Tumgik
#فوجی عدالتیں
urduchronicle · 8 months
Text
فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا بینچ تحلیل ہو گیا
فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کابینچ ٹوٹ گیا،جسٹس سردار طارق مسعود بینچ سے الگ ہو گئے۔ سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں قائم 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسن نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ بینچ کی دوبارہ تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے۔  اس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
risingpakistan · 9 months
Text
سپریم کورٹ بمقابلہ سپریم کورٹ
Tumblr media
سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے اپنے حالیہ فیصلے کو معطل کر دیا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ایک ہی دن کیس سن کر نہ صرف 9 مئی کے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا بلکہ آرمی ایکٹ کی دہائیوں پرانی متعلقہ قانونی شقوں کو بھی اُڑا دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ شقیں غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں اُس پانچ رکنی بنچ میں صرف ایک جج صاحب جسٹس یحییٰ آفریدی نے اگرچہ 9 مئی کے ملزمان کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن اُنہوں نے قانون کی متعلقہ شقوں کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کی مخالفت کی تھی۔ اُس فیصلہ کو اگرچہ ایک طرف تحریک انصاف، سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے سراہا گیا لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں اوربالخصوص فوج کی طرف سے بہت منفی انداز میں دیکھا گیا اور اسی بنیاد پر اُس فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں، جنہیں  سپریم کورٹ میں سنا گیا۔ 
ایک عمومی اعتراض سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے پر یہ اُٹھایا گیا کہ ایک انتہائی اہم معاملہ کو ایک ہی دن بغیر متعلقہ پارٹیوں کو سنے سپریم کورٹ نے فیصلہ کرنے میں بہت جلدی کر دی اور اگر 9 مئی کے ملزمان کی حد تک کوئی فیصلہ بھی کر دیتے تو بہت سوں کو قابل قبول ہو سکتا تھا لیکن آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقوں کو ہی ختم کرنے کے، پاکستان کی سالمیت، دفاع اور سیکورٹی کے متعلق سنگین نتائج تھے، جنہیں عدالت نے نہ دیکھا۔ اُس فیصلہ کے مطابق کلبھوشن یادیو اور دہشت گردی میں ملوث اُس جیسے بھارتی جاسوسوں کا بھی ملٹری ٹرائل اب نہیں ہو سکتا۔ اس فیصلے کے مطابق کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی دہشت گرد اگر فوج پر براہ راست حملہ کرتا ہے جیسا کہ گزشتہ روز ڈیرہ اسمعٰیل خان میں ایک دہشت گرد حملہ کیا گیا، جس کے نتیجہ میں 23 فوجی جوان شہید ہو گئے، اُن کا بھی مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا۔
Tumblr media
یاد رہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول سانحہ کے بعد آئین میں ترمیم کر کے پہلے دو اور پھر چار سال کیلئے فوجی عدالتوں کو اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ ایسے دہشت گردوں، جو سویلینز کو ٹارگٹ کرتے ہیں، کے مقدمات چلائیں کیوں کہ عمومی طور پر دیکھا گیا تھا کہ ہماری عام عدالتیں دہشت گردوں کو سزا دینے میں ناکام رہتی ہیں، یہ بھی کہا گیا تھا کہ کئی جج ڈر اور خوف کی وجہ سے دہشت گردوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور یوں دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ملٹری کورٹس نے آئینی ترمیم کے مطابق فیصلے دئیے، بہت بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو سزائیں دی گئیں جس سے پاکستان کے اندرونی حالات کافی بہتر ہو گئے جوکچھ عرصے سے پھر بگڑ رہے ہیں۔ 9 مئی کو جو ہوا وہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا، جب تحریک انصاف کے مشتعل ورکرز نے عمران خان کی گرفتاری پر فوجی تنصیبات پر ہی حملے کر دئیے اور یوں تقریبا ًکوئی 102 سویلینز جو براہ راست ان حملوں میں ملوث تھے اُن کا معاملہ فوجی ٹرائل کے زمرے میں آ گیا۔ 
کوئی شک نہیں کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو ماضی میں کئی کیسوں میں غلط بھی استعمال کیا گیا لیکن جب ایسے معاملات ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے آتے ہیں تو اُنہیں ایسے معاملات کے تمام پہلووں کو بھی دیکھنا چاہیے، کسی ایک پہلو کو اہمیت دے کے دوسرے کئی اہم پہلو نظر انداز کرنے سے ملک اور اداروں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ جو خرابیاں ہوں اُنہیں دور کیا جائے، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو، قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ ایک سوال بڑا متعلقہ ہے کہ اگر فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل سے روک دیا جائے تو کیا پاکستان کی عام عدالتیں اس قابل ہیں کہ وہ فوج، عوام اور پاکستان پر حملہ آوار ہونے والوں کے ٹرائل کے فیصلہ کریں۔ یہاں تو عام کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، بڑے بڑے چور ڈاکو چھوٹ جاتے ہیں۔ آج جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے 9 مئی کے ملزمان کے حوالے سے یہ فیصلہ کر دیا اور موجودہ اپیلوں پر فیصلے تک 102 گرفتار افراد کے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ روز پیش آئے 23 فوجیوں کی شہادت کے واقعے کا تذکرہ بھی ہوا۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کل جو 23 بچے شہید ہوئے ان پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ فوجی جوانوں کو شہید کرنے والوں کا تو اب ٹرائل نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کالعدم ہو چکا، جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان سویلینز کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا؟ یہ وہ سوال ہے جو سپریم کورٹ کے پہلے بنچ کو سوچنا چاہیے تھا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
mingleup · 1 year
Text
پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنماء پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے حق میں کیوں کھڑے ہو گئے۔
فوجی عدالتیں پرانا قانون یا نیا قانون۔
ججوں میں اختلاف کھل کر۔
الیکشن میں کس پارٹی کا باجا بجے گا، کس پارٹی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
تفصیلات جاننے کے لیئے وڈیو دیکھیئے۔
youtube
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
ثاقب نثار کے اعترافات
Tumblr media
پاکستان کے نویں چیف جسٹس شیخ انوارالحق کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ایک ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان نے انہیں ہائیکورٹ کا جج بنایا، دوسرے ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا جب کہ تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ جالندھر سے تعلق رکھنے والے شیخ انوارالحق نے انڈین سول سروس سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، انتظامیہ سے عدلیہ کی طرف آئے تو کراچی اور لاہور سمیت متعدد اضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کیا۔ جسٹس انوارالحق تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اکانومسٹ تھے مگر عدلیہ کا رُخ کیا تو یہاں بھی اپنی قابلیت کا سکہ منوایا لیکن انہیں تاریخ ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد کرتی ہے جن کے دور میں نہ صرف مارشل لا کی توثیق کی گئی بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹر کو آئین میں من چاہی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس ان کے دامن پر سب سے بدنما داغ ہے، وہ عمر بھر اس حوالے سے وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ جسٹس انوارلحق اپنی کتاب ’’Revolutionnary, Legality in Pakistan‘‘ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کوآئین سازی یا آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت ضرور دی مگر یہ اجازت صریحاً نظریۂ ضرورت کے تحت دی گئی۔
یہ ایک عبوری بندوبست تھا اور فیصلے کے مطابق عدالتیں نظریہ ٔضرورت کے تحت سی ایم ایل اے کی طرف سے بنائے گئے کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی تھیں۔ نصرت بھٹو کیس میں جسٹس افضل چیمہ نے اضافی نوٹ لکھ کر نظریۂ ضرورت کے حق میں دلائل دیئے اور لکھا کہDoctrine of Necessity یعنی نظریۂ ضرورت کو اسلامک جیورس پروڈنس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس انوارالحق کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس بنچ میں شامل بیشتر جج صاحبان صفائیاں دیتے رہے یا پھر ندامت کا اظہار کرتے دکھائی دیئے۔ جسٹس دراب پٹیل جن کا شمار باضمیر جج صاحبان میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی برملا اس فیصلے پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل اپنی سوانح حیات ’’Testament of a liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر تنقید کی گئی کیونکہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لا جرنلز شائع نہیں ہوتے جن میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور ان پر تنقید کی جائے چنانچہ یہ کام جج صاحبان خود کر سکتے ہیں اور انہیں یہ کرنا چاہئے کہ مخصوص وقت کے بعد اپنے فیصلوں پر تنقید کا جائزہ لیں۔
Tumblr media
(نصرت بھٹوکیس) پر ہونے والی تنقید کہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دے دیا، اس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ تنقید درست ہے۔ نصرت بھٹو کیس کے بعد جنرل ضیا الحق نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے آئین سازی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں آرٹیکل 212A کا اضافہ کر کے اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹ دیئے۔ آرٹیکل 212A کے تحت سپریم کورٹ پر تو کوئی قدغن نہ لگائی گئی البتہ ہائیکورٹس کو فوجی عدالتوں سے متعلق رٹ جاری کرنے سے روک دیا گیا گویا اب ہائیکورٹ کسی فوجی عدالت کی کارروائی روکنے کے لئے حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ دراب پٹیل اپنی خود نوشت ’’Testament of a Liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 212A کے نفاذ سے پہلے جنرل ضیا الحق نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوارالحق اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق کو مشاورت کے لئے راولپنڈی بلایا۔ جسٹس انوارالحق ،جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اورمیں، ہم سب پشاور میں تھے۔ 
مولوی مشتاق کے مطابق انہیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق آئین کو منسوخ کرنیوالے ہیں اس لئے انہوں نے آئین کی منسوخی کے متبادل کے طور پر ایک آئینی مسودہ تیار کر لیا۔ یہ آئینی مسودہ جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس انوارالحق نے اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کیں۔ پھر یہ دونوں چیف جسٹس صاحبان جنرل ضیاالحق سے ملنے گئے جو راولپنڈی میں سینئر جرنیلوں کے ہمراہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ملاقات بہت کٹھن تھی مگر آخر کار جرنیلوں نے دونوں چیف جسٹس صاحبان کا تیار کردہ مسودہ قبول کر لیا اور آئین کو منسوخ کرنیکا ارادہ ترک کر دیا گیا۔ اس مسودے نے ہی آرٹیکل 212A کی شکل اختیار کی اور سپریم کورٹ کی جیورس ڈکشن کو بچا لیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ اس خوش فہمی کی بنیاد پر دیا گیا کہ اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں ان کے جوڈیشل ریویو کا اختیار باقی ہے مگر پھر خود ہی اپنے ہاتھ قلم کر دیئے گئے۔ 
یہ سب باتیں یوں یاد آئیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند صحافیوں سے گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ بطور جج ان سے غلط فیصلے ہوئے۔ مگر ان فیصلوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ بعد از مرگ ان کی آپ بیتی شائع ہو گی جس میں یہ تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ اگر جسٹس دراب پٹیل کے الفاظ مستعار لوں تو پاکستان میں جج صاحبان خود ہی اپنے فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ یادداشتیں اور مشاہدات قلمبند کئے جائیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی زندگی میں ہی اعتراف کرلیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کس طرح ہوا۔ حال ہی میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح حیات شائع ہوئی۔ بہتر ہو گا کہ ثاقب نثار بھی اپنی زندگی میں ہی یہ کتاب منظر عام پر لے آئیں۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
ملک کی بدلتی صورتحال
قارئین میں اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم ایہود اونمرت کا قصہ بتاتا ہوں۔ وہ اسرائیل کا وزیراعظم تھا، اس نے 7 سال فوج میں ملازمت کی پھر وزیر کے عہدے پر کام کرتا رہا۔ القدس کا میونسپل صدر رہا، نائب وزیر اعظم بھی رہا اور پھر وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوا ۔2009 میں انکشاف ہوا کہ جب یہ میونسپل کا صدر تھا تو اس نے رشوت لی تھی، جس پر 11 سال یعنی 2016 تک کورٹ میں مقدمہ چلتا رہا حتیٰ کہ اس کا رشوت لینا ثابت ہو گیا اور کورٹ نے اس کو 7 سال کی سزا دے دی۔ جب جرم ثابت ہو گیا تو کسی اسرائیلی نے یہ نہیں کہا کہ یہ فوجی تھا یا ہمارا وزیر اعظم رہا اور اس نے ملک کی بہت خدمت کی تھی، بلکہ وہ قوم کے نزدیک صرف ایک رشوت خور اور لٹیرا تھا۔ یہ سبب ہے ان کی کامیابیوں کا اور ہماری ناکامیوں کا کیونکہ کہ ہم ایسے لیڈروں کے جنہوں نے ہمیں لوٹا، گن گاتے ہیں اور ان کے سروں پر تاج پہناتے ہیں۔
اس وقت حکومت اور پی ٹی آئی میں کشمکش جاری ہے، عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر فیصلے دے رہی ہیں۔ لاہور کی عدلیہ کچھ اور فیصلے دے رہی ہے اور اسلام آباد کی عدلیہ کچھ اور۔ اس وقت سب کے گناہ معاف ہو رہے ہیں۔ کوئی پنجاب پر قابض ہے توکوئی اسلام آبا د پر۔ انتظامیہ بھی خاموش ہے، فوج بھی خاموشی سے دیکھ رہی ہے ۔ پاکستان کا کیا ہو گا ؟ صوبے اپنے اپنے مطلب کی باتیں کر رہے ہیں، تمام وہ افراد جن کو سزائیں دی گئی تھیں اب ان کو آہستہ آہستہ بری کیا جا رہا ہے۔ ہر صبح ایک نئی بریت کا اعلان ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام لااینڈ آرڈر، مہنگائی اور سیلاب سے پریشان ہیں، اس وقت یہ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ یہ ملک کون چلا رہا ہے اور کب تک اس طرح چلتا رہے گا ؟ کل تک جو چل نہیں سکتے تھے اور پاکستان میں جن کا علاج نہیں ہو سکتا تھا وہ نیب کے جاتے ہی سوٹ پہن کر باہر آگئے اور اسمبلی سے حلف اٹھا کر وزیر خزانہ بنا دئیے گئے۔
اب ایک اور بیمار صرف نواز شریف صاحب رہ گئے ہیں اور ان کو لینے ان کی صاحبزادی مریم نواز پہنچ چکی ہیں اور اب لگتا ہے وہ بھی صحت مند ہو جائیں گے ۔ یہ بھی افواہیں سننے میں آرہی ہیں کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ فروخت کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ ڈالر کیوں نیچے آرہا ہے یہ آج تک سمجھ نہیں آیا اور یہ پہلے کیوں اوپر جا رہا تھا اس کی بھی سمجھ نہیں آئی، نواز شریف صاحب کی ہی حکومت تھی اس وقت مفتاح اسماعیل صاحب وزارتِ خزانہ چلا رہے تھے اور اب بھی نواز شریف صاحب کی حکومت ہے اور ان کے سمدھی اسحاق ڈار صاحب وزارتِ خزانہ چلا رہے ہیں، فرق صاف ظاہر ہے۔ یہاں میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ باہر کے ملک میں ایک  شخص پر سائیکل چوری کا الزام لگا اور کیس چلتا رہا اور آخر میں جب اس کو جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے کہا کہ استغاثہ تمہارے خلاف سائیکل کی چوری کا ثبوت فراہم نہیں کر سکا لہٰذا ہم تمہیں باعزت بری کرتے ہیں، ملزم نے جواب دیا جج صاحب تو کیا میں وہ سائیکل استعمال کر سکتا ہوں؟ 
جج نے ہڑبڑا کر کہا کہ یہ جا کر اس کے مالک سے پوچھو، ایسے ہی کچھ ایون فیلڈ میں ہوا۔ ماشاء اللہ برسوں سے ایون فیلڈ میں نوازشریف کی فیملی رہتی تھی اور اچانک پتہ چلا کہ یہ تو منی لانڈرنگ کا پیسہ تھا۔ نیب نے ثابت کیا اور ایک عدالت نے سزا بھی دی مگر دوسری عدالت نے بری کر دیا ۔ پہلے انہوں نے کہا تھا کہ میری تو کوئی پراپرٹی نہیں ہے پھر اچانک اتنی بڑی پراپرٹی نکل آئی یہ بھی کمال کی بات ہے ۔ نواز شریف نے بھی اسمبلی میں بھی یہی بیان دیا کہ الحمدللہ ہماری کوئی پراپرٹی نہیں ہے، پھر کہا کہ یہ میرے بچوں کی ہے اور وہ اب پاکستانی نہیں ہیں، طرح طرح کے بہانے تراشتے رہے قطری خط بھی آیا مگر پھر بھی سزا ہوئی اب نواز شریف کو واپس لا نے کیلئے میرا خیال ہے فیصل واوڈا کیس کی طرح ان کا کیس بھی ایسے ہی سنا جائے گا اور شاید وہی فیصلہ ہو کہ ایک آدمی کو کیسے ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دیاجا سکتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے وہ بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔
حکومت نے اب اراکینِ پارلیمنٹ کی گرفتاریاں روکنے سے متعلق اہم بل سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ سینیٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی گرفتاری کو مشکل ترین بنانے کا بل سینیٹر میاں رضاربانی نے پیش کیا جو مسٹر کلین سمجھے جاتے ہیں ۔ مجوزہ بل میں ارکان پارلیمنٹ کی قتل سمیت کسی بھی الزام میں گرفتاری انتہائی مشکل بنائی جارہی ہے، کسی رکن اسمبلی یا سینیٹ کو اجلاس سے 8 دن قبل گرفتار نہیں کیا جاسکے گا، پارلیمنٹ کے احاطے سے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گا، عدالتی کارروائی بھی کسی سیشن کے دوران نہیں کی جاسکے گی۔ بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اجلاس سے 15 روز قبل اور 15 روز بعد تک کے پروڈکشن آررڈز جاری کرنا ہوں گے۔ سبحان اللہ کیسی منطق نکالی گئی ہے خیال رہے کہ چیف جسٹس خود نیب اور دیگر ترامیم پر برہمی کا اظہار کر چکے ہیں مگر ہمارے سیاستدان باز ہی نہیں آرہے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
نظریہ ضرورت اور ہمارا سیاسی مستقبل
پاکستان کی سیاست میں جب تک ’’ نظریۂ ضرورت‘ رہے گا تب تک این آر او بھی رہے گا۔ دوبار امید ہوئی کہ شاید یہ ضرورت کا نظریہ دفن ہو جائے مگر حالات نے ثابت کیا کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہتا ہے۔ اس ’ نظریے‘ نے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ پر منفی اثرات مرتب کیے بلکہ سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچایا جب آئین کے محافظوں نے خود آئین کو روند ڈالا۔ ایک بار 1970 میں عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اب کبھی مارشل لا نہیں لگے گا مگر 5 جولائی،1977 اور پھر 12 اکتوبر 1999 کے غیر آئینی اقدامات کو جس طرح آئینی تحفظ حاصل ہوا اس نے ایسے منفی رجحانات کو جنم دیا جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔ پاکستان میں جسٹس منیر کے لگائے ہوئے اسی پودے نے آگے چل کر ’ این آر او ‘ کو جنم دیا۔ آمروں کو اگر نظریہ ضرورت نے طاقتور بنایا تو انہوں نے اس کو اپنا ہتھیار بنا کر سیاست میں غیر جماعتی کاروباری سیاست اور این آر او جیسے نظریات کو جنم دیا ۔
ہماری 75 سالہ تاریخ کا بدترین ’’ این آر او ‘ دراصل یہی ایک نظریہ ہے جس نے ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک تمام فوجی ایڈونچرز کو جائز اور درست قرار دیا۔ لہٰذا ہماری موجودہ سیاسی نسل یا یوں سمجھیں کہ آئندہ آنے والی سیاسی قیادت کو بھی انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا ورنہ اگر ہماری عدالتیں 5 جولائی،77 اور 12 اکتوبر کی رات بھی کھل جاتیں تو شاید ہمیں کوئی سیاسی سمت مل جاتی۔ آج ہماری سیاسی بحث کا موضوع وزیراعظم (سابقہ یا موجودہ) کی مبینہ’ آڈیو لیک‘ ہیں جس سے بقول بہت سے مبصرین خود وزیراعظم ہائوس کی سیکورٹی پر سوالات اٹھ گئے ہیں مگر آج سے 17 سال پہلے آج ہی کے دن تقریباً شام کے وقت چند اعلیٰ فوجی افسران آئے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو ’’ کان سے پکڑ کر‘ بے دخل کر دیا اس وقت نہ ملک میں مارشل لا لگا تھا نہ اسمبلی ٹوٹی تھی۔ بعد میں دو سال بعد اس اقدام کو اعلیٰ عدلیہ کی مہر تصدیق ثبت کر کے ’جائز و آئینی‘ قرار دے دیا گیا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو پہلے ملزم، پھر مجرم اور پھر این آر او دے کر ملک سے باہر بھیج دیا گیا تاکہ اقتدار چلتا رہے آمروں کا، ایسا ہی کچھ 1981 میں بیگم نصرت بھٹو کیس میں ہوا۔
ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست دفن کر دی گئی اور ضرورت کے نظریے کو فروغ ملا۔ بدقسمتی سے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے اقدامات کواس وقت کی حکومت کے سیاسی مخالفین نے نہ صرف ویلکم کیا بلکہ مٹھائیاں بھی بانٹیں۔ میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، عمران خان، آصف علی زرداری، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، بلاول بھٹو اور مریم نواز سیاسی طور پر انہی 45 برسوں میں سامنے آئے۔ ان میں کچھ دوسرے سیاسی اکابر کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے مگر کم وبیش آج کی سیاست انہی کرداروں کے گرد گھومتی نظر آرہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی زرداری صاحب کے سپرد ہوئی اور اب پچھلے دنوں میاں نواز شریف کی لندن میں اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس سے اس تاثر نے زور پکڑا کہ مسلم لیگ (ن) کی آئندہ قیادت کس کے سپرد ہونے جارہی ہے جبکہ پی پی پی میں اب بلاول بھٹو ہی آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔
ان دو خاندانوں کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج ایک 70 سالہ مگر انتہائی فٹ عمران خان کا ہے۔ مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ اگر خاندان سیاست میں نہیں تو پاکستان تحریک انصاف میں بہرحال عمران کے بعد ’ کون‘ کا سوال جنم لے رہا ہے کیونکہ دوسرے چیئرمین کی رونمائی نہیں ہوئی۔ سیاسی طور پر عمران آئندہ ہونے والے انتخابات چاہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ہوں یا کچھ پہلے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار وزرات عظمیٰ کے نظر آتے ہیں مگر یہ صورتحال آج سے ایک سال پہلے نہیں تھی جب مسلم لیگ (ن) پنجاب اور پی پی پی سندھ میں واضح طور پر آگے نظر آرہی تھی۔عدم اعتماد کی تحریک نے گویا عمران کو پانچ سال اور دے دیے ہیں۔ اب اگر کوئی غیر معمولی حالات ہو جائیں تو الگ بات ہے مگر مسلم لیگ کو اپنے مضبوط قلعہ پنجاب میں تخت پنجاب اور مرکز میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خود پارٹی کے اندر بھی ابھی ’ رسہ کشی ‘ نے تیز ہونا ہے۔
میاں نواز شریف نے حال ہی میں ہونے والی میڈیا ٹاک میں کچھ بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں جن کا گہرا تعلق 2016 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس انداز میں ’’ پانامہ پیپرز‘ کیس آگے بڑھا اور پہلے سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی ہوئی اور پھر احتساب عدالت سے سزا اس نے کئی سوالات کو جنم دیا مگر ’ پانامہ پیپرز ‘ میں اپنے بچوں کے نام آنے کے سوال کا جواب تو بہرحال ان کو ہی دینا تھا۔ میرے سوال کا تعلق 2016 کے بعد کی سیاست سے نہیں کیونکہ عدالتی فیصلوں اور نااہلی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا سیاسی قلعہ مضبوط رہا۔ میاں صاحب سے میرے سوال کا تعلق 12 اکتوبر 1999 کے بعد ہونے والے اس ’’ معاہدے ‘ سے ہے جس کے تحت وہ اپنے اہل خانہ سمیت 10 سال سیاست کو خیر باد کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور سزا کے لیے جاوید ہاشمی کو چھوڑ گئے۔
 شاید اس وقت اگر وہ سیاسی طور پر تھوڑے سے بھٹو بن جاتے تو آج کی سیاست مختلف ہوتی۔ مطلب یہ نہیں کہ اللہ نہ کرے آپ پھانسی چڑھ جاتے مگر کم ازکم ایسے NRO سے تو بہتر تھا یہاں جیل میں وقت گزارتے، کلثوم نواز صاحبہ مرحومہ نے جو ایک غیر سیاسی خاتون تھیں جدوجہد کی بنیاد رکھ دی تھی۔ وہ بے شک ایک بہادر خاتون تھیں ان سے چند ملاقاتیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ میاں صاحب سے دوسرا سوال یہ کہ آپ نے تین سال پہلے کیا کیا؟ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے مگر آپ ’علاج ‘ کی غرض سے باہر گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اگر آپ چند ماہ بعد ہی واپس آجاتے اور عدالتوں کا سامنا کرتے تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی، اب اس کو میں اور کیا کہوں سوائے این آر او کے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بہت نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ اگر ’نظریہ ضرورت‘ نے PCO کو جنم دیا اور یوں بہت سے اعلیٰ ترین جج جو چیف جسٹس بن سکتے تھے حلف لینے سے انکار پر نہ بنے مگر تاریخ آج بھی جسٹس دراب پٹیل کو یاد رکھتی ہے۔ ’نظریہ ضرورت‘ اور این آر او ہی اگر ہمارا سیاسی مستقبل ہیں تو دراصل ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ باقی ضرورت کے نظریہ کی سیاست تو چلتی رہے گی اور نئے نئے کردارسامنے آتے رہیں گے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کہ پار اترا تو میں نے دیکھا
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
فوجی عدالتیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنائی گئیں: فواد چوہدری @fawadchaudhry #nationalactioplan #aajkalpk لاہور: وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہاہے کہ ق لیگ کے تحفظات کو دور کیا جائے گا اور کوئی اتحادی چھوڑ کر نہیں جارہا۔ لاہور میں میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی سیاست کرنے کا حق حاصل ہے، پی ٹی آئی اور ق لیگ ایک جماعت نہیں، ق لیگ کے تحفظات کو دور کیا جائے گا، چوہدری برادران سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، کوئی اتحادی چھوڑ کر نہیں جارہا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنائی گئیں اور سب کے اتفاق رائے سے بنی تھیں، ملک سے متعلق فیصلوں کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کی طرف سے کوئی بہتر تجویز آئی تو غور کریں گے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت ہر جماعت کا سیاسی نظریہ ہے، جمہوریت جرائم پر پردہ ڈالنے کا نام نہیں بلکہ احتساب کا نام ہے۔ مزید پڑھیں: ہماری سرزمین کی شاندار خوبصورتی کا کوئی ثانی نہیں: عمران خان اس سے قبل لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراطلاعات نے کہاکہ معیشت بہتر ہورہی ہے، یہ سال بیرونی سرمایہ کاری اور برآمدات کا ہوگا، اس سال پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ایکسپورٹ کرے گا اور اس سال پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری آئے گی، اس سال عمران خان کی قیادت میں معاشی سفر طے کریں گے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھاکہ سیاسی جماعتوں کے بغیر ملک نہیں چلتا، سیاسی جماعتیں حقیقت ہیں، یہاں جھگڑا صرف سیاسی جماعتوں میں دو بڑوں کو این آر او دینے کا ہے۔
0 notes
Text
فوجی عدالتیں اور سویلین ٹسوے! - وسعت اللہ خان
فوجی عدالتیں اور سویلین ٹسوے! – وسعت اللہ خان
آثار یہی بتاتے ہیں کہ دو برس پہلے کی طرح اس بار بھی ارکانِ پارلیمان اور پارلیمانی لیڈرآنکھوں میں آنسو بھر کے گلوگیر تقاریر کے بعد انتہائی بوجھل دل سے اپنی آئینی و قانونی بلا  گلے سے اتار کے خصوصی فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیں گے اور پھر پہلے کی طرح شکر بجا لاویں گے کہ کم ازکم مزید دو برس کے لیے سویلین عدالتی نظام اور تفتیش کاری کو انصاف کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے پہاڑ جیسے کام سے نجات…
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
2007 کی وکلاء کی تحریک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکی ، وزیر اعظم کو افسوس ہے۔
2007 کی وکلاء کی تحریک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکی ، وزیر اعظم کو افسوس ہے۔
اسلام آباد – وزیر اعظم عمران خان نے قانون کی حکمرانی کو ایک مہذب معاشرے کا ایک اہم حصہ قرار دیا اور کہا کہ ان کی حکومت عدلیہ کو بہتر کام کے حالات فراہم کرے گی تاکہ عوام کے لیے فوری انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔
وزیراعظم نے یہ بات منگل کے روز یہاں 93 ضلعی عدالتوں پر مشتمل جوڈیشل کمپلیکس کی سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول بینچ ، بار اور درخواست گزاروں کو سہولت فراہم کرے گا۔ جوڈیشل کمپلیکس ، جو کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) جی 11/4 میں 195،000 مربع فٹ کی زمین پر تعمیر کیا جائے گا ، چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔
فی الحال ، ضلعی عدالتیں پچھلے 40 سالوں سے F-8 مرکز میں کرائے کے بازار میں کام کر رہی ہیں ، ججوں ، وکلاء اور درخواست گزاروں کے لیے مناسب سہولیات کے بغیر۔
انصاف کی فراہمی کو بالخصوص کمزور طبقات کو ترجیح دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کا نام بھی اسی عنوان اور وژن پر 25 سال پہلے رکھا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ انہیں فوجی آمر کے خلاف 2007 کی وکلا تحریک کی “مہاکاوی جمہوری جدوجہد” کا حصہ بننے پر فخر ہے ، تاہم افسوس ہے کہ اہداف مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکے۔
انہوں نے ذکر کیا کہ ملک میں سیاسی اشرافیہ ان سے ترجیحی سلوک کا مطالبہ کرتی رہی اور انہیں قانون سے بالاتر سمجھتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا جہاں طاقتور اور کمزور کے لیے انصاف کے دو الگ الگ دھارے غالب ہوں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ دیرینہ قانونی چارہ جوئی ، خاص طور پر زمینوں پر قبضے کے معاملات میں ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
وزیراعظم نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) جسٹس اطہر من اللہ کو معاشرے اور ماحولیاتی تحفظ کے مفاد میں کئی اہم فیصلے دینے پر سراہا۔ انہوں نے سی ڈی اے اور ایف ڈبلیو او کو سراہا کہ پی سی ون کی لاگت کو پچھلے 6.5 ارب روپے کے مقابلے میں ڈیڑھ ارب روپے تک کم کیا۔ چیف جسٹس آئی ایچ سی جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سستے اور تیز تر انصاف تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے ، جو تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون اور آئین کی بالادستی اور اپنے عہدے کے حلف کی پاسداری انصاف کی ضمانت ہے اور قوم کے حقوق کو یقینی بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2007 کی تحریک کے اہداف ابھی پورے نہیں ہوئے تھے کیونکہ اس کے رہنماؤں نے عوام سے ایک ماں جیسی ریاست کی طرف سفر کا وعدہ کیا تھا ، جو اپنے شہریوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ تاہم ، انہوں نے زور دیا کہ اس طرح کی جدوجہد صرف عدلیہ تک محدود نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا ، “عدلیہ عدالتی نظام کی ایک اکائی ہے … ایک ایسا معاشرہ جہاں سچے گواہ ناپید ہو جاتے ہیں اور جرم کے ارتکاب کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ ایک مضبوط عدالتی نظام بھی اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔”
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی نظام کی کارکردگی اچھی قیادت اور تفتیشی محکموں کی جانب سے مناسب کارروائی پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضلعی عدالتیں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے ضامن کے طور پر کام کرتی ہیں ، تاہم عدالتی نظام اور عام آدمی کو سہولیات کی فراہمی کو اسلام آباد کے دارالحکومت کے قیام کے بعد نظر انداز کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پہلی بار کسی حکومت کو یہ احساس ہوا ہے کہ لوگ انصاف کے نظام کے حقیقی اسٹیک ہولڈر ہیں۔
اس سے قبل چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد نے وزیراعظم کو جوڈیشل کمپلیکس کی خصوصیات پر بریفنگ دی۔ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم ، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ، پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری اور ججز اور وکلاء برادری کے لوگ موجود تھے۔
کثیر منزلہ جوڈیشل کمپلیکس 93 ضلعی عدالتوں کے چار بلاکس ، ایک انتظامی بلاک ، ایک بخشی خانہ (قیدیوں کے لیے لاک اپ) ، نادرا کی تصدیق کا کمرہ اور وکلاء اور درخواست گزاروں کے لیے الگ انتظار گاہیں پر مشتمل ہوگا۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : '106170627023', xfbml : true, version : 'v2.9' ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/en_US/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src="https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v2.12"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); . Source link
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کا تحریری حکم نامہ جاری
سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا، حکم نامے کے مطابق خصوصی عدالتیں ملزمان کا ٹرائل کرسکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ نہیں سنائیں گی، بینچ کی تشکیل نو اورکارروائی براہ راست دکھانے کی درخواستیں آئندہ سماعت پر سنی جائیں گی۔ سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، عدالت عظمیٰ کا خصوصی عدالتوں سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 9 months
Text
جہنمی جیل کے کمسن قیدی
Tumblr media
سات اکتوبر سے قبل اسرائیلی جیلوں میں لگ بھگ ساڑھے سات ہزار فلسطینی قید تھے۔ اب ان کی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ان میں چھ سو قیدی وہ ہیں جو قانون کی نظر میں نابالغ ہیں ( بارہ تا سترہ سال) ہر سال اوسطاً اس عمر کے سات سو سے ایک ہزار بچے گرفتار ہوتے ہیں۔ انھیں بالغوں کی طرح تحفظِ امن ِ عامہ کے قانون کے تحت کم ازکم پچھتر دن تک بنا فردِ جرم عائد کیے انتظامی حراست میں رکھا جا سکتا ہے اور یہ میعاد عدالت کی رضامندی سے بڑھ بھی سکتی ہے۔ جولائی میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق شایع رپورٹ کے مطابق انیس سو سڑسٹھ سے اب تک مقبوضہ علاقوں کے لگ بھگ ایک ملین فلسطینی گرفتاری اور قید کے تجربے سے گزر چکے ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک فلسطینی باشندہ اب تک جاری کردہ سولہ سو فوجی حکم ناموں میں سے کسی ایک کی زد میں آ کے قید و بند کا مزہ چکھ چکا ہے۔ یہ فوجی قوانین مقبوضہ فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ امریکا میں ہر دو سو میں سے ایک باشندہ کسی نہ کسی عمر میں جیل کا منہ دیکھ چکا ہے مگر فلسطین میں ہر پانچ میں سے ایک شہری اس تجربے سے گزر چکا ہے۔
فوجی حکم نامہ ایک سو ایک جو اگست انیس سو سڑسٹھ سے مقبوضہ علاقوں پر نافذ ہے۔ اس کے تحت کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی، سیاسی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم، فلسطینی جھنڈے و دیگر علامات کا برسرِ عام احتجاجی استعمال، کسی بھی ایسی تنظیم کے حق میں مظاہرہ جسے فوجی قوانین کے تحت غیر قانونی یا دہشت گرد ( یعنی حماس و اسلامک جہاد ، پاپولر فرنٹ آف فلسطین وغیرہ) قرار دیا جا چکا ہو قابلِ تعزیر جرم ہے۔ انیس سو ستر سے مقبوضہ علاقوں میں فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر مندرجہ بالا ’’ جرائم ’’ بغاوت یا دہشت گردی کی حدود میں آتے ہیں۔ اس لیے بیشتر مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔ نوے فیصد قیدیوں کا تعلق مقبوضہ غربِ اردن سے ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں پر بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ نافذ فوجی قوانین کے تحت سرکاری و عسکری املاک کو نقصان پہنچانے پر بیس برس تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اس قانون کے دائرے میں وہ نوعمر بھی آتے ہیں جو اسرائیلی فوجی گاڑیوں پر پتھراؤ کریں۔ انھیں براہ راست گولی بھی ماری جا سکتی ہے اور قاتل کو نقصِ امن بحال کرنے کے قانون کے تحت طاقت کے جائز یا ضروری استعمال کی آڑ میں مقدمے اور سزا سے استثنٰی حاصل ہے۔
Tumblr media
مقبوضہ علاقے میں ایک اور اسرائیل میں انیس جیلیں ہیں جہاں فلسطینیوں کو رکھا جاتا ہے حالانکہ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت کسی مقبوضہ علاقے کے قیدیوں کو کسی اور جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ برطانوی نوآبادیاتی دور سے فلسطین میں انتظامی حراست کا جو قانون نافذ ہے۔ اس کے تحت ثبوت کو خفیہ رکھ کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے اور زیادہ تر فلسطینیوں پر یہی کالا قانون لاگو ہوتا ہے۔ گرفتاری پہلے ہوتی ہے ثبوت بعد میں اکھٹے کیے جاتے ہیں۔ سن دو ہزار سے اب تک بارہ ہزار سے زائد فلسطینی بچے مقدمات اور قید و بند بھگت چکے ہیں۔ فوجی حکم نامے سترہ سو چھبیس کے تحت بچوں کو ابتدا میں پندرہ روز کے ریمانڈ پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں عدالت چالیس بار دس دس دن مزید بڑھا سکتی ہے۔ گویا کسی بھی بچے کو چار سو پندرہ دن تک بلا مقدمہ چلائے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ بچوں کو جو سزا سنائی جاتی ہے وہ گرفتاری کے وقت عمر کے اعتبار سے نہیں بلکہ فیصلے کے دن ان کی عمر کا تعین کر کے دی جاتی ہے۔ اس قانون کے سبب سولہ برس سے اوپر کے بچوں کو وہی سزا دی جا سکتی ہے جو کسی بالغ ملزم پر لاگو ہوتی ہے۔
قیدی بھلے بڑا ہو یا بچہ۔ اس سے جن دستاویزات پر دستخط کروائے جاتے ہیں وہ نہ پڑھ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہ عبرانی زبان میں ہوتی ہیں۔ ایسے بچوں کی تعداد پچپن فیصد ہے جن سے عبرانی دستاویزات (فردِ جرم ) پر دستخط کروائے جاتے ہیں۔ حالانکہ عربی اسرائیل کی دوسری بڑی سرکاری زبان ہے۔ فلسطین میں انسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کی جولائی رپورٹ کے مطابق انسٹھ فیصد بچوں کی گرفتاریاں رات گئے یا علی الصبح ہوتی ہیں۔ بیالیس فیصد بچے گرفتاری کے وقت طاقت کے استعمال سے زخمی ہو جاتے ہیں۔ چھیاسی فیصد بچوں یا ان کے اہل ِ خانہ کو گرفتاری کے وقت وجوہات نہیں بتائی جاتیں۔ ستانوے فیصد بچوں کے گرفتاری کے وقت ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ نواسی فیصد بچوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے۔ پچھتر فیصد بچوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اٹھاون فیصد بچوں کو گرفتاری کے بعد گالیوں اور ذلت کی شکل میں نفسیاتی اذیت سہنا پڑتی ہے۔ چون فیصد بچوں کو گرفتاری کے بعد بند فوجی گاڑیوں کے فرش پر بٹھا کے گھر سے نظربندی مرکز تک لایا جاتا ہے۔ 
اسی فیصد بچوں کی نظربندی مراکز میں کپڑے اتروا کے تلاشی ہوتی ہے۔ بیالیس فیصد بچوں کو ان کی ضرورت سے آدھا کھانا اور پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اکتیس فیصد بچوں کو بیت الخلا کی بلارکاوٹ سہولت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ چھیاسٹھ فیصد بچوں کو ان کے قانونی حقوق سے آگاہ نہیں کیا جاتا۔ ستانوے فیصد بچوں سے پوچھ گچھ اور تفتیش ان کے خاندان کے کسی بھی رکن کی موجودگی کے بغیر ہوتی ہے۔ چھتیس فیصد گرفتار بچوں کو اقبالِ جرم کے لیے دھمکیوں اور جبری ہتھکنڈوں سے خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ پچیس فیصد بچوں کو اس طرح بٹھا کے یا کھڑا کر کے سزا دی جاتی ہے کہ ان کے جسم پر براہ راست منفی اثر ہو۔ تئیس فیصد بچوں کو قیدِ تنہائی میں رکھ کے تفتیش ہوتی ہے۔ ساٹھ فیصد بچوں کو ایک دن سے لے کے اڑتالیس دن تک قیدِ تنہائی میں رکھا جا سکتا ہے۔ اٹھاون فیصد بچوں کا ان کے اہلِ خانہ سے کسی بھی طرح کا رابطہ نہیں کروایا جاتا۔ اڑسٹھ فیصد بچوں کو صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان تمام حرکتوں سے اس ریاست کے بنیادی ظرف کا اندازہ ہو سکتا ہے جسے اپنے جمہوری نظام اور فوج کے مہذب ہونے پر فخر ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
عمران خان حاضر ہوں
Tumblr media
کراچی میں اس روز شہید ملت روڈ سے کشمیر روڈ تک تمام راستے سیل کر دیئے گئے تھے تمام اخبار نویسوں کو اسپورٹس کمپلیکس میں جانے کی اجازت نہیں تھی پھر بھی بی بی سی سے وابستہ اقبال جعفری مرحوم نے کوئی ’ٹاکرہ‘ لگایا اور صبح سویرے ہی اندر پہنچ گئے۔ وہاں ایک ’فوجی عدالت‘ میں ��ابق وزیراعظم محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کو بطور گواہ لے کر آنا تھا جہاں کمیونسٹ لیڈر جام ساقی اور ان کے ساتھیوں پر ’بغاوت‘ کا مقدمہ چل رہا تھا۔ شاید ہی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی مقدمہ میں اتنے سیاسی رہنما بطور گواہ پیش ہوئے ہوں خان عبدالولی خان سے لے کر غوث بخش بزنجو تک۔ ’خبر‘ کی اصل اہمیت نظر بندی کے بعد پہلی بار بےنظیر بھٹو کا کسی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہو چکی تھی، میں نیا نیا اس شعبہ میں آیا تھا اور اس مقدمہ کو پہلے روز سے کور کر رہا تھا، مگر دوبار فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کو دیکھ چکا تھا۔ ایک بار خود گواہ کے طور پر بلایا گیا، پی پی پی کے سیاسی کارکن ایاز سموں کے کیس میں کیونکہ اس کی گرفتاری کی تاریخ پر اور میری دی ہوئی خبر میں فرق تھا۔ 
مگر وہ کورٹ کراچی سینٹرل جیل کے پہلے فلور پر تھی جبکہ یہ عدالت اس کمپلیکس میں تھی جس کو ڈپٹی مارشل لا کے ہیڈ کوارٹر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ بہرحال سخت ترین سیکورٹی میں ان کو پیش کیا گیا اور بی بی سی ریڈیو سے ان کے اور عدالت کے درمیان مختصر مکالمہ سنایا گیا۔ جعفری صاحب بھی کمال کے صحافی تھے ’خبر‘ کیا ہوتی ہے اور کیسے نکالی جاتی ہے، نئے آنے والے اور بہت سے ’سینئر صحافیوں‘ کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بےنظیر نے طویل بیان ریکارڈ کرایا اور جام ساقی اور دیگر کامریڈ کا دفاع کیا ’بغاوت‘ کے مقدمہ کو مسترد کیا اور مارشل لا کو ملک کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔ انہیں خود کئی بار سویلین کورٹ اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا کراچی اور سکھر جیل کا بھی تجربہ رہا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف پر 12 اکتوبر 1999 کو سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے جہاز کے اغوا کا مقدمہ کراچی ہی کی ایک خصوصی عدالت میں چلایا گیا ملزمان کو ، جن میں شہباز شریف، سعید مہدی (پرنسپل سیکرٹری) اور کئی دیگر رہنما شامل تھے، APC میں لانڈھی جیل سے لایا جاتا۔
Tumblr media
جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری جج تھے۔ راقم نے یہ مقدمہ بھی تفصیل سے کور کیا۔ اس سے پہلے 1998 میں کراچی میں گورنر راج لگا تو فوجی عدالتیں بھی قائم ہوئیں اور گو کہ کچھ ماہ بعد سپریم کورٹ نے گورنر راج کو ہی غیر آئینی قرار دے دیا، عدالتیں بھی ختم کر دی گئیں مگر اس دوران غالباً دو ڈکیتی کے ملزمان کو سزائے موت ہو گئی جس میں ایک بنگالی کا مقدمہ انتہائی متنازع تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ صحافیوں کو سماعت دیکھنے کی اجازت تھی۔ ہمیں صبح سویرے ملیر کینٹ جانا پڑتا تھا۔ کمرہ انتہائی مختصر سا تھا جس میں بمشکل 10 سے 12 لوگ آ سکتے تھے لہٰذا جو پہلے پہنچ گیا اس کو جگہ مل گئی۔ ویسے تو ہماری تاریخ میں راولپنڈی سازش کیس سے اگرتلہ سازش، حیدرآباد ٹرائل میں نیشنل عوامی پارٹی کیس تک، فیض احمد فیض سے لے کر مولانا مودودی اور شیخ مجیب الرحمان سے ذوالفقار علی بھٹو تک کسی کو اسپیشل کورٹ تو کسی کو ملٹری کورٹ اور کسی کو نام نہاد سویلین عدالتوں سے سزائے موت تک سنائی گئی اور بھٹو کا تو ’جوڈیشل مرڈر‘ تک ہوا مگر اس بار شاید کچھ مختلف ہونے جا رہا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم شاید جمہوریت کو مزید کمزور یا شاید مفلوج کر دیں۔
پاکستان کی پارلیمنٹ اگر جمہوری سیٹ اپ میں ایک معزول وزیراعظم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں کرنے کے حق میں فیصلہ کر دے تو مستقبل میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی طرح ایک نظیر قائم ہو جائے گی۔ ابھی تو خود آرمی ایکٹ نافذ کرنے والوں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ 9 مئی کے قابل ِمذمت واقعات کی سازش اور بغاوت کا مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان پر قائم کیا جائے یا نہیں اور ہو تو کس عدالت میں چلایا جائے مگر قومی اسمبلی نے اس کی اجازت دے دی ہے۔ اگر خان صاحب پر مقدمہ ’ملٹری کورٹ‘ میں چلتا ہے تو یہ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ کسی سابق وزیراعظم کو ’ملٹری کورٹ‘ کا سامنا بطور ملزم کرنا پڑے وہ بھی ’بغاوت اور سازش‘ میں جس کی سزا عمر قید یا موت بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت تک 9 مئی کے واقعات میں لاہور میں واقع کور کمانڈر ہائوس یا جناح ہائوس، GHQ راولپنڈی، ریڈیو پاکستان پشاور پر حملے اور شہدا کے مجسموں کی بے حرمتی پر 70 سے زائد افراد کا کیسز سویلین عدالتوں سے ملٹری کورٹس منتقل ہو چکے ہیں، جن میں بہرحال تحریک انصاف کا کوئی مرکزی لیڈر شامل نہیں مگر پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اور سرکردہ کارکنوں کے ساتھ اس وقت وہی ہو رہا ہے جو 22 اگست 2016 کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہوا۔ 
وہ دن ہے اور آج کا دن ایک ’تلوار‘ہے جو لٹکا دی گئی ہے۔ ہم شاید آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں۔ اس شہر قائد کی سیاست تو برسہا برس سے ’فارم ہائوس‘ یا مخصوص بنگلوں سے کی جا رہی ہے کبھی کوئی ملزم بن کر حاضر ہوتا ہے تو کبھی گواہ ،’معافی‘ ہو گئی تو آپ مشیر بھی بن سکتے ہیں اور وزیر بھی۔ یہاں تو وزیر اعلیٰ بغیر اکثریت بنے ہیں ہم ایک میئر کے الیکشن کا رونا رو رہے ہیں۔ مجھے تو ان 30 یوسی چیئرمین کی فکر ہے کیونکہ ابھی ’عشق کہ امتحاں اور بھی ہیں۔‘‘ اس پس منظر میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ خود ان سیاست دانوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور سول سوسائٹی کو دعوت فکر دیتا ہے کہ کیا اس ملک میں کبھی جمہوری کلچر فروغ پا بھی سکے گا جہاں کالعدم تنظیموں کو، انتہا پسندوں کو اسپیس دی جا رہی ہے، بات چیت ہو رہی ہے اور یہ عمل خود ہمارے سابق وزیر اعظم نے شروع کیا۔ 
وہ بھی اپنے مخالف سیاست دانوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے علی وزیر، ادریس بٹ اور نہ جانے کتنے سیاسی لوگوں کی غیر قانونی حراست کا دفاع کرتے تھے آج خود ان کی پارٹی کے لوگوں پر مشکل وقت ہے وہ خود سو سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کے حکمران بھی اسی ڈگر پر ہیں۔ اگر جمہوریت میں بھی اظہار رائے پر پابندی ہو، سیاسی کارکن اور صحافی غائب ہوں۔ کسی جماعت یا لیڈر پر غیر علانیہ پابندی ہو، الیکشن میں بھی مثبت نتائج کا انتظار ہو، ورنہ انتخابات ملتوی کرنے کی باتیں ہورہی ہوں۔ اب اگر اس میں ملٹری کورٹس کا بھی اضافہ ہو جائے اور وہ بھی سابق وزیراعظم پر جس کو ’جمہوری پارلیمنٹ‘ کی بھی حمایت حاصل ہو تو پھر کون سا بہترین انتقام اور کون سا بہترین نظام۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
کیا فوجی عدالت سویلینز کا کورٹ مارشل کر سکتی ہے؟
کیا فوجی عدالت سویلینز کا کورٹ مارشل کر سکتی ہے؟
پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرنے جا رہی ہے کہ کیا فوجی عدالتیں سویلینز کا کورٹ مارشل کر سکتی ہیں یا نہیں؟ یہ فیصلہ سپریم کورٹ چند ماہ قبل ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے کیس میں کرنے جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو رہا کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ کرنل انعام رحیم کی رہائی کیخلاف حکومتی درخواست کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 3 years
Text
قائد انقلاب ایران:امام خمینی
قائد انقلاب ایران:امام خمینی
(3جون: یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر) ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان) [email protected] 28اکتوبر 1964کوایران کے سیکولربادشاہ نے ایک شاہی حکم نامے کے ذریعے امریکی فوجیوں کو مملکت ایران میں وہ حقوق عطاکر دیے جو ویانا کنونشن میں سفارتکاروں کے لیے مخصوص کئے گئے تھے اور امریکی فوجی مشن کو اپنی فوجی عدالتیں بنانے کی آزادی بھی دے دی،گویا امریکی فوجی پوری ریاست میں وردی پہن کرغیرملکی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 4 years
Text
دو بوتل شراب
انصاف کا یہاں کیا حال ہے، اس بارے میں پاکستان کو دیکھنا ہے تو اداکارہ عتیقہ اوڈھو کا کیس ہی دیکھ لیں۔ نو سال قبل اپنے بیگ میں دو بوتل شراب اسلام آباد سے کراچی لے جاتے ہوئے اسلام آباد ائیرپورٹ پر پکڑی گئیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے سب سے بڑے جج چیف جسٹس آف پاکستان نے واقعے کا سوموٹو نوٹس لیا ۔ کیس میڈیا کی ہیڈلائنز کی بھی زینت بنا رہا یعنی سب کی نظریں اس کیس پر تھیں۔ اس کے باوجود اس کیس پر فیصلہ کرنے میں عدالت کو نو سال سے زیادہ لگے۔ پولیس، استغاثہ، کسٹم و ائیرپورٹ حکام نو سال گزرنے کے باوجود دو بوتل شراب کا پکڑا جانا ثابت نہیں کر سکے اور یوں عتیقہ اوڈھو باعزت بری ہو گئی۔ سیاستدانوں سے جب شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں اور چاہے پکڑنے والی پولیس ہو یا ملک کا چیف جسٹس یعنی ریاست کا سب سے بڑا جج تو پھر بھی شراب کو شہد یا زیتون کا تیل بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔
عتیقہ اوڈھو کے کیس میں تو شراب اور شراب کی دو بوتلیں سرے سے ہی غائب ہو گئیں۔ عدالت کو کوئی شہادت نہیں ملی۔ سوچنے کی بات ہے بلکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اگر عتیقہ اوڈھو کے خلاف یہ کیس جھوٹا بنایا گیا تھا یا شہادتوں کی کمی تھی تو پھر عدالت کو اس نتیجے پر پہنچنے میں نو سال سے زیادہ عرصہ کیوں لگا؟؟ اس دوران کوئی دو سو سے زیادہ دفعہ عدالت لگی کوئی سولہ جج تبدیل ہو گئے لیکن کوئی شہادت نہ ملی اور یوں انصاف ایسا ہوا کہ مذاق ہی بن گیا۔ اتنے سادہ سے کیس میں فیصلہ جو بھی کرنا تھا زیادہ سے زیادہ چار چھ مہینے میں ہو جانا چاہیے تھا ۔ یہ کیسا نظام ہے کہ انصاف اس انداز میں کیا جائے کہ کسی کو انصاف لینے کی خوائش ہی نہ رہے۔ اگر کیس جھوٹا تھا تو دو بوتل شراب کس نے اداکارہ کے بیگ میں رکھی اور اُسے کیوں نہ پکڑا گیا۔ اگر شراب کی بوتلوں کی کہانی ہی جھوٹی تھی تو پھر ائیرپورٹ کے اُن اہلکاروں کو کیوں نہ پکڑا گیا جنہوں نے ایک جھوٹا مقدمہ بنایا۔
کیا اُن اہلکاروں کی اداکارہ سے کوئی دشمنی تھی یا عتیقہ اوڈھو کے خلاف کوئی سازش بنی گئی۔ یا اس کیس میں بھی ملزم اتنا ہوشیار تھا اور اس عدالتی نظام کی خامیوں سے واقف بھی کہ سب کچھ کر کے باعزت بری ہو گیا۔ کچھ ہو بھی ہو یہ ہمارے عدالتی نظام کی وہ خامیاں ہیں جس کی بنا پر کوئی بھی شریف آدمی عدالت میں جانے سے ڈرتا ہے، انصاف کے لیے نسلوں تک کو انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ نظام مجرموں، قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کو اس لیے سوٹ کرتا ہے کہ سب کچھ کر کے وہ بغیر سزا کے بچ نکلتے ہیں۔ وکیلوں کے پاس اس نظام میں اتنے حربے ہیں کہ جتنا چاہے مقدمہ کو لٹکا دیں۔ جس کے پاس پیسہ ہے اُس کے لیے اپنی مرضی کا انصاف لینے کی اس نظام میں بہت آسانیاں ہیں۔ مثلاً اگر کوئی آپ کے مکان پر قبضہ کر لے، یہ نظام قبضہ کرنے والوں کے لیے موافق ہے جبکہ مظلوم پولیس کچہری کے چکر لگا لگا کر مایوس ہو جاتا ہے۔
قبضہ مافیا کا سب سے بڑا ہتھیار یہ نظام ہی ہے کیوں کہ کسی کے بھی پلاٹ یا مکان پر قبضہ کرنے پر کسی بھی فریق کی طرف سے معاملہ عدالت میں چلا جاتا ہے اور یوں مقدمہ برسوں بلکہ دہائیوں تک چلتا ہے اور یہ وہ صورت ہے جو ظالم کو سوٹ کرتی ہے اور مظلوم کو بے بس بنا دیتی ہے۔ عدالتوں اور جج حضرات کی طرف سے اکثر دوسرے محکموں ک�� متعلق بہت سخت باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ عدالتیں پولیس پر برستی ہیں، حکومت، نیب، سول و فوجی محکموں کی کارکردگی پر تنقید کرتی ہیں، نظام کی خرابیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ ہماری عدالتیں اس نظام عدل کی خامیوں کو بھی دیکھیں، عوام کی اس نظام سے مایوسی کا بھی احساس کریں، ظالم کا ہاتھ روکیں، مظلوم کی دادرسی کریں، فیصلے برسوں، دہائیوں میں نہیں بلکہ جلد انصاف کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں۔ یہ وہ کام ہے جو ہماری عدالتوں اور ججوں کو سب سے پہلے کرنا چاہیے۔ اگر اس ملک میں عدالتوں سے انصاف مل جائے تو سمجھیں کوئی مسئلہ باقی نہ رہا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes