عقل کا دائرہ کار
قسط: ۱۶ (آخری قسط)
(ماخوذ از اصلاحی خطبات، مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی)
(جمع و ترتیب: محمد اطہر قاسمی)
ایک واقعہ
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ہمارا ایک ہندوستانی گویّہ ایک مرتبہ حج کرنے چلا گیا۔ حج کے بعد وہ جب مدینہ شریف جارہا تھا۔ راستے میں منزلیں ہوتی تھیں، ان پر رات گزارنی پڑتی تھی۔ ایک منزل پر جب رات گزارنے کے لیے ٹھہرا تو وہاں ایک عرب گویہ آگیا۔ وہ بدو قسم کا عرب گویہ تھا۔ اس…
شبیر احمد عثمانی (ولادت: 11 اکتوبر 1887ء – وفات: 13 دسمبر 1949ء) ایک عالم دین تھے جنہوں نے 1940ء کی دہائی میں تحریک پاکستان کی حمایت کی۔ وہ ایک مذہبی عالم، مصنف، خطیب، سیاست دان، اور مفسر اور حدیث کے ماہر تھے۔
علامہ عثمانی کی پیدائش 11 اکتوبر 1887ء کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بجنور شہر میں ہوئی۔
تعلیم
علامہ عثمانی محمود الحسن کے تلامذہ میں سے تھے۔ 1325ھ بمطابق 1908ء میں دار العلوم دیوبند سے…
اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔
مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔
ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔
رئیس جمهور کومور از سوی افراد مسلح با چاقو هدف حمله قرار گرفت
غزالی عثمانی، رئیسجمهور جزایر کومور در پی حملهی افراد ناشناس با سلاح سرد دچار جراحت شده است.
رسانههای بینالمللی گزارش دادهاند که آقای «غزالی عثمانی» رئیسجمهور کومور از سوی مهاجمان . از ناحیه سر دچار آسیبدیدگی شده است.
به گفتهی رسانههای محلی، جراحت عثمانی جزئی است و خطری جان وی را تهدید نمیکند.
سخنگوی دولت کومور نیز اعلام کرد که خطر جانی رئیس جمهور را تهدید نمیکند.
از سوی هم یک منبع…
ترکی میں محکمہ آثار قدیمہ نےلاکھوں سال پرانے پتھر کے مکانات دریافت کر لئے۔
ترک ماہرین آثار قدیمہ کاکہنا ہے کہ دریافت ہونے والے پتھر کے گھر 3لاکھ سال پرانے ہیں۔گھر الوکوئے غار میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئے ہیں۔
وادی نے رومن دور، ابتدائی بازنطینی دور، سلجوق اور عثمانی ادوار میں انسانی آباد کاری کا وقت بھی دیکھا ہے۔تاریخی قلعے، محلات، مزارات، مساجد، خانقاہوں، گرجا گھروں اور پتھروں کے مکانات کی…
عقل کا دائرہ کار -قسط ۱۵- ان احکام میں قیامت تک تبدیلی نہیں آئے گی
عقل کا دائرہ کار
قسط: ۱۵
(ماخوذ از اصلاحی خطبات، مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی)
(جمع و ترتیب: محمد اطہر قاسمی)
ان احکام میں قیامت تک تبدیلی نہیں آئے گی
دوسرا حصہ، جس میں اجتہاد اور استنباط کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کے اندر بھی حالات کے لحاظ سے علتوں کے بدلنے کی وجہ سے احکام کے اندر تغیر و تبدل ہو سکتا ہے۔ البتہ پہلا حصہ بیشک کبھی نہیں بدل سکتا۔ قیامت آجائے گی لیکن وہ نہیں بدلے گا۔ اس لیے کہ وہ…
بجھنے نہ دو چراغ وفا جاگتے رہو
پاگل ہوئی ہے اب کے ہوا جاگتے رہو
سجدوں میں ہے خلوص تو پھر چاندنی کے ساتھ
اترے گا آنگنوں میں خدا جاگتے رہو
الفاظ سو نہ جائیں کتابوں کو اوڑھ کر
دانشوران قوم ذرا جاگتے رہو
کیسا عجیب شور ہے بستی میں آج کل
ہر گھر سے آ رہی ہے صدا جاگتے رہو
پہلے تو اس کی یاد نے سونے نہیں دیا
پھر اس کی آہٹوں نے کہا جاگتے رہو
پھولوں میں خوشبوؤں میں ستاروں میں چاند میں
کھولے گا کوئی بند قبا…
پاف سرویس خواب چیست؟ پاف ها یا پوف ها از دسته مبل ها هستند که به عنوان اکسسوری های مناسب برای سرویس خواب استفاده می شوند. این روزها، پاف ها بسیار کاربردی و محبوب شده اند و به عنوان وسیله ای برای دکوراسیون و زیبایی فضا مورد استفاده قرار می گیرند. علاوه بر این، پاف ها به عنوان محلی برای قرار دادن پاها و جلوگیری از افتادگی پاها هنگام نشستن نیز استفاده می شوند.
در مقایسه با مبل ها و صندلی ها، پاف ها فاقد پشتی برای تکیه گاه هستند و ارتفاع کمتری نسبت به مبل ها دارند که این ویژگی آنها را از سایر مدل های صندلی متمایز می کند. در نهایت، پاف ها یا پوف ها به دلیل طراحی منحصر به فرد و کاربری چندگانه، به یک انتخاب مناسب برای هر فضای داخلی تبدیل شده اند.
تاریخچه پاف
پاف ها یا پوف ها جزء ابزارهایی هستند که در زمان حکومت عثمانی ها برای جلوگیری از درد و خستگی پا استفاده می شدند. مردم ترک حکومت عثمانی برای استراحت و آرامش، پاهای خود را بر روی چهارپایه های چوبی قرار می دادند. این عمل به خصوص برای بافندگان فرش و قالی بافان بسیار مهم بود، زیرا آنها برای ساعت ها نیاز به نشستن و کار کردن داشتند.
این روش به مرور زمان به شکل های مختلفی تغییر کرد و به یک صنعت مورد علاقه برای آنهایی که به دنبال راحتی و آرامش بودند، تبدیل شد. امروزه پاف ها یا پوف ها به عنوان یک وسیله راحتی و استراحت برای پاها مورد استفاده قرار می گیرند، ولی ریشه های آنها به قرون گذشته برمی گردد.
قالی بافی در ساخت پاف
استفاده از قالی بافی در ساخت پاف یکی از ریشه های این سبک مبلمان است. قالی بافی ها از قدیم الایام از محصول تولیدی خود یا همان فرش ها برای استراحت و راحتی استفاده می کردند. قالی باف های ترک عثمانی از قالیچه های خود استفاده کرده و آنها را به صورت چهار لایه بر روی چهار پایه چوبی قرار می دادند.
این طرح چهار پایه و قالیچه ای به روی آن از قالی بافی های دوره عثمانی آمده و طرح اولیه پاف ها امروزی محسوب می شود. از آن زمان تا به امروز، مبلمان هایی با الهام از این طرح ها طراحی و تولید شده اند و به عنوان مبلمان زیبا و کاربرد زیاد پاف در دکوراسیون خانه شناخته می شوند که حتی در قصرهای امپراطوران و خانه های اشراف و اعیان حکومت عثمانی نیز مورد استفاده قرار گرفته اند.
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی ، اور ( اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ) کہا تھا کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمائے ، اور ہماری اس صورت حال میں ہمارے لئے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجئے ۔(تخریج از تفسیر تقی عثمانی دامت برکاتہ العالیہ و حفظہ اللہ تعالٰی)
| رشد | کا مفہوم : | رشد | کے معنی ہیں اس نے ہدایت اور استقامت پائی۔ رَشِدَ امرہ کے معنی ہوں گے کہ اس نے اپنے معاملے میں ہدایت پائی ۔مفہوم ہوگا کہ اے ہمارے رب ہمارے لئے اس راہ میں جو ہم نے اختیار کی ہے تو رہنمائی اور استقامت مہیا فرما۔
نوجوانوں کی دعا :
یہ وہ دعا ہے جو ان نوجوانوں نے اس وقت کی ہے جب انہوں نے غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا ۔ آیات کے الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ نوجوان لوگ تھے۔ نوجوانوں میں جب ایک مرتبہ حق کی حمیت جاگ پڑتی ہے تو پھر نہ وہ مصالح کی پروا کرتی ہے اور نہ خطرات کی۔ لیکن ان لوگوں کے اندر صرف جوانی کا جوش ہی نہیں تھا بلکہ اللہ کی بخشی ہوئی حکمت کا نور بھی تھا۔ اس وجہ سے اس نازک مرحلہ میں انہوں نے اللہ سے رہنمائی اور استقامت کی دعا کی اور یہی بات اہل ایمان کے شایان شان ہے۔
سرگزشت کا خلاصہ بطور تمہید :
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد کی دو آیات اصل سرگزشت کے خلاصہ کے طور پر ہیں جن میں پہلے اجمال کے ساتھ سرگزشت قاری کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ اس کے بعد پوری سرگزشت تفصیل کے ساتھ سامنے آئے گی۔ تفصیل سے پہلے اجمال کا یہ طریقہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مدعا نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔ دوسری ضمنی باتیں اس کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں سرگزشتوں کے بیان میں یہ طریقہ قرآن نے جگہ جگہ اختیار کیا ہے۔(تخریج از۔ تدبر القرآن مولانا امین احسن اصلاحی رح)