Tumgik
#ایم کیو ایم پاکستان
urduchronicle · 8 months
Text
نواز شریف نے سندھ کے گورنر کے عہدے سمیت ایم کیو ایم کے تمام مطالبات مان لئے، ملاقات کی اندرونی کہانی
ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ن کی حکومت بننے کی صورت میں سندھ کی گورنر شپ مانگ لی۔ کراچی میں وفاق کے ترقیاتی منصوبوں میں ایم کیو ایم کو آن بورڈ رکھا جائے گا،مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان آئندہ مل کر چلنے پر اتفاق ہوا۔ مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔ ذرائع نے بتایا کہ ایم کیوایم نے مطالبات کی لسٹ نوازشریف کے سامنے رکھ دی،ایم کیو ایم نے ن لیگ کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
کوئی تو سبق سیکھے
Tumblr media
عمران خان کی سیاست کا اصل ہدف اب بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ پہلے لڑائی اگر کھل کر لڑی جا رہی تھی اوراسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست حملے کیے جا رہے تھے جس کا نکتہ عروج 9؍مئی تھا تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود اپنی بڑی کامیابی کے بعد اب تحریک انصاف اور عمران خان نے اس لڑائی کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب براہ راست لڑائی کی بجائے ایک سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا اختتام نجانے کیا ہو گا۔ 9؍مئی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں ریاست کی طرف سے سنگین الزامات کے شکار علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا بنوا کر اسٹیبلشمنٹ کو پہلا واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان کی لڑائی جاری ہے۔ اس کے بعد اب محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار ��قریر کے بعد اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر کے طاقت ور حلقوں کو دوسراپیغام دے دیا گیا ہے کہ عمران خان اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقریریں اور میڈیا ٹاک سنیں تو اُن کا اشاروں کنایوں میں اصل نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ انتخابات سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹے ہوے رابطوں کو بحال کرنا تھا جس کا عمران خان بار بار اظہار کرتے رہے اور یہاں تک کہ الیکشن سے ایک دو ہفتہ قبل تک یہ شکایت کی کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکمت عملی کا اب کیا مقصد ہے؟ کیا اب وہ واقعی قانون کی حکمرانی اور اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ کے لیے سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں یا اُن کی اب بھی کوشش یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے اُن کے رابطہ اور تعلقات بحال ہوں تاکہ اُن کے لیے موجودہ مشکلات سے نکلنے اور اقتدار میں آنے کا رستہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان کی جدوجہد اگر واقعی قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور وہ واقعی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُن کو کھل کر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ 
Tumblr media
اُن کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت اور رابطوں کی بحالی کی خواہش کی بجائے اپنے ماضی کی غلطیوں، جہاں اُنہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کی، کو تسلیم کر تے ہوئے تجاویز دینی چاہئیں کہ پاکستان کی سیاست کو کیسے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے دور رکھا جا سکتا ہے ابھی تک تو ہم دائروں کا سفر ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی ایک سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے تو کبھی کوئی دوسری۔ جب کسی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے اپنے تمام اصول اور بیانیے بھول جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ن لیگ کے ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے نعرے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اب تک عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا واحد مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ 
کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں مبینہ طور پر بڑی دھاندلی ہوئی جس کا اصل نشانہ تحریک انصاف تھی۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے سیاستدانوں کو ہی کردار ادا کرنا ہو گا جس کے لیے بار بار اپنے سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کے لیے اُنہیں اپنے آپ کو استعمال ہونے سے روکنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت بنانے والی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے تو توقع نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے کے اصول پر اس وقت بات کریں۔ لیکن کیا عمران خان اس اصول پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کا بھی یقین نہیں۔ بے شک عمران خان کے پاس ایک موقع ضرور ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کے خیال کو ترک کر دیں اور اپنی سیاسی لڑائی کو پرامن طریقے سے عوام کی حمایت سے آئین و قانون کی حدود میں رکھیں۔ کوئی تو ہو جو سبق سیکھے!
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ  
1 note · View note
emergingpakistan · 7 months
Text
عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟
Tumblr media
الیکشن ہو گیا۔ اگلے چند دنوں میں تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں فنکشنل ہو جائیں گی۔ پنجاب اور سندھ میں تو ابھی سے ہوچکیں۔ اصل سوال اب یہی ہے کہ عمران خان کو کیا کرنا چاہیے، ان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ ایک آپشن تو یہ تھی کہ الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنا لی جاتی۔ ابتدا میں اس کے اشارے بھی ملے، تحریک انصاف کے بعض لوگ خاص کر بیرسٹر گوہر وغیرہ اس کے حامی تھے۔ عمران خان نے البتہ عدالت میں اپنے کیس کی سماعت پرصحافیوں سے صاف کہہ دیا کہ وہ ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے کسی بھی صورت میں بات نہیں کریں گے۔ یوں فوری طور پر حکومت میں آنے کی آپشن ختم ہو گئی۔ اگلے روز ایک سینیئر تجزیہ کار سے اس موضوع پر بات ہو رہی تھی۔ وہ کہنے لگے کہ عمران خان کو ایسا کر لینا چاہیے تھا کیونکہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آتی تو خان کے لیے رہائی کی صورت نکل آتی، دیگر رہنما اور کارکن بھی رہا ہو جاتے، اسمبلی میں بعض قوانین بھی تبدیل کیے جا سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ 
