Tumgik
#محمدعمر
face2facesad · 2 months
Text
Tumblr media
1 note · View note
mfrrean · 2 years
Photo
Tumblr media
‏‎باب الدريب ( حمص الصغرى ) العائلات تشبه بيوتها ( السقف الموصول ) ( النسب الموصول ) تشبه البيوت بعضها بسقوفها العالية وأروقتها السامية بحجارتها السود الخالدة الباقية وإذا ما ذكرنا العائلات فلا بد أن نذكر جذورها الضاربة في عمق الأرض المتواصلة بحكم القرابة عن طريق النسب ببعضها البعض فمن المستحيل بل من سابع المستحيلات أن لا تجد قرابة بين حمولة وحمولة الحديث منها والقديم وبعض تلك الحمولات كانت تغلب عليها نزعة العصبية لبعضها فتشبه في قوانينها وأعرافها القبائل البدوية ( في التعاضد والتلاحم - القتال و نزعة العرق والنسب ) واما الطائفية فكانت معدومة تماما في التعايش ما بين سكان ذلك الحي بمسحييه الأصلاء المنحدرون في أصلهم من عرب الغساسنة وبين المسلمين الممتده أصولهم إلى الصحابة وربما يلتقون معهم بنفس الأب والجد ( والحكم حينئذ للأعراف وكان الدين هو الضابط الشرعي لكلا الطرفين دون تجني من أحد على أحد إذ لم يكن حينها مرجعية الدين السياسة وإنما كانت المرجعية كتبهم السماوية. وأما المنظم لحركة الشارع في كلا الطرفين فكان للعرف المتوراث كابرا عن كابر وضابطه فارق السن وليس الطبقة أو النسب مع وجود الزعيم ( الشخصية الحقيقة ) من أبناء الحي ذاته وأما العائلات فسنذكر ما اشتهر منهم ونبدأ بالعائلات المسيحية ( حداد – عجان – الملقب بالحداد – طحان – خزام ) واما العائلات المسلمة ( العصياتي - شاهرلي– قاعي غالي – سباعي - الأبرش – شلار – رجوب – اليافي –شما - جبولي – الحايك ( زناد الحايك ) – العتم – خانكان –النجار - الخطيب - جندل - وجندل الرفاعي - القاضي – الفران - اتاسي - الغفري – شلب الشام – العريضي – النشيواتي – غليون – بركة – شهلة – مهرات - رسلا ن – عريضة الغجري – بايرلي – سليمانية – كعكة -.... !! .. يتبع كتبها لكم محمدعمر الفران‎‏ https://www.instagram.com/p/Ce18MDyoGpq/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
تبدیلی مذہب کیس:محمدگوتم کے خلاف چارج شیٹ داخل
تبدیلی مذہب کیس:محمدگوتم کے خلاف چارج شیٹ داخل
تبدیلی مذہب کیس:محمدعمرگوتم کے خلاف چارج شیٹ داخل   لکھنؤ25نومبر(آئی این ایس انڈیا)   تبدیلی مذہب معاملے میں وڈودرا پولس نے عدالت میں چارج شیٹ داخل کی ہے۔ جس کے مطابق محمدعمر گوتم نے تقریباً ایک سو سے دو سو تک ہندوؤں کا مذہب تبدیل کروا یا ہے۔وڈودرا پولیس نے عدالت میں 1807 صفحات کی چارٹ شیٹ داخل کی ہے۔ جس میں وڈوڈرا پولیس نے کہاہے کہ سب سے پہلے لکھنؤ ضلع کے گومتی نگر تھانے میں آئی پی سی کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hakmnews · 3 years
Text
مدير مكتب الضمان الاجتماعي بصامطة محمد عمر الى التاسعة
مدير مكتب الضمان الاجتماعي بصامطة محمد عمر الى التاسعة
  حكم-هاله النعمي-صامطة أصدر معالي وزير وزارة الموارد البشرية والتنمية الاجتماعية المهندس أحمد بن سليمان الراجحي قرارا يقتضي بترقية مدير الضمان الاجتماعي بمحافظة صامطة محمدعمر يعقوب الى المرتبة التاسعة ويعد الاستاذ محمدعمر من الاداريين المشهود لهم بالكفاءة والاخلاص في العمل . ” صحيفة حكم الإلكترونية ” تبارك هذه الترقية سائلين الله العلي القدير أن تكون له عوناً على طاعته لخدمة دينه ووطنه ومليكه .
