Website: https://kulliyateiqbal.com/ In kulliyat e iqbal, we have described the poetry of Allama Iqbal in Urdu, so that his poetry and philosophy are easy to understand.
Don't wanna be here? Send us removal request.
Link
If you are experiencing a problem with your plumbing, there is a good chance that the plumbing hot and cold water lines are not working correctly. A broken water line can lead to flooding and other problems in your home, so it is important to have it fixed as soon as possible. Here are some tips on how to diagnose and fix a broken water line. Follow the website link to read more….
Find articles on similar topics on the Local Service Ads
0 notes
Text
There are two types of morning
This poem is of Zarb e Kaleem in Kulliyat e Iqbal. Its interpretation is as follows! It is not known where this morning which arises from the rising of the sun every day and from which today's morning becomes tomorrow's morning. I mean, I don't need to investigate that kind of geography. But the morning that creates tremors inside the dark cell of the human body and awakens the whole universe is born in the morning by the call of the believer. What is meant is that when the man of God, who is full of love, raises the voice of truth, then the whole universe trembles at the ignorance that enchants after darkness with his passionate voice.
0 notes
Photo

Kulliyat e Iqbal
2 notes
·
View notes
Photo

(via وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم - Kulliyat e Iqbal Woh ilm apne boton ka)
2 notes
·
View notes
Photo

Kulliyateiqbal.com
2 notes
·
View notes
Photo

(via زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی - Kulliyat e Iqbal Zinda quwwat thi jahan)
2 notes
·
View notes
Text
Kulliyat e Iqbal
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
تشریح
عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
پہلے میں نہایت لطیف طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ عجیب بات نہیں کہ تو اللہ تک پہنچ گیا اور تجھ کو بندگی کا طریقہ آگیا لیکن جو اصل مقصد تھا تو اسے نہ پہچان سکا اصل مقصد اپنی پہچان تھا جس کی طرف تونے توجہ ہی نہ کی کہ تو کیا ہے کیا کرسکتا ہے اور تیرے اندر کتنی طاقت ہے۔
تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
یہی وجہ ہے کہ تیری نمازیں اس سرور اور کیفیت سے خالی ہیں نہ ان میں جلال ہے نہ جمال اور نہ تیری اذان میں وہ تاثیر ہے کہ مسلمانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کا رستہ بتلائے اور وہ سحر نمودار ہو جس کا میں آرزو مند ہوں
3 notes
·
View notes
Text
Iqbaliyat
یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا ہے دور وصال بحر ابھی، تو دریا میں گھبرا بھی گئی
تشریح
منتشر یا انتشار کا شکار موج (یعنی امتِ مسلمہ) کو سمندر کے کنارے نے یہ پیغام دیا کہ سمندر کا قرب تو بڑی دُور ہے اور تُو ابھی سے گھبرا گئی ہے۔ گویا اپنی پہلی عظمت و شکوہ سے تو محروم ہے جس کی بنا پر تُو پریشانی کا شکار ہے۔ اس عظمت کے لیے اپنے اسلاف والا جذبہ و ولولہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
3 notes
·
View notes
Text
تری نجات غمِ مرگ سے نہیں ممکن
تری نجات غمِ مرگ سے نہیں ممکن
کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکرِ خاکی
تشریح
اگر تو اپنی نادانی سے خودی کو پیکرِ خاکی یعنی مادی شئے سمجھتا ہے تو پھر تو موت کے غم سے نجات نہیں پا سکتا۔ یعنی اگر کوئی اپنی جہالت کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ روح بھی جسم کی طرح فانی ہے، اور مرنے کے ساتھ ساتھ زندگی ختم ہو جائے گی تو وہ شخص بلا شبہ موت کے تصّور سے خوفزدہ رہے گا۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری خودی موت کے بعد بھی باقی رہے گی تو پھر اسے موت کا کوئی ڈر نہ ہو گا۔
6 notes
·
View notes
Text
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں
تشریح میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں میرے عشق کے نغموں سے ذاتِ باری کی بارگاہِ خاص میں شور پیدا ہو گیا اور ان نغموں کے باعث صفات کے بتکدے سے پناہِ خدا کے غلغلے بلند ہونے لگی۔ مطلب یہ کہ میری عاشقانہ صداؤں سے حریمِ ذات میں شور بپا ہوا لیکن صفات کے بتخانے سے پناہِ خدا کے نعرے اٹھنے لگے۔ اس لیے بھی کہ عاشقِ ذات کی فریاد صفات سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ فریاد صفات کے بت توڑے بغیر ذات تک نہیں پہنچ سکتی۔ لہذا بت خانے سے الامان و الحفیظ کی صدائیں آنیں لگیں۔
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں تیرے عشق کی بدولت میری نگاہ اس قدر تیز ہو گئی ہے کہ حور و فرشتہ اگرچہ مادی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ میرے تخیلات میں اسیر ہیں یعنی میں ان کی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہوں۔ میری نگاہ کی حقیقت بینی کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ اس کی وجہ سے تیری تجلیات میں خلل واقع ہو رہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں ہر تجلی میں صاحبِ تجلی کو دیکھتا ہوں۔
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں اگرچہ میری تلاش و جستجو بت خانے اور کعبہ کے نقشے تیار کرنے والی ہے یعنی انسان نے جگہ جگہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت گاہیں بنا لیں ہیں۔ اس کے باوجود جب ان میں مجھے تیری ذاتِ اقدس کا کوئی نشان نظر نہ آیا تو میں نے اپنی آہ و فغاں سے کعبہ و بت خانے میں ایک حشر برپا کر دیا۔
گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں انسان اپنی سرشت کے لحاظ سے ایسا ناقص اور محدود ہے کہ وہ صرف اپنی عقل کی مدد سے کائنات کی حقیقت دریافت نہیں کر سکتا لیکن عشق مٰیں ایسی طاقت ہے کہ اس کی مدد سے وہ حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ انسان پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں کبھی اس کی نگاہ اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ وہ کائنات کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے بالفاظِ دیگر کبھی تو اس کی نگاہ عرشِ اکبر کے نظارے کرتی ہے اور کبھی اپنے ہی پیدا کردہ توہمات میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں اس شعر میں استعجاب کا رنگ پایا جاتا ہے کہ اے خدا تو نے یہ کیا کیا کہ مجھ کو فاش کر دیا لیکن دراصل شاعر اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ اے خدا مجھے پیدا کر کے تو نے اپنے آپ کو آشکارا کر دیا۔ واضع ہو کہ انسان کائنات میں اللہ کا مظہر ہے۔ اس کے اندر روح اور بدن کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جسے انا سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ انائے مقید دراصل انائے مطلق کا پرتو ہے۔ اس لیے اس میں الوہیت کا رنگ نظر آتا ہے اور جو شخص اس کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے وہ اللہ پاک کو پا لیتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہ دوں وجودِ حضرتِ انسان نہ روح ہے نہ بدن
#kulliyat e iqbal#kulliyat-e-iqbal#allama iqbal#allama iqbal poetry#sharah kulliyat e iqbal#kulliyateiqbal#iqbaliyat#bal e jibreel
5 notes
·
View notes