یہ تمام نکات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق عمران خان کے دو دلائل تھے، ایک تو یہ کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے اور چھین کر جن پارٹیوں کو دیا گیا، وہ بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ اس لیے ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر کیسے حکومت بنائیں؟ دوسرا یہ کہ یہ سب کچھ عارضی اور محدود مدت کے لیے ہے۔ جلد نئے الیکشن کی طرف معاملہ جائے گا اور تب تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ جو دونوں جماعتون ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہے، اس پر ہی تحریک انصاف الیکشن جیت سکتی ہے۔ اگر ایک بار مل کر حکومت بنا لی تو پھر بیانیہ تو ختم ہو گیا۔ خیر یہ آپشن تو اب ختم ہو چکی۔ اب عمران خان کے پاس دو ہی آپشنز ہیں۔ پہلا آپشن کچھ انقلابی نوعیت کا ہے کہ ’ڈٹے رہیں انہیں پاکستان میں اداروں کے کردار کے حوالے سے سٹینڈ لینا چاہیے، اسٹبلشمنٹ کا ملکی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔‘   دوسرا آپشن اصولی ہونے کے ساتھ کسی حد تک پریکٹیکل بھی ہے۔ اس کے مطابق عمران خان ن لیگ، پی پی پی، ایم کیوایم، ق لیگ وغیرہ کے حوالے سے اپنی تنقیدی اور مخالفانہ پالیسی پر قائم رہیں۔ دھاندلی پر احتجاج کرتے رہیں۔
Tumblr media
جو پارٹیاں دھاندلی پر احتجاج کر رہی ہیں، ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں، ان کے ساتھ ایک وسیع اتحاد بنائیں، حکومت پر دباؤ بڑھاتے رہیں اور اپنے وقت کا انتظار کریں۔ یہ آپشن زیادہ منطقی اور سیاسی اعتبار سے معقول ہے اور غالباً عمران خان اسی راستے پر گامزن ہیں۔ اس حوالے سے البتہ انہیں دو تین باتوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے انہیں ان سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف ہاتھ بڑھانا ہو گا جو احتجاج کر رہی ہیں، بے شک ماضی میں انہوں نے تحریک انصاف کو دھوکہ ہی کیوں نہ دیا ہو۔ ایک نیا سیاسی آغآز کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور جی ڈی اے کے ساتھ تحریک انصاف پہلے ہی کراچی میں مل کر احتجاج کر رہی ہے۔ جماعت کے ساتھ کراچی میں بھی تعاون کرنا چاہیے۔ جماعت کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں اس کی دو نشستیں چھن گئی ہیں، دونوں تحریک انصاف کو دی گئیں، اگر تحریک انصاف تدبر سے کام لے تو باجوڑ میں کیا گیا ایثار ان کے لیے مستقبل میں تعاون کے راستے کھول سکتا ہے۔ باجوڑ میں قومی اسمبلی کی سیٹ اور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر الیکشن ہونا باقی ہے، ان سیٹس پر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔
اختر مینگل نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ختم کر کے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دیا تھا۔ عمران خان کو اس کا صدمہ ہو گا، مگر اب انہیں اختر مینگل اور دیگر بلوچ و پشتون قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بلوچستان میں محمود اچکزئی کی پشونخوا میپ، بی این پی مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی مشترکہ احتجاج کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کو اس اتحاد کا حصہ بننا چاہیے۔ جے یوآئی کے مولانا فضل الرحمن بھی احتجاجی موڈ میں ہیں، ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا ایک رابطہ ہو چکا ہے، احتیاط کے ساتھ تحریک انصاف کو اس جانب مزید بڑھنا ہو گا۔ مولانا کا احتجاج جن نکات پر ہے، وہ اصولی اور تحریک انصاف کی سوچ سے ہم آہنگ ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ کس نے اسمبلی میں اور کس نے حکومت کرنی ہے، یہ فیصلہ صرف عوام کو کرنا چاہیے۔ اس نکتہ پر تحریک انصاف اور جے یو آئی میں اتفاق ہو سکتا ہے۔ البتہ عمران خان کو علی امین گنڈا پور جیسے ہارڈ لائنرز کو مولانا کے خلاف بیان بازی سے روکنا ہو گا۔ دوسرا اہم کام عمران خان کو ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش اور کشیدگی میں کمی لانے کا کرنا پڑے گا۔ 
بیرسٹر گوہر اور عمرایوب دونوں معتدل اور عملیت پسند سیاستدان ہیں، ان کے ذریعے کوئی بریک تھرو ہو سکتا ہے۔ اس وقت خان صاحب کو اقتدار نہیں مل سکتا، البتہ ان کے لئے قانونی جنگ میں کچھ سہولتیں مل سکتی ہیں۔ وہ ضمانت پر باہر آ سکتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ ان کی پارٹی کے لوگوں کی خان تک آزادانہ رسائی نہ ہونے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پارٹی میں مختلف گروپ بن چکے ہیں۔ عمران خان باہر ہوں گے تو یہ سب گروپنگ ختم ہو جائے گی۔  خان صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی سسٹم میں انہیں رہنا، اسی میں جگہ بنانی ہے۔ انہیں جذباتی غلطیوں سے گریز کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنا ایک غلطی ہی تصور ہو گی، اس کا کوئی جواز اور دفاع ممکن نہیں۔ اسی طرح امریکی اراکین کانگریس کو خط لکھنا یا انہیں آواز اٹھانے کا کہنا ایک سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے، مگر آئی ایم ایف یا کسی دوسرے عالمی ادارے کو خط لکھ کر ریاست پاکستان کو دی جانے والی کوئی مالی مدد رکوانا یا پابندی کی کوشش نہایت غلط اور بے کار کاوش ہے۔
اس سے کیا حاصل ہو گا؟ الٹا عمران خان کے لیے مقتدر حلقوں میں جو تھوڑی بہت حمایت ہے یا جو چند ایک حمایتی ہیں، وہ اس سے کمزور ہوں گے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے مشاورت کے عمل پر نظرثانی کریں، انہیں ایسا کرنے سے قبل امور خارجہ اور معاشی امور کے ماہرین سے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ مشاورت کرنی چاہیے۔ ابھی کچھ بگڑا نہیں۔ ابھی بہت کچھ ہونا ہے۔ عمران خان کو فوکس ہو کر اپنے اہداف پر نظر رکھنی چاہیے۔ قدم بہ قدم آگے بڑھیں، تب ہی چیزیں بہتر ہوں گی۔ اگر کوئی قدم غلط پڑ گیا تو دو قدم پیچھے جانے میں کوئی حرج نہیں۔ پیچھے ہٹ کر پھر سے آگے بڑھیں، دیکھ بھال کر، سوچ سمجھ کرآگے چلیں۔
عامر خاکوانی
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نقصان دہ فیصلوں کے ذمے دار محفوظ کیوں؟
Tumblr media
نگران وفاقی حکومت نے قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نج کاری کا عمل جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ہدایت اور ادارے کو مزید فنڈز کی فراہمی سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں پی آئی اے کو درپیش مالی بحران پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ قومی ایئر لائن کے آپریشن کو بحال رکھنے کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ آپریشنل پی آئی اے سالوں سے مسلسل خسارے کے باعث تباہی کے کنارے پہنچ چکی ہے اور بند ہونے کے قریب ہے۔ پی آئی اے اور دیگر قومی ادارے سالوں سے خسارے میں جا رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز سالوں سے بند رہ کر تباہ ہو چکی ہے جس کی قیمتی مشینری و دیگر سامان مسلسل چوری ہو رہا ہے اور وفاقی حکومت بند اسٹیل ملز کے ملازمین کو قومی خزانے سے تنخواہیں بھی ادا کر رہی ہے اور پی آئی اے، ریلوے و دیگر خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو فنڈز بھی فراہم کر رہی ہے اور خسارے میں جانے یا بند سرکاری ادارے سفید ہاتھی بنے ہوئے حکومت اور قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں اور عالمی مالی اداروں سے مسلسل قرضے لے کر ان اداروں کے ملازمین کو پالنے والے ملک پاکستان کو اب اس کے ہمدرد دوست ملک بھی قرضے دے کر تنگ آ چکے ہیں اور سوٹ پہن کر بادشاہوں کی طرح قرضے مانگنے کے عادی ہمارے حکمرانوں کو بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ قرضے لینا بند کریں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھانے والے ہمارے حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا اور اب تو آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کے لیے حکمرانوں کو ان کے پیروں میں پڑنا پڑا۔ رسوائی کے بعد جو قرض ملا وہ سخت شرائط پر ملا اور حکمرانوں نے اپنے ہی عوام کو سولی پر چڑھا دیا اور آئی ایم ایف کی شرائط مان کر مہنگائی اور بے روزگاری کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ سیاسی حکمرانوں نے تو اپنے سیاسی مفاد کے لیے ملک کے سفید ہاتھیوں کو پالنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا مگر اب پہلی بار نگران حکومت نے پی آئی اے کو مزید پالنے سے انکار کر دیا ہے اور خسارے میں جانے والی قومی ایئرلائن کی نجکاری جلد مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ قومی ادارے اسٹیل ملز کی نجکاری سالوں قبل نہیں ہونے دی گئی جس کے باعث ملز بند ہوئی مگر اس کے ملازمین برقرار ہیں اور ماضی کی ہر حکومت نے پی آئی اے کی طرح اسٹیل مل میں بھی ضرورت سے زیادہ اپنے حامیوں کو بھرتی کیا تھا جن کی تنخواہوں کا بوجھ ان دونوں قومی اداروں پر بڑھا اور کرپشن نے باقی کسر پوری کردی تھی۔
Tumblr media
قومی اداروں میں اپنے حامیوں کو بھر کر نوازنے کے عمل میں ہر حکومت شریک رہی ہے اور ان کے خسارے پورے کرنے کے لیے فنڈز دیتی رہی مگر کبھی خسارے ختم کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ ان قومی اداروں میں کرپشن ہی عروج پر نہیں بلکہ وہاں کے ملازمین کی لیبر انجمنیں بھی پاور فل رہیں جن کے عہدیدار مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے ان عہدیداروں نے بھی ملک اور اداروں کے مفاد کے بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں اسٹیل مل سالوں سے بند اور اب پی آئی اے کے بارے میں ایسی باتیں کی جا رہی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اپنے غیر ذمے دارانہ بیانات اور فیصلوں سے قومی ایئرلائن کو دنیا میں بدنام کرایا جس سے کئی ملکوں میں پی آئی اے کی پروازیں بند ہوئیں اور خود ملک کے لوگوں نے اپنی قومی ایئرلائن کو غیر محفوظ سمجھ کر سفر کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ دیگر ایئرلائنز کے جہازوں میں سفر کرتے تھے۔ ملک میں نجی ایئرلائنز نے فروغ پایا اور قومی ایئر اس مقام پر پہنچ گئی کہ جسے اب نگران حکومت بھی مزید فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر چکی ہے اور اس کی نجکاری کی جا رہی ہے۔
2008 سے 2013 تک پی پی حکومت کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے پاکستان ریلوے کو اپنے فیصلوں سے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا جس کو بعد میں (ن) لیگی حکومت نے مشکل سے سنبھالا تھا اور ریلوے کرایوں میں مسلسل اضافوں کے باوجود پاکستان ریلوے اب بھی خسارے میں چل رہی ہے اور سفید ہاتھی بنی ہوئی ہے۔ (ق) لیگ کے وزیر ریلوے شمیم حیدر نے بتایا تھا کہ ان سے پہلے کے وزیر ریلوے نے اپنے علاقے کے 8 ہزار سے زائد لوگ ریلوے میں بھرتی کیے تھے اور میں اب کسی کو مزید بھرتی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ وزیر ریلوے غلام احمد بلور ہوں یا وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اور دیگر وزرا اپنے اپنے دور میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کر کے ہر کسی نے قومی اداروں کو تباہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا مگر کبھی ان کی سرزنش تک نہیں ہوئی۔ عدالتی اور وزارتی فیصلوں نے ہر سرکاری ادارے کو سفید ہاتھی بنایا اور کرپشن روکنے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ایم کیو ایم کے وزیر شپنگ ہوں یا پی ٹی آئی، (ن) لیگ، پیپلز پارٹی ہر کسی نے محکمہ جہاز رانی میں اپنے لوگ بھرتی کیے۔