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
kokchapress · 3 years
Text
انفجار در مسیر قندهار – ارزگان جان سه غیرنظامی را گرفت
انفجار در مسیر قندهار – ارزگان جان سه غیرنظامی را گرفت
مقام‌های محلی ولایت ارزگان می‌گویند که در اثر انفجار ماین کنار جاده در مسیر قندهار – ارزگان، سه غیرنظامی جان باخته و چهار تن دیگر زخمی شده اند. محمدعمر شیرزاد، والی این ولایت روز شنبه ۱۳ مارچ (۲۳ حوت) در یک پیام تصویری به خبرنگاران گفت که این رویداد در پی برخورد موتر این غیرنظامیان با ماین کنار جاده صورت گرفت. آقای شیرزاد گفت که در میان جان‌باختگان این انفجار، دو مرد و یک کودک شامل اند و همچنان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gawhar-news · 3 years
Text
ده نفر به‌شمول یک خبرنگار در انفجاری در ارزگان زخمی شدند
ده نفر به‌شمول یک خبرنگار در انفجاری در ارزگان زخمی شدند
مقام‌های محلی در ولایت ارزگان می‌گویند که در نتیجه‌ی یک انفجار در شهر ترینکوت، مرکز این ولایت ده نفر به‌شمول یک .خبرنگار زخمی شده‌اند محمدعمر شیرزاد، والی ارزگان گفته است که این رویداد چاشت امروز (سه‌شنبه، ۳۰ جدی) در «چهارراهی غازی امان‌الله خان»، از مربوطات شهر ترینکوت رخ داده است. http://bit.ly/38V4r9W :برای خبر کامل از این لینک استفاده کنید
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 4 years
Text
     شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے گا عمر شیخ 
     شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے گا، عمر شیخ 
Tumblr media Tumblr media
   لا ہو ر (کر ائم رپو رٹر) سی سی پی او لاہور محمدعمر شیخ کی ہدایت پر لاہورپولیس کا اشتہاری ملزمان اور سنگین وارداتوں میں ملوث قانون شکن عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے، ایک ہی روز میں سنگین جرائم میں ملوث07 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔چیک ڈس آنر کے مقدمات میں 02 اشتہاری ملزمان جبکہ اغواء کے…
View On WordPress
0 notes
egyptiangurdian · 5 years
Photo
Tumblr media
قصيدة /شعلة الضمير بقلم محمدعمر محمد قصيدة /شعلة الضمير أحى وسط عالم حزين ياخذه الوحدة والخيبة كل حين رحل النور من قلوبهم من سنين
0 notes
mypakistan · 9 years
Text
افغان طالبان کا مستقبل ؟
افغان طالبان کیلئے ملّا محمد عمر کی موت کی تصدیق کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اُنہیں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ ملّا محمدعمر کی موت کی تصدیق کے بعد جلال الدین حقانی اور ملّا محمد یعقوب کی موت کے دعوے بھی کئے گئے لیکن یہ دعوے غلط ثابت ہوئے۔ عام خیال یہ تھا کہ ملّا محمد عمر کی جانشینی کے معاملے پر افغان طالبان میں پھوٹ پڑ جائے گی اور اُن کی مسلح مزاحمت بھی کمزور پڑ جائے گی۔
ملّا محمد عمر کی جگہ ملّا اختر منصور کو طالبان کا نیا امیر بنائے جانے کے اعلان پر کچھ اعتراضات سامنے آئے لیکن ملّا اختر منصور نے امارت سنبھالنے کے فوراً بعد کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کر کے اپنے آپ پر اعتراضات کی شدت کو کم کر دیا کیونکہ اعتراضات کرنے والوں کے زیادہ تر تحفظات ملّا اختر منصور کی ذات پر نہیں بلکہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر تھے۔
ملّا اختر منصور کی امارت پر اعتراضات اٹھانے والوں میں ملّا محمد عمر کے کچھ ایسے ساتھی بھی شامل تھے جن کو کچھ عرصہ سے پاکستان سے بھی شکایات ہیں۔ یہ شکایات پاکستان کیلئے کافی مشکلات کھڑی کر سکتی تھیں لیکن مغربی میڈیا اور افغان حکومت کے پروپیگنڈے نے افغان طالبان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ملّا محمد عمر کی موت کے بعد اگر انہوں نے آپس کے اختلافات پر قابو نہ پایا اور پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھول لیا تو فائدہ دشمنوں کو ہو گا۔ دشمنوں نے دعویٰ کیا کہ ملّا محمد عمر کا انتقال پاکستان میں ہوا۔
طالبان نے اس دعوے کی تردید کی تو دشمنوں نے کہا کہ ملّا محمد عمر کو دفن تو افغانستان میں کیا گیا لیکن اُنہیں پاکستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس دعوے کی تردید بھی ہو گئی تو ایک نیا دلچسپ دعویٰ سامنے آیا۔ ایک صحافی نے لکھا کہ ملّا محمد عمر کراچی کی لی مارکیٹ میں آلو فروخت کیا کرتے تھے۔ ملّا محمد عمر کی کراچی اور کوئٹہ میں موجودگی کے دعوے کرنے والے آج تک اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں لا سکے۔ بہرحال ملّا محمد عمر کی موت کے بعد طالبان کے خلاف پروپیگنڈے کے طوفان نے انہیں نقصان کی بجائے فائدہ پہنچایا اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کو مل بیٹھ کر طے کرنے پر توجہ دی۔
اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق اور ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملّا اختر منصور سے شاکی افغان طالبان کا ایک وفد دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پہنچا اور ملّا محمد عمر کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں رہنمائی طلب کی۔ مولانا سمیع الحق نے اُنہیں باہمی اختلافات ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ بعد ازاں مولانا صاحب نے ملّا اختر منصور سے شکوے شکایت رکھنے والے کچھ طالبان رہنمائوں سے خود بھی رابطے کئے اور آہستہ آہستہ ملّا اختر منصور کے مخالفین خاموش ہوتے گئے۔ ملّا اختر منصور کی طرف سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا عمل معطل کرنے کے بعد افغانستان میں طالبان کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔
طالبان نے کابل میں پولیس اکیڈمی اور مغربی افواج کے ایک مرکز پر حملہ کر کے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ملّا محمد عمر کی موت کے بعد بھی طالبان ایک موثر قوت کے طور پر موجود ہیں۔ شاید انہی حملوں کا اثر تھا کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے پاس جا پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر راضی کریں۔ مولانا سمیع الحق مذاکرات کے حامی ہیں لیکن انہوں نے افغان سفیر کو طالبان کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ افغانستان کی جیلوں میں طالبان کے قیدیوں پر تشدد جاری رہا تو صدر اشرف غنی کی حکومت ملّا اختر منصور کے رویے میں کسی لچک کی توقع نہ کرے۔ مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ افغان طالبان کی سرپرستی اور ترجمانی کی ہے۔ ان کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
حال ہی میں انہوں نے افغان طالبان کے بارے میں انگریزی میں ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے ’’افغان طالبان، وار آف آئیڈیالوجی‘‘۔ اس کتاب میں انہوں نے افغان طالبان اور ملّا محمد عمر کے بارے میں کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر کے دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم وہ دارالعلوم کے دو پرانے طلبہ مولوی یونس خالص اور نبی محمدی کے شاگرد رہے ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ نے ملّا محمد عمر کو ایک اعزازی ڈگری ضرور جاری کی۔
 اس کتاب کے مطابق ملّا محمد عمر کی دو بیویاں ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں تھے البتہ وہ مخلوط تعلیم کے خلاف تھے۔ اس کتاب میں مولانا صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی پہلی باقاعدہ کرکٹ ٹیم تشکیل دی گئی اور طالبان حکومت نے پاکستان کے ذریعے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
ایک برطانوی صحافی جیمز فرگوسن نے افغان طالبان کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں ملّا محمد عمر سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں پوست کی کاشت کو ختم کر دیا اور سوارا جیسی رسموں پر پابندی لگائی جن کے تحت قبائلی دشمنیاں ختم کرنے کیلئے عورتوں کی زبردستی شادیاں کی جاتی تھیں۔ فرگوسن نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر کے دور میں قاری برکت اللہ سلیم کابل میں ایک گرلز سکول چلاتے رہے جس میں سات ہزار طالبات زیر تعلیم تھیں۔ ملّا محمد عمر نے افغانستان میں ہندوئوں اور دیگر غیرمسلموں کے تحفظ کیلئے کئی اقدامات کئے لیکن بدقسمتی سے عالمی میڈیا میں اُن کے مثبت اقدامات کو زیادہ توجہ نہ مل سکی۔ عالمی میڈیا نے ملّا محمد عمر اور افغان طالبان کو صرف القاعدہ کے ایک سرپرست کے طور پر دیکھا۔
پاکستان کی حکومتیں تمام تر کوششوں کے باوجود ملّا محمد عمر کو القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے علیحدہ نہ کر سکیں۔ ملّا محمد عمر نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کا خیال رکھا لیکن پاکستانی حکومت کی خواہشات اور گزارشات کو حرف آخر کبھی نہ سمجھا۔ 2010ء میں افغان طالبان اور پاکستانی حکومت میں کافی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ ملّا محمد عمر کے ایک قریبی ساتھی عبید اللہ اخوند ایک پاکستانی جیل میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کے اہل خانہ سے موت کی خبر چھپا کر اُنہیں خاموشی سے دفن کر دیا گیا۔ طالبان حکومت کے ایک اور سابق وزیر استاد یاسر بھی ایک پاکستانی جیل میں پراسرار موت کا شکار ہوئے۔ پھر ملّا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملّا عبدالغنی برادر کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا۔
مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ 2010ء میں کس پاکستانی ادارے کا کون کون سربراہ تھا لیکن افغان طالبان کو زور زبردستی سے امریکا کے ساتھ اور حامد کرزئی کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش میں وہی لوگ ملوث تھے جنہوں نے بعد میں سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرا کر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی میں غیرملکی نوکری کا بندوبست کر لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملّا محمد عمر کو بھارت سمیت کئی ممالک نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن ملّا محمد عمر تمام تر شکایتوں کے باوجود پاکستان کے بارے میں خاموش رہے تاہم افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و نفوذ کافی کم ہو گیا۔ 
ملّا محمد عمر کی موت کے بعد طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات کا عمل معطل ہو چکا ہے۔ یہ عمل بحال ہونا چاہئے تاہم اس معاملے میں پاکستان کو بہت احتیاط، صدر اشرف غنی کو برداشت و حکمت اور عالمی طاقتوں کو غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ افغان طالبان کی نفسیات کو سامنے رکھا جائے۔ اگر ان کے خلاف سختی کی جائے گی اور جھوٹ بولا جائے گا تو پھر جواب میں دھماکوں کی آوازیں آئیں گی۔
حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 9 years
Text
افغان طالبان کا مستقبل ؟
افغان طالبان کیلئے ملّا محمد عمر کی موت کی تصدیق کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اُنہیں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ ملّا محمدعمر کی موت کی تصدیق کے بعد جلال الدین حقانی اور ملّا محمد یعقوب کی موت کے دعوے بھی کئے گئے لیکن یہ دعوے غلط ثابت ہوئے۔ عام خیال یہ تھا کہ ملّا محمد عمر کی جانشینی کے معاملے پر افغان طالبان میں پھوٹ پڑ جائے گی اور اُن کی مسلح مزاحمت بھی کمزور پڑ جائے گی۔
ملّا محمد عمر کی جگہ ملّا اختر منصور کو طالبان کا نیا امیر بنائے جانے کے اعلان پر کچھ اعتراضات سامنے آئے لیکن ملّا اختر منصور نے امارت سنبھالنے کے فوراً بعد کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات معطل کر کے اپنے آپ پر اعتراضات کی شدت کو کم کر دیا کیونکہ اعتراضات کرنے والوں کے زیادہ تر تحفظات ملّا اختر منصور کی ذات پر نہیں بلکہ کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر تھے۔
ملّا اختر منصور کی امارت پر اعتراضات اٹھانے والوں میں ملّا محمد عمر کے کچھ ایسے ساتھی بھی شامل تھے جن کو کچھ عرصہ سے پاکستان سے بھی شکایات ہیں۔ یہ شکایات پاکستان کیلئے کافی مشکلات کھڑی کر سکتی تھیں لیکن مغربی میڈیا اور افغان حکومت کے پروپیگنڈے نے افغان طالبان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ملّا محمد عمر کی موت کے بعد اگر انہوں نے آپس کے اختلافات پر قابو نہ پایا اور پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھول لیا تو فائدہ دشمنوں کو ہو گا۔ دشمنوں نے دعویٰ کیا کہ ملّا محمد عمر کا انتقال پاکستان میں ہوا۔
طالبان نے اس دعوے کی تردید کی تو دشمنوں نے کہا کہ ملّا محمد عمر کو دفن تو افغانستان میں کیا گیا لیکن اُنہیں پاکستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس دعوے کی تردید بھی ہو گئی تو ایک نیا دلچسپ دعویٰ سامنے آیا۔ ایک صحافی نے لکھا کہ ملّا محمد عمر کراچی کی لی مارکیٹ میں آلو فروخت کیا کرتے تھے۔ ملّا محمد عمر کی کراچی اور کوئٹہ میں موجودگی کے دعوے کرنے والے آج تک اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں لا سکے۔ بہرحال ملّا محمد عمر کی موت کے بعد طالبان کے خلاف پروپیگنڈے کے طوفان نے انہیں نقصان کی بجائے فائدہ پہنچایا اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کو مل بیٹھ کر طے کرنے پر توجہ دی۔
اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق اور ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملّا اختر منصور سے شاکی افغان طالبان کا ایک وفد دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پہنچا اور ملّا محمد عمر کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں رہنمائی طلب کی۔ مولانا سمیع الحق نے اُنہیں باہمی اختلافات ختم کرنے کا مشورہ دیا۔ بعد ازاں مولانا صاحب نے ملّا اختر منصور سے شکوے شکایت رکھنے والے کچھ طالبان رہنمائوں سے خود بھی رابطے کئے اور آہستہ آہستہ ملّا اختر منصور کے مخالفین خاموش ہوتے گئے۔ ملّا اختر منصور کی طرف سے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا عمل معطل کرنے کے بعد افغانستان میں طالبان کے حملوں میں شدت آ گئی ہے۔
