Tumgik
#Toshakhana
ainews18 · 8 months
Link
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ
Tumblr media
حضرت عمر ابنِ خطاب کا دورِ خلافت ہے۔ وہ مدینے میں اپنے گھر کے باہر ایک مجمع سے خطاب کر رہے ہیں، ''اے لوگو میری بات دھیان سے سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مجمع میں سے ایک آواز آئی کہ ہم نہ تمہاری بات سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ یہ آواز حضرت سلمان فارسی کی تھی۔ ایک سناٹا چھا گیا۔ خلیفہ عمر نے پوچھا، ''اے سلمان مجھ سے ایسی کیا خطا ہو گئی؟‘‘ سلمان فارسی نے کہا یمن سے چادروں کا جو تحفہ آیا وہ سب میں برابر تقسیم ہوا۔ تمہارے تن پر دو چادریں کیسی؟ خلیفہ عمر نےسبب بتایا کہ میں نے اپنے کپڑے دھو کے ڈالے ہوئے تھے اور ایک چادر تن کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا میں نے یہاں آنے کے لیے اپنے بیٹے کے حصے میں آنے والی چادر اس سے مانگ لی۔ خلیفہ عمر کو اس کا بھی پورا ادراک تھا کہ وہ جس منصب پر ہیں، اس کے سبب لوگ ان کے اہلِ خانہ کے طرزِ زندگی پر بھی کوئی بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ رعیت کو جب کسی فعل سے منع کرتے تو پھر گھر والوں کو جمع کر کے تاکید کرتے کہ لوگوں کی تمہارے افعال پر ایسے نگاہ ہے جیسے پرندہ گوشت کو دیکھتا ہے۔ لہذا تم میں سے کسی نے کوئی ایسی حرکت کی جس سے میں نے عام آدمی کو روکا ہے تو پھر تمہیں مجھ سے تعلق کی بنا پر دوگنی سزا ملے گی۔
مجھے یہ قصہ یوں بیان کرنا پڑا ہے کہ اس ملک کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں کا ہر حکمران خلفائے راشدین کا دور واپس لانے کا خواب دکھاتا ہے اور اس دور کے قصے سن کے ہر جنرل، جج ، بیوروکریٹ اور نیتا کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔ مجھے یہ قصہ یوں بھی یاد آیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ پر سرکاری توشہ خانے سے تحائف اونے پونے خرید کے بازار میں بیچنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے ان کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کرنا پڑے۔ ان وارنٹس کی تعمیل کی کوشش کے دوران جو سرپھٹول ہوئی وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے گذشتہ بیس برس کے دوران توشہ خانے میں آنے جانے والی اشیا کی فہرست عام کر دی۔ فہرست کو دیکھ کے اندازہ ہوا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہر حکمران اور ان کے اہلِ خانہ نے دل کھول کے ”توشہ نوشی‘‘ کی۔ صدور اور وزرائے اعظم تو رہے ایک طرف۔ ان کے اہلِ خانہ اور ان سے نتھی افسروں نے بھی دو سو ساٹھ ملین روپے کے تحائف صرف ستاون ملین روپے کے عوض خرید لیے۔ یعنی اصل قیمت کا محض پندرہ سے بیس فیصد دے کر گھڑیاں، زیورات، نوادرات وغیرہ اڑس لیے گئے۔
Tumblr media
پرویز مشرف سے عارف علوی تک اور شوکت عزیز سے شاہد خاقان عباسی تک کسی صدر یا وزیرِ اعظم یا ان کے کنبے نے نہیں سوچا کہ ہم اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ توشہ خانے سے استفادے کی کیا ضرورت ہے۔ اس عرصے میں چار سابق حکمران توشہ خانے سے کروڑوں روپے مالیت کی اشیا اونے پونے خریدنے کے سلسلے میں بدعنوانی کے الزامات میں ماخوذ ہو چکے ہیں۔ ان میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ کسی حکمران یا افسر کے ذہن میں ایک لمحے کو یہ خیال نہیں آیا کہ توشہ خانہ سے مفت کے داموں اشیا خرید کے انہیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی جیب میں ڈالنے کے بجائے کسی فلاحی تنظیم یا ادارے کو یہ پیسے دان کر دے۔ پاکستان میں کم ازکم تنخواہ پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اس ملک میں ستر فیصد کارکنوں کی اوسط ماہانہ آمدنی پینتیس ہزار روپے ہے۔ دو بچوں اور میاں بیوی پر مشتمل چار رکنی خاندان کا گھر اگر ذاتی نہیں ہے تو کھانے پینے، کپڑے لتے، بیماری، خوشی غمی اور تعلیمی فیس کے لیے ہی اس وقت کم از کم پچاس ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں اور اتنے پیسوں میں بھی دو وقت کی روٹی، بجلی، پانی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔
لاکھوں پنشنرز اس وقت آٹھ ہزار سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر گذارہ کر رہے ہیں اور ہزاروں تو پنشن کا منہ دیکھے بغیر ہی چل بسے۔ لیکن اسی پاکستان میں ایسے مقتتدر لوگ بھی ہیں جن کی ماہانہ پنشن دس لاکھ روپے یا زائد بتائی جاتی ہے۔ انہیں سرکار کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول، یوٹیلٹی بلز کی مد میں ایک مخصوص رقم اور سیکورٹی گارڈز فراہم ہوتے ہیں۔ اگر یہ جلیل القدر ہستیاں ان میں سے ایک بھی رعائیت نہ لیں تب بھی وہ اپنے طور پر یہ سب افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے یہ سوچ درکار ہے کہ یہ سب الللے تلللے ملک کی ننانوے فیصد آبادی پر بلاواسطہ ٹیکسوں، اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی اور بیرونی قرضوں سے پورے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں شہباز شریف حکومت نے وزراء اور سرکاری اہلکاروں کی مراعات میں کٹوتی کی تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان اقدامات سے دو سو ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ آج ایک ماہ گذرنے کے بعد بھی حکومت اپنے وزراء اور بابووں سے محض نصف اضافی گاڑیاں ہی واپس لے سکی ہے۔
یہ حضرات سب کے سب اس ملک میں مساوات اور ہر شہری کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ریاستِ مدینہ کا نظام لانے کے خواب فروش ہیں۔ گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے توشہ خانہ کا آڈٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو جو اہلِ اقتدار، جج، جنرل اور بااثر افراد توشہ خانہ سے فیضیاب ہوئے ان سب کی فہرست مرتب کر کے ان سے ان تحائف کی پوری قیمت وصول کی جائے۔  میں یہ حکم پڑھنے کے بعد سے سوچ رہا ہوں کہ ایک وزیرِ اعظم تھے محمد خان جونیجو جنہوں نے جنرلوں کو سوزوکیوں میں بٹھانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ایک وزیرِ اعظم تھے نواز شریف جنہوں نے جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ لاگو کر کے دیکھ لیا۔ اور ایک وزیرِ اعظم تھے عمران خان جنہوں نے ریاستِ مدینہ قائم کرتے کرتے توشہ خانہ کی گھڑیاں بازار میں بیچ دیں۔ اور ایک وزیرِ اعظم ہیں شہباز شریف جنہوں نے سادگی اپنانے کا نعرہ لگا کے توشہ خانہ کی جو فہرست جاری کی، اس میں کوئی جج اور جرنیل شامل نہیں۔ اور ایک تھے ہمارے محمد علی جناح۔ جنہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کے عقب میں واقع کیفے گرینڈ والوں کو آرڈر دیا کہ وہ بڑی ڈبل روٹی نہ بھیجا کریں۔ کیونکہ ناشتہ کرنے والا صرف میں یا میری بہن فاطمہ ہے۔ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں تاکہ ریاست کا پیسہ ضائع نہ ہو۔ چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ آج بھی کیفے گرینڈ والوں نے سنبھال کے رکھا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
risingpakistan · 2 years
Text
اشرافیہ کی بھوک
Tumblr media
پاکستان کی اشرافیہ کی بھوک مٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ عوام کا نام ضرور لیا جاتا ہے لیکن جو کچھ پاکستان میں ہوتا ہے اُسے دیکھ کر شک نہیں رہتا کہ اس ملک اور اس کے وسا��ل کو اشرافیہ کیلئے مختص کر دیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر چند دن قبل شہباز شریف حکومت نے گزشتہ بیس سال کا توشہ خانہ کا ریکارڈ عوام کے سامنے پیش کر دیا جس کے مطابق، کس کس نے کیا کیا تحائف لئے، تفصیلات پڑھ کر افسوس ہوا۔ چند ایک کو چھوڑ کر جس جس کو موقع ملا اُس نے لاکھوں کروڑوں اور چند ایک نے تو اربوں روپے کے تحفے قومی خزانے میں انتہائی کم رقم جمع کرا کے حاصل کئے۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی غیرقانونی کام تھوڑا ہی کیا ہے بلکہ وہ لوگ، جو کوڑیوں کے بھائو مہنگے مہنگے تحائف گھر لے گئے، وہ تو حکومت کی پالیسی کے عین مطابق تھا۔ کوئی پوچھے یہی تو غم ہے کہ جہاں جہاں اس اشرافیہ کا اپنا مفاد ہوتا ہے وہاں پالیسیاں اور قانون بھی اپنی مرضی اور منشاء کے بنا کر سب کچھ ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ جنرل مشرف اور اُن کے لاڈلے وزیراعظم شوکت عزیز نے تو توشہ خانہ کے تحفوں پر خوب ہاتھ صاف کیا۔ ان کے تحائف کی فہرست ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔
آصف علی زرداری اور اُن کے وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے بھی کچھ نہ چھوڑا۔ زرداری صاحب ارب پتی لیکن دو بی ایم ڈبلیو گاڑیاں توشہ خانہ سے لے اُڑے۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ اُنہوں نے لیا اُس کی فہرست کافی طویل ہے۔ بلاول کو کس چیز کی کمی ہے، ماں باپ نے اربوں کھربوں اُن کے لئے چھوڑے ہیں لیکن اُن کو بھی جو تحفہ میں ملا، سب انتہائی رعایتی قیمت ادا کر کے رکھ لیا۔ نواز شریف نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، ایک مرسیڈیز ہی نہیں بلکہ مہنگی ترین گھڑیاں، قالین اور جو جو کچھ کسی نے دیا سب گھر لے گئے۔ جس شخص کا نام اور تحفوں کی تفصیل پڑھ کر مجھے سب سے زیادہ افسوس ہوا وہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ گھڑیاں نہیں پہنتے لیکن نہ صرف کروڑوں روپے مالیت کی کئی گھڑیاں خود رکھ لیں بلکہ اپنے بیٹوں کو بھی مہنگی گھڑیوں اور مہنگے مہنگے موبائل وغیرہ توشہ خانہ سے دلوائے۔ عباسی صاحب کی بیگم صاحبہ نے بھی کوئی دس کروڑ مالیت کا ہاروں کا سیٹ دو کروڑ میں خریدا۔ 
Tumblr media
عباسی صاحب کو جیو ٹی وی میں کہتے سنا کہ تحفے تو اُن کی ذات کو دیے گئے اس کا ریاست اور وزیراعظم کے عہدے سے کیا تعلق۔ عباسی صاحب کی یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ جو کہہ رہے ہیں اگر سچ ہے تو پھر وہ اور دوسرے بتا دیں کہ جب وہ صدر، وزیراعظم یا وزیر مشیر نہیں تھے تو سعودی عرب، عرب امارات اور قطر وغیرہ کے حکمرانوں نے کتنی بار اُنہیں مہنگے تحفے تحائف دیے۔ عباسی صاحب کی طرح دوسروں کی بیگمات اور بچوں نے بھی توشہ خانے سے تحائف حاصل کئے۔ عمران خان کے متعلق تفصیلات تو سب پہلے سے جانتے ہیں۔ اُنہوں نے اور اُن کی بیگم صاحبہ نے بھی حد کر دی اور جو جو ہاتھ آیا سمیٹ لیا۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے متعلق یہ پڑھ کر اطمینان ہوا کہ انہوں نے کم از کم توشہ خانہ کے تحائف پر اپنی بھوک ظاہر نہیں کی۔ اُنہوں نے مہنگے تحفے سب توشہ خانہ میں جمع کروا دیے لیکن سستے تحائف مثلاً شہد وغیرہ رکھ لئے۔ وزیروں مشیروں اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور کئی دوسروں نے بھی خوب تحائف سمیٹے۔ 
احسن اقبال بھی اس قانونی لوٹ کھسوٹ میں شامل ہیں لیکن اُنہوں نے لسٹ کے تحفوں کی اصل مارکیٹ کے مطابق طے کی گئی قیمت ادا کر کے اپنے ضمیر کا بوجھ ضرور ہلکا کیا جو خوش آئند بات ہے۔ ورنہ دوسرے تو سینہ تان کر کہتے ہیں کہ ہم نے کون سا غیر قانونی کام کیا، ہم نے تو وہ قیمت ادا کر دی جو قانون کے مطابق ہم ادا کرنے کے مجاز تھے۔ کئی فوجی اور سرکاری افسروں کے نام بھی اس لسٹ میں شامل تھے لیکن بہت سے بڑے نام غائب تھے اور ایسا محسوس ہوا جیسے مسلح افواج اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والوں کی کوئی اور فہرست ہو گی۔ ورنہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کئی آرمی چیفس اور چیف جسٹسزصاحبان کو کبھی کوئی تحفہ ملا ہی نہ ہو۔ تحفہ حاصل کرنے والے سول افسران میں فواد حسن فواد کا نام پڑھ کر اچھا نہیں لگا۔ جب ایک طرف ارب پتیوں، کروڑ پتیوں کو کوڑ یوں کے بھائو تحفے سمیٹتے دیکھا تو وہیں دو سپاہیوں عتیق الرحمٰن اور ملک قاسم نے اُن کو ملے تحفے لینے سے انکار کر دیا اور یہ تحائف توشہ خانے میں جمع کرا دیے۔ ان دونوں نے ثابت کیا کہ اُن کا قد بظاہر بڑے بڑے حکمرانوں سے بہت بڑا ہے۔ توشہ خانہ کی لسٹ نے اس حمام میں سب ننگے والی بات کو درست ثابت کیا اور عوام کی دوسروں سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
usamaahadbinsajjad · 2 years
Photo
Tumblr media
‏یہ دونوں دائی اور مائی دن رات عمران خان کو توشہ خانہ گھڑی چور کہہ کر پکارتی تھی آج دیکھو اپنی آنکھوں سے مکافات عمل ۔۔۔ یہ ہے اللہ کا انصاف ۔۔۔۔ پٹواریوں غلوں سے باہر نکلو اگر تھوڑی بہت شرم و حیا باقی ھے ۔۔۔ #مریم_گھڑی_چور_نکلی .!!#ToshaKhana #مائنڈگیم_ماسٹر_عمران_خان #مریم_گھڑی_چور #مریم_گھڑی_چور_نکلی #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #چور_باپ_کی_چور_بیٹی #چوروں_سےحقوق_لینےہونگے #چوروں_کی_ملکہ_مریم (at Dammam, Saudi Arabia) https://www.instagram.com/p/Cps_NdOInFI/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
توشہ خانہ، 13 صدور، وزرائے اعظم نے اب تک 3039 تحفے حاصل کئے
پاکستان کے 13 صدور اور وزرائے اعظم نے اب تک 3039 تحفے توشہ خانے سے کوڑیوں کے دام پر حاصل کیے جن کی کل مالیت 16 کروڑ روپے بنتی ہے، اب سے زیادہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز پاکستان سے جاتے ہوئے 1،126 تحفے ساتھ لے گئے، جنرل ضیا نے توشہ خانے سے 16 لاکھ روپے میں ایک سو بائیس تحفے لئے، جنرل ایوب خان واحد صدر اور بلخ شیرمزاری واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے تمام تحفے توشہ خانہ میں جمع کرائے اور کوئی بھی تحفہ گھر لے کر نہیں گئے، ذرائع کے مطابق توشہ خانے سے تحفے حاصل کرنے والے حکمرانوں کی تفصیلات سامنے آگئیں، اب تک ملک کے تیرہ صدر اور وزیراعظم توشہ خانے سے تین ہزار انتالیس تحفے لے چکے ہیں، تحفے لینے والوں میں جنرل ضیاء سے جنرل مشرف تک صدور، جونیجو سے شوکت عزیز تک وزرائے اعظم شامل ہیں، ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے بطور صدر دو بی ایم ڈبلیو اور دو ٹویوٹا جیپ کیلئے توشہ خانہ میں 93 لاکھ جمع کرائے یعنی اصل مالیت کا محض 15 فیصد ہے، یہ قیمتی گاڑیاں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے دی تھیں۔
بلال عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
kimskashmir · 28 days
Text
Imran Khan, his wife Bushra Bibi file bail pleas in new Toshakhana case
ISLAMABAD — Former Pakistan Prime Minister Imran Khan and his wife Bushra Bibi have filed separate post-arrest bail pleas in the new Toshakhana case related to a jewellery set gifted by the Saudi crown prince, Pakistan-based Geo News reported. Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) founder Imran Khan and his wife have filed the applications through Barrister Salman Safdar under Section 9(b) of NA…
0 notes
aarifboy · 1 year
Video
youtube
Toshakhana Case Imran Khan. Role of Pakistan Supreme Court, Military, La...
0 notes
banglakhobor · 1 year
Text
Imran Khan Updates: ইমরানের গ্রেফতারির পরেই ইসলামাবাদ জুড়ে কঠোর নিরাপত্তা...
জি ২৪ ঘণ্টা ডিজিটাল ব্যুরো: পাকিস্তানের প্রাক্তন প্রধানমন্ত্রী তথা ‘তেহরিক-ই-ইনসাফ’ (পিটিআই) দলের প্রধান, তথা পাক ক্রিকেটের রাজপুত্র ইমরান খান গ্রেফতার হওয়ার পরেই পাকিস্তান জুড়ে নিশ্ছিদ্র করা হচ্ছে নিরাপত্তা, বিশেষ করে কঠোর নিরাপত্তার চাদরে মুড়ে ফেলা হয়েছে ইসলামাবাদ ও রাওয়ালপিণ্ডি। যদি ইমরানের গ্রেফতারির প্রতিবাদ করে কোথাও কোনও বিক্ষোভ দানা বাঁধে তবে তা প্রথমেই যাতে মোকাবিলা করা যায়, তাই এই…
View On WordPress
0 notes
ainews18 · 1 year
Link
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
توشہ خانے میں نقب لگانے والے حکمراں
Tumblr media
’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سنا دو۔ جس دن وہ (مال) دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ سو تم جمع کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔‘‘( سورۃ التوبہ۔ آیت 35-34۔ مضامین قرآن حکیم، مرتّبہ: زاہد ملک) ٭... خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ سے سوال کیا جارہا ہے کہ جو چادریں بانٹی گئی تھیں۔ اس میں تو آپ کا کُرتا نہیں بن سکتا تھا۔ یہ اضافی کپڑا کہاں سے آیا۔ وہ جواب دے رہے ہیں کہ جو چادر ان کے بیٹے کے حصّے میں آئی تھی۔ وہ استعمال کی گئی۔ تاریخ اسلام گواہی دے رہی ہے کہ اس وقت کے خلیفہ سے بھی آمدنی سے زیادہ کے اثاثے پر سوال کیا جاسکتا تھا۔ اور وہ جواب دینے کے پابند بھی تھے۔ ٭... حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مملکت کا کام ختم ہو رہا ہے۔ تو وہ سرکاری چراغ بجھا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی مال سے جلنے والا چراغ روشن کر رہے ہیں۔ ٭... کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اس کا نام بھی منتخب نمائندوں نے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ طے کیا۔ مگر اب 75 ویں سال میں مناظر کیا ابھر رہے ہیں۔ توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں سب اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ 
قائد اعظم جب بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کی جدو جہد کر رہے تھے تو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اس مملکت ِخداداد میں ایسے حکمراں آئیں گے۔ جو ریاست کو ملنے والے قیمتی تحائف کو لالچ بھری نظروں سے دیکھیں گے ان کے ہتھیانے کے لئے خود ہی قوانین بنائیں گے اور ہر ایک ان قومی امانتوں میں خیانت کرے گا۔ چاہے وہ پانچ سال کے لئے حکمران ہو۔ چاہے منتخب ہو کر آیا ہو۔ چاہے اس نے بزور اسلحہ ملک پر قبضہ کیا ہو چاہے وہ نگراں وزیر اعلیٰ ہو۔ 90 دن کے لئے آیا ہو۔ واہگہ سے گوادر تک کے مفلس عوام چشم تصور سے دیکھ رہے ہیں۔ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، صدور اور وزرائے اعظم کی بیگمات، بیٹے، بیٹیاں توشہ خانے کو مال غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ کسی جنگ کسی فتح کے بغیر۔ ہر محاذ پر پسپا ہو رہے ہیں۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جس کے حصول کے لئے لاکھوں شہدا نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں قافلے آرہے ہیں۔ بہار سے، یوپی سے، دہلی سے، مشرقی پنجاب سے۔ سکھوں کے گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں۔ 
Tumblr media
ہندو بلوائی نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں غلامی سے آزادی کی طرف پیدل سفر کرتے، بسوں میں، ریل گاڑیوں میں، کافروں کی یلغار میں مارے جارہے ہیں لیکن پاکستان ان کی آرزو ہے۔ وہ نہتے گھر بار چھوڑ کر آرہے ہیں۔ یہاں رہنے والے پاکستانی ان کے لئے اپنے گھر پیش کر رہے ہیں۔ وہ تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے کہ اتنی قربانیوں سے حاصل کئے گئے ملک میں ایسے لالچی۔ اخلاق باختہ حکمراں آئیں گے۔ اس ملک سے پانچ گنا زیادہ آبادی۔ زیادہ اسلحہ رکھنے والے ملک بھارت نے پاکستان کو اپنا ٹوٹنا خیال کیا ہے۔ اپنے جسم سے حصّہ الگ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ کشمیر پر قابض ہو گیا ہے۔ 1948 میں ہمارے جانباز کشمیر کے حصول کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ اب اس ملک کے حکمراں گھڑیوں، گاڑیوں، ہاروں، بیڈ شیٹوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ پھر 1965 ء کی تاریک راتیں یاد آرہی ہیں۔ جب ہمارے نوجوان مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت اپنے خون سے کر رہے ہیں۔ وہ جس مملکت کے تحفظ کیلئے سینہ سپر ہیں۔ 
جن کے بچے یتیم ہورہے ہیں۔ جن کی رفیقہ ہائے حیات جوانی میں بیوہ ہو رہی ہیں۔ اس ملک کا توشہ خانہ ان حکمرانوں کیلئے مفتوحہ خزانہ بنا ہوا ہے۔ ایک لمحہ بھی ان میں سے کسی کو خیال نہیں آتا کہ یہ تحائف قوم کی امانت ہیں۔ جو دوسری قوموں نے پاکستانی قوم کو دیے ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کے تحائف کو چند روپوں کے عوض گھر لے جاتے ہوئے انہیں یہ شہدا یاد نہیں آئے۔ یہ روپے بھی خبر نہیں انہوں نے اپنی جیب سے دیے ہیں۔ کیا یہ بھی سرکاری فنڈ سے تو نہیں دیے تھے۔ 1971 ء کا عظیم المیہ ذہن پر حاوی ہو رہا ہے۔ اپنے گھروں سے ایک ہزار میل دور ہمارے بریگیڈیئر، کرنل، میجر، کپتان عام سپاہی سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اس ملک کی ایک ایک انچ سر زمین کیلئے اپنے جسم کو ڈھال بنارہے ہیں۔971 کے ان خونیں مناظر نے 1971 سے اب تک آنے والے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے تحفوں کی طرف بڑھتے ہاتھوں پر لرزہ طاری نہیں کیا۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جہاں جمہوریت اور حقیقی آزادی کیلئے جدو جہد 1947 سے ہی جاری ہے۔ 1971 کے بعد آدھے پاکستان میں بلوچستان کے نوجوانوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔
سندھو دریانے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو سندھ میں کتنی سفاکی برداشت کرتے دیکھا ہے۔ خیبر پختونخوا جو پہلے سرحد تھا۔ وہاں کتنے نوجوانوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے مظالم برداشت کئے ہیں۔ پنجاب کے میدانوں چوراہوں میں ریلیاں نکل رہی ہیں۔ لاٹھی چارج آنسو گیس پھر بھی عشاق کے قافلے بڑھ رہے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی وادیوں میں لائن آف کنٹرول پر خون بہہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان والے اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے سرگرم ہیں۔ یہ اسی دیس کا توشہ خانہ ہے۔ جہاں دہشت گردوں نے 80 ہزار سے زیادہ ہم وطنوں سے بم دھماکوں، فائرنگ، خودکش بم حملوں سے زندگی چھینی ہے۔ سیاسی کارکنوں کی طویل جدو جہد، بے خوف سرگرمیاں ہی اس مملکت کو سلامت رکھے ہوئے ہیں۔ اس تگ و دو کے نتیجے میں ہی توشہ خانے سے گرانقدر تحائف کوڑیوں کے عوض حاصل کرنیوالے حکمراں بنے ہیں۔ سلام ہے اس جج کو، آفریں ہے ان اعلیٰ عدالتوں پر، جنہوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ امانت میں خیانت کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کروا دیے ہیں۔ اب قوم منتظر ہے کہ 1947 سے 2002 کے خائنوں کے اعداد و شُمار بھی سامنے آئیں۔ ایسا ممکن نہ ہو تو 1985 سے 2002 تک کے نام تو ریکارڈ پر آئیں۔ واہگہ سے گوادر تک کے مجبور پاکستانیوں کی درخواست یہ بھی ہے کہ ملک پر ہزاروں ارب روپے کے جو قرضے ہیں۔ اس کی فہرست بھی مرتب کی جائے کہ یہ قرضے کہاں خرچ ہوئے۔ کن کی جیبوں میں گئے۔ اگر کوئی انفرااسٹرکچر بنا ہے تو اس کی لاگت کیا تھی۔ باقی قرضہ کہاں گیا۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 2 years
Text
توشہ خانے کا کڑوا سچ
Tumblr media
آج کل ہر طرف توشہ خانہ کا شور ہے۔ ایک عام پاکستانی شاید توشہ خانہ کے متعلق کچھ جانتا بھی نہ ہو لیکن ہمارے حکمرانوں اور ہماری اشرافیہ نے ہم سب کو توشہ خانہ ازبر کرا دیا ہے۔ توشہ خانے سے سرکار کا مال ’’مال مفت دل بے رحم ‘‘ کے مصداق وصول کرنے والوں میں صرف عمران خان ہی نہیں توشہ خانہ کے حمام میں سب ننگے دکھائی دے رہے ہیں۔ توشہ خانہ دراصل کیا ہے عوام کی آسانی کے لیے یہ ایک اردو اصطلاح ہے۔ اسلامی تناظر میں یہ وہ جگہ ہوتی تھی جہاں قیمتی اشیائ، جیسے سونا، چاندی، زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء کا ذخیرہ محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں جب اسلامی ریاست تیزی سے پھیل رہی تھی، مسلمانوں نے مال غنیمت اور مفتوحہ زرخیز زمینوں سے خراج کے طور پر بے پناہ دولت اور خزانے حاصل کیے تو اس وقت ان قیمتی اشیاء کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایک مرکزی ذخیرہ خانہ قائم کیا گیا جسے توشہ خانہ کہا جاتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں توشہ خانہ کا انتظام خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا اور اس امر کا بہت خیال رکھا کہ امت مسلمہ کے مال کی تقسیم منصفانہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد توشہ خانہ کا انتظام خلفائے راشدین اور ان کے مقرر کردہ دیگر عہدیداروں نے کیا۔ توشہ خانہ اسلامی دنیا کی پوری تاریخ میں اسلامی طرز حکمرانی میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ مسلمانوں کی دولت کو ذخیرہ کرنے کے علاوہ توشہ خانہ کو خیراتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ توشہ خانہ میں سے ذخیرہ شدہ فنڈز اور وسائل غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد، عوامی کاموں اور بنیادی ڈھانچے کی مالی اعانت اور مختلف مذہبی اور تعلیمی اداروں کی مدد کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ توشہ خانہ کو فوجی مہمات میں جنگی ساز وسامان کی تیاری کے ساتھ ساتھ فوجیوں اور اہلکاروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ مجموعی طور پر توشہ خانہ اسلامی تاریخ اور حکمرانی کے ایک اہم پہلو کی نمایندگی کرتا ہے اور وسائل کے ذمے دارانہ انتظام کی اہمیت اور مجموعی طور پر معاشرے کی بہتری کے لیے دولت اور وسائل کے استعمال کی ضرورت کی یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہمارا واسطہ توشہ خانے کے ان محافظوں سے پڑا ہے جو اس پر حق ملکیت جتا کر اس کی حفاظت کے بجائے اس کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔
Tumblr media
توشہ خانے کی جو تفصیلات عدالتی حکم پر حکومت نے عوام کے سامنے رکھی ہیں اس کے مطابق عوام کے مال پر بے رحم اشرافیہ نے توشہ خانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور اشرافی طبقے میں پاک دامنی کا دعویدار کوئی بھی شخص ریاست کو موصول شدہ تحائف کے حصول سے اپنا دامن نہیں بچا سکا کجا کہ یہ ریاستی تحائف جو مختلف ممالک کی جانب سے ریاست پاکستان کے عہدیداروں کو غیر ممالک کے دوروں کے موقعے پر بطور تحفہ دیے جاتے ہیں اور ان میں سے بعض کا شمار تو نوادرات کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ ان تاریخی تحائف کو ان کی اصل قیمت سے کہیں کم لاگت کا حساب کتاب لگا کر اونے پونے داموں بغل میں چھپا لیا جاتا ہے اور اس معمولی قیمت کی ادائیگی کر کے اپنے دل کو تسلی دے دی جاتی ہے کہ فرض ادا ہو گیا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ ریاستی تحائف اصل لاگت سے بھی زیادہ قیمت میں بولی لگا کر فروخت کرنے چاہئیں اور ان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کو قومی خزانے میں جمع کر کے اسلامی طرز معاشرت کی پیروی کرتے ہوئے اس کے وسائل کوغریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد اور مالی اعانت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
بصد احترام عرض ہے کہ اشرافی طبقے کے جن سیکڑوں امراء کے نام توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف کی قطار میں نظر آرہے ہیں، کیا وہ اس کے مستحق تھے کہ ایک غریب ریاست کو حاصل شدہ تحائف کو اونے پونے داموں وصول کر کے اپنے استعمال میں لے آئیں۔ بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں اور وہ اس طرح کے کئی تحائف کسی بھاؤ تاؤ کے بغیر خریداری کی سکت رکھتا ہے لیکن کیا کیا جائے اس لالچ اور حرص کا جس نے مملکت خداداد کے وسائل کو اس طبقے پر حلال قرار دے رکھا ہے اور ان کے اپنے ہی بنائے ہر قانون اور ضابطے کے تحت وہ ان تحائف کی اونے پونے داموں خریداری کے حقدار بھی بن جاتے ہیں۔ عوام تو ان تحائف کی تصویریں دیکھ کر ہی آہیں بھرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کو مزید تحائف ملتے رہیں تا کہ ہمارا یہ بے رحم اشرافی طبقہ ان تحائف کو وصول کر کے اپنی من کی مراد پوری اور اپنے لالچ اور حرص کی پیاس بجھاتا رہے۔ 
توشہ خانے کا یہ قصہ جو اسلامی معاشرے میں غریبوں کی مالی اعانت سے شروع ہوا تھا وہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک اسلامی ملک میں اشرافی طبقے کی مالی اعانت میں تبدیل ہو کر ان کے لیے اعلیٰ نسل کی گھڑیوں اور مشہور زمانہ مرسیڈیز گاڑیوں کے حصول کے بعد تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے یہ نام نہاد بڑے لوگ توشہ خانے میں موجود چھوٹی چھوٹی اشیاء جن کی قیمت کا تعین نہیں ہو سکا، ان کو بھی بلا قیمت اپنے دامن میں سمیٹنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، آج کا کڑوا سچ یہی ہے۔
اطہر قادر حسن 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
usamaahadbinsajjad · 2 years
Photo
Tumblr media
‏یہ توشہ خانہ توشہ خانہ کرنے والے بلاول کا باپ زرداری بھی 2 BMW اور ایک Toyota Lexus بھی لے اڑا جبکہ توشہ خانہ کے قانون کے مطابق آپ گاڑیاں لے ہی نہیں سکتے #مریم_گھڑی_چور_نکلی .!!#ToshaKhana #مائنڈگیم_ماسٹر_عمران_خان #مریم_گھڑی_چور #مریم_گھڑی_چور_نکلی #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #مریم_سائیکو_پیتھ_عورت #چور_باپ_کی_چور_بیٹی #چوروں_سےحقوق_لینےہونگے #چوروں_کی_ملکہ_مریم (at Dammam, Saudi Arabia) https://www.instagram.com/p/Cps_EBQI6Ir/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Text
Imran Khan in High Court For Toshakhana case
Imran Khan News: The Lahore High Court will hear the Toshakhana corruption case against Pakistan’s ousted Prime Minister Imran Khan today. At the same time, a case of treason has been registered against Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) President Imran Khan along with all the prominent leaders of the party. Criticism of the government or its organizations in Pakistan is sedition According to the…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
kupwaratimes-fan · 2 years
Text
Pakistan PM Shehbaz calls Imran Khan ‘a certified thief’ after his disqualification in Toshakhana case
Pakistan PM Shehbaz calls Imran Khan ‘a certified thief’ after his disqualification in Toshakhana case
Pakistan PM Shehbaz calls Imran Khan ‘a certified thief’ after his disqualification in Toshakhana case Islamabad, Oct 22 (PTI): Pakistan Prime Minister Shehbaz Sharif on Saturday tore into Imran Khan, describing the ex-premier as a “certified thief”, a day after his disqualification in the concealment of assets in the Toshakhana case. Khan, 70, was disqualified on Friday by the Election…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
kimskashmir · 2 months
Text
Imran Khan, wife Bushra Bibi's remand extended by 11 days in Toshakhana corruption case
ISLAMABAD — An accountability court has extended by 11 days the physical remand of jailed former Pakistan prime minister Imran Khan and his wife Bushra Bibi in the new Toshakhana corruption case, media reports said on Friday. The hearing, presided over by Accountability Court Judge Nasir Javed Rana, took place on Thursday in the makeshift courtroom set up at Rawalpindi’s high-security Adiala…
0 notes
xnewsinfo · 17 days
Link
Supporters of former Pakistan Prime Minister Imran Khan clashed with police in Islamabad on Sunday throughout the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) rally within the metropolis. The occasion denounced "heavy shelling by Islamabad police in opposition to peaceable Pakistanis" throughout the demonstration, which was held to demand Khan's rapid launch from jail. Imran Khan was anticipated to be launched from jail this week after an area courtroom suspended appeals in opposition to his conviction within the Iddat case.Nonetheless, the previous Pakistan cricket captain was arrested moments later by the Nationwide Accountability Bureau (NAB) within the Toshakhana case, in keeping with a Daybreak report.On the PTI rally on Sunday, occasion chief Hammad Azhar addressed the group and mentioned they'd gathered to ascertain the "rule of regulation and supremacy of the Structure" within the nation, the report added.Imran Khan, a 71-year-old former cricketer and politician, was arrested on August 5 final yr. He was first lodged in Attock jail after which shifted to Adiala jail in Rawalpindi. He's going through over 200 circumstances and has been convicted in a few of them.Posted on: September 8, 2024Tune in
0 notes