عدالت عظمیٰ واحد ادارہ ہے جہاں ماضی میں میرٹ پر ججوں کا تقرر ہوا مگر بعد میں سینئر ججوں کو نظرانداز کرنے پر سوالات اٹھائے گئے۔ اٹھارہویں ترمیم میں فیصلہ ہوا تھا کہ آیندہ ہر حکومت 11 فیصد کے حساب سے کابینہ بنائے گی مگر عمل نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت میں باہر سے دوستوں کو بلا کر حکومت میں شامل کیا گیا تھا تو اگست میں جانے والی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی کابینہ کا ریکارڈ قائم ہوا۔ ہر پارٹی نے اپنے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کابینہ میں شامل کرایا۔ ایک سابق رکن پنجاب اسمبلی کے مطابق آئی ایم ایف سے جو پہلی قسط ملی اس میں ہر سابق رکن قومی اسمبلی کو الیکشن کے لیے ایک ایک ارب روپے کا فنڈ دیا گیا۔ سندھ میں 15 سال حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے ہر محکمے میں جیالے بھرتی کیے۔ ترقیاتی کاموں کی بندربانٹ کی، پنجاب کی حکومت نگران ہونے کے باوجود ججوں کو بلاسود قرضے دے رہی ہے اور اسسٹنٹ کمشنروں کو مہنگی گاڑیاں دے رہی ہے کسی کو ملک کے غریبوں کا احساس نہیں ہوا۔ ملک میں اپنے غلط فیصلوں سے نقصان پہنچانے والوں کو اگر سزا ملتی یا نقصان ان سے وصول کیا جاتا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
Text
وزیراعظم سے زائد بلنگ کی شکایت؛ وزیر بجلی اور ایم کیو ایم کا وفد کے الیکٹرک سے ملاقات کریگا
کراچی: وزیراعظم سے کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور صارفین سے زائد ادائیگی سے متعلق شکایت کے بعد شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر ایم کیوایم کا وفد وفاقی وزیر بجلی خرم دستگیر کے ہمراہ بروز پیر کو کے الیکٹرک سے ملاقات کرے گا۔  ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی ایم کیوایم پاکستان کے وفد نے گورنر ہاؤس میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور ملک کی مجموعی سیاسی و معاشی صورتحال اور مختلف موضوعات پر تبادلہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mingleup · 1 year
Text
youtube
الطاف حسین کے ہاتھوں تربیت یافتہ سیاستدان۔
اختلافات ختم کر کے ایک ہونے کا وقت۔
ایم کیو ایم پاکستان کی خاموشی کس بات کی غمازی۔
مشکل وقت ختم ہونے کو ہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ معافی تلافی ضروری ہے۔
تفصیلی تبصرہ و تجزیہ وڈیو میں ""جاوید شاہ"" کے ساتھ۔
0 notes
emergingkarachi · 1 year
Text
لاوارث شہر کا ’میئر‘ کون
Tumblr media
وہ شاعر نے کہا تھا نا’’ ؎ مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں۔‘‘ ابھی ہم پہلے سال کی بارشوں کی تباہ کاریوں سے ہی باہر نکل نہیں پائے کہ ایک اور سمندری طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب خدا خیر کرے یہ طوفان ٹلے گا یا میئر کا الیکشن جو کم از کم کراچی میں کسی سیاسی طوفان سے کم نہیں۔ ویسے تو مقابلہ پی پی پی کے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب اور جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کے درمیان ہے مگر دونوں کی جیت اس وقت زیر عتاب پاکستان تحریک انصاف کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر منحصرہے، وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بڑے پراعتماد نظر آئے اور کہا نہ صرف میئر کراچی ایک ’جیالا‘ ہو گا بلکہ اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سندھ کے لوگ پی پی پی کو ووٹ دیں گے۔ بظاہر کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے مگر شاہ صاحب پہلے آنے والے طوفان سے تو بچائیں۔ دوسری طرف اسی شام جماعت اسلامی نے، جس کی شکایت یہ ہے کہ پی پی پی زور زبردستی سے اپنا ’میئر‘ لانا چاہتی ہے، سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے ’مدد‘ طلب کی ہے۔ 
امیر جماعت اسلامی سراج الحق خصوصی طور پر کراچی آئے کیونکہ یہ الیکشن جماعت کیلئے خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ شاید پورے پاکستان میں یہ واحد بلدیہ ہے جہاں ان کا میئر منتخب ہو سکتا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف کے تمام منتخب بلدیاتی نمائندے حافظ نعیم کو ووٹ دے دیں۔ ماضی میں جماعت کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979ء اور 1983ء میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 1979ء میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا البتہ 1983ء میں وہ باآسانی جیت گئے اور دونوں بار ڈپٹی میئر پی پی پی کا آیا۔ لہٰذا ان دونوں جماعتوں کا یہاں کی سیاست میں بڑا اسٹیک ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ صاحب کو 2001 کی میئر شپ متحدہ قومی موومنٹ کے بائیکاٹ کے طفیل ملی جنہوں نے اس وقت کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جو ایک غلط سیاسی فیصلہ تھا۔
Tumblr media
اب تھوڑی بات ہو جائے پی پی پی کی بلدیاتی سیاست کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ 22 اگست 2016ء کے بعد جو ہوا اس سے شہری سندھ کا سیاسی توازن پی پی پی کے حق میں چلا گیا اور پہلی بار دیہی اور شہری سندھ کی بلدیاتی قیادت ان کے ہاتھ آنے والی ہے، جس میں حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور نواب شاہ شامل ہیں۔ پی پی پی پر تنقید اپنی جگہ مگر کسی دوسری سیاسی جماعت نے اندرون سندھ جا کر کتنا سیاسی مقابلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی ہو یا 29 سال پرانی تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن)۔ رہ گئی بات ’قوم پرست‘ جماعتوں کی تو بدقسمتی سے یہ صرف استعمال ہوئی ہیں ’ریاست‘ کے ہاتھوں۔ ایسے میں افسوس یہ ہوتا ہے کہ اتنی مضبوط پوزیشن میں ہونے اور برسوں سے برسر اقتدار رہنے کے باوجود آج بھی سندھ کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ شہروں کو ایک طرف رکھیں کیا صوبہ تعلیمی میدان میں آگے ہے کہ پیچھے۔ بارشوں کا پانی جاتا نہیں اور نلکوں میں پانی آتا نہیں۔ 
