Tumgik
#خوفناک صورتحال
emergingpakistan · 1 year
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں جسے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ صرف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
pakistanpress · 8 months
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 11 months
Text
فلسطین-اسرائیل جنگ : مغربی میڈیا جنگ کے خواہش مند افراد کا آلہ کار بن رہا ہے
Tumblr media
غزہ کی پٹی میں مقیم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیل کے وحشیانہ مظالم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا کی یکطرفہ رپورٹنگ نے اس کی معروضیت کے دعووں کو بےنقاب کیا ہے۔ حماس-اسرائیل تنازع میں سچائی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک جانب جہاں مغربی میڈیا حماس کے حملے کی کوریج زیادہ کر رہا ہے وہیں دوسری جانب غزہ میں بمباری سے ہونے والی تباہی اور ہزاروں مظلوم فلسطینیوں کی اموات جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، کو انتہائی کم کوریج دی جارہی ہے اسرائیل کے جنگی جرائم کا دفاع اس جملے سے کیا جارہا ہے کہ ’اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دینے والی اس وحشیانہ بمباری کے دوران مارے جانے والے درجن سے زائد عرب صحافیوں کی ہلاکت پر بھی مغربی میڈیا کی جانب سے کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ آزادی اور جمہوریت کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ دوہرا رویہ چونکا دینے والا ہے۔  جہاں مغربی صحافیوں کی بڑی تعداد اسرائیل سے کوریج کر رہی ہے وہیں گنتی کے صحافی غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی فیلڈ رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ میڈیا تصویر کا ایک ہی رخ دنیا کو دکھا رہا ہے۔
اسرائیل-فلسطین تنازع کی میڈیا رپورٹنگ کا بڑا حصہ متعصبانہ طور پر صیہونی غاصبوں کی طرف داری ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے 7 اکتوبر کے واقعات کی صرف حماس کے حملے کے طور پر منظر کشی کی جارہی ہے جبکہ اس حملے کے پیچھے موجود اصل وجہ یعنیٰ فلسطینیوں کی آزادی کی جدوجہد کے پہلو کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی بچوں کے سر قلم کرنے کی غیرمصدقہ خبروں سے مغرب کے جذبات کو بھڑکایا گیا اور غزہ کی پٹی پر بسنے والے 22 لاکھ لوگوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اس جھوٹے جواز کو استعمال کیا گیا۔ کچھ اسرائیلی رہنماؤں اور مغربی میڈیا کے تجزیہ کاروں نے حماس کے حملے کو 9 ستمبر کے حملوں سے تشبیہہ دی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دونوں جانب ہونے والی بےگناہ لوگوں کی اموات کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن غزہ میں اس وقت جو قیامت ڈھائی جارہی ہے، ماضی قریب میں ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ نوآبادیاتی قوت کی جانب سے مظلوم اور محکوم آبادی کی نسل کشی سے بدتر کوئی امر نہیں ہے۔
Tumblr media
اپنی حالیہ رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل، غزہ اور لبنان میں اپنی عسکری کارروائیوں میں وائٹ فاسفورس کا استعمال کر رہا ہے جس سے عام شہری سنگین اور دیر تک رہنے والے زخموں سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’دنیا کی گنجان ترین آبادیوں میں سے ایک، غزہ پر وائٹ فاسفورس کے استعمال سے وہاں کی آبادی کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں جبکہ یہ شہریوں کو غیرضروری طور پر خطرے میں نہ ڈالنے کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے‘۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حالیہ فضائی بمباری سے سیکڑوں بچے ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ ’تصاویر اور خبروں سے صورتحال واضح ہے، بچوں پر جلنے کے خوفناک نشانات ہیں، وہ بمباری سے زخمی ہوئے ہیں اور اعضا سے محروم ہوئے ہیں‘۔ ان کیسز کی تعداد میں ہر لمحے اضافہ ہورہا ہے جبکہ اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث وہ علاج سے بھی محروم ہیں۔ ہلاک اور زخمی ہونے والی ہر قیمتی جان، غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے کی نشاندہی کرتی ہے۔
لیکن غزہ کے انسانی المیے کو نظرانداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اسرائیل کے ملٹری ایکشن کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ حقائق کو مسخ کر کے مغربی میڈیا پروپیگنڈا پھیلانے میں ان لوگوں کا آلہ کار بن رہا ہے جو جنگ کے خواہش مند ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان کی معروضی صحافت کا مقصد صرف اپنے حکمرانوں کی اسرائیلی حمایت کی غیرمبہم پالیسی کی حمایت کرنا ہے۔ گویا الیکٹرانک میڈیا پر جیسے کوئی ورچول سنسرشپ لاگو ہے اور یہاں منطقی خیالات کے لیے جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے معروف ٹی وی نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے مبینہ طور پر 3 مسلمان اینکرز کو معطل کر دیا کیونکہ وہ غزہ میں محصور عوام کی پبتا اپنے شو کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کررہے تھے۔ عرب نیوز کے مطابق ایک صحافی نے کہا کہ ’یہ بالکل 9 ستمبر کے بعد کا دور لگ رہا ہے کہ یا تو اس بحث میں آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف‘۔ جس طرح چند مغربی میڈیا گروپس اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کے بےرحمانہ قتلِ عام کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کررہے ہیں، اس سے ان کی سوچ کا اندازہ ہورہا ہے۔ 
بی بی سی ٹی وی کی رپورٹ میں فلسطینیوں کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہرے کو ’حماس کی حمایت میں مظاہرے‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔ بعدازاں ادارے نے عوام کو گمراہ کرنے کا اعتراف کیا لیکن اس پر معذرت نہیں کی۔ بہت سے یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی اور اٹلی نے مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے لیکن پابندی کے باوجود لوگ جنگی جرائم کا شکار ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکال رہے ہیں اور ان سے اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں۔ غزہ میں خراب ہوتی صورتحال سے عوام کے غم و غصے میں مزید اضافہ ہو گا۔ اگرچہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم پر مغربی مین اسٹریم میڈیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے لیکن اسرائیلی بمباری سے ہونے والی تباہی کی سوشل میڈیا اور الجزیرہ جیسے چند میڈیا نیٹ ورکس بھرپور کوریج کررہے ہیں۔ مگر اب ان پلیٹ فارمز کو بھی غزہ میں قتلِ عام کی رپورٹنگ اور تبصرے کرنے سے روکنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی پلٹزر انعام یافتہ تحقیقاتی رپورٹر اور کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر عظمت خان نے بتایا کہ انسٹاگرام اسٹوری پر غزہ میں جنگ کے حوالے سے پوسٹ کرنے پر ان کے اکاؤنٹ کو ’شیڈوبین‘ کر دیا گیا۔ وہ ایکس پر لکھتی ہیں کہ ’یہ جنگ میں معتبر صحافت اور معلومات کے تبادلے کے لیے غیرمعمولی خطرہ ہے‘۔
غزہ پر اسرائیل کی بلاتعطل بمباری، اسے فلسطینی بچوں کا مقتل بنانے اور لاکھوں لوگوں کو بےگھر کرنے کے دوران نیو یارک ٹائمز کے اداریے میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ ’اسرائیل جس کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو انسانی زندگی اور قانون کی حکمرانی کو اہمیت دیتا ہے‘۔ ایک ایسا اخبار جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے، اس کے ایڈیٹرز کی جانب سے جرائم کی مرتکب نسل پرست حکومت کے دفاع سے زیادہ عجیب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس اداریے میں اسرائیلیوں کی طرف سے فلسطینی سرزمین کو نوآبادی بنانے اور وہاں کے باشندوں کو بےگھر کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اور نیو یارک ٹائمز آخر کس قانون کی حکمرانی کی بات کررہا ہے؟ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے اور اسرائیلی خواتین اور بچوں کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے ایڈیٹرز نے جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظرانداز کیا کہ اسرائیل کے پاس 5 ہزار فلسطینی قیدی ہیں۔ شہری آبادی پر فاسفورس بمبوں کا استعمال اور لاکھوں لوگوں کو خوراک سے محروم رکھنا، کیا یہ ایک ایسے ملک کی روش ہو سکتی ہے جو انسانی زندگی کو اہمیت دیتا ہے؟ اس طرح کے دوغلے پن اور مغرب کی حمایت نے اسرائیل کی مزید حوصلہ افزائی کی ہے اور حالات کو پہلے سے زیادہ غیر مستحکم کیا ہے۔
زاہد حسین   یہ مضمون 18 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
shiningpakistan · 11 months
Text
بجلی کی قیمت اور رعایا کی زبوں حالی
Tumblr media
حال ہی میں صرف ایک ہفتے میں بجلی کی قیمتوں میں دو دفعہ اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی عوام نہیں رعایا پر مسلسل بجلی گرائی جا رہی ہے۔ بجلی کی مہنگائی سمیت ہر طرح کی مہنگائی سے رعایا اتنی شاک زدہ ہے کہ وہ احتجاج کے بھی قابل نہیں۔ بس ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی صورتحال ہے۔ ویسے بھی جنھوں نے احتجاج کیا ان کا عبرت ناک حشر سامنے ہے۔ اب تو رعایا احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت جاتے جاتے پٹرول ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کر گئی۔ باقی ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی کسر نگران حکومت نے ایک بڑا اضافہ کر کے کر دی۔ لیکن نگران حکومت کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں۔ اصل ذمے داری تو اتحادی حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کے اصل اسٹیک ہولڈرز تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تھے۔ جنھوں نے آئی ایم ایف سے ایسا تباہ کن معاہدہ کیا کہ عوام کے ہاتھ ہی کٹوا بیٹھے۔ گزشتہ ماہ میں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے اضافہ ہوا اور حال ہی میں 8 روپے لیٹر پٹرول کی قیمت میں کمی کر دی گئی۔ یہ تو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے والی بات ہوئی۔ اور تو اور جس دن یہ کمی ہوئی اسی روز مایع گیس کی قیمت 21 روپے بڑھا دی گئی یعنی پٹرول کی قیمت میں کمی کی نسبت 3 گنا اضافہ ۔ اسے کہتے ہیں رعایہ کے ساتھ ہاتھ کی صفائی۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی آئی ایم ایف کو دی جانے والی دھمکیاں بھی کام نہ آسکیں۔ الٹا آئی ایم ایف نے ہماری مشکیں ایسی کسیں کہ سب توبہ توبہ کر بیٹھے۔ رعایہ کو اچھی طرح یاد ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ہم سب کو تسلی دیتے رہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہ بھی ہوئی تو پلان B تیار ہے۔ جب کہ سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف ڈیل کے بعد یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ میری تو آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہونے پر راتوں کی نیند ہی اڑ گئی تھی۔ یہ سوچ کر کہ اگر یہ ڈیل نہ ہوئی تو ہماری تمام امدادیں بند اور پٹرول ادویات سمیت دیگر اشیاء پاکستان میں ناپید ہو جائیں گی۔ عوام سٹرکوں پر آجائیں گے۔ نتیجہ خوفناک خانہ جنگی کی شکل میں نکلے گا۔ اگر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب گزشتہ سال کے آخر اور اس سال کے شروع تک آئی ایم ایف سے ڈیل کر لیتے تو معاشی حالات اتنے تباہ کن نہ ہوتے۔ ڈیل میں دیری نے پاکستانی معشیت کو تباہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا۔
Tumblr media
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو لانے والے کیا اس کے ذمے دار نہیں جب کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف مفتاح اسماعیل کی تبدیلی کے لیے راضی نہیں تھے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی بے قابو ہوتے ہوئے اس کی شرح 31.44 فیصد پر پہنچ گئی ہے جب کہ مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 38.4 فیصد ہو گئی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر متعدد بار اضافے کے باوجود پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بھی بڑھ کر 2300 ارب سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ دہائیوں سے عوام کی رگوں سے مسلسل خون نچوڑا جا رہا ہے۔ معاہدے کے مطابق ابھی یہ لوٹ مار کم از کم مزید 4 سال جاری رہنی ہے۔ 1990 کی دہائی میں آئی پی پیز سے یہ عوام دشمن معاہدے کیے گئے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ اس وقت کن کن پارٹیوں کی حکومتیں تھیں۔ ان معاہدوں سے عوام کی قیمت پر مبینہ طور پر اربوں کی کمیشن حاصل کی گئیں۔ سیاستدانوں اور اعلیٰ بیو رو کریسی نے ان معاہدوں سے خوب ہاتھ رنگے۔ ان عوام دشمن معاہدوں نے پاکستانی عوام کو غریب کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔
بھارت میں پچھلے سات سالوں میں غربت کی شرح کم ہو کر 25 سے 15 فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی 10 فیصد کم ہو گئی ہے جب کہ بنگلہ دیش میں کچھ سال قبل کے مقابلے میں 19 فیصد رہ گئی ہے۔ اور اس کے برعکس پاکستان میں غربت کی شرح 40 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ ہے نہ کمال کی بات۔ ایک رپورٹ میں ورلڈ بینک کے حالیہ انکشاف کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کی تعداد سکڑ کر آدھی رہ گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق مستقبل میں پاکستان کی GDP مزید گرنے سے مڈل کلاس طبقہ مزید سکڑ کر رہ جائے گا جس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ملنے والا حج کوٹہ بھی پورا استعمال نہیں کیا جا سکا اور سعودی حکومت کو واپس کرنا پڑا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک کے معاشی حالات بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر گزشتہ دو برسوں میں 18 لاکھ سے زائد افراد پاکستان چھوڑ گئے ہیں۔ خراب معاشی حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھکاری بھی جو عمرے کے ویزے پر سعودی عرب اور عراق جا کر بھکاری کا پیشہ اختیار کر رہے ہیں گزشتہ دنوں ان ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے اس سے بڑی ملک کی بدنامی اور کیا ہو سکتی ہے ذرا غور فرمائیں!!! ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر خرچ کرے تاکہ غریبوں کا تحفظ ہو سکے جیسا کہ امریکا یورپ وغیرہ میں ہوتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور پاکستان میں مڈل کلاس کے سکڑنے کا رحجان جاری رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ بھی مکمل طور پر ختم ہو کر غربت کے گڑھے میں جا گرے گا۔
زمرد نقوی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس کی شدت کی وارننگ دے رہا ہے مگر وزیراعظم اس خوفناک صورتحال کا ادراک نہیں رکھتے، ڈاکٹر کریم خواجہ نے انتہائی سنسنی خیز بات کہہ دی اسلام آباد (این این آئی)پیپلزڈاکٹرز فورم پاکستان کے صدر ڈاکٹر کریم خواجہ نے کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس کی شدت کی وارننگ دے رہا ہے، خطرناک نتائج سے آگاہ کر رہا ہے مگر وزیراعظم اس خوفناک صورتحال کا ادراک نہیں رکھتے۔ ایک بیان میں انہوںنے کہاکہ سلیکٹرز کو چاہیے کہ اللہ کے واسطے سلیکٹڈ کا نفسیاتی معائنہ کرائیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح جاپان اور جرمنی کی سرحدیں نہیں ملائی جا سکتیں اس طرح نام نہاد سمارٹ لاک ڈائون کے ذریعے کورونا وباء کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کیا آئی ایم ایف
0 notes
georgealbert588 · 3 years
Text
کراچی پاکستان میں ٹاپ انوینٹری سافٹ ویئر اور اس کے 8 موثر فوائد
Tumblr media
کراچی میں زمینی سطح پر Erpisto #1 ٹاپ انوینٹری سافٹ ویئر صرف اتنا ہے کہ سپلائی چین کو منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھنے کے لیے مناسب طریقے سے اسٹاک کی نگرانی کرنا۔ کلائنٹس اپنے آرڈرز کو درست طریقے سے اور شیڈول کے مطابق قبول کرنے کے لیے اسٹاک انتظامیہ کے زبردست طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک معقول ذخیرہ اندوزی اور نقل و حمل کا ذخیرہ روم باقاعدگی سے اسٹاک ایڈمنسٹریشن کے فریم ورک کو زیادہ آسانی سے ترتیب دینے اور روزمرہ کے عمل کو ہموار کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بے عیب ٹائمنگ کے ساتھ مکمل طور پر سٹاک کو پوزیشن میں رکھنے کے فوائد یقینی طور پر ان اثاثوں کو ختم کر سکتے ہیں جن کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اشیاء کو کلائنٹس تک پہنچائے گی۔
           سیلز                          کال کے ساتھ واٹس ایپ چیٹ شروع کرنے کے لیے کلک کریں #: +923333331225                         ای میل: [email protected]
کراچی میں Erpisto #1 انوینٹری سافٹ ویئر
Tumblr media
یہ فرض کرتے ہوئے کہ آپ کے اسٹاک پریکٹس پائیدار ہیں یا دلچسپی سے آگاہ نہیں رہ سکتے، انتظامیہ کے نظام کو اپنانا کچھ کرنے کا ایک ناقابل یقین طریقہ ہے۔ اپنی تنظیم کی خصوصی شرائط پر غور کریں اور یہ کہ یہ فوائد آپ کو واپس ڈائل کرنے والے مسائل کے علاقوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔
پورے بورڈ میں اخراجات کو کم کرنا:
جیسا کہ ہم ان فوائد کے ذریعے سفر کرتے ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ درستگی بار بار سامنے آرہی ہے، اور ہم اسے دوبارہ یہاں بیان کریں گے۔ کم غلطیوں کا مطلب ہے کہ کم اثاثے ان تمام چیزوں کو ٹھیک کرنے میں خرچ کیے گئے جن پر غور کیا گیا ہے۔ زیادہ درستگی کم غلطیوں تک پہنچتی ہے جو نقصان پر قابو پانے کے لیے کم استعمال کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
سٹاک کو چھانٹنے کے علاوہ بیکار چیزوں کے قیام میں خرچ کی گئی نقد رقم بھی واپس آتی ہے۔ جیسا کہ  کراچی فریم ورک میں انوینٹری سافٹ ویئر مخصوص اشیاء کی مناسب مقدار کو پہچانتا ہے، اس لیے اسٹاک سپروائزر یہ سمجھ کر آرام کر سکتے ہیں کہ اہم چیزیں اس کے نتیجے میں ری چارج ہونے والی ہیں۔
ترقی یافتہ ڈیٹا کی نمائش اور منصوبہ بندی:
اندرون ملک سٹاک ایڈمنسٹریشن سسٹم رکھنے کے فوائد پر غور کرتے ہوئے، یہ اہم ہے کہ کاروباری علم کی قدر کو یاد رکھنے میں ناکام نہ ہوں۔
سکینر ٹیگ کی جانچ اور اوپر دی گئی مختلف جھلکیاں معلومات کی سادہ چالوں کو مدنظر رکھتی ہیں، اور کراچی میں انوینٹری سافٹ ویئر میں فوکل انفارمیشن سے متعلق ، تنظیمیں کاروبار کے اندر کیا ہو رہا ہے اس کی تحقیق کرنے کے لیے اپنے معلوماتی وسائل تیار کر سکتی ہیں۔ قابل ذکر فوائد جو اسٹاک کی پیروی کرتے ہیں اور بورڈ ایک کاروبار پیش کر سکتا ہے۔
اضافی اسٹاک اور اسٹاک آؤٹ کو روکنا:
اسٹاک کی سطح کو مناسب طریقے سے ایڈجسٹ کرنا ایک زبردست اسائنمنٹ ہے جسے اسٹاک کے سربراہوں کو دن بہ دن منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسٹاک کی سطح کو روایتی جانچ کے بغیر کرنے کی اجازت دینا اہم اسٹاک کی کثرت یا عدم موجودگی کو تیزی سے بڑھا سکتا ہے۔ یا تو صورتحال خوفناک ہے؛ کافی معروف آئٹم کی درخواست نہ کرنا اسٹاک آؤٹ اور مشتعل کلائنٹس کا اشارہ دے سکتا ہے۔ کراچی میں طاقتور انوینٹری سافٹ ویئر قدم رکھ سکتا ہے اور ان خوفناک مواقع کو ہونے اور پورے انوینٹری نیٹ ورک کو گمراہ کرنے سے روک سکتا ہے۔
درستگی اور افادیت:
مندرجہ ذیل اسٹاک کے سب سے بنیادی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے یہ کم ہوجاتا ہے کہ تنظیموں کو درخواست کی درستگی کو مزید تیار کرتے ہوئے اپنے قریب رکھنے کی ضرورت ہے۔
ذخیرہ شدہ اسٹاک کو کم کرکے، تنظیمیں لاگت اور محنت کے بہت زیادہ اقدامات کو بچا سکتی ہیں۔ کراچی میں موجودہ انوینٹری سافٹ ویئر استعمال کرنے والی چند تنظیمیں واقعی کم از کم ایک سٹاک روم کے علاقے کو بند کر سکتی ہیں، اور ان مہنگی جگہوں سے متعلق نقد رقم الگ کر سکتی ہیں۔
بہتر کسٹمر سروس:
خوش کن کلائنٹس کا مطلب ہے زبردست سروے اور کاروبار کو واپس لانا۔ صرف یہی نہیں، آپ تجارتی مرکز میں ایک خفیہ نام کو جمع کریں گے کیونکہ آپ گاہکوں کی درخواستوں کو تیزی سے اور درست طریقے سے پورا کریں گے۔ کراچی میں انوینٹری سافٹ ویئر کا مقصد آپ کے کلائنٹس کے مطابق آپ کی پرورش میں مدد کرنا ہے۔
درستگی کو بڑھانا اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ صحیح آئٹم کو کامل جگہوں تک پہنچایا جائے گا جبکہ روبوٹائزڈ اسائنمنٹس کی رفتار اس چیز کو حاصل کرتی ہے جسے داخلی راستے سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔
وقت گزارنے والے دستی کاموں کو مشینی بنائیں:
تنظیمیں وقت کی بچت اور کام کے اخراجات کو کم کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔ اسٹاک انتظامیہ اس کو حاصل کرنے کا شاید سب سے بہترین طریقہ فراہم کرتی ہے۔ بہت سارے بہترین فریم ورک میں اسکینر ٹیگ کی جانچ یا دیگر مربوط اسٹاک ہینڈلنگ ہائی لائٹس شامل ہیں۔
Tumblr media
یہ سنجیدہ اور دستی سائیکلوں کو ختم کر سکتا ہے جیسے آزادانہ طور پر آئٹم نمبر یا باکس نمبر لکھنا۔ کراچی سائیکلوں میں آپ کے انوینٹری سافٹ ویئر میں شامل ہونے والی اس قسم کی جدت کے ساتھ ، نمائندے یا مکینیکل ٹکنالوجی یقینی طور پر ان جھاڑو کی تعداد میں اضافہ کریں گے جو وہ ختم کرنے کے قابل ہیں۔
متعدد مقامات کو منظم کرنا:
بڑی تنظیمیں سٹاک کی پیروی کرنے والے بالکل ابتدائی طور پر اپنانے والے ہیں، نیز مختلف قسم کے فریم ورک جو بڑے کاروباری اثاثوں کو ترتیب دینے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ اس بنیاد پر ہے کہ یہ طریقہ کار بڑے پیمانے کی معیشتوں کے ساتھ قابل تعریف کام کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے حوالہ دیا، کراچی میں انوینٹری سافٹ ویئر متعدد تقسیمی مراکز کے ساتھ کاروبار کی اجازت دے سکتا ہے اور بعض صورتوں میں انفرادی اسٹاک روم کی سرگرمی کو بند کر سکتا ہے۔ اسی طرح کے ٹوکن کے ذریعے، فریم ورک کے ساتھ جانا تنظیموں کو مختلف شعبوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
بلیٹیکا پاکستان میں جدید ٹیبلاؤ سروسز بھی فراہم کرتا ہے جو عام طور پر پاکستان میں ڈیٹا سائنس ٹیبلاؤ کنسلٹنگ اور ٹیبلاؤ پارٹنر کے طور پر جانا جاتا ہے   نیز لاہور کراچی اسلام آباد پاکستان میں ٹیبلاؤ سروسز کے لیے ٹیبلاؤ ٹریننگ اور ٹیبلاؤ ڈیسک ٹاپ کا استعمال کرتے ہوئے جدید تجزیات کے لیے مشاورت کے لیے بہترین وسیلہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سرور یا ٹیبلو پبلک اور ٹیبلو اب کلاؤڈ سبسکرپشن پر مبنی اور انٹرپرائز رپورٹنگ ہے جو پاکستان میں بزنس انٹیلی جنس اور ٹیبلو سروسز میں ایک بڑا رجحان بنتا جا رہا ہے ۔
پاکستان میں ٹیبلو سروسز ایک اہم مشاورتی کاروبار بن رہا ہے جو پاکستان میں بہت سے مواقع پیدا کر رہا ہے۔ اگر آپ پاکستان میں ٹیبلاؤ سروسز تلاش کر رہے ہیں تو بلیٹیکا پاکستان میں ٹیبلاؤ ٹریننگ اور پاکستان میں ٹیبلو سروسز کے لیے سرکردہ پارٹنر ہے ۔
ڈیٹا ویئر ہاؤس سروسز ایک بڑا عنصر بنتی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر کاروبار پاکستان میں بلیٹیکا سے ٹیبلو سروسز کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹیبلاؤ کنسلٹنگ کمپنیوں کی ترقی کا ایک بڑا عنصر ہے خاص طور پر اس حقیقت پر غور کرتے ہوئے کہ پاکستان میں ٹیبلو سروسز صرف پاکستان میں سرکاری ٹیبلو سروسز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں جس سے کمپنیوں کو پاکستان میں بہترین ٹیبلاؤ پارٹنر تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے جو کمپنیوں کے لیے مواقع کو بڑھاتا ہے۔ Bilytica کی طرح پاکستان میں بہترین ٹیبلو سروسز فراہم کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ۔
خدمات جو ہم پیش کرتے ہیں:
Erpisto ERP
فوری جائزہ
مالی انتظام
مائیکرو فنانس ERP سافٹ ویئر
انٹرپرائزز HR اور پے رول
بجٹ اور مالیاتی منصوبہ بندی
CRM
Erpisto سیلز مینجمنٹ
انوینٹری مینجمنٹ
اثاثہ جات کا انتظام
گودام کا انتظام (WMS)
پوائنٹ آف سیلز (POS)
تیار ای کامرس شاپ
پیداواری انتظام
پروسیسنگ مینوفیکچرنگ
مجرد مینوفیکچرنگ
Erpisto CRM                                
فوری جائزہ
سیلز فورس مینجمنٹ
لیڈ اور مواقع کا انتظام
سیلز پائپ لائن اور انتظام
اکاؤنٹ مینجمنٹ
سیلز کوٹیشن مینجمنٹ
انتظامیہ سے رابطہ کریں۔
مہم کا انتظام
ری سیلر مینجمنٹ
کسٹمر سروسز مینجمنٹ
اثاثہ اور انوینٹری مینجمنٹ
ٹیلی مارکیٹنگ
سیلز فورس آٹومیشن
کثیر لسانی سپورٹ
Erpisto POS (ChecPOS)
ChecPOS بذریعہ Erpisto جائزہ
ریٹیل POS
QucikSerivce POS
ریستوراں POS
انٹرپرائز POS
POS مشکل
Erpisto ای انوائس سافٹ ویئر
خودکار طور پر رسیدیں وصول کریں اور بھیجیں۔
ملٹی کرنسی، انوائس حسب ضرورت
تمام انوائس فارمیٹس کو سپورٹ کریں۔
موجودہ نظام کے ساتھ ضم کریں۔
آرکائیو کرنے کی صلاحیتیں۔
ادائیگیوں کی متعدد شکلیں۔
تجزیات کو مربوط کریں۔
حفاظت اور مدد
انوائس تعداد.
رسیدوں کے لیے یاد دہانی
شرائط و ضوابط۔
ہر پروڈکٹ یا سروس کی تفصیل دینے والی لائن
رسیدوں کی ریئل ٹائم ٹریکنگ
B2B رسیدوں کی ایک وقتی رپورٹنگ
ای وے بل کی آسان تخلیق
خریداروں کی مدد کرتا ہے۔
دھوکہ دہی میں کمی
ڈیٹا انٹری کی غلطیوں میں کمی
انٹرآپریبلٹی کی اجازت دیتا ہے۔
ٹیکس چوری کو روکیں۔
QR کوڈ
            سیلز                           کال کے ساتھ واٹس ایپ چیٹ شروع کرنے کے لیے کلک کریں #: +923333331225                          ای میل:  [email protected]
17/02/2022
0 notes
columnspk · 3 years
Text
Qazi Hussain Ahmad
قاضی حسین احمداورکشمیرکاز سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم امت اسلامیہ کا ایک عظیم سرمایہ تھے۔ وحدت اسلامیہ اور مسلمانوں کی سربلندی کے لئے سے ان کی کاوشیں ہمیشہ یادرکھیں جائیں گی۔ان کی وفات سے مسلم امہ بالخصوص پاکستان میںایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جس کو پر کرنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر پیدا ہونے والی خوفناک صورتحال کے خاتمے اور مختلف مکاتب فکر کے مابین وحدت و…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
risingpakistan · 6 years
Text
موسمیاتی تغیر سے متأثرہ ممالک میں پاکستان 7 ویں نمبر پر
عالمی موسمیاتی تغیر کے سبب پاکستان ٹاپ 10 ممالک کی فہرست میں 7ویں نمبر پر آگیا۔ زولوجیکل سوسائٹی آف لندن اور ڈبیلو ڈبیلو ایف کے اشتراک سے شائع ہونے والی لیونگ پلانیٹ رپورٹ کا سن 1998 سے ہر دو سال کے بعد تواتر سے اجرا کیا جاتا ہے۔ 140 صفحات پر مشتمل لیونگ پلانیٹ رپورٹ کی تیاری میں 11 ممالک کے تقریبا 126 ادارے اور 80 کے قریب ماہرین ماحولیات کی آرا شامل کی جاتی ہیں جس کے مطابق عالمی موسمیاتی تغیر کے سبب پاکستان ٹاپ 10 ممالک کی فہرست میں 7ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ موسم گرما میں گرمی کا مسلسل بڑھتا پارہ اور سرد موسم میں بتدریج گرتے درجہ حرارت جیسی صورتحال کے باعث تیزی سے پگھلتے برف کے ذخائر ( گلیشیر) نے سیلابوں کی شرح خوفناک حد تک بڑھا دی، سال بھر استعمال ہونے والے میٹھے پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، سندھ میں 2010 کا سپرفلڈ بھی موسمیاتی تبدیلی کے سبب آیا۔  
23 notes · View notes
breakpoints · 3 years
Text
کیا سیالکوٹ واقعہ جی ایس پی پلس کو متاثر کرے گا؟
کیا سیالکوٹ واقعہ جی ایس پی پلس کو متاثر کرے گا؟
خواتین کو برہنہ کر کے پریڈ کروائی گئی، سیکڑوں ریپ ٹیپ کیے گئے، ایک شخص کو جلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، لیکن کاروبار جاری ہے۔ جب کہ بے ترتیب غیر تصدیق شدہ ٹویٹس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے برآمدات کے آرڈرز خوفناک صورتحال کے نتیجے میں متاثر ہو رہے ہیں۔ سیالکوٹ کا واقعہ، تمام اسٹیک ہولڈرز جن سے رابطہ کیا گیا تھا وہ اس طرح کے تصور کو آواز کے ساتھ بدنام کرنے میں متحد تھے۔ پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز…
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 3 years
Text
آئی ایم ایف کا ایک ارب ڈالر ۔۔۔ مگر بحران جاری
پاکستان کا اقتصادی بحران تو روز روشن کی طرح عیاں ہے، پیسہ آپ کے پاس کم ہو اور اخراجات بے بہا۔ بیلنس آف پیمنٹس مین پاکستان کی ایکسپورٹ اس کی جی ڈی پی کی نو فیصد ہو اور امپورٹ 25 فیصد ہو، ڈالر کی کمی ہو، لیکن امپورٹ پالیسی ایسی ہو کہ اقتصادی ماہر ثاقب شیرانی کے مطابق پچھلے تین سال میں پاکستانیوں کو دس ارب ڈالر کے ٹیلی فون اور قیمتی گاڑیاں امپورٹ کرنے کی چھوٹ ہو! سب بدلنا تو ہو گا- باتیں شاید درست بھی ہوں لیکن حالات کی عکاسی تب ہی ہوتی ہے جب حقائق پورے سیاق و سباق میں کہے جائیں۔ ابھی دو ہی روز پہلے پاکستان کے مشیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے یہ فرمایا کہ مہنگائی کی شرح تو ضرور بڑھ گئی ہے لیکن ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت میں ایک اشاریے کی کمی آئی ہے۔ آج کے عام شہری کے لیے اور آج کی سیاسی طغیانی میں پھنسے ہوئے پاکستان کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بڑھ کر شاید ہی کوئی معاملہ ہو۔ چینی، آٹا، ٹماٹر، بجلی، گیس، پٹرول، بس نام لیجیے کسی بھی چیز کا جو پاکستانی روزمرہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں تو زندگی کا سب سے بڑا بوجھ اقتصادی ہی نظر آتا ہے۔
بیس ہزار روپے میں چھ سے آٹھ لوگوں کا خاندان بجٹ بنائے تو کیسے بنائے؟ حکومت کرے تو کیا کرے؟ اب تو آئی ایم ایف کے ساتھ جن شرائط کا اعلان 22 نومبر کو شوکت ترین صاحب نے کیا اس کے بعد مہنگائی بڑھتی ہوئی نظر آئے گی۔ علاوہ یہ کہ کسی معجزے کے تحت بین الاقوامی سطح پر تیل گیس وغیرہ کی قیمتوں میں کمی آئے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ بدقسمتی سے کرونا سے منسلک ایک خوفناک صورتحال کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت اٹھارہ مہینے میں مرتبہ دس فیصد گری ہے۔ شوکت ترین صاحب نے فورا ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ گرتی ہوئی قیمت کا فائدہ عوام کو دیا جائے گا، حکومت نے ویسے ہی پٹرول پر ہر قسم کا ٹیکس ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے پٹرول کی قیمت میں کمی آئے گی۔ لیکن یہ کچھ معاملہ عجیب بھی ہے کیونکہ ایک طرف تو حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ آئی ایم ایف سے یہ طے ہوا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں چار روپے فی لیٹر اضافہ ہو گا تو وہ اضافہ تو بہرحال ہونا ہی ہے اور ہاں پٹرول کی قیمت اگر بین الاقوامی سطح پر کسی اچھی وجہ سے، کسی مثبت وجہ سے کم ہوتی ہے تو پھر پاکستانیوں کو بھی فائدہ ضرور ہو گا۔
لیکن اس وقت اس حالات کچھ مختلف ہیں۔ یکدم جنوبی افریقہ میں ایک نہایت خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والا کرونا کا ویرینٹ دریافت ہوا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان نے بھی پانچ ممالک سے ہر قسم کی آمد ورفت کو فوری طور پر روک دیا ہے۔ یہ معاملہ پوری دنیا کے بہت سے ممالک تک پھیلا ہے، یعنی آمدورفت پر سخت پابندی۔ جس میں خاص طور پر یورپ کے بہت سے ملک شامل ہیں۔ نتیجہ کیا ہوا، ایئر لائن انڈسٹری اور ان سے منسلک تمام انڈسٹریز نے یہ طے کیا کہ شاید اب بزنس پھر ڈھیلا پڑنے والا ہے، دنیا میں ہوائی سفر شاید پھر سے اب کمی کی طرف جائے جس کے نتیجے میں پٹرول کی ڈیمانڈ میں یقینا کمی آئے گی، تو پھر یوں تیل کی قیمت میں بھی کمی آئی۔ اب اس طرح کی کمی پر تکیہ کرنا شاید نادانی ہو گی۔ کرونا خالی پٹرول کی قیمت میں کمی لاتا ہے، ورنہ جیسے دنیا میں پہلے دیکھا گیا، کووڈ کا مزید پھیلاؤ اقتصادیات کا بھٹہ بٹھا سکتا ہے۔
پاکستان کو تیل کی قیمت نہیں بلکہ اقتصادیات سے منسلک تمام محرکات کا جائزہ لینا ہو گا۔ یقیناً مہنگائی تو پاکستانیوں نے پہلے بھی دیکھی ہے لیکن اتنی تیزی سے بہت سے معاملات بگڑتے ہوئے شاید ماضی میں نہیں دیکھے۔ اس وقت دنیا کے بھی پاکستان پر کم پریشر تھے، دوست یا قدردان زیادہ تھے، ہم دوسرے ممالک کی جنگوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہو کر کچھ اقتصادی فوائد حاصل کرتے تھے جن کی وجہ سے بین الاقوامی اقتصادی ادارے ہمارے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور اندرون ملک بھی اقتصادیات کبھی کسی بھی حکومت کے لیے بظاہر سیاسی خطرے کی وجہ نہیں بنیں۔ اسی نئے آئی ایم ایف معاہدے سے منسلک اور بھی سنگین معاملات ہیں۔ پاکستان میں انڈسٹری کو یقیناً نقصانات ہوں گے، مثلا بجلی کی قیمت کو بڑھانا ہو گا، سیلز ٹیکس بھی لگانا ہو گا، تقریبا تین ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ جو صنعتکاروں وغیرہ کو دی تھی وہ بھی حکومت کو واپس لینا ہو گی۔ یہ اقدامات یقینا صنعتی ترقی میں کمی کریں گے جس سے بے روزگاری مزید بڑھے گی اور عوام اور سرمایہ کار دونوں کے لیے حالات بگڑیں گے۔
مہنگائی تو بڑھتی ہوئی نظر آ ہی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر ایک طرف سے عوام کی چیخ و پکار اور دوسری طرف سے سیاسی جماعتوں کا دباؤ بھی موجود ہے۔ یقیناً عمران خان نے 1.3 کھرب روپیہ غریبوں کے لیے مختص کیا ہے تاکہ وہ مہنگائی کے طوفان میں بہہ نہ جائیں لیکن آنے والے دنوں میں مہنگائی بظاہر بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس کے علاوہ گیس جیسی اہم شے کی جب کمی درپیش ہو گی جس کا اعلان پرائم منسٹر خود کر چکے ہیں تو پھر صنعت کار کے کام میں مندی ہی پیدا ہو گی جس کا نتیجہ مزدور کو بھگتنا ہو گا۔ شاید کچھ عرصے کے لیے بے روزگاری، بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور پاکستان کا اقتصادی بحران اب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ جب موجودہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے اپریل کے مہینے میں اپنا عہدہ سنبھالا اور آئی ایم ایف کے معاملات پر نظر ڈالی تو کافی پر امید تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے اقتصادی ریفارم سے مرعوب ہو کر پاکستان کا ساتھ دے گا۔ 
ان کا خیال تھا کہ جی ڈی پی کی نمو میں اضافے کا ٹارگٹ، ٹیکس جمع کرنے کے اہداف پورے کرنا اور حکومت کی آمدن میں اضافے کا باعث ہو گا، لیکن ساتھ موجود مہنگائی کے پس منظر، عوام پر بڑھتے بوجھ اور بڑھتی ہوئی حکومتی مشکلات کے نتیجے میں آئی ایم ایف اور اس سے منسلک ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک، ان سے پہلے کے منسٹر حفیظ شیخ کے کچھ وعدوں پر جن میں بجلی کے نرخ میں اضافہ اور کچھ سبسڈی وغیرہ شامل تھے، ان پر نظر ثانی کرنی پر راضی ہوں گے۔ شوکت ترین صاحب نے پارلیمان کی کمیٹی برائے خزانہ میں کھل کر اقتصادی پالیسی پر تنقید کی، سود کی شرح میں اضافہ، مہنگائی کا بڑھتا ہوا رجحان، روپے کی قدر میں تقریبا 35 فیصد کمی اور پھر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جس میں سات سو ارب روپے ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جائے، بجلی کے نرخ کو بڑھایا جانے وغیرہ کی بات کی۔
بہرحال پاکستانی تاریخ کے لمبے ترین اور سخت ترین آئی ایم ایف مذاکرات اختتام پذیر ہوئے اور نومبر 22 کو شوکت ترین صاحب نے کچھ نئے، کچھ پرانے اور کچھ سخت اقدامات پر آئی ایم ایف کا ساتھ دیا جن کی بنا پر آئی ایم ایف پاکستان کو جنوری میں ایک ارب ڈالر دے گا۔ یقینا اس سے پاکستان کے دیرینہ سنگین اقتصادی معاملات حل نہیں ہونے لگے۔ کئی آئی ایم ایف پیکیج آئے اور استعمال کیے گئے لیکن نہ پرائیوٹائزیشن ہو پائی، نہ اہم انرجی ریفارم، نہ ٹیکس نیٹ بڑھا، نہ حکومتی اخراجات خاطر خواہ کم ہوئے، نہ ٹیکس چور پکڑے گئے اور نہ ہی حکومت کے اندر کی کرپشن کم ہوئی۔ مثلاً حال ہی میں حکومت کے کووِڈ اخراجات پر 40 ارب روپیہ کے حوالے سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اقتصادی معاملات پر اب تو یقیناً پاکستان کی تما سیاسی جماعتوں اور صنعت کاروں کو معیشت کے دھارے میں شامل کر کے سٹیک ہولڈر بنانا لازمی ہے۔ یقیناً موجودہ حکومت اقتصادی ریفارمز کر رہی ہے لیکن معاملہ اب تمام پارلیمان کو ساتھ لے کر ہی حل ہو سکتا ہے، آپ اپوزیشن کو دیوار سے لگائیں گے تو مہنگائی کا مارا پاکستانی اپوزیشن کے ساتھ جا کر کھڑا ہو جائے گا۔ کھیل پھر بھی سیاسی رہے گا۔ ہمارے ملک کو فوری اور سنجیدگی سے اقتصادی بحران سے اگر نہ نکالا گیا تو ملک انتشار اور بحران کا لازمی شکار ہو گا۔
نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
مارگلہ ہلز پر شاہ اللہ دتہ کے قریب جنگلات میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی، آگ بجھانے میں دشواریوں کا سامنا، تشویشناک صورتحال اسلام آباد (آن لائن) مارگلہ ہلز پر شاہ اللہ دتہ کے قریب جنگلات میں ایک مرتبہ پھرآگ بھڑک اٹھی،چند لمحوں میں آگ کے شعلوں نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،آگ کے شعلے دوردراز میدانی علاقوں سے بھی دیکھے جاتے رہے۔میٹروپورلیٹن کارپوریشن (ایم سی آئی)کے شعبہ انوائرمنٹ کا عملہ موقع پر تاخیر سے پہنچا۔
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
ٹیکساس میں ، بائیڈن کا کہنا ہے کہ نئی قانون سازی برن پٹ متاثرین کے فوائد کو بڑھا سکتی ہے۔ #صحت
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%b9%db%8c%da%a9%d8%b3%d8%a7%d8%b3-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%8c-%d8%a8%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%88%d9%86-%da%a9%d8%a7-%da%a9%db%81%d9%86%d8%a7-%db%81%db%92-%da%a9%db%81-%d9%86%d8%a6%db%8c-%d9%82%d8%a7/
ٹیکساس میں ، بائیڈن کا کہنا ہے کہ نئی قانون سازی برن پٹ متاثرین کے فوائد کو بڑھا سکتی ہے۔
واشنگٹن — صدر بائیڈن نے منگل کے روز سابق فوجیوں کے لیے صحت سے متعلق فوائد کی وسیع توسیع پر زور دیا، خاص طور پر وہ لوگ جو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں فضلہ جلانے سے زہریلے مواد میں سانس لینے کے بعد بیمار ہو گئے تھے، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس کینسر میں اہم کردار ادا کیا جس نے ان کے بڑے بیٹے کی جان لے لی۔ , Beau.
مسٹر بائیڈن کے لیے یہ مسئلہ ذاتی اور سیاسی ہے۔ پچھلے ہفتے، اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں، انہوں نے کہا کہ وہ گھریلو ایجنڈے کے حصے کے طور پر سابق فوجیوں کے لیے وسیع و عریض فوائد کا پیچھا کریں گے جسے وائٹ ہاؤس نے ایک زیادہ وسیع سوشل سیفٹی نیٹ پلان کی منظوری حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد دو طرفہ برادری پر زور دینے کے لیے دوبارہ کوشش کی ہے۔ سال
منگل کے روز، مسٹر بائیڈن نے مختصراً اپنی توجہ یورپ میں جاری جنگ سے ہٹا کر سابق فوجیوں کے امور کے سیکرٹری ڈینس میک ڈونو کے ساتھ فورٹ ورتھ کے قریب ایک کلینک کی طرف مبذول کرائی۔ وہاں، صدر نے ایسے سابق فوجیوں سے ملاقات کی جنہیں ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں آئی تھیں اور جلنے والے گڑھوں کے قریب خدمت کرنے کے بعد کالے مادے کو کھانسنا شروع کر دیا، جیسا کہ فوج کے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی آگ کے بارے میں جانا جاتا ہے۔
سابق فوجیوں اور قانون سازوں کے ایک سامعین سے بات کرتے ہوئے، مسٹر بائیڈن نے کہا کہ محققین اور قانون سازوں کو ویتنام جنگ میں استعمال ہونے والے ایجنٹ اورنج کے نقصان دہ اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے میں برسوں لگے ہیں۔ اس نے اس صورتحال کا موازنہ اس کے ساتھ کیا جس کے بارے میں ان کے خیال میں عراق اور افغانستان میں خدمات انجام دینے والے فوجیوں کے ذریعہ سانس لینے والے زہریلے مادوں کے اثرات کا مطالعہ کرنے میں کافی تاخیر ہوئی ہے اور وہ ردی کی ٹوکری اور دیگر فضلہ کو جلا رہے تھے۔ جلنے والے گڑھے عام طور پر کوڑے دان سے بھرے ہوتے ہیں، جیسے کہ طبی فضلہ اور گاڑیاں، جنہیں پھر جیٹ فیول سے ڈوب کر جلا دیا جاتا ہے۔
مسٹر بائیڈن نے نشاندہی کی کہ انہوں نے ایجنٹ اورنج کے اثرات کی تحقیق میں معاونت کے لیے سینیٹر کے طور پر کام کیا تھا، اور انھوں نے کہا کہ عراق اور افغانستان میں تعینات کیے گئے نوجوان سابق فوجی، اکثر ایک سے زیادہ مرتبہ، اسی طرح کی حمایت کے مستحق تھے۔
افغانستان سے رپورٹنگ
مسٹر بائیڈن نے اپنے ریمارکس کے دوران کہا ، “آج ہم جو کچھ ہو رہا ہے اس کے نقطوں کو جوڑنے میں اور بھی سست ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نئی بیماریاں، بشمول مثانے کے کینسر، کو ایجنٹ اورنج کے ممکنہ نتائج کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے، کچھ پچھلے سال کی طرح حال ہی میں۔
مسٹر بائیڈن نے کہا، “سائنس نے ہمیں مزید بتایا، نمائش کے کئی دہائیوں بعد۔” “میرے خیال میں اس فیصلے تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگا، اور جب عراق اور افغان جنگوں کے سابق فوجیوں کی بات آتی ہے تو میں اس غلطی کو دہرانے سے انکار کرتا ہوں۔”
جنگی علاقوں میں زہریلے مادوں اور سابق فوجیوں کو لاحق ہونے والی بیماریوں کے درمیان تعلق ثابت کرنا قانون سازوں کے لیے سیاسی طور پر مشکل اور بیمار ہونے والے بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی مہنگا ہے۔ لیکن وہ کارکن جو برسوں سے فائدے کے لیے لڑ رہے ہیں مسٹر بائیڈن میں ایک چیمپئن دیکھتے ہیں، جو طویل قیاس آرائیاں کیں۔ کہ جلنے والے گڑھوں سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے اس کے بیٹے کے دماغ کے کینسر میں حصہ لیا۔ چھوٹے مسٹر بائیڈن، جن کا انتقال 2015 میں ہوا۔ڈیلاویئر آرمی نیشنل گارڈ کے رکن کے طور پر عراق میں خدمات انجام دیں۔
“امریکہ کے صدر سے بہتر ہمارے پاس کون سا وکیل ہو سکتا ہے؟” سوسن زیئر، جس کا داماد پھیپھڑوں کے کینسر سے مر گیا۔ عراق میں خدمات انجام دینے کے بعد، ایک انٹرویو میں کہا۔ محترمہ زائر، جو کارکنوں کے اس گروپ کا حصہ ہیں جو حکومت کی توجہ حاصل کرنے کے لیے برسوں سے کوشش کر رہے ہیں، انہیں مسٹر بائیڈن میں ایک ہمدرد سامع ملا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “کانگریس کے کچھ ممبران جو آہستہ آہستہ چل رہے ہیں میرے خیال میں شاید آخرکار روشنی دیکھ رہے ہوں گے۔”
کانگریس کے تین ارکان – دو ڈیموکریٹس اور ایک ریپبلکن – مسٹر بائیڈن کے ساتھ فورٹ ورتھ تک گئے۔ ان میں سے ایک، ٹیکساس کے ریپبلکن کے نمائندے جیک ایلزی نے، اس تقریب میں مسٹر بائیڈن کے ساتھ شامل ہونے کے اپنے فیصلے کی وجہ فوج میں اپنے برسوں کو بیان کیا۔
“آج ہمارے ملک اور ہماری دنیا میں بہت کچھ ہے جو درست نہیں ہے،” مسٹر ایلزی نے کہا۔ “یہ مشکل وقت ہیں۔ یہ خوفناک اوقات ہیں۔ دن کے اختتام پر، ہم تجربہ کار کے سامنے R یا D نہیں ڈالتے۔
مسٹر بائیڈن نے ایک بل کے لیے دو طرفہ حمایت پر روشنی ڈالی، گزشتہ ہفتے ایوان نے منظور کیا۔، جو زہریلے مادوں کے سامنے آنے والے سابق فوجیوں کے لیے معذوری کے فوائد کو بڑھا دے گا اور صحت کے مزید مسائل کی درجہ بندی کرے گا جیسا کہ جلنے والے گڑھے کی نمائش سے متعلق ہے۔ سینیٹرز مارکو روبیو، فلوریڈا کے ریپبلکن، اور نیویارک کے ڈیموکریٹ کرسٹن گلیبرانڈ کے پاس بھی جلنے والے گڑھوں کے سامنے آنے والے سروس ممبران کے لیے محکمہ سابق فوجیوں کے امور کے فوائد کو بہتر بنانے کا ایک بل ہے۔
“یہ وہ بل ہیں جو امریکی عوام کو متحد کریں گے،” مسٹر بائیڈن نے کہا۔ “آئیے وہ بل میری میز پر لے آئیں تاکہ میں ان پر فوراً دستخط کر سکوں۔”
ایوان کی طرف سے منظور کردہ قانون سازی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے صرف وہی اضافہ ہوگا جو طبی دیکھ بھال کے خواہاں دوسروں کے لیے پہلے سے ہی وسیع بیک لاگ ہیں۔ آئیووا کے ریپبلکن اور ایک تجربہ کار نمائندے میرینیٹ ملر میکس نے اس بل کو “انتہائی مہنگا” قرار دیا اور اس کے مصنفین پر جانبداری کا الزام لگایا۔
“وہ لوگ جو آج ہاؤس ڈیموکریٹس کی کمزور کارروائی کا خمیازہ بھگتیں گے وہ روزمرہ کے امریکی ہیں جن کو کانگریس کی ضرورت ہے کہ وہ کام کو انجام دے،” انہوں نے گزشتہ ہفتے ایوان سے بل کی منظوری کے بعد ایک بیان میں کہا۔
قانون سازی کے حامی اور مخالفین دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کیا سابق فوجیوں کی خدمت کے بعد پیدا ہونے والی بیماریاں جلنے والے گڑھوں سے منسلک ہو سکتی ہیں۔ سابق فوجیوں کے امور کے محکمے نے ماضی میں کہا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بہت کم شواہد ملے ہیں کہ جلنے والے گڑھے سابق فوجیوں کی بیماریوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور یہ اب بھی مشورہ دیتا ہے کہ نمائش ختم ہونے کے بعد بہت سی علامات کو غائب ہو جانا چاہیے۔
لیکن محکمہ یہ بھی کہتا ہے کہ محققین “ہوا سے پیدا ہونے والے خطرات جیسے جلنے کے گڑھے اور دیگر فوجی ماحولیاتی نمائشوں کا سرگرمی سے مطالعہ کر رہے ہیں،” ایجنسی کے ویب پیج کے مطابق اس موضوع پر.
پچھلا ہفتہ، محکمہ نے اعلان کیا کہ وہ جلنے والے گڑھوں میں زہریلے کیمیکلز کی نمائش کی وجہ سے سروس سے منسلک معذوریوں کی فہرست میں نو نایاب سانس کے کینسر کو شامل کرنے کی کوشش کرے گا۔ مسٹر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ جلنے والے گڑھوں اور بعد میں ہونے والی بیماریوں کے درمیان تعلق پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ محکمہ اس دوران سابق فوجیوں کی مدد کرے۔
مسٹر بائیڈن نے کہا کہ “جب شواہد کسی نہ کسی طریقے سے واضح جواب نہیں دیتے ہیں، تو ہمیں جس فیصلے کی حمایت کرنی چاہیے وہ اپنے سابق فوجیوں کی دیکھ بھال کرنا ہے جب کہ ہم مزید سیکھتے رہتے ہیں،” مسٹر بائیڈن نے کہا۔ “انتظار نہیں، انتظار نہیں.”
Source link
0 notes
pakistan-affairs · 3 years
Text
عمران خان کی کامیابیاں اور ناکامیاں
عمران خان ماضی میں بہت سے ناممکن کام کر چکے ہیں۔ انہوں نے ایک عام سے باؤلر کی حیثیت سے آغاز کیا اور جنہوں نے میری طرح انہیں ایچی سن میں اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلتے دیکھا، ان کا یہ خیال تھا کہ وہ کبھی اچھے بولر نہیں بن سکیں گے۔ وہ ایک عظیم فاسٹ بولر اور کرکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اگر کسی نے اس پہلے ٹیسٹ کے وقت ایسا کہا ہوتا تو بلاشبہ لوگ ہنس پڑتے۔ اپنے کیرئیرکے عروج پر وہ ہر ٹیسٹ میچ میں پانچ وکٹیں لیتے تھے اور پاکستان کے کپتان کی حیثیت سے ان کی بیٹنگ اوسط 52 تھی۔ جب وہ اپنی ماں کے نام پر کینسر اسپتال بنانے کے لئے نکلے تو غیر تو غیر ان کے اپنے خاندان کو بھی یقین نہ تھا کہ ایسا ہو سکے گا۔ تاریخ میں درج رہے گا کہ وہ کامیاب ہوئے۔ اور کیسے کامیاب ہوئے۔ اب وہ کراچی میں ایک اور کینسر اسپتال بنا رہے ہیں۔ جب وہ سیاست میں آئے تو لوگوں نے سوچا کہ محض توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا ہے کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنامی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ لیکن وہ کامیاب ہونے کے لئے اپنا وژن اور ناقابل یقین ارادہ لے کر آئے اور بالآخر کئی الیکشن ہارنے کے بعد وہ آج پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔
جب وہ وزیر اعظم بنے تو اپنے ساتھ بدعنوانی اور بدانتظامی سے تنگ لوگوں کی بہت سی نیک خواہشات لے کر آئے تھے۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ وہ ناکام ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن آج انہیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ انہوں نے خود کو معیشت کی وجہ سے ایسے مقام پر کھڑا کر دیا ہے کہ انہیں اب بیک وقت دو بپھرے ہوئے طوفانوں کا سامنا ہے۔عمران خان نے ماضی کے کرپٹ حکمرانوں کے احتساب اور ان کے جرائم کی سزا کے لئے اپنی پوری کوشش کی۔ لیکن چونکہ وہ ایک طاقتور مافیا ہیں، جیسا کہ عمران خان خود کہتے رہتے ہیں، انہوں نے اب تک خود کو بڑی حد تک احتساب سے بچا ئے رکھا ہے۔ درحقیقت، ان کی اولاد ان کی سیاسی جانشین بننے کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ ایک حالیہ سرکاری تقرری پر ایک بڑا اختلاف اٹھا بیٹھے ہیں۔ ان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ شاید اس طوفان سے نکل آئیں، لیکن انہیں اپنی بہت سی غلطیوں اور اپنی حکمرانی پر غور کرنا چاہئے۔
عمران کی سب سے بڑی ناکامی اچھی ٹیم نہ بنانا ہے۔ ثانیہ نشتر کی طرح ان کے پاس ایک یا دو اچھے لوگ تھے اور اب بھی ہیں، لیکن ان کے پاس سب سے اچھا آدمی ان کے سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ تھے، جن سے انہوں نے نامعلوم کیوں چھٹکارا حاصل کیا۔ ان کی جگہ انہوں نے ایک سابق وزیر خزانہ اور ایک کمرشل بینکر کو مقرر کیا اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، جس سے عبدالحفیظ شیخ چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو گئے تھے، نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ یہ خسارہ اب 10 ارب ڈالر ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں بڑے اضافے کے باوجود، درآمدات بڑھ رہی ہیں اور برآمدات گر رہی ہیں جس سے مزید بڑا تجارتی خسارہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جو اچھی علامت نہیں۔ جب تک آپ یہ کالم پڑھیں گے تب تک شاید یہ حل ہو چکا ہو لیکن اس کی کافی زیادہ قیمت ہو گی۔ 
آئی ایم ایف حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنے پر مجبور کرے گا جو مہنگائی کو اور بڑھا دے گا جس سے لوگوں کی قوتِ خرید مزید کم ہو جائے گی۔ ایسی صورتحال معاشرے میں بے چینی کا باعث بن سکتی ہے اور پھر عمران کے بے شمار مخالف اس بات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ میری خواہش ہے کہ عمران خان ان مشکلات میں سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ غریب آدمی نے فقیروں کی طرح زندگی گزارنا شروع کر دی ہے۔ غریب آدمی کو چھوڑیں، اچھی حیثیت والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے گھر میں پہلے کی نسبت کم کھانا پک رہا ہے اور میں پہلے سے کم کھاتا ہوں۔ لہٰذا جب لوگ تبصرہ کرتے ہیں کہ میرا وزن کم ہو گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کم کھا رہا ہوں۔ آپ اسے ’عمران خان ڈائٹ‘ کہہ سکتے ہیں۔ ویسے ہمایوں گوہر کا وزن کم کرانا ایک ناممکن کام تھا جسے عمران خان نے ممکن کر دکھایا۔ اب گاڑی رکھنا، ہوائی جہاز سے کراچی جانا اور بہت سی دوسری چیزیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ تھیں، مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرے والد نے ورثے میں مجھے ایک گھر دیا ورنہ میں اب تک بے گھر ہوتا۔ 
اب جائداد خریدنے کا سوچنا بھی ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ نئی گاڑی خریدنے کے بارے میں سوچنا بھی سر چکرا دیتا ہے۔ ان سب کے علاوہ لوگ ذاتی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ کوویڈ کی وجہ سے روزانہ بہت سی اموات ہو رہی ہیں ۔ میرے ایک برادر نسبتی کا انتقال ہو گیا اور پھر میرے پیارے کزن بابر تجمل ناگہانی موت کا شکار ہوئے۔ یہ صورتحال حالات کو مزید خوفناک بنارہی ہے۔ عمران خان کے لئے ضروری ہے کہ شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے کوئی فوری راستہ تلاش کریں۔ ایسا کرنا ان کے مخالفین کے غبارے سے ہوا نکال سکتا ہے۔ وہ اپنی اپنی جگہ پر ایک ڈرائونے خواب کی طرح موجود ہیں۔ آپ نے نواز شریف کی بیٹی یا بے نظیر کے بیٹے کا انداز گفتگو سنا ہو گا۔ ان کے ارد گرد موجود بہت سے لوگوں سے کوئی اچھی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ لیکن پھر اچھے لوگ جو پاکستانی سیاست کے شیطانی میدان میں داخل ہونے کے لئے تیار ہوں وہ بہت کم ہیں۔ بہت ہی کم ۔
ہمایوں گوہر
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-news · 3 years
Text
مڈغاسکر سے سبق لیجئے
ہم یہاں پچھلے آٹھ مہینوں سے تھور کے پتوں اور کیڑوں مکوڑوں سے اپنا پیٹ پال رہے ہیں۔ جبکہ میرا شوہر چند دن پہلے بھوک کی وجہ سے مر گیا ہے۔ میرے تین بچے ہیں جن کو کھلانے کےلیے کچھ نہیں ہے۔ میری زندگی کا مقصد صرف تھور کے پتے تلاش کرنا ہے جس سے ہماری پیٹ پوجا ہو سکے۔ جو فصلیں کاشت کی تھیں وہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے تباہ ہو گئیں ہیں۔‘‘ یہ روداد ہے مڈغاسکر کی تیماریہ کی، جو وہ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو سنا رہی تھیں۔ مشرقی افریقی ملک مڈغاسکر کو مسلسل چار سال سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بدترین قحط کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گیارہ لاکھ آبادی پر مشتمل اس ملک کو غذا کی شدید قلت کا سامنا ہے اور بروقت اقدامات نہ کرنے سے انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ مڈغاسکر میں خشک سالی کا ذمے دار عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جارہا ہے۔ 
اگرچہ اس ملک کا عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں حصہ محض ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود ماحولیاتی آلودگی کی سب سے زیادہ قیمت مڈغاسکر کو چکانا پڑ رہی ہے۔ یہ اکیسوی صدی کے باسیوں کے لیے مستقبل کی ایک خوفناک جھلک ہے جو انسانیت کےلیے عالمی وباؤں اور جنگوں سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو خوفناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ بینک کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ٹاپ ممالک میں شامل ہے جو عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے سب سے زیادہ معاشی اور معاشرتی نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگلی دو دہائیوں کے دوران پاکستان کے درجہ حرارت میں دو اعشاریہ پانچ سیلسیئس تک کا اضافہ ہو سکتا ہے، جس کا براہ راست اثر ہماری صحت اور ہمارے ایکو سسٹم پر پڑے گا۔
اگر ان اعدادوشمار سے باہر نکل کر دیکھیں تو آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ اس بار مون سون کی بارشیں نہ ہونے کے برابر ہوئیں ہیں۔ مون سون کا سسٹم پاکستان میں پانی کے ذخائر کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ بارانی علاقوں میں جون جولائی کی فصلوں کا تمام تر انحصار اس سسٹم پر ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی سطح پر بھی اس کا اثر پڑ رہا ہے۔ میدانی علاقے جہاں پہلے فصلوں کا انحصار بارشوں پر ہوتا تھا اب وہ فصلیں بارشوں کی بے ترتیبی کی وجہ سے زیر زمین پانی پر شفٹ ہو گئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح دور ہوتی جارہی ہے اور کہیں پر ��انی کے ذخائر مکمل طور پر ختم ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے گنجان آباد شہروں کو اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سال لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں توقع سے بڑھ کر بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں اربوں روپے کا مالی و جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم ان حالات سے نمٹنے کے لیے کتنے تیار ہیں؟ 
اگرچہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں ہمارا حصہ بھی مڈغاسکر کی طرح نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کی قیمت شاید ترقی پذیر ممالک کو زیادہ ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اور نہ اکیلے ہمارے بس میں ہے کہ ہم انفرادی اقدامات اٹھا کر اپنے ماحول کو دوبارہ نارمل سطح پر لے آئیں، لیکن بطور ایک زرعی ملک حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ فوڈ سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دے۔ ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ حکومت زیادہ سے زیادہ کتنے دن کی خوراک ذخیرہ کر سکتی ہے، لیکن یہ بات عیاں ہے کہ حکومتی نااہلی اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کے باعث چینی اور گندم میں خودکفیل ملک کو بھی یہ چیزیں امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں۔ یہاں سال میں ایک دو دفعہ ناجائز منافع خوری کے لیے مصنوعی قحط کا سماں پیدا کیا جاتا ہے اور چند دن کی حکومتی کھسر پھسر کے بعد معاملات ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ شوگر مل مالکان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسانوں کا کئی ٹن گنا سالانہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کا استحصال کسان کے ساتھ ہر فصل پر کیا جاتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان ہی لوگوں کے کندھوں پر حکومت بھی چل رہی ہے۔ 
آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس طرح کا حکومتی رویہ کسی بحرانی صورتحال پر قابو پا سکتا ہے۔ اگر آپ مڈغاسکر کے حالات کا تجزیہ کریں تو اس میں صرف قدرت کو ان حالات کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتے اس میں حکومتی نااہلی بھی برابر کی شریک ہو گی۔ دوسری جانب بلڈر مافیا بھی ہر طرح کی زمینیں ہڑپ کرتی جارہی ہے، اور جس سرعت کے ساتھ یہ کام ہو رہا ہے آئندہ چند سال میں یہ زرعی ملک کو کنکریٹ کا پہاڑ بنا دیں گے۔ باغات، ندی، نالے، دریا کوئی بھی جگہ اس مافیا سے نہیں بچ پا رہی، حتیٰ کہ کراچی میں سمندر میں مٹی ڈال کر پانی کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور اس پر تعمیرات شروع کر دی گئی۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ملک کی غذائی ضروریات پوری کر رہے ہیں، ان کو چند روپوں کی سبسڈی دیتے وقت حکومت کو خزانے پر بوجھ یاد آجاتا ہے، دوسری جانب یہ مافیا ہے جو فطرت کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے اور حکومت کی جانب سے ان کو کھلی چھٹی ہے۔
زراعت سے وابستہ لوگوں کےلیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسرا ہمارے معاشرتی رویوں کے باعث پینڈو ہونا ایک گالی بن چکا ہے، اس کی وجہ سے لوگ اپنی زمینیں بلڈر مافیا کے حوالے کر کے شہروں کی طرف جارہے ہیں۔ اور یہ اس ملک کے لیے کسی بحران سے کم نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ایک محاذ بنائے جو ممالک ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اور ان ممالک پر دباؤ ڈالنا چاہیے جو کاربن کا زیادہ اخراج کر رہے ہیں۔ اس معاملے پر عالمی سطح پر کئی تنظیمیں اور ممالک کام کر رہے ہیں، ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے پھیلاؤ میں انڈیا کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ انڈیا دنیا کے سرفہرست تین ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔ 
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر انڈیا کو دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے اور اس پر عالمی سطح پر حمایت بھی مل سکتی ہے۔ لیکن عالمی فورمز پر ہماری طرف سے وہی پرانی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں جن کو وہ سن سن کر تھک چکے ہیں۔ اس پر موثر سفارت کاری کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ مسئلہ دنیا کےلیے ایک حقیقی خطرے کا روپ دھار چکا ہے اور اس پر دنیا میں پہلے سے ہی بہت سی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ارب درخت لگا لینے سے آپ اس خطرے سے بچ نہیں سکتے، اس کے ساتھ ایک مربوط حکمت عملی اپنانی ہو گی۔ زراعت و خوراک کے محکمے بیوروکریسی اور مفاد پرست ٹولے کے رحم کرم پر نہ چھوڑیے، ورنہ یہاں بھی مڈغاسکر جیسے حالات پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
محمد فراز خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
بڑی لمبی کہانی ہے پاکستان ریلوے کی ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟
آج کل دنیا بھر میں کورونا کی خوفناک وبا پھیلی ہوئی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ ایئرلائنز بند ہیں، بحری جہاز بند ہیں، ہوٹلز، مالز بند ہیں عوام اپنے گھروں یا پھر اسپتالوں میں بند ہیں۔ ہمارے ملک میں پچھلے تین ماہ سے ٹرینیں بھی بند رہیں۔ عام ٹرانسپورٹ بھی بند رہی۔ عید الفطرکے موقع پر کچھ ٹرینیں چلائی گئیں کچھ مال گاڑیاں چلتی رہیں۔ ریلوے کو اس دوران 6 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب کچھ بہتر صورتحال ہوئی ہے۔ کورونا کا زور کچھ کم ہو گیا ہے۔ سامنے پھر بڑی عید آ رہی ہے۔ ٹرینیں مزید چل جائیں گی، مگر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحب قابل احترام جسٹس گلزار احمد اور محترم جسٹس اعجازالحسن صاحب نے ریلوے انتظامیہ کے اہم ذمے داروں خاص کر سیکریٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ ریلوے ٹھیک طرح سے نہیں چلا رہے ہیں۔ حادثات آئے دن ہوتے رہتے ہیں، افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے کئی اعلیٰ افسران اور انجینئرز کو فارغ کرنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ آپ ایک ماہ میں اچھی رپورٹ لے کر آئیں گے۔ ‘‘بڑا بہتر اور اچھا فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کیا ہے جس کی وجہ سے مجھ سمیت ریلوے کے ملازمین اور پاکستان کے عوام خوش ہوئے ہیں۔ 
میں اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ میرا تعلق پاکستان ریلوے کی پیدائش سے قبل ہی کراچی سٹی ریلوے کالونی میں دسمبر 1945 میں ہوا تھا۔ والد صاحب 1940 میں ریلوے میں ملازم تھے گوکہ ریلوے برصغیر میں 1860-61 میں مکمل ہو گئی تھی۔ بڑی اچھی اور بہتر ریلوے سروس تھی۔ پی آئی اے وغیرہ بھی بعد میں آئی۔ 40 سال ملازمت کرتے ہوئے گزارے جس میں بحیثیت بکنگ کلرک اور پھر ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک صاحب پہلے ریلوے چیئرمین بنے اور پھر وزیر ریلوے بن گئے وہ ریلوے کو ترقی نہ دے سکے۔ چین سے انجن خریدے، پسنجر کوچز خریدیں اور ریلوے کی زمینیں فروخت کیں۔ لاہور کا کیس رام پال کلب اور میوگارڈن کا کیس چل رہا ہے۔ دیکھیں کب اس کی شنوائی ہوتی ہے اس وقت چیئرمین سے لے کر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اور چیف پرسنل آفیسر تک غیر سویلین ہوا کرتے تھے آخر بات کہیں اور نکل جائے گی۔ میں ریلوے کی طرف آتا ہوں۔ 
پاکستان ریلوے کی عمر اگست 1947 سے ہوتی ہوئی اب 73 سال کی ہو گئی ہے اس وقت ریلوے میں ملازمت کرنا ایک بڑا فخر سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہمارے حصے میں آنے والا یہ واحد ادارہ تھا جو ہمیں بنا بنایا ملا تھا۔ جس کے تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار ملازمین موجود تھے۔ 12 ہزار سات سو کلو میٹر ٹریک موجود تھا اور تین طرح کے ٹریک تھے بارڈگیج، میٹر گیج، نیروگیج۔ باقی اب صرف بارڈگیج سسٹم ہے۔ اس وقت ریلوے اسٹیشن کی تعداد 850 تھی۔ اس کے علاوہ ریلوے کی بڑی بڑی ورکشاپس، ریلوے ہیڈ کوارٹر کی عمارت سمیت ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی عمارتیں، ریلوے کے بنگلے، 70 ہزار سے زائد ریلوے ملازمین کے کوارٹرز، ریسٹ ہاؤوسز، ہر بڑے شہر میں اسپتال، کوئٹہ میں سردار بہادر T.B کا بڑا اسپتال، ڈسپنسریاں، سستے راشن ڈپو، اسکول، ڈسپنسریاں ہر ریلوے کالونی میں موجود تھیں۔ پھر ریلوے ٹریک، انجن، سفر کوچز مال گاڑی کے ڈبے اور پورے پاکستان ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل تا زاہدان تک پھیلی ہوئی تھی۔
انڈین ایکٹ 1935 کے تحت ہی پاکستان میں یہ ایکٹ جاری رہا تقسیم کے بعد A.C کے دو ڈبے کراچی تا پشاور تک جانے والی خیبر میل اور کراچی تا کوئٹہ جانے والی بولان میں برف کی سلیں ڈال کر ٹھنڈا کی جاتی تھیں بعد میں 75 یا 80 کی دہائی میں ریلوے میں A.C کے ڈبے ٹرینوں میں لگائے گئے۔ جو اب تک چل رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ریلوے ایک فعال اور خودمختار ادارہ تھا۔ جس میں A.C، فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، انٹر کلاس اور تھرڈ کلاس کی مسافر کوچیں چلتی تھیں۔ یہ ادارہ 1975 تک بغیر خسارے کے چلتا رہا۔ ریلوے کی آمدنی کا بڑا انحصار گڈز ٹریفک اور آئل ٹینکر کے ذریعے تھا جہاں کراچی کی بندرگاہ سمیت دیگر سامان ان بوگیوں میں جاتا تھا۔ تقریباً 12 تا 13 ٹرینیں روزانہ اندرون ملک آتی اور جاتی تھیں بلکہ ریکارڈ آمدن ہوتی تھی۔ لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی اور افسران کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ ادارہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چل پڑا۔ ریلوے میں خسارے کی وجہ چوری، لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری میں جہاں حکومتوں کا ہاتھ تھا تو دوسری طرف انتظامیہ کے اہلکار بھی شامل رہے اور ان میں ناقص منصوبہ بندی شامل رہی۔ اس کو ٹھیک کرنے ک�� لیے سب سے پہلے ڈبل ٹریک کرنا تھا موقعہ بھی تھا فنڈ بھی تھا۔
زمین بھی تھی مگر اس کے برخلاف خانیوال تا لاہور تک الیکٹرک ٹرین سسٹم کو ترجیح دی گئی یہ اچھا اقدام تھا اس کو آگے جانا تھا۔ کروڑ روپیہ خرچ ہوا 30 الیکٹرک انجن بنوائے گئے مگر یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا اور فیل ہو گیا اور آج ختم ہو چکا ہے۔ پھر یہ طے کیا گیا کہ چھوٹی لائنز ختم کر دی جائیں اور اسٹینڈر لائن یعنی براڈ گیج سسٹم لگایا جائے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں طے کیا گیا کہ کراچی کینٹ اسٹیشن کو ایشیا کا سب سے بڑا اسٹیشن بنایا جائے گا، جس کے 16 پلیٹ فارم ہوں گے اس مقصد کے لیے کلب گراؤنڈ کی زمین حاصل کی گئی ریلوے کا بڑا جنرل اسٹور جو اسٹیشن کے ساتھ تھا اس کو ریتی لائن PIDC کے پاس منتقل کر دیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ سرکلر ریلوے کو مکمل کیا جائے اور اس کو 1970 میں مکمل کر لیا گیا۔ اس طرح کئی ایک منصوبے اور پلان بنائے گئے۔ مثلاً ریلوے کا سب سے بڑا مارشلنگ یارڈ پپری یا بن قاسم پر بنایا گیا اور کامیاب رہا پھر ریزرویشن کو جدید بنانے کے لیے A.C آفس بنایا گیا۔ کمپیوٹر خریدے گئے۔ ایک دفعہ خراب ہو گئے پھر آگ لگ گئی اور اب پھر شروع ہے۔ 
غرض یہ کہ آئے دن حادثات، ٹرینوں کا ٹکرانا، انجن فیل ہو جانا، تیل اور ڈیزل کا بحران، چین سے خریدے گئے انجنوں کا ناکارہ ہو جانا کوچز کو پلیٹ فارم پر لانے کے لیے پلیٹ فارم کو کاٹا اور پھر بنایا جانا نقصان اٹھانا پڑا، بڑی لمبی کہانی ہے ریلوے کی ، ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے احکامات ہیں کہ ریلوے کو بہتر بنایا جائے اور اس کو ٹھیک کیا جائے ایک ماہ میں اس کی رپورٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کرائی جائے۔ ریلوے کے افسران کی فوج ظفر موج کو کم کیا جائے۔ ملازمین کی تعداد کم کی جائے اور ریلوے کو صحیح ٹریک پر لا کر مسافروں کی جانوں کو محفوظ بنایا جائے۔ کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے بہت کچھ لکھ چکا ہوں حکمرانوں اور اعلیٰ افسران کو بتا چکا ہوں ٹیلی وژن پر کئی بار پروگرام کر چکا ہوں اب تھک چکا ہوں ریلوے بھی تھک چکی ہے ادارے بھی تھک چکے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت بھی تھک چکی ہے اب اللہ کے سہارے پر ریل چل رہی ہے امید ہے کہ کچھ بہتری آسکے۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہم بھی ابھی تک قائم ہیں۔
منظور رضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes