Tumgik
#قرآن میں آیات توحید
asliahlesunnet · 3 months
Photo
Tumblr media
شفاعت او راس کی اقسام سوال ۵۵: شفاعت سے کیا مراد ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟ جواب :لغوی طور پر شفاعت: ’’شفع‘‘ سے ماخوذ ہے اور ’’وتر‘‘ کی ضد ہے اور اس کے معنی طاق کو جفت، یعنی ایک کو دو اور تین کو چار بنا دینے کے ہیں۔ اصطلاح میں اس کے معنی جلب منفعت یا دفع مضرت کے لیے کسی دوسرے کو واسطہ بنا لینے کے ہیں، یعنی شافع (سفارش کرنے والا) مشفوع الیہ (جس سے سفارش کی گئی ہو) کے درمیان مشفوع لہ کے لئے جلب منفعت یا اس کے لئے دفع مضرت خاطر واسطہ بنے۔ شفاعت کی درج ذیل دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: صحیح اور ثابت شدہ شفاعت: اس سے مراد وہ شفاعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں ثابت فرمایا ہے۔ یہ شفاعت اہل توحید واخلاص ہی کو نصیب ہوگی، کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگوں میں آپ کی شفاعت سے محظوظ ہونے سب سے زیادہ سعادت حاصل کرنے والا کون شخص ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: ((مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِہِ)) (صحیح البخاری، العلم، باب الحرص علی الحدیث، ح:۹۹۔) ’’جس شخص نے خلوص دل کے ساتھ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہا۔‘‘ اس شفاعت کے لیے حسب ذیل تین شرطیں ہیں: (۱)اللہ تعالیٰ شافع سے راضی ہو۔ (۲)اللہ تعالیٰ مشفوع لہ سے بھی راضی ہو۔ (۳)اللہ تعالیٰ نے شافع کو شفاعت کی اجازت عطا فرما دی ہو۔ ان شرائط کا اجمال کے ساتھ باری تعالیٰ کے مندرجہ ذیل قول میں ذکر واردہواہے: ﴿وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ م بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَرْضٰی، ﴾ (النجم: ۲۶) ’’اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر بعد ازاں کہ اللہ جس کے لیے چاہے اجازت بخشے اور (سفارش) پسند کرے۔‘‘ اور ان آیات میں انہیں مفصل بیان کیا گیا ہے: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾ (البقرۃ: ۲۵۵) ’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر (کسی کی) سفارش کر سکے؟‘‘ ﴿یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا﴾ (طٰہٰ:۱۰۹) ’’اس روز (کسی کی) سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے اللہ اجازت دے گا اور اس کی بات کو پسند فرمائے گا۔‘‘ ﴿وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی﴾ (الانبیاء: ۲۸) ’’اور وہ (اس کے پاس کسی کی) سفارش نہیں کر سکتے مگر اس شخص کی جس سے اللہ خوش ہو۔‘‘ بہرحال شفاعت کے لیے ان تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور ہاں علمائے کرام رحمہم اللہ نے یہاں پر یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ قرآن وحدیث سے ثابت شدہ شفاعت کی درج ذیل دو قسمیں ہیں: ۱۔ شفاعت عامہ: اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں میں سے جن کو چاہے گا اور جن کے لیے چاہے گاشفاعت کی اجازت عطا فرما ئے گا۔ یہ شفاعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، دیگر انبیائے کرام، صدیقین، شہداء اور صالحین کے لیے ثابت ہے یہ لوگ جہنم میں جانے والے مومن گناہ گاروں کے لیے شفاعت کریں گے تاکہ انہیں جہنم سے نکال دیا جائے۔ ۲۔ شفاعت خاصہ: اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہوگی۔ اور قیامت کے دن آپ کی طرف سے جو شفاعت ہوگی وہ شفاعت عظمیٰ ہے اور یہ اس وقت ہوگی جب لوگ ناقابل برداشت غم اور تکلیف سے دوچارہوں گے اس ہولناکی کے عالم میں وہ کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی شفاعت کرے تاکہ انہیں حشر کے دن کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات مل جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ حضرت آدم، پھر نوح، پھر ابراہیم، پھر موسیٰ اور پھر عیسیٰR کے پاس جائیں گے، مگر یہ تمام انبیائے کرام شفاعت سے انکار فرما دیں گے حتیٰ کہ یہ سب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر شفاعت کے لیے عرض کریں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے پاس شفاعت فرمائیں گے کہ وہ اپنے بندوں کو اس دن کی حشر سامانیوں سے نجات عطا فرما دے۔ تب اللہ تعالیٰ آپ کی دعا اور آپ کی شفاعت کو شرف قبولیت سے سرفراز فرما ئے گا بلاشبہ یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے درج ذیل آیت کریمہ میں وعدہ فرمایا ہے: ﴿وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، ﴾ (الاسراء: ۷۹) ’’اور بعض حصہ شب میں بھی آپ اس (قرآن کی تلاوت) کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھا کریں یہ (شب خیزی اورآہ وسحر گاہی) تمہارے لیے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، قریب ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شفاعت خاصہ حاصل ہوگی، اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ اہل جنت کی جنت میں داخل ہونے کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ اہل جنت جب پل صراط کو عبور کریں گے تو انہیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر کھڑا کر دیا جائے گا اس موقعہ سے ان سب کے دلوں کو ایک دوسرے کے بارے میں منفی جذبات سے بالکل پاک صاف کر دیا جائے گا، پھر انہیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جنت کے دروازوں کو کھولا جائے گا۔ دوسری قسم: شفاعت باطلہ ہے جو کسی کے کچھ کام نہ آئے گی۔ اس سے مراد مشرکین کی مزعومہ شفاعت ہے وہ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے معبود اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے۔ یہ وہ شفاعت ہے جو ان کے کچھ بھی کام نہ آئے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ، ﴾ (المدثر: ۴۸) ’’تو (اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے شرک سے خوش نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ وہ مشرکین کے لیے شفاعت کی کسی کو اجازت دے، کیونکہ وہ تو اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے شفاعت کی اجازت عطا فرمائے گا اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور فساد کو پسند ہی نہیں فرماتا، لہٰذا مشرکین کا اپنے معبودوں سے یہ تعلق قائم کرنا کہ: ﴿ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (یونس: ۱۸) ’’یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔‘‘ یہ ایک باطل اور غیر نفع بخش تعلق ہے۔ یہ تعلق انہیں اللہ تعالیٰ سے دورسے دور تک کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ مشرکین بتوں کی عبادت کے لیے باطل وسیلے کے ذریعے سے اپنے بتوں سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں، اور یہ ان کی بے وقوفی اور حماقت ہے کہ تقرب الٰہی کے حصول کے لیے وہ ایک ایسا وسیلہ اختیار کرتے ہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے مزید دور کر تا چلا جاتا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۱ ) #FAI00049 ID: FAI00049 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
روح قربانی
از نوید الطاف خان
لیکچرر دعوۃ اکیڈمی
ــــــــــــــــــــــــ
قرآن کریم کی سورہ انفال کی آیت نمبر162، 163 میں اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم ﷺ کو حکم فرمایا ہےکہ اے نبی کہہ دیجئے بے شک میری نماز، میری قربانی ، میرا جینا اور میر امرنا اللہ کےلیے ہےجو تمام جہانوں کا پالنے والے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں،اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اولین مسلمانوں میں سے ہوں۔
ان دو آیات میں امت کو جس اہم ترین نکتہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اعمال کے اچھے اور بُرے ہونے کا معیار حکم الٰہی اور رضائے الٰہی ہے۔ وہی عمل اللہ جل جلالہ کے نزدیک اچھا ہو گا جسے اس نے اچھا قراد دیا ہو اور وہی اس کے نزدیک قابل قبول ہوگا جو اس کی رضا کے لیے کیا گیا ہوگا۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی کام، کسی بھی نیت سے کیا گیاہو اور بظاہرعقل کے معیار پر پورا اترنے والا اور دل کو بہانے والاہو،اللہ کے ہاں بے وقعت ہی کہلائے گا۔ اسی لیے اللہ پاک نے نبوت کی زبان سے کہلوایا کہ انسان کی نماز اللہ کے لیے ہونی چاہیے ، اس کی قربانی بھی اللہ کے لیے ہونی چاہیے ۔ بلکہ اس کا جینا اوراس کا مرنا بھی اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔
اسی طرح اللہ پاک نے سورۃ الکوثر میں نبی اکرم ﷺ کو کچھ اس طرح حکم دیا ہے:
اے نبی ﷺ ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ۔ اس لیے اپنے رب کی رضا کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی نے نام و نشان ہے۔
گویا خود نبی آخرالزماں کی زندگی میں بھی دو اہم ترین اعمال اور اس کی بنیاد پر دین و دنیا میں سربلندی کے اسباب بتائے گئے ہیں اور وہ اللہ پاک کی رضا کے لیے نماز کا پڑھنا اور اس کی رضا کے لیے قربانی کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں دشمنان اسلام کو خواہ کتنا ہی عارضی عروج نصیب ہو وہ بالآخر بے نام و نشان ہی ہیں۔نیک نامی اور نیک شہرت صرف ان لوگوں کو ہی حاصل ہو گی جو نما ز کے ساتھ ساتھ قربانی کو دینی فریضہ کےطور پر اپنائیں۔
اصل زندگی یہی ہے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ وحدہ لاشریک کی رضا کی طلب کے لیے خاص کر دیا جائے۔زندگی کو اس اصول پر گزارنے کی ایک عملی مثال حضرت ابراہیم علیہ السللام کی سیرت مبارکہ ہے۔ انہوں نے سب کچھ اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا۔ پیدائش ہوئی تو بت فروش باپ کے گھر میں۔ جب ایمان نے اس بندئے مؤمن کےدل میں گھر کیا تو والد کے دل میں اس نور کوروشن کرنے کے لیے تگ ودو اور دعا کرنی شروع کی۔ جب والد نہ مانا تو احترام کے ساتھ،اسے اپنے رب کی رضا کے مقابلےمیں قربان کریا اور اس سے اپنی راہیں جدا فرمالیں ۔ اس کے بعد اپنی قوم کو ایمان و توحید کی طرف بلایا۔ اور انہیں سبق سکھلانے کے لیے ان کے خود ساختہ خداؤں کو توڑ دیا اور کلہاڑی ان کے سب سےبڑے بت کے گردن میں رکھ دی۔ اس کے بعد بادشاہ وقت نمرود کے ساتھ علی الاعلان مناظرہ کیا اور اسے لا جواب کرنے اور ماضی کی مخالفت کی وجہ سے آگ میں جھونک دیئے گئے۔ گویا اس دفعہ اپنی جان اللہ کے حضور قربان کرنے کے لیے پیش کر دی۔ مگر اللہ کے حکم سے آگ گل و گلزار بن گئی۔ آگے اپنے وطن سے ہجرت کرلی ۔ اب وطن اپنے رب کے لیےقربان کر دیا۔
بڑھاپے کی عمر میں اللہ پاک نے بیٹے کی نعمت سے نوازا تو حکم ہوا کہ انہیں ان کی والدہ سمیت بے آب وگیا ہ میدان یعنی مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر واپس فلسطین چلے جاؤ۔ گویا اس دفعہ اپنی بیوی اور بالکل چھوٹے بچے کو اللہ کے لیے ایک چھوڑ دیا۔
اور اس کے بعد جب بیٹا کچھ بڑا ہوا تو خواب کے ذریعے سے حکم ہوا کہ اسے میری رضا کے لیے ذبح کرکے قربان کر دو ۔ چنانچہ اس کے لیے بھی تیار ہوگے۔اپنی سعادت مند بیوی اور بیٹے کو حکم الٰہی سے آگاہ کرنے کے بعد چھری لے کر انہیں بھی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کے لیے کمر کس لی ۔ مگر اللہ پاک کو کچھ اور منظور تھا۔چنانچہ سامنے حضرت اسماعیل کی جگہ جنت سے لایا گیا ایک ذبح شدہ مینڈھاپڑا تھا۔
یہ ہے وہ اصل حقیقت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی راہ میں قربانیوں کی داستان جس کی بدولت نہ صرف یہ کہ اللہ پاک نے ان کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشا بلکہ رہتی دنیا تک اپنے بندوں کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ کہ اس خاص دن یعنی ۱۰ ذی الحجۃ کو ان کی یاد میں مخصوص قسم کے جانوروں قربان کرکے اللہ کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس دن جانور کو ذبح کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل زیادہ افضل نہیں۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم، إنه ليأتي يوم القيامة بقرونها وأشعارها وأظلافها، وأن الدم ليقع من الله بمكان قبل أن يقع من الأرض، فطيبوا بها نفسا
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ یوم النحر کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل عمل جانور کا خون بہانا ( یعنی اسے قربانی کے لیے ذبح کرنا) ہے۔ یقینا یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں، ناخنوں کے ساتھ آئے گا، اور یہ خون اللہ کے ہاں (شرف قبولیت کو)پہنچ جاتا ہے قبل اس کے کہ زمین کو لگے۔ چنانچہ خوش دلی سے جانور قربان کرو۔)
اس حدیث مبارکہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ :
اس دن جانور ذبح کرنےسے بڑھ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے والا عمل کوئی نہیں۔
یہ عمل اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ امر تعبدی ہے۔
قربانی سے جڑی ایک ایک چیز یہاں تک کہ جانور کے بالوں، ناخنوں کی بھی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جو آدمی استطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔
یعنی ایسے آدمی کا مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور خوشی سےکوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسا آدمی اس قابل ہے کہ وہ اس قسم کی اجتماعیت کا حصہ ہو۔
الغرضعید الاضحیٰ کا اصل مقصد دراصل حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی انہی قربیوں کو دیا رکھنا ہے۔اورذی الحجہ کے دس ایام میں بالعموم اور عید الاضحٰی کے دن بالخصوص ان کے اس عمل یعنی اللہ پاک کی راہ میں بیٹے کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے اوراس کام کی عظمت کو دل میں لاتے ہوئے ،جانور ذبح کیا جائے۔
اس لیے ایسی سوچ یا آواز کہ" قربانی کی جگہ اگر کسی انتہائی غریب و نادار لوگوں کی مدد کی جائے تو شاید زیادہ اچھا ہو سکتا ہے۔" میں سوائے شیاطانیت کے کچھ نہیں۔ قربانی دراصل ایک مسلمان کو ایمان کے اندر پختہ کرنے کا مرحلہ ہے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ، اپنا تن، من ، تھن، اپنے قریبی رشتہ دار، اپنا وطن حتی کہ اپنی اولاد کو قربان کرنےکے تصور کو اجاگر کرنا ہے۔
ایک لمحہ کے لیے سوچئے کہ صرف عید الاضحٰی کےوقت ہی کیوں غریب یاد اور ان کی ہم دردی جاگ جاتی ہے۔اگر فرض کیا یہ عملِ قربانی نہ ہوتا تو کیا غریب اور ان کی ضرورتیں ہی ختم ہو جاتیں؟ کیا غیر اسلامی دنیا میں جہاں یہ مبارک عمل نہ ہوتا تو اس کے بجائے اتنی مقدار کے برابر رقم غریبوں کے لیے مختص ہے؟کیا وہاں غریب ختم ہوگئے؟اسی طرح اسلامی دنیا میں دیگرسرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کئے جانے والے غیر ضروری اخراجات کے بجائے غربت کو مٹانے کے لیے رقم مختص کیوں نہیں کی جاتی؟ اور کیا اس پورے مرحلے میں رونما ہونے والی معاشی سرگرمیوں سے غریبوں کو فائدہ نہیں ہوتا؟
حقیقت میں بات صرف یہ ہے کہ اس علامت ِدین اور سنتِ ابراہیمی جو بنیادی طور پر مظہر رضا باری تعالیٰ اور پہچان توحید باری تعالیٰ ہے، یہ ان لوگوں کو برداشت نہیں جو دلوں میں مادہ پرستی،نفس ، ہوس اور شیطان پرستی کے بت بنائے بیٹھے ہیں۔ اور اس عمل سے ان آباد اور سجے کمروں میں بت شکنی ہوتی محسوس ہوتی ہے۔مگر
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آذان، لا الہ الا اللہ
اسی طرح قربانی کے اندر اصل صرف یہ نہیں کہ آدمی بس حصہ کے بقدر روپے پیسے دے دے اور اپنے حصے کا گوشت لے کر تقسیم کر دےبلکہ اس عمل میں حتی الامکان خود اور اپنی اولاد کو شریک رکھنا چاہیے اورحضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی قربانیوں کا احساس رکھ کر جانور قربان کرے۔
بعینہ اس مبارک عمل کو سرکاری تحویل میں لینے کی تجاویز بھی اصل مقصد سے توجہ ہٹانا اوراس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش ہو سکتیں ہیں۔سرکار کے ذمہ کو جو ضروری کام ہے وہ ہی کسی درجہ میں کرلے تو عوام اس کے شکر گذار ہوں گے۔ قربانی اہل ایمان خود ہی کرلیں گے ۔
کیا سرکار بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہ ہو چکی کہ یہ اضافی ذمہ داری اس پر سونپی جائے؟ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ سرکاری سطح پر جمع ہونے والی زکاۃ پر عوام کا کتنا اعتماد ہے اور لوگ کیوں رمضان آنے سے پہلے بینکوں سے رقم نکال لیتے ہیں یا پھر باقاعدہ طور پر بینک کو خود بخود زکاۃ کی رقم کاٹنے سے منع کر دیتے ہیں؟ حالانکہ یہی لوگ خود زکاۃ ادا کرتے بھی ہیں اور ایک عرصہ سے پاکستان دنیا میں زکاۃ و صدقات دینے والے ممالک میں الحمد للہ سر فہرست ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قربانی کواس کے مقاصد کے روشنی میں کرنے کی توفیق دے ۔ امین
1 note · View note
islam365org · 3 years
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/quran-collection/four-basic-terms-quran-allah-lord-worship-religion-syed-abu-ali-maududi/
The four basic terms of the Qur'an: Allah, Lord, Worship and Religion by Syed Abu Ali Maududi
#198
مصنف : سید ابو الاعلی مودودی
مشاہدات : 24663
قرآن کی بنیادی چار اصطلاحیں:الہ،رب،عبادت اور دین
  ڈاؤن لوڈ 1 
مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے اپنی کتاب میں قرآن کریم میں بار بار ذکر ہونے والی چار اصطلاحات کو موضوع سخن بنایا ہے-وہ چار اصطلاحات یہ ہیں:1-الہ2-رب3-عبادت4-دین-مصنف نے اپنی کتاب میں ان چار اصطلاحات کی اہمیت اور ان کے مفہوم کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم کا مقصد اور مختلف امم سابقہ کے حالات کو پیش کر کے مثالوں سے سمجھانے کی کوشش کی ہے-قرآن کریم میں ان اصطلاحات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس لیے ان میں سے ہر ایک لغوی اور شرعی وضاحت  کو آیات قرآنی سے واضح کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان چار اصطلاحات کو سمجھے بغیر قرآن کریم کو سمجھنا ناممکن ہے-ان اصطلاحات سے ناواقفیت یہ نقصان ہو گا کہ نہ تو توحید وشرک کا پتہ چلے گا اور نہ عبادت اللہ کے لیے خاص ہو سکے گی اور نہ ہی دین اللہ کے لیے خالص رہے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ایمان لانے کے باوجود عقیدہ اور عمل دونوں نامکمل ہو جائیں گے-
0 notes
jawadhaider · 4 years
Text
اہل بیت سے ناراضگی
ذاکر نائیک آپکو یاد ہونگے ، ایک زمانے میں عالمی شہرت یافتہ تھے ۔ اسلام کا دیگر مذاہبِ عالم سے تقابل انکا خاص موضوع تھا ، یاداشت اچھی تھی تو مناظرے بھی بہت کئے اور انہی مناظروں نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ شہرت نے انکے ساتھ وہی کیا جو یہ عام طور پر کرتی ہے ۔ ذاکر نائیک نے فقہ و فتاوی کی باقاعدہ تعلیم نہ ہونے کے باوجود خود کو اس علم کا ماہر سمجھ لیا ، ساتھ ہی اپنی گفتگو میں نوجوانوں کو مائل و مرعوب کرنے کیلئے سائنسی حوالوں کو قرآن سے ثابت کرنے کیلئے آیات کی من مانی تشریح کرنا شروع کر دی ۔ یہاں تک سب چل ہی رہا تھا بلکہ سادہ لوح عوام کی ایک بڑی تعداد انکو پھر بھی فولو کر رہی تھی ۔
پھر ذاکر نائیک نے علمی تکبر میں یزید کو رضی اللہ کہہ دیا ، کربلا کو سیاسی جنگ کہہ دیا ۔ اس کے بعد سے ذاکر نائیک کا زوال شروع ہوا حتی کہ انکے اپنے ملک نے ان پر پابندی لگا دی ، تنظیم بند کر دی ۔ وہی ذاکر نائیک جو چند سال پہلے تک عالم و محقق و مناظر مشہور تھے ، آج ملکوں ملکوں در بدر ہیں ۔
پھر آئیے مفتی منیب الرحمان کیطرف ۔ روئیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین تھے ، انکی روئیت کو کوئی سنجیدہ لیتا ہو یا نہ ہو بہرحال عوامی حلقوں میں انکی بحیثیت دینی سکالر ایک عزت تھی ۔ انہیں ایک غیر سیاسی و غیر متنازعہ مولوی کے طور پر دیکھا جاتا تھا ۔ پھر انہوں نے یزید کے حوالے سے ایک بات کر دی ، کہا کہ یزید نے امام حسین ع کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا ۔ اور ایک طرح سے یزید کو امام حسین ع کی شہادت سے بری الذمہ قرار دے دیا ۔ سالہا سال کی بنی عزت خاک میں مل گئی ۔ اب انہیں نہ پہلے جیسا مقام حاصل ہے ، نہ مرتبہ ، نہ ہی عزت ۔
آخر میں آتے ہیں اشرف جلالی پر ۔ مولوی اشرف جلالی اہلسنت و بریلوی جماعت کے محقق و عالم کے طور پر مشہور تھا ۔ توحید کے موضوع پر اسکا سیمینار کافی پذیرائی حاصل کرتا تھا ۔ تحریک لبیک میں خادم رضوی سے اختلاف کے بعد اور اپنا سیٹ اپ الگ کرنے کے بعد بھی اپنا تحقیقی و علمی مقام برقرار رکھا ہوا تھا ۔ پھر اشرف جلالی نے وہ کہا جس کے بعد مذمت و ملامت اسکا مقدر بن چکی ہے ۔ پہلے جو ایک دینی محقق تھا ، وہ اب ایک گستاخ و دشمنِ اہلیبیت مشہور ہو چکا ہے ۔ دوسرے فرقوں نے بھی اور اسکے اپنے فرقے نے اس سے دوری اختیار کر لی اور اس پر کھلے عام تنقید و لعن طعن ہو رہی ہے ۔
دوستو ، میں نے ان چند اور ان جیسی بے تحاشا مثالوں سے ایک ہی بات سیکھی ہے ۔ خُدا اپنے بارے میں اختلافات ، مناظرے ، بیانات برداشت کر لیتا ہے ، لیکن جہاں بات اہلیبیت ع کی آ جائے ، اس رب کا طریقہ سیدھا ہے ۔ جو جو اہل بیت ع سے ٹکرایا ، خدا نے اسکو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ۔ کوئی اہلیبیت ع سے دشمنی و بغض کا اظہار کر کے قابلِ عز و شرف رہتا ہی نہیں ۔ انسانی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں جہاں کوئی اہلیبیت رسول سے ٹکرایا ہو اور ذلت اسکا مقدر نہ بنی ہو ۔
اشرف جلالی نے بغض میں ، یا فرقہ واریت کے جنون میں ، یا جہالت میں بریلویت سے ناصبیت کا سفر طے کر لیا ۔ اس نے کچھ اور نہیں، سیدھا ذاتِ جنابِ سیدہ کونین سلام علیھا کے بارے میں بات کی ۔ شاید خدا اپنے دشمنوں کو معاف کر دیتا ہو ، شاید خدا اہلیبیت ع کے دشمنوں کو معاف کر دیتا ہو ، لیکن فاطمہ زہرا سلام علیھا کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے ، اسکے رسول کی ناراضگی ہے ، اہلیبیت ع کی ناراضگی ہے ۔ اور زہرا ع کی ناراضگی کا نتیجہ رسوائی ہے ۔
اشرف جلالی کو دنیا و آخرت کی پستی ، ذلت ، بدنامی اور ناکامی مبارک ہو
گل زہرا رضوی
0 notes
muslim-library · 5 years
Text
یسوع مسیح کا حقیقی پیغام قرآن اور بائبل میں
https://is.gd/IdwfDy
یسوع مسیح کا حقیقی پیغام قرآن اور بائبل میں
یسوع مسیح کا حقیقی پیغام قرآن اور بائبل میں
یہ کتاب ایک مختصر خلاصہ ہے جس میں میں عیسائیت کی اصل اور اس کے موجوده دور کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتي ہوں- یہ عیسائیوں کو اپنے عقائد کی بن��اد جاننے کے لئے رہنمائی کران ہے (ایک خدا پر ایمان لاان اور اسے عبادت میں یکجا کرن ا)- . اس خلاصہ میں ، میں نے قرآنی آیات کا حوالہ دینے کی کوشش کی ہے جس میں حضرت عیسیٰ مسیح اور اس کی والده کی کہانی کا تذکره ہے ، اور تورات اور انجیل کی موجوده تحریروں سے ثبوت پیش کرنے کے لئے مسیحی قارئین کو ان کے اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے عیسیٰ مسیح کا حقیقی پیغام بیان کرنا ہے ۔
مسیحی ، یہودی ، اور مشرق وسط ی کے مسلمان خدا کا حوال ہ کرنے کے لئے “لله” کا لفظ استعما ل کرت ے ہیں ، جس سے مراد
2 ، دانیا ل کی کتاب 6:20 عبرانی اور : صرف سچا خدا ہے۔ عہد قدیم کے پہلے ورژن میں لفظ لله کا ذکر 89 بار ہوا تھا۔ (ابتدا ء 4
عربی بائبل کا حوالہ )
یہ کتاب تمام آزادی پسندو ں ، کھلے ذہنوں اور حق کے متلاشیوں کو یہ جاننے میں مدد دیتی ہے کہ خال ق (لله) 1 نے تمام اقوام کو تمام رسولوں کے ساتھ تاریخ میں ایک انوکھ ا پیغام بھیجا تھا یعنی خالص توحید۔ حضرت عیسیٰ بھی ان متقی رسولوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنے لوگوں کو حق کی طرف رہنمائی کرنے کی کوشش کی ، لیکن بہت سے لوگوں نے اپني خواہشات کی پیروی کی اور اس طرح انبیاء کی تعلیمات سے بہت دور ہوگئے۔ میں لله سے دع ا کرتي ہوں کہ یہ کتاب دنی ا اور آخرت میں ، فائده مند اور ہدایت و برکت کا ذریعہ ثابت ہو۔
0 notes
atiqrzisposts · 6 years
Text
سورة البقرة 24
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَ لَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ۚ ۖ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾
19 پچھلی آیات میں توحید کا بیان تھا اب اسلام کے دوسرے اہم عقیدے یعنی آنحضرتﷺ کی رسالت کا بیان ہے اور عرب کے جو لوگ قرآن پر ایمان لانے کے بجائے یہ الزام لگاتے تھے کہ آنحضرتﷺ شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ کلام بنالیا ہے، انہیں زبردست چیلنج دیا گیا…
View On WordPress
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ
مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کوعطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزررہا تھا، جبکہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا، یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ،حالانکہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھاکہ یااللہ، ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں، جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا،اے پروردگار، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتائو ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتناہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتادو جب انہوں نے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہاتھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔(سورۃ البقرہ آیت ۳۰ تا ۳۳)
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدم علیہ السلام کو علم کی بدولت ملی۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کیونکہ سرور ِکائنات ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہوئی، وہ علم ہی کے بارے میںتھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلےآپ ﷺکو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بلکہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی چونکہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتاہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہو سکتا ہے،چونکہ پیغمبر آخر الزماں ﷺنے تاقیام قیامت آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپ ﷺکو علم سے روشناس کرایا گیا۔ چناںچہ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیاانسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ ﷺ پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔(سورۃ العلق آیت ۱ تا ۵) ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
انسان جو پہلے نہایت کمزور مخلوق تھا، آج علم کی بدولت خشکیوں ، پانیوں اور ہوائوں پراپنے رب کے فضل سے حکومت کر رہا ہے۔ علم کے ہاتھ کل انسان کو کہاں لے جائیں گے کون پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے کہ اس کی یہ عظیم بخشش انسان کو کہاں پہنچانے والی ہے۔ چاند کی تسخیر تو اب پرانی بات ہو چکی۔ انسان ستاروں کو بھی مسخر کر لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل رب کا کرم ،علم انسان کو ستاروں کا بھی مالک بنا دے اور اس یادگار اورعجیب دن انسان قرآن مجید میں یہ ارشاد ربانی پڑھ کر حیران و ششدر رہ جائے ۔ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوںمیں اور جو کچھ زمین میںہے، سب کواللہ نے تمہارے لئے مسخرکر دیا ہے۔(سورۂ لقمان :آیت ۲۰)
آپ نے دیکھا اسلام کی نظر میں علم کا درجہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃالعلق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا، لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کونہایت دلکش پیرایوں میں جابجا پیش کیا گیاہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی ۔ترجمہ: آپ ﷺفرمادیجئے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے بر ا بر نہیں ہوسکتے ‘یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں (یعنی عالم اورغیر عالم برابر نہیں ہیں) (سورۃ ا��زمرآیت ۹)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔ترجمہ: اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ بے شک، اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔ (سورۃ الفاطر :آیت۲۸)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں ،چونکہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کر سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو‘ ایسے لوگوں کو جو محض دنیاوی علوم و فنون سے واقف ہوں اہل ہنر و فن تو کہا جاسکتاہے لیکن عالم نہیں، البتہ ایک ایسا شخص جو بظاہر پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا ،البتہ اہل علم کی صحبت میں رہ کر یا ان کی زبانی اللہ و رسول ﷺکے احکامات سن کر ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو اسے جاہل نہیں کہا جائے گا ،بلکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں۔ البتہ اہل علم کی فضیلت و بزرگی اپنی جگہ واضح ہے۔درحقیقت علم تو نام ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ہے۔ جبکہ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتاہے چونکہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمامتر کامیابیاں اور کامرانیاں مشروط ہیں۔ قرآنی علوم کی ضیاء پاشیوں سے ہی انسان تسخیر کائنات کی مہم جوئی میں مصرو ف ہے جو باتیں آج ہمیں سائنسی کمالات کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہادی کائنات محسن انسانیت ﷺکی زبان اطہر نے بصورت قرآن مجید بیان فرما دیئے۔
اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں، بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالانکہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتاہے۔
وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہمکنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بصورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتہ دیتی ہیں تاہم دینی علوم یااسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کرپھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بلکہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پر دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچا سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ اور تخت و تاج کے مالک بنے۔ جبکہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تو تمام علوم اور کمالات سے سرفرا زفرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ فارسی کے شاعر نے کہا؎
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کرکی گئی، اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہاہوتا ۔ یہ سب کمالات جو تمام انبیاء رسل میں فرداً فرداً عطا کئے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت میں بدرجہ اتم موجودتھے۔سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی ،وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا۔
قرآن مجید و احادیث نبوی میں علم کے حصول اور عمل پربہت زوردیا گیاہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میںرہناافضل واعلیٰ ہے۔ چونکہ عابد کی عبادت اپنے لئے ہے جبکہ عالم کاعلم پورے عالم کو فیض یاب کرتاہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی‘ درماندگی ‘پسماندگی کا سب سے اہم ترین سبب علمی پسماندگی ہی ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوںہے۔ اگر وہ دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کامیاب ہیں تودینی علوم سے یکسر لاتعلق، منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اورتمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ساتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں ۔ تحقیق و ریسرچ کے لئے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں ،تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کئے جا سکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ، لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے معاشروں میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بدولت ہیں۔ہم بھی اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔
The post حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mo2CnO via Daily Khabrain
0 notes
cleopatrarps · 6 years
Text
حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ
مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کوعطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزررہا تھا، جبکہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا، یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ،حالانکہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھاکہ یااللہ، ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں، جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا،اے پروردگار، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتائو ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتناہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتادو جب انہوں نے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہاتھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔(سورۃ البقرہ آیت ۳۰ تا ۳۳)
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدم علیہ السلام کو علم کی بدولت ملی۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کیونکہ سرور ِکائنات ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہوئی، وہ علم ہی کے بارے میںتھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلےآپ ﷺکو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بلکہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی چونکہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشع��ر ہو جاتاہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہو سکتا ہے،چونکہ پیغمبر آخر الزماں ﷺنے تاقیام قیامت آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپ ﷺکو علم سے روشناس کرایا گیا۔ چناںچہ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیاانسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ ﷺ پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔(سورۃ العلق آیت ۱ تا ۵) ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
انسان جو پہلے نہایت کمزور مخلوق تھا، آج علم کی بدولت خشکیوں ، پانیوں اور ہوائوں پراپنے رب کے فضل سے حکومت کر رہا ہے۔ علم کے ہاتھ کل انسان کو کہاں لے جائیں گے کون پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے کہ اس کی یہ عظیم بخشش انسان کو کہاں پہنچانے والی ہے۔ چاند کی تسخیر تو اب پرانی بات ہو چکی۔ انسان ستاروں کو بھی مسخر کر لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل رب کا کرم ،علم انسان کو ستاروں کا بھی مالک بنا دے اور اس یادگار اورعجیب دن انسان قرآن مجید میں یہ ارشاد ربانی پڑھ کر حیران و ششدر رہ جائے ۔ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوںمیں اور جو کچھ زمین میںہے، سب کواللہ نے تمہارے لئے مسخرکر دیا ہے۔(سورۂ لقمان :آیت ۲۰)
آپ نے دیکھا اسلام کی نظر میں علم کا درجہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃالعلق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا، لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کونہایت دلکش پیرایوں میں جابجا پیش کیا گیاہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی ۔ترجمہ: آپ ﷺفرمادیجئے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے بر ا بر نہیں ہوسکتے ‘یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں (یعنی عالم اورغیر عالم برابر نہیں ہیں) (سورۃ الزمرآیت ۹)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔ترجمہ: اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ بے شک، اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔ (سورۃ الفاطر :آیت۲۸)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں ،چونکہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کر سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو‘ ایسے لوگوں کو جو محض دنیاوی علوم و فنون سے واقف ہوں اہل ہنر و فن تو کہا جاسکتاہے لیکن عالم نہیں، البتہ ایک ایسا شخص جو بظاہر پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا ،البتہ اہل علم کی صحبت میں رہ کر یا ان کی زبانی اللہ و رسول ﷺکے احکامات سن کر ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو اسے جاہل نہیں کہا جائے گا ،بلکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں۔ البتہ اہل علم کی فضیلت و بزرگی اپنی جگہ واضح ہے۔درحقیقت علم تو نام ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ہے۔ جبکہ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتاہے چونکہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمامتر کامیابیاں اور کامرانیاں مشروط ہیں۔ قرآنی علوم کی ضیاء پاشیوں سے ہی انسان تسخیر کائنات کی مہم جوئی میں مصرو ف ہے جو باتیں آج ہمیں سائنسی کمالات کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہادی کائنات محسن انسانیت ﷺکی زبان اطہر نے بصورت قرآن مجید بیان فرما دیئے۔
اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں، بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالانکہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتاہے۔
وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہمکنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بصورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتہ دیتی ہیں تاہم دینی علوم یااسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کرپھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بلکہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پر دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچا سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ اور تخت و تاج کے مالک بنے۔ جبکہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تو تمام علوم اور کمالات سے سرفرا زفرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ فارسی کے شاعر نے کہا؎
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کرکی گئی، اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہاہوتا ۔ یہ سب کمالات جو تمام انبیاء رسل میں فرداً فرداً عطا کئے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت میں بدرجہ اتم موجودتھے۔سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی ،وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا۔
قرآن مجید و احادیث نبوی میں علم کے حصول اور عمل پربہت زوردیا گیاہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میںرہناافضل واعلیٰ ہے۔ چونکہ عابد کی عبادت اپنے لئے ہے جبکہ عالم کاعلم پورے عالم کو فیض یاب کرتاہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی‘ درماندگی ‘پسماندگی کا سب سے اہم ترین سبب علمی پسماندگی ہی ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوںہے۔ اگر وہ دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کامیاب ہیں تودینی علوم سے یکسر لاتعلق، منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اورتمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ساتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں ۔ تحقیق و ریسرچ کے لئے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں ،تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کئے جا سکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ، لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے معاشروں میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بدولت ہیں۔ہم بھی اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔
The post حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mo2CnO via Today Urdu News
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ
مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کوعطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزررہا تھا، جبکہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا، یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ،حالانکہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھاکہ یااللہ، ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں، جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا،اے پروردگار، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتائو ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتناہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتادو جب انہوں نے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہاتھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔(سورۃ البقرہ آیت ۳۰ تا ۳۳)
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدم علیہ السلام کو علم کی بدولت ملی۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کیونکہ سرور ِکائنات ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہوئی، وہ علم ہی کے بارے میںتھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلےآپ ﷺکو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بلکہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی چونکہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتاہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہو سکتا ہے،چونکہ پیغمبر آخر الزماں ﷺنے تاقیام قیامت آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپ ﷺکو علم سے روشناس کرایا گیا۔ چناںچہ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیاانسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ ﷺ پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔(سورۃ العلق آیت ۱ تا ۵) ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
انسان جو پہلے نہایت کمزور مخلوق تھا، آج علم کی بدولت خشکیوں ، پانیوں اور ہوائوں پراپنے رب کے فضل سے حکومت کر رہا ہے۔ علم کے ہاتھ کل انسان کو کہاں لے جائیں گے کون پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے کہ اس کی یہ عظیم بخشش انسان کو کہاں پہنچانے والی ہے۔ چاند کی تسخیر تو اب پرانی بات ہو چکی۔ انسان ستاروں کو بھی مسخر کر لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل رب کا کرم ،علم انسان کو ستاروں کا بھی مالک بنا دے اور اس یادگار اورعجیب دن انسان قرآن مجید میں یہ ارشاد ربانی پڑھ کر حیران و ششدر رہ جائے ۔ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوںمیں اور جو کچھ زمین میںہے، سب کواللہ نے تمہارے لئے مسخرکر دیا ہے۔(سورۂ لقمان :آیت ۲۰)
آپ نے دیکھا اسلام کی نظر میں علم کا درجہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃالعلق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا، لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کونہایت دلکش پیرایوں میں جابجا پیش کیا گیاہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی ۔ترجمہ: آپ ﷺفرمادیجئے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے بر ا بر نہیں ہوسکتے ‘یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں (یعنی عالم اورغیر عالم برابر نہیں ہیں) (سورۃ الزمرآیت ۹)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔ترجمہ: اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ بے شک، اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔ (سورۃ الفاطر :آیت۲۸)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں ،چونکہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کر سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو‘ ایسے لوگوں کو جو محض دنیاوی علوم و فنون سے واقف ہوں اہل ہنر و فن تو کہا جاسکتاہے لیکن عالم نہیں، البتہ ایک ایسا شخص جو بظاہر پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا ،البتہ اہل علم کی صحبت میں رہ کر یا ان کی زبانی اللہ و رسول ﷺکے احکامات سن کر ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو اسے جاہل نہیں کہا جائے گا ،بلکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں۔ البتہ اہل علم کی فضیلت و بزرگی اپنی جگہ واضح ہے۔درحقیقت علم تو نام ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ہے۔ جبکہ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتاہے چونکہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمامتر کامیابیاں اور کامرانیاں مشروط ہیں۔ قرآنی علوم کی ضیاء پاشیوں سے ہی انسان تسخیر کائنات کی مہم جوئی میں مصرو ف ہے جو باتیں آج ہمیں سائنسی کمالات کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہادی کائنات محسن انسانیت ﷺکی زبان اطہر نے بصورت قرآن مجید بیان فرما دیئے۔
اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں، بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالانکہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتاہے۔
وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہمکنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بصورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتہ دیتی ہیں تاہم دینی علوم یااسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کرپھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بلکہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پر دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچا سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ اور تخت و تاج کے مالک بنے۔ جبکہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تو تمام علوم اور کمالات سے سرفرا زفرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ فارسی کے شاعر نے کہا؎
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کرکی گئی، اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہاہوتا ۔ یہ سب کمالات جو تمام انبیاء رسل میں فرداً فرداً عطا کئے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت میں بدرجہ اتم موجودتھے۔سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی ،وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا۔
قرآن مجید و احادیث نبوی میں علم کے حصول اور عمل پربہت زوردیا گیاہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میںرہناافضل واعلیٰ ہے۔ چونکہ عابد کی عبادت اپنے لئے ہے جبکہ عالم کاعلم پورے عالم کو فیض یاب کرتاہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی‘ درماندگی ‘پسماندگی کا سب سے اہم ترین سبب علمی پسماندگی ہی ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوںہے۔ اگر وہ دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کامیاب ہیں تودینی علوم سے یکسر لاتعلق، منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اورتمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ساتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں ۔ تحقیق و ریسرچ کے لئے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں ،تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کئے جا سکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ، لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے معاشروں میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بدولت ہیں۔ہم بھی اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔
The post حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mo2CnO via Urdu News
0 notes
party-hard-or-die · 6 years
Text
حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ
مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کوعطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزررہا تھا، جبکہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا، یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ،حالانکہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھاکہ یااللہ، ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں، جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا،اے پروردگار، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتائو ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتناہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتادو جب انہوں نے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہاتھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔(سورۃ البقرہ آیت ۳۰ تا ۳۳)
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدم علیہ السلام کو علم کی بدولت ملی۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کیونکہ سرور ِکائنات ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہوئی، وہ علم ہی کے بارے میںتھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلےآپ ﷺکو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بلکہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی چونکہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتاہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہو سکتا ہے،چونکہ پیغمبر آخر الزماں ﷺنے تاقیام قیامت آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپ ﷺکو علم سے روشناس کرایا گیا۔ چناںچہ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیاانسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ ﷺ پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔(سورۃ العلق آیت ۱ تا ۵) ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
انسان جو پہلے نہایت کمزور مخلوق تھا، آج علم کی بدولت خشکیوں ، پانیوں اور ہوائوں پراپنے رب کے فضل سے حکومت کر رہا ہے۔ علم کے ہاتھ کل انسان کو کہاں لے جائیں گے کون پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے کہ اس کی یہ عظیم بخشش انسان کو کہاں پہنچانے والی ہے۔ چاند کی تسخیر تو اب پرانی بات ہو چکی۔ انسان ستاروں کو بھی مسخر کر لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل رب کا کرم ،علم انسان کو ستاروں کا بھی مالک بنا دے اور اس یادگار اورعجیب دن انسان قرآن مجید میں یہ ارشاد ربانی پڑھ کر حیران و ششدر رہ جائے ۔ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوںمیں اور جو کچھ زمین میںہے، سب کواللہ نے تمہارے لئے مسخرکر دیا ہے۔(سورۂ لقمان :آیت ۲۰)
آپ نے دیکھا اسلام کی نظر میں علم کا درجہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃالعلق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا، لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کونہایت دلکش پیرایوں میں جابجا پیش کیا گیاہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی ۔ترجمہ: آپ ﷺفرمادیجئے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے بر ا بر نہیں ہوسکتے ‘یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں (یعنی عالم اورغیر عالم برابر نہیں ہیں) (سورۃ الزمرآیت ۹)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔ترجمہ: اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ بے شک، اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔ (سورۃ الفاطر :آیت۲۸)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں ،چونکہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کر سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو‘ ایسے لوگوں کو جو محض دنیاوی علوم و فنون سے واقف ہوں اہل ہنر و فن تو کہا جاسکتاہے لیکن عالم نہیں، البتہ ایک ایسا شخص جو بظاہر پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا ،البتہ اہل علم کی صحبت میں رہ کر یا ان کی زبانی اللہ و رسول ﷺکے احکامات سن کر ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو اسے جاہل نہیں کہا جائے گا ،بلکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں۔ البتہ اہل علم کی فضیلت و بزرگی اپنی جگہ واضح ہے۔درحقیقت علم تو نام ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ہے۔ جبکہ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتاہے چونکہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمامتر کامیابیاں اور کامرانیاں مشروط ہیں۔ قرآنی علوم کی ضیاء پاشیوں سے ہی انسان تسخیر کائنات کی مہم جوئی میں مصرو ف ہے جو باتیں آج ہمیں سائنسی کمالات کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہادی کائنات محسن انسانیت ﷺکی زبان اطہر نے بصورت قرآن مجید بیان فرما دیئے۔
اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں، بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالانکہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتاہے۔
وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہمکنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بصورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتہ دیتی ہیں تاہم دینی علوم یااسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کرپھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بلکہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پر دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچا سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ اور تخت و تاج کے مالک بنے۔ جبکہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تو تمام علوم اور کمالات سے سرفرا زفرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ فارسی کے شاعر نے کہا؎
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کرکی گئی، اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہاہوتا ۔ یہ سب کمالات جو تمام انبیاء رسل میں فرداً فرداً عطا کئے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت میں بدرجہ اتم موجودتھے۔سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی ،وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا۔
قرآن مجید و احادیث نبوی میں علم کے حصول اور عمل پربہت زوردیا گیاہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میںرہناافضل واعلیٰ ہے۔ چونکہ عابد کی عبادت اپنے لئے ہے جبکہ عالم کاعلم پورے عالم کو فیض یاب کرتاہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی‘ درماندگی ‘پسماندگی کا سب سے اہم ترین سبب علمی پسماندگی ہی ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوںہے۔ اگر وہ دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کامیاب ہیں تودینی علوم سے یکسر لاتعلق، منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اورتمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ساتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں ۔ تحقیق و ریسرچ کے لئے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں ،تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کئے جا سکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ، لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے معاشروں میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بدولت ہیں۔ہم بھی اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔
The post حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mo2CnO via Daily Khabrain
0 notes
dragnews · 6 years
Text
حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ
مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کوعطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزررہا تھا، جبکہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا، یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ،حالانکہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھاکہ یااللہ، ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں، جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا،اے پروردگار، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتائو ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتناہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتادو جب انہوں نے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہاتھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔(سورۃ البقرہ آیت ۳۰ تا ۳۳)
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدم علیہ السلام کو علم کی بدولت ملی۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کیونکہ سرور ِکائنات ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہوئی، وہ علم ہی کے بارے میںتھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلےآپ ﷺکو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بلکہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی چونکہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتاہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہو سکتا ہے،چونکہ پیغمبر آخر الزماں ﷺنے تاقیام قیامت آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپ ﷺکو علم سے روشناس کرایا گیا۔ چناںچہ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیاانسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ ﷺ پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔(سورۃ العلق آیت ۱ تا ۵) ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
انسان جو پہلے نہایت کمزور مخلوق تھا، آج علم کی بدولت خشکیوں ، پانیوں اور ہوائوں پراپنے رب کے فضل سے حکومت کر رہا ہے۔ علم کے ہاتھ کل انسان کو کہاں لے جائیں گے کون پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے کہ اس کی یہ عظیم بخشش انسان کو کہاں پہنچانے والی ہے۔ چاند کی تسخیر تو اب پرانی بات ہو چکی۔ انسان ستاروں کو بھی مسخر کر لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل رب کا کرم ،علم انسان کو ستاروں کا بھی مالک بنا دے اور اس یادگار اورعجیب دن انسان قرآن مجید میں یہ ارشاد ربانی پڑھ کر حیران و ششدر رہ جائے ۔ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوںمیں اور جو کچھ زمین میںہے، سب کواللہ نے تمہارے لئے مسخرکر دیا ہے۔(سورۂ لقمان :آیت ۲۰)
آپ نے دیکھا اسلام کی نظر میں علم کا درجہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃالعلق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا، لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کونہایت دلکش پیرایوں میں جابجا پیش کیا گیاہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی ۔ترجمہ: آپ ﷺفرمادیجئے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے بر ا بر نہیں ہوسکتے ‘یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں (یعنی عالم اورغیر عالم برابر نہیں ہیں) (سورۃ الزمرآیت ۹)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔ترجمہ: اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ بے شک، اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔ (سورۃ الفاطر :آیت۲۸)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں ،چونکہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کر سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو‘ ایسے لوگوں کو جو محض دنیاوی علوم و فنون سے واقف ہوں اہل ہنر و فن تو کہا جاسکتاہے لیکن عالم نہیں، البتہ ایک ایسا شخص جو بظاہر پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا ،البتہ اہل علم کی صحبت میں رہ کر یا ان کی زبانی اللہ و رسول ﷺکے احکامات سن کر ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو اسے جاہل نہیں کہا جائے گا ،بلکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں۔ البتہ اہل علم کی فضیلت و بزرگی اپنی جگہ واضح ہے۔درحقیقت علم تو نام ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ہے۔ جبکہ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتاہے چونکہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمامتر کامیابیاں اور کامرانیاں مشروط ہیں۔ قرآنی علوم کی ضیاء پاشیوں سے ہی انسان تسخیر کائنات کی مہم جوئی میں مصرو ف ہے جو باتیں آج ہمیں سائنسی کمالات کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہادی کائنات محسن انسانیت ﷺکی زبان اطہر نے بصورت قرآن مجید بیان فرما دیئے۔
اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں، بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالانکہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتاہے۔
وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہمکنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بصورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتہ دیتی ہیں تاہم دینی علوم یااسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کرپھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بلکہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پ�� دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچا سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ اور تخت و تاج کے مالک بنے۔ جبکہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تو تمام علوم اور کمالات سے سرفرا زفرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ فارسی کے شاعر نے کہا؎
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کرکی گئی، اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہاہوتا ۔ یہ سب کمالات جو تمام انبیاء رسل میں فرداً فرداً عطا کئے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت میں بدرجہ اتم موجودتھے۔سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی ،وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا۔
قرآن مجید و احادیث نبوی میں علم کے حصول اور عمل پربہت زوردیا گیاہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میںرہناافضل واعلیٰ ہے۔ چونکہ عابد کی عبادت اپنے لئے ہے جبکہ عالم کاعلم پورے عالم کو فیض یاب کرتاہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی‘ درماندگی ‘پسماندگی کا سب سے اہم ترین سبب علمی پسماندگی ہی ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوںہے۔ اگر وہ دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کامیاب ہیں تودینی علوم سے یکسر لاتعلق، منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اورتمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ساتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں ۔ تحقیق و ریسرچ کے لئے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں ،تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کئے جا سکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ، لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے معاشروں میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بدولت ہیں۔ہم بھی اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔
The post حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mo2CnO via Today Pakistan
0 notes
Text
حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ
مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی
اللہ رب العالمین نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت و برتری عطا فرمائی تو ا س کا سبب علم اور اس کا شعور و آگہی ہے جو کسی اور مخلوق کوعطا نہیں کیا گیا۔ یہ محض انسان ہی تھا جسے خالق کائنات نے علم کی دولت سے اس وقت نواز دیا تھا جب یہ تخلیقی مراحل سے گزررہا تھا، جبکہ دیگر مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اس عزت و شرف سے محروم رکھا، یہی وجہ ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ،حالانکہ تخلیق آدم کے موقع پر فرشتوں نے عرض کیا تھاکہ یااللہ، ہم تیری تسبیح بیان کرنے والے ہیں، جیساکہ قرآن مجید میں ہے۔ترجمہ: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا،اے پروردگار، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں خون بہائے اور ہم تیری حمد اور پاکیزگی اور تسبیح بیان کرنے والے ہیں اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ (تعالیٰ) نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم سچے ہوتوان چیزوں کے نام بتائو ان سب نے کہا یااللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتناہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے تو اللہ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا تم ان کے نام بتادو جب انہوں نے نام بتا دیئے تو اللہ نے فرمایا کیا میں نے تم سے پہلے ہی نہیں کہاتھا کہ زمین و آسمان کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے ہی علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔(سورۃ البقرہ آیت ۳۰ تا ۳۳)
یہ عزت و شرافت اور فضیلت و بزرگی سیدنا آدم علیہ السلام کو علم کی بدولت ملی۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان میں علم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل کو اپنا خاص علم مرحمت فرمایا جس سے ساری دنیا منور ہوئی اور علم کی روشنی سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ملی۔ اسلامی تعلیمات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو علم کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کیونکہ سرور ِکائنات ﷺپر جو پہلی وحی نازل ہوئی، وہ علم ہی کے بارے میںتھی۔ اللہ رب العالمین نے سب سے پہلےآپ ﷺکو دوسرا کوئی پیغام نہیں دیا، بلکہ پہلی نصیحت ہی علم کے بارے میں کی چونکہ علم و آگہی سے شعور کی راہیں کھلتی ہیں اور جب انسان باشعور ہو جاتاہے تو وہ معرفت حق کے حصول کا اہل ثابت ہو سکتا ہے،چونکہ پیغمبر آخر الزماں ﷺنے تاقیام قیامت آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا عظیم فریضہ سرانجام دینا تھا لہٰذا تمام امور سے پہلے آپ ﷺکو علم سے روشناس کرایا گیا۔ چناںچہ پہلی وحی میں ارشاد ہوا۔ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے۔ جس نے پیدا کیاانسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ آپ ﷺ پڑھتے رہیے آپ کا رب بڑے کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔(سورۃ العلق آیت ۱ تا ۵) ان آیات مبارکہ کو غور سے پڑھا جائے تو علم کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
انسان جو پہلے نہایت کمزور مخلوق تھا، آج علم کی بدولت خشکیوں ، پانیوں اور ہوائوں پراپنے رب کے فضل سے حکومت کر رہا ہے۔ علم کے ہاتھ کل انسان کو کہاں لے جائیں گے کون پیش گوئی کر سکتا ہے۔ یہ تو صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے کہ اس کی یہ عظیم بخشش انسان کو کہاں پہنچانے والی ہے۔ چاند کی تسخیر تو اب پرانی بات ہو چکی۔ انسان ستاروں کو بھی مسخر کر لینے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کل رب کا کرم ،علم انسان کو ستاروں کا بھی مالک بنا دے اور اس یادگار اورعجیب دن انسان قرآن مجید میں یہ ارشاد ربانی پڑھ کر حیران و ششدر رہ جائے ۔ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوںمیں اور جو کچھ زمین میںہے، سب کواللہ نے تمہارے لئے مسخرکر دیا ہے۔(سورۂ لقمان :آیت ۲۰)
آپ نے دیکھا اسلام کی نظر میں علم کا درجہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃالعلق کی ابتدائی چار آیتوں کے سوا اگر علم کی فضیلت میں اور کچھ نہ کہا جاتا تب بھی کافی ہوتا، لیکن قرآن میں بار بار علم کی عظمت و اہمیت کونہایت دلکش پیرایوں میں جابجا پیش کیا گیاہے اور حصول علم پر انسانوں بالخصوص اہل ایمان کو راغب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پر علم اور اہل علم کی فضیلت یوں بیان کی گئی ۔ترجمہ: آپ ﷺفرمادیجئے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے بر ا بر نہیں ہوسکتے ‘یہ تو عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں (یعنی عالم اورغیر عالم برابر نہیں ہیں) (سورۃ الزمرآیت ۹)
اسی طرح ایک مقام پر خشیت الٰہی کا ذریعہ بھی علم کو قرار دیا۔ترجمہ: اللہ سے توا س کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ بے شک، اللہ غالب اور بخشنے ولا ہے۔ (سورۃ الفاطر :آیت۲۸)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی علم سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں ،چونکہ اگر ایک شخص کو اللہ کی معرفت ہی حاصل نہیں تو وہ کس طرح اللہ کا خوف اور تقویٰ اختیار کر سکتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک اعلیٰ ترین دنیاوی تعلیمات سے بہرہ ور شخص معرفت الٰہی سے بھی روشناس ہو۔ قرآن کی نظر میں وہی عالم ہے جسے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو‘ ایسے لوگوں کو جو محض دنیاوی علوم و فنون سے واقف ہوں اہل ہنر و فن تو کہا جاسکتاہے لیکن عالم نہیں، البتہ ایک ایسا شخص جو بظاہر پڑھنا لکھنا بھی نہیں جانتا ،البتہ اہل علم کی صحبت میں رہ کر یا ان کی زبانی اللہ و رسول ﷺکے احکامات سن کر ان پر عمل پیرا رہتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی خشیت پیدا ہوتی ہے تو اسے جاہل نہیں کہا جائے گا ،بلکہ ایسے لوگ ہی اللہ کے مقرب بندے بن سکتے ہیں۔ البتہ اہل علم کی فضیلت و بزرگی اپنی جگہ واضح ہے۔درحقیقت علم تو نام ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات کا ہے۔ جبکہ دنیاوی علوم صرف دنیا تک محدود ہیں اور انہیں دنیاوی تعمیر و ترقی کا منفعت بخش ہنر و فن ہی کہا جاسکتاہے چونکہ یہ تمام علوم دنیا تک ہی محدود ہیں جبکہ حقیقی علم یعنی قرآن و سنت معرفت الٰہی کے حصول کا سبب اور اسی کی روشنی سے دین و دنیا کی تمامتر کامیابیاں اور کامرانیاں مشروط ہیں۔ قرآنی علوم کی ضیاء پاشیوں سے ہی انسان تسخیر کائنات کی مہم جوئی میں مصرو ف ہے جو باتیں آج ہمیں سائنسی کمالات کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں، وہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہادی کائنات محسن انسانیت ﷺکی زبان اطہر نے بصورت قرآن مجید بیان فرما دیئے۔
اسلام میں علم اور اہل علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور حصول علم پر بہت زور دیا گیا ہے ا س میں دینی و دنیاوی دونوں علوم شامل ہیں، بعض حضرات دینی و دنیوی علوم میں تفریق کرتے ہیں حالانکہ اسلام جہاں دین سیکھنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں تسخیر کائنات کی بھی دعوت فکر دیتاہے۔
وہی علم نافع ہے جو معرفت ربانی سے ہمکنار کر دے اور وہ صرف قرآن و سنت کا ہی علم ہے بصورت دیگر دنیاوی علوم و فنون محض دنیا تک ہی محدود ہیں اگرچہ سائنسی علوم کی ترقی بھی معرفت الٰہی کا پتہ دیتی ہیں تاہم دینی علوم یااسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ماہرین سائنس دان وغیرہ یا انسانیت کا بہت بڑا طبقہ ان ایجادات کو ذاتی کمالات جان کرپھولے نہیں سماتا اور رب کائنات کی صفت خالقیت پر غور نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ حقیقت کو نہیں پاتا بلکہ مادیت کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
اسلام میں جس قدر زور حصول علم پر دیا گیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیونکہ علم کے بغیر انسان اپنے رب کو بھی نہیں پہنچا سکتا۔ دین نام ہی علم کا ہے۔ مختلف انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے بعض خصوصی علوم عطا فرمائے جن میں وہ دیگر انبیاء و رسل سے ممتاز تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو علم معرفت عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا تھا جس کے سبب و ہ بادشاہ اور تخت و تاج کے مالک بنے۔ جبکہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تو تمام علوم اور کمالات سے سرفرا زفرمائے گئے تھے۔ جیسا کہ فارسی کے شاعر نے کہا؎
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدنا یوسف علیہ السلام کو اللہ نے حسن عطا فرمایا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے یا ان کی پیدائش خود معجزہ بنا کرکی گئی، اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جب وہ اپنا ہاتھ بغل سے نکالتے تو وہ چمک رہاہوتا ۔ یہ سب کمالات جو تمام انبیاء رسل میں فرداً فرداً عطا کئے گئے تھے۔ وہ تمام کے تمام ذات رسالت میں بدرجہ اتم موجودتھے۔سیدنا سلیمان علیہ السلام کو جہاں نبوت و بادشاہت عطا ہوئی ،وہیں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک اور نعمت یہ ملی کہ آپ کو حیوانات کی بول چال کا علم عطا ہوا۔
قرآن مجید و احادیث نبوی میں علم کے حصول اور عمل پربہت زوردیا گیاہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ایک عابد کی سو سال کی بے ریا عبادت سے عالم کی ایک گھڑی صحبت میںرہناافضل واعلیٰ ہے۔ چونکہ عابد کی عبادت اپنے لئے ہے جبکہ عالم کاعلم پورے عالم کو فیض یاب کرتاہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی‘ درماندگی ‘پسماندگی کا سب سے اہم ترین سبب علمی پسماندگی ہی ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ تمام اسلامی ممالک کی تعلیمی حالت انتہائی دگرگوںہے۔ اگر وہ دینی علوم سے بہرہ ور ہیں تو دنیاوی علوم سے نابلد اور اگر دنیاوی علوم کے حصول میں کسی حد کامیاب ہیں تودینی علوم سے یکسر لاتعلق، منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہا اور دنیا بھی حاصل نہ ہو پائی۔ لہٰذا شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو عام اور لازمی قرار دیا جائے اورتمام اسلامی ممالک اس سلسلے میں اجتماعی انقلابی اقدامات اٹھاتے ہوئے دینی و دنیاوی دونوں علوم ��اتھ ساتھ نئی نسل کو منتقل کریں ۔ تحقیق و ریسرچ کے لئے منظم و مربوط کوششیں کی جائیں ،تاکہ ایک قابل ذکر تعداد میں ریسرچ اسکالر پیدا کئے جا سکیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جو دین ابتداء سے ہی اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی تعلیم دیتا ہو وہ امت آج علمی میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ہر طرح سے مادی وسائل سے نوازا ، لیکن ہم معمولی مسائل میں بھی اغیار کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ ہماری زبوں حالی عروج میں تبدیل ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے معاشروں میں علم کو فروغ حاصل ہو اور تحقیق کا جذبہ بیدار ہو۔ دیگر اقوام عالم جو آج ہم پر حاوی ہیں تو علم و ریسرچ کی بدولت ہیں۔ہم بھی اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاکر حصول علم و ریسرچ پر صرف کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ پھر بام عروج پر پہنچ جائے۔
The post حصولِ علم۔۔۔ شرفِ انسانی کا سبب ایک مقدس دینی فریضہ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Mo2CnO via Urdu News
0 notes
shafqathassan333 · 6 years
Photo
Tumblr media
گیارھواں پارہ​ اس پارے میں دو حصے ہیں:​ ۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ ۲۔ سورۂ یونس مکمل (۱) سورۂ توبہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:​ ۱۔ منافقین کی مذمت ۲۔ مومنین کی نو صفات ۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ ۱۔ منافقین کی مذمت: اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے نبی کو خبر دے دی، نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا۔ ۲۔ مومنین کی نو صفات: (۱)توبہ کرنے والے (۲)عبادت کرنے والے (۳)حمد کرنے والے (۴)روزہ رکھنے والے (۵)رکوع کرنے والے (۶)سجدہ کرنے والے (۷)نیک کاموں کا حکم کرنے والے (۸)بری باتوں سے منع کرنے والے (۹)اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ۳۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین مخلص صحابہ: (۱)حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (۲)حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ (۳)حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ ان تینوں سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔ (۲) سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:​ ۱۔ توحید (رازق ، مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللہ ہی ہے۔آیت:۳۱) ۲۔ رسالت (اور اس کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے مذکور ہیں) ۳۔ قیامت (روز قیامت سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱) ۴۔ قرآن کی عظمت (یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱) حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ: حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ: حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے سمندر میں راستے بنادیے۔ حضرت یونس علیہ السلام: انھی کے نام پر اس سورت کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً یونس آیا ہے اور دو جگہ(سورۂ یونس اور سورۂ قلم میں) اللہ نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں: ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔ دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔ قصہ: حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔
0 notes
pakberitatv-blog · 7 years
Photo
Tumblr media
https://goo.gl/QBQ42W
فوزوفلاح‌کا قرآنی تصور
قرآن حکیم نے فوزوفلاح کا واضح تصور پیش کیا ہے اور متعد دمقامات پر کامیاب اورکامران افراد کی صفات بیان کی ہیں،اس کے بیان کے مطابق صرف وہی لوگ کامیا ب ہیں، جن کی اُخروی زندگی کامیاب ہے ، اس میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں ہے ، جوبھی اپنی زندگی قرآن وسنت کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے ،وہ شخص مرادسے ہمکنار ہوجاتا ہے ، آج کی نشست میں صرف ان آیات کو موضوع سخن بناتے ہیں ۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ [23:1] الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ [23:2] وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ [23:3] وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ [23:4] وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ [23:5] ’’یقیناًفلاح پائی ہے، ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں ،لغویات (بے کار ،بے ہودہ باتوں سے ) کنارہ کش رہتے ہیں ،جو زکوٰۃ کو (پابندی کے ساتھ ) اداکرتے رہتے ہیں ،جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں (اور صرف نکاح کا جائز راستہ اختیار کرتے ہیں ) ۔‘‘ آئیے ! ان آیات پر غور کرتے ہیں ۔ 1۔ یقیناًفوز وفلاح سے ہمکنار ہوئے ایمان والے ، ایمان کیا ہے ؟ ایمان کا مادہ (ام ن) ہے ،اَلْاَمْنُ، اصل میں اَمَنْ کا معنٰی نفس کے مطمئن ہونے کے ہیں ،بندہ مومن وہ ہوتاہے جو کائنات کے خالق ومالک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو اپنا رَبِّ واحد دل وجان سے تسلیم کرکے تمام قسم کے شرک سے اپنے آپ کوبری کرلے ، اس پر آپ غورکیجیے ۔ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ [2:256] ’’اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا ، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا ،جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اوراللہ ( جس کا سہارا،اس نے لیا ہے ) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔‘‘ ’’طاغوت ‘‘ کا مادہ (ط غ و) ہے ، طغیاناً کے معنی سرکشی اور بغاوت کرنے کے ہیں اور طاغوت سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہو اورہر وہ چیز جس کی اللہ کے علاوہ پرستش کی جائے ،یہ لفظ مفرد اور جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ،جیسا کہ درج بالا مذکورہ آیت میں استعمال ہواہے ، اسی طرح قرآن حکیم میں دوسری جگہ آتا ہے ۔ وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰی فَبَشِّرْ عِبَادِ [39:17] ’’جن لوگوں نے طاغوت (بتوں ،خواہشاتِ نفس ،شیاطین اورتمام قسم کی سرکشیوں)کی بندگی سے اجتناب کیا اوراللہ (وحدہ لا شریک لہ)کی طرف رخ کر لیاان کے لیے خوش خبری ہے ۔ (فوزوفلاح اوراُخروی کامیابی کی ) حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ مجھے اسلام کے تعلق سے کوئی ایسی بات بتادیجیے ،جس کے بارے میں آپ ﷺ کے علاوہ مجھے کسی اورسے نہ پوچھنا پڑے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ’’کہو !میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر جمے رہو ۔‘‘ اس بات کو قرآن حکیم کی اس آیت سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلآءِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔[41:30] ’’جن لوگوں نے کہاکہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اورپھرا س پر ثابت قد م رہے یقینا(بوقتِ موت) اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور (خوش خبری کا پیغام دیتے ہوئے ) اُن سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو،نہ غم کرو اور خوش ہوجاؤ ، اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہہ کر نہیں رہ گئے اورنہ اس غلطی میں مبتلا ہوئے کہ اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اورساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں ، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کرلینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے ، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا اورنہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے ۔(مختصر حواشی سید مودودی ؒ ) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ قول منقول ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی برابر کرتے رہتے ہیں ، یہی استقامت کلمہ ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اطاعت وعبادت کے لائق ہے ،اُسی سے ڈر ،تعظیم ،امید ،توکل اور دعا کا تعلق قائم کیاجانا چاہیے اوراُس کی نافرمانی دراصل توحید کی مخالفت اور شیطان کی پیروی ہے ، جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰہَہُ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا [25:43] ’’کبھی آپ نے اس شخص کے حال پر غور کیاہے،جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنالیاہو ،کیا آپ ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہیں؟‘‘ قرآن حکیم نے ایسے لوگوں کی حیثیت کو واشگاف الفاظ میں واضح کردیا ہے ۔ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا [25:44] ’’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان میں اکثرلوگ سنتے اور سمجھتے ہیں ،یہ توجانوروں کی طرح ہیں (نہیں نہیں) بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے ہیں‘‘۔ سیدنا حسنؓ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے ،جو ہرخواہش کے پیچھے بھاگے اوریہ توحید پر استقامت کی ضد ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پرایمان میں نیک اعمال بھی شامل ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَکَ وَ لَا تَطْغَوْا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔[11:112] ’’پس اے نبی ﷺ!آپ اور آپ کے ساتھ جو (کفر وبغاوت سے ایما ن واطاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں ،ٹھیک ٹھیک راہِ راست پر ثابت قدم رہیں ۔(ایمان وعمل کی راہ اختیار کریں) اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کریں اورجوکچھ تم لوگ کر رہے ہو ، اُس پر تمھارا رب نگاہ رکھتا ہے ۔ استقامت کیا ہے ؟ استقامت نام ہے سیدھے راستے پرچلتے رہنے کا ،دائیں بائیں جھکنے کا نہیں ، ایمان پر استقامت میں تمام ظاہری وباطنی اطاعتیں اورممنوعات سے پرہیز شامل ہے ۔اس طرح یہ نصیحت پورے دین کا احاطہ کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر توجہ دیجیے : فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ [41:6] ’’ لہٰذا، آپ اُس (رب) کا رخ اختیار کیجیے اورا س سے معافی طلب کرتے رہیے ۔‘‘ اس آیت میں یہ اشارہ ملتاہے کہ جس استقامت کا حکم دیا گیا ہے ، اس میں کوتاہی بھی ضرور ہوگی ، اس لیے توبہ واستغفار کرکے ،پھراسی رب کریم کے راستے کی طرف لوٹنا ہے ۔
0 notes
shuaybganatra · 7 years
Text
سوال: نماز میں قرآن مجید کی تلاوت عربی زبان ہی میں کیوں لازم کی گئی ہے؟ کیا اس کا ترجمہ تلاوت نہیں کیا جا سکتا؟ جبکہ عربی میں تلاوت سمجھ بھی نہیں آتی. اور قرآن عربی میں ہی کیوں اتارا گیا ہماری زبانوں میں کیوں نہیں؟
جواب: جی یقیناً نماز کے لازم اذکار عربی زبان ہی میں ادا ہوتے ہیں.جن کے ترجمہ کی تلاوت نہیں ہو سکتی .یہی سنت حضور نے جاری فرمائی ہے.
جس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ مراکش سے انڈونیشیا اور امریکہ سے پاکستان تک پھیلے مسلمان، جب بھی کسی جگہ نماز ادا کرنا چاہتے ہیں تو ایک افریقی اور ایک افغانی ایک ساتھ کھڑے ایک مشترک آفاقی زبان میں خدا کی عبادت کرسکتے ہیں .اس سے خدا پرستوں میں عالمگیر فکری وحدت کا احساس جنم لیتا ہے
اگر ہر جگہ علاقائی زبان ہی میں عبادت رائج ہوتی تو غور کریں آپ ملیشیا جاتے, نماز میں کھڑے ہوتے، اور ان کی زبان میں نماز ہو رہی ہوتی, تو نہ آپ کے اور ان کے درمیان کوئی تحاد و تحابب کا جذبے نظر آتا نہ ہی کوئی مذہبی انسیت قائم ہوتی.اور نہ ہی کوئی مشترک فکری احساس باقی رہتا.
یہ ایسے ہی ہے جیسے مختلف قومیتوں کے لوگ ایک ہی طرح کا احرام پہن کر، وقتی طور پر اپنی ثقافت و جامہ زیبی ترک کر کے مشترک لباس میں خدا کے سامنے اجتماعی تو پر جھک جاتے ہیں. اس شعور کے ساتھ کہ ہماری اصل شناخت توحید ہے.
یہ احساس کتنا مبارک ہے کہ ہم دنیا میں کہیں بھی جائیں، مسجد میں جا کر خدا کی عبادت سب لوگوں کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں.
یہ نماز کے لازم کے اذکار میں ہے، البتہ جب آپ نماز کے اندر دعا کرتے ہیں تو جس چاہے زبان میں کیجیے، اس میں کوئی دقت نہیں, اس لیے کہ اب آپ دل میں خدا سے ہم کلام ہیں. اور وہ آپ ہی کی زبان میں ہونا چاہیے.
دوسری چیز جہاں تک سمھجنے کی ہے, تو یہ بڑی محمود بات ہے کہ کوئی بھی چیز پڑھی جائے اور آپ اسے سمجھیں لیکن نماز میں قرآن مجید سمھجنا مقصود ہی نہیں، وہاں تو اصل میں اس دعا کہ بعد کہ یا اللہ ہمیں ہدایت کا راستہ دکھا، علامتی طور پر قرآن کی کچھ آیات پڑھی جاتی ہیں.
سمھجنے کے لیے ترجمہ موجود ہے، نماز ختم کر کے اپنی اپنی زبان میں عام آدمی غور و فکر کرے. قرآن سمھجنے کے لیے زبان رکاوٹ نہیں.
آخری بات یہ کہ عربی ہی میں کیوں اترا قرآن! کسی اور زبان میں کیوں نہیں تو اس کی وجہ ہے کہ اس کتاب کے اولین مخاطب عرب اور بنی اسماعیل تھے. وہاں خدا نے آخری پیغمبر بھیجا.
ان کا یہ پیغام ہم تک پہنچا تو ہم نے اسے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے سمجھ لیا.اب چونکہ خدا کے کوئی پیغمبر نھیں آنے لہذا آخری پیغمبر ہی کی بات موجود ہے جسے ہم بآسانی اپنی زبانوں میں سمجھ سکتے ہیں.
- محمد حسن
المورد شعبہ تعلیم و تحقیق
0 notes
Photo
Tumblr media
پاکستان کا انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ۔ سعودی ڈپلومیسی کے مقاصد کے لئے کیسے فائدہ مند ہے ؟ چوتھا حصّہ – مستجاب حیدر نجم اپنے بیان میں کہتی ہے کہ "اسے لگتا تھا کہ وہ محبت باری تعالی کی گہرائی کو پاگئی ہے۔میرا خیال تھا کہ جو لوگ مذہبی ہوجاتے ہیں ان کی زندگی ڈرامائی طور پہ بدل جاتی ہے اور وہ ایک مختلف رویہ زندگی بارے اختیار کرلیتے ہیں۔میں کسی ایسی ہستی کی تلاش میں تھی جو مجھے سمجھ سکے اور مجھے ایک سپورٹ سسٹم دے سکے۔میں نے اس خیال کو بہت پسند کیا کہ ہمیں براہ راست قرآن سے جڑ جانا چاہیے۔میں اگر متن قرآن پڑھ سکوں گی تو اسے سمجھ سکوں گی اور اسلام جیسے چاہتا ہے ویسے اصلاح پاسکوں گی"۔ نوٹ: اکثر سلفی،جماعت اسلامی،اخوان المسلمون اور دیگر اسلام ازم کے دانشور اور اسکالر قرآن و سنت سے براہ راست وابستگی کا درس دیتے ہیں اور نہایت چالاکی سے اپنی وہابی اصول تفسیر و اصول ہائے احادیث کو بنیاد بناتے ہوئے وہابی تعبیر قرآن و سنت کو عین قرآن اور عین منشائے خداوندی قرار دے ڈالتے ہیں اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ تعبیر اور متن دونوں کو ایک قرار دیکر اپنے پڑھنے والوں اور اپنے سے وابستہ ہونے والوں کو سلفی ازم کی طرف بلاتے ہیں اور انتہائی قدامت پرستانہ فکر و عمل سے جوڑ لیتے ہیں۔مثال کے طور پہ توحید کی تعبیر ان کے ہاں جمہور مسلم علماء و مشاہیر کی تعبیرات سے الگ ہوگی لیکن وہ آیات توحید کے متن کے نام پہ اپنی تعبیر کو منشاء رب العزت قرار دینے پہ اصرار کریں گے۔ عائشہ سلیم بھی الھدیٰ کی جانب مائل ہونے کی ایسی ہی مماثل وجہ بتاتی ہیں،" میں سترہ سال کی تھی اور گھر والوں سے ناراض ،بوریت کا شکار بہت زیادہ بیزار تھی گھر میں اسلام کی بہت ہی زیاد جامد تشریح سے ،جب تاشفین ملک جو کہ ایک پاکستانی خاتون اپنے امریکہ میں جنمے شوہر سید فاروق کے ساتھ خودکار ہتھیاروں کے دسمبر 2015ء میں سان برنارڈینو کیلےفورنیا میں ایک مقامی کلب میں ہونے والی پارٹی میں گئی اور 14 افراد کو مار ڈالا تو مجھے سمجھ آیا کہ اس میں اور مجھ میں کافی کچھ مشترکہ تھا۔تاشفین نے ملتان شہر کے اندر الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ کی کلاسیں اٹینڈ کیں اور پھر وہ امریکہ آگئی"۔ الھدیٰ کے مذہبی خیالات بشمول ثقافتی اظہارات کو مسترد کرنا جیسے رقص،موسیقی اور ٹیلی ویژن کو رد کرنا یہ پاکستانی ثقافت کی حقیقت کے بالکل خلاف ہیں اور ایک طالبہ کو کیسے شادی بیاہ کی تقریبات میں اس سے روکا جاسکتا ہے تو جب روکا جائے گا تو اس سے مشکلات تو پیدا ہوں گی۔ الھدیٰ کی ایک ��ور طالبہ کہتی ہے،" میری اپنے آپ سے لڑائی شروع ہوگئی تھی۔میں تو مہندی کی تقریب میں سب سے پہلے اٹھتی اور ڈانس وغیرہ کرتی تھی۔میں ایسی تھی تو چھوڑیں اس بات کو ،ابتداء میں یہ بہت مشکل تھا۔بہت ہی زیادہ مشکل۔میں نے اپنے بھائی کی شادی پہ دل کھول کر رقص کیا تھا لیکن یہ پہلے کی بات تھی۔۔لیکن برقعے نے میری مدد کی۔کیونکہ اگر آپ برقعے میں ہیں تو اس حالت میں رقص کرنا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے اور کوئی آپ سے اس کی توقع بھی نہیں کرتا"۔ الھدیٰ کے طلباء ٹی وی ، فلمیں دیکھنے سے رک جاتے ہیں اور موسیقی سننا بند کردیتے ہیں۔اور یہاں گھمبیرتا یہ ہے کہ اس کی موبائل فون کی رنگ ٹون میوزیکل ہے اور یہ ایک مذہبی گیت ہے۔ عائشہ سلیم کہتی ہیں، " میں میوزک سے بہت پیار کرتی تھی،بہت زیادہ اس قدر کہ اونچی آواز میں کار میں میوزک سنتی مگر ڈرائیور کو اسے کم کرنا پڑتا تاکہ وہ ٹریفک پہ توجہ کرسکے تو میں اس سے لڑنے لگتی تھی۔لیکن قرآن اور موسیقی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔دونوں کا جوہر الگ الگ ہے۔تو جسے میں قرآن و سنت سے ثابت سمجھوں تو وہ کرنا ٹھیک ہے اور اس بارے میں کوئی سوال نہیں۔جہاں تک چہلم یا تیجے وغیرہ کا تعلق ہے یا عید میلاد وغیرہ کا تو یہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہیں تو یہ بدعت ہیں۔۔ میری جب شادی طے ہوئی تو ایسے ایشوز آئے، میں نے کوئی تصویر نہیں کھنچوائی اور سالگرہ وغیرہ کے ایشوز آتے ہیں تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سالگرہ نہیں منائی تو ہم کیوں منائیں۔ہمارے لئے جنم دن یہ پیغام لیکر آتا ہے کہ ہم موت کے اور قریب ہوگئے ہیں۔اور آخرت کے قریب ہوگئے ہیں جس کے لئے ہمیں تیاری کرنا ہے۔تو ہم کیسے اس دن کی خوشی منا سکتے ہیں؟ اور کس لئے منائیں کیا موت کے ایک اور دن قریب آنے کی؟"۔ پاکستانی انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کا ایک بلاگر کہتا ہے کہ الھدیٰ جانے والی طالبات کا ادارے میں جیسے داخلہ ہوتا ہے ان کی زندگیوں میں بہت بدلاؤ آتا ہے اور وہ اپنے پہلے دوستوں کا حلقہ بدل ڈالتے ہیں اور ان کی ساری زندگی بدلاؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔اور وہ ایسے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جو ان کی نظر میں لبرل اور ماڈریٹ ہوتے ہیں۔یہی کچھ تاشفین ملک کے کیس میں ہوا جو کہ الھدیٰ میں پڑھی اور پھر سان برنارڈینو کیلی فورنیا میں وہ جہادی بن گئی۔تاشفین کی بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کی دوست کہتی ہیں کہ اس نے ملتان میں الھدیٰ کی کلاسوں میں جانا شروع کردیا تھا۔ مشرف زیدی اسلام آباد میں رہنے والے ایک کالم نگار ہیں جن کی اسپیشلائزیشن/تخصص ایسے ہی ایشوز سے ہے جن پہ ہم بات کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تاشفین اس وقت ریڈیکل خیالات کی طرف گئی جب وہ پاکستان میں پڑھ رہی تھی کیونکہ وہ اس فکر و خیال سے متعارف ہوئی جو ایسے ادارے اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں انڈیلتے ہیں۔ان کو لوگوں کو ان کی جدیدیت سے الگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ ٹی وی غلط ہے،میکڈونلڈ سے کھانا غلط ہے،غیر محرم مردوں سے ملنا جلنا غلط ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔ ایسے غیر انسانی پن کی جانب لے جانا آسان ہوجاتا ہے، اگر آپ کسی کو وہاں لے جاتے ہو تو مطلب یہ ہے کہ آپ نے اسے کسی پہاڑ کی چوٹی پہ چڑھا دیا ہے جہاں سے گرنے کے چانس بہت زیادہ ہیں۔ تاشفین ملک کے خاندان کی تاریخ ہاشمی کے ادارے کی سعودی انتہائی قدامت پرستی کی جانب جھکاؤ کے ثبوت کے طور پہ ان کے نقاد پیش کرتے ہیں۔تاشفین ملک شیر خوار تھی جب اس کا خاندان سعودی عرب چلا گیا اور دو عشرے بعد جب آیا تو وہ صوفی اور بریلوی مسلمانوں والی رسوم و رواج ترک کرچکا تھا اور اس حوالے سے سختی برتنے لگا تھا جیسے مزارات کی زیارت وغیرہ اور اس پہ اس خاندان کے دوسرے رشتہ داروں اور برادری کے لوگوں سے تعلقات نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔تاشفین نے 2007ء میں ملتان میں فارمولوجی میں داخلہ لیا۔بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر سید ناصر حسین شاہ سے تاشفین تعلیم میں تعاون مانگا کرتی تھی۔ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ ان کے پاس آئی اور کہا کہ اس کے والدین سعودی عرب میں ہیں اور وہ اپنی روم میٹس کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرپارہی تو کیا وہ اس سلسلے میں اس کی مدد کرسکیں گے؟ وہ یونیورسٹی کے لبرل ماحول میں خود کو کمفرٹ ایبل محسوس نہیں کررہی تھی۔ عابدہ رانی جو کہ تاشفین ملک کی یونیورسٹی میں گہری دوست تھی کا کہنا ہے کہ تاشفین ملک میں بہت زیادہ بدلاؤ 2009ء میں اس وقت آیا جب وہ قریب قریب روز یونیورسٹی سے الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ کلاس لینے جانے لگی،تاشفین نے فارمولوجی سے زیادہ الھدیٰ کی پڑھائی پہ فوکس کرنا شروع کردیا۔ہم سب حیران تھے کہ تاشفین کو کیا ہوگیا ہے؟وہ بہت زیادہ مذہبی، بہت زیادہ سنجیدہ اور بہت زیادہ مذہبی تعلیم پہ فوکس دینے لگی تھی۔یونیورسٹی کی پڑھائی میں اس کا دھیان نہیں تھا۔اس نے پاکستانی اسلامی ٹی وی چینلز زیادہ دیکھنے شروع کردئے اور گریجویشن کے بعد اس نے گروپ فوٹو ميں حصہ نہ لیا اور یونیورسٹی کے ڈیٹا بیس سے اپنی فوٹو ہٹانے کی کوشش بھی کی۔اس نے اپنے یونیورسٹی شناختی کارڈ اور لائبریری کارڈ اکٹھے کئے اور ان کو تباہ کردیا۔عابدہ رانی کو تاشفین نے بتایا کہ وہ حجاب کے بغیر اپنی ایک تصویر بھی باقی رہنے دینا نہیں چاہتی۔ تاشفین ملک نے یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ کی ملتان شاخ میں فل ٹائم داخلہ لے لیا اور وہاں 18 ماہ گزارے۔وہاں داخلے کے بعد تاشفین ملک نے سعودی برقعہ پہننا شروع کردیا اور اس نے مردوں سے بالکل دور رہنے کا طریقہ اپنایا۔اور زیادہ وقت وہ مذہبی کتب کے مطالعے میں صرف کرتی۔سعودی عرب میں جب وہ اسکول میں تھی تو ساتھی لڑکیوں کو وہ اچھا مسلمان بننے پہ بہت زیادہ زور دینے والی لڑکی خیال کی جاتی تھی۔ تاشفین اگرچہ پبلک زندگی میں بہت لئے دئے رہتی لیکن آن لائن اس کی موجودگی بہت زیادہ تھی۔اس کی ہمدردیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے فیس بک پہ ایک پیج بنایا جس کا نام تھا" لڑکی ذات" جس پہ وہ ایسے مسلمانوں پہ افسوس کرتی جو کوکونٹ مسلمان ہیں اور غیرت مند عسکریت پسندی ان میں نہیں ہے۔امریکی فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک اہلکار نے فیس بک پہ اس کے دو پرائیویٹ میسج دیکھے جو پاکستانی دوستوں کو بھیجے گئے جن میں اس نے داعش و القاعدہ جیسی تنظیموں کے جہاد کی حمایت کی اور خود بھی اس کا حصّہ بننے کا عزم ظاہر کیا۔امریکی حکام کو یقین ہے کہ اس کا یہ رویہ الھدیٰ فاؤنڈیشن میں تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا۔ تاشفین کو اپنے جیسا آدمی اس وقت ملا جب اس نے ویب سائٹ بیسٹ مسلم ڈاٹ کوم پہ پاکستانی نژاد امریکی ہیلتھ انسپکڑ سید رضوان فاروق کا اشتہار برائے تلاش رشتہ دیکھا: "میں اپنا زیادہ وقت مسجد میں قرآن پڑھنے میں گزارتا ہوں۔میں ایک نیک باعمل مسلمان خاتون جو کہ راسخ العقیدہ سنّی سلف صالح کے طریقہ پہ عمل پیرا ہو کا رشتہ تلاش کررہا ہوں۔جو خاتون اپنے مذہب کو سنجیدگی سے لیتی ہو اور ہمہ وقت اپنی اور دوسروں کی اصلاح احوال ميں غلطاں ہو اور حکمت سے اسے دوسروں کو اپنانے نہ کہ سختی سے یہ سب کرنے ميں مصروف کو تلاش کررہا ہوں" تاشفین نے سختی سے اپنی نئی زندگی پہ عمل کیا، وہ کالے رنگ کا سعودی برقعہ استعمال کرتی،اپنے گھر جو کیلی فورنیا کے نیم شہری علاقے میں تھا سے اکیلی باہر نہیں آتی تھی اور جب اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی تو کار سے باہر نہیں آتی تھی۔کیلی فورنیا ریور سائیڈ مسجد کے جس امام نے دونوں کا نکاح پڑھایا اس کا کہنا ہے کہ فاروق کے رشتے داروں نے بھی کبھی نہ اسے دیکھا اور نہ اس کی آواز سنی تھی۔ خالد احمد جو کہ پاکستانی سیاست کے نمایاں تجزیہ کار ہیں کا مشاہدہ یہ ہے کہ کوئی الٹرا کنزرویٹو کب دہشت گرد بنتا ہے اس کا سراغ اس کے تعلیمی،سمابی اور ثقافتی اداروں سے نہیں مل پاتا بلکہ یہ دراصل کٹ کر رہ جانے کا عمل ہے جو دہشت گردی کے راستوں کی جانب لیکر جاتا ہے۔خودکش حملہ آور نصاب سے نہیں بنتے بلکہ معاشرے سے کاٹ کے ان کو رکھے جانے کا عمل خودکش بناتا ہے۔جو کوئی معاشرے سے کٹ کر اس کے رسوم و رواج اور معیارات کو رد کرکے الگ تھلگ ہوتا ہے اس کے دہشت گردی کی جانب سفر کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اور اقامتی مدرسے یہی کرتے ہیں۔اسلام آباد میں عورتوں کے بہت سے مدرسے اور دروس کے حلقے یہی کرنے میں مصروف ہیں۔ خالد احمد بھی الھدیٰ کی پاکستانی امراء کی عورتوں میں اثر ورسوخ کا حوالہ دیتے ہیں، " میں الھدیٰ کو مذہبی مدرسوں کی فورتھ جنریشن کہتا ہوں۔یہ دہشت گردی کو فروغ نہیں دیتے مگر سرخ لکیر کے نزدیک آپ کو لے جاتے ہیں۔اور اب آپ کا ذاتی فیصلہ ہے کہ آپ ریڈ لائن کراس کرکے کسی کی جان لیتے ہیں یا نہیں؟"۔ دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خیال میں بھی الھدیٰ انسٹی ٹیوٹ عورتوں میں جنون کی آگ بھڑکادیتا ہے۔ان کی الھدیٰ کی ایک فاضل عالیہ سے بات چیت ہوئی جس نے ان کو بتایا کہ ایک طر‌ف اس ادارے میں مسلم دنیا کے اندر ہونے والے مسلمانوں پہ ظلم کے بارے میں بتاکر جذبات کو جوش دلایا جاتا ہے تو ساتھ ہی باطنی زندگی کوبہتر بنانے کے لئے انتہا پسندانہ مذہبی نکتہ نظر کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنے کا درس دیا جاتا ہے اور آخری مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہوتا ہے۔عالیہ سلیم نے عائشہ صدیقہ کو بتایا کہ جو آگ تاشفین کے سینے میں تھی وہی آگ اس کے سینے میں بھی سلگ رہی ہے۔ عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے الھدیٰ کی طالبہ شمائلہ غیاث نے بتایا،" اس کے سب شاگرد جن کے بارے آپ کا خیال ہوگا کہ وہ خدا کے قریب ائے ہوں گے اور زیادہ تحمل و امن والے بن گئے ہوں لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔وہ زیادہ عدم برداشت والے ، زیادہ فتوے باز اور زیادہ متکبر و انانیت پسند ہوجاتے ہیں۔اس بات کا ثبوت بھی ملے کہ الھدیٰ نے تاشفین کا برین واش کیا لیکن اس بات کا ثبوت ضرور ملتا ہے کہ الھدیٰ اپنے طلباء میں مذہبی جنونیت کو فروغ دیتا ہے۔اور انتہائی قدامت پرستی کو لیکر آتا ہے۔اور ذرا سا ٹھیک وقت پہ دھکا اس کے شاگردوں کو بے رحم قاتل میں بدل سکتا ہے اور اس کا مقصد جنت کا حصول ہوگا"۔
0 notes