طالبان نے کابل میں پولیس اکیڈمی اور مغربی افواج کے ایک مرکز پر حملہ کر کے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ملّا محمد عمر کی موت کے بعد بھی طالبان ایک موثر قوت کے طور پر موجود ہیں۔ شاید انہی حملوں کا اثر تھا کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے پاس جا پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے پر راضی کریں۔ مولانا سمیع الحق مذاکرات کے حامی ہیں لیکن انہوں نے افغان سفیر کو طالبان کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ افغانستان کی جیلوں میں طالبان کے قیدیوں پر تشدد جاری رہا تو صدر اشرف غنی کی حکومت ملّا اختر منصور کے رویے میں کسی لچک کی توقع نہ کرے۔ مولانا سمیع الحق نے ہمیشہ افغان طالبان کی سرپرستی اور ترجمانی کی ہے۔ ان کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
حال ہی میں انہوں نے افغان طالبان کے بارے میں انگریزی میں ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے ’’افغان طالبان، وار آف آئیڈیالوجی‘‘۔ اس کتاب میں انہوں نے افغان طالبان اور ملّا محمد عمر کے بارے میں کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر کے دارالعلوم حقانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم وہ دارالعلوم کے دو پرانے طلبہ مولوی یونس خالص اور نبی محمدی کے شاگرد رہے ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ نے ملّا محمد عمر کو ایک اعزازی ڈگری ضرور جاری کی۔
 اس کتاب کے مطابق ملّا محمد عمر کی دو بیویاں ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں تھے البتہ وہ مخلوط تعلیم کے خلاف تھے۔ اس کتاب میں مولانا صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی پہلی باقاعدہ کرکٹ ٹیم تشکیل دی گئی اور طالبان حکومت نے پاکستان کے ذریعے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
ایک برطانوی صحافی جیمز فرگوسن نے افغان طالبان کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ افغانستان کی تاریخ میں ملّا محمد عمر سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں پوست کی کاشت کو ختم کر دیا اور سوارا جیسی رسموں پر پابندی لگائی جن کے تحت قبائلی دشمنیاں ختم کرنے کیلئے عورتوں کی زبردستی شادیاں کی جاتی تھیں۔ فرگوسن نے لکھا ہے کہ ملّا محمد عمر کے دور میں قاری برکت اللہ سلیم کابل میں ایک گرلز سکول چلاتے رہے جس میں سات ہزار طالبات زیر تعلیم تھیں۔ ملّا محمد عمر نے افغانستان میں ہندوئوں اور دیگر غیرمسلموں کے تحفظ کیلئے کئی اقدامات کئے لیکن بدقسمتی سے عالمی میڈیا میں اُن کے مثبت اقدامات کو زیادہ توجہ نہ مل سکی۔ عالمی میڈیا نے ملّا محمد عمر اور افغان طالبان کو صرف القاعدہ کے ایک سرپرست کے طور پر دیکھا۔
پاکستان کی حکومتیں تمام تر کوششوں کے باوجود ملّا محمد عمر کو القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے علیحدہ نہ کر سکیں۔ ملّا محمد عمر نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کا خیال رکھا لیکن پاکستانی حکومت کی خواہشات اور گزارشات کو حرف آخر کبھی نہ سمجھا۔ 2010ء میں افغان طالبان اور پاکستانی حکومت میں کافی غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں۔ ملّا محمد عمر کے ایک قریبی ساتھی عبید اللہ اخوند ایک پاکستانی جیل میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان کے اہل خانہ سے موت کی خبر چھپا کر اُنہیں خاموشی سے دفن کر دیا گیا۔ طالبان حکومت کے ایک اور سابق وزیر استاد یاسر بھی ایک پاکستانی جیل میں پراسرار موت کا شکار ہوئے۔ پھر ملّا محمد عمر کے ایک اور قریبی ساتھی ملّا عبدالغنی برادر کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا۔
مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ 2010ء میں کس پاکستانی ادارے کا کون کون سربراہ تھا لیکن افغان طالبان کو زور زبردستی سے امریکا کے ساتھ اور حامد کرزئی کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرنے کی کوشش میں وہی لوگ ملوث تھے جنہوں نے بعد میں سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرا کر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی میں غیرملکی نوکری کا بندوبست کر لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ملّا محمد عمر کو بھارت سمیت کئی ممالک نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن ملّا محمد عمر تمام تر شکایتوں کے باوجود پاکستان کے بارے میں خاموش رہے تاہم افغان طالبان پر پاکستان کا اثر و نفوذ کافی کم ہو گیا۔ 
ملّا محمد عمر کی موت کے بعد طالبان اور افغان حکومت میں مذاکرات کا عمل معطل ہو چکا ہے۔ یہ عمل بحال ہونا چاہئے تاہم اس معاملے میں پاکستان کو بہت احتیاط، صدر اشرف غنی کو برداشت و حکمت اور عالمی طاقتوں کو غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ افغان طالبان کی نفسیات کو سامنے رکھا جائے۔ اگر ان کے خلاف سختی کی جائے گی اور جھوٹ بولا جائے گا تو پھر جواب میں دھماکوں کی آوازیں آئیں گی۔
حامد میر
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
face2facesad · 4 months
Text
Tumblr media
#لڪـ
#حُـبّ
#بوح
#شعر
#قديم
#غزل
#طرب
#وصف
#مشارق
#نــوادر
#الشـوق
#ذكريات
#مشـاعر
#مــوسيقى
#صباحيـات
#محمد_عمر
#قهــوة_السـابعة
#رابطة_عشاق_الصباح
☰ منصور راح اللّــيل ☰
✎ // بندر بن خالد
♪ // محمد عــــمر
عليه دمعي فوق خدي . . سوابيح
مخطور من فرقـا . . تدني وفاتي
1 note · View note
mfrrean · 3 years
Photo
Tumblr media
‏‎من بديع الشعر .. الأسود و الأبيض شاعر يفضل السواد: ألم تَرَ أن المسك لستَ تنالُه رخيصا، وأن الملح تَلٌّ بدرهمِ وأن سواد العين لاشكَّ نُورُها وأن بياضَ العين لاشيءَ فاعلَمِ - رد شاعر يفضل البياض: ألم تر أن البدر أبيضُ مشرقٌ شريفٌ، وأن الفحم تَلٌّ بدرهمِ وأن رجالَ اللهِ بِيضٌ وجوهُهمْ ولاشكَّ أن السودَ أهلُ جهنمِ - عندل يحسم القضية: بياضُ الفتى في قلبه وفَعالهِ ولا فضلَ في لون ولا فخرَ في دمِ فكم من لئيم لونُه لونُ قطنةٍ وكم من كريم لونُه لونُ أسحمِ اختارها محمدعمر الفران‎‏ https://www.instagram.com/p/CTRYUHdIOTB/?utm_medium=tumblr
0 notes
chekadchannel-blog · 5 years
Text
اعضای کمیسیون برگزاری جرگه مشورتی صلح تعیین شدند
اعضای کمیسیون برگزاری جرگه مشورتی صلح تعیین شدند #اعضای #کمیسیون #برگزاری #جرگه_مشورتی #صلح #تعیین . . . . . . . .
محمدعمر داوودزی، رییس دبیرخانه‌ی شورای عالی صلح و نماینده‌ی خاص رییس‌جمهور در امور منطقه‌یی برای اجماع صلح، اعلام کرده است که اعضای کمیسیون برگزاری جرگه مشورتی صلح از سوی ریاست‌جمهوری تعیین شده‌اند.
  آقای داوودزی گفته که اعضای تعیین‌شده‌ی این کمیسیون فضل‌کریم فضل، عبدالوهاب عرفان، عباس نویان، عبدالحق شفق، محمدایوب رفیقى، عبدالرشید ایوبى، داوود کلکانى، صدیق پتمن، خان‌جان الکوزى، جماهیر انورى،…
View On WordPress
0 notes
superramyahmedblog · 5 years
Text
نائب وزير التربية والتعليم د. محمدعمر يواصل جولاته التفقدية بمحافظة المنيا.
نائب وزير التربية والتعليم د. محمدعمر يواصل جولاته التفقدية بمحافظة المنيا.
كتب/احمد محسن المطعني صرح المكتب الإعلامي لوزارة التربية والتعليم والتعليم الفنى، بأن الدكتور محمد عمر نائب الوزير لشئون المعلمين، توجه السبت الموافق ١٢ يناير لمحافظة المنيا فى زيارة تفقدية لمدارس ومعلمى المحافظة، يرافقة مصطفى حسن المستشار القانونى بالوزارة. وتأتى تلك الزيارة فى إطار توجيهات السيد الدكتور طارق شوقى وزير التربية والتعليم والتعليم الفنى، بعمل زيارات ميدانية لجميع المحافظات،…
View On WordPress
0 notes
kokchapress · 4 years
Text
تیم «دولت‌ساز»: طرف‌های دخیل در انتخابات نتایج اعلام‌شده را بپذیرند
تیم «دولت‌ساز»: طرف‌های دخیل در انتخابات نتایج اعلام‌شده را بپذیرند
تیم «دولت‌ساز»: طرف‌های دخیل در انتخابات نتایج اعلام‌شده را بپذیرند روزنامه اطلاعات روز – مردم سالاری را پدید می آورد
اطلاعات روز: محمدعمر داوودزی، رییس ستاد انتخاباتی تیم «دولت‌ساز» به رهبری محمد اشرف غنی از اعلام نتایج ابتدایی انتخابات ریاست‌جمهوری استقبال کرده و از طرف‌های دخیل در انتخابات نیز خواسته است که نتایج اعلام‌شده را بپذیرند.
در اعلامیه‌ای که بعد از ظهر امروز (یک‌شنبه، ۱ جدی) در صفحه‌ی…
View On WordPress
0 notes
tardosnews · 6 years
Photo
Tumblr media
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر معطل، سینیئر ترین پروفیسر کو عبوری وائس چانسلر تعینات کرنے کا حکم چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب یونیورسٹی کی اراضی پر حکومت کو گرڈ اسٹیشن دینے پر ازخود نوٹس لیا۔ عدالت نے یونیورسٹی کی اراضی حکومت کو دینے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا آپ ہوتے کون ہیں یونیورسٹی کی اراضی حکومت کو دینے والے، آپ لوگوں کو لگایا ہی اسلیے جاتا ہے کہ آپ حکومت کے سامنے سرخم… چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ثابت ہوگیا حکومت جائز و ناجائز مطالبات منوانے کے لئے مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں کرتی، اڑھائی برسوں سے مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں کئے گئے، عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ اس تاخیر کا ذمہ دار کون ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس حیثیت میں یونیورسٹی کی 80 کنال اراضی حکومت کو دی گئی؟ عدالت کو علم ہے کہ یہ زمین اورنج لائن منصوبے کے لئے فراہم کی گئی۔ عدالت نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو معطل کرتے ہوئے سینیئر ترین پروفیسر کو عبوری طور پر وائس چانسلر تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔ خالد رانجھا نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت وائس چانسلر معطلی کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر زکریا ذاکر نے عدالت سے کہا کہ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ ابھی عدالت میں پیش کرتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے آپ استعفیٰ دیں پھر جائزہ لیں گے۔ ڈاکٹرزکریا ذاکر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عدالتی معاون عائشہ حامد نے عدالت کو بتایا کہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر پروفیسر خالد مسعود گوندل، فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر سردار فرید ظفر جب کہ راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل وائس پروفیسر محمدعمر ہیں۔ عدالت نے تینوں میڈیکل یونیورسٹیز کی پہلی سرچ کمیٹیوں کی حیثیت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تینوں میڈیکل یونیورسٹیز کے مستقل وائس چانسلرز کی تعیناتی کا دوبارہ جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا اور تینوں وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے لئے نئی سرچ کمیٹی بنانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے سیکرٹری صحت پنجاب کو حکم دیا کہ جید اور قابل لوگوں پر مشتمل نئی سرچ کمیٹیاں بنائیں۔
0 notes