Tumgik
#لاہور ایئرپورٹ
urduchronicle · 9 months
Text
لاہور ایئرپورٹ پر دھند کی وجہ سے کئی پروازیں منسوخ اور تاخیر کا شکار
لاہور ائرپورٹ پر دھند کے باعث اندرون اور بیرون ملک پروازوں کا شیڈول متاثر ہوا ہے۔ دھند کے باعث لاہور سے الماتے جانے والی پرواز ڈی وی 850 منسوخ کر دی گئی ہے۔ پی آئی اے کی ابوظہبی جانے والی پرواز پی کے 263 ڈھائی گھنٹے تاخیر کا شکار ہے، پی آئی اے کی لاہور سے مسقط جانے والی پرواز پی کے 291 پانچ گھنٹے تاخیر کا شکار ہے۔ پی آئی اے کی لاہور سے دبئی جانے والی پرواز پی کے 283 ساڑھے تین گھنٹے تاخیر کا شکار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 months
Text
لاہور ایئرپورٹ کو روزانہ 3 گھنٹے کے لئے بند رکھنے کا فیصلہ
لاہور ایئرپورٹ کو روزانہ 3 گھنٹے کے لئے بند رکھنے کا فیصلہ کرلیاگیا۔ ترجمان کے مطابق علامہ اقبال انٹر نیشنل ایئرپورٹ کو کو بند کرنے کا اقدام مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے اُٹھایا گیا ہے۔یہ عمل ہرسال مون سون کے موسم کے دوران کیا جاتا  ہے۔ مون سون سیزن کے دوران ایئرپورٹ کے اطراف پرندوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے انتظامیہ نے لاہور ایئرپورٹ کو روزانہ 3 گھنٹے کیلئے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
’لگتا ہے نواز شریف نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘
Tumblr media
اسے شطرنج کا کھیل کہیں یا میوزیکل چیئر، طویل عرصے سے ملک کے سیاسی اسٹیج پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں شطرنج کے پیادے اور کرسی پر قبضہ کرنے والے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد نواز شریف کی واپسی بھی ایک منصوبے کا حصہ لگتی ہے۔ یہ یقینی طور پر اختلاف کرنے والے اس سیاست دان کی وطن واپسی نہیں تھی جنہیں عدالت نے اس وعدے پر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی کہ وہ اپنی سزا پوری کرنے کے لیے ملک واپس آئیں گے۔ اب وہ چار سال بعد وی وی آئی پی پروٹوکول میں واپس آئے ہیں اور یہ امر پاکستانی سیاست میں آنے والے بدلاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مفرور قرار دیے گئے نواز شریف کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی عدالت نے ضمانت دے دی تھی۔ انتخابات سے پہلے ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان کا چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننا یقینی ہے۔ جیسا کہ خیال کیا جارہا تھا لاہور میں مینار پاکستان پر ان کی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی نہیں تھی۔ اس میں ان ذاتی غموں کا ذکر تھا جن سے وہ دوران حراست گزرے تھے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا کوئی تذکرہ نہیں تھا لیکن تب تک جب تک کہ وہ مقتدر حلقوں کے منظور نظر ہوں۔
صوبے بھر سے آنے والے عوام کے لحاظ سے یہ واقعی ایک متاثر کن جلسہ تھا، لیکن بڑے پیمانے پر جوش و خروش نظر نہ آیا۔ یہ ویسا استقبال نہیں تھا جیسا عام طور پر مقبول لیڈروں کا کیا جاتا ہے۔ نواز شریف ایک ایسے ملک میں واپس آئے ہیں جو پچھلے کچھ سالوں میں بدل گیا ہے۔ اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت کے قیام کے بعد، جس میں ان کے بھائی وزیر اعظم تھے، نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ یہ عمران خان کی ہائبرڈ حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ پاکستانی سیاست میں آنے والی ایک ڈرامائی تبدیلی تھی۔ اس نے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کے ایک نئے انتظام میں اکٹھا کیا۔ نواز شریف نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے اور وزارت عظمیٰ کے لیے کوششیں کرنے سے پہلے تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مزید 18 ماہ انتظار کیا۔ پاکستان سیاست میں اس بدلتی صف بندی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ عمران خان کے زوال نے ہائبرڈ حکمرانی کا ایک اور دور شروع کیا جس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی کے طور پر مسلم لیگ (ن) کی واپسی ہوئی۔ 
Tumblr media
شہباز شریف جب وزیراعظم تھے تو بڑے بھائی ہی تھے جو لندن سے حکومت کرتے تھے۔ ہر اہم پالیسی فیصلے کے لیے بڑے بھائی کی منظوری درکار ہوتی تھی۔ ان کا قریبی ساتھی اور خاندان کا ایک فرد بھی ملک کے معاشی زار کے طور پر واپس آیا تھا۔ حالات جس طرح تبدیل ہوئے ہیں اس کے بعد اب پی ٹی آئی اور اس کی قیادت زیر عتاب ہے۔ اپوزیشن کے خلاف ایسے بے رحمانہ کریک ڈاؤن کی ملک کی سیاسی تاریخ میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں۔ اب عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور انہیں بغاوت سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے جو انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی حراستیں ملک کی سب سے زیاہ مقبول جماعت، جو کہ مسلم لیگ (ن) کی اصل حریف بھی ہے، کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے خاتمے کو مسلم لیگ (ن) کی آشیرباد حاصل ہے، لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ نواز شریف کی تقریر میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ان کی واپسی کے فوراً بعد خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کر دی۔ ان کے طاقتور ترین مخالف کو انتخابی منظر سے ہٹانے نے نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کا راستہ صاف کر دیا ہے۔
نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور انہیں کبھی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد قبول کرنے پر خوش ہیں۔ قبل از انتخابات جوڑ توڑ مسلم لیگ (ن) کو کھلا میدان فراہم کرسکتی ہے لیکن اس طرح جمہوری عمل مزید کمزور اور غیر منتخب قوتیں مضبوط ہوں گی۔ ان سازگار حالات کے باوجود نواز شریف کو اب بھی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ انہیں چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ جب تک ان کی سزا برقرار ہے انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے بارے میں کچھ قانونی خدشات رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے ان کی سزا کے بارے میں نظرثانی کی درخواست کا دروازہ بھی بند کر دیا ہے۔ یعنی نواز شریف کو ابھی ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہے۔ نواز شریف کی واپسی سے یقیناً پارٹی میں اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی حمایت اور انتخابی منظر نامے سے پی ٹی آئی کے منصوبہ بند خاتمے کے باوجود بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی ماحول میں عوامی حمایت حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ 
نگران سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنے کے لیے اگست میں اقتدار چھوڑنے والی مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کی خراب کارکردگی سے یہ امکان اور بھی کم ہوتا نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو نئے آئیڈیاز یا ٹھوس پروگرام سے اپنی سابقہ ​​سیاسی قوت حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور اس کے بغیر انتخابات میں جانا مشکل ہو گا۔ اپنی واپسی پر نواز شریف کی تقریر بیان بازی سے بھرپور تھی، جس میں ان کی سابقہ ​​حکومت کی کارکردگی کو سراہا گیا، جس پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔ مزید یہ کہ وہ خود کو اور اپنی پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کی ناکام پالیسیوں سے الگ نہیں کر سکتے جو مالیاتی اور اقتصادی بحرانوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا سبب بنیں۔ یہ بات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارٹی کو ملک کے تیز سیاسی اور سماجی تغیرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پارٹی پر شریف خاندان کی بڑھتی ہوئی گرفت بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بنیاد کو وسیع کرنے میں ایک رکاوٹ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس چیز کا ادراک نہیں کہ نوجوان نسل اور شہری متوسط ​​طبقہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ نواز شریف کی تقریر نے بھی کس قسم کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ پارٹی مشکوک انتخابات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں تو آسکتی ہے۔ لیکن اس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔
زاہد حسین  یہ مضمون 25 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
pakistantime · 11 months
Text
نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان
Tumblr media
میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔
کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا
انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں
ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔
Tumblr media
گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔
نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالیس روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔
ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ کہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ڈیوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔
میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 11 months
Text
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے خاتمے کے قریب
Tumblr media
حکومت پاکستان نے قرض کے بوجھ تلے دبے قومی ایئرلائن، پی آئی اے، کی نجکاری کے منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ملازمین کو اپنی ملازمتوں اور پنشن کے متعلق تشویش لاحق ہے اور وہ حکومت کے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) مالی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے حکومت اسے نجی ہاتھوں میں سونپنے اور ایئرپورٹ آپریشنز کی آوٹ سورسنگ کا منصوبہ بنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ اقتصادی مسائل کے درمیان، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے جون میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالرکا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایئر لائن ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی نجکاری پر غور کیا جارہا ہے اور اس کی نجکاری جلد ہی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی ایئرلائن کو اس وقت اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس وقت اس ایئرلائن میں تقریباً 11 ہزار ملازمین ہیں۔ پی آئی اے سے گزشتہ سال ریٹائرڈ ہونے والی ایک ملازمہ روبینہ خان نے ڈی ڈبلیو سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ کہیں ان کی پنشن نہ رک جائے اور دیگر ملازمین، جنہیں ملازمت سے فارغ کیا جاسکتا ہے، ان کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جائیں گے۔ ایک دیگر سبکدوش ملازم جاوید اختر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ پہلے ہی بے روزگار ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری سے مزید افراد کی ملازمت چھن جائے گی۔ انہوں نے کہا، "فطری طورپر ملازمین اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ سخت معاشی حالات کے درمیان ملازمت کے بغیر اپنے کنبے کا پیٹ کیسے پالیں گے۔" ایئر لائن کے انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی آئی اے کے ایگزیکیوٹیو کو بھاری بھرکم تنخواہیں ملتی تھیں اور انہیں "بڑی مراعات اور دیگر نوازشات سے" بھی نوازا جاتا تھا اور اب دیگر ملازمین کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
Tumblr media
پی آئی اے کا عروج و زوال نجی سرمایہ کاروں کے ذریعہ اورینٹ ایئر کے نام سے شروع کی گئی ایئرلائن کو سن 1950 کی دہائی میں حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) رکھا گیا۔ دھیرے دھیرے یہ اس علاقے کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک بن گئی لیکن آج یہ سنگین بحران سے دوچار ہے۔ کمپنی کو کئی سالوں سے مالی مسائل کا سامنا ہے اور متعدد ملازمین کے سبکدوش ہوجانے کے باوجود سن 2017 سے اس میں خاطر خواہ بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ اس وقت اس کے 30 میں سے صرف 19 طیارے آپریشنل ہیں۔ حکومتی تیل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل نے بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب قومی ایئر لائن کو تیل کی سپلائی بند کردینے کی دھمکی دی ہے۔ ایئرلائن کو واجبات کی عدم ادائیگی اور اس کے طیاروں کو ضبط کرنے کی دھمکی کے معاملے پر ملیشیا میں قانونی چارہ جوئی بھی سامنا کرنا پڑا۔ سبکدوش ملازمہ روبینہ خان کا خیال ہے کہ ایگزیکٹیوکی غلط پالیسیاں ایئر لائن کی بتدریج تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اس میں مہنگے نرخوں پر ہوائی جہاز کو پٹے پر لینا بھی شامل ہے۔
ایک ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار اس حوالے سے پی آئی اے کے لیے سری لنکا سے بہت زیادہ قیمت پر دو طیارے حاصل کرنے کی مثال دیتے ہیں۔ سہیل مختار نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ ایک نجی ایئر لائن نے ایک طیارہ 4500 ڈالر فی گھنٹہ کی شرح سے حاصل کیا لیکن پی آئی اے نے وہی طیارہ 7500 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے حاصل کیا۔ "ہمیں اس شرح پر دو طیارے ملے جس کی وجہ سے تقریباً 17 سے 18ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔" انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے نے انتہائی مہنگے انجن بھی خریدے، جن میں بعد میں خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ روبینہ خان کا کہنا تھا کہ کیٹرنگ اور دیکھ بھال کے لیے بیرونی ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرنے سے بھی کافی نقصان ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ، "پی آئی اے کے ذمہ داروں نے اس قومی ایئرلائنز کی مالیات کو نچوڑ کر رکھ دیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ ایگزیکیوٹیوز کی بھاری بھرکم تنخواہیں، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے پی آئی اے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے بھی قومی ایئرلائن کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔ لاہور میں مقیم، ایئرلائنز امور کے ماہر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ سیاسی روابط رکھنے والے نجی ایئرلائنز کے مالکان، جو اپنی ایئر لائنز شروع کرنا چاہتے تھے، کو پی آئی اے میں ایگزیکیوٹیو بنادیا گیا۔ "جس کے نتیجے میں پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیا جب کہ ان کی ذاتی ایئرلائنز منافع بخش بنتی گئیں۔"
پی آئی اے کے ذمہ داروں کا کیا کہنا ہے؟ اسلام آباد میں مقیم ماہر معاشیات شاہد محمود کا کہنا ہے کہ فوجی اور سویلین دونوں ہی حکومتیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے سرکاری اداروں کو من پسند بیوروکریٹس، پارٹی ممبران اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ "اس کے نتیجے میں وہ معیشت کا خون کر رہے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کی نجکاری کی جانی چاہئے۔" پاکستان کے وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد تاہم اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت کا فیصلہ مبینہ مفاد پرست افراد کے مفادات کو فائدہ پہنچانا ہے۔ فواد حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نجکاری کا عمل سختی کے ساتھ قانون کے مطابق کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قدم پر مکمل شفافیت برتی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ڈھانچے اور اثاثوں کی قیمت کا تعین دنیا کے سرفہرست سرمایہ کاری بینک کررہے ہیں۔ فواد حسن کا کہنا تھا کہ "ویلوویشن ایکسپرٹ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کے بعد بولی لگانے کا عمل ہر ایک کے لیے کھلا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "موجودہ معاشی دباو میں حکومت کے لیے اوسطاً دس سے بارہ طیاروں کو آپریشنز پر ہر سال تقریباً 150 ارب روپے کے بھاری خسارے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔" تاہم ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے ملازمین نجکاری کی مزاحمت جاری رکھیں گے اور دیگر افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کارکن عالیہ بخشال نے بتایا کہ ان کی پیپلز ورکرز پارٹی پی آئی اے کے ملازمین کے رابطے میں ہے اور وہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو بھوک اور بھکمری کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اس اقدام کی پوری طاقت سے مخالفت کریں گے۔"
ایس خان، اسلام آباد 
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے بعد وطن واپسی -
پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ میں ویمن ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے بعد پاکستانی وقت کے مطابق آج کیپ ٹاؤن سے دوبئی روانہ ہوگی۔ پاکستان ویمن ٹیم کے آٹھ ممبران جس میں اسپورٹ اسٹاف بھی شامل ہیں، دوبئی سے کراچی 23 فروری کو صبح ساڑھے دس بجے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچیں گے۔  ویمن ٹیم کے باقی 16 ممبران اسپورٹ اسٹاف کے ساتھ دوبئی سے لاہور 23 اور 24 فروری کی درمیانی شب لاہور کے علامہ اقبال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
برطانوی ایئرلائن کا پاکستان کیلئے پروازیں بند کرنے کا اعلان
لندن : برطانوی ائیرلائن نے لندن سے اسلام آباد اور لاہور کے لیے پروازیں بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی ایئر لائن ورجن اٹلانٹک نے کرونا وباء کے دوران 2020ء میں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے اسلام آباد اور لاہور جبکہ مانچسٹر سے اسلام آباد کیلئے پروازیں شروع کی تھیں۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں ورجن اٹلانٹک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم 2023 میں اپنے فضائی پروگرام کو بڑھا رہے ہیں، ہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
لیگی کارکن نے مریم نواز کو ائیر پورٹ پر سونے کا تاج پہنا دیا
ابو ظہبی: مریم نواز کو ابوظہبی ایئرپورٹ پر لیگی کارکن نے سونے کا تاج پہنا دیا۔ رپورٹ کے مطابق لندن سے پاکستان واپس آنے والی مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا ابو ظہبی ائیرپورٹ پر لیگی کارکنان نے شاندار استقبال کیا۔ مریم نواز کو ابوظہبی ایئرپورٹ پر لیگی کارکن کی جانب سے سونے کا تاج بھی پہنایا گیا۔ مریم نواز ابو ظہبی سے روانہ ہو چکی ہیں جبکہ آج ہفتے کے روز سہ پہر 3 بجے لاہور کے علامہ اقبال…
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
وزیر داخلہ نے مریم نواز کی وطن واپسی کا باقاعدہ اعلان کر دیا
مریم نواز (فوٹو فائل)  اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے مریم نواز کی وطن واپسی کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ چیف آرگنائزر مریم نواز 28 جنوری کو وطن واپس پہنچیں گی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ مریم نواز 27 جنوری کو لندن سے دبئی کے لیے روانہ ہوں گی اور 28 جنوری کی شام 5 بجے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
لاہور ایئرپورٹ پر دوحہ جانے والے جوڑے کے سامان سے ڈھائی کلو ہیروئن برآمد
ترجمان کے مطابق اے ایس ایف کے عملے نے دوحہ جانے والے  جوڑے سے 2.490 کلو گرام آئس ہیروئن  برآمد کر لی۔ تفصیلات کے مطابق مسافر آکاش مسیح اور انی آکاش کے سامان کو سکریننگ کے دوران مشکوک قرار دیا گیا۔ سامان کی تلاشی پر مذکورہ ہیروئن کو 1.250 کلو گرام اور 1.250 کلوگرام کے دو الگ الگ پیکٹوں کی صورت میں بیگ کے خفیہ خانوں سے برآمد کر کے اے ایس ایف کے عملے نے پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے منشیات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mubashirnews · 2 years
Text
لاہور میں شدید دھند، بین الاقوامی پروازوں کے حوالے سے بڑا فیصلہ
لاہور میں شدید دھند، بین الاقوامی پروازوں کے حوالے سے بڑا فیصلہ
لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں شدید دھند کے باعث قومی ایئر لائن نے رات 10 سے دن 11 بجے تک کی بین الاقوامی پروازوں کو اسلام آباد منتقل کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دھند اور حد نگاہ کم ہونے کی وجہ سے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی رات 10 سے دن 11 بجے تک کی بین الاقوامی آپریٹ پروازوں کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔ ترجمان پی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کیا نواز شریف فی سبیل اللہ واپس آ رہے ہیں؟
Tumblr media
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو تین بار وزیرِ اعظم اور اندرون ملک جیل میں سڑنے کے بجائے دو بار طویل عرصے کے لیے بیرونِ ملک رہنے والے نواز شریف اکیس اکتوبر کو لاہور میں اتریں گے۔ اس کے بعد یا تو وہ اعلان شدہ پروگرام کے مطابق سیدھے مینارِ پاکستان پر جلسے سے خطاب کر کے گھر یا جیل جائیں گے یا پھر ایئرپورٹ سے براہِ راست جیل جائیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر انہوں نے گیم کے طے شدہ ضوابط کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی اور انہیں ایک بار پھر البرٹ پنٹو کی طرح اچانک غصہ آ گیا اور وہ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی سابق حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے مبینہ کرداروں سابق جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید یا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ پر پہلے کی طرح برس پڑے تو ہو سکتا ہے کہ انصاف ملنے تک جیل میں ہی رہیں۔ حالانکہ مسلم لیگ نون اور نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف اپنی مرضی سے قانون کا سامنا کرنے آ رہے ہیں اور کوئی ڈیل شیل یا سودے بازی نہیں ہوئی۔ مگر نون لیگ کے سابق اتحادی اور پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو ڈیل نہ ہونے یا نواز شریف کو کسی بھی طرح کی پیشگی یقین دہانیاں نہ کروانے کے بیانات پر ہرگز یقین نہیں۔
بقول اسپیکر نواز شریف کو اگرغیر مشروط ہی واپس آ کر مقدمات کا سامنا کرنا تھا تو عمران خان کے دور میں نہ سہی ان کے دور کے خاتمے کے بعد ہی پچھلے ڈیڑھ برس میں برادرِ خورد کی حکومت کے سائے میں واپس چلے آتے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈیل نہ ہوئی ہو مگر پچھلے چالیس برس میں پاکستانی سیاست میں اتنی ثالثیاں اور سودے بازیاں ہوئی ہیں کہ اب ہر چھوٹی بڑی پیش رفت پر شک ہوتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مارچ انیس سو ستتر کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف حزبِ اختلاف کے پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) نے تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ پورا ملک منجمد ہو گیا۔ بیسیوں لوگ مظاہروں میں ہلاک ہوئے۔ دو شہروں میں مارشل لا لگ گیا اور وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فتوی دے دیا کہ دراصل پی این اے امریکی تائید سے ان کا تختہ الٹنا چاہتا ہے اور پی این اے والے بھٹو کے سر سے کم کسی بات پر راضی نہ تھے۔ ایسے موقع پر پاکستان میں سعودی سفیر ریاض الخطیب نے انتھک ثالثی کی اور فریقین کو مذاکرات کے زریعے بحران کا حل نکالنے پر آمادہ کر لیا۔ سمجھوتہ ہو بھی گیا مگر جنرل ضیا الحق نے پانچ جولائی کو پورے نظام کا ٹھیلہ الٹ دیا۔ پاکستانی سیاست میں کھلی غیر ملکی ثالثی کی یہ پہلی مثال تھی۔
Tumblr media
جب بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو اس سے ایک ماہ پہلے ان کے بھائی شہباز شریف نے ہوا کا رخ بھانپ کے واشنگٹن کا دورہ کیا تاکہ امریکیوں پر زور دے سکیں کہ وہ پاکستانی فوجی قیادت کو کسی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لیے اپنا روایتی اثر و رسوخ استعمال کریں۔ مگر تختہ الٹنے سے ثابت ہوا کہ امریکیوں نے بھی بڑے بھائی کو بچانے کے لیے چھوٹے بھائی کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حالانکہ پرویز مشرف نے کارگل میں بطور سپاہ سالار جو گل کھلائے تھے، امریکی اس حرکت پر خوش نہیں تھے۔ مگر مشرف کے اقتدار پر قبضے کے دو برس بعد جب نائن الیون ہو گیا تو مشرف صاحب امریکہ کی آنکھ کا تارہ ہو گئے، جس طرح ایوب خان سرد جنگ میں اڈے دینے پر اور ضیا االحق افغان جنگ میں کودنے پر امریکہ کی آنکھ کا تارہ بنے تھے۔ پرویز مشرف نے چونکہ اقتدار شریف خاندان سے چھینا تھا لہذا ان پر ہائی جیکنگ، بغاوت، کرپشن اور جانے کیا کیا مقدمات لاد دیے گئے۔ مگر پھر ایک چمتکار ہوا۔ سن دو ہزار کے دسمبر کی ایک رات ایک نجی سعودی طیارہ آیا اور نواز شریف کو اٹک کے قلعے سے ایئرپورٹ لایا گیا۔ دیگر اٹھارہ اہلِ خانہ سمیت طیارے میں بٹھایا گیا اور طیارہ جدہ پرواز کر گیا۔
یہ ڈیل شاہ فہد کے زور دینے پر ہوئی۔ اس سودے بازی کے عوض قیدی ( نواز شریف ) نے جیلر ( پرویز مشرف ) کو بطور گواہ سعودی انٹیلی جنس چیف کی تائید سے لکھ کے دیا کہ وہ دس برس تک پاکستان میں قدم نہیں رکھیں گے۔ اس کے بعد دونوں شریفین ( نواز و شہباز ) جدہ کے سرور پیلس میں اگلے سات برس خادمِ حرمین و شریفین کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب اکتوبر دو ہزار سات میں پرویز مشرف کی حکومت عدلیہ بحالی تحریک اور فوج میں اپنے بارے میں بڑھتی ہوئی اکتاہٹ کے سبب کمزور ہو گئی تو نواز شریف موقع غنیمت جان کے پاکستان آ گئے۔ اس بار انہیں سرکار نے چند ماہ پہلے کی طرح ڈنڈہ ڈولی کر کے واپس سعودی عرب نہیں بھیجا بلکہ حکومت کا رویہ کچھ یوں تھا کہ نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے ( انور دہلوی ) جس طرح انیس سو ستتر میں پی این اے کو بھٹو صاحب کے وعدوں پر اعتبار نہیں تھا۔ بالکل اسی طرح دو ہزار سات میں دبئی اور لندن میں خود ساختہ جلاوطن بے نظیر بھٹو کو جنرل پرویز مشرف پر اعتبار نہیں تھا۔ مگر مشرف کو سپاہ سالار کی وردی اترنے کے بعد ہر سابق آمر کی طرح ایک سیاسی صدر بننے کی شدید خواہش تھی۔ نواز شریف سے تو ان کا ٹانکا فٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔ مگر بے نظیر بھٹو سے وہ ایسی سیاسی ڈیل کے خواہش مند تھے، جس میں وہ صدر ہوں اور بے نظیر انتخابات جیت کر وزیرِ اعظم بن جائیں اور مشرف کی بنائی ہوئی مسلم لیگ قاف جونیئر پارٹنر ہو۔
چنانچہ پرویز مشرف نے امریکیوں سے رابطہ کیا اور وزیرِ خارجہ کونڈولیزا رائس نے بالاخر بے نظیر بھٹو کو راضی کر لیا کہ اس وقت پاکستان کو جس خطرناک مذہبی انتہاپسندی سے خطرہ لاحق ہے اس کا تقاضا ہے کہ مشرف اور بے نظیر میں مفاہمت ہو۔ اس کے عوض پرویز مشرف قومی مصالحتی آرڈیننس ( این آر او ) جاری کر��ے پر آمادہ تھے۔ یوں چار اکتوبر کو این آر او جاری ہو گیا۔ مگر جب اٹھارہ اکتوبر کو بے نظیر بھٹو کراچی پہنچیں تو ان کے جلوس پر خود کش حملے میں ان کی پارٹی کے لگ بھگ ڈیڑھ سو کارکن جاں بحق ہو گئے۔ این آر او کو سپریم کورٹ نے بعد میں کالعدم قرار دے دیا۔ مشرف نےآئین معطل کر کے ایمرجنسی لگا دی اور پھر ستائیس دسمبر کو بے نظیر بھٹو ایک خود کش حملے کا نشانہ بن گئیں۔ مشرف پر سے امریکہ، خلیجی دوستوں، فوجی قیادت سمیت سب نے ہاتھ اٹھا لیا۔ یوں پرویز مشرف اگلے آٹھ ماہ کے لیے علامتی صدر بن کے رھ گئے اور اٹھارہ اگست دو ہزار آٹھ کو آخری سلیوٹ لے کے کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے۔ ( جسے تفصیلاً جاننا ہے وہ کونڈولیزا رائس کی کتاب ” نو ہائر آنر‘‘ پڑھ لے)۔ 
جب دو ہزار تیرہ میں مشرف کے دشمن نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو مشرف پر آئین توڑنے کے جرم میں آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔ مشرف کو فوجی قیادت نے جیل تو نہیں جانے دیا البتہ حکومت نے ان کے بیرونِ ملک جانے پر پابندی لگا دی۔ جنوری دو ہزار چودہ میں سعودی وزیرِ خارجہ سعود الفیصل اسلام آباد آئے اور چند روز بعد حکومت نے اچانک پرویز مشرف کو بغرضِ علاج بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی۔ نو برس بعد ان کی پاکستان واپسی اس سال فروری میں تابوت میں بند ہو کے ہوئی۔ اس پس منظر میں اس کہانی پر یقین کرنا مشکل ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی ”فی سبیل اللہ‘‘ ہو رہی ہے۔ چند ہفتوں اور مہینوں کی بات ہے۔ بلی تھیلے سے باہر آ ہی جائے گی کہ جو لوگ نواز شریف کی جگہ عمران خان کو لائے تھے وہ عمران خان کو اتار کے نواز شریف کو کیوں لائے؟ یا پھر نواز شریف کو کب الہام ہوا کہ یہی واپسی کا وقت ہے۔  
وسعت اللہ خان
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
1 note · View note
pakistantime · 1 year
Text
آئی ایم ایف معاہدہ، ہم ہاتھ کٹوا بیٹھے
Tumblr media
دلچسپ کہیں افسوس ناک یا شرم ناک کہیں۔ نگران حکومت نے جس دن پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا اُسی دن عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں ڈیڑھ فیصد سے زائد تک گر گئیں۔ رواں اگست کے پہلے پندرہ دنوں میں دو مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلی مرتبہ پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے اور دوسرا پندرہ اگست نگران حکومت کے دور میں۔ قیمت بڑھاتے ہوئے دونوں مرتبہ صریح غلط بیانی کی گئی کہ عالمی منڈی میں خام تیل مہنگا ہو گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہے۔ یہ تو ظلم کی انتہا ہے۔ شاید ہی دنیا کی کسی حکومت نے اپنی عوام سے ایسا سفید جھوٹ بولا ہو۔ عوام سے عجیب مذاق ہو رہا ہے۔ صرف پٹرول پر عوام سے 60 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ تیل کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرمایہ کار خدشات کا شکار ہیں۔ معاشی سست روی کی وجہ سے تیل کی کھپت چین میں کم ہو گئی ہے۔ چین تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے، باوجود اس کے کہ خام تیل کی پیداوار اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عوام پچھلے پانچ سالوں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی کوئی مؤثر احتجاج نہیں کیا گیا، چنانچہ قیمتیں بڑھانے میں حکومت بھی بے خوف ہے۔
ایک تو مہنگائی دوسری مصنوعی مہنگائی۔ دوکاندار، تاجر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض چیزوں پر اضافی 100 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کے گزشتہ کچھ عرصہ سے حیران کن بیان آ رہے ہیں، ایک طرف ن لیگ میں ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے کچھ غیر معمولی حقائق سامنے لا رہے ہیں۔ بہرحال، خاقان عباسی نے نیب کے حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی کہ نیب نے مجھ سے ہر سوال پوچھا لیکن ایک سوال نہیں پوچھا کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں یا نہیں؟ انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ حکمران طبقات ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سالانہ ہزاروں ارب روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں۔ ان طبقات کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہر آئے دن عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک طرف سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ہیں، جن کی تنخواہ سے ٹیکس پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان کے 5 فیصد جاگیردار ہیں جن کے قبضہ میں پاکستان کی 75 فیصد زرعی اراضی ہے جو اپنی آمدن کے تناسب سے کسی طور ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
Tumblr media
چنانچہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اندرون بیرون ملک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے جن میں لاہور ، اسلام آباد، کراچی کے ایئرپورٹ شامل ہیں۔ ہم آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں یعنی یہ ہوائی اڈے عالمی بینک کے ذیلی ادارے کے کنٹرول میں چلے جائیں گے۔ یہ معاملات PIA سے بھی متعلق ہیں۔ جس کا خسارہ گزشتہ سال ستمبر تک 630 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ اب تو مزید ایک سال اوپر ہونے والے ہیں، سوچیے خسارہ کہاں تک پہنچ چکا ہو گا۔ ہماری معاشی صورتحال اب بالکل ویسے ہی اس شخص کے مشابہ ہے جو دیوالیہ ہونے پر اپنا قرض اور سود ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہا ہو کیونکہ ہمارے حکمران طبقات سے لے کر عام آدمی تک ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوکاندار چند ہزار روپے سالانہ ادا کرنے پر تیار نہیں۔ جب کہ یورپ خاص طور پر فلاحی ریاستوں میں تنخواہ اور آمدنی کا 30 سے 40 فیصد ٹیکس کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومتیں بے روزگاری، رہائش ، تعلیم اور صحت کی مد میں اپنے شہریوں کو بہت سہولیات دیتی ہیں۔
آئی ایم ایف تو مسلسل شور مچا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگایا جائے اور خسارہ میں جانے والے اداروں کو پرائیویٹایز کیا جائے۔ لیکن حکمران طبقات اور اشرافیات اپنے اوپر ٹیکس لگائیں گے؟ ایسا تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح عوام کے زیر استعمال اشیاء پٹرول، ڈیزل، بجلی اور کھانے پینے وغیرہ کی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے بے پناہ کمر طور مہنگائی کی اصل وجہ۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے اندرونی قرضوں میں پی ٹی آئی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے اس اتحادی حکومت نے محض 15 ماہ کی قلیل مدت میں لیے۔ یعنی 18.5 کھرب روپے، یہ ہے مہنگائی کی دوسری وجہ۔ پاکستان ٹریڈز یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں چرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تاجر اور عوام مشکل میں چلے گئے ہیں۔ ایک بڑے بزنس گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ ملکی معاشی حالات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے اس بد ترین جگہ پہنچے ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے، یہ معاہدہ میں درج ہے۔ جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں۔ حکومت نے معاہدہ میں جا کر اپنے ہاتھ کٹوا لیے ہیں۔ کراچی میں 50 فیصد انڈسٹری بند ہو گئی ہے کیونکہ اس بار بجلی کا بل 52 روپے یونٹ سے زائد آیا ہے۔
زمرد نقوی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
htvpakistan · 2 years
Text
مریم نواز نجی ایئر لائن کی پرواز سے براستہ دوحہ لندن روانہ ہوگئیں
مریم نواز نجی ایئر لائن کی پرواز سے براستہ دوحہ لندن روانہ ہوگئیں
 پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز پاسپورٹ واپس مل جانے کے بعد نجی ایئر لائن کی پرواز سے براستہ دوحہ لندن روانہ ہوگئیں۔ مریم نواز لندن روانگی کے لئے لاہور ایئرپورٹ پہنچیں اور ایئرپورٹ روانگی سے قبل مریم نواز نے دادا، دادی اور والدہ کی قبروں پر فاتحہ خوانی بھی کی، ن لیگی نائب صدر کے ہمراہ ان کی ذاتی ملازمہ بھی ہیں۔ خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ مریم نواز تقریباً ایک ماہ لندن میں قیام کریں گی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
برطانوی ایئرلائن کا پاکستان کیلئے پروازیں بند کرنے کا اعلان
لندن : برطانوی ائیرلائن نے لندن سے اسلام آباد اور لاہور کے لیے پروازیں بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی ایئر لائن ورجن اٹلانٹک نے کرونا وباء کے دوران 2020ء میں لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے اسلام آباد اور لاہور جبکہ مانچسٹر سے اسلام آباد کیلئے پروازیں شروع کی تھیں۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں ورجن اٹلانٹک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم 2023 میں اپنے فضائی پروگرام کو بڑھا رہے ہیں، ہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
لاہور ایئرپورٹ کے مین رن وے گڑھا پڑگیا! #Lahore #Airport #Runway #Hole #Aajkalpk لاہور ایئرپورٹ کے مین رن وے پر ایک بار پھر گڑھا پڑگیا جس کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک آنے جانے والی 10 پروازیں تاخیر کا شکار ہوگئیں۔ لاہور ایئررپورٹ کے مین رن وے پر گڑھا پڑنے کے باعث لاہور سے جدہ جانے والی پرواز سمیت کئی پروازیں متاثر ہوئیں جس پر مسافروں نے شدید احتجاج کیا۔ کراچی: خزانے کی تلاش میں صحن میں مشکوک کھدائی پر 10 افراد گرفتار سول ایوی ایشن کے انجینئرز نے فوری ایکشن لیتے ہوئے دو گھنٹے میں گڑھا بھر کر رن وے کھول دیا۔ خیال رہے کہ ایک ہفتہ پہلے بھی ایئرپورٹ کے رن وے پر گڑھا پڑگیا تھا جس سے پروازوں کی آمد ورفت متاثرہوئی تھی۔
0 notes