Tumgik
#اہل بیت کے لیے دعا
quran0hadees · 2 years
Text
Tumblr media
اہل بیت کے لیے دعا Hadees
0 notes
asliahlesunnet · 3 years
Photo
Tumblr media
ایک عورت طواف افاضہ کر رہی تھی کہ اسے خون اتر آیا، اس نے اپنے ولی کو نہ بتلایا حتیٰ کہ اپنے ملک واپس آگئی، اس کا کیا حکم ہے؟ سوال:… ایک عورت حج کے لیے روانہ ہوئی۔ آغاز سفر سے پانچ دن بعد اسے ماہواری آگئی، میقات پر پہنچنے کے بعد اس نے غسل کر لیا اور احرام باندھ لیا، جب کہ وہ حیض کی وجہ سے پاک نہ تھی۔ جب وہ مکہ پہنچی تو حرم سے باہر ہی رہی اور حج یا عمرہ کے شعائر میں سے کچھ بھی نہ کیا۔ وہ دو دن منیٰ میں رہی پھر وہ پاک ہوگئی اور اس نے غسل کیا اور پاکیزگی کی حالت میں اس نے عمرہ کے تمام مناسک سر انجام دیجئے۔ پھر جب وہ حج کے لیے طواف افاضہ کر رہی تھی تو اسے پھر خون آگیا مگر وہ شرما گئی اور مناسک حج پورے کر لیے اور اپنے ولی کو اس وقت اطلاع دی جب وہ واپس اپنے وطن پہنچ گئے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ (فھید۔۱۔۱ تقصیم) جواب:… اگر بات ایسی ہی ہے جیسا کہ سائل نے بیان کیا ہے تو اس عورت پر لازم ہے کہ وہ مکہ جائے اور اپنے اس طواف کے عوض جس میں اسے حیض آیا تھا، اپنے حج کے طواف کی نیت سے بیت اللہ شریف کے سات چکر لگا کر طواف کرے اور طواف کے بعد دو رکعت نماز مقام مصلی یا حرم کی کسی دوسری جگہ پر ادا کرے۔ اس طرح اس کا حج پورا ہو جائے گا۔ اور اگر اس کا خاوند ساتھ تھا جس نے اس کے ساتھ حج کے بعد صحبت کی ہو تو اس پر قربانی لازم ہے جو مکہ میں ذبح کر کے وہاں کے فقراء میں تقسیم کی جائے کیونکہ وہ احرام کی حالت میں تھی اور اس کے کاوند کے لیے حلال نہ تھا کہ وہ طواف افاضہ اور عید کے دن قربانی اور بال کتروانے سے پہلے اس سے صحبت کرے۔ نیز اگر وہ حج سے قبل عمرہ کے ساتھ حج تمتع کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس نے سعی نہ کی تھی تو صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے۔ البتہ اگر وہ قران یا افراد حج ادا کر رہی تھی تو اس پر دوسری سعی لازم نہیں۔ جبکہ وہ طواف قدوم کے ساتھ سعی کر چکی ہو۔ نیز اس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور توبہ لازم ہے کہ اس نے حیض کی حالت میں طواف کیا اور طواف سے پیشتر مکہ سے نکل گئی جبکہ فی الواقع ایسا ہوا ہو اور اس لیے بھی توبہ لازم ہے کہ اس نے ایک طویل مدت تک طواف میں تاخیر کی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اسے معاف فرما دے۔ حیض اور نفاس والی عورتوں کا طواف وداع کیسے پورا ہو؟ سوال:… حیض اور نفاس والی عورتوں کا طواف کیسے پورا ہو؟ (قاریہ) جواب:… حیض اور نفاس والی عورتوں کے لیے طواف وداع ضروری نہیں۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ انہوں نے کہا: ((أُمِرَ النَّاسُ أَنْ یَکُونَ آخِرُ عَہْدِہِمْ بِالْبَیْتِ إِلَّا اَنَّہٗ خُفِّفَ عَنِ الْمَرْأَۃِ الْحَائِض)) (متفق علیہ) ’’لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کا آخری عہد بیت اللہ کے ساتھ ہو۔ مگر حائضہ کے لیے اس میں تخفیف ہے۔‘‘ اور اہل علم کے نزدیک نفاس والی بھی حیض والی عورت کے حکم میں ہوتی ہے۔ معاملات فتاوی ابن باز ( ج ۱ ص ۱۴۰، ۱۴۱، ۱۴۲ ) #B100120 ID: B100120
0 notes
discoverislam · 11 years
Text
فتح مکہ
 ................... جب صلح حدیبیہ طے پا گئی تو بنو خزاعہ رسول اللہﷺکے حلیف بن گئے اور بنو بکر قریش کے ساتھ مل گئے۔ بنو بکر کے ایک آدمی نے بنو خزانہ کے ایک آدمی کو قتل کردیا۔اس کے نتیجے میں دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ بھڑک اٹھی۔ قریش نے اسلحے کے ساتھ بنو بکر کی مدد کی بلکہ رات کے اندھیرے میں قریش کے کچھ لوگ بنوبکر کے ساتھ مل کر لڑائی میں شریک بھی ہوئے۔ اس طرح انھوں نے صلح حدیبیہ کے مع...اہدے کی خلاف ورزی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس مدد کا مطالبہ لے کر آیا۔ آپ نے لوگوں کو تیاری کا حکم دیا اور اعلان فرما دیا کہ ہم مکہ جائیں گے اور دعا فرمائی: ’’اے اللہ! قریش کے جاسوسوں کو قابو کر لے تاکہ ہم مکہ والوں کو اچانک جالیں۔‘‘ رسول اللہﷺ 10رمضان المبارک کو مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کو رسول اللہﷺ اور لشکر کی روانگی کا کچھ پتہ نہیں تھا کیونکہ آپ ﷺ قریش سے خبروں کی مکمل ناکہ بندی کرچکے تھے۔ اتفاقاً ایک رات ابو سفیان، حکیم بن حزام اور بُدَیل بن ورقاء کسی خبر کی تلاش میں مکہ سے باہر آئے۔ ادھرنبی کریمﷺکے چچا عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے سفید خچر پر سوار پھر رہے تھے کہ کوئی شخص ملے تو اسے مکہ والوں کے پاس بھیجیں کہ رسول اللہﷺتشریف لا چکے ہیں، لہٰذا اہل مکہ آکر امان حاصل کرلیں۔ اتفاقاً سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو ابو سفیان مل گئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں قائل کیا کہ میرے ساتھ سوار ہوکر رسول اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس جائیں اور مکہ والوں کے لیے امان حاصل کرلیں۔ وہ ان کے ساتھ گئے تو آپﷺنے اسلام کی پیشکش کی۔ ابو سفیان مسلمان ہو گئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’اللہ کے رسول! ابوسفیان سردار شخص ہے۔ فخر کا خواہش مند ہے، لہٰذا اسے کچھ امتیاز عطا فرمائیں۔‘‘ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’نَعَمْ! مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِيْ سُفْیَانَ فَھُوَاٰمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَہٗ فَھُوَ اٰمِنٌ، وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَھُوَا اٰمِنٌ‘ ’’ٹھیک ہے! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اسے امان حاصل ہوگی۔ جو اپنا دروازہ بند کرکے گھر بیٹھ جائے، اسے بھی امان حاصل ہو گی۔ جو بیت اللہ میں چلا جائے، اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔‘‘( سیرۃ ابن ہشام: 46/4) جب نبی اکرمﷺذو طویٰ نامی وادی میں داخل ہوئے تو آپ نے فتح مندی کے احسان کا شکر اداکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر جھکایا ہوا تھا حتیٰ کہ آپ کی داڑھی مبارک کے بال پالان کی لکڑی کو لگ رہے تھے۔ لشکر کا مکہ مکرمہ میں داخلہ لشکر اسلام کا ہر دستہ رسول اللہﷺکی ہدایات کے مطابق پیش قدمی کر رہا تھا۔ کوئی مزاحمت نہیں ہورہی تھی۔ صرف مکہ مکرمہ کی نشیبی جانب بنوبکر اور حبشیوں کے کچھ لوگوں نے خالدرضی اللہ عنہ کے دستے کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ جلد ہی شکست کھا گئے۔ صفوان بن اُمیہ، عکرمہ بن ابی جہل اور سہیل بن عمرو نے بھی خندمہ کے علاقے میں کچھ لوگ لڑائی کے لیے جمع کر رکھے تھے۔ جب خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اپنے دستے سمیت پہنچے تو انھوں نے بھی تھوڑی بہت مزاحمت کی۔ ان میں سے تقریباً بارہ تیرہ آدمی مارے گئے، باقی بھاگ کھڑے ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے دستوں کے امیر مقرر فرماتے وقت انھیں تاکید فرمائی تھی کہ مکہ مکرمہ میں داخلے کے وقت کسی کو قتل نہ کریں الا یہ ک�� کوئی ان سے لڑائی لڑے، البتہ آپ نے چند اشخاص کے نام لے کر ان کے قتل کا حکم دیا تھا، خواہ وہ بیت اللہ کے پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے کیوں نہ مل جائیں۔ ان کے نام یہ تھے: عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سَرْح، عبداللّٰہ بن خطلّ اوراس کی دو گانے والی لونڈیاں، حُوَیرِث بن نُقَیذ۔ مِقْیَس بن صُبَابَہ۔ عِکرِمَہ بن اَبی جَھل اور بَنُو عبدالمُطَّلِب کی ایک لونڈی سَارَّہ۔ مگر ان میں سے صرف عبداللّٰہ بن خطلّ، مِقیَس بن صُبَابَہ اور اِبن خطلّ کی ایک لونڈی قتل کردیے گئے باقی نے معافی مانگ لی اور آپ ﷺ نے انھیں معاف فرما دیا۔ رسول اللہﷺجمعۃ المبارک بتاریخ 19رمضان المبارک 8ھ کو اَذَاخِر کے مقام سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ یہ ’’تاریخ القدس‘‘ میں عَلِیمی کا قول ہے، البتہ فاسی کی ’’تُحفَۃُ الکِرَام بِاَخبَارِ بَلَدِ اللّٰہِ الحَرَام‘‘ میںواقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہﷺ جمعۃ المبارک کو مکہ مکرمہ میں تشریف فرما ہوئے جبکہ رمضان المبارک کے دس دن باقی تھے۔‘‘ نبیﷺکے لیے مقام اَبطَح میںخصوصی خیمہ لگا دیا گیا تھا۔ آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار داخل ہوئے۔ آپ ﷺ کے پیچھے سواری پر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سوار تھے اور آپ کے ایک طرف ابوبکرتھے اور دوسری طرف اُسید بن حُضیر۔ آپ اپنے خیمے میں فروکش ہوئے۔ ابن عمرفرماتے ہیں: ’’رسول اللہﷺمکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ مشرکین کی عورتیں گھوڑوں کے چہروں سے اپنے دوپٹوں کے ساتھ گردو غبار جھاڑ رہی تھیں۔ ابوبکر مسکرائے۔ آپe نے فرمایا: ’’ابوبکر! حسان نے کیسے کہا تھا؟ ابوبکرنے حسان بن ثابت کے یہ شعر پڑھے ؎ عَدِمْتُ بُنَیَّتِیْ إِنْ لَّمْ تَرَوْھَا تُثِیْرُ النَّقْعَ مِنْ کَنَفَیْ کَدَائِ یُنَازِعْنَ الْأَعِنَّۃَ مُسْرَجَاتٍ یُلَطِّمُھُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَائُ ’’میری بیٹی مر جائے اگر تم ہمارے گھوڑوں کو کَدَاء کے دونوں کناروں پر گردوغبار اڑاتے نہ دیکھو۔ وہ اپنے سواروں سے باگیں چھڑا چھڑا کر بھاگیں گے۔ ان پر کاٹھیاں پڑی ہوں گی اور عورتیں اپنے دوپٹوں کے ساتھ ان کے چہروں سے گردو غبار جھاڑیں گی۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑوں کو وہیں سے داخل کرو جہاں سے حسان رضی اللہ عنہ نے داخل ہونے کا ذکر کیا ہے۔(یعنی کَدَاء سے)۔ جب لوگوں میں اطمینان ہوا تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر بیت اللہ تشریف لائے اور سواری ہی پر سات چکر لگائے۔ جب بھی حجراسود کے پاس سے گزرتے، اپنی چھڑی کے ساتھ اسے چھو لیتے۔ اس وقت حرمِ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے جنھیں سیسے کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔ آپ انھیں اپنی چھڑی سے مارتے اور فرماتے تھے: وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔‘‘ (بنی اسرآئیل 81:17۔) بت چہرے کے بل گرتے جارہے تھے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اس وقت بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساتھ بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ رسول اللہﷺکے حکم سے ان سب کو منہ کے بل گرادیا گیا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جناب رسول اللہﷺمکہ میں تشریف لائے تو آپ ﷺ نے بتوں کی موجودگی میں کعبے میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ آپ کے حکم سے ان کو نکال دیا گیا۔ جب سیدنا ابراہیم و اسماعیل کے بت نکالے گئے تو ان کے ہاتھوں میں پانسے کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کو ہلاک کرے ، اللہکی قسم! انھیں علم ہے کہ ان دونوں شخصیات نے کبھی تیروں کے ساتھ قسمت آزمائی نہیں کی تھی۔‘‘ پھرآپ بیت اللہ میں داخل ہوئے اورکونوں میں کھڑے ہوکر تکبیریں پڑھتے رہے۔ لیکن آپ نے اس میں نماز ادا نہیں فرمائی۔جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ نے اس میں نماز ادا فرمائی تھی جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرسے مروی حدیث میں ہے۔ صحیح البخاري: 1599۔ جب نبیﷺنے کعبے میں نماز ادا فرمائی، بیت اللہ کے اندر چکر لگالیا، اس کے کونوں میں تکبیرات پڑھ لیں اور نعرۂ توحید بلند فرمادیا تو بیت اللہ کا دروازہ کھلنے پر آپ نے دیکھا کہ مسجد قریش سے بھر چکی تھی جو صفوں میں بیٹھے اس انتظار میں تھے کہ آپ ان سے کیا سلوک فرماتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بیت اللہ کے دروازے کے دونوں بازئووں کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلے نے سب لشکروں کو شکست دی۔ خبردار! ہر قسم کا فخر، مالی اور نسبی امتیاز جن کے دعوے کیے جاتے ہیں، آج میرے پائوں تلے ہیں سوائے بیت اللہ کی خدمت اورحاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کے۔ خبردار! اگر کسی کو کوڑے یا لاٹھی کے ساتھ غلطی سے ماردیا جائے تو قاتل پر سخت دیت لاگو ہوگی یعنی سو اونٹ جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ بھی ہوں گی۔‘‘ اے قریش! اللہ تعالیٰ نے تمھارا جاہلی تکبر اور آبائی فخر ختم کردیا۔ سب لوگ آدمعلیہ السلام کیاولاد ہیں اور سیدنا آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے تمھیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔‘‘(الحجرات 13:49۔) پھر فرمایا: ’’اے قریش! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تم سے کیسا سلوک کروں گا؟‘‘ وہ کہنے لگے: ’’یقینا آپ اچھا سلوک کریں گے کیونکہ آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میں تم سے وہی الفاظ کہتا ہوں جو سیدنا یوسفuنے اپنے بھائیوں سے فرمائے تھے: لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ … اِذْھَبُوْا فَأَنْتُم الطُّلَقَائُ ’’آج تمھیں کوئی ملامت نہ ہو گی۔‘‘…’’جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ پھر رسول اللہﷺ نے کعبے کی چابی عثمان بن طلحہ کو واپس کردی جو پہلے آپ نے ان سے منگوا لی تھی۔ فتح مکہ کے نتائج فتح مکہ کے متعدد نتائج تھے: 1 مکہ مکرمہ اب کفار کی دسترس سے نکل کر مسلمانوں کی عملداری میں آگیا تھا، چنانچہ اس طرح حنین اور طائف میں شرک کے گڑھ کا خاتمہ کرنے اور پھر اس کے بعد سارے جہان سے اسے ختم کرنے کا موقع میسر آگیا۔ 2 جزیرۃ العرب میں مسلمان سب سے بڑی قوت بن کر ابھرے۔ اور فتح مکہ کے ساتھ ہی رسول اللہﷺکی امید بَر آئی کہ قریش کو اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ مسلمان جزیرۃ العرب میں ایک ایسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے جس کے سامنے کوئی قبائلی قوت ٹھہر نہ سکتی تھی، جبکہ اس میں اتنی قوت تھی کہ سارے عرب کو اسلام کے پرچم تلے جمع کر لے اور آس پاس کے علاقوں تک رسائی حاصل کرے۔ تاکہ ظلم کی حکومتوں کو مٹایا جاسکے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو آزادی سے ہمکنار کیا جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہو کر اس اکیلے معبود کی عبادت کریں۔ 3 اس فتح کے دینی، سیاسی اور معاشرتی اثرات تھے۔ جو شخص بھی اس مبارک فتح کو گہری نظر سے دیکھے گا اسے وہ اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے۔ معاشرتی اثرات تو اس طرح سامنے آئے کہ رسول گرامیﷺنے لوگوں سے انتہائی نرمی کا سلوک کیا اور ان کی راہنمائی کی تاکہ ان کی خود اعتمادی بحال ہو اور جس نئی صورتِ حال نے ان کے شہر پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اس پر بھی انھیں یقین آجائے۔ رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ چھوڑتے وقت حضرت معاذ بن جبل کو یہیں رکھا تھا تا کہ وہ نماز پڑھائیں اور دین کے مسائل بتائیں۔ رہے سیاسی اقدامات تو رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ پر حضرت عتاب بن اَسِید کو امیر مقرر فرمایا تاکہ وہ لوگوں میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں، کمزور کو اس کا حق دلائیں اور ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد و حمایت کریں۔¢ فتح مکہ کے دینی اثرات یوں مرتب ہوئے کہ فتح مکہ اور اس شہر کے اسلامی قلمرو میںشامل ہونے سے تمام عرب کو یقین آ گیا کہ اسلام ہی (انسانوں کے لیے) اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے، چنانچہ اب وہ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ 4 مومنوں کو باوقار جگہ دینے کے متعلق اللہ کا وعدہ پورا ہو گیا۔ تمام مراحل طے کر لیے گئے۔ اور اس کے لیے اہل ایمان نے گراں قدر قربانیاں دے کر تمام شرائط پوری کر دی تھیں، مثلاً: آزمائش کا سامنا کرنا، مزاحمت کا طریقہ اختیار کرنا، رفتہ رفتہ استحکام اور قوت حاصل کرنا، دلوں میں انقلاب برپا کرنا اور تمام اسباب اختیار کر لینا 
"}" href="https://www.facebook.com/photo.php?fbid=369028203208145&set=a.188678084576492.37148.152856124825355&type=1#" id=".reactRoot[0]" role="button" title="Like this"> 
0 notes
tuseefsyedworld · 4 years
Text
پانچ تن پاک کون کون ہیں، کیسے بنے اس کے بارے اسلامی روائت کیا ہے
محبت اہلیبت ع اور بغض اہلبیت  دو مخالف چیزیں ہیں
 مشہور حدیث رسول ص خدا ہے
اے علی ع تجھ سے بغض نہیں رکھے مگر منافق
اور ایک دوسری روائت میں ہے کہ اے علی تجھ سے بغض نہیں رکھے مگر حرامزادہ پانچ تن پاک کو ماننا اہلیبیت علیہ السلام سے محبت کی علامت ہے اور والدہ سے اچھی پرورش پانے کا نتیجہ ہے پانچ تن پاک کا زکر بہت زیادہ کیا جاتا ہے اس کے بارے میں سب سے بڑی اور مستند روائت جسے حدیث قدسی میں گنا جاتا ہے وہ تحریر کی گئی ہے۔جیسے پانچ تن پاک شہنشاہوں کا زکر شفا،عبادت اور مرغوب الہی ہے ویسے ہی یہ روائت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے جس کا ترجمہ اور عربی دونوں یہاں تحریر ہے اگر آپ اس روائت کی اسناد چاہتے ہیں تو گوگل کر لیں ویسے جیسا کہ اوپر بھی بتایا گیا ہے کہ سب سے اہم اور مستند اور بڑی روائت یہ ہی ہے جو  حدیث کساء  کے نام سے جانی جاتی ہے ہم سب نے یمنی چادر کا زکر اللہ کے عظیم نبی حضرت محمد ص کی زندگی سے نسبت سن رکھی ہے یا کچھ لوگ اسے  کالی کملی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اس کی بات ہے 
حدیث کا مطلب بات اور کساء کا مطلب چادر ہےیعنی چادر کی بات
یہ مشہور روائت مشہور اصحابی رسول ص جناب حضرت جابر ابن عبداللہ انصاری رض اللہ سے روائت ہے جو کہ سیدہ فاطمہ الزہرا طاہرہ سے روائت کرتے ہیں آپ محبان اہلیبیت ع کی خدمت میں عربی کی اصلی روائت کیساتھ پیش ہے ترجمہ-👇 جابر بن عبدالله انصاری بی بی فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا)بنت رسول الله ﷺ سے روایت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میں جناب فاطمة ا لزہراء (سلام اللہ علیھا) سے سنا ہے کہ وہ فرما رہی تھیں کہ ایک دن میرے بابا جان جناب رسول خدا میرے گھر تشریف لائے اور فرمانے لگے: ” سلام ہو تم پر اے فاطمہ(ع)“ میں نے جواب دیا:”آپ پر بھی سلام ہو“۔ پھر آپ نے فرمایا:” میں اپنے جسم میں کمزوری محسوس کررہا ہوں“ میں نے عرض کی:” باباجان خدا نہ کرے جو آپ میں کمزوری آئے“ آپ نے فرمایا:”اے فاطمہ(ع)! مجھے ایک یمنی چادر لاکر اوڑھا دو“ تب میں یمنی چادر لے آئی اور میں نے وہ بابا جان کو اوڑھادی اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپکاچہرہ مبارک چمک رہا ہے جس طرح چودھویں رات کو چاند پوری طرح چمک رہا ہو ، پھر ایک ساعت ہی گزری تھی کہ میرے بیٹے حسن(ع) وہاں آگئے اور وہ بولے سلام ہو آپ پر اے والدہ محترمہ(ع)! میں نے کہا اور تم پر سلام ہو اے میری آنکھ کے تارے اور میرے دل کے ٹکڑے۔ وہ کہنے لگے امی جان(ع) ! میں آپکے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کر رہا ہوں جیسے وہ میرے نانا جان رسول خدا کی خوشبو ہو۔ میں نے کہا ہاں وہ تمہارے نانا جان چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ اس پر حسن(ع) چادر کی طرف بڑھے اور کہا سلا م ہو آپ پر اے نانا جان، اے خدا کے رسول! کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے فرمایا تم پر بھی سلام ہو  اے میرے بیٹے اور اے میرے حوض کے مالک میں تمہیں اجازت دیتا ہوں پس حسن(ع) آپکے ساتھ چادر میں پہنچ گئے پھر ایک ساعت ہی گزری ہوگی  کہ میرے بیٹے حسین(ع) بھی وہاں آگئے اورکہنے لگے: سلام ہو آپ پر اے والدہ محترمہ(ع)۔ تب میں نے کہا اور تم پربھی سلام ہو اے میرے بیٹے، میرے  آنکھ کے تارے اور میرے لخت جگر۔ اس پردہ مجھ سے کہنے لگے:امی جان(ع)! میں آپ کے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کررہا ہوں جیسے میرے نانا جان رسول خدا کی خوشبو ہو۔ میں نے کہا: ہاں تمہارے نانا جان اور بھائی جان اس چادرمیں ہیں۔ پس حسین(ع) چادر کے نزدیک آئے اور بولے: سلام ہو آپ پر اے نانا جان! سلام ہو آپ پر اے وہ نبی جسے خدانے منتخب کیا ہے۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ دونوں کیساتھ چادر میں داخل ہوجاؤں؟ آپ نے فرمایا اور تم پر بھی سلام ہو اے میرے بیٹے اوراے میری امت کی شفاعت کرنے والے ہیں۔ تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔ تب حسین(ع) ان دونوں کے پاس چادر میں چلے گئے اس کے بعد ابوالحسن(ع) علی بن ابیطالب(ع) بھی وہاں آگئے اور بولے سلام ہو آپ پر اے رسول خدا کی دختر! میں نے کہا آپ پر بھی سلام ہو اے اورابولحسن (ع)، اے مومنوں کے امیر وہ کہنے لگے اے فاطمہ(ع)! میں آپ کے ہاں پاکیزہ خوشبو محسوس کر رہا ہوں جیسے میرے برادر اور میرے چچا زاد ،رسول خدا کی خوشبو ہو میں نے جواب دیا ہاں وہ آپ کے دونوں بیٹوں سمیت چادر کے اندر ہیں پھر علی چادر(ع) کے قریب  ہوئے اور کہا سلام ہوآپ پر اے خدا کے رسول۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ میں بھی آپ تینوں کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے ان سے کہا اور تم پر بھی سلام ہو، اے میرے بھائی، میرے ،قائم مقام ،میرے جانشین اور میرے علم بردار میں تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔پس علی(ع) بھی چادر میں پہنچ گئے ۔ پھر میں چادر کے نزدیک آئی اور میں نے کہا: سلام ہو آپ پر اے بابا جان، اے خدا کے رسول کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ کے پاس چادر میں آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: اور تم پر بھی سلام ہو میری بیٹی اور میری پارہ اے جگر، میں نے تمہیں اجازت دی تب  میں بھی (فاطمہ ع)چادر میں داخل ہوگئی۔ جب ہم سب چادر میں اکٹھے ہوگئے تو میرے والد گرامی رسول الله نے چادر کے دونوں کنارے پکڑے  اور دائیں ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اے خدا! یقیناً یہ ہیں میرے اہل بیت(ع) ، میرے خاص لوگ، اور میرے حامی،ان کا گوشت میرا گوشت اور ان کا خون میرا خون ہے جو انہیں ستائے وہ مجھے ستاتا ہے اور جو انہیں رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے ۔ جو ان سے لڑے میں بھی اس سے لڑوں گا جو ان سے صلح رکھے میں بھی اس سے صلح رکھوں گا، میں ان کے دشمن کا دشمن اور ان کے دوست  کا دوست ہوں کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ پس اے خدا تو اپنی عنائتیں اور اپنی برکتیں اور اپنی رحمت اور اپنی بخشش اور اپنی خوشنودی میرے اور ان کیلئے قرار دے، ان سے ناپاکی کو دور رکھ، انکو پاک کر، بہت ہی پاک اس پر خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: اے میرے فرشتو اور اے آسمان میں رہنے والو بے شک میں نے یہ مضبوط آسمان پیدا نہیں کیا اور نہ پھیلی ہوئی زمین، نہ چمکتا ہوا چاند، نہ روشن تر سورج، نہ گھومتے ہوئے سیارے، نہ تھلکتا ہوا سمندر اور نہ تیرتی ہوئی کشتی، مگر یہ سب چیزیں ان پانچ نفوس کی محبت میں پیدا کی ہیں جو اس چادر کے نیچے ہیں۔ اس پر جبرائیل(ع) امین نے پوچھا اے پروردگار! اس چادر میں کون لوگ ہیں؟ خدائے عز وجل نے فرمایاکہ وہ نبی کے اہلبیت(ع) اور رسالت کا خزینہ ہیں۔ یہ فاطمہ(ع) اور ان کے بابا، ان کے شوہر(ع)، اور ان کے دو بیٹے(ع) ہیں۔ تب جبرئیل(ع) نے کہااے پروردگار! کیا مجھے اجازت ہے کہ زمین پر اتر جاؤں تا کہ ان میں شامل ہوکر چھٹا فردبن جاؤں؟ خدائے تعالیٰ نے فرمایا: ہاں ہم نے تجھے اجازت دی، پس جبرئیل امین زمین پر اتر آئے اور عرض  کی: سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول! خدا ئے بلند و برتر آپ کو سلام کہتا ہے، آپ کو درود اور بزرگواری سے خاص کرتا ہے، اور آپ سے کہتا ہے مجھے ا��نے عزت و جلال کی قسم کہ بے شک میں نے نہیں پیدا کیا مضبوط آسمان اور نہ پھیلی ہوئی زمین، نہ چمکتا ہوا چاند، نہ روشن تر سورج نہ گھومتے  ہوئے سیارے، نہ تھلکتا ہوا سمندر اور نہ تیرتی ہوئی کشتی مگر سب چیزیں تم پانچوں کی محبت میں پیدا کی ہیں اور خدا نے مجھے اجازت دی ہے کہ آپ کے ساتھ چادر میں داخل ہو جاؤں تو اے خدا کے رسول کیا آپ بھی اجازت دیتے ہیں؟ تب رسول خدا نے فرمایاباباجان سے کہا کہ یقیناً کہ تم پر بھی سلام ہو اے خدا کی وحی کے امین(ع)! ہاں میں تجھے اجازت دیتا ہوں پھر جبرائیل (ع)بھی ہمارے ساتھ چادر میں داخل ہوگئے اور میرے  خدا آپ لوگوں کو وحی بھیجتا اور کہتا ہے واقعی خدا نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ لوگوں سے ناپاکی کو دور کرے اے اہل بیت(ع) اور آپ کو پاک و پاکیزہ  رکھے تب علی(ع) نے میرے باباجان سے کہا:اے خدا کے رسول مجھے بتایئے کہ ہم لوگوں کا اس چادر کے اندر آجانا خدا کے ہاں کیا فضیلت رکھتا ہے؟ تب حضرت رسول خدا نے فرمایا اس خدا کی قسم جس نے مجھے سچا نبی بنایااور لوگوں کی نجات کی خاطر مجھے رسالت کے لیے چنا۔ اہل زمین کی  محفلوں میں سے جس محفل میں ہماری یہ حدیث بیان کی جائے گی اور اسمیں ہمارے ماننے والے اوردوست دار جمع ہونگے تو ان پر خدا کی رحمت نازل ہوگی  فرشتے ان کو حلقے میں لے لیں گے اور جب تک وہ لوگ محفل سے رخصت نہ ہونگے وہ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے۔ اس پر علی(ع) بولے: خدا کی قسم ہم کامیاب ہوگئے اور رب کعبہ کی قسم ہمارے ماننے والے بھی کامیاب ہوں گے تب حضرت رسول نے دوبارہ فرمایا:اے علی(ع) اس خدا کی قسم جس نے مجھے سچا نبی بنایا اور لوگوں کی نجات کی خاطر مجھے رسالت کے لیے چنا، اہل زمین کی محفلوں میں سے جس محفل میں ہماری یہ حدیث بیان کی جائے گی اور اس میں ہمارے ماننے والے اور دوستدار جمع ہوں گے تو ان میں جو کوئی دکھی ہوگا خدا اس کا دکھ دور کر دے گا جو کوئی غمز دہ ہوگا، خدا اس کو غم سے چھٹکارا دے گا، جو کوئی حاجت مند ہوگا خدا اس کی حاجت پوری کرے گا تب علی(ع) کہنے لگے بخدا ہم نے کامیابی اور برکت پائی اور رب کعبہ کی قسم کہ اسی طرح ہمارے ماننے والے بھی دنیا و آخرت میں کامیاب و سعادت مند ہوں گے۔ عربی متن اور روائت-👇  عَنْ فاطِمَةَ الزَّھْراءِ عَلَیْھَا اَلسَّلَامُ بِنْتِ رَسُولِ الله قالَ سَمِعْتُ فاطِمَةَ أَنَّھا قالَتْ دَخَلَ عَلَیَّ أَبِی رَسُولُ اللهِ فِی بَعْضِ الْاََیَّامِ فَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَافاطِمَةُ فَقُلْتُ عَلَیْکَ اَلسَّلَامُ۔ اقالَ إِنِّی أَجِدُ فِی بَدَنِی ضَعْفاً۔ فَقُلْتُ لَہُ أُعِیذُکَ بِاللهِ یَا أَبَتاھُ مِنَ الضَّعْفِ۔ فَقالَ یَا فاطِمَةُ ایتِینِی بِالْکِساءِ الْیَمانِی فَغَطَّینِی بِہ ِفَأَتَیْتُہُ بِالْکِساءِ الْیَمانِی فَغَطَّیْتُہُ بِہِ وَصِرْتُ أَنْظُرُ إِلَیْہِ وَإِذا وَجْھُہُ یَتَلَأْلَأُکَأَنَّہُ الْبَدْرُ فِی لَیْلَةِ تَمامِہِ وَکَمالِہِ فَمَا کانَتْ إِلاَّساعَةً وَإِذا بِوَلَدِیَ الْحَسَنِ  قَدْ أَقْبَلَ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا أُمَّاھُ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَاقُرَّةَ عَیْنِی  و َثَمَرَةَ فُؤَادِی۔ فَقَالَ یَا أُمَّاھُ إِنَّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ جَدِّی رَسُولِ الله فَقُلْتُ نَعَمْ إِنَّ جَدَّکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَأَقْبَلَ الْحَسَنُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ  یَا جَدَّاھُ یَا رَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَدْخُلَ مَعَکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا وَلَدِی وَیَا صاحِبَ حَوْضِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ فَدَخَلَ مَعَہُ تَحْتَ الْکِساءِ فَمَا کانَتْ إِلاَّ ساعَةً وَإِذا بِوَلَدِیَ الْحُسَیْنِ قَدْ أَقْبَلَ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا أُمَّاھُ۔فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا وَلَدِی وَیَا قُرَّةَ عَیْنِی وَثَمَرَةَ فُؤَادِی۔ فَقَالَ لِی یَا أُمَّاھُ إِنَّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ جَدِّی رَسُولِ اللهُ۔ فَقُلْتُ نَعَمْ إِنَّ جَدَّکَ وَأَخاکَ تَحْتَ الْکِساءِ۔ فَدَنَا الْحُسَیْنُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا جَدَّاھُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا مَنِ اخْتارَھُ اللهُ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُما تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَاوَلَدِی وَیَا شافِعَ أُمَّتِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔فَدَخَلَ مَعَھُما تَحْتَ الْکِساءِ فَأَ قْبَلَ عِنْدَ ذلِکَ أَبُو الْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طالِبٍ وَ قالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَابِنْتَ رَسُولِ اللهِ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا أَبَاالْحَسَنِ وَیَاأَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ۔فَقالَ یَا فاطِمَةُ إِنِّی أَشَمُّ عِنْدَکِ رائِحَةً طَیِّبَةً کَأَنَّھا رائِحَةُ أَخِی وَابْنِ عَمِّی رَسُولِ الله۔فَقُلْتُ نَعَمْ ھَا ھُوَ مَعَ وَلَدَیْکَ تَحْتَ الْکِساءِ فَأَقْبَلَ عَلِیٌّ نَحْوَ الْکِساءِ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُمْ تَحْتَ الْکِساءِ قالَ لَہُ وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا أَخِی ویَا وَصِیِّی وَخَلِیفَتِی وَصاحِبَ لِوَائِی قَدْ أَذِنْتُ لَکَ فَدَخَلَ عَلِیٌّ تَحْتَ  الْکِساءِ ثُمَّ أَتَیْتُ نَحْوَ الْکِساءِ وَقُلْتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَتاھُ یَارَسُولَ اللهِ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَکُونَ مَعَکُمْ تَحْتَ الْکِساءِ قالَ! وَعَلَیْکِ اَلسَّلَامُ یَابِنْتِی وَیَا بِضْعَتِی قَدْ أَذِنْتُ لَکِ فَدَخَلْتُ تَحْتَ الْکِساءِ فَلَمَّا اکْتَمَلْنا جَمِیعاً تَحْتَ الْکِساءِ أَخَذَ أَبِی رَسُولُ الله بِطَرَفَی  الْکِساءِ وَأَوْمَأَ بِیَدِھِ الْیُمْنَی إِلَی السَّماءِ وَقالَ اَللّٰھُمَّ إِنَّ ھَؤُلاءِ أَھْلُ بَیْتِی وَخاصَّتِی وَحامَّتِی لَحْمُھُمْ لَحْمِی وَدَمُھُمْ دَمِی یُؤْلِمُنِی مَا یُؤْلِمُھُمْ وَیَحْزُنُنِی مَا یَحْزُنُھُمْ أَنَاحَرْبٌ لِمَنْ حارَبَھُمْ  وَسِلْمٌ لِمَنْ سالَمَھُمْ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عَاداھُمْ وَمُحِبٌّ لِمَنْ أَحَبَّھُمْ إِنَّھُمْ مِنِّی وَأَنَا مِنْھُمْ فَاجْعَلْ صَلَواتِکَ وَبَرَکاتِکَ وَرَحْمَتَکَ وَغُفْرانَکَ وَرِضْوانَکَ عَلَیَّ وَعَلَیْھِمْ وَأَذْھِبْ عَنْھُمُ  الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْھِیراً۔ فَقالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ یَا مَلائِکَتِی وَیَا سُکَّانَ سَمٰوَاتِی إِنَّی مَا  خَلَقْتُ سَماءً مَبْنِیَّةً وَلاَ أَرْضاً مَدْحِیَّةً وَلاَ قَمَراً مُنِیراً وَلاَ شَمْساً مُضِییَةً وَلاَ فَلَکاً یَدُورُ وَلاَ بَحْراً یَجْرِی وَلاَ فُلْکاً یَسْرِی إِلاَّ فِی مَحَبَّةِ ھَؤلاءِ الْخَمْسَةِ الَّذِینَ ھُمْ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ الْاَمِینُ جَبْرائِیلُ یَارَبِّ وَمَنْ تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ عَزَّ وَجَلَّ ھُمْ أَھْلُ بَیْتِ النُّبُوَّةِ وَمَعْدِنُ الرِّسالَةِ ھُمْ فاطِمَةُ وَأَبُوھاوَبَعْلُھاوَبَنُوھا۔فَقالَ جَبْرائِیلُ یَارَبِّ أَتَأْذَنُ لِی أَنْ أَھْبِطَ إِلَی الْاَرْضِ لاِکُونَ مَعَھُمْ سادِساً فَقالَ قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔ فَھَبَطَ الْاَمِینُ جَبْرائِیلُ وَقالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللهِ الْعَلِیُّ الْاَعْلی یُقْرِئُکَ السَّلامَ وَیَخُصُّکَ بِالتَّحِیَّةِ وَالْاِکْرامِ وَیَقُولُ لَکَ وَعِزَّتِی وَجَلالِی إِنَّی مَا خَلَقْتُ سَماءً مَبْنِیَّةً وَلاَ أَرْضاً مَدْحِیَّةً وَلاَ قَمَراً مُنِیراً وَلاَ شَمْساً مُضِیئَةً وَلاَ فَلَکاً یَدُورُ وَلاَ بَحْراً یَجْرِی وَلاَ فُلْکاً یَسْرِی إِلاَّ لاِجْلِکُمْ وَمَحَبَّتِکُمْ وَقَدْ أَذِنَ لِی أَنْ أَدْخُلَ مَعَکُمْ فَھَلْ تَأْذَنُ لِی یَا رَسُولَ الله فَقالَ رَسُولُ الله وَعَلَیْکَ اَلسَّلَامُ یَا  أَمِینَ وَحْی اللهِ إِنَّہُ نَعَمْ قَدْ أَذِنْتُ لَکَ۔ فَدَخَلَ جَبْرائِیلُ مَعَنا تَحْتَ الْکِساءِ فَقالَ لاِبِی إِنَّ اللهَ قَدْ أَوْحَی إِلَیْکُمْ یَقُولُ إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ  تَطْھِیراً۔فَقالَ عَلِیٌّ لاِبِی یَا رَسُولَ الله أَخْبِرْنِی مَا لِجُلُوسِنا ھذَا تَحْتَ الْکِساءِ مِنَ الْفَضْلِ عِنْدَالله فَقالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیَّاًوَاصْطَفانِی بِالرِّسالَةِ نَجِیّاً مَا ذُکِرَ خَبَرُنا ھذَا فِی مَحْفِلٍ مِنْ مَحافِلِ أَھْلِ الْاََرْضِ وَفِیہِِ جَمْعٌ مِنْ شِیعَتِنا وَمُحِّبِینا إِلاَّ وَنَزَلَتْ عَلَیْھِمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْ بِھِمُ الْمَلائِکَةُ وَاسْتَغْفَرَتْ لَھُمْ إِلی أَنْ یَتَفَرَّقُوا۔ فَقالَ عَلِیٌّ  إِذنْ وَاللهِ فُزْنَا وَفازَ شِیعَتُنا وَرَبِّ الْکَعْبَةِ۔ فَقالَ أَبِی رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَآلِہِ یَا عَلِیُّ وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیّاً وَاصْطَفَانِی بِالرِّسالَةِ نَجِیّاً مَا ذُکِرَ خَبَرُنا ھذَا فِی مَحْفِلٍ مِنْ مَحَافِلِ أَھْلِ الْاَرْضِ وَفِیہِ جَمْعٌ مِنْ شِیعَتِنا وَمُحِبِّینا وَفِیھِمْ مَھْمُومٌ إِلاَّ وَفَرَّجَ اللهُ ھَمَّہُ وَلاَ مَغْمُومٌ إِلاَّ وَکَشَفَ اللهُ غَمَّہُ وَلاَ طالِبُ حاجَةٍ إِلاَّ وَقَضَی اللهُ حاجَتَہُ۔ فَقالَ عَلِیٌّ إِذن وَالله فُزْنا وَسُعِدْنا وَکَذلِکَ شِیعَتُنا فازُوا وَسُعِدُوا فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَةِ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ
via Blogger https://ift.tt/2vp652R
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
شاعرمشرق کودنیا سے کوچ کیے 81 برس بیت گئے
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/126804/
شاعرمشرق کودنیا سے کوچ کیے 81 برس بیت گئے
انسانی روح کو بیدار کرنے والے شاعر، اصول و ضوابط کی باریکی پرکھنے والے قانون دان اور مسلمانوں کے لیے آزاد ملک کا خواب دیکھنے والے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کو ہم سے بچھڑے آج 81 برس بیت چکے ہیں۔
علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور یہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے مشن ہائی اسکول سے میٹرک کیا اور ‘مرے’ کالج سیالکوٹ سے ایف اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
علامہ محمد اقبال کو بچپن میں ہی سید میر حسن جیسے استاد کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا تو ان کی طبیعت میں بھی تصوف، ادب اور فلسفے کا رنگ غالب آگیا۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
انہوں نے انگلستان میں کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بعد میں فلسفہ میں جرمنی سے پی ایچ ڈی کی۔
علامہ اقبال پیشے کے اعتبار سے قانون دان تھے لیکن ان کی شہرت روح بیدار کرنے والی لازوال شاعری کی وجہ سے ہوئی جسے آج بھی پڑھا جاتا ہے۔
انہیں اردو سے لے کر فارسی اور انگریزی زبان پر ایسی گرفت حاصل تھی کہ ان کے الفاظ براہ راست دل پر اثر کر جاتے ہیں۔
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے
ان کا شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ملک کا خواب دیکھا کرتے تھے۔
انہوں نے فارسی اور اردو زبانوں میں شاعری سے لوگوں کو اندھیرے سے اجالے کی  راہ دکھائی، اقبال کی مجموعہ کلام بال جبریل، بانگ درا، کلیات اقبال، مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اب بھی مقبول ہے۔ 
علامہ اقبال نے بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں جن میں ایک پہاڑ اور گلہری، جگنو اور بچے کی دعا شامل تھیں۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
علامہ اقبال انسانی استحصال کے خلاف تھے اور چاہتے تھے کہ انسان رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ اچھا رویہ رکھے۔
علامہ اقبال نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری اور احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں، یہی وجہ تھی کہ انہیں شاعر مشرق کہا جاتا ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں جذبہ خودی اور الگ ملک کی اہمیت کا شعور پیدا کیا، یہی وجہ ہے کہ اقبال کی پھونکی گئی انقلابی روح آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
وہ کونسا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے
علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کو ایک نئی سوچ اور فکر دی اور ان میں بیداری کا جذبہ پیدا کیا، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شاعری اہل پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے بھی بہت بڑی ضرورت ہے۔
علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938 کو دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے لیکن آج بھی دنیا انہیں ان کی تحریروں اور اشعار کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر.
0 notes
dragnews · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Today Pakistan
0 notes
alltimeoverthinking · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستی��ں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Daily Khabrain
0 notes
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Urdu News
0 notes
katarinadreams92 · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Hindi Khabrain
0 notes
aj-thecalraisen · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Urdu News
0 notes
dani-qrt · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ��اتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Urdu News
0 notes
rebranddaniel · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Urdu News Paper
0 notes
summermkelley · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘
حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘
فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘
یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘
میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہ�� اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
Urdu Khabrain
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2VO3Yxs via Roznama Urdu
0 notes
dhanaklondon · 5 years
Text
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 201 بعنوان جشنِ بہاراں رپورٹ : ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
#gallery-0-5 { margin: auto; } #gallery-0-5 .gallery-item { float: left; margin-top: 10px; text-align: center; width: 33%; } #gallery-0-5 img { border: 2px solid #cfcfcf; } #gallery-0-5 .gallery-caption { margin-left: 0; } /* see gallery_shortcode() in wp-includes/media.php */
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری برقی دنیا میں منفرد ادارہ ہے جو گوناگوں پروگرام منعقد کرتا آیا ہے ۔اس ادارے نے اب تک 200یونیک پروگرام پیش کیے ہیں جو اپنے آپ میں ریکارڈ ہے ۔نہ صرف 200پروگراموں کی ہمالیائی بلندی کو چھو لیا ہے بلکہ تمام تر پروگرام برائے تنقید ہوئے ۔اس ادارے سے جڑے افراد اپنے اپنے شعبے میں ماہر ،ادب کی ہر صنف سخن سے وابستہ اور دنیا کے کونے کونے سے جہاں جہاں اردو کانوں میں رس گھولتی ہے وہاں وہاں سے اس کے شیدائی ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری میں شموليت اختیار کر اردو دوستی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔نثر ونظم کی تقریباً تمام اصناف سخن میں انفرادیت سے بھر پور مع نقد ونظر پروگرام منعقد ہوچکے ہیں ۔ادارہ ہذا کے بانی وچیئرمن توصیف ترنل صاحب جو ہر بار کچھ نیا کرنے کی دھن میں رہتے ہیں نام صرف پروگرام برائے تنقید پیش کئے بلکہ مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی انجام دینے پر ایوارڈ اور توصیفی اسناد سے بھی نوازا ۔ایک اور تجربہ ۔۔ایک پروگرام فیس بک پر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا ۔کتب ادارے کے ذریعے اشاعت پذیر ہوئیں ۔۔اور حالیہ ایک تجربہ فیس بک پر بہترین تخلیق کے لیے ووٹنگ سسٹم ۔۔۔مختلف ویب سائٹس ، اخبار وجرائد میں پروگرام کی نشر واشاعت ۔۔اور اگلا قدم ان شاءاللہ یوٹیوب چینل پر تخلیقات کی نشر و اشاعت ۔ ادارہ اب کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔۔ادارے سے جڑے افراد نے اسے وہ مقام عطا کیا ہے کہ دیگر اس سے انسلاک کے خواہاں ہیں ۔۔قابل ستائش اقدامات پر ادارہ اور اس سے منسلک ممبران کی پذیرائی کی جاتی ہے ۔یہ ایک ٹیم ورک ہے ۔۔۔بلکہ یوں کہنا چاہئے بیسٹ اردو پوئٹری ایک خاندان ہے ۔۔جس کا ہر فرد لائق تعظیم اور اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے ۔۔جسے توصیف سر نے مالا میں پروئے رکھا ۔۔ان کے اسی وصف کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے ۔
ادارہ ہذا کا پروگرام 201 بعنوان ،،جشنِ بہاراں کی شام ۔۔جگر مراد آبادی کے نام ،،ان کے یوم ولادت کے موقع پر ان سے منسوب ہے ،۔۔۔شہنشاہِ تغزل ۔۔ممتاز ترین قبل از جدید ۔۔شاعروں میں نمایاں ،۔بے پناہ مقبول ،مترنم لب ولہجے کے لیے مشہور ۔۔جورندانہ سرمستی میں کہہ اٹھے ، پہلے شراب زیست تھی ،اب زیست ہے شراب کوئی پلا رہا ہے ،پیئے جارہا ہوں میں محبت کا وسیع تر مفہوم دیکھیے ، اک لفظ محبت کا اتنا سا فسانہ ہے سمٹے تو دل عاشق ،پھیلے تو زمانہ ہے وہ صحیح معنوں میں اسے فاتح قرار دیتے ہیں ، وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ
یہ جشنِ بہاراں موسم بہار میں منعقد کیا گیا ۔۔۔جسے اردو شعرا نے مختلف مفاہیم دیے، جوش نے اپنی ایک نظم میں یہ خوبصورت مصرع نظم کیا ،
خزاں کہیں گے پھر کسے ؟اگر یہی بہار ہے
تو فیض نے یوں خامہ فرسائی کی ،
گلوں میں رنگ بھرے ذکرِ نوبہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ایک شاعر نے یوں بیان کیا ، ہوا بھی یہ اقصائے عالم میں پکار آئی بہار آئی ،بہار آئی ،بہار آئی ،بہار آئی تو میر یوں گویا ہوئے ،
چند موج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی علامہ کا نقطۂ نظر ملاحظہ ہو ، یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں لاالٰہ الا اللہ
غرض اردو شعرا نے بہار پر بہترہے پر بہار اشعار کہے۔۔ادارے کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ عصر حاضر کے قلمکار مجوزہ عنوان پر قلم کی جولانیاں دکھائیں ۔۔اور تنقید کے گلخن سے گزر مثل کندن دمکیں۔۔ادارہ ہمیشہ ہی قلمکاروں کی بوقلمونی کا معترف اور اردو ادب کے فروغ کے لیے کوشاں رہا ہے ۔۔کہ وہ انجماد کو قائل نہیں وہ سدا متحرک اور جدید تقاضوں سے لیس رہا ہے ۔۔حالیہ پروگرام جس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
کبھی اس پر خزاں نہیں آئی دل عجب عالمِ بہار میں ہے احمدمنیب۔ لاہور پاکستان
ہم تو خزاں کے ساتھ ہی جی لیں گے شوق سے گلشن میں اب بہار نہیں ہے تو کیا ہوا اصغر شمیم بھارت
چلو کہ جشن_ بہاراں منائیں ہم اشرف وگرنہ لوگ کہیں گے بجا نہیں صاحب اشرف علی اشرف پاکستان
زخم دل مشک بار میں نے کیا یوں خزاں کو بہار میں نے کیا تھذیب ابرار بجنور انڈیا
ہے “صدف”بھى ارغوانى چمپئ رنگوں میں آج ہو رہا ہے یہ گماں جانے بہار آنے کو هے صبیحہ صدف بھوپال بھارت
ہوا بھی مشک بار ہے گلوں پہ بھی نکھار ہے وہ انتظار جس کا تھا ہاں یہ وہی بہار ہے ڈاکٹر ارشاد خان بھارت
لمس_یاراں سے برگ وبار هوئ عین پت جھڑ میں نوب ھار ھوئ ماورا سید کراچی پاکستان
میرے چہرےپہ محبت کی جھلک آجائے ذکرِ دشمن بھی اگر میری زباں تک پہنچے ضیاء شادانی بھارت
لوگ آساں سمجھتے ہیں. مگر مشکل سے کوئی غالب کوئی اقبال و جگر بنتا ہے اتنا آساں نہیں بستی کو بسانا اے “صبا” بنتے بنتے ہی کہی جاکے نگر بنتا ہے نسیم خانم صبا معلمہ کوپل بھارت
نوک پر کانٹوں کے رکھ کر اک کلی نے اپنے لب یوں بھی بدلا ہے بہاروں میں خزاؤں کا مزاج ڈاکٹر مینا نقوی مراداباد بھارت
واحد وہ ذات جس کا ہرگز نہیں ہے ثانی اس کے کرم سے یارو ہر ایک کامرانی عامرحسنی ملائیشیا
بیت جائے نہ پیار کا موسم ہے ابھی تک بہار کا موسم جعفر بڑھانوی بھارت
چمن میں جھونکا ہوا کا خرام کرتا ہے کلی سے پھول سے دلکش پیام کرتا ہے زمیں کے جسم پہ یہ ارتسام کرتا ہے نظر و دل و زباں سے کلام کرتا ہے ہمیں بہار کا موسم سلام کرتا ہے ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
خدا کرے ترے دل کو قرار آ جائے ہوا چلے کبھی ایسی، بہار آ جائے ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
ہر طرف اِک نکھار آیا ہے موسمِ نو بہار آیا ہے دیکھ کر نو شگفتہ پھولوں کو تِتلیوں کو قرار آیا ہے سارے بَھنورے ہیں مَحوِ جشنِ بہار ہر کلی پر نکھار آیا ہے روبینہ میرجموں کشمیربھارت
اس کو سوچا ہے، اس کو لکھا ہے سانس میری بحال ہے یعنی دل کی دھڑکن خبر یہ دیتی ہے دل کے اندر دھمال ہے یعنی اطہر حفیظ فراز فیصل آباد، پاکستان
خزاں رت کو بہار کر دوں کیا ایسا میں یار کر دوں؟؟ سمی شاہد
لوگ مجھ سے نگاہیں چرانے لگے جب سے میرا قلم آٸینہ ہوگیا اظہر عاطف، ناندورہ (مہاراشٹر)
ملے یہ پیار کی راحت تجھے زمانے میں دیے خوشی کے جلیں تیرے آشیانے میں ساجدہ انور کراچی پاکستان
جا چکی ہے اب خزاں جشنِ بہاراں کیجئے آئیے جم کر یہاں جشنِ بہاراں کیجئے مختلف عنوان پر دو سَو مکمل ہو چکے آج دو سَو ایک واں جشنِ بہاراں کیجئے گلشنِ اردو ادب میں آ گئی فصلِ بہار آئیے اب تو میاں جشنِ بہاراں کیجئے مختار تلہری بھارت
بہار آتی ہے جب بھی نفیسؔ گلشن پر تو حاسدین کے چہرے اترنے لگتے ہیں نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی (انڈیا)
خطبۂ
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین….. بعد الحمد…، درود و سلام ہو نبیِ کریم ﷺ پر اور ان کی آل و اصحابِ کرامؓ پر….
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے بانی و چیئرمن محترم توصیف ترنل صاحب صدرِ ادارہ عالی وقار….، محترم مسعود حسّاس صاحب قبلہ…. معتبر انتظامیۂ ادارہ….، معزّز شعرائے کرام اور ناظرینِ محفل….
اَلسَّلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
احبابِ ذی وقار آفاقِ ادب کے اِس درخشاں سَیّارے پر…، عظیم المرتبت تابندہ سِتاروں کے درمیان مجھ خاکسار و ہیچ مداں ذرّے کو مسنَدِ صدارت سونپی گئی… حتّٰی کہ کسی اعتبار میں خود کو اِس قابل نہیں پاتا… باوجود اِس کے مجھ نااہل کو محفلِ کاملین میں اعزازی نشست کا دِیا جانا یقیناً یہ امر انتظامیہ کی کشادہ دلی کا مظہر ہے… مجھ طفل مکتب کی حوصلہ افزائی کے لئے اٹھایا گیا خوش آئند قدم ہے اور ساتھ ہی محبّانِ نفیسؔ کی محبّت کا نایاب و نادر تحفہ بھی…* *احباب…، مجھ ادنیٰ طالبِ علم کی کیا بساط کہ جہانِ ادب کی ارفع و اعلیٰ بزرگوار شخصیات کی موجودگی میں خطبۂ صدارت پیش کر سکوں… اس لئے ناچیز کی اس تحریر کو محض اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی سمجھے نہ کہ خطبۂ صدارت
بہ فضلِ رَب تعالیٰ…، ادارے کے بنیادی دَور سے ہی مجھے اِس سے جُڑنے اور خدمتِ اردو ادب کرنے کا موقع مِلا… بعد ازاں ناچیز کی ادنیٰ خدمات کو سَراہتے ہوئے سابقہ انتظامیہ کی متّفقہ رائے سے محترم توصیف ترنل صاحب نے مجھ نااہل کو پہلے گروپ ایڈمن بنایا اور پھر انتظامیہ میں بھی شامل کِیا… جس کے لئے میں ان کا صمیمِ قلب سے شکریہ ادا کرتا ہوں… دوستوں ادارے میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے سبب بڑی ذمّہ داری کے ساتھ یہ بات کہتے ہوئے فخر محسوس کررہا ہوں کہ فروغِ اردو ادب اور اِس کی ترقی و ترویج کے لئے ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری اپنے روزِ اوّل سے ہی سَرگرمِ عمل رہا ہے…
دوستو…، معیاری تنقیدی پروگرامز ادارے کی انفرادیت مع کامیابی کا وطیرہ گردانے جاتے ہیں… جن کے ذریعے دنیا بھر کے قلمکار مستفید ہورہے ہیں… ادارے سے منسلک سخنورانِ عالم میں جہاں اردو، عربی، فارسی کے علاوہ سرائیکی، پنجابی، ترکی، رومن وغیرہ زبانوں پر مہارت رکھنے والے استاد شعراء و ادباء موجود ہیں تو وہی خال خال ایسی شخصیات بھی جلوہ فگن ہیں جو اپنے آپ میں کسی ادبی انجمن سے کم نہیں…، جن میں سَرِ فہرست محترم مسعود حسّاس صاحب قبلہ، محترم شفاعت فہیم صاحب، محترم شہزاد نیّر صاحب، محترم احمد منیب صاحب وغیرہ شامل ہیں… جو اپنے علم و فن کے دریا بہا کر طفلِ دبستان کو نہایت ہی مشفِقانہ انداز میں سَیراب فرمارہے ہیں…
ادارے کی یہ کارکردگی بھی لائقِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے کہ ادارۂ ھٰذا نہ صرف فروغِ اردو ادب کے لئے کوشاں رہتا ہے بلکہ ادبی تخلیقات شائقینِ ادب تک پہچانے کے لئے برقی دنیا کے تمام تر وسائل بروئے کار لاتا ہے… اور ساتھ ہی قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں مختلف النوع اسناد بھی عطا کرتا ہے… جس میں یقیناً مزید بہتری کی گنجائش باقی ہے…
غرض کہ ادارۂ ھٰذا جدّت پسندی کے ساتھ ساتھ اس تکنیکی دَور کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے خدمتِ اردو ادب انجام دے رہا ہے… اور آج اپنے ہفتہ وار انعقادات کی ۲۰۱ ویں منزل “جشنِ بہاراں” کو بحسن و خوبی کامیابی کے ساتھ طے کرچکا ہے… جس کے لئے نہ صرف بانئ ادارہ توصیف ترنل صاحب اور ادارے کی انتظامیہ قابلِ مبارکباد ہیں بلکہ منتظمیںِ محافل، ناقدین و مبصّرین، شعرائے عالَم، صحیفہ نگار، ناظرینِ کرام جیسے وہ تمام تر افراد مبارکباد کے مستحق ہیں جو اپنی ذاتی مصروفیات، درد و غم، پریشانیاں، چین و سکون، لمحۂ نشاط وغیرہ سب کچھ بالائے طاق رکھ کر محفل کو کامیاب کرنے کے لئے بے لوث خدمات انجام دیتے آئے ہیں… یقیناً اِس کامیابی کا سِہرا ادب کے ان تمامی جیالوں کے سَر جاتا ہے… اور ادب کے اِنھیں سپاہیوں کو ایک محاذ پر قائم رکھنا یہ محترم توصیف ترنل صاحب کا کمال ہے
آج کی اس ۲۰۱ ویں محفل “جشنِ بہاراں” جو کہ استاد الاساتذہ محترم جگر مرادابادی سے منسوب کیا گئی ہے میں اس میں شریک تمامی سخنورانِ عالم اور محبّانِ اردو کو مبارکباد پیش کرتا ہوں… واقعی تمامی شعرائے کرام نے موضوع کی مناسبت سے عمدہ ترین کلام پیش کِیا جس کے لئے تمامی قلمکار مبارکباد کے مستحق ہیں… مجھ طفل مکتب کو اپنی قلبی داد و تحسین اور دعاؤں سے نوازنے کے لئے آپ کا از حد ممنون ہوں… ناظمِ مشاعرہ محترمہ صبیحہ صدف صاحبہ کا منفرد لب و لہجہ بھی مبارکباد کا مستحق ہے… ساتھ ہی ایک بار پھر مجھ خاکسار و ہیچ مداں کو مسندِ صدارت کے اہل سمجھنے کے لئے بانئ ادارہ توصیف ترنل صاحب اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں… بالخصوص محترم مسعود حسّاس صاحب قبلہ، پروگرام آرگنائزر محترم احمر جان صاحب اور دیگر محبّانِ نفیسؔ کا صمیمِ قلب سے ممنون و شکر گزار ہوں… یقیناً…، یہ اللّہ کریم کا احسانِ عظیم ہے کہ اُس نے اِس انہماکی دور میں بھی آپ جیسے چند سہی مگر اہلِ علم و نظر اور مخلص دوست مجھ گنہگار کی جھولی میں ڈال رکھے ہیں… اللّہ کریم سے دعا کرتا ہوں کہ ادارۂ ھذا اور اس سے منسلک احباب کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے… آمین والسلام….. احقرالعباد….نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی (انڈیا)
اس خوبصورت پروگرام کے آرگنائزر تھے احمر جان صاحب ۔۔لائیو رپورٹ پیش کی ادارے کے بانی و چیئرمین توصیف ترنل صاحب نے ۔۔صدر نشین تھے نفیس احمد نفیس صاحب ۔۔مہمانان خصوصی تھے ۔۔اظہر عاطف صاحب اور ساجدہ انور صاحبہ جبکہ مہمانان اعزازی تھے ۔۔ڈاکٹر سمی شاہد صاحب اور صبیحہ صدف صاحبہ ۔۔اور سب سے بڑھ کرجاذبیت سے بھر پور گرافکس ڈیزائن کی تھی صابر جاذب صاحب نے ۔۔ناقدین کے فرائض ۔۔شفاعت فہیم صاحب ،مسعود حساس صاحب ،غلام مصطفیٰ دائم صاحب ،نعیم جاوید صاحب وامجد شاہ صاحب نے انجام دیے۔۔ حمد کا نذرانہ پیش کیا عامر حسنی صاحب ونسیم خانم صبا صاحبہ نے ۔۔رسالت مآب میں ہدیۂ نعت پیش کیا نفیس احمد نفیس صاحب نے ۔ اس کے بعد شعرا نے پر بہار خامہ فرسائی کی ۔۔نمونہ کلام آپ دیکھ چکے ہیں ۔ خوبصورت نظامت سے محفل میں بہار کا سماں پیش کیا صبیحہ صدف صاحبہ نے ۔۔اس خوبصورت پروگرام کا اختتام خطبۂ صدارت پر ہوا ۔۔۔ایک اور کامیاب پروگرام پیش کرکے ادارے نے ایک اور سنگِ میل عبور کیا ۔
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 201 بعنوان جشنِ بہاراں عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 201 بعنوان جشنِ بہاراں رپورٹ : ڈاکٹر ارشاد خان بھارت ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری برقی دنیا میں منفرد ادارہ ہے جو گوناگوں پروگرام منعقد کرتا آیا ہے ۔اس ادارے نے اب تک 200یونیک پروگرام پیش کیے ہیں جو اپنے آپ میں ریکارڈ ہے ۔نہ صرف 200پروگراموں کی ہمالیائی بلندی کو چھو لیا ہے بلکہ تمام تر پروگرام برائے تنقید ہوئے ۔اس ادارے سے جڑے افراد اپنے اپنے شعبے میں ماہر ،ادب کی ہر صنف سخن سے وابستہ اور دنیا کے کونے کونے سے جہاں جہاں اردو کانوں میں رس گھولتی ہے وہاں وہاں سے اس کے شیدائی ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری میں شموليت اختیار کر اردو دوستی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔نثر ونظم کی تقریباً تمام اصناف سخن میں انفرادیت سے بھر پور مع نقد ونظر پروگرام منعقد ہوچکے ہیں ۔ادارہ ہذا کے بانی وچیئرمن توصیف ترنل صاحب جو ہر بار کچھ نیا کرنے کی دھن میں رہتے ہیں نام صرف پروگرام برائے تنقید پیش کئے بلکہ مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی انجام دینے پر ایوارڈ اور توصیفی اسناد سے بھی نوازا ۔ایک اور تجربہ ۔۔ایک پروگرام فیس بک پر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا ۔کتب ادارے کے ذریعے اشاعت پذیر ہوئیں ۔۔اور حالیہ ایک تجربہ فیس بک پر بہترین تخلیق کے لیے ووٹنگ سسٹم ۔۔۔مختلف ویب سائٹس ، اخبار وجرائد میں پروگرام کی نشر واشاعت ۔۔اور اگلا قدم ان شاءاللہ یوٹیوب چینل پر تخلیقات کی نشر و اشاعت ۔
