صاحب پیچھے ہووے اور فوزیہ کی قمیض کو برا کے ساتھ ہی اوپر سا کر دیا
روم کی مدھم روشنی میں فوزیہ کے گول کھڑے نرم ابھار اور پیارے سے گلابی نپل مجید صاحب کو صاف نظر آ رہے تھے. مجید صاحب نے اپنے ہونٹ اسکے دائیں نپل پہ رکھ دیے اور اسے چومنے لگا اسے پیار کرنے لگا ، فوزیہ اسکی طرف منہ کر کہ لیٹی تھی ، اور فوزیہ کو بھی لذّت کہ ناگ نے ڈس لیا تھا جیسے. مجید صاحب نے دونوں ابھاروں کو خوب پیار کیا..جیسے انتظار کا ایک ایک پل بھاری ہوتا ہے ویسے خوشی کا ایک ایک پل قیمتی ہوتا ہے
پھر مجید صاحب اٹھے اور فوزیہ کی بیک سائیڈ پہ آگئے اور پھر فوزیہ کی قمیض کا دامن پیچھے سے اوپر کیا اسکی پتلی سی کمر کو کچھ پل پیار کر کہ..فوزیہ کی شلوار کو نیچے کرنے کی کوشش کرنے لگے، تو فوزیہ نے اپنا پیاری سی نرم انگلیوں والا ہاتھ پیچھے کر کہ مجید صاحب کا ہاتھ پکڑ کر دبایا جیسے کہہ رہی ہو کہ ایسا مت کرومگر مجید صاحب نے نے فوزیہ کی بات کی پروا کیئے بغیر ایک ہی جٹکے میں فوزیہ کی شلوار اسکے بدن سے الگ کر دیفوزیہ کی گانڈ ننگی ہو چکی تھی ، اسکی گانڈ بہت خوبصورت تھی اتنی خوبصورت کہ مجید صاحب بس دیکھتا ہی رہ گئے .. فوزیہ کی گانڈ مکھن کی طرح سفید تھی ، کمال کی کشش تھی اس میں موٹی باہر کو نکلی ہوئی ، پیٹ کمر جتنا پتلے تھے اتنی ہی موٹی بھاری چوڑی وزنی گانڈ تھی اسکی..ایک گہری سی دراڑ تھی بیچ. مجید صاحب تو کہیں گم ہی ہوگئے تھے. وہ گھٹنوں کہ بل بیڈ پہ بیٹھاتھے ، اور آگے کو ہووے اور اپنی بیٹی کی گانڈ کی دراڑ کہ بیچ منہ ڈال دیا اور اسے چاٹنے لگےوہ .اپنی زبان کبھی وہ گانڈ کی دیواروں پہ پھیرتے کبھی ڈیپ اندر تک لے جاتے. مجید صاحب نیچے لیٹ گئے ، اس پوزیشن میں کہ ان کا منہ فوزیہ کی گاند کہ بلکل سامنے تھا ، ان ہو نے دونوں ہاتھوں سے فوزیہ کی گانڈ کو کھولا اور اسکی گانڈ کے سوراخ کو دیکھا..اور پھر اس گلابی سوراخ کو چاٹنے لگے… فوزیہ لذّت کی انجان وادیوں میں گھوم رہی تھی..اسکے ابّو کا منہ اسکی گانڈ میں گھسا ہوا تھا اور وہ چاٹ رہے تھے اسکی گانڈ ، جس سے اسے لطف کی انتہا میسر ہو رہی تھی
کافی دیر مجید صاحب فوزیہ کی گانڈ چاٹتے رہے ، پھر وہ وہاں سے اوپر اٹھے اور ان ہوں نے فوزیہ کو سیدھا کیا..فوزیہ کی آنکھیں ابھی تک بند تھی.. مجید صاحب نے فوزیہ کی گوری چٹی موٹی بھری بھری تھائز والی ٹانگیں ہوا میں بلند کر دی یعنی کہ دونوں ہاتھ اسکی تھائز کے نیچے والے حصے پر رکھے اور اسکی ٹانگوں کو ہوا میں اٹھایا اور خود پیٹ کے بل بیڈ پہ لیٹ گئے، اس انداز میں کے مجید صاحب کا منہ بلکل فوزیہ کی چوت کہ سامنے تھا..فوزیہ کی چوت پنک کلر کی تھی ، چوت کہ دونوں ہونٹ آپس میں ملے ہوے تھے ،بند چوت تھی ..مجید صاحب نے اپنے ہونٹ بیٹی کی چوت کہ ہونٹوں سے ملا لئے اور انھیں چوسنے، چاٹنے اور چومنے لگے.فوزیہ اب کی بار اپنی سسکیوں کو نہ روک پائی.کمرہ اسکی لذت بھری سسکیوں سے گونج اٹھا ..اسنے اپنا ہاتھ مجید صاحب کہ سر پہ رکھ کر دبایا اور اپنی گانڈ کو اٹھا کر اپنی چوت اپنے سگے باپ کہ منہ میں دی اور یہی عمل بار بار دوہرایا
مجید صاحب آدھی بجی پیاس کے ساتھ اوپر اٹھے اور گھٹنوں کہ بلچلتے ہووے فوزیہ کی ٹانگوں کہ بیچ میں آگئے اور جلدی سے اپنے پورے کپڑے اتار کے ننگے ہوگئے فوزیہ نے پہلی بار آنکھیں کھول کے مجید صاحب کو دیکھا..دونوں باپ بیٹی لذت کہ نشے میں ڈوبی آنکھیں ایک دوسرے سے ٹکرائی کتنی ہی دیر دونوں اک دوجے کو دیکھتے رہے…فوزیہ کی لذت میں ڈوبی آنکھیں کچھ پل کہ لئے مجید صاحب کہ لن پر ٹک سی گئی..مجید صاحب اب فوزیہ کہ اوپرآچکے تھے ..جوں ہی وہ فوزیہ کہ اوپر آئے ، وہ پہلی بار بولی ” نہیں ابّو پلیز ایسا مت کریں یہ زنا ہے اور میں اپ کی بیٹی ہوں یہ سب حرام ہے، ’’.. پر مجید صاحب جو شراب کے نشے میں ڈوبے ہووے تھے اور ان کے سامنے ایک نوجوان لڑکی چوت کھولے ننگی لیٹی تھی تو ان کے لیئے اس جہاں ایسی آوازیں کچھ اثر نہیں رکھتی. مجید صاحب نے فوزیہ کے ہونٹوں پر اپنا ایک ہاتھ رکھ کر، اور دوسرے ہاتھ سے اپنے موٹے لمبے سخت ہوے لن کو سیٹ کر کہ ایک جھٹکا اپنی بیٹی کی چوت پہ لگایا ، گیلی ہوئی پھدی میں پہلے ہی جھٹکے نے کمال دکھایا اور لن آدھا اندر چلآگئے …مجید صاحب کا ہاتھ منہ پہ ہونے کی وجہ سے فوزیہ کی چیخ کہیں اندر ہی دب گئی ،وہ سر داہیں باہیں مارنے لگی ..پر چڑیا باز کے شکنجے میں تھی..مجید صاحب نے کچھ دیر بڑی مشکل سے صبر کیا اور جب فوزیہ کا ہلنا جعلنا کچھ تھما تو مجید صاحب نے فوزیہ کی چوت میں ایک اور دکھا مارا جس سے ان کا پورا موٹا لن فوزیہ کی پھدی میں چلآگئے..اس شارٹ پر فوزیہ کا پورا جسم کچھ دیر کے لئے بہت تڑپا، پر مجید صاحب نے اپنا پورا وزن اس پر گرا کر اسے قابو کیے رکھا..جب فوزیہ کچھ شانت ہوئی تو مجید صاحب نے اپنے لن کو آہستہ سے باہر کیچا خالی ٹوپی اندر رہنے دی..پھر اسنے آہستہ سے پورا اندر دے دیا
یوں ہی کچھ دیر میں مجید صاحب کا لن روانی کہ ساتھ اندر باہر اندر باہر ہونے لگا..جب ان ہونے دیکھا کہ اب فوزیہ نارمل ہو چکی ہے تو اپنا ہاتھ اس کے منہ پر سے ہٹا لیا.اب مجید صاحب کے دونوں ہاتھ فوزیہ کہ داہیں اور باہیں سائیڈ پہ تھے.ہاتھ ہٹتے ہی فوزیہ بولی “ ابّو یہ کیا کر دیا ہے اپ نے ہاں ’‘فوزیہ کی آواز میں لذت اور درد کا عنصر صاف ٹپک رہا تھا ..مجید صاحب نے فوزیہ کی بیک پہ دونوں ہاتھ لے جا کر پھرتی سے خود نیچے آگئے اور فوزیہ کو اپنے اوپر لے آیا…اور اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر فوزیہ کی پھدی میں لن مارنے لگے.کافی دیر فوزیہ کو چودنے کے بعد مجید صاحب فارغ ہو گئے اور بستر پر فوزیہ کے برابر لیٹ گئے، فوزیہ نے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کراپنی ٹانگو اور چوت سے مجید صاحب کی منی صاف کر کے باتھروم چلی .
118 notes
·
View notes
Text
Aj ek mera childhood hindu friend na mujha lund chusaya or mera samna ammi or behan ko gali deka mera muh mai muth mara ufff allah etna maza aya jalil hoka
106 notes
·
View notes