Tumgik
#ستونت کور
onlyurdunovels · 2 years
Text
پراسرار دروازہ ۔۔۔ ایک واقعہ جس نے برطانیہ کی تاریخ کو بدل دیا !! ( ستونت کور )
پراسرار دروازہ ۔۔۔ ایک واقعہ جس نے برطانیہ کی تاریخ کو بدل دیا !! ( ستونت کور )
1953,برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے ایک پسماندہ علاقے ” ٹین رلنگٹن پلیس” میں واقعہ ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کی پہلی منزل پر موجود ایک اپارٹمنٹ کے خالی ہو جانے کے بعد ، مالک مکان نے بالائی منزل پر مقیم ایک کرایہ دار ‘بریس فورڈ براؤن ‘ کی درخواست پر اسے تازہ خالی شدہ زیریں اپارٹمنٹ میں منتقل ہونے کی اجازت دے دی ۔۔۔۔ چنانچہ براؤن نے اس نئے اپارٹمنٹ میں منتقلی کے کام کا آغاز کردیا ، اس سے پہلے کہ وہ اپنا…
Tumblr media
View On WordPress
8 notes · View notes
yasirayazkhan · 8 years
Photo
Tumblr media
کاپی " آپ ویلنٹائن ڈے کے مخالف ہیں یا حامی۔۔۔۔چاہے آپ نوع انسان سے ہیں یا لبرل۔ یہ پوسٹ ضرور پڑھیں۔ اور بتائیں کہ کیا ”ویلنٹائن ڈے“ ایک ”قتل عام“ نہیں؟؟؟؟ (ستونت کور) ایک پوسٹ پڑھی کہ گزشتہ سال پاکستان میں ویلنٹائن ڈے پر 60,000 ہوٹلوں کے کمرے بک کرائے گئے۔ اگر پاکستان میں یہ حال ہے تو ادھر بھارت میں تو لاکھوں اور دنیا میں کروڑوں کے فگرز میں یہ تعداد ہوگی۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی احمق گلاب کا پھول یا چاکلیٹ کا پیکٹ ایکسچینج کرنے کے لیے روم بک نہیں کرواتا۔ اب یہ پڑھیں: ”گونگی چیخ“۔۔۔۔ امریکہ میں 1984ء میں ایک کانفرنس ہوئی تھی۔ "نیشنل رائٹس ٹو لائف کنوئنشن" اس کانفرنس کے ایک نمائندے ڈاکٹر برنارڈ نےاسقاط حمل پر بنائی گئی ایک الٹرا ساونڈ فلم silent scream (گونگی چیخ) دکھائی جس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔ بچہ دانی کی وہ معصوم بچی اب 15 ہفتے کی تھی اور کافی چست تھی، ہم نے اسے اپنی ماں کے پیٹ میں کھیلتے، کروٹ بدلتے اور انگوٹھا چوستے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اس کی دل کی دھڑکنوں کو بھی ہم دیکھ رہے تھے۔ وہ اس وقت 120کی رفتار سے دھڑک رہا تھا۔ سب کچھ نارمل تھا، لیکن جیسے ہی پہلے اوزار اور سکسن پمپ نے بچہ دانی کو دیوار کو چھو لیا، وہ معصوم بچی ڈر سے ایک دم گھوم کر سکڑ گئی اور اس کے دل کی دھڑکن بہت بڑھ گئی۔ اگر چہ ابھی تک کسی اواز نے بچی کو چھوا تک بھی نہیں تھا لیکن اسے احساس ہو گیا تھا کہ کوئی چیز اس کی آرام گاہ، اس محفوظ علاقے پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم دیشت سے بھرے یہ دیکھ بھرے یہ دیکھ رہے تھے کہ کس طرح سے وہ اوزار اس ننھی منی معصوم گڑیا سی بچی کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی۔ پہلے کمر پر، پھر پیر وغیرہ کے ٹکڑے ایسے کاٹے جا رہے تھے جیسے وہ زندہ مخلوق نہ ہو بلکہ کوئی گاجر مولی ہو۔ اور بچی درد سے سکڑ کر گھوم گھوم کر تڑپتہ ہوئی اس قاتل اوزار سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اس بری طرح ڈر گئی تھی کہ ایک وقت اس کے دل کی دھڑکن 200 تک پہنچ گئی۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس کو اپنا سر پیچھے جھٹکتے اور منہ کھول کر چیخنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا۔ جیسے ڈاکٹر تھینسن نے "گونگی چیخ" یا "خاموش پکار" کہا تھا۔ آخر میں ہم نے وہ منظر بھی دیکھا جب سڈسی اس کھوپڑی کو توڑنےکیلئے تلاش رہی تھی اور پھر دبا کر اس سخت کھوپڑی کو توڑ رہی تھی۔ کیونکہ سر کا وہ حصہ بغیر توڑے سکشن ٹیوب کے ذریعے باہر نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ قتل کے اس بھیانگ کھیل کو ختم ہونے میں قریب پندرہ منٹ کا وقت لگا۔ اس دردناک منظر کا اندازہ اس سے زیادہ کس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ جس ڈاکٹر
0 notes