Tumgik
#Pakistan Media
shiningpakistan · 4 months
Text
ذمہ دارانہ صحافت کو اصل خطرہ کس سے؟
Tumblr media
چلیں مان لیتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا میڈیا کے متعلق بنایا گیا قانون کالا ہے اور اسی بنیاد پر صحافتی تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں، جھوٹ بہتان تراشی اور فیک نیوز ہمارے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا معمول بن چکا۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جھوٹے الزامات لگانا، کسی کی پگڑی اچھالنا، دوسروں پر غداری اور گستاخی تک کے سنگین الزامات لگانا، دوسروں کی زندگیوں تک کو خطرہ میں ڈالنا کیا یہ ہم نہیں کرتے رہے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر فتنہ انگیزی کرنے والے کتنوں کو سزائیں دی گئیں؟ کس طرح ٹی وی چینلز نے دوسرے ٹی وی چینلز اور صحافیوں کے خلاف جھوٹ کی بنیاد پر مہمات چلائیں، صحافیوں نے صحافیوں پر غداری کے فتوے لگائے، گستاخی تک کے الزامات لگائے لیکن کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے کہ برطانیہ میں انہی الزامات پر ہمارے ہی ٹی وی چینلز اور صحافیوں پر جرمانے عائد کیے گئے جس پر نہ کسی نے آزادی رائے کی بات کی اور نہ ہی آزادی صحافت کیلئے خطرہ محسوس کیا۔ 
جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اُس نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔ کسی کو گالی دینا ہی اس کی آزادی ہے؟ کسی پر سنگین سے سنگین الزام لگایا جائے تو اس پر بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں؟جو دل میں آئے کہہ دو چاہے کسی کے بھی متعلق ہو۔ جھوٹی اطلاعات یعنی فیک نیوز بنا بنا کر پھیلائی جاتی ہیں، ٹرولنگ اور بہتان تراشی کی بنیاد پر ٹرینڈز چلانا کھیل بن چکا ہے۔ گستاخانہ مواد بھی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، ملک دشمنی کی بھی حدیں پار کی جاتی ہیں لیکن جب کسی کے خلاف حکومت ایکشن لیتی ہے تو شور مچ جاتا ہے کہ آزادی رائے پر حملہ ہو گیا۔ صحافتی تنظیموں سے میرا سوال ہے کہ جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق میں نے اوپر لکھا کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا یا ہوتا رہا؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر صحافتی تنظیموں نے جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط ہو رہا ہے اور جس کا شکار میڈیا کے افراد خود بھی ہیں، اسے روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟
Tumblr media
جب ہم ذمہ دارانہ صحافت کو پروموٹ کرنے کیلئے خود اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے، جب ہم سوشل میڈیا یا میڈیا کو استعمال کر کے بہتان تراشی اور فتنہ انگیزی کرنے والوں کے احتساب کی بجائے اگر خود قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو ہم اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت کا مقدمہ بنا کر پیش کریں گے تو پھر جو کچھ غلط ہو رہا ہے وہ درست کیسے ہو گا۔ جب ہم اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کریں گے تو پھر حکومتوں کو موقع ملے گا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق میڈیا اور سوشل میڈیا کے متعلق قوانین بنا دیں۔ اور پھر جب کوئی بھی حکومت میڈیا سے متعلق کوئی قانون بناتی ہے یا بنانے پر غور کرتی ہے تو اُسے آزادی صحافت اور آزادی رائے پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کا تو یہ وطیرہ رہا ہے کہ جو حکومت میں ہو ں تووہ میڈیا کے متعلق قانون میں تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ وہی جب اپوزیشن میں ہوں تو میڈیا کے ساتھ یکجہتی کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت میڈیا پر قدغنیں لگانا چاہ رہی ہے۔ 
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند سال پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں بنائے جانے والے میڈیا سے متعلق قانون کے حوالے سے جو کہا تھا اُس کی وڈیو ٹی وی چینلز پر چلائی گئی۔ کل جو وہ کہہ رہی تھیں آج وہ اُس کا الٹ کر رہی ہیں جبکہ تحریک انصاف اب اپوزیشن میں ہونے کی بنیاد پر میڈیا تنظیموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔ سیاست کے اس کھیل پر اعتراض اپنی جگہ لیکن میری صحافتی تنظیموں سے درخواست ہے کہ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹ، فیک نیوز، فتنہ انگیزی وغیرہ کے خلاف نہ صرف اپنی آواز اُٹھائیں بلکہ موجودہ قوانین میں اگر کوئی کمی کسر ہے تو اُسے دور کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ ذمہ دارانہ صحافت کو جو خطرہ فیک نیوز اور فتنہ پھیلانے والوں کی طرف سے ہے اُس کے آگے بند باندھا جا سکے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 5 months
Text
صحافی ہونا اتنا آسان بھی نہیں
Tumblr media
کل (تین مئی) عالمی یوم صحافت تھا۔ اگر گزشتہ اور موجودہ سال کو ملا لیا جائے تو دو ہزار تئیس اور چوبیس صحافؤں کے لیے خونی ترین سال قرار پائیں گے۔ سب سے بڑی وجہ غزہ کا انسانی المیہ ہے۔ وہاں سات اکتوبر سے اب تک میڈیا سے وابستہ ایک سو چھبیس شہادتیں ہو چکی ہیں اور ان میں ایک سو پانچ عامل فلسطینی صحافی اور بلاگرز ہیں۔ جو زخمی ہوئے یا جنھیں علاقہ چھوڑنا پڑا ان کی تعداد الگ ہے۔ یونیسکو کے مطابق سات اکتوبر کے بعد کے صرف دس ہفتے کے اندر غزہ کی چالیس کلومیٹر طویل اور چھ تا بارہ کلومیٹر چوڑی پٹی میں اسرائیل نے میڈیا سے وابستہ جتنے لوگوں کو ��تل کیا ان کی تعداد کسی بھی ملک میں کسی بھی ایک سال میں قتل ہونے والے میڈیائؤں سے زیادہ ہے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک غزہ میں نسل کشی جاری رہے گی۔ اس اعتبار سے خدشہ ہے کہ سال دو ہزار چوبیس صحافیوں کی سلامتی کے اعتبار سے تاریخ کا سب سے خونی برس ثابت ہو سکتا ہے۔ رپورٹرز وڈآؤٹ بارڈرز ( ایم ایس ایف ) نے گزشتہ برس غزہ کے بحران سے پانچ ماہ پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ دنیا کے ایک سو اسی میں سے صرف باون ممالک ایسے ہیں جہاں اظہارِ رائے کا حق اور صحافی محفوظ ہیں۔بالفاظِ دیگر ہر دس میں سے سات ملکوں میں آزادیِ اظہار اور صحافت کی حالت بری سے ابتر کی کیٹگریز میں شامل ہے اور اس کیٹگری میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بات کریں تو بھارت ایم ایس ایف کی انڈیکس ( دو ہزار تئیس) میں سات پوائنٹ نیچے چلا گیا ہے اور اب میڈیا کی ابتری کی عالمی رینکنگ میں ایک سو چون سے بھی نیچے ایک سو اکسٹھویں نمبر پر گر چکا ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش میں ریاستی بیانیے کے متبادل اظہار کے لیے عدم برداشت کی فضا جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ تیزی سے سکڑ رہی ہے اور وہ عالمی رینکنگ میں بھارت سے بھی نیچے یعنی ایک سو سڑسٹھویں نمبر پر آ گیا ہے۔ بالخصوص گزشتہ برس نافذ ہونے والے سائبر سیکؤرٹی ایکٹ کے تحت مخالف آوازوں کا گلا گھونٹنے کے لیے حکومتی اداروں اور ایجنسؤں کو بھاری اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ سری لنکا میں بھی صحافتی حالات مثالی نہیں۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو بلاشبہ اس کی رینکنگ بہتر ہوئی ہے اور دو ہزار بائیس کے مقابلے میں سات پوائنٹس حاصل کر کے وہ آزادیِ صحافت کے اعتبار سے انڈیا اور بنگلہ دیش سے کہیں اوپر یعنی ایک سو پچاس ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ البتہ عارضی اطمینان یہ خبر سن کے ہرن ہو جاتا ہے کہ صحافؤں کے تحفظ کو درپیش خطرات کی رینکنگ میں پاکستان چوٹی کے بارہ ممالک کی فہرست میں گیارہویں پائدان پر ہے۔
Tumblr media
ایک اور سرکردہ عالمی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ( سی پی جے ) کی صحافؤں کے قتل کے مجرموں کو کھلی چھوٹ کی فہرست میں پاکستان گیارہویں نمبر پر ہے۔ ہؤمن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق انیس سو ترانوے سے دو ہزار تئیس تک تین دہائؤں میں ستانوے پاکستانی صحافی اور کارکن مارے جا چکے ہیں۔ جب کہ دو ہزار گیارہ سے تئیس تک کے بارہ برس میں میڈیا اور سوشل میڈیا سے وابستہ ساڑھے تین ہزار سے زائد ارکان جبری گمشدگی یا اغوا کی وبائی لپیٹ میں آئے ہیں۔ ایک پاکستانی این جی او فریڈم نیٹ ورک کی تازہ رپورٹ کے مطابق مئی دو ہزار تئیس سے اپریل دو ہزار چوبیس کے دورانیے میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دباؤ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھا ہے۔ اس عرصے میں چار صحافؤں کی شہادت ہوئی۔ لگ بھگ دو سو صحافؤں اور بلاگرز کو قانونی نوٹس جاری کر کے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان میں سے بیسؤں کو اغوا اور قتل کی دھمکیاں موصول ہوئیں یا وہ تشدد کا شکار ہوئے۔ بہت سوں کو جے آئی ٹی میں طلب کیا گیا۔ مگر اکثر صحافؤں کو عدالتوں نے ضمانت دے دی یا ان کے خلاف داخل ہونے والی فردِ جرم مسترد کر دی۔
اس عرصے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو متعدد بار معطل کیا گیا۔ ٹویٹر ایکس پلیٹ فارم اٹھارہ فروری سے آج تک معطل ہے۔ رپورٹ میں دو مجوزہ قوانین ’’ ای سیفٹی بل ‘‘ اور ’’پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل ‘‘ پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان دونوں قانونی مسودوں کی شہباز شریف کی سابق حکومت نے جاتے جاتے منظوری دی تھی۔ اگر یہ بل قانونی شکل اختیار کرتے ہیں تو پھر سوشل میڈیا کی جکڑ بندی کے لیے علیحدہ اتھارٹیز قائم ہو گی۔ یہ اتھارٹیز ریاستی بیانیے کے متبادل آرا اور آوازوں کو خاموش کروانے کے لیے تادیبی کارروائی بھی کر سکیں گی۔ حالانکہ اس مقصد کے لیے پیکا ایکٹ پہلے سے نافذ ہے جو کسی غیر منتخب حکومت نے نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کی تیسری جمہوری حکومت کے دور میں نافذ کیا گیا۔ اور پھر اس قانون کی زد میں خود مسلم لیگی بھی آئے۔ حالیہ برسوں میں ایک اور عنصر بھی پابندیوں کے ہتھیار کے طور پر متعارف ہوا ہے۔ یعنی فون پر چینلز اور اخبارات کے سینئر ایڈیٹوریل اسٹاف کو زبانی ہدایات دی جاتی ہیں کہ کس سیاستداں کا نام نہیں لیا جائے گا۔ کون سا جلسہ میڈیا کوریج کے لیے حلال ہے اور کون سی ریلی کی رپورٹنگ حرام ہے۔ حتیٰ کہ عدالتی کارروائی کی بھی من و عن اشاعت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
باقاعدہ سنسر کا تحریری حکم جاری کرنے کے بجائے زبانی ہدایات دینے کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کا مقصد یہ ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور ایسے کسی زبانی حکم کو کسی عدالت یا فورم پر چیلنج کرنے کے لیے کوئی ثبوت بھی نہ چھوڑا جائے۔ مگر میڈیا کے لیے یہ حالات نئے نہیں ہیں۔ ایک مستقل جدوجہد ہے جس کی شکلیں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ہیں۔ آزادیِ اظہار کی لڑائی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ لہٰذا جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر عالمی یوم صحافت کی میڈیا کارکنوں کو مبارک باد۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکپسریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟
Tumblr media
نگران حکومت کے سنہرے دور کے آغاز میں ہی ایک وزیر نے سب کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اس لیے یہاں پر اداروں کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ میرا خیال تھا نگران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے چلے ہیں۔ جتنا بڑا آپ کے پاس ہتھیار ہوتا ہے، خوف اتنا ہی کم ہونا چاہیے۔ جب سے ہم نے بم بنایا ہے ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ اب دشمن ہمیں کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ سے انڈیا تک جتنی آوارہ طاقتیں ہیں، جہاں چاہے گھس جاتی ہیں وہ پاکستان کی سرحدوں کے اند آتے ہوئے سو دفعہ سوچیں گے۔ دفاعی تجزیہ نگار بھی یہی بتاتے تھے کہ یہ والا بم چلانے کے لیے نہیں، دشمن کو دھمکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب نگران وزیر صاحب نے اس بم سے اپنے ہی عوام کو دھمکانا شروع کیا تو لگا کے شاید پاکستان ایک اور طرح کی دفاعی ریاست بننے جا رہی ہے۔ کل اسلام آباد میں زیرِ حراست صحافی اور یوٹیوبر اسد طور کی 78 سالہ والدہ کا ایک مختصر سا ویڈیو دیکھا جب وہ اپنے بیٹے سے مل کر آئی تھیں۔ وہ کھانا لے کر گئیں تھیں طور نے نہیں کھایا، وہ اصرار کرتی رہیں۔ طور بھوک ہڑتال پر تھا اس لیے غالباً والدہ کو ٹالنے کے لیے کہا بعد میں کھا لوں گا۔
ان کی والدہ نے ایف آئی اے کو، عدالتوں کو یا کسی اور ادارے سے کوئی شکوہ نہیں کیا صرف یہ دعا کی کہ اللہ میرے بیٹے کو ہدایت دے۔ اسلام آباد کو ہمیشہ دور سے حسرت کی نظر سے دیکھا ہے۔ کبھی جانے کا اتفاق ہوا تو ایک ہی شام میں دس س��انوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ کسی کے پاس اندر کی خبر، کسی کے پاس اندر سے بھی اندر کی اور پھر وہ جو اندر کی خبر باہر لانے والوں کے نام اور حسب نسب بھی بتا دیتے ہیں۔ اسد طور سے نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ کبھی سیانا لگا۔ کبھی کبھی اس کے یوٹیوب چینل پر بٹن دبا دیتا تھا۔ منحنی سا، جذباتی سا، گلی کی نکڑ پر کھڑا لڑکا جو ہاتھ ہلا ہلا کر کبھی ٹھنڈی کبھی تلخ زبان میں باتیں کرنے والا۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں بلوچستان سے اپنے اغوا شدہ پیاروں کا حساب مانگنے آئی ہوئی بچیوں اور بزرگوں نے کیمپ لگایا اور اسلام آباد کے زیادہ تر سیانے اپنے آتش دانوں کے سامنے الیکشن کے نتائج پر شرطیں لگا رہے تھے تو وہ کیمرا لے کر احتجاجی کیمپوں سے ان کی آواز ہم تک پہنچاتا رہا۔
Tumblr media
میں نے سوچا کہ یہ کیسا یوٹیوبر ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ بلوچ کہانیاں سنا کر کبھی بھی کوئی یوٹیوب سٹار نہیں بنا۔ اس سے پہلے سنا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس پر بُرا وقت آیا تھا تو ان کی عزت کا محافظ بنا ہوا تھا۔ عدلیہ کی سیاست کی کبھی سمجھ نہیں آئی لیکن میں یہی سمجھا کہ سیانوں کے اس شہر اسلام آباد میں شاید ہمیشہ ایک دیوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تاریخ اور ثقافتی روایت بھی ہے۔ بادشاہ بھی اپنے دربار میں مسخرہ رکھتے تھے، گاؤں کا چوہدری بھی میراثی کو برداشت کرتا ہے۔ گاؤں میں ایک ملنگ نہ ہو تو گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اسد طور بھی مجھے کیمرے والا ملنگ ہی لگا جس کے بغیر اسلام آباد کا گاؤں مکمل نہیں ہوتا۔ اس گاؤں میں ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ طور پر زیادہ غصہ عدلیہ عظمیٰ کو ہے یا ان کو جن کے لیے اسلام آباد کے صحافی کندھوں پر انگلیاں رکھ کر بتاتے تھے، پھر کسی نے بتایا کہ یہ کوڈ ورڈ پاکستان کے عسکری اداروں کے لیے ہے۔ اسلام آباد کے ایک بھیدی نے بتایا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ کس ادارے کی زیادہ بےعزتی ہوئی ہے لیکن یہ کہ اسد طور تھوڑا سا بدتمیز ہے، کسی کی عزت نہیں کرتا۔
مجھے اب بھی امید ہے کہ اسلام آباد میں کوئی سیانا کسی بڑے سیانے کو سمجھا دے گا کہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں اور ہم نے دشمن چنا ہے اتنا دبلا پتلا طور۔ اچھا نہیں لگتا۔ ہمارے نگران وزیراعظم ہمیں ایک دفعہ یہ بھی بتا چکے ہیں کہ دہشت گردوں کی بھی مائیں ہوتی ہیں۔ اسد طور کی والدہ کیمرے پر دعا مانگ چکی ہیں کہ اللہ ان کے بیٹے کو ہدایت دے۔ دونوں ادارے جن کے ساتھ اسد طور نے بدتمیزی کی ہے، ان کے سربراہ ہمیں کبھی کبھی دین کا درس دیتے ہیں۔ دعا ہر دین کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر وہ انصاف نہیں دے سکتے تو طور کی والدہ کی دعا کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہمارے بیٹے کو ہدایت دے اور اس کے ساتھ اپنے لیے بھی اللہ سے ہدایت مانگ لیں۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
صحافی اندر باہر سے خطرے میں
گزشتہ پیر کو جی ٹی روڈ پر پی ٹی آئی ریلی کی رپورٹنگ کے دوران کنٹینر تلے دب کر جاں بحق ہونے والی نیوز چینل فائیو کی صحافی صدف نعیم کے بارے میں اب تک آپ بہت کچھ پڑھ اور سن چکے ہوں گے۔ یہ ایسی موت ہے جس میں غفلت ، لاتعلقی، لاپرواہی ، پیشہ ورانہ فرائض کی ناکافی حفاظتی وسائل کے ساتھ بجاآوری ، ملازمتی عدمِ تحفظ کے خوف کے سبب غیر ضروری خطرات مول لینے اور ریٹنگ کی ریس میں آگے رہنے کے مسلسل بالائی دباؤ سمیت ہر شے صاف صاف ٹپک رہی ہے۔ نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔ صحافت بالخصوص فیلڈ رپورٹنگ کا شعبہ کبھی بھی آسان نہیں رہا مگر آج ان شعبوں سے منسلک بصری و خبری کارکنوں کو چوطرفہ خطرات لاحق ہیں۔ جانے کون سا اندرونی و بیرونی حادثہ جان لیوا ثابت ہو جائے یا معذور کر دے۔ خود کشی کے واقعات کی رپورٹنگ کرنے والے اب معاشی جبر اور بے روزگاری کے خوف سے گھبرا کے خود ایک دل خراش خبر بن رہے ہیں۔
صحافیوں کے لیے دھمکیاں، نفسیاتی و جسمانی خطرات اور جابرانہ قوانین کے پنجے سے بچتے ہوئے فرائضِ منصبی نبھانا ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ ایسی مشکلات کا سامنا کسی ایک ملک یا خطے کے صحافیوں کو نہیں بلکہ عالمگیر سطح پر ہے۔ حملہ کسی پر کسی بھی وقت کہیں سے بھی ہو سکتا ہے۔ بھلے وہ مقبوضہ فلسطین میں الجزیرہ کی بیورو چیف شیریں ابو عاقلہ ہوں جو اسرائیلی فوجی نشانچیوں کی گولی کا سوچا سمجھا نشانہ بن جائیں یا پلٹزرز انعام یافتہ بھارتی بصری صحافی دانش قریشی جو افغانستان میں فرنٹ لائن رپورٹنگ کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے یا پھر بی بی سی کے گرم و سرد چشیدہ رپورٹر فرینک گارڈنر ہوں جو دو ہزار چار میں ریاض میں ایک دہشت گرد شبخون میں شدید زخمی ہو گئے اور ان کے ساتھی کیمرہ مین سائمن کمبرز جاں بحق ہو گئے۔ اسی طرح وزیرستان میں بی بی سی کے سابق نامہ نگار دلاور خان وزیر کو نومبر دو ہزار چھ میں ’’ نامعلوم افراد‘‘ راولپنڈی کے ایک مصروف کاروباری مرکز میں ٹیکسی سے اتار کے لے گئے۔ جب میڈیا میں شور مچا تو اگلے دن سڑک پر سالم چھوڑ دیا گیا۔
مگر میں بین الاقوامی اداروں کی مثالیں یوں دے رہا ہوں کہ خطرہ انھیں بھی یکساں ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ان کے رپورٹروں کو تنخواہ و دیگر مراعات لگے بندھے وقت پر ملتی ہیں۔ آؤٹ اسٹیشن اسائنمنٹ پر بھیجتے ہوئے اطمینان کیا جاتا ہے کہ آیا انھوں نے اجنبی، مخاصمانہ اور غیر محفوظ ماحول میں کام کرنے کا خصوصی لازمی کورس کر رکھا ہے۔ ان کی ٹیم کا اس جگہ پر حفاظت کا بندوبست ہے۔ کیا ان کے پاس ضروری حفاظتی آلات ہیں؟ ان کی نقل و حرکت اور کام کی نوعیت کے بارے میں متعلقہ انتظامی اداروں کو پیشگی باضابطہ علم ہے ؟ ان کی ٹرانسپورٹ اور مددگار عملہ قابلِ اعتماد ہے ؟ خود وہ اور ان کے ساتھ جو آلات و افراد منسلک ہیں وہ بیمہ شدہ ہیں ؟ کسی ناگہانی یا بیماری یا حادثے کی صورت میں ان کی رسائی فوری مالی و طبی امداد تک ہے یا ہنگامی انخلا کا تسلی بخش بندوبست ہے ؟ ان لازمی ضروریات کے لیے ادارے میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا امدادی شعبہ الگ سے چوبیس گھنٹے فعال رہتا ہے اور اس کا ہنگامی رابطہ نمبر ہر فیلڈ رپورٹر جانتا ہے۔
بیشتر اداروں کا اتفاق ہے کہ ’’ کوئی بھی خبر رپورٹر کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتی‘‘۔ اس کے برعکس ہم اگر اپنے اداروں اور ان میں کام کرنے والوں کا مالی و پیشہ ورانہ حال، تربیتی معیار یا ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے بنیادی اصولوں پر عمل درآمد دیکھ لیں تو شاید ہی کوئی ابلاغی ادارہ ہو جو سینہ ٹھونک کر کہہ سکے کہ ہم اپنے کارکنوں کا دفتر کے اندر اور فیلڈ میں پیشہ ورانہ تقاضوں کی روشنی میں پورا خیال رکھتے ہیں۔ جہاں کیمرہ تو بیمہ شدہ ہو مگر کیمرہ مین انشورڈ نہ ہو، جہاں رپورٹر پنشن نہ پانے والے لاکھوں شہریوں کی دکھ بھری معاشی کہانی تو سنا رہا ہو مگر خود کو یہی معلوم نہ ہو کہ اگلی تنخواہ کب ملے گی یا پھر کب اچانک چھٹی ہو جائے گی۔ جہاں خبرنامے میں شہری ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام کے تو جوش و خروش سے خبری بحئے ادھیڑے جا رہے ہوں مگر خود رپورٹر کو یہی نہ پتہ ہو کہ اسے واپس دفتر یا گھر بلاتاخیر کیسے پہنچنا ہے۔
جہاں ایک ٹھنڈے ہال میں نصب ڈیجیٹل پینلز اور نیوز ڈیسک پر بیٹھے خبری ارسطو یہ احکامات تو صادر کر رہے ہوں کہ اے رپورٹر فلاں جگہ چلے جاؤ، اب فلاں کا انٹرویو لے لو، ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا تو کیا ہوا۔ مزید آٹھ گھنٹے تک ڈٹے رہو، عین جلوس کے درمیان چلتے رہو تاکہ اسکرین بھری بھری نظر آئے۔ یہ احکامات عورت مرد کے لیے یکساں ہے۔ کیونکہ یہ صحافت ہے جہاں صنفی امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں۔ مگر ان ارسطوؤں کو ککھ پر��اہ نہیں ہوتی کہ فیلڈ رپورٹر یا کیمرہ مین سے یہی پوچھ لیں کہ کھانا کب کھایا ؟ رہ کہاں رہے ہو، اردگرد کا ماحول کتنا دوستانہ یا معاندانہ ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹے میں آرام کے کتنے لمحات میسر آتے ہیں ، صحت کیسی ہے ، موسم کتنا شدید یا معتدل ہے ، رات کو کہاں رکو گے ؟ جیب میں کیش کتنا ہے ؟ گھر والوں سے بات ہوئی ؟ اور پھر یہ ارسطو اپنی شفٹ ختم ہوتے ہی اگلے ارسطو کو ہینڈ اوور کر کے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ تو اس مخلوق کا احوال ہے جو براہِ راست دفاتر سے منسلک ہے اور روز اس کا اپنے اعلیٰ پروفیشنلز صحافی باسز اور وقت کی نبض پر ہاتھ دھرنے کی دعویدار مینیجمنٹ سے آمنا سامنا رہتا ہے۔ سوچیے دیگر شہروں اور قصبات میں ان اداروں سے منسلک اعزازی و علامتی تنخواہ دار رپورٹرز کس حال میں ہوں گے۔ مگر ان سے بھی آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی فرمائشیں مسلسل رہتی ہیں۔ ایسے ماحول میں کون سی آزادیِ صحافت، کیسے ظالمانہ قوانین، کس نوعیت کی ریاستی بے حسی کا شکوہ ، کہاں کی پیشہ ورانہ اقدار ، لفافہ اور ٹاؤٹ جرنلزم پر کیسی تف ؟ بس ہر قیمت پر چیختی دھاڑتی رپورٹنگ سے اسکرینیں لال پیلی نیلی رہنی چاہئیں ؟ میرے منہ میں پیاز ٹھنسی ہے اور میں دوسرے کے دانتوں میں پھنسے لہسن کے جوے پر تنقید کر رہا ہوں۔ آپ بھلے اپنی تشفی کے لیے اس طرزِ عمل کو صحافت کہہ لیں مگر آسان اردو میں اسے ’’ صنعتی خرکاری‘‘ کہتے ہیں۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
ramayantika · 9 months
Text
Okay now what's the deal with hating on kathak for its connection with mughal history.
You don't even know a thing about dance but you got to hate it mindlessly
117 notes · View notes
celluloidrainbow · 1 year
Photo
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
جوائے لینڈ | JOYLAND (2022) dir. Saim Sadiq The middle-class Rana family, headed by elder patriarch Amanullah, yearns for the birth of a grandson. Amanullah forces his daughter-in-law Mumtaz to quit her job after Haider, his youngest son and her husband, finds work at an erotic dance theater. However, complications arise when Haider becomes infatuated with Biba, the transgender dancer he works for. (link in title)
107 notes · View notes
rei-does-stuff · 1 month
Note
i found out that Pakistan flag - green for Muslim and white represents the existence of religious minorities in the country but i am sad to see current situation of pakstian include religious violence and terrorism
I hope you know this is a very weird thing to say to a pakistani muslim on pakistan’s independence day
2 notes · View notes
spectralhero · 5 months
Text
Praying for my Christian brothers and sisters in Egypt being attacked by Muslim-extremists the last few days. It is ongoing as well.
People don't care about Christian persecution.
To my fellow Christians all over, stay strong. We are not alone. God sees all and is with us, especially those of you being persecuted daily.
You are not alone. We know what the Word of God teaches. We are one body. If one part suffers the effect is felt throughout.
3 notes · View notes
dewvorce-flowers · 4 months
Text
.
2 notes · View notes
shiningpakistan · 1 year
Text
میڈیا کی ڈولی بھی لٹک رہی ہے
Tumblr media
بٹگرام میں لٹکتی ڈولی سے تو بچوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے لیکن کیا میڈیا کے سینیئر اور جونیئر تجزیہ کاروں کو کچھ خبر ہے کہ میڈیا کی اپنی ڈولی بھی لٹک رہی ہے؟ ہے کوئی صاحب خان جیسا رضاکار جو اس ڈولی کو سیدھا کرے؟ بٹگرام میں بچے صبح سے ڈولی میں پھنسے ہوئے تھے۔ شام اترنے لگی تو سورج کے ساتھ دل بھی ڈوبتا محسوس ہوا۔ پریشانی کے عالم میں ٹی وی آن کیا تو وجود میں سیسہ اتر گیا۔ نیوز کاسٹر چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ ’ناظرین، دیکھیے یہ ہم ہیں اور ہم نے سب سے پہلے قوم کو خبر دی تھی کہ یہاں بچے پھنس چکے ہیں۔‘ ایک ہی سانس میں، چیختے چلاتے کوئی نصف درجن بار ’سب سے پہلے‘ کا یہ پہاڑا ختم ہوا تو نیا سلسلہ شروع ہو گیا: ’ناظرین، یہ ایکسکلوزیو مناظر صرف ہم آپ تک پہنچا رہے ہیں!‘ ( اور مناظر وہ تھے جو چار گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر دیکھے جا چکے تھے اور وہ ان میڈیا والوں نے نہیں بلکہ مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے بنائے تھے)۔ اس کے بعد سینیئر تجزیہ کاروں کی مدد سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ شروع ہو گیا۔ (یاد رہے کہ پاکستان میں فی الحال جونئیر تجزیہ کاروں کی پیدائش پر پابندی ہے)۔
سوال ہوا، ’بتائیے گا وہاں کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟‘ اور اس سوال کا جواب وہ صاحب دے رہے تھے جو مبلغ ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد میں ٹریل فائیو پر واک کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بٹگرام کی تازہ ترین صورت حال کے نام پر وہ سارا رواں تبصرہ فرما دیا جو سوشل میڈیا پر دستیاب تھا۔ خبر پڑھنے اور سوال کرنے کا انداز بیاں اور لہجہ ایسا تھا جیسے شوق اور سرمستی میں آدمی یوں جوش میں آ جائے کہ سرشاری میں خود پر قابو نہ پا سکے۔ یہ گویا ایک دہری اذیت تھی، وحشت کے عام میں ٹی وی بند کرنا پڑا۔ ہمارے میڈیا کو کون بتائے گا کہ سوگواری کے عالم میں خبر پہنچانے کا اسلوب جدا ہوتا ہے۔ آپ کسی میلے ٹھیلے کی خبر پڑھ رہے ہیں تو شوخی اور چیخ پکار شاید گوارا کر لی جائے لیکن سوگوار لمحے متانت مانگتے ہیں، سنجیدگی، ٹھہراؤ اور وقار۔ جہاں سنجیدگی اور گداز اختیار کرنا چاہیے یہ وہاں بھی اٹکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں پرسہ دینا ہو وہاں یہ ’می رقصم‘ ہو جاتے ہیں۔ کوئی تو ہو جو انہیں سمجھائے کہ ہر وقت اور ہر مقام ڈگڈگی بجانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ کیا سوگواری کے لمحات کے صحافتی آداب نہیں ہوتے؟ ایک پہر کے لیے ہی سہی؟
Tumblr media
’آزادیِ صحافت‘ کے کچھ مناظر، جو میرے مشاہدے میں ہیں، درد کی صورت وجود میں گڑے ہیں۔ کوئٹہ میں بلاسٹ ہوا، ہمارے وکیل دوست ٹکڑوں کی صورت بکھر گئے، چینل پر خبر چل رہی تھی اور ہم لہو رو رہے تھے، مگر اگلے ہی لمحے شوخی بھری کمرشل بریک چل پڑی: ہم سا حسین ہونا چاہتے ہو؟ لودھراں میں ایک معصوم بچے کا ریپ کے بعد قتل ہوا۔ لاشہ گھر میں رکھا تھا اور لائیو کوریج ہو رہی تھی۔ نیوز کاسٹر نے رپورٹر سے کہا، ’کیا آپ ہماری مقتول کی والدہ سے بات کروا سکتے ہیں؟‘ رپورٹر نے مائیک غم کی ماری ماں کے سامنے کر دیا۔ بیٹے کے لاشے کے پاس بیٹھی ماں سے نیوز اینکر نے سوال پوچھا، ’آپ اس وقت کیا محسوس کر رہی ہیں؟‘ سیلاب کا ایک منظر ہے۔ اگست کے دن ہیں۔ ایک بوڑھا سیلاب کے پانی میں سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑی سی ٹوکری ہے۔ ٹوکری میں دو سہمے ہوئے معصوم سے بچے اور ایک مرغی ہے۔ مائک اس کے منہ میں گھسیڑ پر ایک اینکر نے سوال پوچھا، ’کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنا سکتے ہیں؟‘
دکھوں کا مارا وہ بوڑھا بے بسی اور حیرت سے اینکر کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ سکندر نامی ایک شخص نے بلیو ایریا میں اپنے ہی اہل خانہ کو یرغمال بنایا تو چینلوں پر اس کی لائیو کوریج شروع ہو گئی۔ اس کوریج کے دوران ایک وقت آیا سکندر صاحب رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں میں جا گھسے۔ نیوز کاسٹر نے شدت جذبات سے اعلان فرمایا: ’ناظرین یہ لائیو مناظر صرف آپ ہماری سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔‘ سکندر صاحب رفع حاجت کر کے واپس آ گئے مگر نیوز کاسٹر نے کتنی ہی دیر قوم کی رہنمائی جاری رکھی کہ ’ناظرین، یہ ہے وہ خصوصی منظر جو آپ صرف اور صرف ہماری سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔‘ یہ اپنے مشاہدے میں سے چند صحافتی نگینے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے۔ آپ اپنے مشاہدات کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ حسیات میں پیوست کانٹوں کی پوری ایک مالا بن سکتی ہے۔ میڈیا کی ڈولی لٹک رہی ہے۔ اسے ریسکیو کرنے کون آئے گا؟
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
roobylavender · 1 year
Text
i’m torn between indian and pakistani mainstream media bc i feel like the former tends towards wanting to be progressive as a whole but often makes haphazard attempts in the process that certainly have their heart in the right place but are still not doing quite enough and then the latter is like 90% straight women hating shite from the gutter but the leftover 10% that is actually worth something is some of the most phenomenal stuff you have ever seen and near close to perfect. but it’s only 10% and you have to wait and wade through so much of the shite to even get to it
4 notes · View notes
risingpakistan · 1 year
Text
اسی آئین کے ٹوٹنے پر سب خاموش
Tumblr media
ساری توجہ سیاست کی طرف ہے۔ ہمارے اردگرد جو کچھ غلط ہو رہا ہے اُس پر کسی کی توجہ نہیں۔ یہاں تک کہ ٹی وی چینلز کے ذریعے جوبے ہودگی پھیلائی جا رہی ہے اُس بارے میں کوئی بات کرتا ہے نہ پیمرا یا کوئی دوسرا ادارہ ایکشن لیتا ہے۔ پہلے اگر کچھ مارننگ شوزپر اعتراض ہوتا تھا اور شکایتیں ملتی تھیں تو اب رات کو چلنے والے انٹرٹینمنٹ اور مزاحیہ شوز کے نام پر معاشرے کی اخلاقیات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جب ٹی وی چینلز معاشرے کی اخلاقیات کے متعلق اپنی ذمہ داری کو سمجھے بغیر ریٹنگز کی ریس میں سب جائز ناجائز دکھاتے رہیں، جب پیمرا پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق قابل اعتراض مواد دکھانے پر کوئی ایکشن لینے کی بجائے اپنی آنکھیں بند کر لے، جب سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور حکومت بھی میڈیا کے اس کردار پر بات کرنے سے ڈرنے لگیں، جب عدالتیں بھی اسلامی اصولوں کی بجائے مغربی اسٹینڈرز کے مطابق غیر اخلاقی اور فحش مواد کی تعریف تلاش کرنے میں لگ جائیں تو پھر جس نوعیت کی نشریات پر میں اعتراض اُٹھا رہا ہوں وہ معمول بن جائیں گی اور یہی کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ 
یقین جانیں انٹرٹینمنٹ کے نام پراکثر نیوز چینلز پر چلنے والے رات کے شوز میں ایسی بے ہودگی دکھائی اور سنائی جاتی ہے کہ ایک فیملی کے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر یہ شوز نہیں دیکھ سکتے۔ چوں کہ ان معاملات پر میڈیا کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اور حکومت و ریاست نے عوام کی اخلاقیات کو تباہی سے بچانے اور معاشرے میں بچی کھچی شرم و حیا کے تحفظ کے لئے اپنے کردار کو بھلا دیا ہے چنانچہ گھر بیٹھے لوگوں کے پاس دو ہی آپشن بچتے ہیں یا تو ٹی وی بند کر دیں یا جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ دیکھتے رہیں۔ یہ ��ے ہودگی دکھانے اور دیکھنے کا سلسلہ جاری رہنے سے آہستہ آہستہ سب دیکھنے والوں کو جو کچھ بھی دکھایا جا رہا ہے، نارمل لگنے لگے گا، اعتراض کرنے والے کم ہوتے جائیں گے، فحش اشتہارات ہوں، ڈانس، فلمیں یا ڈرامے، سب معمول کا حصہ بن جائیں گے اور افسوس کہ یہی کچھ بڑی تیزی سے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی سازش ہے، پلاننگ یا کچھ اور؟ 
Tumblr media
اس بارے میں لوگوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے لیکن اس سب کا نتیجہ واضح ہے اور وہ ہے شرم و حیا کا خاتمہ، مغربی ثقافت کا تسلط، فحاشی و عریانیت کا فروغ۔ یعنی پاکستانی معاشرے کی مکمل تباہی۔ یعنی ہمارا معاشرتی ڈیفالٹ۔ کردار سازی اور تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی ہماری اخلاقیات اور کردار کا بُرا حال ہے۔ ایک ہی چیز ہم میں جو بچی کچی تھی وہ تھی شرم و حیا، جس کو ہمارا میڈیا تباہ و برباد کر رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم اپنے معاشرے کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعمیر نو کریں جس کی ذمہ داری آئین پاکستان ہم سب پر اور خصوصاً حکومت و ریاست اور تمام اداروں پر عائد کرتا ہے۔ تاہم آئین کے اس حصہ کی کھلم کھلا اور ہر روز خلاف ورزی ہوتی ہے، آئین کی اسلامی شقوں پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا، جو آئین کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہے۔ ڈپٹی اسپیکرقومی اسمبلی اگر تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو رد کر دے یا حکومت نوے دن میں الیکشن نہ کرائے تو شور مچ جاتا ہے کہ آئین ٹوٹ گیا، آئین سے غداری ہو گئی لیکن جب اسی آئین کی اسلامی شقوں پر عمل نہیں ہوتا اور معاشرہ سب کی آنکھوں کے سامنے اخلاقی طور پر تبا و برباد ہو رہا ہے تو کوئی کچھ نہیں بولتا۔ 
یہ اپنے اپنے آئین کا کھیل بڑا خطرناک ہے۔ آئین کی اگر ایک شق کی violation پر پاکستان کی سیاست، صحافت اور عدالت گزشتہ کئی ہفتوں سے بحث و مباحثہ اور ٹکراو کا شکار ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسی آئین کی اسلامی شقوں کی ہر روز کی violations سے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آئین پاکستان اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی ماحول کی فراہمی کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ وعدہ کب پورا ہو گا ؟ اس آئینی خلاف ورزی پر، اس غداری پر کیا کبھی ہمارا میڈیا، سیاست، عدالت بولیں گے؟
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
agirlspower · 11 months
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Media Report
Lyari's Girls Cafe Foundation organized Girls Bicycle Race to mark International day of Girl 2023 at Clifton Boat Basin Karachi Pakistan,
Let's go for cycling #IDG2023 theme: Invest in Girls’ Rights: Our Leadership, Our Well-being, to show that girls can achieve their dreams and soar further than they ever imagined. . . . .
LyariGirlsCafe #letsgocycling #girlsday #idg2023 #bicyclerace #Pakistan #reclaimed #powerday #happyday #cycling #vibe #Girl #Child #youth
2 notes · View notes
drsonnet · 11 months
Text
“We believe #Israel needs to be named if you are fair…we will NOT blame one side and not the other” – Munir Akram, Permanent Representative of Pakistan to the United Nations "نعتقد أنه يجب تسمية إسرائيل إذا كنتم منصفين... ولن نلوم طرفًا دون الآخر" – منير أكرم، الممثل الدائم لباكستان لدى الأمم المتحدة #un #UNGA #Gaza #Gaza_Genocide #Gazabombing #غزة_تُباد #غزه_تحت_القصف_ #starlinkforgaza #Gaza #Gaza_Genocide #Gazabombing #غزة_تُباد #غزه_تحت_القصف_ #starlinkforgaza
3 notes · View notes
celluloidrainbow · 2 years
Photo
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
بول | BOL (2011) dir. Shoaib Mansoor Zainub Khan has been found guilty by Pakistan's Courts and is to be hanged. Her last wish is to tell her story before the media, and after approval, she relates how her family was compelled to leave Delhi during 1948 and re-locate to Lahore. This is where her father, Hakim Sayed Hashmutallah Khan, married Suraiya, and hoping to sire a son, instead ended up with 7 daughters and an intersex son whom he does not accept. (link in title)
42 notes · View notes
Text
Tumblr media
Kargil Vijay Diwas is celebrated every 26 July in India, to observe India's victory over Pakistan in the Kargil War for ousting Pakistani Forces from their occupied positions on the mountain tops of Northern Kargil District in Ladakh in 1999 .
Build your brand with digital media & take the benefits of social media branding contact Absolute Digital Marketing. by Absolutedigitalbranding.com
#Marktingstrategy #SEObrandingagency #SEO #PPC #SMO #SMM #SeoCompany #digitalmarketingcompany #socialmediamarketingcompany #absolutedigitalbranding #searchengineoptimization #advertisingagencyinmohali #facebook #twitter #marketingonline #brand #searchengineoptimization #internetmarketing #follow #digitalagency #marketingagency #motivation #digitalmarketingtips #onlinebusiness #websitedesign #marketingonline #brand #searchengineoptimization #content #ABSOLUTEDIGITALBRANDING #BEST #PUBLIC #RELATION #AGENCY #IN #CHANDIGARH #MOHALI #PUNJAB #NORTH #INDIA #onlinebranding #branding360degree #SEObrandingagency #websiteranking #websitetrafic #Digitalmarketing #OnlineAdvertising #instagrammarketing #advertisingagency #web #technology #internetmarketing #marketingonline #brand #searchengineoptimization #content #instagrammarketing #advertisingagency #web #technology #onlinebranding #buildingrelationships #globally #customer #internetbranding-at Absolute digital Branding & Public relations
2 notes · View notes