0 notes
thebestmealintown · 5 years
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی ��وشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘ حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن
یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘ فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھی گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘ یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور
یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘
میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘ میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KagbLs via India Pakistan News
0 notes
Text
اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے
نامور کالم نگار جاوید چوہدری دنیا بھر کی سیاحت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ آپ اپنے سیاحتی دوروں کی تفصیلات گاہے بگاہے اپنے کالموں میں اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں جاوید چوہدری نے اردن کا دورہ کیا ۔ اس دوران وہ بحر مردار کے کنارے واقع قدیمی بستی سدوم بھی گئے جس کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ یہ بستی عذاب الٰہی کا شکار ہو کر سینکڑوں سال قبل قصہ پارینہ بن چکی ہے مگر
اس کے آثار آج بھی انسانیت کو خوف خدا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ جاوید چوہدری اپنے کالم میں سدوم کے سفر سے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے‘ یہ جد الانبیاء کے ساتھ عراق
کے شہر ’’ار‘‘ سے نکلے ‘ یہ پہلے موجودہ ترکی کے شہر شانلی عرفہ پہنچے‘ عرفہ کے بادشاہ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں جلانے کی کوشش کی‘ یہ اس کے بعد سفر کرتے ہوئے سدوم کے قریب پہنچے‘ حضرت ابراہیم ؑ فلسطین تشریف لے گئے لیکن حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ سدوم میں رک گئے‘ سدوم کے لوگ دو علتوں کے شکار تھے‘ یہ راہزنی کرتے تھے‘ سدوم شام کے راستے میں تھا۔ یہ لوگ سڑک سے گزرتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے‘ دوسرا یہ ’’ہم جنسیت‘‘ کا شکار تھے‘ مرد مردوں اور عورتیں عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات رکھتی تھیں‘ حضرت لوط ؑ انھیں تبلیغ فرماتے رہے لیکن
یہ لوگ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے‘ یہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کے پاس گئے‘ انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ کی خوش خبری سنائی‘ صاحبزادے کا نام حضرت اسحاق ؑ تجویز کیا اور پھر یہ سدوم آ گئے‘ یہ مہمان بن کر حضرت لوط ؑ کے گھر میں ٹھہرے‘ سدوم کے ہوس کے پجاریوں نے حضرت لوط ؑ کے گھر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ مہمانوں کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ فرشتوں نے اپنے آپ کو حضرت لوط ؑپر ظاہر کر دیا‘ انھیں اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا اور درخواست کی آپ ؑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ بستی چھوڑ کر پہاڑ پر تشریف لے جائیں‘ آپ ؑ سے درخواست کی گئی آپ لوگ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے‘ حضرت لوط ؑ اپنی اہلیہ اوردوصاحبزادیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف روانہ ہو گئے‘ فرشتوں نے اس کے بعد پوری آبادی ہتھیلی کی طرح پلٹ دی‘ انجیل کے مطابق گڑگڑاہٹ کی آواز آئی تو حضرت لوط ؑکی اہلیہ نے مڑ کر دیکھ لیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس گستاخی پر اسے پتھر کی چٹان بنا دیا‘ یہ چٹان آج بھی بحرمیت کے کنارے موجود ہے اور یہ دور سے ایک حیران پریشان خاتون دکھائی دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے گزشتہ روز یہ چٹان دیکھنے کی توفیق بھی عطا کی‘ حضرت لوط ؑ اس کے بعد صاحبزادیوں کے ساتھ غار میں تشریف لے گئے‘ یہ غار بھی اس وقت موجود ہے‘ میں اس غار میں بھ�� گیا اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط ؑ کا یہ واقعہ انجیل مقدس میں بھی بیان فرمایا اور قرآن مجید میں سورہ ہود‘ العنکبوت‘ الشعراء‘ الاعراف اور الحجر میں بھی‘ یہ علاقہ دنیا کا پست ترین مقام ہے‘ بحرمیت اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نشانی ہے‘ یہ سمندر اس سے پہلے یہاں موجود نہیں تھا‘ یہ قوم لوط پرعذاب کے نتیجے میں ظاہر ہوا‘ اس میں حیات بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتی‘ یہاں اسی لیے باقی علاقوں کے مقابلے میں گرمائش بھی زیادہ ہوتی ہے چنانچہ میرا ذاتی خیال تھا یہ جگہ مقام تفریح نہیں یہ مقام عبرت ہے‘ میرا دل ڈر رہا تھا۔میں نے اس خوف کی وجہ سے سمندر کے پانی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ میں جتنی دیر سمندر کے کنارے بیٹھا رہا میں استغفار بھی کرتا رہا‘ اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی بھی مانگتا رہا اور
یہ دعا بھی کرتا رہا‘ یا پروردگار! مجھے اپنے پیار حبیبؐ کے صدقے اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں رکھنا‘ یہ جگہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سدوم کی مناسبت سے ہم جنسیت کو سوڈومی اور لواطت کا نام دے دیا۔میں دل سے سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کو چوری اور ہم جنسیت دونوں پسند نہیں ہیں لیکن جب یہ دونوں گناہ مل جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس شخص یا آبادی پر عذاب نازل فرما دیتا ہے لہٰذا میں نے آج تک کسی ایسے چور کو پرامن نہیں دیکھا جو ہم جنسیت میں بھی مبتلا ہو‘ یہ لوگ جلدی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں اوران کی جسمانی حدت بھی نارمل لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ غیرفطری موت کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔میں نے خوف کے عالم میں نعیم ارشد کو ساتھ لیا اور ہم ڈیڈسی کے کنارے سے اٹھ کر ریستوران میں آگئے‘ ریستوران بلندی پر تھا‘ وہاں سے فلسطین صاف دکھائی دے رہا تھا‘
میں نے فلسطینی بستیاں دیکھیں اور دل سے ایک ہوک سی اٹھی‘ فلسطین مسلمانوں کی بے حسی کا اجتماعی نوحہ ہے اور یہ نوحہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مسلمان بے حسی کے خواب سے نہیں جاگتے‘ میری زندگی کی تین بڑی خواہشوں میں سے ایک خواہش بیت المقدس میں نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ہے۔ میں نے فلسطین کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ’’یا باری تعالیٰ مجھے اس زندگی میں ایک بار اپنا یہ گھر دکھا دے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی’’اے گناہ گار شخص‘ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ دن ضرور دکھائے گا‘‘ میں نے آمین کہا اور ہم جبل نیبو کی طرف روانہ ہوگئے‘ یہ وہ مقام تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس (فلسطین) دکھائی تھی‘ حضرت موسیٰ ؑ کا انتقال بھی اسی علاقے میں ہوا تھا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان کے مدفن پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کی گناہ گار بیوی جسے رب تعالیٰ نے پتھر بنا کر رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیا۔۔معروف کالم نگار جاوید چوہدری جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کیا دیکھا، ایسا منظر جو آپ کو بھی ہلا کر رکھ دے appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2KagbLs via
0 notes