18ویں ترمیم میں واضح اختیارات کے باوجود۔ آج بھی منتخب بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت کے مرہون منت ہیں، آخر کیوں؟۔ چلیں اس کو بھی ایک طرف رکھیں۔ شاہ صاحب جس وقت پریس کانفرنس کر رہے تھے تو ان کے دائیں اور بائیں سب منتخب نمائندے بیٹھے تھے، سوائے میئر کیلئے نامزد امیدوار مرتضیٰ وہاب کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں بات بھی شائستگی سے کرتے ہیں جس میں والدین وہاب اور فوزیہ وہاب کی تربیت بھی نظر آتی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یو سی کا الیکشن جیت کر امیدوار بنتے۔ اب یہ سوال تو بنتا ہے کہ اگر پی پی پی بلدیاتی الیکشن میں کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے تو کیا کوئی بھی منتخب نمائندہ اس قابل نہیں کہ ’میئر‘ کیلئے نامزد ہو سکے ایسے میں صرف ایک غیر منتخب نمائندے کو میئر بنانے کیلئے قانون میں ترمیم کی گئی۔ کیا یہ رویہ جمہوری ہے۔ مرتضیٰ سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آپ نے بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اور اب کیا آپ کی نامزدگی منتخب یوسی چیئرمین کے ساتھ ’تھوڑی زیادتی‘ نہیں۔ 
تعجب مجھے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ پی پی پی میں کچھ ایسا ہی چند سال پہلے بھی ہوا تھا جب پارٹی کی کراچی کی صدارت کیلئے رائے شماری میں تین نام تھے جن کو ووٹ پڑا مگر جب نتائج کا اعلان ہوا تو ایک صاحب جو دوڑ میں ہی نہیں تھے وہ کراچی کے صدر ہو گئے۔ ’جیالا‘ کون ہوتا ہے اس کا بھی شاید پی پی پی کی موجودہ قیادت کو علم نہ ہو کہ یہ لفظ کیسے استعمال ہوا اور کن کو ’جیالا‘ کہا گیا۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پھانسی چڑھ جانے والوں، خود سوزی کرنے اور کوڑے کھانے، شاہی قلعہ کی اذیت سہنے والوں کے لئے اس زمانے میں پہلی بار استعمال ہوا یعنی وہ جو جان دینے کے لئے تیار رہے اور دی بھی۔ اب مرتضیٰ کا مقابلہ ہے جماعت کے ’جیالے‘ سے یا انہیں آپ جماعتی بھی کہہ سکتے ہیں، حافظ نعیم سے ، جنہوں نے پچھلے چند سال میں خود کو ایک انتہائی محنتی اور متحرک سیاسی کارکن منوایا اور جلد کراچی شہر میں جماعت کی پہچان بن گئے۔ دوسرا 2016ء میں متحدہ کو ’ریاستی طوفان‘ بہا کر لے گیا جس کو حافظ نعیم نے پر کرنے کی کوشش کی اور بارشوں میں شہر کے حالات اور تباہی نے بھی انہیں فائدہ پہنچایا۔
مگر ان دونوں جماعتوں کے درمیان آئی، پی ٹی آئی اور 2018ء میں 14 ایم این اے اور 25 ایم پی اے جیت گئے جس کا خود انہیں الیکشن کے دن تک یقین نہیں تھا۔ البتہ حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں نشستیں ضرور مل گئیں کہ کراچی کا میئر جو بھی منتخب ہو گا وہ ’پی ٹی آئی‘ کی وجہ سے ہی ہو گا چاہے وہ ووٹ کی صورت میں، مبینہ طور پر ’نوٹ‘ کی صورت میں ہو یا لاپتہ ہونے کی صورت میں۔ اگر 9؍ مئی نہیں ہوتا توشاید ان کے معاملات خاصے بہتر ہوتے، اب دیکھتے ہیں کہ اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کے کتنے نومنتخب نمائندے آتے ہیں اور کتنے لائے جاتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ووٹنگ اوپن ہے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعہ نہیں۔ رہ گئی بات ’لاوارث کراچی‘ کی تو بھائی کوئی بھی آجائے وہ بے اختیار میئر ہو گا کیونکہ سیاسی مالی اور انتظامی اختیارات تو بہرحال صوبائی حکومت کے پاس ہی ہوں گے یہ وہ لڑائی ہے جو کسی نے نہیں لڑی۔ لہٰذا ’کراچی کی کنجی‘ جس کے بھی ہاتھ آئے گی اس کا اختیار 34 فیصد شہر پر ہی ہو گا۔ جس ملک کے معاشی حب کا یہ حال ہو اس ملک کی معیشت کا کیا حال ہو گا۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
ایم کیو ایم پاکستان کا یو ٹرن، ضمنی انتخاب کے لیے جمع کرائے گئے کاغذات واپس
مت��دہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے امیدواروں کو کاغذات واپس لینے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد 9 حلقوں کے امیدوار کا اپنے کاغذات نامزدگی واپس لینے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے نو حلقوں میں سے اب تک  26  امیدواروں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
ضمنی انتخاب میں حصہ لینا ہے یا نہیں؟ ایم کیوا یم تذبذب کا شکار
کراچی : قومی اسمبلی کی نشستوں پر کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے یا نہ لینے کے معاملے پر متحدہ قومی موومنٹ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ اس سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بہادر آباد مرکز میں ہوا جس کی صدارت سینیئر ڈپٹی کنوینر مصطفیٰ کمال نے کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینا ہے یا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
مصطفیٰ کمال کا دھرنا مؤخر کرنے کے حوالے سے اہم بیان
مصطفیٰ کمال کا 12 فروری کو فوارہ چوک پر دھرنا دینے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ابھی یہ فائنل نہیں ہوا کہ ایم کیو ایم دھرنا موخر کرے گی یا نہیں، پیپلزپارٹی نے ہماری بات سنی لیکن ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی منظوری کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل  پیپلز پارٹی سے کوئی خاص ملاقات نہیں ہوئی ،رابطے رہتے ہیں، ہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کی نواز شریف سے ملاقات، شکوے شکایات، حکومت سازی پر مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم)  کے وفد نے اتوار کو دن کے بارہ بجے رائے ونڈ میں مسلم لیگ ن کی قیادت سے ملاقات کی۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں ملاقات کرنے والے وفد میں سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار اور سندھ کے سابق گورنر کامران خان ٹیسوری بھی شامل تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کا خیرمقدم سابق وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کیا۔ وفد نے مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت سے ملاقات کی۔…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
پی ٹی آئی ووٹرز کا انتقام
Tumblr media
الیکشن نے سب کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کر دیا۔ سب اندازے، تجزیے غلط نکلے۔ تحریک انصاف کے ووٹر، سپورٹر اتنے نکلے کہ ہر طرف چھا گئے۔ انتخابات سے پہلے تمام تر پابندیوں، سختیوں، جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود، بلے کے بغیر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی میں نمبر ون، خیبر پختونخوا میں تو سویپ کر لیا، پنجاب بھی میں ایک بڑا نمبر حاصل کر لیا اوریہ سب کچھ 2018 کے آر ٹی ایس کے بدلے میں الیکشن کمیشن کے نئے نظام ای ایم ایس کے بیٹھنے کے باوجود ممکن ہوا۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا ای ایم ایس (Election Management System) تو آر ٹی ایس کا بھی باپ نکلا۔ یہ نظام ماضی کے آ ر ٹی ایس کی طرح پہلے تو بیٹھ گیا اور پھر جب صبح اُٹھا تو مبینہ طور پر رات کو کئی ہارنے والوں کو جیتنے والا اور کئی جیتنے والوں کو ہارنے والے بنا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کے کوئی پچاس ساٹھ جیتے ہوئے امیدواروں کو ای ایم ایس کو بٹھا کر ہرایا گیا۔ گویا 8 فروری تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کے لیے ’’ـ بدلہ لینے‘‘ یا ’’انتقام لینے‘‘ کا دن ثابت ہوا۔ 
دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک کے الیکشن نتائج کے مطابق وفاق میں کوئی ایک جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اس لیے یہاں صرف ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے جس کیلئے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جے یو آئی ایف وغیرہ میں پہلے ہی بات چیت شروع کر چکی ہے وفاقی سطح پر تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت سازی کیلئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ کرنے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ دھاندلی کے الزامات اور ان الزامات کی شنوائی کا جو نظام ہمارے ہاں موجود ہے اُس سے تحریک انصاف کو وہ 150 یا 170 سیٹیں فوری نہیں ملیں گی جس کا وہ دعویٰ کر رہی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت سازی کیلئے کوشش کرتی اور ساتھ ساتھ اپنے دھاندلی کے الزمات کیلئے قانونی چارہ جوئی کرتی رہتی۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے ترجمان کی خواہش (کہ حکومت سازی کے عمل کو اُس وقت تک روکا جائے جب تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزمات کا فیصلہ نہیں ہوتا) تو کسی صورت کوئی پوری نہیں کر سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ سے مل کر حکومت بنانےکیلئے ہاتھ ملانے پر تیار ہونگے؟ اگر دوسروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو پھر وفاق میں حکومت کیسے بنے گی۔ عمران خان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کی اطلاعات نہیں ملیں۔ تحریک انصاف نے ووٹ تو بہت لیے لیکن اگر وہ ماضی کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی یا پھر دھاندلی کا رونا ہی روتی رہے گی تو پھر وہ وفاق میں حکومت کیسے بنا سکتی ہے۔ 
اس وقت تحریک انصاف کیلئے یہ بھی چیلنج ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو سنبھالے کیوں کہ خطرہ موجود ہے کہ ان میں سے کئی، حکومت کا حصہ بننے کی لالچ میں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جا سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، پنجاب میں ممکنہ طور پر ن لیگ ہی حکومت بنائے گی جبکہ وفاق میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانی ہے تو اپنےماضی کے رویے سے ہٹ کر اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کیلئے بہت اچھا ہو گا لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور اس ملک و قوم کو مشکلات سے نکالیں ۔ یہ ایک خواب ہے جو نجانے کب پورا ہو گا۔ فی الحا ل جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی ہی حکومت بنے گی، پنجاب میں ن لیگ، کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کا وزیراعلی ٰممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کا ہو گا۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 10 months
Text
عمران کا سیاسی مستقبل
Tumblr media
اگر ہمارے کچھ غیر سیاسی دوستوں کا خیال ہے کہ کسی کو انتخابی عمل سے دور کر کے، نااہلی یا سزا کی تلوار چلا کر یا لٹکا کر اس کی سیاست ختم ہو جائے گی تو اب تک ہماری سیاست میں یہ مائنس کا فارمولا ناکام ہی رہا ہے اور اگر کوئی فارمولا کامیاب رہا ہے تو وہ جمہوری انداز میں ایک حکومت سے دوسری اور ایک وزیر اعظم سے دوسرے کو پر امن انداز میں اقتدار کی منتقلی کا فارمولا ہے۔ بھٹو سے عمران تک کا جائزہ لے لیں اگر کوئی زور زبردستی سے آئوٹ کیا جائے تو وہ امر ہو جاتا ہے اور کارکردگی پر ناکام ہو تو واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ 2008 میں عام انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی کامیاب ہوئی اور پہلی بار کسی جماعت نے اپنے پانچ سال پورے کیے اور 2013 میں عام انتخابات کے ذریعہ ایک اور حکومت تشکیل پائی۔ پی پی پی کا پنجاب میں ووٹ بینک تقریباً ختم ہو کر رہ گیا۔ اس سے پہلے اس جماعت پر جتنے بھی تجربات ہوئے اس نے پارٹی کو مضبوط کیا مثلاً بھٹو کو پھانسی دینے سے بھٹو ’زندہ‘ ہو گیا۔ پی پی پی سے انتخابی نشان تلوار لے لیا گیا تو ووٹوں کے تیر چلنے لگے۔ پارٹی توڑی گئی، بڑے بڑے نام الگ ہوئے مگر وہ سب سیاسی بونے ثابت ہوئے لہٰذا ہر طرح کا مائنس فارمولا ناکام ہوا۔ نقصان صرف اتنا ہوا کہ 11 سال ایک آمر نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اور ایک جماعت کو اقتدار اور سیاست سے باہر رکھنے کی خاطر ہر حربہ اپنایا یہاں تک کہ معاشرہ تقسیم کر دیا مگر آج بھی لوگوں کو 4 اپریل یاد ہے 17 اگست نہیں۔
جنرل ضیاء کی باقیات نے بعد میں کئی سیاسی فارمولے اپنائے مگر اس سے سیاست کو تو نقصان ہوا ہی جمہوریت بھی ’جھرلو جمہوریت‘ بن کر رہ گئی۔ لاڈلے بنانے کی فیکٹری لگ گئی مگر ہر پیداوار خود بنانے والوں کے گلے پڑ گئی۔ 2013 میں الیکشن ہوئے تو مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی اور نواز شریف پر امن منتقلی اقتدار کے ذریعہ وزیر اعظم بن گئے مگر 2008 سے 2013 کے درمیان ایک تیسری سیاسی قوت ابھر کر سامنے آگئی جس کا نام پاکستان تحریک انصاف تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے اسکا سیاسی تقابلی جائزہ لیے بغیر اسےمحض ایجنسیوں کی سازش قرار دیا۔ پی پی پی یہ سمجھ کر خوش ہوئی کہ یہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچائے گی مگر 2013ء میں پتا چلا کہ وہ پی پی پی کو پنجاب میں کھا گئی۔آج پی پی پی کے بہت سے دوست یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ پی ٹی آئی کو ایجنسیوں کی حمایت ایسے ہی حاصل رہی جیسی مسلم لیگ (ن) کو مگر اسکی مقبولیت اور ابھرنے کی وجوہات میں کم از کم تین بنیادی عوامل شامل رہے۔ (1) عمران کی شخصیت کا سحر کرکٹ کے ہیرو سے لے کر سوشل ورکر تک۔ (2) سیاست میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کا آنا جن میں سے زیادہ تر نے ٹی وی اسکرین پر عمران کو سیاست میں آنے سے پہلے بھی دیکھا ہوا تھا کامیاب کپتان کے طور پر۔ (3) پرانے لوگوں کی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی سیاست سے مایوسی مثلاً پی پی پی کے پنجاب کا ووٹر اور کارکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مایوس ہو گیا تھا۔ (4) پی ٹی آئی اور عمران خان کا مسلسل شریفوں اور زرداری کو تنقید کا نشانہ بنانا۔
Tumblr media
سوال یہ بھی اہم ہے کہ اس سب کے باوجود ایجنسیاں مسلم لیگ (ن) کو ختم نہ کر سکیں۔ مسلم لیگ (ن) کا جنم 1988 میں سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کے بعد ہوا جس میں جنرل جیلانی کے علاوہ جنرل حمید گل کا بھی خاصہ عمل دخل تھا۔ گل صاحب جب شریفوں سے مایوس ہوئے تو انہوں نے عمران کو اپنی جانب راغب کیا۔ مگر مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب میں مسلسل کامیابی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی حاصل کی۔ انہوں نے جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ طرز سیاست سے کاروباری طبقے کو متاثر ک��ا۔ خود بائیں بازو کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ ہو گیا۔ موٹر وے اور میٹرو جیسے پروجیکٹ نے مڈل کلاس کو متاثر کیا۔ 1993ء کے بعد نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ، بھارت کے ساتھ پر امن تعلقات اور بعض معاشی اقدامات کی بدولت۔ پاکستان تحریک انصاف 2013 ء میں اور 2018ء میں بھی اس پوزیشن میں نہ آ سکی کہ اپنے بل بوتے پر حکومت بنا سکے۔ لہٰذا 2018ء سے پہلے نواز شریف کی نااہلی بھی پی ٹی آئی کو وہ کامیابی نہ دلا سکی۔ بلوچستان میں ’باپ‘ بنائی گئی۔ پہلے ایم کیو ایم کی سیٹیں پی ٹی آئی کو دی گئیں اور پھر ان سے یہ بھی کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں جائو۔ نواز شریف کو زور زبردستی نکالا گیا تو وہ پھر واپس آ گیا مگر اس دوران عمران مقبولیت کی بلندی پر پہنچ گیا خاص طور پر جس طرح اسے نکالا گیا۔ عمران جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے تنازع کا شکار ہوا اصولی طور پر بحیثیت وزیر اعظم یہ اس کا حق تھا کہ کسی کو بھی آرمی چیف تعینات کرے اور کسی کو بھی اس کے عہدہ سے برطرف یا ٹرانسفر کرے۔ 
میاں صاحب اور مسلم لیگ (ن) عمران کے دور میں پنجاب میں زیادہ مقبول تھی جب کہ شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے 16 ماہ میں ان کا گراف نیچے چلا گیا اور عمران ، پی ٹی آئی کا اوپر۔ یقین نہ آئے تو پچھلے پانچ سال کے دوران ہونیوالے ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لیں۔ 2018 سے مارچ 2022 تک اور اسکے بعد سے آج تک۔ اب اگر شہباز شریف خود یہ اعتراف کریں کہ ہم نے اپنی سیاست قربان کر دی تو قربانی کا بکرا اس وقت کون بن رہا ہے کس کو آزاد اور غیر جانبدارانہ الیکشن ہونے کی صورت میں واضح شکست نظر آ رہی ہے لہٰذا مائنس عمران ہی نہیں ہے ان کیلئے مائنس’ بلا‘ بھی چاہیے۔ کرکٹ میں ’’اسپاٹ فکسنگ‘‘ نہ چل سکی تو سیاست میں کیسے چلے گی۔ خدارا یہ سلسلہ بند کر دیں۔ کبھی مارشل لا، کبھی مائنس ون، کبھی مائنس تین ، کبھی تلوار نہ چلی تو تیر آ گیا۔ کبھی تیر سے مایوس ہوئے تو شیر لے آئے۔ شیر نے جنگل کے بجائے ملک کا بادشاہ بننے کی کوشش کی تو بلے کو میدان میں اتار دیا۔ یہ سارے کام جمہور پر چھوڑ دیں وہ شیر لائیں۔ تیر کو آزمائیں یا بلا چلائیں۔ الیکشن 8 فروری 2024ء کو آزاد غیر جانبدارہونے دیں۔ الیکشن سے قبل نتائج کا اعلان نہ کریں جیسا کہ اس وقت ابتدائی نتائج ترتیب دیئے جا رہے ہیں کہ کس کو اِن کرنا ہے کس کو آئوٹ۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں
Tumblr media
یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور یہ فلم اتنی پرانی اور اس کا پلاٹ اتنا جانا پہچانا ہے کہ بنانے والے بھی سوچتے ہیں کہ لوگوں کو پتا چل ہی جائے گا کہ ہم کتنی قدیم چیز ہیں۔ وہی فلم جو آج کل بہت رش لے رہی ہے یعنی ایک بڑھکیں لگاتا، انقلاب لاتا، چھین کے آزادی لینے کی دھمکی کرتا سیاسی لیڈر دو چار دن کے لیے جیل جاتا ہے۔ باہر آ کر ایک پریس کانفرنس کرتا ہے اور کہتا ہے میں راستے سے بھٹک گیا تھا۔ اب میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں، راہیں جدا کر رہا ہوں، یا سیاست سے ہی تائب ہو رہا ہوں اور باقی زندگی اللہ اللہ کرتے گزاروں گا۔ آج سے تیس سال پہلے کا کراچی تھا۔ 1992۔ آبادی اس سے آدھی ہو گی۔ ایم کیو ایم اپنے عروج پر تھی۔ الطاف ایک دو تین کہتے تو کراچی بند ہو جاتا۔ پھر تین دو ایک کہتے تو کراچی کھل جاتا تھا۔ فوجی آپریشن شروع ہوا۔ بظاہر مقصد تھا کہ امن و امان کو بحال کیا جائے بھتہ خوروں اور اغوا برائے تاوان والوں کو پکڑا جائے۔ لیکن اصلی مقصد یہ تھا کہ ایم کیو ایم کو لگام ڈالی جائے۔ آپریشن کے شروع میں ہی ادارے کی بے ادبی ہو گئی (جس طرح نو مئی کو حقیقی آزادی کی تحریک کے پہلے ہی دن ادارے کی بے ادبی ہوئی)۔
فوج کے ایک افسر میجر کلیم تھے۔ وہ کراچی کی کسی تنگ گلی میں پھنس گئے۔ لونڈوں نے گھیر لیا۔ میں نے سنا تھا ان کو صرف ایک تھپڑ مارا گیا تھا۔ ادارے نے دعویٰ کیا کہ میجر صاحب پر تشدد کیا گیا ہے۔ اس کے بعد آپریشن کلین اپ ’آپریشن ایم کیو ایم کی تو ایسی کی تیسی‘ میں تبدیل ہو گیا۔ اور وہی فلم چلنے لگی جو آج کل پی ٹی آئی کے ساتھ چل رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے انڈر گراؤنڈ رہنما پکڑے جاتے، دو چار دن کسی لاک اپ میں گزارتے اور پھر کہتے کہ میری پریس کانفرنس کراؤ اور گھر جانے دو، ہم راستے سے بھٹک گئے تھے۔ ایم کیو ایم جو اس وقت تک ہلکی پھلکی بدمعاش پارٹی سمجھی جاتی تھی، راتوں رات غداروں کی جماعت قرار پائی۔ آئی ایس پی آر والے جو ابھی تک میوزک ویڈیو اور فلمیں بنانے کا فن نہیں سیکھے تھے صحافیوں کو جناح پور کے نقشے بانٹتے کہ دیکھو یہ آپ کی ایم کیو ایم تو ملک توڑنا چاہتی تھی، آؤ تمھیں ان کے ٹارچر سیل دکھاتے ہیں۔  مجھے اشتیاق تھا یہ جاننے کا کہ الطاف حسین کے ہاتھ پر بیت کیے ہوئے اور انھیں پیر و مرشد ماننے والے دو چار دن ہی قید میں گزار کر بھائی کے مشن سے کیسے منکر ہو جاتے ہیں۔
Tumblr media
مجھے کہا گیا کہ آپ کو ایک کرنل صاحب سے ملواتے ہیں جو ایم کیو ایم مکاؤ آپریشن کا سیاسی ونگ چلا رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے بھائیوں سے معذرت کیونکہ کچھ کہیں گے کہ کہاں ہمارا ہینڈسم حقیقی آزادی والا اور کہاں الطاف حسین۔ اور دوسرے یہ کہیں گے کہ کہاں ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے والے الطاف بھائی اور کہاں یہ پپو بچوں اور بچیوں کا لیڈر خان۔ تسلی رکھیں کردار بدلے ہیں فلم پرانی ہے چاہے پوسٹر کے اوپر شرطیہ نیا پرنٹ لکھا ہو۔ کرنل صاحب خوش مزاج تھے۔ کراچی نئے نئے آئے تھے۔ میں نے پوچھا کیسا لگا کراچی تو پہلے انھوں نے پنجابی کا ایک پرانا گانا سنایا ’بُرے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا۔‘  پھر کہنے لگے ’راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ آپ کے بوٹ بیسن پر لڑکیاں بغیر آستین کی ٹی شرٹ اور جینز پہن کر گھومتی ہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ میرے جوان چھوٹے دیہاتوں سے آئے ہیں، وہاں مشین گن کے ساتھ ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں، کسی دن کوئی غیرت میں آ کر فائر ہی نہ کھول دے۔ ‘
میں نے کہا ’سر میں بھی چھوٹے گاؤں سے آیا تھا، آہستہ آہستہ عادت ہو جاتی ہے اور بعض کو تو اتنی ہو جاتی ہے کہ وہ واپس گاؤں ہی نہیں جاتے۔ ‘ میں نے ’کرنل صاحب سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ ایم کیو ایم کے جید رہنما دو چار دن ہی ان کے ساتھ گزار کر توبہ تائب ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا ’آپ بھی یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں کوئی ان کی ٹھکائی کرتا ہوں، یا دھمکیاں دیتا ہوں یا رات کو الٹا لٹکا دیتا ہوں۔ مجھے قرآن کی قسم اگر کسی کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔ میں رات کو ان کے ساتھ عشا کی نماز پڑھتا ہوں اور پھر ساری رات بیٹھ کر ان کے ساتھ بحث کرتا ہوں۔ وہ صبح تک خود ہی کہہ دیتے ہیں کہ بتائیں پریس کانفرنس کب کرنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پی ٹی آئی کے پریس کانفرنس کر کے چھوڑنے والے رہنماؤں کے ساتھ بھی کوئی ذہنی یا جسمانی تشدد نہیں ہوا۔ میرے کرنل جیسا کوئی نرم دل شخص ساری رات ان کے ساتھ علمی اور سیاسی بحث ہی کرتا ہو گا۔ عمران خان اور ان کے حامی اکثر کسی ڈرٹی ہیری کا ذکر کرتے تھے۔ میں بھی سوچتا تھا بڑے جرات والے ہیں کسی خفیہ ادارے کے بڑے افسر کا نام دھڑلے سے لے رہے ہیں۔ میں جانتا نہیں تھا کہ یہ افسر کون اور اس نے کیا کِیا ہے۔
اب پاکستان کے بڑے شہروں کی شاہراہوں پر اس کی تصویریں بھی سجی ہیں۔ ادارے نے کہا ہے کہ تم ایک ڈرٹی ہیری پر الزام لگاتے تھے ہم سب ڈرٹی ہیری ہیں۔ تم جنرل باجوہ کو میر جعفر کہتے تھے، یہ دیکھو یوم شہدا کے دن ہمارے سپہ سالار کے دائیں ہاتھ پر بیٹھا ہے اور آپ کا خیال ہے صرف آپ کے پاس ہی کالا چشمہ ہے۔ پی ٹی آئی کے زیادہ تر سپورٹر 1992 میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن وہ جان لیں کہ 30 سال پہلے کراچی کی کسی تنگ گلی میں میجر کلیم کو پڑنے والے تھپڑ کی گونج آج کے کراچی میں بھی سنی جاسکتی ہے۔ کراچی کی ایک قدیم شاندار عمارت ہے جس کا نام جناح کورٹس ہے۔ وہاں پر رینجرز کا ہیڈکوارٹر بن گیا اور آج تک ہے۔ لیکن کراچی میں آج بھی الطاف حسین بھائی کے عاشق موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے دوست حوصلہ رکھیں، اگر ان کی جماعت کو بنتے بنتے 25 سال لگ گئے تو ختم ہوتے ہوتے بھی اتنے ہی لگیں گے۔ ویس بھی جیسا کہ اسد عمر نے ایک دفعہ کہا تھا یہ سیاست معیشت وغیرہ کی بات نہیں ہے، یہ عشق کی بات ہے۔ ویسے فلسفۂ عشق کے نام سے الطاف بھائی کی ایک کتاب بھی ہے۔ غم کے دنوں میں وہ پڑھ لیا کریں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
این اے 256 سے مصطفیٰ کمال کے کاغذات نامزدگی منظور
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 256 میں ضمنی الیکشن کے لیے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے امیدوار مصطفیٰ کمال کےکاغذات نامزدگی منظور کرلیےگئے۔ کراچی میں16مارچ کو 9 حلقوں پر ضمنی انتخاب کے لئے اسکروٹنی کا عمل تیزی سے جاری ہے، این اے 256 میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار عماد الدین کےکاغذات نامزدگی بھی منظور کرلیےگئے۔ دوسری جانب  این اے 247 میں ضمنی الیکشن کے لیے تحریک انصاف کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
ایم کیو ایم نے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے متنازع حلقہ بندیوں کے معاملے پر 12 فروری کو دھرنے کا اعلان کر دیا۔ ایم کیو ایم نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے دھرنے کی تاریخ کا اعلان کیا۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اعتراف کیا کہ وہ حلقہ بندیوں میں 53 یوسیز کھا گئی اور حلقہ بندیوں سے متعلق اقرار کے بعد نوٹیفکیشن واپس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes