Tumgik
#فی��الو
urduclassic · 3 years
Text
یقیں محکم، عمل پیہم، جہالت فاتحِ عالم
جب مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی ساڑھے تین سے چار کروڑ نفوس پر مشتمل تھی تو اوسط درجے کی شاعری یا نثری کتاب کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا تھا۔ جب آبادی آٹھ کروڑ ہو گئی تو پہلا کتابی ایڈیشن بھی پانچ ہزار سے گھٹ کر ایک ہزار نسخوں تک آن پہنچا۔ آج پاکستان کی آبادی 22 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ چنانچہ 99 فیصد ادبی کتابوں کا پہلا ایڈیشن اوسطاً پانچ سو تک گر چکا ہے اور بہت سے پبلشر تو ڈھائی سو کا ایڈیشن بھی شائع کرنے پر راضی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے کراچی کے معروف شاعر صابر ظفر، صدر کے علاقے میں اچانک مل گئے۔ چھوٹتے ہی بولے یار تمہیں دیکھ کر خوشی اس لیے بھی ہو رہی ہے کہ اب ایسا شخص بھی آسانی سے نہیں ملتا جسے بندہ کم ازکم اپنی نئی کتاب ہی پڑھنے کے لیے دے سکے۔ آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں۔ کتاب بھی دوں گا۔
عام طور پر ہم ناخواندگی اور جہالت کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ناخواندہ وہ شخص ہے جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا اور وہ ذرا سی کوشش سے پڑھنا لکھنا سیکھ سکتا ہے۔ ناخواندہ کبھی بھی اپنی ناخواندگی کا دلیلی دفاع نہیں کرتا بلکہ اکثر سیدھے سیدھے اعتراف کر لیتا ہے کہ فلاں فلاں مجبوری یا والدین کی غفلت کے سبب وہ سکول یا مدرسے میں نہ جا سکا مگر خواہش زندہ ہے۔ جبکہ جہالت کا خیمہ نیم خواندگی کی زمین پر کج بحثی کے بانس اور ہٹ دھرمی کی طنابوں کے بغیر لگانا ممکن نہیں۔ ناخواندہ کی آواز احساسِ کمی کے سبب دھیمی ہو سکتی ہے مگر جہالت کی بلند آہنگی کا مقابلہ فی زمانہ صاحبانِ علم کی معنی خیز خاموشی بھی نہیں کر سکتی۔ اسی لیے اگر ہم اپنے ارد گرد بغور اور مسلسل دیکھیں تب کہیں یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اہلِ علم تو اپنا دامن بازارو دانش کے چھینٹوں سے بچاتے ہوئے اکثر گوشہِ عافیت میں نظر آتے ہیں اور جہالت اور وہ بھی دو نمبر جہالت گلی گلی سینہ پھلائے پھرتی ہے۔
مادی کسوٹی پر ناپئے تو علم خسارے کا سودا اور جہالت منافع بخش ہے۔ اعلیٰ ترین سے ادنیٰ ترین شعبہ پھٹک لیں۔ جہالت کی بہار نظر آئے گی۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے۔ مگر انجامِ گلستاں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب ریڈیو، ٹی وی چینل یا اخبار میں کام کرنے کے لیے قابلیت یا پیشہ ورانہ صلاحیت کا کم ازکم معیار مقرر تھا اور اس معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود ان شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے والے کے بارے میں سب جانتے تھے کہ یہ کونسی سیڑھی استعمال کر کے آیا ہے۔ خود اس بے چارے کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ اب وہ آ ہی گیا ہے تو آس پاس والوں سے شرما شرمی تھوڑا بہت سیکھ لے۔ پھر انقلاب آ گیا۔ آج نیوز ڈیسک، سکرین یا سٹوڈیو میں جس عالمانہ یا اینکرانہ مخلوق کا بول بالا ہے۔ ان میں اکثر تو جہالت کی مروجہ تعریف پر بھی پورے نہیں اترتے۔
مقابلہ اس قدر سخت اور گلا کاٹ ہے کہ سادہ پڑھا لکھا تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ چنانچہ میڈیا میں جانے کے خواہش مند نئے لڑکے لڑکیوں سے میری درخواست ہے کہ اگر آپ کسی سیاسی، مزاحیہ یا مذہبی پروگرام کے اینکر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو آپ کو جان توڑ محنت کرنا ہو گی۔ بھول جائیں کہ آپ کے اساتذہ نے آپ کو کیا سکھایا یا آپ نے کونسی کتابوں اور ادب کا گہرا مطالعہ کیا۔ یہ سب اب نہیں چلتا۔ آپ کو اس انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے خود کو پہلے ڈی ایجوکیٹ اور پھر ری ایجوکیٹ کرنا ہو گا۔ کیا آپ بظاہر قبول صورت ہیں؟ چیخ چیخ کے کچھ بھی بول سکتے ہیں؟ خود کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے مسلسل مطالعے کی علت میں تو مبتلا نہیں؟ کیا آپ انگریزی، اردو، سندھی، پشتو، بلوچی، پنجابی، سرائیکی سمیت کوئی بھی زبان درستی کے ساتھ لکھنے اور بولنے کے عارضے کا تو شکار نہیں؟
کیا آپ کسی سنجیدہ موضوع کو سستے فقروں کی مدد سے دلچسپ اور عجیب بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ دو مرغے کیسے لڑوائے جاتے ہیں کے فن سے واجبی طور سے واقف ہیں؟ کیا آپ وقت پڑنے پر کم از کم ناگن ڈانس یا بندر کی نقالی کر سکتے ہیں؟ کیا آپ چھت پھاڑ ریٹنگ کے لیے جانوروں اور پرندوں کی آوازیں نکال سکتے ہیں؟ خدانخواستہ آپ وزن میں شعر پڑھنے کے روگی تو نہیں؟ کیا آپ خود کو عقلِ کل سمجھنے کے بجائے تہذیبی عاجزی کا پتلا تو نہیں سمجھتے؟ اگر آپ مندرجہ بالا معیارات میں سے کم ازکم پچاس فیصد پر پورا اترتے ہیں تب تو آپ کو سکرین پر آ کر مشہور ہونے کا خواب دیکھنے کا حق ہے۔ ورنہ بھول جائیں اور خون کے گھونٹ پیتے رہنے کے بجائے کسی اور شعبے میں قسمت آزمائیں۔ یہ ہے وہ ثمر جو ہم نے 74 برس کے سفر میں بہت لگن اور محنت سے حاصل کیا ہے۔ اگر یہ بھی نہ رہا تو پھر کیا رہے گا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی نیوز
4 notes · View notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
بزنس نیوز براہ راست: ایف ایم نرملا سیتارمن آج میڈیا سے خطاب کریں گی۔
بزنس نیوز براہ راست: ایف ایم نرملا سیتارمن آج میڈیا سے خطاب کریں گی۔
11:55 AM
ایف ایم نرملا سیتارمن آج میڈیا سے خطاب کریں گی۔
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن آج شام 5 بجے پریس کانفرنس سے خطاب کریں گی۔
تاہم ، وزارت نے بریفنگ کا ایجنڈا ظاہر نہیں کیا۔ متعدد رپورٹس کے مطابق ، سیتا رمن خراب بینک تجویز سے متعلق اعلانات کا انکشاف کرنے کا امکان ہے۔
صبح 11:50
ووڈا فون آئیڈیا میں 20 فیصد اضافہ
وفاقی کابینہ کی جانب سے نقد رقم سے محروم ٹیلی کام سیکٹر کے لیے امدادی پیکج کی منظوری کے ایک دن بعد ووڈا فون آئیڈیا لمیٹڈ کے حصص میں تقریبا 20 20 فیصد اضافہ ہوا۔ رائٹرز اطلاع دی.
ووڈافون آئیڈیا کے شیئرز 29 جون کے بعد 20 فیصد بلند ہو گئے ہیں ، جبکہ بھارتی ایئر ٹیل ابتدائی فوائد کم کرنے سے پہلے 1.4 فیصد تک بڑھ گئی۔
ریلیف پیکیج میں حکومت کی وجہ سے ہوائی لہروں کی ادائیگیوں پر چار سال کی پابندی ، فرموں کے زیر اہتمام ایئر ویوز کی مدت کو 20 سے بڑھا کر 30 سال کرنا ، اور کیریئرز کے درمیان سپیکٹرم کا مکمل طور پر مفت اشتراک شامل ہے۔
صبح 11:30۔
نوکریوں کا پلیٹ فارم آپنا ایک تنگاوالا کلب میں داخل ہوا۔
نوکریوں کے پلیٹ فارم آپنا نے جمعرات کو کہا کہ اس نے ٹائیگر گلوبل کی قیادت میں تقریبا 100 100 ملین ڈالر (تقریبا 7 734.7 کروڑ روپے) حاصل کیے ہیں جن کی قیمت 1.1 بلین ڈالر ہے۔ پی ٹی آئی اطلاع دی.
سیریز سی راؤنڈ میں الو وینچرز ، انسائٹ پارٹنرز ، سیکوئیا کیپیٹل انڈیا ، ماورک وینچرز اور جی ایس وی وینچرز کی شرکت بھی دیکھی گئی۔
اس نے مزید کہا ، “دنیا میں میڈ ان انڈیا کا مقصد بے روزگاری ، غربت اور اعلی صلاحیتوں کے چیلنج کو پائیدار طور پر حل کرنے کے لیے اوور ڈرائیو میں جانا ہے۔”
11:15 AM۔
چیٹ ایپ ڈسکارڈ نے نئے فنڈنگ ​​میں $ 500 ملین اکٹھے کیے۔
چیٹ پلیٹ فارم ڈسکارڈ نے سرمایہ کاری فرم ڈریگونیئر انویسٹمنٹ گروپ کی قیادت میں ایک نئے فنڈنگ ​​راؤنڈ میں 500 ملین ڈالر اکٹھے کیے ہیں ، رائٹرز اطلاع دی.
ڈسکارڈ کے ترجمان نے بتایا کہ بیلی گفورڈ اینڈ کمپنی ، کوٹیو مینجمنٹ ، فڈیلٹی مینجمنٹ اینڈ ریسرچ کمپنی اور فرینکلن ٹیمپلٹن نے بھی موجودہ سرمایہ کاروں کے ساتھ فنانسنگ میں حصہ لیا۔
COVID-19 وبائی امراض کے دوران تنازعہ بجلی کی رفتار سے بڑھا اور اسے پہلے ویڈیو گیمرز نے استعمال کیا ، حالانکہ ایپ اب کمیونٹیوں میں پھیل گئی ہے اور کامیڈی کلبوں سے لے کر کراوکی پارٹیوں تک کے ایونٹس کے لیے۔
صبح 10:50
دو دن میں سرمایہ کاروں کی دولت 3.35 لاکھ کروڑ تک پہنچ گئی
دو دن کی مارکیٹ ریلی میں سرمایہ کاروں نے ₹ 3،35،770.71 کروڑ حاصل کیے ہیں ، بدھ کے روز سینسیکس نے زندگی کی تازہ ترین چوٹی حاصل کی ، پی ٹی آئی اطلاع دی.
بی ایس ای میں درج کمپنیوں کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن دو دن میں ₹ 3،35،770.71 کروڑ بڑھ گئی ₹ 2،59،68،082.18 کروڑ کی ریکارڈ بلند
دوسرے دن کے لیے بڑھتے ہوئے ، 30 حصص والے بی ایس ای بینچ مارک 476.11 پوائنٹس یا 0.82 فیصد اضافے کے ساتھ 58،723.20 کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوا۔
صبح 10:30۔
سیبی نے پونا والا فنکارپ کے ایم ڈی ، 7 دیگر اداروں کو سیکیورٹیز مارکیٹ سے روک دیا۔
سیبی نے پونا والا فنکارپ کے منیجنگ ڈائریکٹر ابھے بھوٹڈا اور سات دیگر اداروں کو مبینہ طور پر اندرونی تجارت کے لیے سیکیورٹیز مارکیٹ سے روک دیا ہے، پی ٹی آئی۔ اطلاع دی.
ایک عبوری حکم کے مطابق ، ریگولیٹر نے crore 13 کروڑ سے زائد مالیت کے غلط فائدہ حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔
فروری 2021 میں ، واچ ڈاگ کے سسٹم نے کمپنی کے حصص سے متعلق اندرونی تجارتی انتباہات پیدا کیے۔ یہ وہ وقت بھی تھا جب رائزنگ سن ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ (آر ایس ایچ پی ایل) کے بارے میں اعلان کیا گیا تھا ، جو پونا والا گروپ کا حصہ ہے ، جس نے میگما کارپوریشن میں کنٹرولنگ اسٹیک حاصل کیا۔
صبح 10:15
بھارت کی 2021 میں 7.2 فیصد شرح نمو متوقع: اقوام متحدہ کی رپورٹ
2021 میں بھارت کی شرح نمو 7.2 فیصد رہنے کی توقع ہے لیکن اگلے سال معاشی نمو میں کمی آسکتی ہے۔ پی ٹی آئی اقوام متحدہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں بحالی کوویڈ 19 وبائی امراض کی جاری انسانی اور معاشی لاگت اور نجی استعمال پر خوراک کی قیمتوں کی افراط زر کے منفی اثرات کی وجہ سے رکاوٹ ہے۔
2020 میں 3.5 فیصد کی کمی کے بعد ، اقوام متحدہ کی تجارت اور ترقی کی کانفرنس (UNCTAD) کو توقع ہے کہ اس سال عالمی پیداوار 5.3 فیصد بڑھے گی ، جو 2020 میں کھوئی ہوئی زمین کو جزوی طور پر بحال کرے گی۔
صبح 10:00 بجے
ٹاٹا نے ایئر انڈیا کے لیے قیمت کی بولی لگائی۔
ٹاٹا سنز نے بدھ کو خسارے میں چلنے والی ریاستی ایئرلائن ایئر انڈیا کے حصول کے لیے مالی بولی پیش کی ، پی ٹی آئی اطلاع دی.
نجکاری کا عمل چلانے والے محکمہ کے سیکرٹری توہین کانتا پانڈے نے مالی “بولیاں” موصول ہونے کے بارے میں ٹویٹ کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنی کمپنیاں میدان میں ہیں۔
سپائس جیٹ کے اجے سنگھ کو قرضوں سے لدی ایئرلائن خریدنے میں ایک اور دلچسپی رکھنے والی پارٹی سمجھا جاتا تھا۔
صبح 9:30۔
سینسیکس ، نفٹی تازہ ریکارڈ بلندیوں پر کھلے ہیں۔
ہندوستانی بینچ مارک ایکویٹی انڈیکس ، سینسیکس اور نفٹی سبھی سیکٹرل انڈیکس کے ساتھ تازہ ریکارڈ بلندیوں پر کھل گئے۔ 9:15 پر ، سینسیکس 0.27 فیصد اضافے کے ساتھ 58،881.04 پر جبکہ نفٹی 0.11 فیصد بڑھ کر 17،539.20 پر کھل گیا۔
وسیع مارکیٹوں نے اس ریلی کو سپورٹ کیا کیونکہ صبح کی تجارت میں سمال کیپ اور مڈ کیپ انڈیکس دونوں میں آدھا فیصد اضافہ ہوا۔
9:15 AM۔
تیل گرتا ہے لیکن حاصلات کو برقرار رکھتا ہے۔
امریکہ میں خام تیل کے اسٹاک میں توقع سے زیادہ کمی کے بعد تیل کی قیمتیں گر گئیں لیکن پچھلے دن کے فوائد کو برقرار رکھا ، رائٹرز اطلاع دی.
برینٹ کروڈ گزشتہ روز 2.5 فیصد اضافے کے بعد 0.2 فیصد گر کر 75.33 ڈالر فی بیرل پر آگیا جبکہ یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ بدھ کے روز 3.1 فیصد اضافے کے بعد 0.2 فیصد کم ہوکر 72.49 ڈالر رہ گیا۔
انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن نے کہا کہ امریکی خام تیل اور ایندھن کے ذخیرے میں گزشتہ ہفتے تیزی سے کمی آئی کیونکہ امریکی خلیج کے علاقے میں ریفائنرز ابھی تک سمندری طوفان اڈا سے ٹھیک ہو رہے ہیں۔
صبح کے 9:00 بجے
ایشیائی حصص گر گئے
ہانگ کانگ اور چین میں وال اسٹریٹ سے مضبوط برتری کے باوجود ایشیائی حصص میں کمی آئی ، رائٹرز اطلاع دی.
ایم ایس سی آئی کا جاپان کے باہر ایشیا پیسیفک کے حصص کا وسیع انڈیکس 0.45 فیصد ، جاپان کا نکی 0.47 فیصد اور ہانگ کانگ کا بینچ مارک 0.42 فیصد گر گیا۔ چینی بلیو چپس بھی 0.66 فیصد کھو گئیں جب کہ اکنامکس کے اعداد و شمار کی توقعات ختم ہو گئیں۔
شین اولیور نے کہا ، “یہ فی الحال قدرے پیچیدہ اور غیر یقینی ہے ، ہمارے پاس عالمی نمو کے بارے میں خدشات کی وجہ سے کچھ نرم دن تھے اور پھر اچانک مارکیٹیں ، کم از کم امریکی مارکیٹیں ، یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ ‘یہ سب کچھ اتنا برا نہیں ہے’۔ اے ایم پی کیپیٹل کے چیف اکنامسٹ نے بتایا۔ رائٹرز.
. Source link
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
@MantoIsManto @MantoSays #Literature #Writer #urdu #aajkalpk لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ آپ مسلمان ہیں یقین کریں میں جو کچھ کہوں گا، سچ کہوں گا۔ پاکستان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ قائداعظم جناح کے لیے میں جان دینے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن میں سچ کہتا ہوں اس معاملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ اتنی جلدی نہ کیجیے۔ مانتا ہوں۔ ان دنوں ہلڑ کے زمانے میں آپ کو فرصت نہیں، لیکن آپ خدا کے لیے میری پوری بات تو سن لیجیے۔ میں نے تکا رام کو ضرور مارا ہے، اور جیسا کہ آپ کہتے ہیں تیز چھری سے اس کا پیٹ چاک کیا ہے۔ مگر اس لیے نہیں کہ وہ ہندو تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اس لیے نہیں مارا تو پھر کس لیے مارا۔ لیجیے میں ساری د استان ہی آپ کو سُنا دیتا ہوں۔ پڑھئے کلمہ، لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ کس کافر کو معلوم تھا کہ میں اس لفڑے میں پھنس جاؤں گا۔ پچھلے ہندو مسلم فساد میں میں نے تین ہندو مارے تھے۔ لیکن آپ یقین مانئے وہ مارنا کچھ اور ہے، اور یہ مارنا کچھ اور ہیے۔ خیر، آپ سنئے کہ ہوا کیا، میں نے اس تکا رام کو کیوں مارا۔ کیوں صاحب عورت ذات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ میں سمجھتا ہوں بزرگوں نے ٹھیک کہا ہے۔ اس کے چلتروں سے خدا ہی بچائے۔ پھانسی سے بچ گیا تو دیکھیے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔ پھر کبھی کسی عورت کے نزدیک نہیں جاؤں گا۔ لیکن صاحب عورت بھی اکیلی سزاوار نہیں۔ مرد سالے بھی کم نہیں ہوتے۔ بس، کسی عورت کو دیکھا اور ریشہ خطمی ہو گئے۔ خدا کو جان دینی ہے۔ انسپکٹر صاحب! رکما کو دیکھ کر میرا بھی یہی حال ہوا تھا۔ اب کوئی مجھ سے پوچھے۔ بندہ خدا تو ایک پینتیس روپے کا ملازم، تجھے بھلا عشق سے کیا کام۔ کرایہ وصول کر اور چلتا بن۔ لیکن آفت یہ ہوئی صاحب کہ ایک دن جب میں سولہ نمبر کی کھولی کا کرایہ وصول کرنے گیا اور دروازہ ٹھوکا تو اندرسے رکما بائی نکلی۔ یوں تو میں رکما بائی کوکئی دفعہ دیکھ چکا تھا لیکن اس دن کم بخت نے بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور ایک پتلی دھوتی لپیٹ رکھی تھی۔ جانے کیا ہوا مجھے، جی چاہا اس کی دھوتی اتار کر زور زور سے مالش کردوں۔ بس صاحب اسی روز سے اس بندہ نابکار نے اپنا دل، دماغ سب کچھ اس کے حوالے کردیا۔ کیا عورت تھی۔ بدن تھا پتھر کی طرح سخت مالش کرتے کرتے ہانپنے لگ گیا تھا مگر وہ اپنے باپ کی بیٹی یہی کہتی رہی ’’تھوڑی دیر اور‘‘ شادی شدہ۔ جی ہاں شادی شدہ تھی اور خان چوکیدار نے کہا تھا کہ اس کا ایک یار بھی ہے۔ لیکن آپ سارا قصہ سُن لیجیے۔ یار وار سب ہی اس میں آجائیں گے۔ جی ہاں، بس اس روز سے عشق کا بھوت میرے سر پر سوار ہو گیا۔ وہ بھی کچھ کچھ سمجھ گئی تھی کیونکہ کبھی کبھی کن اکھیوں سے میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی تھی۔ لیکن خدا گواہ ہے جب بھی وہ مسکرائی، میرے بدن میں خوف کی ایک تھرتھری سی دوڑ گئی۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ معشوق کو پاس دیکھنے کا۔ وہ۔ ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا۔ لیکن آپ شروع ہی سے سُنیے۔ وہ تو میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ رکما بائی سے میری آنکھ لڑ گئی تھی۔ اب دن رات میں سوچتا تھا کہ اسے پٹایا کیسے جائے۔ کم بخت، اس کا خاوند ہر وقت کھولی میں بیٹھا لکڑی کے کھلونے بناتا رہتا، کوئی چانس ملتا ہی نہیں تھا۔ ایک دن بازار میں نے اس کے خاوند کو جس کا نام۔ خدا آپ کا بھلا کرے کیا تھا جی ہاں۔ گردھاری۔ لکڑی کے کھلونے چادر میں باندھے لے جاتے دیکھا تو میں نے جھٹ سے سولہ نمبر کی کھولی کا رخ کیا۔ دھڑکتے دل سے میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھولا۔ رکما بائی نے میری طرف گھور کے دیکھا۔ خدا کی قسم میری روح لرز گئی۔ بھاگ گیا ہوتا وہاں سے، لیکن اس نے مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ جب اندر گیا تو اس نے کھولی کا دروازہ بند کرکے مجھ سے کہا۔ ’’بیٹھ جاؤ!‘‘ میں بیٹھ گیا تو اس نے میرے پاس آکر کہا۔ ’’دیکھو میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو۔ لیکن جب تک گردھاری زندہ ہے، تمہاری مراد پوری نہیں ہوسکتی۔ ‘‘ میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ اسے پاس دیکھ کر میرا خون گرم ہو گیا تھا۔ کنپٹیاں ٹھک ٹھک کررہی تھیں۔ کم بخت نے آج بھی بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور وہی پتلی دھوتی لپیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑ لیا اور دبا کر کہا۔ ’’مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تم کیا کہہ رہی ہو۔ ‘‘ اف! اس کے بازوؤں کے پٹھے کس قدر سخت تھے۔ عرض کرتا ہوں۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ وہ کس قسم کی عورت تھی۔ خیر، آپ داستان سنیے۔ میں اور زیادہ گرم ہو گیا اور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ ’’گردھاری جائے جہنم میں۔ تمہیں میری بننا ہو گا۔ ‘‘ رکما نے مجھے اپنے جسم سے الگ کیا اور کہا۔ ’’دیکھو تیل لگ جائے گا۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’لگنے دو۔ ‘‘ اور پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ یقین مانیے اگر اس وقت آپ مارے کوڑوں کے میری پیٹھ کی چمڑی ادھیڑ دیتے، تب بھی میں اسے علیحدہ نہ کرتا۔ لیکن کم بخت نے ایسا پچکارا کہ جہاں اس نے مجھے پہلے بیٹھایا تھا، خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ مجھے معلوم تھا وہ سوچ کیا رہی ہے۔ گردھاری سالا باہر ہے، ڈر کس بات کا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے اس سے کہا۔ ’’رکما! ایسا اچھا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ ‘‘ اس نے بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا۔ ’’اس سے بھی اچھا موقع ملے گا۔ لیکن تم یہ بتاؤ جو کچھ میں کہوں گی کرو گے۔ ‘‘ ۔ صاحب میرے سر پر تو بھوت سوار تھا۔ میں نے جوش میں آکر جواب دیا۔ ’’تمہارے لیے میں پندرہ آدمی قتل کرنے کو تیار ہوں۔ ‘‘ یہ سن کر وہ مسکرائی۔ ’’مجھے وشواس ہے۔ ‘‘ خدا کی قسم ایک بار پھر میری روح لرز گئی۔ لیکن میں نے سوچا شاید زیادہ جوش آنے پر ایسا ہوا ہے۔ بس وہاں میں تھوڑی دیر اور بیٹھا، پیار اور محبت کی باتیں کیں، اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے بھجئے کھائے اور چپکے سے باہر نکل آیا۔ گو وہ سلسلہ نہ ہوا، لیکن صاحب ایسے سلسلے پہلے ہی دن تھوڑے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا، پھر سہی! دس دن گزر گئے۔ ٹھیک گیارہویں دن، رات کے دو بجے ہاں دو ہی کا عمل تھا۔ کسی نے مجھے آہستہ سے جگایا۔ میں نیچے سیڑھیوں کے پاس جو جگہ ہے نا، وہاں سوتا ہوں۔ آنکھیں کھول میں نے دیکھا۔ ارے رکما بائی۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔ ’’کیا ہے۔ ‘‘ اس نے ہولے کہا۔ ’’آؤ میرے ساتھ‘‘ ۔ میں ننگے پاؤں اس کے ساتھ ہو لیا۔ میں نے اور کچھ نہ سوچا اور وہیں کھڑے کھڑے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ اس نے میرے کان میں کہا۔ ’’ابھی ٹھہرو۔ ‘‘ پھر بتی روشن کی میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ سامنے چٹائی پر کوئی سو رہا ہے۔ منہ پر کپڑا ہے۔ میں نے اشارے سے پوچھا۔ ’’یہ کیا؟‘‘ رکما نے کہا۔ ’’بیٹھ جاؤ۔ ‘‘ میں الو کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ میرے پاس آئی اور بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر اس نے ایسی بات کہی جس کو سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ بالکل برف ہو گیا۔ صاحب۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ جانتے ہیں رکما نے مجھ سے کیا کہا۔ پڑھیے کلمہ! لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی عورت نہیں دیکھی۔ کم بخت نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا۔ ’’میں نے گردھاری کو مار ڈالا ہے۔ ‘‘ ۔ آپ یقین کیجیے اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہٹے کٹے آدمی کو قتل کیا تھا۔ کیا عورت تھی صاحب۔ مجھے جب بھی وہ رات یاد آتی ہے، قسم خداوند پاک کی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس نے مجھے وہ چیز دکھائی جس سے اس ظالم نے گردھاری کا گلا گھونٹا تھا۔ بجلی کے تاروں کی گندھی ہوئی ایک مضبوط رسی سی تھی۔ لکڑی پھنسا کر اس نے زور سے کچھ ایسے پیچ دیے تھے کہ بے چارے کی زبان اور آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔ کہتی تھی بس یوں چٹکیوں میں کام تمام ہو گیا تھا۔ کپڑا اُٹھا کر جب اس نے گردھاری کی شکل دکھائی تو میری ہڈیاں تک برف ہو گئیں۔ لیکن وہ عورت جانے کیا تھی۔ وہیں لاش کے سامنے اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ قرآن کی قسم! میرا خیال تھا کہ ساری عمر کے لیے نامرد ہو گیا ہوں۔ مگر صاحب جب اس کا گرم گرم پنڈا میرے بدن کے ساتھ لگا اور اس نے ایک عجیب و غریب قسم کا پیار کیا تو اللہ جانتا ہے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ زندگی بھر وہ رات مجھے یاد رہے گی۔ سامنے لاش پڑی تھی لیکن رکما اور میں دونوں اس سے غافل ایک دوسرے کے اندر دھنسے ہُوئے تھے۔ صبح ہُوئی تو ہم دونوں نے مل کر گردھاری کی لاش کے تین ٹکڑے کیے اوزار اس کے موجود تھے، اس لیے زیادہ تکلیف نہ ہُوئی۔ ٹھک ٹھک کافی ہوئی تھی پر لوگوں نے سمجھا ہو گا گردھاری کھلونے بنا رہا ہے۔ آپ پوچھیں گے بندہ ءِ خدا تم نے ایسے گھناؤنے کام میں کیوں حصہ لیا۔ پولیس میں رپٹ کیوں نہ لکھوائی۔ صاحب، عرض یہ ہے کہ اس کم بخت نے مجھے ایک ہی رات میں اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اگر وہ مجھ سے کہتی تو شاید میں نے پندرہ آدمیوں کا خون بھی کرہی دیا ہوتا۔ یاد ہے نا! میں نے ایک دفعہ اس سے جوش میں آکر کیا کہا تھا۔ اب مصیبت یہ تھی کہ لاش کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے۔ رکما کچھ بھی ہو، آخر عورت ذات تھی۔ میں نے اس سے کہا جان من تم کچھ فکر نہ کرو۔ فی الحال ان ٹکڑوں کو ٹرنک میں بند کردیتے ہیں۔ جب رات آئے گی تو میں اُٹھا کر لے جاؤں گا۔ اب خدا کا کرنا ایسا ہوا صاحب کہ اس روز ہلڑ ہو ا۔ پانچ چھ علاقوں میں خوب مارا ماری ہوئی۔ گورنمنٹ نے چھتیس گھنٹے کا کرفیو لگا دیا۔ میں نے کہا عبدالکریم! کچھ بھی ہو، لاش آج ہی ٹھکانے لگا دو۔ چنانچہ دو بجے اُٹھا۔ اوپر سے ٹرنک لیا۔ خدا کی پناہ! کتنا وزن تھا۔ مجھے ڈر تھا رستے میں کوئی پیلی پگڑی والا ضرور ملے گا اور کرفیو آرڈر کی خلاف ورزی میں دھرلے گا۔ مگر صاحب، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے جس بازار سے گزرا، اس میں سناٹا تھا۔ ایک جگہ۔ بازار کے پاس مجھے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں نے ٹرنک کھولا اور لاش کے ٹکڑے نکال کر اندر ڈیوڑھی میں ڈال دیے اور واپس چلا آیا۔ قربان اس کی قدرت کے صبح پتہ چلا کہ ہندوؤں نے اس مسجد کو آگ لگا دی۔ میرا خیال ہے گردھاری اس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گیا ہو گا۔ کیونکہ اخباروں میں کسی لاش کا ذکر نہیں تھا۔ اب صاحب، بقول شخصے میدان خالی تھا۔ میں نے رکما سے کہا چالی میں مشہور کردو کہ گردھاری باہر کام گیا ہے۔ میں رات کو دو ڈھائی بجے آجایا کروں گا اور عیش کیا کریں گے۔ مگر اس نے کہا نہیں عبدل، اتنی جلدی نہیں۔ ابھی ہم کو کم از کم پندرہ بیس روز تک نہیں ملنا چاہیے۔ بات معقول تھی، اس لیے میں خاموش رہا۔ سترہ روز گزر گئے۔ کئی بار ڈراؤنے خوابوں میں گردھاری آیا۔ لیکن میں نے کہا۔ سالے مر کھپ چکا ہے۔ اب میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اٹھارہویں روز صاحب میں اسی طرح سیڑھیوں کے پاس چارپائی پر سو رہا تھا کہ رکما رات کے بارہ۔ بارہ نہیں تو ایک ہو گا۔ آئی اور مجھے اوپر لے گئی۔ چٹائی پر ننگی لیٹ کر اس نے مجھ سے کہا۔ ’’عبدل میرا بدن دُکھ رہا ہے، ذرا چمپی کردو۔ میں نے فوراً تیل لیا اور مالش کرنے لگا لیکن آدھے گھنٹے میں ہی ہانپنے لگا۔ میرے پسینے کی کئی بوندیں اس کے چکنے بدن پر گریں۔ لیکن اس نے یہ نہ کہا، بس کر عبدل۔ تم تھک گئے ہو۔ آخر مجھے ہی کہنا پڑا۔ ’’رکما بھئی، اب خلاص۔ ‘‘ وہ مسکرائی۔ میرے خدا کیا مسکراہٹ تھی۔ تھوڑی دیر دم لینے کے بعد میں چٹائی پر بیٹھ گیا۔ اس نے اٹھ کر بتی بجھائی اور میرے ساتھ لیٹ گئی۔ چمپی کر کر کے میں اس قدر تھک گیا تھا کہ کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ رکما کے سینے پر ہاتھ رکھا اور سو گیا۔ جانے کیا بجا تھا۔ میں ایک دم ہڑبڑا کے اٹھا۔ گردن میں کوئی سخت سخت سی چیز دھنس رہی تھی۔ فوراً مجھے اس تار والی رسی کا خیال آیا لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرسکوں، رکما میری چھاتی پر چڑھ بیٹھی۔ ایک دو ایسے مروڑے دیے کہ میری گردن کڑ کڑ کر بول اُٹھی۔ میں نے شور مچانا چاہا، لیکن آواز میرے پیٹ میں رہی۔ اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔ میرا خیال ہے چار بجے ہوں گے۔ آہستہ آہستہ مجھے ہوش آنا شروع ہوا۔ گردن میں بہت زور کا درد تھا۔ میں ویسے ہی دم سادھے پڑا رہا اور ہولے ہولے ہاتھ سے رسی کے مروڑے کھولنے شروع کیے۔ ایک دم آوازیں آنے لگیں۔ میں نے سانس روک لیا۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی پر کچھ نظر نہ آیا۔ جو آوازیں آرہی تھیں، ان سے معلوم ہوتا تھا دو آدمی کشتی لڑ رہے ہیں۔ رکما ہانپ رہی تھی۔ ہانپتے ہانپتے اس نے کہا۔ ’’تکا رام! بتی جلا دو‘‘ ۔ تکا رام نے ڈرتے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’نہیں نہیں، رکما نہیں۔ ‘‘ رکما بولی۔ بڑے ڈرپوک ہو۔ صبح اس کے تین ٹکڑے کر کے لے جاؤ گے کیسے!‘‘ ۔ میرا بدن بالکل ٹھنڈا ہو گیا۔ تکا رام نے کیا جواب دیا۔ رکما نے پھر کیا کہا۔ اس کا مجھے کچھ ہوش نہیں۔ پتہ نہیں کب ایک دم روشنی ہوئی اور میں آنکھیں جھپکتا اٹھ بیٹھا۔ تکا رام کے منہ سے زور کی چیخ نکلی اور وہ دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔ رکما نے جلدی سے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی۔ صاحب میں آپ سے کیا بیان کروں، میری حالت کیا تھی۔ آنکھیں کھلی تھیں۔ دیکھ رہا تھا۔ سن رہا ��ھا لیکن ہلنے جلنے کی بالکل سکت نہیں تھی۔ یہ تکا رام میرے لیے کوئی نیا آدمی نہیں تھا۔ ہماری چالی میں اکثر آم بیچنے آیا کرتا تھا۔ رکما نے اس کو کیسے پھنسایا، اس کا مجھے علم نہیں۔ رکما میری طرف گھور گھور کے دیکھ رہی تھی جیسے اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں۔ وہ مجھے مار چکی تھی۔ لیکن میں اس کے سامنے زندہ بیٹھا تھا۔ خیر وہ مجھ پر جھپٹنے کو تھی کہ دروازے پر دستک ہُوئی اور بہت سے آدمیوں کی آوازیں آئیں۔ رکما نے جھٹ سے میرا بازو پکڑا اور گھسیٹ کر مجھے غسل خانے کے اندر ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے دروازہ کھولا، پڑوس کے آدمی تھے۔ انھوں نے رکما سے پوچھا۔ ’’خیریت ہے۔ ابھی ابھی ہم نے چیخ کی آواز سُنی تھی۔ ‘‘ رکما نے جواب دیا۔ ’’خیریت ہے۔ مجھے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ دروازہ کھول کر باہر نکلی تو دیوار کے ساتھ ٹکرا گئی اور ڈر کر منہ سے چیخ نکل گئی۔ ‘‘ پڑوس کے آدمی یہ سن کر چلے گئے۔ رکما نے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی۔ اب مجھے اپنی جان کی فکر ہوئی۔ آپ یقین مانئے یہ سوچ کر کہ وہ ظالم مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی، ایک دم میرے اندر مقابلے کی بے پناہ طاقت آگئی۔ بلکہ میں نے ارادہ کرلیا کہ رکما کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ غسل خانے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بڑی کھڑکی کے پٹ کھولے باہر جھانک رہی ہے۔ میں ایک دم لپکا۔ چوتڑوں پر سے اُوپر اُٹھایا اور باہر دھکیل دیا۔ یہ سب یوں چٹکیوں میں ہوا۔ دھپ سی آواز آئی اور میں دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔ ساری رات میں چارپائی پر لیٹا اپنی گردن پر جو بہت بُری طرح زخمی ہورہی تھی۔ آپ نشان دیکھ سکتے ہیں۔ تیل مل مل کر سوچتا رہا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ اس نے پڑوسیوں سے کہا تھا کہ اسے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ مکان کے اس طرف جہاں میں نے اسے گرایا تھا جب اس کی لاش دیکھی جائے گی تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ سوتے میں چلی ہے اور کھڑکی سے باہر گر پڑی ہے۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ گردن پر میں نے رومال باندھ لیا تاکہ زخم دکھائی نہ دیں۔ نو بج گئے بارہ ہو گئے مگر رکما کی لاش کی کوئی بات ہی نہ ہُوئی۔ جدھر میں نے اس کو گرایا تھا۔ ایک تنگ گلی ہے۔ دو بلڈنگوں کے درمیان دو طرف دروازے ہیں تاکہ لوگ اندر داخل ہو کر پیشاب پاخانہ نہ کریں۔ پھر بھی دو بلڈنگوں کی کھڑکیوں میں سے پھینکا ہوا کچرا کافی جمع ہوتا ہے جو ہر روز صبح سویرے بھنگن اُٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں نے سوچا شاید بھنگن نہیں آئی، آئی ہوتی تو اس نے دروازہ کھولتے ہی رکما کی لاش دیکھی ہوتی اور شور برپا کردیا ہوتا۔ قصّہ کیا تھا! میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو جلد اس بات کا پتہ چل جائے۔ دو بج گئے تو میں نے جی کڑا کرا کے خود ہی دروازہ کھولا۔ لاش تھی نہ کچرا یا مظہر العجائب! رکما گئی کہاں۔ قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں مجھے اس پھانسی کے پھندے سے بچ نکلنے کا اتنا تعجب نہیں ہو گا جتنا کہ رکما کے غائب ہونے کا ہے۔ تیسری منزل سے میں نے اُسے گرایا تھا، پتھروں کے فرش پر۔ بچی کیسے ہو گی۔ لیکن پھر سوال ہے کہ اس کی لاش کون اُٹھا کر لے گیا۔ عقل نہیں مانتی، لیکن صاحب کچھ پتہ نہیں وہ ڈائن زندہ ہو۔ چالی میں تو یہی مشہور ہے کہ یا تو کسی مسلمان نے گھر ڈال لیا ہے یار مار ڈالا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مار ڈالا ہے تو اچھا کیا ہے۔ گھر ڈال لیا ہے تو جو حشر اس غریب کا ہو گا آپ جانتے ہی ہیں۔ خدا بچائے صاحب۔ اب تکا رام کی بات سنئے۔ اس واقعے کے ٹھیک بیس روز بعد وہ مجھ سے ملا اور پوچھنے لگا۔ ’’بتاؤ! رکما کہاں ہے‘‘ ۔ میں نے کہا۔ ’’مجھے کچھ علم نہیں۔ ‘‘ کہنے لگا۔ ’’نہیں، تم جانتے ہو۔ ‘‘ ۔ میں نے جواب دیا۔ ’’بھائی قرآن مجید کی قسم! مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘ ۔ بولا ’’نہیں، تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم نے اُسے مار ڈالا ہے۔ میں پولیس میں رپٹ لکھوانے والا ہوں کہ پہلے تم نے گردھاری کو مارا پھر رکما کو‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ لیکن صاحب میرے پسینے چھوٹ گئے۔ بہت دیر تک کچھ سمجھ میں نہ آیا کیاکروں۔ ایک ہی بات سوجھی کہ اس کو ٹھکانے لگا دوں۔ آپ ہی سوچیے اس کے علاوہ اور علاج بھی کیا تھا۔ چنانچہ صاحب اسی وقت چھپ کر چھری تیز کی اور تکارام کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ اتفاق کی بات ہے شام کو چھ بجے وہ مجھے۔ اسٹریٹ کے ناکے پر موتری کے پاس مل گیا۔ موسمبیوں کی خالی ٹوکری باہر رکھ کر وہ پیشاب کرنے کے لیے اندر گیا۔ میں بھی لپک کر اس کے پیچھے۔ دھوتی کھول ہی رہا تھا کہ میں نے زور سے پکارا۔ ’’تکارام‘‘ ۔ پلٹ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ چھری میرے ہاتھ ہی میں تھی۔ ایک دم اس کے پیٹ میں بھونک دی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی باہر نکلتی ہوئی انتڑیاں تھامیں اور دوہرا ہو گر پڑا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باہر نکل کر نو دو گیارہ ہو جاتا مگر بے وقوفی دیکھئے بیٹھ کر اس کی نبض دیکھنے لگا کہ آیا مرا ہے یا نہیں۔ میں نے اتنا سنا تھا کہ نبض ہوتی ہے، انگوٹھے کی طرف یا دوسری طرف، یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیر لگ گئی۔ اتنے میں ایک کانسٹیبل پتلون کے بٹن کھولتے کھولتے اندر آیا اور میں دھر لیا گیا۔ بس صاحب یہ ہے پوری داستان۔ پڑھیے کلمہ، لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ! جو میں نے رتی بھربھی جھوٹ بولا ہو۔ سعادت حسن منٹو
0 notes
dailyswail · 5 years
Text
ضلع ملتان سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلے
ضلع ملتان سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلے
ملتان:
ملتان میں موسمی سبزیوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔ گوبھی 40 روپے اور مٹر 100 روپے کلو فروخت ہونے لگے۔
ٹماٹر 60 روپے، الو 40 اور پیاز 40 روپے کلو کا ہوگیا،  شلجم اور گاجر کے نرخ 40 روپے فی کلو ہیں۔
شملہ مرچ 150 روپے اور اور کدو 120 روپے کلو ہیں۔ بیگن 80 روپے اور کھیرا 50 روپے کلو میں دستیاب ہے۔
ملتان:
ملتان میں کرونا وائرس کا خطرہ،،، محکمہ ہیلتھ کی ٹیم سکریننگ کے لئے چائینز کیمپ پہنچ گئی
د…
View On WordPress
0 notes
romanticzubi · 7 years
Text
ایک سو پلس، انوکھی اور دلچسپ باتیں
ایک سو پلس، انوکھی اور دلچسپ باتیں
آج آپ کو +99 انوکھی اور منفرد باتیں بتاتے ہیں۔ جن میں سے آپ نے پہلے بھی کچھ پڑھ رکھی ہوں گی اور کچھ آپ کے لئے نئی ہوں گی  جن کو پڑھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے اوریہ معلومات آپ کے علم میں اضافے کا باعث بھی بنیں گی۔
آپ خواب میں صرف ان چہروں کو دیکھتے ہیں جنھیں آپ جانتے ہیں۔ جبکہ بعض ماہرین اس بات کو رد بھی کرتے ہیں۔کہ کبھی کبھار انجانے چہرے بھی خواب میں نظر آتے ہیں لیکن ہم ان کو نہ پہچاننے کی وجہ سے بھول جاتے ہیں۔ یہ ہی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔
سونے کی جتنی زیادہ کوشش کریں نیند آنے کے چانس اتنے ہی کم ہیں۔
کی بورڈ کی آخری لائن میں موجود بٹنوں سے آپ انگلش کا کوئی لفظ نہیں لکھ سکتے۔
انسانی دماغ ستر فیصد وقت پرانی یادوں یا مستقبل کی سنہری یادوں کے خاکے بنانے میں گزارتا ہے۔
پندرہ منٹ ہنسنا جسم کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہے جتنا دو گھنٹے سونا۔
کسی بھی بحث کے بعد پچاسی فیصد لوگ ان تیزیوں اور اپنے تیز جملوں کو سوچتے ہیں جو انھوں نے اس بحث میں کہے ہوتے ہیں۔
سردی کی کھانسی میں چاکلیٹ کھانسی کے سیرپ سے پانچ گنا زیادہ بہتر اثر دکھاتی ہے۔لہٰذا سردی والی کھانسی میں چاکلیٹ کھایا کریں
فلاسفی میں ایک لمحے کا مطلب ہوتا ہے نوے سیکنڈ
جتنی مرضی کوشش کر لیں جو مرضی کر لیں آپ یہ یاد نہیں کر سکتے آپ کا خواب کہاں سے شروع ہوا تھا۔
کوئی بھی جذباتی دھچکا پندرہ یا بیس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا اس کے بعد کا جذباتی وقت آپ کی "اوور تھنکنگ " یعنی اس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے آپ خود کو زخم لگاتے ہیں۔
عام طور پر آپ اپنے آپ کو آئینے میں حقیقت سے پانچ گنا زیادہ حسین دیکھتے ہیں یا سمجھتے ہیں۔
سائنس کے مطابق نوے فیصد لوگ اس وقت گھبرا جاتے ہیں جب انھیں یہ میسج آتا ہے۔
"کچھ پوچھوں آپ سے"
زمین سے سب سے نزدیک ستارہ سورج ہے جو زمین سے 93 ملین میل دور واقع ہے۔
مکھی ایک سیکنڈ میں 32 مرتبہ اپنے پر ہلاتی ہے۔
دنیا کے 26 ملکوں کو سمندر نہیں لگتا۔
مثانے میں پتھری کو توڑنے کا خیال سب سے پہلے عرب طبیبوں کو آیا تھا۔
گھوڑا، بلی اور خرگوش کی سننے کی طاقت انسان سے زیادہ ہوتی ہے، یہ کمزور سے کمزور آواز سننے کے لیے اپنے کان ہلا سکتے ہیں
تیل کا سب سے پہلا کنواں پینسلوینیا امریکا میں 1859ء میں کھودا گیا تھا
کچھوا، مکھی اور سانپ بہرے ہوتے ہیں
تاریخ میں القدس شہر پر 24 مرتبہ قبضہ کیا گیا
دنیا کا سب سے بڑا پارک کنیڈا میں ہے
ہٹلر برلن کا نام بدل کر جرمینیا رکھنے کا ارادہ رکھتا تھا
دنیا میں سب سے زیادہ پہاڑ سوئٹزر لینڈ میں پائے جاتے ہیں
دنیا کے سب سے کم عمر والدین کی عمر 8 اور 9 سال تھی، وہ 1910ء میں چین میں رہتے تھے۔
تمام پھلوں اور سبزیوں کی نسبت تیز مرچ میں وٹامن سی کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
فرعونوں کے زمانے کے مصر میں ہفتہ 10 دن کا ہوتا تھا
تتلی کی چکھنے کی حس اس کے پچھلے پاؤں میں ہوتی ہے
دنیا کی سب سے طویل جنگ فرانس اور برطانیہ کے درمیان ہوئی تھی، یہ جنگ 1338ء کو شروع ہوئی تھی اور 1453 کو ختم ہوئی تھی، یعنی یہ 115 سال جاری رہی تھی
قطبِ شمالی کے آسمان سے سال کے 186 دن تک سورج مکمل طور پر غائب رہتا ہے
ٹھنڈا پانی گرم پانی سے زیادہ ہلکا ہوتا ہے۔ کیمسٹری
دنیا کے ہر شخص کی اوسط فون کالز کی تعداد 1140 ہے
وہیل کی اوسط عمر 500 سال ہوتی ہے۔
فرانس کے اٹھارہ بادشاہوں کا نام لوئیس تھا
دنیا پر سب سے پہلا گھر کعبہ معظمہ ہی بنایا گیا تھا۔
ربڑ کے زیادہ تر درخت جنوب مشرقی ایشیا میں پائے جاتے ہیں
اگر موٹے گلاس میں گرم مشروب ڈال دیا جائے تو پتلے گلاس کی نسبت اس کے ٹوٹنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے جسم میں 300 ہڈیاں ہوتی ہیں جو بالغ ہونے تک صرف 206 رہ جاتی ہیں۔ چھوٹی ہڈیاں مل کر بڑی ہڈیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
اٹھارویں صدی میں کیچپ بطور دواء استعمال ہوتا تھا
کوے کی بھی اوسط عمر پانچ سو سال تک ہوتی ہے۔
انسانوں کے برعکس بھیڑ کے چار معدہ ہوتے ہیں اور ہر معدہ انہیں خوراک ہضم ہونے میں مدد دیتا ہے۔
مینڈک کبھی بھی اپنی آنکھیں بند نہیں کرتا، یہاں تک کہ سوتے ہوئے بھی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔
اٹھارہ مہینوں کے اندر دو چوہے تقریباً 1 ملین اپنے ساتھی پیدا کر لیتے ہیں۔
شارک کے جسم میں کوئی ایک بھی ہڈی نہیں ہوتی۔
جیلی فش کے پاس دماغ نہیں ہوتا۔
پینگوئن اپنی زندگی کا آدھا حصہ پانی میں گزارتے ہیں اور آدھا زمین (خشکی) پر
گلہری پیدا ہوتے وقت اندھی ہوتی ہے۔
کموڈو، چھپکلی کی لمبی ترین قسم ہے۔ جس کی لمبائی تقریباً 3 میٹر تک ہوتی ہے۔
کموڈو، چھپکلی کی لمبی ترین قسم ہے۔ جس کی لمبائی تقریباً 3 میٹر تک ہوتی ہے۔
کینگرو پیچھے کی جانب نہیں چل سکتے۔
دنیا میں سب سے بڑا انڈہ شارک دیتی ہے۔
دنیا میں سب سے ذہین جانور ایک پرندہ ہے، جسے انگریزی میں گرے پیرٹ اور اردو میں خاکستری طوطا کہا جاتا ہے۔
جیلی فش کے سر کو "بیل" کہا جاتا ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل روزانہ اربوں انسانوں کو ان کی مطلوبہ معلومات اور ویب سائٹس ڈھونڈ کر دیتا ہے۔ یہ سرچ انجن اسقدر پیچیدہ اور بڑی مقدار میں ڈیٹا اور معلومات کو اربوں انسانوں تک پہنچاتا ہے کہ اس کی طاقت اور رفتار کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
پینگوئین ایک ایسا جانور ہے جو نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرسکتا ہے۔
گولڈ فش کو اگر کم لائٹ میں پکڑا جائے تو یہ اپنا رنگ کھودیتی ہے۔
ایک مرغی سال میں اوسطاً 228انڈے دیتی ہے۔
بلیاں اپنی زندگی کا 66 فیصد حصہ سو کر گزارتی ہیں۔
جھینگے کا خون بیرنگ ہوتا ہے لیکن جب یہ آکسیجن خارج کرتا ہے تو اسکا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔
بیل نیچے کے بجائے اوپر کی طرف زیادہ تیزی سے دوڑتے ہیں۔
ہاتھی کے دانتوں کو دنیا کے سب سے بڑے دانت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
دنیا کے سب سے چھوٹے لال بیگ کا سائز صرف 3 ملی میٹر ہے۔
شارک کے دانت ہر ہفتے گرتے ہیں۔
دریائی گھوڑا ایک ہی وقت میں دو مختلف سمت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
برفانی ریچھ 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے اور ہوا میں 6فٹ کی بلندی تک چھلانگ لگاسکتا ہے۔
ایک ٹائیگر کی دم اس کے جسم کی کل لمبائی کی ایک تہائی تک بڑھ سکتی ہے۔
مچھلی کسی چیز کا ذائقہ چکھنے کیلئے اپنی دم اور پنکھ استعمال کرتی ہے۔
ڈریگن فلائی کی 6 ٹانگیں ہوتی ہیں لیکن وہ پھر بھی نہیں چل سکتی۔
ایسی سفید بلیاں جو نیلی آنکھوں والی ہوتی ہیں عام طور پر وہ بہری ہوتی ہیں۔
افریقی ہاتھیوں کے 4 دانت ہوتے ہیں۔
زرافہ جمائی نہیں لے سکتا۔
ایک گونگا مستقل 3 سال سونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دنیا میں صرف ایک دن میں اوسطا 55ارب مشروبات استعمال کی جاتی ہیں
شاہد آفریدی نے جب تیز ترین سنچری کا ریکارڈ بنایا تو وہ بھارتی سٹار سچن ٹنڈولکر کا بیٹ استعمال کررہے تھے۔
کیا آپ اللہ کی قدرت کے مظہر" انسانی جسم "کے متعلق یہ حیرت انگیز بات جانتے ہیں۔کہ انسانی جسم میں موجود خون کی نالیوں کی مجموعی لمبائی 60 ہزارمیل کے برابر ہے۔
سام سانگ کوریائی زبان کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے سام اورسانگ ۔سام کا مطلب" تین" اور سانگ کا مطلب "ستارے "ہے۔ یعنی تین ستارے
سمندر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی تقریبا11 کلومیڑ (10923میڑ )ہے
دنیا میں بانوے فیصد لوگ گوگل کا استعمال اپنے اسپیلنگ چیک کرنے کے لئے کرتے ہیں۔اور پاکستان میں 80 فیصد لوگ گوگل کا استعمال اس لئے کرتے ہیں کہ پتہ چل سکے انٹرنیٹ چل رہا ہے کہ نہیں۔
مینڈک کی زبان میں تین گنا بڑا شکار دبوچنے کی طاقت ہوتی ہے
اب تک کا خطرناک ترین ہوائی حادثہ 1977 میں ہوا ۔اور اس حادثے میں583 لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔
افریکی ہاتھی دنیا کا تیسرا سب سے وزنی جانور ہے۔۔ اس کا وزن 13000 کلو گرام تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
دنیا کی تقریباً آدھی آبادی صرف پانچ ممالک چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں رہتی ہے
نابینا افراد ہماری طرح خواب نہیں دیکھتے۔
مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔
الو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔
عدد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا نوٹ زمبابوے نے 2009 میں جاری کیا تھا جو کہ 100ٹریلین ڈالر یعنی100 کھرب زمبابوے ڈالرکا تھا۔
کیا آپ بحیرہ مردار کے متعلق یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ اگر آپ اس سمندر میں گر بھی جائیں تو بھی آپ اس میں نہیں ڈوبیں گے۔
پاکستان کا "مکلی قبرستان، ٹھٹھہ " جو کے مسلمانوں کا سب سے بڑا قبرستان ہے۔جہاں ایک ہی جگہ پر لاکھوں مسلمان دفن ہیں ۔یہ قبرستان 6 میل کے طویل ایریا میں پھیلا ہوا ہے۔
کیا آپ شیروں کے بارے یہ دلچسپ بات جانتے ہیں کہ شیر کے بچے جب اپنے والدین کو کاٹتے ہیں تو وہ اکثر رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔
بچھو چھے دن تک اپنا سانس روک سکتا ہے۔بچھو پانی کی تہہ میں سانس نہیں لے سکتا لہذا وہ اپنا سانس روک لیتا بھلے اسے چھے دن وہاں پڑا رہنے دو۔ وہ سانس نہیں لے گا لیکن زندہ رہے گا۔
ایک روسی خاتون "مسٹرس وسیلائیو "کے ایک ہی خاوند سے چالیس سال کے دورانیے میں یعنی سنہ1725ء سے 1765ءکے عرصہ کے دوران 69 بچے پیدا ہوئے
مراکش کے سلطان إسماعيل بن الشريف ابن النصر جس نے مراکش پر 1672ء سے 1727ء تک 55 سال حکومت کی تھی ۔ اس کے مختلف بیویوں اور باندیوں (کنیزوں) سے 525 بیٹے اور 342 بیٹیاں تھیں۔
مشتری (سیارہ) سورج کے گرد ایک چکر 11.86زمینی گردشوں میں مکمل کرتا ہے۔
ایک بیرل میں تقریباً 159 لیٹر ہوتے ہیں اور یہ نام آج سے تقریباً 6 صدیوں قبل استعمال ہونے والے لکڑی کے ڈبوں کو دیا جاتا تھا جنہیں برطانوی لوگ شراب ذخیرہ کرنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔
خط نستعلیق جو فارسی، پشتو، کھوار اور اردو لکھنے کے لئے عام طور پر استعمال ہوتا ہے، اس کے موجد میرعلی تبریزی ہیں۔
کوہِ نور جس کا شمار دنیا کے مشہور اور قیمتی ترین ہیروں میں ہوتا ہے، اس کا وزن 105 قیراط (21.6 گرام) ہے۔
برٹش میوزیم میں کل 1 کروڑ 30 لاکھ اشیاء محفوظ ہیں، جو تمام براعظموں سے اکھٹی کی گئی ہیں۔
انسانوں میں، ایک بالغ کھوپڑی میں 22 ہڈیاں ہوتی ہیں جو جبڑے کے علاوہ ہیں، کھوپڑی کی تمام ہڈیاں ایک دوسرے سے جُڑی ہوتی ہیں۔
البیرونی نے ایک ناول بنام بامیان کے دو بت لکھا تھا، یہ ناول گم یا ضائع ہو چکا ہے اور اس وقت کوئی نسخہ موجود نہیں ہے۔
عام طور پر ایک انسان اپنی پوری زندگی میں اوسطاً ایک لاکھ چار ہزار چھ سو کلومیڑ پیدل چلتا ہے۔
چھاپہ خانے سے چھاپی جانے والی اردو کی پہلی کتاب اخلاق ہندی ہے جو 1803ء میں شائع کی گئی۔
شہد کی مکھی 7 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ سکتی ہے۔
آپ کو ان میں سے کونسی معلومات سب سے زیادہ اچھی لگی؟؟؟
via Blogger http://ift.tt/2g9fTq0
0 notes
urdukhabrain-blog · 7 years
Text
رات کا طوطا ایک صدی کے بعد پھر ظاہر ہو گیا
Urdu News on https://goo.gl/ftqQ1d
رات کا طوطا ایک صدی کے بعد پھر ظاہر ہو گیا
رات کا طوطا، کے متعلق یہ خیال تھا کہ اس کی نسل ختم ہو گئی ہے کیونکہ وہ کئی عشروں کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن اب اسے آسٹریلیا میں دوبارہ دکھائی دیا ہے۔ اتنا عرصہ وہ کہاں غائب رہا۔ فی الحال کسی کو معلوم نہیں۔
ایک سو سال تک نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد ’رات کا طوطا‘ ایک بار پھر دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ دوسرے کئی جانوروں کی طرح اس کی نسل بھی ختم ہو چکی ہے۔
رات کا طوطا ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، طوطوں کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ رات کے طوطے کی نسل تقریباً 33 لاکھ سال پہلے دوسرے طوطوں سے الگ ہو گئی تھی۔
اسے رات کا طوطا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ عام طوطوں اور پرندوں کے برعکس خوراک کی تلاش میں رات کے وقت باہر نکلتا ہے۔ اپنی اس عادت کے لحاظ سے وہ الو کے زیادہ قریب ہے۔
رات کا طوطا بہت ہی کم یاب پرندہ ہے۔ اندازہ گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں اس نسل کے محض 50 سے 249 تک پرندے موجود ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ آسٹریلیا کے علاقے کوئنزلینڈ میں پایا جاتا ہے، کیونکہ حالیہ برسوں میں اس کم یاب پرندے کو اسی علاقے میں دیکھا گیا ہے۔
رات کے طوطے کے بارے میں معلومات بہت محدود ہیں۔ کیونکہ وہ 1912 کے بعد سے کہیں بھی دیکھا نہیں جا رہا تھا۔
اپنی جسامت ، رنگت اور ساخت کے اعتبار سے وہ سبز رنگ کے عام طوطوں سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے پروں کا رنگ زردی مائل سبز ہوتا ہے جس میں کہیں کہیں کالی دھاریاں بھی ہوتی ہیں۔
سن 2012 میں سمتھ سونیئن میگزین نے اس نسل کے طوطوں کا ذکر دنیا کے سب سے پراسرار پرندوں کے طور پر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کی نسل بہت محدود ہے۔
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کے طوطے کی خوراک جنگلی گھاس کے بیج ہیں۔ اس کی مادہ دو سے چار تک انڈے دیتی ہے ۔ یہ پرندہ اپنے گھونسلہ جنگلی گھاس سے گھری کھائیوں میں بناتا ہے تاکہ اس کا کھوج نہ لگایا جا سکے۔
رات کا طوطا دوبارہ دریافت ہونے کے بعد اب اس پر تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ آنے والے برسوں میں ہمارے پاس اس کے بارے میں نہ صرف بہت سی معلومات موجود ہوں گی بلکہ اس کی نسل بھی بڑھ چکی ہو گی کیونکہ وہ ان پرندوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی نسل کو معدوم ہونے کا خطرہ ہے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ایک صدی کی گمشدگی کے بعد اسے ایک آسٹریلوی فوٹوگرافر جان ینگ نے دریافت کا اور اس پر اسرار پرندے کی نہ صرف کئی تصویریں اتاریں بلکہ اس کی 17 سیکنڈ کی ویڈیو بھی ریکارڈ کی۔ لیکن یہ کامیابی اسے اتفاقیہ نہیں ملی، بلکہ اس کے لیے ینگ کو لگ بھگ 15 سال تک آسٹریلیا کے جنگلوں کی خاک چھاننی پڑی۔
ہوا یہ کہ جان ینگ اور جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق آسٹریلیا کے ایک سائنس دان کیتھ بل شامبرز کوئنز لینڈ کے جنگل میں ایک چھوٹے پرندے ’زیبرا فنچ‘ پر تحقیق کے لیے مواد اکھٹا کر رہے تھے کہ انہیں وہاں ایک زردی مائل سبز پرندے کا پر ملا۔
جان ینگ کہتے ہیں کہ کیتھ اور میں نفنچ کے گھونسلے کھنگال رہے تھے کہ اچانک ایک گھونسلے میں ہمیں زردی مائل سبز رنگ کا پر ملا۔
وہ کہتے ہیں یہ ہمارے لیے ایک ناقابل یقین لمحہ تھا۔ ہم نے اس پرندے کے بارے میں سن رکھا تھا اور اس کی کچھ دھندلی سی تصویریں بھی دیکھی ہوئیں تھیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اس پرندے کا دنیا سے مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔
ینگ کہتے ہیں کہ مجھے اس بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں تھا کہ یہ پر غائب ہونے والے ’ رات کے طوطے ‘کا ہے۔
یہ واقعہ سن 2013 کا ہے۔ لیکن اس پر تحقیق اور تصدیق کے بعد 2015 میں آسٹریلیا کے میڈیا پر اس دریافت کا اعلان کیا گیا۔ ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کے مغربی اور جنوبی حصے میں بھی رات کا طوطا دیکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔
قالب وردپرس
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
کیا فیشن کا مستقبل سنتری ہے؟: لینزنگ کے اطالوی ٹیکسٹ��ئل کے بڑے اورنج فائبر کے ساتھ تعاون
کیا فیشن کا مستقبل سنتری ہے؟: لینزنگ کے اطالوی ٹیکسٹائل کے بڑے اورنج فائبر کے ساتھ تعاون
ھٹی کے چھلکے لینزنگ کی سیلولوزک ریشوں کی فہرست میں تازہ ترین اضافہ ہیں ، بشکریہ اطالوی ٹیکسٹائل کے بڑے اورنج فائبر کے ساتھ تعاون
ایک ارتھ کلر پیلیٹ (ٹکسال ، آڑو اور انڈگو) اور ہوا دار سلہوٹ ڈیزائنر انیتا ڈونگرے کی اسپرنگ سمر 21 لائن اپ کی واحد جھلکیاں نہیں ہیں۔ ‘ساؤنڈز آف دی جنگل’ جو کہ حال ہی میں گرا ہے ، لفظی طور پر جنگل سے اخذ کیا گیا ہے-لکڑی پر مبنی سیلولوزک ریشوں کا استعمال بشکریہ ٹینسل کے تعاون سے۔
1990 کی دہائی میں اس کے آغاز کے بعد سے ، آسٹرین ٹیکسٹائل اسپیشلٹی برانڈ (لینزنگ گروپ کے تحت) ایک طویل سفر طے کرچکا ہے۔ اس سال ، اس نے ریڈ کارپٹ گرین ڈریس کے ساتھ شراکت کی ، ایک ایسی تنظیم جو ڈیزائنرز کو آسکر کے لیے پائیدار ٹیکسٹائل ایجادات اور کسٹم میڈ گاؤن پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس نے آسٹریلیا کے کٹ ولو اور راجیش پرتاپ سنگھ جیسے ڈیزائنرز کے گھر کے قریب پہنچنے کا راستہ تلاش کیا۔ اور اس کے ہلکے وزن کی نوعیت کے ساتھ ، اس نے ڈیزائن ہاؤسز جیسے مارا ہوف مین اور دی سمر ہاؤس انڈیا میں تیراکی کے مجموعوں میں بھی نمایاں کیا ہے۔
انیتا ڈونگرے کے ‘جنگل کی آوازیں’ مجموعہ سے | فوٹو کریڈٹ: خصوصی اہتمام۔
اب ، انڈگو اور ویسکوز کے تجربات کے بعد ، لینزنگ گروپ نے اٹلی کے اورنج فائبر کے ساتھ شراکت داری کی ہے تاکہ سنتری کے چھلکوں سے بنے پہلے ٹینسل برانڈڈ لائو سیل فائبر بنائے۔ کمپنی ، جس نے ماضی میں سالواتور فیراگامو اور ایچ اینڈ ایم کے ساتھ تعاون کیا ہے ، ہر سال پیدا ہونے والے 7،00،000 ٹن ‘پاسٹازو’ (ملک کی سائٹرس پروسیسنگ انڈسٹری کی بائی پروڈکٹ) کو استعمال کرتی ہے۔ بین الاقوامی خبروں کی رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اورنج فائبر کو کوئی بھی شکل بنانے کے لیے رنگ ، رنگ اور پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں ، نینو ٹیکنالوجی کی بدولت ، مادے میں ضروری تیل اور وٹامن سی ہوتا ہے ، ہلکا پھلکا ہوتا ہے اور نمی جذب کرتا ہے (ہمیں ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ کیا وٹامن پہننے والے کو بھیجا جاتا ہے)۔
کے لیے ایک خصوصی میں۔ ہندو ویک اینڈ۔، اویناش مانے ، کمرشل ہیڈ ، لینزنگ اے جی ، ہمیں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی پائیدار فیشن مارکیٹ میں لے جاتے ہیں ، برانڈ میں تحقیق کیوں سنجیدہ کاروبار ہے ، اور اورنج فیشن میں اگلی بہترین چیز کیسے ہے۔
آپ نے ھٹی ریشوں کے ساتھ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
ہم ہمیشہ پائیدار خام مال کو کپڑے بنانے کے لیے جدید طریقوں پر کام کر رہے ہیں۔ مثالوں میں ریفبرا شامل ہیں۔ [made from upcycling cotton scraps] اور ایکوورو۔ [viscose natural fibers]. ہم 2021 کے اوائل میں اورنج فائبر کے قریب پہنچے اور استعمال کرنے کے لیے ھٹی کا فضلہ ڈالنے کے خواہشمند تھے۔ یہ لکڑی کے گودا کے ساتھ مل کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ [sourced from Europe, South Africa, Germany]. فی الحال ، نیا مواد زیر آزمائش ہے اور ہم اس سے سوت بنانے کی سمت کام کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ اس سال کے اختتام تک ایک باہمی تعاون حاصل کیا جائے جس میں محدود ایڈیشن کے مغربی لباس ہوں۔
آپ کو کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟
لکڑی کے سیلولوز مواد کے مقابلے میں اورنج گودا مختلف خصوصیات رکھتا ہے۔ صحیح مجموعہ بنانا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اسے بالکل رنگا جا سکتا ہے ایک ایسا علاقہ تھا جس پر ہمیں تکنیکی طور پر ک��م کرنا تھا۔ چونکہ ہم نمونے لینے اور ترقی کے مرحلے میں ہیں ، مینوفیکچرنگ کے کچھ اضافی اخراجات ہیں۔ جب ہم کمرشل پروڈکشن میں داخل ہوتے ہیں تو لاگت ہمارے دوسرے خاص فیبرکس ، جیسے ٹینسل موڈل انڈگو کے برابر ہو گی۔
فائبر کا مستقبل
بین الاقوامی سطح پر ، سیب کے جوس اور سائڈر سے بچا ہوا قدرتی ربڑ کے ساتھ ملایا جا رہا ہے تاکہ پودوں پر مبنی ایک اور چمڑے کا متبادل ، لیپ (بشکریہ کوپن ہیگن پر مبنی بیونڈ لیدر) بنایا جا سکے۔ امریکہ میں ، فوڈ کمپنی ڈول سنشائن کمپنی نے لندن کی اناناس انعم کے ساتھ شراکت کی ہے – وہ فرم جو ہمارے لیے ویگن انناس کا چمڑا لاتی ہے ، Piñatex – فلپائن کے ڈول فارمز سے اضافی انناس کے پتے استعمال کرنے کے لیے۔
حالانکہ کیلے اور الو کے کپڑے ہندوستانی مارکیٹ میں نئے نہیں ہیں ، سپننگ فیوچر تھریڈز – انسٹی ٹیوٹ فار پائیدار کمیونٹیز ، ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) اور ویگننگن یونیورسٹی اینڈ ریسرچ (ڈبلیو یو آر) کی مشترکہ رپورٹ – اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہمارا ملک بہت اچھا ہے۔ اس کے اضافی زرعی فضلے جیسے سورغم ، انناس کے پتے ، مکئی ، گنے اور اس طرح کی ری سائیکلنگ جاری رکھنے کی صلاحیت۔ یہاں مزید تجربات ہیں!
لینزنگ کا تحقیقی عمل۔
کارپوریٹ کی R&D ٹیم میں 200 سے زائد لوگ ہیں جو لکڑی پر مبنی سیلولوزک ریشوں اور بائیوفائنریز کے لیے نئی ٹیکنالوجیز ، عمل ، مصنوعات اور ایپلی کیشنز پر مسلسل تحقیق کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس 1،302 پیٹنٹ اور پیٹنٹ ایپلی کیشنز ہیں۔ [from 216 patent families] 52 ممالک میں
حالیہ برانڈ ٹائی اپس۔
ملکی اور بین الاقوامی دونوں مارکیٹوں میں پائیداری کا عنصر زیادہ ہے۔ یورپ اور برطانیہ میں ایچ اینڈ ایم ، مارکس اینڈ اسپینسر ، سپر ڈری اور پریمارک جیسے برانڈز آہستہ آہستہ ویسکوز سے باہر نکل رہے ہیں اور قدرتی کپڑوں کے ساتھ تجربہ کر رہے ہیں۔ امریکہ میں پٹاگونیا ، لولو لیمون اور لیوس جیسی تنظیمیں بھی ویسکوز سے ایکویورو میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ یونیکلو ، جاپانی آرام دہ اور پرسکون لباس خوردہ فروش ، تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ اور ہندوستان میں ، لیوس ، اسپیکر ، اور مفتی جیسے لوگ اب ٹینسل ڈینم کو اپنا رہے ہیں۔ جلد ہی ، گھر کی سجاوٹ اور فرنیچر کی بڑی چیزیں جیسے بیڈ باتھ اینڈ بیونڈ اور میسی ایکو فیبرکس میں تیار کردہ کلیکشن کا اعلان کریں گی۔
کیا ہندوستانی صارف پائیدار فیشن کے لیے زیادہ خرچ کرنے کو تیار ہے؟
تقریبا five پانچ سال پہلے ، لاگت میں اضافے کے خلاف بہت بڑی مزاحمت تھی ، لیکن خریدار آج ادائیگی کے لیے تیار ہیں۔ لینزنگ 1938 میں قائم کیا گیا تھا ، لیکن ہم ہندوستانی اور جنوبی ایشیا کی منڈیوں میں 2000 کے بعد ہی داخل اور ترقی کر سکتے تھے کیونکہ ان پر کپاس پر مبنی مصنوعات کا غلبہ تھا۔ اب ہم برانڈز اور صارفین دونوں کی ذہنیت میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی تقریبا 60 60 فیصد آبادی 40 سال سے کم عمر کی ہے ، زیادہ ڈسپوزایبل آمدنی کے ساتھ ٹیک پریمی ہے ، اور ان کے ملبوسات کی تخلیق میں کیا ہوتا ہے اس سے زیادہ آگاہ ہیں۔
اس کے بعد کیا ہے؟
جنوبی ایشیا کی مارکیٹ میں اپنے قدم بڑھانے کے لیے ، تھائی لینڈ میں اس سال کے آخر تک ایک نیا ٹینسل لیوسیل پلانٹ قائم کیا جائے گا۔ لہذا ، خطے میں چین شراکت داروں کو سپلائی کرنے کے لیے خام مال تیزی سے دستیاب ہوگا۔ ہندوستانی ڈیزائنرز کے ساتھ تعاون اور اعلی درجے کے لیبل بھی کام میں ہیں ، جیسا کہ بھنگ کے فضلے جیسے نئے مواد کے تجربات ہیں۔
ہفتے کے آخر میں پوری کہانی پڑھیں۔
. Source link
0 notes
dailyswail · 5 years
Text
ملتان سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلے
ملتان سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلے
ملتان
ملتان میں موسمی سبزیوں کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔
ملتان، گوبھی 40 روپے اور مٹر 100 روپے کلو فروخت ہونے لگے۔ ملتان، ٹماٹر 80 روپے، الو 40 اور پیاز 40 روپے کلو کا ہوگیا
ملتان، شلجم اور گاجر کے نرخ 40 روپے فی کلو ہیں۔ ملتان، شملہ مرچ 200 روپے اور اور کدو 150 روپے کلو ہیں۔
بیگن 80 روپے اور کھیرا 50 روپے کلو میں دستیاب ہے۔ملتان میں بھی چینی کی قیمتوں کا بحران سر اٹھانے لگا
ملتان، شہر میں چینی…
View On WordPress
0 notes