Tumgik
#خیبر میل
emergingpakistan · 1 year
Text
توشہ خانے میں نقب لگانے والے حکمراں
Tumblr media
’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سنا دو۔ جس دن وہ (مال) دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ سو تم جمع کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔‘‘( سورۃ التوبہ۔ آیت 35-34۔ مضامین قرآن حکیم، مرتّبہ: زاہد ملک) ٭... خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ سے سوال کیا جارہا ہے کہ جو چادریں بانٹی گئی تھیں۔ اس میں تو آپ کا کُرتا نہیں بن سکتا تھا۔ یہ اضافی کپڑا کہاں سے آیا۔ وہ جواب دے رہے ہیں کہ جو چادر ان کے بیٹے کے حصّے میں آئی تھی۔ وہ استعمال کی گئی۔ تاریخ اسلام گواہی دے رہی ہے کہ اس وقت کے خلیفہ سے بھی آمدنی سے زیادہ کے اثاثے پر سوال کیا جاسکتا تھا۔ اور وہ جواب دینے کے پابند بھی تھے۔ ٭... حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مملکت کا کام ختم ہو رہا ہے۔ تو وہ سرکاری چراغ بجھا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی مال سے جلنے والا چراغ روشن کر رہے ہیں۔ ٭... کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اس کا نام بھی منتخب نمائندوں نے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ طے کیا۔ مگر اب 75 ویں سال میں مناظر کیا ابھر رہے ہیں۔ توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں سب اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ 
قائد اعظم جب بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کی جدو جہد کر رہے تھے تو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اس مملکت ِخداداد میں ایسے حکمراں آئیں گے۔ جو ریاست کو ملنے والے قیمتی تحائف کو لالچ بھری نظروں سے دیکھیں گے ان کے ہتھیانے کے لئے خود ہی قوانین بنائیں گے اور ہر ایک ان قومی امانتوں میں خیانت کرے گا۔ چاہے وہ پانچ سال کے لئے حکمران ہو۔ چاہے منتخب ہو کر آیا ہو۔ چاہے اس نے بزور اسلحہ ملک پر قبضہ کیا ہو چاہے وہ نگراں وزیر اعلیٰ ہو۔ 90 دن کے لئے آیا ہو۔ واہگہ سے گوادر تک کے مفلس عوام چشم تصور سے دیکھ رہے ہیں۔ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، صدور اور وزرائے اعظم کی بیگمات، بیٹے، بیٹیاں توشہ خانے کو مال غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ کسی جنگ کسی فتح کے بغیر۔ ہر محاذ پر پسپا ہو رہے ہیں۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جس کے حصول کے لئے لاکھوں شہدا نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں قافلے آرہے ہیں۔ بہار سے، یوپی سے، دہلی سے، مشرقی پنجاب سے۔ سکھوں کے گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں۔ 
Tumblr media
ہندو بلوائی نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں غلامی سے آزادی کی طرف پیدل سفر کرتے، بسوں میں، ریل گاڑیوں میں، کافروں کی یلغار میں مارے جارہے ہیں لیکن پاکستان ان کی آرزو ہے۔ وہ نہتے گھر بار چھوڑ کر آرہے ہیں۔ یہاں رہنے والے پاکستانی ان کے لئے اپنے گھر پیش کر رہے ہیں۔ وہ تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے کہ اتنی قربانیوں سے حاصل کئے گئے ملک میں ایسے لالچی۔ اخلاق باختہ حکمراں آئیں گے۔ اس ملک سے پانچ گنا زیادہ آبادی۔ زیادہ اسلحہ رکھنے والے ملک بھارت نے پاکستان کو اپنا ٹوٹنا خیال کیا ہے۔ اپنے جسم سے حصّہ الگ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ کشمیر پر قابض ہو گیا ہے۔ 1948 میں ہمارے جانباز کشمیر کے حصول کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ اب اس ملک کے حکمراں گھڑیوں، گاڑیوں، ہاروں، بیڈ شیٹوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ پھر 1965 ء کی تاریک راتیں یاد آرہی ہیں۔ جب ہمارے نوجوان مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت اپنے خون سے کر رہے ہیں۔ وہ جس مملکت کے تحفظ کیلئے سینہ سپر ہیں۔ 
جن کے بچے یتیم ہورہے ہیں۔ جن کی رفیقہ ہائے حیات جوانی میں بیوہ ہو رہی ہیں۔ اس ملک کا توشہ خانہ ان حکمرانوں کیلئے مفتوحہ خزانہ بنا ہوا ہے۔ ایک لمحہ بھی ان میں سے کسی کو خیال نہیں آتا کہ یہ تحائف قوم کی امانت ہیں۔ جو دوسری قوموں نے پاکستانی قوم کو دیے ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کے تحائف کو چند روپوں کے عوض گھر لے جاتے ہوئے انہیں یہ شہدا یاد نہیں آئے۔ یہ روپے بھی خبر نہیں انہوں نے اپنی جیب سے دیے ہیں۔ کیا یہ بھی سرکاری فنڈ سے تو نہیں دیے تھے۔ 1971 ء کا عظیم المیہ ذہن پر حاوی ہو رہا ہے۔ اپنے گھروں سے ایک ہزار میل دور ہمارے بریگیڈیئر، کرنل، میجر، کپتان عام سپاہی سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اس ملک کی ایک ایک انچ سر زمین کیلئے اپنے جسم کو ڈھال بنارہے ہیں۔971 کے ان خونیں مناظر نے 1971 سے اب تک آنے والے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے تحفوں کی طرف بڑھتے ہاتھوں پر لرزہ طاری نہیں کیا۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جہاں جمہوریت اور حقیقی آزادی کیلئے جدو جہد 1947 سے ہی جاری ہے۔ 1971 کے بعد آدھے پاکستان میں بلوچستان کے نوجوانوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔
سندھو دریانے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو سندھ میں کتنی سفاکی برداشت کرتے دیکھا ہے۔ خیبر پختونخوا جو پہلے سرحد تھا۔ وہاں کتنے نوجوانوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے مظالم برداشت کئے ہیں۔ پنجاب کے میدانوں چوراہوں میں ریلیاں نکل رہی ہیں۔ لاٹھی چارج آنسو گیس پھر بھی عشاق کے قافلے بڑھ رہے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی وادیوں میں لائن آف کنٹرول پر خون بہہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان والے اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے سرگرم ہیں۔ یہ اسی دیس کا توشہ خانہ ہے۔ جہاں دہشت گردوں نے 80 ہزار سے زیادہ ہم وطنوں سے بم دھماکوں، فائرنگ، خودکش بم حملوں سے زندگی چھینی ہے۔ سیاسی کارکنوں کی طویل جدو جہد، بے خوف سرگرمیاں ہی اس مملکت کو سلامت رکھے ہوئے ہیں۔ اس تگ و دو کے نتیجے میں ہی توشہ خانے سے گرانقدر تحائف کوڑیوں کے عوض حاصل کرنیوالے حکمراں بنے ہیں۔ سلام ہے اس جج کو، آفریں ہے ان اعلیٰ عدالتوں پر، جنہوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ امانت میں خیانت کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کروا دیے ہیں۔ اب قوم منتظر ہے کہ 1947 سے 2002 کے خائنوں کے اعداد و شُمار بھی سامنے آئیں۔ ایسا ممکن نہ ہو تو 1985 سے 2002 تک کے نام تو ریکارڈ پر آئیں۔ واہگہ سے گوادر تک کے مجبور پاکستانیوں کی درخواست یہ بھی ہے کہ ملک پر ہزاروں ارب روپے کے جو قرضے ہیں۔ اس کی فہرست بھی مرتب کی جائے کہ یہ قرضے کہاں خرچ ہوئے۔ کن کی جیبوں میں گئے۔ اگر کوئی انفرااسٹرکچر بنا ہے تو اس کی لاگت کیا تھی۔ باقی قرضہ کہاں گیا۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
cryptosecrets · 1 year
Text
اہم سنگ میل: داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا
کوہستان: خیبر پختونخوا کے ڈسٹرکٹ کوہستان میں داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے مقام پر دریائے سندھ کا رخ کامیابی کے ساتھ موڑ دیا گیا۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑنے کیلئے یہ پہلی ٹنل ہے اور داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے پہلے مرحلے سے 2026 میں بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ اس موقع پر پروجیکٹ کے ڈائریکٹر، کنٹریکٹر اور کنسلنٹ موجود تھے اور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینئرز اور ورکروں کی بڑی تعداد بھی موجود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
اہم سنگ میل: داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا
کوہستان: خیبر پختونخوا کے ڈسٹرکٹ کوہستان میں داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے مقام پر دریائے سندھ کا رخ کامیابی کے ساتھ موڑ دیا گیا۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑنے کیلئے یہ پہلی ٹنل ہے اور داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے پہلے مرحلے سے 2026 میں بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ اس موقع پر پروجیکٹ کے ڈائریکٹر، کنٹریکٹر اور کنسلنٹ موجود تھے اور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینئرز اور ورکروں کی بڑی تعداد بھی موجود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 1 year
Text
اہم سنگ میل: داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا
کوہستان: خیبر پختونخوا کے ڈسٹرکٹ کوہستان میں داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے مقام پر دریائے سندھ کا رخ کامیابی کے ساتھ موڑ دیا گیا۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑنے کیلئے یہ پہلی ٹنل ہے اور داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے پہلے مرحلے سے 2026 میں بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ اس موقع پر پروجیکٹ کے ڈائریکٹر، کنٹریکٹر اور کنسلنٹ موجود تھے اور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینئرز اور ورکروں کی بڑی تعداد بھی موجود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 1 year
Text
اہم سنگ میل: داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا
کوہستان: خیبر پختونخوا کے ڈسٹرکٹ کوہستان میں داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے مقام پر دریائے سندھ کا رخ کامیابی کے ساتھ موڑ دیا گیا۔ ڈیم کی تعمیر کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑنے کیلئے یہ پہلی ٹنل ہے اور داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کے پہلے مرحلے سے 2026 میں بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔ اس موقع پر پروجیکٹ کے ڈائریکٹر، کنٹریکٹر اور کنسلنٹ موجود تھے اور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجینئرز اور ورکروں کی بڑی تعداد بھی موجود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
عشق فراموشی کی گھڑی سر پے کھڑی
کرائمیا کی بندرگاہ سواستوپول میں لنگر انداز بحیرہِ اسود کے روسی بیڑے کو گزرے سنیچر سولہ ڈرونز نے ایک ساتھ نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے ردِعمل میں روس نے اقوامِ متحدہ اور ترکی کی مدد سے ہونے والے اس تین ماہ پرانے سمجھوتے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا جس کے تحت یوکرین کو چار ماہ کے اندر نوے لاکھ ٹن گندم افریقہ اور ایشیا بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس کا غذائی فائدہ فاقہ کشی سے دوچار ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو ہونا تھا۔سمجھوتے کی معیاد انیس نومبر تک کے لیے مگر قابلِ توسیع ہے۔ البتہ روس کی جانب سے یکطرفہ اعلانِ لاتعلقی کے بعد یوکرینی گندم اٹھانے والے ایک سو چھہتر بحری جہاز جہاں جہاں تھے وہیں کھڑے رہ گئے ہیں۔ ویسے تو محبت اور جنگ میں سب جائز کہا جاتا۔ مگر اس دائرے میں خوراک بھی ہتھیار بن جائے گی ؟ پرانے زمانے کے جنگی محاصروں میں تو یہ عام رواج تھا مگر اکیسویں صدی میں اس مجرب نسخے کے اثرات محض جنگ کرنے والے ممالک پر نہیں بلکہ ہزاروں میل کے دائرے میں محسوس ہو رہے ہیں۔ ’’بندر کی بلا تویلے کے سر‘‘ کا مطلب لگ بھگ پوری پسماندہ دنیا کو خوب سمجھ میں آ رہا ہے۔
روس اور یوکرین کی گندمی تجارت کو جنگی کاروائیوں کے دائرے سے باہر رکھنے کا فیصلہ ہوا تو عالمی قیمت میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی ہو گئی۔ لیکن تازہ روسی بائیکاٹ کے بعد گندم کا نرخ پھر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جن ممالک کے پاس پیسے نہیں وہ بھی اور جن کے پاس مہنگی گندم خریدنے کی استطاعت ہے وہ بھی قلت و مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں کے مابین جانے کتنے عرصے کے لیے مزید پھنس جائیں گے اور ان میں سے کچھ ممالک تو شاید خود بھی آٹا بن جائیں۔ پاکستان اگرچہ اس سال باہر سے پانچ سے آٹھ لاکھ ٹن گندم حفظِ ماتقدم کے طور پر منگوانے کی سوچ رہا ہے مگر پاکستان کو روس یوکرین جنگ سے براہِ راست اتنا غذائی نقصان نہیں جتنا موجودہ سیلاب کے بعد اگلے چھ ماہ میں ہونے والا ہے۔ویسے پاکستان کو موجودہ سیلابی آفت کی بھی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ اس سے پہلے ہی چالیس فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کی لپیٹ میں تھی۔ پانچ برس تک کے ہر تیسرے بچے کا وزن ناکافی غذائیت کے نتیجے میں ضرورت سے کم ہے۔ بچے کا قد کاٹھ جس قدرتی رفتار سے بڑھنا چاہیے پچیس فیصد پاکستانی بچے اس رفتار سے محروم ہیں۔
دونوں معاملات میں بلوچستان، سندھ اور صوبہ خیبر پختون خوا کے قبائلی اضلاع علی الترتیب اول دوم اور سوم درجے پر ہیں اور یہ کسی این جی او کے نہیں بلکہ سرکاری وزارتِ بہبودِ آبادی کے دو ہزار اٹھارہ میں جاری اعداد و شمار ہیں۔ سوچیے کہ موجودہ سیلاب نے ان اعداد و شمار کے ساتھ مزید کیا کھلواڑ کیا ہو گا۔ جولائی سے ستمبر تک کی سہ ماہی میں اکیاسی اضلاع میں بارشوں اور طغیانی کے سبب اٹھہتر ہزار مربع کلومیٹر قابلِ کاشت زمین زیرِ آب آئی (یہ رقبہ چیک جمہوریہ کے برابر ہے۔) یوں سمجھیے کہ اسی فیصد زیرِ کاشت یا کھڑی فصل کو نقصان پہنچا۔ زرعی اجناس کی ترسیل میں کام آنے والی چھ ہزار کلومیٹر طویل سڑکیں اور راستے ناقابلِ استعمال ہو گئے۔ اس معاملے میں سندھ اور جنوبی بلوچستان دیگر متاثر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بدقسمت ثابت ہوئے۔ اقوامِ متحدہ نے حالیہ قدرتی آفت کے سبب پاکستان کے معاشی نقصان کا تخمینہ لگ بھگ چالیس ارب ڈالر لگایا ہے۔ پاکستان پہلے ہی گزشتہ ایک برس سے افراطِ زر کے بخار میں پھک رہا ہے۔
سیلاب کے بعد خوراک کی قیمتوں میں چار سے پانچ گنا مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ افغانستان اور ایر��ن سے پیاز، ٹماٹر جیسی اجناس منگوائی گئی ہیں مگر فصل اور راستے زیرِ آب آنے کے سبب کھیت سے منڈی تک مسلسل رسائی بحال ہونے میں سال بھر نہیں تو کئی مہینے ضرور درکار ہیں۔ اس بیچ حکومت کو سنگین چیلنج درپیش ہے کہ کھانے پینے کی ضروری اشیا کے نرخ کس طرح غبارہ بننے سے روکے۔ کہنے کو پاکستان گندم پیدا کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے مگر نومبر اور دسمبر میں گندم کی روایتی کاشت ایک سنگین مرحلہ ہے۔ ناکامی کے نتائج سے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی متاثر ہو گا جہاں پہلے ہی غذائی حالت چوپٹ ہے، اور اس کے ممکنہ معاشی و سماجی نتائج کی شدت پاکستان کو جھیلنا بھی ناگزیر ہے۔ سیلابوں سے بے خانماں اسی فیصد آبادی کا تعلق زرعی علاقوں سے ہے۔ ان کی معاشی حالت پہلے ہی پتلی تھی اور اب واپس لوٹنے اور زمین خشک کرنے کے مسئلے نے رہا سہا خون بھی خشک کر دیا ہے۔ 
کھڑے پانی سے صرف گھر اور کھیت ہی نہیں نواحی اجناسی منڈیاں بھی ویران ہوئی ہیں، جو تھوڑی بہت نقد آور اجناس، سبزیاں یا پھل سلامت بھی ہیں انھیں بروقت گاہک تک کیسے پہنچایا جائے ؟ اس بیچ اگر کوئی طبقہ مزے میں ہے تو ہمارے وہ آڑھتی بھائی ہیں جن کے پاس نہ صرف یہ بچی کچھی اجناس اونے پونے خریدنے کے لیے سرمایہ بلکہ ذخیرہ کرنے کی سہولتیں بھی میسر ہیں۔ گویا قلت ایک طبقے کے لیے مٹی کو بھی سونا بنا دیتی ہے اور باقیوں کا سونا بھی مٹی کے بھاؤ ہو جاتا ہے۔ کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ شروع ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان مسلسل ابتر ہوتی ماحولیات کی راہ میں پڑنے والے اولین دس ممالک میں شامل ہے۔ اس لیے اب یہ کسی ایک برس کا رونا نہیں رہا۔ عالمی بینک کے گزشتہ برس کے آفاتی کنٹری پروفائل کے مطابق اگلی ایک دہائی میں پاکستان جیسے ممالک کو آبادی میں بڑھوتری اور زرعی اجناس کی پیداوار میں مسلسل کمی کا بحران درپیش رہے گا۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اندازہ خود عالمی بینک کو بھی نہیں یا ہے تو فی الحال بوجوہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔
اس پس منظر اور مستبقل قریب کی تصویر کے ہوتے پاکستان میں لانگ مارچ ، جلد یا بدیر انتخابات اور بیرونی و اندرونی غلامی سے حقیقی آزادی کا حصول سب سے بڑا مسئلہ بتایا جا رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ خود فریب ترجیحات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ اگلے چند ماہ کی حقیقی تصویر کچھ یوں بننے جا رہی ہے کہ کیا آئین ، کیا انصاف، کیا جعلی و حقیقی آزادی۔ سب راج پاٹ یہیں کے یہیں دھرا رھ جائے گا۔ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی ( ساحر ) اگر فیصلہ ساز، یا فیصلہ بگاڑ آنے والے چھ ماہ کے اندر زمین سے کان لگا کے وقت کی دھمک نہیں سن پاتے تو پھر آگے کا مطلع صاف صاف ہے۔ چناں قحط سالی شد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق ( سعدی )
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
bazmeurdu · 3 years
Text
ڈاکٹر مبارک علی : بے بدل دانش ور
انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ ریسرچ سینٹرکو قائم ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے لیکن ڈاکٹر طارق سہیل اور ڈاکٹر جعفر احمد کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کو ایک اہم ادارہ بنا دیا۔ دسمبر 2019 میں ادارے کی طرف سے ملک کے معروف و مشہور تاریخ داں ڈاکٹر مبارک علی کا جشن منایا گیا۔ یہ ان کی خدمت کے اعتراف کا جشن تھا۔ چند دنوں پہلے ڈاکٹر صاحب اور عزیز دوست ذکیہ مبارک کا لاہور سے فون آیا۔ ان دونوں نے بتایا کہ ’’تاریخ نویسی: نئے شعورکی بازگشت‘‘ کے عنوان سے کتاب شایع ہو کر آگئی ہے۔ جس میں اس جشن میں پڑھے جانے والے مضامین یکجا کر دیے گئے ہیں۔ ذکیہ نے اور ڈاکٹر صاحب کی بیٹی نین تارا نے جس طرح ڈاکٹر مبارک کی آنکھوں کا اجالا بن کر تاریخی شعور کا سفر جاری رکھا، وہ کمال کی بات ہے۔ ان دونوں سے باتیں کر کے جی خوش ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ جشن میں پڑھے جانے والے مضامین کا مجموعہ آگیا ہے اور وہ مجھے بھیج دیا گیا ہے، میں خوش ہوئی۔ لاہور سے جب پیکٹ آیا تو جی زیادہ خوش ہوا، اس لیے کہ اس میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’عورتوں کی دنیا‘‘ بھی نکل آئی۔ ڈاکٹر مبارک کے جشن کے دنوں میں میری نگاہوں میں وہ مختصر کتابیں گھومتی رہیں جو 70 کی دہائی میں ڈاکٹر صاحب ذاتی کوششوں سے شایع کرتے تھے۔ سائیکلو اسٹائل کی ہوئی کتابیں جن میں معمولی گتے کا سرورق ہوتا تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ڈاکٹر صاحب نیکی کر دریا میں ڈال کے مصداق یہ کتابیں لکھ کر گودام میں رکھ والا کام کر رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آمریت نے لوگوں کی امیدوں کا باغ روند ڈالا تھا۔ جمہوریت کا بستر لپیٹنے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی دینے کے بعد کا دور لوگوں پر آسمانی قہر کے طور پر نازل ہوا۔ 
خواص تو سب اچھا کی گردان کر رہے تھے لیکن وہ لوگ جو عوام الناس میں سے تھے، جانتے تھے کہ ان کے مصائب کا نسخہ شفا، شفاف جمہوریت میں ہے۔ یہی لوگ سبط حسن اور ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں پڑھتے اور سوچ بچار کرتے۔ ہمارے ان دو دانشوروں کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتیں، بہ طور خاص سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے نوجوان اپنی علمی پیاس ان کتابوں سے بجھاتے۔ آج بھی یہی عالم ہے اور اگر ہمارے یہاں نوجوانوں میں ذہنی بلوغت آئی ہے تو وہ ہمارے ان جیسے دانشوروں کے طفیل ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر جعفر احمد نے بجا طور پر یہ کہا کہ ’’دسمبر کی یہ سرد شام افکار تازہ کی گرمی اور بصیرت افروز خیالات کی تازگی کے حوالے سے مستقبل میں یاد رکھی جائے گی۔‘‘ ڈاکٹر مبارک کی خدمات کے اعتراف کا خیال پاکستان سے ہزاروں میل دور کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ ہمارے دو اسکالرز ڈاکٹر طاہرہ خان اور ڈاکٹر منان احمد کو اس وقت آیا جب وہ عوام کی تاریخ پر گفتگو کر رہے تھے۔ 
خیالات کے اس تبادلے کے دوران ہمارے ان دو اساتذہ نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ پاکستانی سماج کو لبرل اور روشن خیال بنانے میں ڈاکٹر مبارک علی کا جو کردار رہا ہے، افسوس کہ اس کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ یہیں سے ان کی خدمات کا جشن منانے کا خیال بڑھتا اور اپنا دائرہ وسیع کرتا رہا۔ ڈاکٹر طارق سہیل اورڈاکٹر جعفر نے اپنے ادارے آئی ایچ ایس آرکی طرف سے اس جشن کی ذمے داری اٹھائی۔ ڈاکٹر صاحب کی خود نوشت ’’در در ٹھوکر کھائے‘‘ پڑھتے ہوئے ہم ان تمام مشکل حالات سے آگاہ ہوتے ہیں جو ہماری کم نظر بیورو کریسی کے ہاتھوں ڈاکٹر صاحب نے جھیلے۔ ہمیں ’’نگارشات‘‘ اور ’’تخلیقات‘‘ کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کو علم دوستی اور ادب نوازی کے جذبے سے شایع کیا اور پھر پاکستان بھر میں پھیلا دیا۔ ان کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔ 
علم کے جویا ان لوگوں کا بھی شکریہ جنھوں نے ان کتابوں کو خریدا، پڑھا، ان پر غور و فکر کیا اور ان کی روشنی میں پاکستان کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ آج اگر ملک میں ذہنی بیداری نظر آتی ہے تو اس کا سہرا، علی عباس جلال پوری، سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور ایسے ہی دوسرے دانشوروں کے سر ہے۔ ڈاکٹر مبارک نے ابتدا سے تاریخ کے اس بیانیے کو چیلنج کیا جسے ہماری مقتدر اشرافیہ کی تائید حاصل تھی۔ فرنگی کے دور میں عوام کے دلوں کو گرمانے والے بیانیے پر جس طرح ایک رومانوی سنہرے غبار کا چھڑکائو ہوا، اس نے بونوں کا قد آسمان کی بلندیوں سے ملا دیا اور ہوشو شیدی، دلا بھٹی، تیتو میر اور ہمارے وہ لڑاکے جنھوں نے فرنگی یا مغل استعمار کے خلاف جنگ لڑی ، وہ تاریخ کے حاشیوں سے باہر دھکیل دیے گئے۔ 
نصاب کی کتابوں میں چند نام بڑے اور قابل تعظیم ٹھہرے۔ انھیں نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے ’’عظیم‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ ڈاکٹر مبارک نے اس سرکاری اور نیم سرکاری بیانیے کے خلاف جرأت اور پامردی سے عوام کی تاریخ اور اس تاریخ کے سورمائوں کی زندگیاں، ان پر گزرنے والے شداید اور سرکار کے ہاتھوں ان کی بے توقیری اور تذلیل کی تفصیل اپنی کتابوں میں پیش کی۔ لوگوں پر اس بات کو آشکار کیا کہ ان کے حقیقی ہیرو کون تھے اور کون ہیں۔ اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے وہ راتوں کو اپنی آنکھوں کا تیل جلاتے رہے اور دن میں کسب معاش کی کوشش کرتے رہے۔ یہ مشکل دن ان سے زیادہ ان کی شریک حیات ذکیہ کے لیے صبر آزما اور کٹھن تھے۔ ان کی بیٹیوں نے کسی بھی مرحلے پر باپ سے کوئی شکایت نہیں کی۔
 ذکیہ نے معاشی پریشان حالی کو کم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ ڈاکٹر صاحب کی بینائی رفتہ رفتہ زائل ہوئی تو ان کی چھوٹی بیٹی نین تارا، ان کی آنکھیں بن گئی۔ وہ ان کے ساتھ شہر شہر سفر کرتی ہے، محفلوں میں انھیں لاتی اور لے جاتی ہے، اس کے علاوہ ذکیہ اور نین تارا ان کے تحریری کام میں ان کا ساتھ دیتی ہیں۔ ان کے چند دوست اور ڈاکٹر جعفر جیسے مداح نہ ہوتے تو ڈاکٹر مبارک اپنی زندگی کے آخری حصے میں شاید سماج کے لیے وہ کچھ نہ کر پاتے جو انھوں نے کیا۔ ڈاکٹر مبارک کو جشن کی اس تقریب میں کبھی مورخ عوام کہا گیا اور کسی نے انھیں عوامی مورخ کے نام سے یاد کیا۔ اس بات کو ہم اگر ڈاکٹر مبارک کی نظر سے دیکھیں تو وہ اسے ’’متبادل تاریخ نویسی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ’’تاریخ‘‘ کے 42 ویں شمارے میں انھوں نے بادشاہوں، فاتحوں، صوفیا، علماء کے زیر اثر تاریخ نویسی کے مرحلوں کا ذکر کیا ہے۔ 
انگریزوں نے اپنے مفادات کے حوالے سے تاریخ لکھوائی، پھر وہ غلاموں، چرواہوں، کسانوں، ہنرمند دست کاروں اور مزدروں کی تاریخ کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ جہاں تک عوامی تاریخ کو لکھنے کا سوال ہے اس پر پاکستان میں توجہ نہیں دی گئی ہے، اس لیے متبادل تاریخ لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں یورپ کی تاریخ نویسی سے سیکھنا چاہیے کہ جہاں مورخوں نے عوامی تاریخ لکھنے کے لیے عدالتی اور ریونیو کی دستاویزات کو استعمال کیا۔ اگر ہمارے مورخ بھی ان کی مدد سے نچلی سطح کی تاریخ کی تشکیل کریں تو اس سے تاریخ میں نہ صرف وسعت آئے گی بلکہ نئے پہلوئوں کا اضافہ ہو گا۔ اس کی مدد سے ہم جاگیرداروں کے نظام کو کچھ سمجھ سکیں گے اور کسانوں کے ساتھ ساتھ چرواہوں اور گائوں کے دستکاروں کے کردار اور تاریخ میں ان کے حصہ پر روشنی ڈال سکیں گے۔
ایک اور اہم دستاویزی خزانہ خفیہ ایجنٹس کی رپورٹیں ہیں۔ عہد برطانیہ میں وہ تحریکوں اور اشخاص کا ریکارڈ رکھتے تھے کہ جو ان کے لیے خطرناک تھے۔ ان دستاویزات سے نہ صرف ان کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ملیں گی، بلکہ ان اشخاص کے بارے میں بھی پتہ چلے گا کہ جو ان ایجنسیوں کے لیے کام کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بہت سے محترم رہنما ان کے خفیہ ایجنٹس کے طور پر سامنے آ جائیں۔‘‘ ڈاکٹر مبارک علی نے لگ بھگ 100 کے قریب کتابیں لکھیں اور پڑھنے والوں کے ذہنوں کو منور کیا۔ ان کی کتابوں میں سے چند ’مغل دربار، المیہ تاریخ، عورت اور تاریخ‘ بہت مقبول ہوئیں اور ان کے کئی ایڈیشن شایع ہوئے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ڈاکٹر مبارک میسر آئے اور انھوں نے ہماری نسلوں کے ذہنوں میں سچ کے چراغ جلائے۔ آج ملک میں ہمیں جو سیاسی بیداری نظر آتی ہے وہ ان کی اور ابن حنیف، عباس جلال پوری اور سبط حسن ایسے بے بدل دانشوروں کی عطا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر جعفر احمد نے ڈاکٹر مبارک کا جشن منا کر ایک بڑا کام کیا ہے۔ امید ہے ڈاکٹر طارق اور ڈاکٹر جعفر ایسے کام کرتے رہیں گے اور سماج کو سنوارنے کا مشکل کام کرتے رہیں گے۔
زاہدہ حنا 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
4 notes · View notes
discoverislam · 4 years
Text
اسلام میں کھانے پینے کے آداب و احکامات
اسلام ایک ایسا منظّم دین ہے، جس میں زندگی بسر کرنے کا مکمل طریقہ بتایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دین بھی تمام مذاہب میں ممتاز اور دین دار بھی ممتاز ہیں۔ اسلام میں ادب و آداب کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ اس دین میں زندگی کے ہر فعل کے آداب موجود ہیں خواہ کھانے کے ہوں، پینے کے ہوں، سونے کے ہوں، چلنے کے ہوں، اٹھنے اور بیٹھنے کے ہوں۔ یہاں تک کہ بیت الخلاء میں جانے اور آنے کے آداب بھی ہیں۔ گھر میں داخل ہونے اور نکلنے کے آداب بھی ہیں۔ اس مضمون میں کھانے پینے کے آداب اور احکامات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ دعا ہے کہ ﷲ پاک ہمیں ان پہ عمل کی اور ان آداب کو ہمارے لیے ذریعۂ نجات بنائے۔ کھانے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو دھونا چاہیے، تاکہ دونوں ہاتھ کھانے کے دوران صاف ستھرے ہوں، کہیں پہلے سے موجود ہاتھوں پر میل کچیل کی وجہ سے نقصان نہ ہو۔ کھانے سے پہلے بسم ﷲ پڑھنا واجب ہے، اور بسم ﷲ سے مراد کھانے کی ابتدا میں صرف ’’ بسم ﷲ ‘‘ ہی ہے۔
رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو ﷲ کا نام لے، اور اگر ﷲ تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہے: بِسمِ ﷲِ اولہ و آخِرہ۔‘‘ مسلمان پر دائیں ہاتھ سے کھانا واجب ہے، بائیں ہاتھ سے کھانا منع ہے۔ چناں چہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ سے نہ کھائے پیے، اس لیے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔‘‘ (مسلم) (نوٹ) یہ پابندی اس وقت ہے جب کوئی عذر نہ ہو، لہذا اگر کوئی عذر ہو جس کی وجہ سے دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ممکن نہ ہو، جیسے بیماری یا زخم وغیرہ ہے تو بائیں ہاتھ سے کھانے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ 
٭ کھانے پینے کی اشیاء میں پھونک مارنا : حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ’’ نبی کریم ﷺ نے برتن میں سانس لینے یا اس میں پھونک مارنے سے منع فرمایا۔‘‘ (ابی داؤد)
٭ اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھانا : مسلمان کے لیے مسنون یہ ہے کہ اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھائے، اور دوسروں کے سامنے سے ہاتھ بڑھا کر نہ اٹھائے، اور نہ ہی کھانے کے درمیان میں سے، اس لیے کہ رسول ﷲ ﷺ نے عمر بن ابوسلمہؓ سے فرمایا تھا: ’’ لڑکے! ﷲ کا نام لے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھا، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھا۔‘‘ (بخاری و مسلم ) ویسے بھی کھانے کے دوران اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے کھانا کھانا بُری عادت ہے، اور مروت کے خلاف ہے، اور اگر سالن وغیرہ ہو تو ساتھ بیٹھنے والا زیادہ کوفت محسوس کرے گا، اس کی دلیل ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے، اس لیے کھانے کے کنارے سے کھا درمیان سے مت کھا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ) لیکن اگر کھانے کی اشیاء کھجوریں اور دیگر اسی قسم کی دوسری اشیاء ہوں تو علماء کے نزدیک تھالی وغیرہ سے ہاتھ کے ذریعے مختلف کھانے کی اشیاء لی جاسکتی ہیں۔
٭ کھانے میں عیب نکالنا : حضور اکرمؐ نے کھانے میں کبھی عیب نہیں نکالے۔ آپؐ کو کھانا پسند آتا تو کھا لیتے اور اگر نہیں آتا تو چھوڑ دیتے تھے۔ مسلمان کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنے چاہییں، ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے : ’’ کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا، ابن آدم کے لیے چند نوالے ��افی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو تہائی پیٹ کھانے کے لیے، تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے مختص کر دے۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ) رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیر ہو کر (پیٹ بھر کر) کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا ہو گا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
٭ کھانے پینے کے لیے سونے اور چاندی کے برتن : کھانے پینے کے لیے سونے اور چاندی کے برتن استعمال نہ کریں، کیوں کہ یہ حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ موٹی اور باریک ریشم مت پہنو، اور نہ ہی سونے چاندی کے برتنوں میں پیو، اور نہ ہی اس کی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھاؤ، اس لیے کہ یہ کفار کے لیے دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم ) کھانے سے فراغت کے بعد ﷲ کی تعریف کرنے کی بہت بڑی فضیلت ہے، چناں چہ انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ بے شک ﷲ تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو ﷲ کی تعریف کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پیے تو ﷲ کی تعریف کرے۔‘‘ (مسلم )
٭ کھانے کے بعد ہاتھ دھونا : کھانے کے بعد صرف پانی سے ہاتھ دھونے پر سنّت ادا ہو جائے گی۔ لیکن صابن یا کسی اور چیز سے بھی ہاتھ دھو لیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ کھانے سے فراغت کے بعد کلی کرنا مستحب ہے، جیسے کہ بشیر بن یسارؓ سوید بن نعمانؓ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ صہبا نامی جگہ پر نبی ﷺ کے ساتھ تھے جو خیبر سے کچھ فاصلے پر ہے تو نماز کا وقت ہو گیا، آپ ﷺ نے کھانے کے لیے کچھ طلب کیا، لیکن سوائے ستو کے کچھ نہ ملا، تو آپ ﷺ نے وہی کھا لیا، ہم نے بھی ستو کھایا، پھر آپؐ نے پانی منگوایا اور کلی کی، اور پھر دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھی اور ہم نے بھی نماز ادا کی۔‘‘ (بخاری)
٭ تین انگلیوں سے کھانا کھانا : سنّت یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے۔ قاضی عیاض کہتے ہیں: تین سے زیادہ انگلی��ں کھانے کے لیے استعمال کرنا بری عادت ہے، اور ویسے بھی لقمہ پکڑنے کے لیے تین اطراف سے پکڑنا کافی ہے، اور اگر کھانے کی نوعیت ایسی ہو کہ تین سے زیادہ انگلیاں استعمال کرنی پڑیں تو چوتھی اور پانچویں انگلی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ (فتح الباری) اگر کھانا کھاتے ہوئے لقمہ گر جائے تو اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کر کے اسے کھا لے اور شیطان کے لیے مت چھوڑے، کیوں کہ یہ کسی کو نہیں پتا کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے، اس لیے یہ ممکن ہے کہ اسی لقمے میں برکت ہو جو گر گیا تھا۔ 
چناں چہ اگر لقمے کو چھوڑ دیا تو ہو سکتا ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے، اس کی دلیل انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ جب بھی کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے، اور آپؐ نے ایک بار فرمایا: اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو ا سے صاف کر کے کھا لے، شیطان کے لیے اسے مت چھوڑے اور آپ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ پلیٹ کو انگلی سے چاٹ لیں، اور فرمایا: تمہیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔ (مسلم ) کھانے سے فراغت کے بعد الحمدﷲ کہنا، اور دعا پڑھنا مسنون ہے اور ان دعاؤں میں ﷲ پاک کی حمد و ثناء کی جاتی ہے جس سے ﷲ تعالی خوش ہوتا ہے اور اپنے بندوں کو بہتر سے بہتر رزق عطا کرتا ہے۔  ﷲ پاک ہمیں کھلانے اور پلانے والا ہے کیوں نہ اس کی حمد و ثناء کریں، ﷲ پاک ہمیں حلال کی وافر روزی عطا فرمائے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مولانا محمد طارق نعمان   
3 notes · View notes
urdunewspedia · 2 years
Text
سعودی عرب میں 4,500 سال پہلے یہ پراسرار مقبرے کس نے بنائے تھے؟ - اردو نیوز پیڈیا
سعودی عرب میں 4,500 سال پہلے یہ پراسرار مقبرے کس نے بنائے تھے؟ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین الریاض: آسٹریلوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے سعودی عرب میں ہزاروں میل رقبے پر پھیلے ہوئے مقبروں کی باقیات دریافت کی ہیں۔ یہ مقبرے 4,500 سال قدیم ہیں اور مدینہ منورہ کے شمال میں خیبر سے لے کر ’شرواق‘ سے بھی آگے تک، کسی زنجیر کی کڑیوں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ مقامی عرب باشندے ان مقبروں سے گزشتہ ہزاروں سال سے واقف ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب ان پر آثارِ قدیمہ کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
بڑی لمبی کہانی ہے پاکستان ریلوے کی ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟
آج کل دنیا بھر میں کورونا کی خوفناک وبا پھیلی ہوئی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ ایئرلائنز بند ہیں، بحری جہاز بند ہیں، ہوٹلز، مالز بند ہیں عوام اپنے گھروں یا پھر اسپتالوں میں بند ہیں۔ ہمارے ملک میں پچھلے تین ماہ سے ٹرینیں بھی بند رہیں۔ عام ٹرانسپورٹ بھی بند رہی۔ عید الفطرکے موقع پر کچھ ٹرینیں چلائی گئیں کچھ مال گاڑیاں چلتی رہیں۔ ریلوے کو اس دوران 6 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب کچھ بہتر صورتحال ہوئی ہے۔ کورونا کا زور کچھ کم ہو گیا ہے۔ سامنے پھر بڑی عید آ رہی ہے۔ ٹرینیں مزید چل جائیں گی، مگر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحب قابل احترام جسٹس گلزار احمد اور محترم جسٹس اعجازالحسن صاحب نے ریلوے انتظامیہ کے اہم ذمے داروں خاص کر سیکریٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ ریلوے ٹھیک طرح سے نہیں چلا رہے ہیں۔ حادثات آئے دن ہوتے رہتے ہیں، افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے کئی اعلیٰ افسران اور انجینئرز کو فارغ کرنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ آپ ایک ماہ میں اچھی رپورٹ لے کر آئیں گے۔ ‘‘بڑا بہتر اور اچھا فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کیا ہے جس کی وجہ سے مجھ سمیت ریلوے کے ملازمین اور پاکستان کے عوام خوش ہوئے ہیں۔ 
میں اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ میرا تعلق پاکستان ریلوے کی پیدائش سے قبل ہی کراچی سٹی ریلوے کالونی میں دسمبر 1945 میں ہوا تھا۔ والد صاحب 1940 میں ریلوے میں ملازم تھے گوکہ ریلوے برصغیر میں 1860-61 میں مکمل ہو گئی تھی۔ بڑی اچھی اور بہتر ریلوے سروس تھی۔ پی آئی اے وغیرہ بھی بعد میں آئی۔ 40 سال ملازمت کرتے ہوئے گزارے جس میں بحیثیت بکنگ کلرک اور پھر ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک صاحب پہلے ریلوے چیئرمین بنے اور پھر وزیر ریلوے بن گئے وہ ریلوے کو ترقی نہ دے سکے۔ چین سے انجن خریدے، پسنجر کوچز خریدیں اور ریلوے کی زمینیں فروخت کیں۔ لاہور کا کیس رام پال کلب اور میوگارڈن کا کیس چل رہا ہے۔ دیکھیں کب اس کی شنوائی ہوتی ہے اس وقت چیئرمین سے لے کر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اور چیف پرسنل آفیسر تک غیر سویلین ہوا کرتے تھے آخر بات کہیں اور نکل جائے گی۔ میں ریلوے کی طرف آتا ہوں۔ 
پاکستان ریلوے کی عمر اگست 1947 سے ہوتی ہوئی اب 73 سال کی ہو گئی ہے اس وقت ریلوے میں ملازمت کرنا ایک بڑا فخر سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہمارے حصے میں آنے والا یہ واحد ادارہ تھا جو ہمیں بنا بنایا ملا تھا۔ جس کے تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار ملازمین موجود تھے۔ 12 ہزار سات سو کلو میٹر ٹریک موجود تھا اور تین طرح کے ٹریک تھے بارڈگیج، میٹر گیج، نیروگیج۔ باقی اب صرف بارڈگیج سسٹم ہے۔ اس وقت ریلوے اسٹیشن کی تعداد 850 تھی۔ اس کے علاوہ ریلوے کی بڑی بڑی ورک��اپس، ریلوے ہیڈ کوارٹر کی عمارت سمیت ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی عمارتیں، ریلوے کے بنگلے، 70 ہزار سے زائد ریلوے ملازمین کے کوارٹرز، ریسٹ ہاؤوسز، ہر بڑے شہر میں اسپتال، کوئٹہ میں سردار بہادر T.B کا بڑا اسپتال، ڈسپنسریاں، سستے راشن ڈپو، اسکول، ڈسپنسریاں ہر ریلوے کالونی میں موجود تھیں۔ پھر ریلوے ٹریک، انجن، سفر کوچز مال گاڑی کے ڈبے اور پورے پاکستان ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل تا زاہدان تک پھیلی ہوئی تھی۔
انڈین ایکٹ 1935 کے تحت ہی پاکستان میں یہ ایکٹ جاری رہا تقسیم کے بعد A.C کے دو ڈبے کراچی تا پشاور تک جانے والی خیبر میل اور کراچی تا کوئٹہ جانے والی بولان میں برف کی سلیں ڈال کر ٹھنڈا کی جاتی تھیں بعد میں 75 یا 80 کی دہائی میں ریلوے میں A.C کے ڈبے ٹرینوں میں لگائے گئے۔ جو اب تک چل رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ریلوے ایک فعال اور خودمختار ادارہ تھا۔ جس میں A.C، فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، انٹر کلاس اور تھرڈ کلاس کی مسافر کوچیں چلتی تھیں۔ یہ ادارہ 1975 تک بغیر خسارے کے چلتا رہا۔ ریلوے کی آمدنی کا بڑا انحصار گڈز ٹریفک اور آئل ٹینکر کے ذریعے تھا جہاں کراچی کی بندرگاہ سمیت دیگر سامان ان بوگیوں میں جاتا تھا۔ تقریباً 12 تا 13 ٹرینیں روزانہ اندرون ملک آتی اور جاتی تھیں بلکہ ریکارڈ آمدن ہوتی تھی۔ لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی اور افسران کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ ادارہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چل پڑا۔ ریلوے میں خسارے کی وجہ چوری، لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری میں جہاں حکومتوں کا ہاتھ تھا تو دوسری طرف انتظامیہ کے اہلکار بھی شامل رہے اور ان میں ناقص منصوبہ بندی شامل رہی۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے سب سے پہلے ڈبل ٹریک کرنا تھا موقعہ بھی تھا فنڈ بھی تھا۔
زمین بھی تھی مگر اس کے برخلاف خانیوال تا لاہور تک الیکٹرک ٹرین سسٹم کو ترجیح دی گئی یہ اچھا اقدام تھا اس کو آگے جانا تھا۔ کروڑ روپیہ خرچ ہوا 30 الیکٹرک انجن بنوائے گئے مگر یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا اور فیل ہو گیا اور آج ختم ہو چکا ہے۔ پھر یہ طے کیا گیا کہ چھوٹی لائنز ختم کر دی جائیں اور اسٹینڈر لائن یعنی براڈ گیج سسٹم لگایا جائے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں طے کیا گیا کہ کراچی کینٹ اسٹیشن کو ایشیا کا سب سے بڑا اسٹیشن بنایا جائے گا، جس کے 16 پلیٹ فارم ہوں گے اس مقصد کے لیے کلب گراؤنڈ کی زمین حاصل کی گئی ریلوے کا بڑا جنرل اسٹور جو اسٹیشن کے ساتھ تھا اس کو ریتی لائن PIDC کے پاس منتقل کر دیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ سرکلر ریلوے کو مکمل کیا جائے اور اس کو 1970 میں مکمل کر لیا گیا۔ اس طرح کئی ایک منصوبے اور پلان بنائے گئے۔ مثلاً ریلوے کا سب سے بڑا مارشلنگ یارڈ پپری یا بن قاسم پر بنایا گیا اور کامیاب رہا پھر ریزرویشن کو جدید بنانے کے لیے A.C آفس بنایا گیا۔ کمپیوٹر خریدے گئے۔ ایک دفعہ خراب ہو گئے پھر آگ لگ گئی اور اب پھر شروع ہے۔ 
غرض یہ کہ آئے دن حادثات، ٹرینوں کا ٹکرانا، انجن فیل ہو جانا، تیل اور ڈیزل کا بحران، چین سے خریدے گئے انجنوں کا ناکارہ ہو جانا کوچز کو پلیٹ فارم پر لانے کے لیے پلیٹ فارم کو کاٹا اور پھر بنایا جانا نقصان اٹھانا پڑا، بڑی لمبی کہانی ہے ریلوے کی ، ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے احکامات ہیں کہ ریلوے کو بہتر بنایا جائے اور اس کو ٹھیک کیا جائے ایک ماہ میں اس کی رپورٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کرائی جائے۔ ریلوے کے افسران کی فوج ظفر موج کو کم کیا جائے۔ ملازمین کی تعداد کم کی جائے اور ریلوے کو صحیح ٹریک پر لا کر مسافروں کی جانوں کو محفوظ بنایا جائے۔ کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے بہت کچھ لکھ چکا ہوں حکمرانوں اور اعلیٰ افسران کو بتا چکا ہوں ٹیلی وژن پر کئی بار پروگرام کر چکا ہوں اب تھک چکا ہوں ریلوے بھی تھک چکی ہے ادارے بھی تھک چکے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت بھی تھک چکی ہے اب اللہ کے سہارے پر ریل چل رہی ہے امید ہے کہ کچھ بہتری آسکے۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہم بھی ابھی تک قائم ہیں۔
منظور رضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
arp-news · 3 years
Text
وہاب ریاض ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں لینے والے دوسرے پاکستانی بولر بن گئے
وہاب ریاض ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں لینے والے دوسرے پاکستانی بولر بن گئے
وہاب ریاض ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں حاصل کرنے والے دوسرے پاکستانی بولر بن گئے۔ وہاب ریاض نے نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں سینٹرل پنجاب سے کھیلتے ہوئے خیبر پختونخوا کیخلاف عادل امین کی وکٹ لےکر یہ سنگ میل عبور کیا۔ وہاب ریاض یہ کارنامہ انجام دینے والے دوسرے پاکستانی جب کہ دنیا کے آٹھویں بولر ہیں۔ ویاب ریاض سے قبل سہیل تنویز ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں حاصل کرنے والے واحد پاکستانی بولر تھے۔ ٹی ٹوئنٹی میں سب سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
arp-newz · 3 years
Text
وہاب ریاض ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں لینے والے دوسرے پاکستانی بولر بن گئے
وہاب ریاض ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں لینے والے دوسرے پاکستانی بولر بن گئے
وہاب ریاض ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں حاصل کرنے والے دوسرے پاکستانی بولر بن گئے۔ وہاب ریاض نے نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں سینٹرل پنجاب سے کھیلتے ہوئے خیبر پختونخوا کیخلاف عادل امین کی وکٹ لےکر یہ سنگ میل عبور کیا۔ وہاب ریاض یہ کارنامہ انجام دینے والے دوسرے پاکستانی جب کہ دنیا کے آٹھویں بولر ہیں۔ ویاب ریاض سے قبل سہیل تنویز ٹی ٹوئنٹی میں 350 وکٹیں حاصل کرنے والے واحد پاکستانی بولر تھے۔ ٹی ٹوئنٹی میں سب سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
کورونا نے پاکستان میں ایک دن میں مزید 66 جانیں لے لیں
کورونا نے پاکستان میں ایک دن میں مزید 66 جانیں لے لیں
Tumblr media
پاکستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 66 کوویڈ 19 اموات کے ساتھ ، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے حوالے سے ، جمعرات کو ملک نے وبائی امراض سے 27،000 کا سنگین سنگ میل عبور کیا ہے۔
COVID-19 انفیکشن کا تعین کرنے کے لیے اس دوران کیے گئے روزانہ ٹیسٹ 56،778 تھے جن میں سے 3،012 مثبت آئے۔ مجموعی طور پر 1،112،236 افراد اپنی صحت کو وبائی مرض سے واپس لے چکے ہیں ، بشمول پچھلے 24 گھنٹوں میں 3،897۔
5،039 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ کوویڈ 19 مثبت شرح گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 5.30 فیصد رہی۔ سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں 447،678 کوویڈ 19 کیسز ہیں ، اس کے بعد پنجاب 418 ، 196 انفیکشن کے ساتھ ہے۔ سلیم آباد میں اب تک 103،549 کیسز رجسٹر ہوئے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں 169،972 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں 32،671 مقدمات درج ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں 33،551 کیس اور جی بی میں اب تک 10،204 انفیکشن رپورٹ ہوئے ہیں۔
کل ، پاکستان نے لاہور کے COVID ویکسینیشن سنٹر میں روس کی سپوتنک ویکسین کی مفت انتظامیہ شروع کی کیونکہ پہلے نجی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ اس کے جابز کے لیے فیس وصول کر رہے تھے۔
Tumblr media
. Source link
0 notes
urdunewspost · 3 years
Text
تباہ شدہ مندر کی تعمیر کے لئے پاکستان علاقائی حکومت فنڈز فراہم نہیں کرے گی مذہب کی خبریں
تباہ شدہ مندر کی تعمیر کے لئے پاکستان علاقائی حکومت فنڈز فراہم نہیں کرے گی مذہب کی خبریں
صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک مسلم ہجوم نے ایک مندر کو تباہ کرنے کے بعد ، ایک مقامی اسلامی رہنما سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کیا۔ اس کے وزیر اطلاعات نے جمعہ کو کہا کہ اس ہفتہ کے شروع میں شمال مغربی پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کے ایک ہندو مندر کو ایک مسلمان ہجوم نے تباہ کیا تھا۔ صوبائی دارالحکومت ، پشاور سے تقریبا 100 100 کلومیٹر (62 میل) جنوب مشرق میں واقع کرک نامی قصبے میں شری پرمہنس جی مہاراج…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
خیبر پختونخوا حکومت نے شعبہ توانائی میں سنگ میل عبور کرلیا - اردو نیوز پیڈیا
خیبر پختونخوا حکومت نے شعبہ توانائی میں سنگ میل عبور کرلیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے توانائی کے شعبے میں ایک اور سنگ میل عبور کرلیا۔ خیبر پختونخوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ کمپنی کو لائسنس مل گیا۔ نیپرا اتھارٹی نے سیکشن 18 اے تحت لائسنس کی منظوری دے دی ۔ وزیراعلی محمود خان نے بڑی کامیابی پر صوبے کے عوام کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلی صوبائی کمپنی کو لائسنس ملنا بڑی کامیابی ہے، صوبے میں پیدا ہونے والی سستی بجلی عوام اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
rana786-blog1 · 4 years
Photo
Tumblr media
خیبر پختونخوا میں کنڈ بھانڈا پاکستان میں ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے شمال مغرب میں تقریبا 93 93 میل (یا 149 کلومیٹر) میں واقع ہے۔ یہ خوبصورت وادی کم ایکسپلور ہونے کی وجہ سے اپنے قدرتی حسن پر قائم ہے. یہ وادی، وادی کلام اور وادی کمراٹ کے بیچ میں واقع ہے https://www.instagram.com/p/CA-AIH9hcbG/?igshid=159vl6t63no6b
0 notes