Tumgik
#سقوطِ
quotesart · 5 months
Text
لا يلين
يدفعه الطيشُ في سائرِ أفعاله
لا يتحملُ عواقب ما فعل
وإنما يلجأ للهربِ من واقعه الذي صنع
لا يستقيم
وإنما يعيش مُترنحًا بين سقوطِ الأمس،
واستسلامه اليوم!
لا يُعين
هو شخصٌ تخلى عن كونه يُرجى منه الخير
هو لا يلتزمُ بتوقعاتِ أحدٍ تجاهَهُ
ولم يتطلع أبدًا لأن يعود عليه نفعٌ من الغير
متخاذلٌ مع نفسه
فلم يشعر مَرَّةٍ بأنه أخطأ في حقِ سواه بالتقصير
لا يعينه إن كان مُدانًا لأحدٍ
لأنه فعل كل ما بوسعه ليكون حُرًّا من القيود
من المشاعر
من الأشياء
من العلاقات
من الأحلام
وما يريده الآن حريته من نفسه!
- محمد سعد دانيال
29 notes · View notes
omqo · 2 years
Text
Tumblr media
‏أغمِضُ عيني في كُل مرةٍ أبقى بها مكتوفَ اليدين، في كُل مرةٍ لا أجِدُ لي مخرجاً مَن سقوطِ الأشياءِ بي.🐚✨
33 notes · View notes
gamekai · 2 years
Text
کامران شاہد نے 1971 پر محبت کی کہانی کیوں لکھی اور فلمائی؟
1971 میں سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جنم لینے والی محبت کی یہ کہانی ’ہوئے تم اجنبی‘ کامران شاہد کی بطور ہدایت کار پہلی فلم ہے۔ کامران شاہد کا نام پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے لوگ ایک کرنٹ افئیرز کے پرائم ٹائم اینکر کے طور پر جانتے ہیں۔ وہ ان دنوں دنیا نیوز سے وابستہ ہیں اور رات آٹھ بجے کا شو کرتے ہیں۔ اکثر لوگ انہیں پاکستان کے نامور ترین اداکار فلم سٹار شاہد کے صاحبزادے کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ یہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
someone5353 · 3 years
Text
كانت ـ مثلي ـ تتمشّى
قبلَ سقوطِ الهابطِ فجْراً مفجورا
تلقطُ ما يطفو سطحا 
تتقصّى ممشى القوقعِ في خطِّ الرملِ
يلفظهُ ملحُ البحرِ الميّتِ والمدُّ
ـ من برما ؟ كلاّ .. من روما
ـ مَنْ أنتَ ؟ 
أبحثُ عن شيءٍ في اللاشي
سلوايَ البحرُ الصامتُ والصائتُ ليلا
طوُفاناً قمريّاً يطغى مَدّا
عَتمةُ النرجسِ الصيفيِّ
تظلّمُ الدنيا منها قُرباً أو بُعدا
نُشدانَ قِراءةِ قاموسِ التلقيحِ العصري
( حَسَناً بصريّا )
في عيدِ الفِصحِ ودهشةِ أجراسِ كنائسَ خُرْسِ
تستقطبُ تقويمَ هلاكِ الأفلاكِ .
3 notes · View notes
pure-heartts · 4 years
Text
لاشيء يؤلِم أكثر من سقوطِ قناعٍ ظنناه يوماً وجهاً حقيقياً
21 notes · View notes
urduclassic · 4 years
Text
وہ نظم جو نصیر ترابی نے سانحہ سقوط ڈھاکہ پر کہی
سقوطِ ڈھاکہ کی خبر سُن کر معروف شاعر نصیر ترابی کی آنکھیں آنسوؤں سے بَھر گئیں اور ایسے ہی انہوں نے ایک غزل تخلیق کی جسے نصیر ترابی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جنگ اخبار کے سرورق پر نصیر ترابی کی غزل چھپی جو 71 میں ایک نوجوان شاعر کے خیالات تھے۔ سقوط ڈھاکہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے نصیر ترابی کہتے ہیں کہ ’یہ غزل میں نے سقوط ڈھاکہ پر کہی تھی۔‘  انہوں نے کہا کہ ایک دن جب دفتر میں بیٹھا تھا کہ مجھے سقوطِ ڈھاکہ کی خبر دن کے گیارہ بجے ملی۔ نصیر ترابی کا کہنا تھا کہ مجھے جب یہ خبر ملی تو ایک دم ہی میں ٹپ ٹپ رونے لگ گیا۔ انہوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ ہمارے لیے بڑا جذباتی مسئلہ تھا، تو بس اسی وقت میں نے ایک غزل ترتیب دی۔ یہ غزل ناصرف اس وقت مشہور ہوئی بلکہ آج بھی زبان زد عام و خاص ہے۔
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی
محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی
کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی
عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی
بشکریہ روزنامہ جنگ
8 notes · View notes
al-hashimia · 5 years
Text
Tumblr media
قال أبو العباس القرطبي متحدّثًا عن أسبابِ سقوطِ الأندلس:
"إنما ذلك لشيوع الفواحش منهم بالإجماع؛ من شبانهم بالفعل ومن شيوخهم بالإقرار، فلا تأمن الفروج ولا الأموال فسلط الله عليهم عدوهم إلى أن أزالهم بالكلية."
21 notes · View notes
emergingpakistan · 5 years
Text
بنگلہ دیش میں بے یار و مددگار پاکستانی محصورین
دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو سینہ فگار یادوں کے زخم کھل جاتے ہیں۔ مجھے 11 دسمبر 1971 کی وہ صبح اچھی طرح یاد ہے جب میجر جنرل (ر) امراؤ خان نے مجھے فون پر راولپنڈی چلنے کی دعوت دی تھی۔ وہ جی ایچ کیو جا کر یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ہماری فوجیں بھارت کے اسٹرٹیجک مقامات کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں کر پائی ہیں۔ اُنہوں نے 1957-58 میں مشرقی پاکستان کی ڈویژن کی کمان کی تھی اور وہاں کے فوجی معاملات اور بھارتی سازشوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ ہم شام ڈھلے منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ مَیں نے اپنے عزیز دوست میجر (ر) غلام مصطفیٰ شاہین کے ہاں اسلام آباد میں قیام کیا جبکہ جنرل امراؤ اپنے فوجی دوست کے ہاں راولپنڈی چلے گئے تھے۔ میجر مصطفیٰ شاہین ڈھاکا میں فوجی خدمات سر انجام دے چکے تھے اور میرا بھی مشرقی پاکستان بہت جانا لگا رہتا تھا، اِس لیے ہم تازہ ترین حالات پر نصف شب تک تبادلۂ خیال کرتے رہے۔
دوسرے دن جنرل امراؤ خان سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بڑے افسردہ لہجے میں بتایا کہ جی ایچ کیو پر شدید انتشار کی کیفیت طاری ہے اور حالات بڑے مخدوش نظر آتے ہیں۔ اُن کی باتیں سن کر ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور ہم نے مزید کچھ روز ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ مَیں نے 13 دسمبر کی صبح جناب نورالامین کو فون کیا جو پاکستان کے وزیرِاعظم نامزد کیے جا چکے تھے اور ایسٹ پاکستان ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔ اُنہوں نے فوراً چلے آنے کے لیے کہا۔ مَیں اور میجر صاحب اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ سخت پریشان دکھائی دیے۔ اُنہوں نے بتایا کہ مشرقی پاکستان سے تشویشناک خبریں آ رہی ہیں کہ بھارتی گوریلے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بڑی تعداد میں میمن سنگھ کے عقب میں اُتر چکے ہیں اور ڈھاکا کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ وہ اِس خطرناک صورتحال کو فوری طور پر جنرل یحییٰ خان کے علم میں لانا چاہتے تھے۔ ملٹری سیکرٹری سے ملاقات کا وقت لیا اور ہم تینوں ایوانِ صدر پہنچ گئے۔ جنرل یحییٰ سے ملاقات ہوئی اور اُنہیں تازہ ترین حالات سے مطلع کیا گیا۔ اُنہوں نے حالتِ سرشاری میں کہا، پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ بھارتی نہیں چینی گوریلے ہیں جو ہماری مدد کو پہنچے ہیں۔ ہم بوجھل دِلوں سے واپس چلے آئے کہ وہ اقتدار کے نشے میں چُور تھا۔
سقوطِ مشرقی پاکستان پر 48 برس گزر چکے ہیں، مگر احساس کا شعلہ سرد نہیں ہوا، کیونکہ ایک تو پاکستان کے دولخت ہو جانے کا دکھ کسی نہ کسی حوالے سے تازہ رہتا ہے، دوسرا دکھ اُن لاکھوں غیور پاکستانیوں کا ہے جو بنگلا دیش میں محصور ہیں اور بڑی کسمپرسی کی زندگی کاٹ رہے ہیں۔ سب سے بڑا غم یہ ہے کہ ہم نے اِس قدر اَلمناک حادثے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اُسی راستے پر تمام تر توانائیوں کے ساتھ رواں دواں ہیں جو نفرتوں، گہری مخاصمتوں اور تباہ کُن خانہ جنگیوں کی طرف جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ کربِ عظیم بھی ہر خوشی کو چاٹ رہا ہے کہ ہماری غیرت کو کیا ہوا کہ اپنے شہریوں سے یکسر بیگانہ ہیں۔ یہ بے آسرا لوگ جنہیں ’بہاری‘ کہا جاتا ہے، اُنہوں نے مشرقی پاکستان کی تعمیر و ترقی میں زبردست کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان وجود میں آیا، تو قائدِاعظم کی دعوت پر غیر بنگالیوں کی اکثریت نے پاکستان جانے کا آپشن اختیار کیا اور مشرقی پاکستان میں آکر پورا حکومتی نظم و نسق اور ریلوے کا نظام سنبھالا اور پٹ سن اور کاغذ کے کارخانے لگائے۔
وہ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے ساتھ پوری طرح جڑے ہوئے تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے 1966ء میں بنگلہ قومیت کی تحریک شروع کی تو اِن غیر بنگالیوں نے اس کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستانی قومیت کا پرچم سنبھالے رکھا۔ دسمبر 1970 کے قومی انتخابات میں عوامی لیگ نے دہشت گردی کے ذریعے دو کے سوا تمام نشستیں جیت لیں اور قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہونے پر بہاریوں کا قتلِ عام شروع کر دیا اور پانچ لاکھ سے زائد موت کی نیند سلا دیے۔ بنگلا دیش وجود میں آیا تو مکتی باہنی نے بہاریوں کو اُن کے گھروں سے نکال کر کھلے میدانوں میں پھینک دیا۔ ریڈ کراس انٹرنیشنل نے اُن کے 67 عارضی کیمپ قائم کیے۔ ان بہاریوں نے وطن کے ساتھ وفاداری کا پیمان نبھاتے ہوئے بنگلا دیش کی شہریت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ اپنا تعلق پاکستان سے قائم رکھنا چاہتے تھے۔ مجھے تین بار بنگلا دیش جانے اور بہاریوں کے کیمپ دیکھنے کے مواقع ملے۔ اُن سے بدبو کے بھبکے آ رہے تھے اور مَیں دس پندرہ منٹ سے زائد وہاں ٹھہر نہیں سکا مگر ان کے مکین اپنے فیصلے پر ثابت قدمی سے قائم اور پاکستان کی عظمت کے لیے دعاگو تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے اِن عظیم پاکستانیوں کی واپسی میں ایک فعال کردار ادا کیا۔ رابطۂ عالم ِ اسلامی کے ساتھ مل کر ٹرسٹ قائم کیا۔ وہ خود اِس ٹرسٹ کے چیئرمین اور سعودی ولی عہد وائس چیئرمین بنے۔ رابطۂ عالم ِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل جناب عمر عبداللّٰہ نصیف اِس معاملے میں گہری دلچسپی لیتے رہے۔ بڑی رقوم بھی جمع ہوئیں اور طے پایا کہ بہاریوں کو پنجاب میں آباد کیا جائے گا۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب جناب غلام حیدر وائیں نے میاں چنوں میں اُن کے لیے مکانات بھی تعمیر کیے اور بہاریوں کے کچھ خاندان پاکستان بھی آئے، مگر یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا۔ جنرل پرویز مشرف نے پوری بساط ہی لپیٹ دی اور چیئرمین شپ سے مستعفی ہو گئے۔ سچے پاکستانیوں کو خوف اور بے سرو سامانی میں زندگی بسر کرتے ہوئے پچاس برس ہونے کو آئے ہیں۔ وہ اَب اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں اور بار بار پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستانی غیرت مند قوم کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دنوں افغانیوں اور غیر قانونی بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ اُنہیں رابطۂ عالم ِ اسلامی اور پاکستانی تارکینِ وطن کے تعاون سے بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو اپنے وطن لانے کے لیے بڑی سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے کیونکہ غیرت مند قومیں اپنے ایک ایک شہری کی عزت اور وقار کی حفاظت بڑی مستعدی اور ذمہ داری سے کرتی ہیں۔
الطاف حسن قریشی
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
pakistantime · 5 years
Text
بھارت 1947 میں واپس چلا گیا
آج اتوار ہے۔ آپ اور ہم بیٹھیں گے اپنی آئندہ نسل کے ساتھ۔ زیادہ سوالات تو ظاہر ہے کرونا وائرس سے متعلق ہوں گے۔ بلوچستان اور سندھ میں اسکول بند کیے گئے ہیں۔ بچے خوش تو ہوتے ہیں چھٹیاں ملنے سے، لیکن انہیں تشویش بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہم وطن منہ پر ماسک لگائے گھوم رہے ہیں۔ پہلے چین سے خبریں آرہی تھیں۔ اس وبا کے ہاتھوں مرنے والوں کی، اب ایران سے بھی یہ غم ناک اطلاعات آرہی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ وبا پہنچ گئی ہے مگر ہم پہلے سے تیار تھے۔ اللّٰہ کا فضل ہے کہ ہمیں اس ناگہانی آفت کا مقابلہ بہت استقامت اور شعور کے ساتھ کرنا ہے۔ سنسنی خیزی اور ہنگامہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے اکیسویں صدی کی ایک بیدار، سمجھ دار قوم کا کردار ادا کرنا ہے۔
گھبراہٹ اور پریشانی کے بجائے اس وبا کے اسباب، اس سے بچائو اور اس پر تحقیق ہونی چاہئے۔ ملک میں اتنی میڈیکل یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔ دوا ساز کمپنیوں کے اپنے تحقیقی شعبے ہیں۔ صحت کے حوالے سے متعدد این جی اوز ہیں۔ ملک میں جید اور مستند اطبا موجود ہیں۔ انہیں چاہئے کہ اس بیماری کے بارے میں تحقیق کریں۔ اللہ تعالیٰ جہاں ایسی بیماریاں ہماری آزمائش کے لیے دیتا ہے وہاں ان کا علاج بھی پہلے سے دیا ہوا ہوتا ہے۔ اللّٰہ کے نائب کی حیثیت سے ہمیں وہ جڑی بوٹی تلاش کرنی چاہئے جس میں کرونا کے مریضوں کے لیے شفا رکھی ہوئی ہے۔ احتیاطی تدابیر میں سب سے زیادہ ضروری ہاتھ صاف رکھنے ہیں۔ باہر سے آئیں تو ہاتھ اچھی طرح دھو لیں۔ جہاں اس بیماری کا شبہ ہو وہاں جانے سے گریز کریں۔ یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ ستاروں کی تسخیر کرنے والا، خلا میں چہل قدمی کرنے والا، کائنات کے اسرار و رموز جاننے والا یقیناً اس خطرناک بیماری پر بھی گرفت حاصل کر لے گا۔
آج بچوں سے ہمیں میرؔ و غالبؔ، مغل بادشاہوں کی، جامع مسجد، قطب مینار کی دلّی کے بارے میں بھی باتیں کرنا ہیں۔ جس کی مسجدوں پر راشٹریہ سیوک سنگھ کے بدقماش نوجوانوں کی یلغار کو ہمارے بیٹوں بیٹیوں نے ٹی وی پر اپنے موبائل فونوں پر دیکھا ہے۔ مسلمانوں کی دکانیں جل رہی ہیں۔ دہلی پولیس صرف ٹی وی ہی نہیں دیکھ رہی ہے، بلوئوں میں خود بھی حصّہ لے رہی ہے۔ پیارے بچو! ایک تھا بھارت۔ جس کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ جہاں کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ جہاں حکومت صرف ووٹ سے تبدیل ہوئی ہے۔ جہاں مذہب کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ جہاں سیکولر ازم کا راج ہے۔ جہاں انتہا پسند نہیں ہیں۔ یہ دعوے 5 اگست 2019 کے بعد دھرے رہ گئے ہیں۔
اب بھارت سے زیادہ انتہا پسند ملک کوئی نہیں ہے۔ جہاں مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور لاک ڈائون ہوئے 200 سے زیادہ دن گزر چکے ہیں۔ جہاں 73 سال بعد لوگوں کی شہریت مشکوک ہو گئی ہے۔ انہیں دوبارہ اپنی شناخت تسلیم کروانا ہو گی۔ جہاں مسلمان، ہندو سکھ، عیسائی پارسی سب شہریت بل کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ جہاں کے دارالحکومت دلّی میں شہریت بل مسلط کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی الیکشن میں بری طرح ہار گئی ہے۔ وہاں شکست خوردہ امیدوار کپل مشرا کے بھاشن نے آگ لگا دی ہے۔ یہ کبھی لبرل تھا۔ ترقی پسند تھا۔ پھر بی جے پی کو پیارا ہو گیا۔ خیال تھا کہ الیکشن جیتے گا۔ وزیر بنے گا مگر شکست فاش نے اسے پاگل بنا دیا۔ عین اس روز جب ایک اور انتہا پسند امریکی صدر دلّی میں تھا، اس نے شاہین باغ میں شہریت بل کے خلاف خواتین کو للکارا اور کہا کہ اگر انہوں نے احتجاج ختم نہیں کیا تو وہ اپنے نوجوانوں کو بے لگام کر دے گا۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ انسانیت کس طرح پامال ہوئی۔ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
شمال مشرقی دہلی میں جہاں وہ الیکشن ہارا تھا وہاں آگ اور گولی کا کھیل کھیلا گیا، ان فسادات نے گجرات کے بلوئوں کی یاد تازہ کر دی۔ جب مودی وہاں وزیر اعلیٰ تھا، بھارت کے لوگوں نے اس پر مودی کو مسترد کرنے کے بجائے پورا ملک اس شدت پسند کے حوالے کر دیا۔ اندرا گاندھی نے تو سقوطِ ڈھاکا کے بعد دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن یہ نظریہ قائم و دائم تھا۔ اب نریندر مودی نے اسے باقاعدہ زندہ کر دیا۔ آج قائداعظم کی بصیرت کی دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ضرورت اب اس تحقیق کی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل، سیکولر ازم پر اصرار، عدلیہ، میڈیا۔ سماج کی آزادی کے 73 سال کا نتیجہ اتنا بھیانک کیوں نکلا ہے۔ بھارت نے تو اپنی مارکیٹ کا رُخ کروانے کے لیے امریکہ یورپ کو اپنی آزاد سماجی زندگی فلموں اور ٹی وی ڈراموں کے ذریعے دکھائی تھی۔
پاکستان پر انتہا پسند دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے بھارت کی ایک ارب صارفین کی منڈی میں کاروبار کی دعوت دی تھی۔ مگر اب 73 سال بعد 1947 پھر واپس آگیا۔ وہی فسادات، وہی مسلمانوں کا قتل عام۔ پاکستان میں تو کبھی 1947 کے بعد ایسے فسادات نہیں ہوئے جس میں اس طرح ہندوئوں کا قتل عام کیا ہو۔ مسلمانوں نے مسلمانوں کو تو مارا ہے، بم دھماکے کیے ہیں، لیکن اس طرح مندروں پر سبز پرچم نہیں لہرائے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ 1947 سے پہلے کے ایسے فسادات کے بعد ہی بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ایک منطقی اور تاریخی نتیجہ۔ اب 5 اگست کے بعد اور خاص طور پر فروری 2020 میں دلّی میں جو فسادات ہوئے ہیں اس کا منطقی اور تاریخی نتیجہ کس نئے ملک کی صورت میں برآمد ہو گا۔
بھارت میں 1971 کے بعد مسلمانوں کو مسلسل دیوار سے لگایا گیا۔ پہلے ان کا ووٹ پارٹیوں کو فتح دلوا سکتا تھا۔ اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ حالانکہ ان کی آبادی بڑھ رہی تھی۔ مسلم ووٹروں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جمعیت علمائے ہند نے سیاست چھوڑ کر صرف فلاحی راستہ اختیار کر لیا۔ مسلمان مرکزی دھارے کی پارٹیوں میں شامل ہوتے رہے لیکن کسی پارٹی نے انہیں عزت اور وقار نہیں دیا۔ آر ایس ایس اور بال ٹھاکرے کا فلسفہ غالب آتا رہا۔ اب سوچنا یہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کے پاس اپنی بقا کے لیے کیا سیاسی راستہ رہ گیا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا محمود مدنی نے دہلی کے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے ہیں اور کہا ہے ’’یہ سرزمین ہماری ہے۔ ہماری رہے گی۔ ہمیں یہاں سے کوئی نہیں ہٹا سکتا‘‘۔ اب ممکن ہے جمعیت علمائے ہند دوبارہ سیاست میں داخل ہو جائے۔
بھارت سرکار نے کپل مشرا کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بھارت کے مسلمان پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس ایک راستہ ہے کہ وہ نہرو لیاقت پیکٹ 1950 کے تحت آواز بلند کرے جس میں دونوں حکومتوں نے اتفاق کیا تھا کہ کسی بھی اقلیت کے خلاف ایسے بھیانک فسادات پر منارٹی انکوائری کمیٹیاں بٹھائی جائیں گی۔ اقلیتیں جہاں رہتی ہیں وہ اس ملک کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ ان کا تحفظ ان کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کرونا وائرس نے جیسے چین کی اقتصادی ترقی روک دی ہے۔ اس وقت وہ صرف اس وبا سے بر سرپیکار ہے۔ اسی طرح مودی کی مسلم کش پالیسیوں نے پورے بھارت میں اقتصادی پیشرفت روک دی ہے۔
امریکہ سے تجارتی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔ وہ بھارتی ماہرین معیشت جو کہہ رہے تھے کہ بھارت ایک ہزار سال بعد پھر نشاۃ ثانیہ میں داخل ہو رہا ہے اور امریکہ جیسی سپر طاقت بن رہا ہے، وہ بھی اب سر گھٹنوں میں دیے بیٹھے ہیں کہ جہاں ایسے شدت پسند موجود ہیں وہاں معیشت کیسے آگے بڑھے گی۔ بھارتی میڈیا اور سنجیدہ حلقے دہلی پولیس کی نااہلی کو ان فسادات کے پھیلنے کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی اور امیت شا کی پالیسیاں دہلی میں ہی نہیں ملک کے دوسرے حصّوں میں بھی ایسے بلوئوں کا سبب بنیں گی۔ بی جے پی اپنے اور 2020 کے ابتدائی مہینے بھارت کو کم ازکم چالیس سال پیچھے لے گئے ہیں۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
moizkhan1967 · 6 years
Text
سقوطِ ڈھاکہ کی خبر سُن کر نصیر ترابی کی آنکھیں آنسوؤں سے بَھر گئیں اور بے اختیار اِن اشعار نے غزل کی شکل لے لی۔
وہ ھمسفر تھا مگر اُس سے , ھم نوائی نہ تھی
کہ دُھوپ چھاؤں کا عالم رھا , جدائی نہ تھی
,
محبتوں کا سفر ، اِس طرح بھی گزرا تھا
شِکستہ دل تھے مسافر , شِکستہ پائی نہ تھی
,
عداوتیں تھیں ، تغافل تھا ، رَنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی
,
بچھڑتے وقت ، اُن آنکھوں میں تھی ھماری غزل
غزل بھی وہ ، جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی
,
کسے پکار رھا تھا ، وہ ڈوبتا ھُوا دن
سدا تو آئی تھی لیکن ، کوئی دُھائی نہ تھی
,
کبھی یہ حال کہ دونوں میں ، یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ ، جیسے کہ آشنائی نہ تھی
,
عجیب ھوتی ھے ، راہِ سُخن بھی دیکھ ، نصیر
وھاں بھی آ گئے آخر ، جہاں رَسائی نہ تھی
”نصیر تُرّابی“
Tumblr media
18 notes · View notes
mohameedelsintrisy · 6 years
Text
الجِسر
في ليلةٍ ظلماء فارغةِ الأضواءِ أعلى جسر صغير، يفصل بين قريةٍ هادئةٍ مظلمةٍ و مدينةٍ ثائرةٍ مليئةِ بالضجيجِ ، ‏‎يقفُ شخصٌ يبدو أنه صغيرُ السنِ ولكن عن قربٍ رأيتُ ملامحَ وجه بائسةَ المعالمِ ، عينين سوداوين غارقتين في الدموعِ ، شعراً طويلاً ، ‏‎وظهراً منحنيَ، ولحيةً سوداءَ، ويداً مرتفعةَ  تجاه السماءِ.
‏‎
وقفتُ بعيداً أراقبه .. وفي هدوءٍ تامٍ ظهرتْ صرخةٌ وكأنها من داخلِ بركانٍ يثور ، تصاحبها أصواتُ نحيبٍ ، ثم استلقى على الأرضِ كصخورِ بركانٍ هادئةٍ ، وظل يضربُ بيدهِ في أرضيةِ الجسرِ .. وبعد قليلٍ من دقائق استمراره في البكاءِ ، مال بجسدِه على حافةِ الجسرِ وأخرج من جيبِه زجاجةً  بها نوعٍ من الخمورِ ولكن لم أستطع تحديدَ نوعِها بسبب الظلامِ الدامسِ.
ووقف مرة أخرى مسرعاً بشكلٍ مفزعٍ واعتلى الجسرَ.. واعتقدتُ أن هذه هي نهاية القصةِ وأنه سوف يلقي بجسدِه في المياه، ولكن رفع يديه مرة أخرى متوجهةً الي السماءِ وألقى بعضَ الكلماتِ الغريبةِ ، “أنا أتقطعُ"، "أنا أتحداكَ"، "أنتَ وغدٌ لا تهتمُ لصرخاتِي” ‏‎وكان يبدو أنه يهاجم شخصاً بصورةٍ  قويةٍ جداً .. ظهرهذا في نبرةِ صوتِه العاليةِ المليئةِ بالغضبِ والكرهِ.
‏‎ وفي ظل الخوفِ والريبةِ التي أصابتني وجدته يتراقص بشكلٍ لطيفٍ كالفراشةٍ وكأنه يطيرُ، وظهر عند مقدمةِ الجسرِ المطلةِ على المدينةِ  شخصٌ يبدو أنه مألوفٌ بالنسبةِ له … وها هي تقتربُ فتاةٌ في سنٍ صغيرٍ، قريبٍ من عمرِه ، وجههِا متوردٍ ، شعرهِا الطويلٍ تداعبُه الريحُ ، بشرتهِا البيضاء تنيرُ في الظلامِ، وتناديه :
“أيها الحبيبُ الشاردُ كنتُ أبحثُ عنك ، ماذا تفعلُ هنا ؟ هل أنت مازلتَ تمارسُ طقوسَك الغريبةَ كل يومٍ ؟!!
‏‎وفاجأة طغتْ عليه صرخاتُ هجومٍ وأسرع إليها وتقرب منها، وقال لها لماذا أنتِ هنا الآن؟! أنتِ مشتركةُ في جريمةِ تشويهِ ذاتي بهجرِك اللعينٍ.. ‏‎مكاني ليس هنا في ذلك الظلامِ، مكاني داخل أحضانِك تحتويني وتساعديني ،  ولكنك مثلُ الجميعِ مثل ذلك الوغدِ الذي كنتُ أحدثه لم أعد أحتاجُ إلى حضنِك وقلبِك وإحتوائِك بعد الآن ، الظلامُ يحتضنُي والموتُ يثيرني وطقوسي الغريبةُ أفضلُ منكِ ومن الجميعِ.
اقتربتْ منه ورفعتْ يدهَا وأناملَ أصابعِها تداعبُ خصلاتِ شعرهِ وتزيحُه بعيداً عن عينيه، فقام بدفعهِا بعيداً عنه بقوةٍ قائلاً لا تمارسي الآعيبك معي مرةً أخري، ولكنها أقتربتْ منه مجدداً وأغمضتْ عينيه وظهر على جسدِه الإستسلامُ والهدوءُ وإحتضنته إحتضاناً طيباً مليئاً بالشغفِ والعاطفةِ وقامتْ بتقبيلِ شفتيه ، وأختفتْ مسرعةٍ  في ذلك الظلامِ وعندما فتح عينيه تبسم قائلاً تلك الملاك تجيد تقبيليَ حقاً ولكنها ترحلُ مثلما رحل الأملُ والفرحُ من داخلي وكما يرحل الجميعُ في كل مرةٍ.
أنا هنا وحيدٌ في ذلك الظلامِ أنتظرُ ذلك الموتَ حتى يأخذَ روحيَ المتعفنةَ  قبل أن يفنى جسدي المتجمدُ ومشاعري الميتةُ، وذهب بخطواتٍ بطيئةٍ مائلةٍ في طريقهِ إلى نهايةِ الجسرِ وأنا مازلتُ متتبعاً لخطواته حتى وصل إلى منزلهِ.
وعدتُ في اليومِ الذي يليه متوقعاً زيارته اليومية وبالفعلِ وجدته قادماً واستمر الوضعُ  يتكررُ يومياً يمارسُ نفسَ طقوسهِ الغربيةِ ، يَشربُ الخمرَ ويبكي ويلعنُ حظَه ويتراقصُ وينتظرُ حبيبتَه ثم يرحلُ .
لكن في يومٍ ما كان غريباً لم يكنْ المكانُ مظلماً مثل المعتادِ .. كان هناك ألحانٍ كمانٍ وعودٍ وبيانو في مزيجٍ رائعٍ يخطفُ القلوبَ والأذهانَ ، ويذكرني بالموسيقى الكلاسيكيةِ التي اعتدتُ سماعهَا ليلاً وانا أجلسُ في منزلي الريفي .. ومن ثم وجدتُه قادماً مُسرعاً مُتراقصاً ، تطغى على ملامحِ وجهِه السعادةُ والفرحُ .. كنتُ متعجباً جداً من تلك الإبتساماتِ ، وسمعتُه يُنادي بصوتٍ عالٍ أنا الآن حرٌ أنا الان حرٌ، ونادي بصوتٍ حنونٍ على حبيبتِه وقال : أقتربي مني يا حبيبتي أعطيني قبلةً واحتضاناً ، أنا سعيدٌ أنا حرٌ.. وظهر فجأة نورٌ من السماءِ مثل سقوطِ  نيزكٍ يشعُ بنورٍ ساطعٍ، وفتح صدرَه ويداه مجابهتاً للضوءِ ، والضحكات تعتلي وجهَه وأنشق صدرُه بنورٍ يواجه ذلك النورَ ، كأنه لقاءٌ مرتقبٌ من قديمِ الزمانِ وتناثرتْ روحهِ  في  أرجاِء المكانِ ، ووضعتُ  يديَ على عيني من شدةِ الضوءِ ، وعندما أزلتها لم أره ووجدتُ المكانَ خالياً ..!
وعاد الظلامُ  يحتوي المكانَ وأنقطع صوتُ الموسيقى ، وبدأتُ أجهشُ بالبكاءِ .. أفتقدتُ الآن صديقاً حميماً إلى قلبي، بالفعلِ كان أقربَ أصدقائي وقضيتُ معه لياليَ طويلةً بعد هجرِ الجميعِ لقلبي. في خلال الايامِ القليلةٍ التي كنتُ اراقبُه فيها ،
وأعتقد أن ذلك الشخصَ كان المرآة التي تعكسُ مستقبلي وأنني هذا الشخصُ لكن في زمنٍ آخرٍ وصرتُ أمارسُ طقوسَه الغريبةَ حتى وقتنا هذا وأنا اكتبُ لكم عن ذلك الصديق الذي انتظرُ مرافقتَه، وأن ينشقَ صدرى مثله وتذهبُ روحي إلى السماءِ.
1 note · View note
urdunewspedia · 3 years
Text
منشیات کے عادی افراد طالبان حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گئے - اردو نیوز پیڈیا
منشیات کے عادی افراد طالبان حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گئے – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کابل: گزشتہ برس اگست میں سقوطِ کابل کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرلیا تھا جس کے بعد سے طالبان کے لیے منشیات کے عادی افراد ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق منشیات کے عادی بے گھر افغان منشیات لینے کے لیے پلوں کے نیچے جمع ہوتے ہیں اور طالبان اکثر انہیں پکڑتے اور مار تے پیٹتے ہوئے زبردستی علاج کے مراکز میں لے جاتے ہیں تاکہ سخت سردی کے باعث…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
advumarmumtaz · 3 years
Photo
Tumblr media
سقوطِ غرناطہ https://www.instagram.com/advumarmumtaz/p/CYOILdDonxb/?utm_medium=tumblr
0 notes
htvpakistan · 3 years
Text
امریکی بل میں پاکستان سے متعلق منفی حوالہ جات خارج
امریکی بل میں پاکستان سے متعلق منفی حوالہ جات خارج
امریکی ایوان کے نمائندگان نے کابل پر طالبان کے قبضے پر پاکستان کے کردار سے متعلق تمام منفی حوالہ جات خارج کردیے، مذکوہ ریفرنسز میں ملک کو سقوطِ کابل کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے ساتھ منفی پیشرفت دیکھی گئی ہے،جو گزشتہ ہفتے سری لنکن فیکٹری مینیجر کی المناک ہلاکت ہے، اس واقعے سے ملک میں سیکیورٹی کے حالات پر تشویش میں اضافہ ہوتا ہے، اس دوران امریکا کے وفد نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Tumblr media
Twelve1️⃣2️⃣Rabi-ul-Awal Eight hundred and ninty seven Hijri8️⃣9️⃣7️⃣/Two2️⃣ January fourteen hundred and ninty two Anno Domini1️⃣4️⃣9️⃣2️⃣🅰️, The fall of Granada and the end of Muslim rule in Andalusia🇪🇸. بارہ1️⃣2️⃣ ربیع الاول آٹھ سوستانوے ہجری8️⃣9️⃣7️⃣ھ/ دو 2️⃣جنوری چودہ سو بانوے عیسوی1️⃣4️⃣9️⃣2️⃣ ء کو سقوطِ غرناطہ ہوا اور اندلس🇪🇸 سے مسلمانوں کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . #12 #rabiulawwal #897 #Hijri #2 #january #1492 #AD #anno #domini #garanada #fall #ummayad #spain #Andalusia #muslimrule #end #christian #till #now #mskgb #empire #sultante #fatmi #spanish #غرناطہ #اندلس #اسپین #خلافت #بنوامیہ (at Spain) https://www.instagram.com/p/CVOGbiXoNrt/?utm_medium=tumblr
0 notes
urduclassic · 4 years
Text
ہمارے اطہر ہاشمی بھائی
احمد حاطب صدیقی کو‘ یاد ہے سب ذرا ذرا...اخبار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ‘ جو ''ذاتی
 زندگی‘‘ میں خاصے نرم مزاج تھے لیکن دفتر میں ہمیشہ سنجیدہ (اور کبھی کبھار غصے کی کیفیت میں بھی) نظر آنا شاید دفتری نظم و ضبط اور فرائض ِمنصبی کا تقاضا سمجھتے تھے۔ ایک دن انہیں ایک نوجوان سب ایڈیٹر کی چھٹی کی درخواست موصول ہوئی : ''3 مئی 1979 کو فدوی کی خالہ محترمہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی ہے‘ جس کے لیے عارض کو ایک ماہ کی رخصتِ استحقاقی مرحمت فرمائی جاوے‘‘۔ ایگزیکٹو ایڈیٹر نے درخواست گزار کو فی الفور دفتر طلب کیا اور مخصوص انداز میں باز پرس فرمائی ''کیوں میاں صاحبزادے! اپنی خالہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی میں ایک مہینے تک آپ کیا کردار ادا فرمائیں گے‘‘؟ میاں صاحبزادے نے شرما کر‘ بڑی سعادت مندی اور متانت سے عرض کیا ''دلہا کا‘‘۔ یہ صاحبزادے اطہر علی ہاشمی تھے۔ ان کی اس حد درجہ سنجیدگی اور متانت پر ایگزیکٹو ایڈیٹر بھی مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے۔ اسی روز اخبار کے نوٹس بورڈ پر یہ ''اطلاع ‘‘ بھی آویزاں تھی کہ آج اتنے بج کر اتنے منٹ پر جناب ایگزیکٹو ایڈیٹر مسکراتے ہوئے دیکھے گئے ہیں‘‘۔
اخبار کے ایڈیٹر صلاح الدین شہید ‘ اپنے جونیئرز کی صلاحیتوں کو جانچ لینے‘ انہیں نکھارنے ‘ سنوارنے اور ان کے مطابق انہیں آگے بڑھانے کو اپنے     ''ایڈیٹرانہ‘‘ فرائض کا حصہ سمجھتے تھے۔ نوجوان سب ایڈیٹر نیوز ڈیسک پر بھی ٹھیک جارہا تھا۔ صلاح الدین صاحب کو اس کے ذوقِ مزاح کا اندازہ ہوا‘ تو اسے مزاحیہ / فکاہیہ کالم لکھنے کے لیے کہا۔ یہی معاملہ طاہر مسعود کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت نوجوان طاہر مسعود کراچی میں تھا اور پھر یہیں کا ہو رہا۔ اس کا اپنا ذوق بھی تھا‘ اور کچھ گھریلو ماحول کا اثر بھی ‘ اس نے بھی اخبا ر نویسی کو روزگار بنایا... طاہر اور اطہر ہم عمر بھی تھے اور ہم ذوق بھی۔ صلاح الدین ‘ طاہر کو بھی کالم نویسی کی طرف لے آئے۔ ان کے کالم کا نام ''دامِ خیال ‘‘ اور اطہر کے کالم کا نام ''بین السطور‘‘ صلاح الدین صاحب ہی نے تجویز کیا تھا۔ طاہر مسعود بعد میں جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغیات میں کل وقتی استاد ہو گئے اور ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ اب وہ ڈاکٹر طاہر مسعود ہیں۔ اطہر ہاشمی نائٹ شفٹ کے انچارج اور میگزین ایڈیٹر سمیت مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے‘ لیکن علمی وادبی اور سیاسی وصحافتی حلقوں میں ان کی پہچان ایک مزاح نویس اور فکاہیہ نگار کی تھی۔ وہ سنجیدہ سیاسی مسائل کو بھی اس طرح موضوع بناتے کہ قاری مسکرائے بغیر نہ رہتا ۔ وہ طنز بھی کرتے تو اس شائستگی کے ساتھ کہ ''زیرِ طنز ‘‘ شخص بھی لطف اٹھاتا۔ قلم سے دلوں کو زخمی کرنے کا کام تو انہیں آتا ہی نہ تھا۔
انگریزی اور عربیِ کے درجن بھر سے ��ائد جرائد نکالنے والے‘ سعودی عرب کے ایک بڑے پبلشنگ ہائوس نے 1994 میں جدہ‘ دمام اور ریاض سے اردو اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا تو اس کے سٹاف میں زیادہ تر لوگ پاکستان سے منتخب کیے گئے۔''سینئرز‘‘ میں اطہر ہاشمی اور نوجوانوں میں ہمارے ''حسبِ حال ‘‘ والے جنید سلیم بھی تھے۔ اطہر ہاشمی 2000 میں واپس آگئے۔ بیس سال گزر گئے۔ بے پناہ مصروفیات کے اس دور میں‘ بیس سال بعد بھی جدہ والوں کو اطہر ہاشمی اسی طرح یاد تھے‘ جیسے یہ کل کی بات ہو۔ جدہ میں پاکستانی صحافیوں کی تنظیم ''پاکستان جرنلسٹس فورم‘‘ نے گزشتہ شب آن لائن تعزیتی اجلاس میں اطہر کو یاد کیا‘ اور خوب یاد کیا کہ ان کے حسنِ اخلاق کے نقوش‘ بیس سال گزر جانے کے بعد بھی تروتازہ تھے۔ پاکستان جرنلسٹس فورم نے ہر سال پاکستان میں اردو کے بہترین صحافی کے لیے اطہر ہاشمی ایکسیلنس ایوارڈ کے اجرا کا اعلان کیا۔ ابتدا میں یہ ایک لاکھ روپے کا ہو گا‘ بعد میں رقم کے علاوہ کیٹیگریز میں اضافے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
اطہر ہاشمی کچھ عرصہ قبل باریش ہو گئے۔ سر کے گھنے سفید بالوں کے ساتھ‘ سفید مونچھیں اور خاص سٹائل میں ترشی ہوئی سفید داڑھی نے ان کے بڑھاپے کو زیادہ وجیہ اور شکیل بنا دیا تھا۔ نماز روزے کے وہ لڑکپن سے ہی پابند تھے۔ اندر سے وہ اس وقت بھی ''صوفی ‘‘ تھے‘ جب جینز کی پینٹ اور شرٹ پہنا کرتے اور کبھی گریبان کا اوپر والا بٹن کھلا بھی چھوڑ دیتے ۔ شادی ابھی نئی نئی تھی۔ ایسے میں اخراجات بھی کچھ زیادہ ہی ہو جاتے ہیں: تب تنخواہ بینک اکائونٹ میں نہیں جاتی تھی‘ مہینے کی پہلی دوسری تاریخ کو نقد تھما دی جاتی۔ دفتر کے ایک بزرگ ساتھی نے اپنی ضرورت کا اظہار کچھ یوں کیا (غالباً بیٹی کی شادی کے لیے اخراجات کا معاملہ تھا) کہ اطہر نے میز کی دراز سے تنخواہ کا لفافہ نکالا اور اس کی نذر کر دیا اور گھر آکر بیگم صاحبہ سے کہہ دیا‘ اس مہینے میری تنخواہ کے بغیر‘ گھر چلانا ہو گا۔
کہتے ہیں‘ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور بعض جوڑوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ انہیں فرصت میں‘ خاصے اہتمام کے ساتھ بنایا گیا ہو گا۔ اطہر اور نیلوفر بھی ایسا ہی جوڑا تھے۔ ہماری نیلوفر بھابی بھی اطہر والا مزاج ہی رکھتی تھیں ‘ کچھ کمی بیشی تھی تو اطہر کی صحبت اور رفاقت نے پوری کر دی۔ ڈاکٹر نیلوفر ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی سے فزیالوجی کی پروفیسر کے طورپر ریٹائر ہوئیں۔ ان دنوں لیاری میں شہید بے نظیر بھٹو ٹیچنگ ہسپتال میں اپنے شعبے کی سربراہ ہیں۔ ڈائو میں اور یہاں بھی‘ مرد اور خواتین رفقا میں بعض ان کے سابق شاگرد ہیں۔ معاشی خود انحصاری نے ملازمت پیشہ خاتون میں ایک خاص قسم کی خود اعتمادی پیدا کر دی ہے‘ جس سے بعض گھرانوں میں‘ میاں بیوی کے درمیان مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ جدہ سے واپس آ کر‘ وہ اسی اخبار کے ایڈیٹر انچیف ہو گئے جس میں انہوں نے سب ایڈیٹر کے طور پر کیرئیر کا آغاز کیا تھا ۔ 
وہ اپنے اخبار کے سنڈے میگزین میں ''آدھی بات‘‘ لکھتے۔ اپنے ادارے کے ہفت روزہ ''فرائڈے سپیشل‘‘ میں ''خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے زبان و بیان کی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔ اس میں انہیں خود اپنے ادارے کے اخبار اور رسالے میں زبان کی غلطیوں کی نشاندہی میں بھی عار نہ ہوتی۔ اصلاح کا یہ خشک کام وہ بڑے دلچسپ انداز میں کرتے۔ مثلاً: ''ہم پورا زور لگا چکے ‘یہ سمجھانے میں کہ ''عوام‘‘ جمع مذکر ہیں‘ واحد مؤنث نہیں لیکن بقول احمد فراز‘ شہر کا شہر ہی دشمن ہو تو کیا کی جے؟ ٹی وی چینلز کے بقراط اور مضمون نگار عوام کومؤنث بنانے پر تلے ہوئے ہیں‘ حتیٰ کہ ہمارے اپنے گھر کے چراغ سنڈے میگزین کے کالم نگار بھی باز نہیں آتے۔ لکھتے ہیں: عوام سحر میں مبتلا ہو چکی تھی اور سوشل میڈیا پر اصرار کر رہی تھی۔ ہماری مرضی ہم عوام کو مذکر کریں یا مؤ نث‘ ہم تو ''علاوہ‘‘ اور ''سوا‘‘ میں تفریق نہیں کر پاتے‘ ایک بڑے استاد کا شعر ہے ؎
در کتنے ہی کھلتے رہے اک در کے علاوہ اک درد بھری سن کے صدا تیری گلی میں
معذرت کے ساتھ یہاں ''علاوہ‘‘ کے بجائے ''سوا‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ''علاوہ‘‘ کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ در بھی کھل گیا‘ جس کے کھلنے کی آس تھی۔ ایک صاف ستھری اور مطمئن زندگی نے اطہر کو کسی بھی طبی عارضے سے محفوظ رکھا (سگریٹ نوشی میں البتہ م��تلا رہے)۔ البتہ ڈیڑھ دو سال سے دل کی دھڑکن بے ترتیب سی رہنے لگی۔ سگریٹ نوشی سے زیادہ اس کا سبب عمر بھر کی ساتھی کو درپیش کینسر کے عارضے کا دکھ تھا۔ عید کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو سوموار کو دفتر میں پوری ''ڈیوٹی‘‘ دی۔ منگل ‘بدھ کو طبیعت مضمحل رہی۔ جمعرات کو فجر سے کچھ پہلے‘ سوتے میں ہی آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ یہ آسمانوں پر تاروں کے ڈوبنے کا وقت تھا ۔ اِدھر آسمانِ صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ بھی غروب ہو گیا۔
رؤف طاہر
بشکریہ دنیا نیوز
2 notes · View notes