Tumgik
#مداخلت
globalknock · 8 months
Text
بنگلادیش کے عوام نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے لگادئیے
(ویب ڈیسک)بنگلادیش کے عوام نے ہندوستان کی مداخلت کو مسترد کردیا,پورے ملک میں ہندوستان کے خلاف مہم نے طول پکڑ لی  ’انڈیا آؤٹ‘ کے نام سے مہم نے بنگلادیش اور ہندوستان کی حکومت کو شدید تشویش اور پریشانی میں مبتلا کردیا۔ 7 جنوری 2024 کو بنگلادیش میں یکطرفہ الیکشن منعقد ہوئے جن میں شیخ حسینہ نے متنازعہ طور پر کامیابی حاصل کی شیخ حسینہ کی جیت کے اعلان کے فوری بعد عوام نے نتائج کے متعلق تشویش اور شکوک کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
بعطانوی پولیس نے روس، ایران اور چین سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے خصوصی یونٹ تشکیل دے دیا
برطانوی پولیس نے جمعہ کو کہا کہ انہوں نے چین، روس اور ایران سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا یونٹ قائم کیا ہے، اور کہا کہ وہ اس سال متوقع قومی انتخابات سے قبل خطرات کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ برطانیہ کے انسداد دہشت گردی کی پولیسنگ کے سربراہ اسسٹنٹ کمشنر میٹ جوکس نے کہا کہ ان کے افسران میں ثبوت اور احساس یہ ہے کہ دشمن ریاستوں کی طرف سے درپیش چیلنج “سرد جنگ کے دنوں کے مقابلے میں اب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
جب میں اکیلا بیٹھتا ہوں تو سب سوچتے ہیں کہ یہ ڈپریشن ہے۔ لیکن یہ انسانی مداخلت سے دور آرام کا ایک لمحہ ہے۔
When I sit alone, everyone thinks it's depression. But it's a moment of relaxation, away from human intervention.
28 notes · View notes
emergingpakistan · 4 months
Text
ترکیہ اسرائیل تجارتی تعلقات منقطع
Tumblr media
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں ہونے والی پیش رفت پر ترکیہ کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ سوویت یونین کے خطرے نے ترکیہ کو مغربی بلاک کے بہت قریب کر دیا اور اس دوران ترکیہ نے نیٹو میں شمولیت کی اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ ترکیہ نے 14 مئی 1948 کو قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا اور’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔ ترکیہ نے 1948-1949 کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا، جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوئی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد 24 مارچ 1949 کو ترکیہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا اور ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کی بنیادیں اس دور میں رکھی گئیں۔ ایردوان کے دور میں کئی بار اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بڑے پیمانے پر کشیدگی بھی دیکھی گئی اور دونوں ممالک نےکئی بار سفیر کی سطح کے تعلقات کو نچلی سطح پر جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران ترکیہ پر اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا جس پر ترکیہ نے ان تمام الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ ترکیہ اس وقت تک غزہ کو امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے بعد صدر ایردوان نے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے درمیان اس وقت 9.5 بلین ڈالر کا تجارتی حجم موجود ہے۔ اس سے اگرچہ ترکیہ کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے لیکن یہ منفی اثرات غزہ پر معصوم انسانوں کی نسل کشی کے سامنے ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس طرح ترکیہ نے پہلی بار اسرائیل پر تجارتی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ کی وزارتِ تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جاتا اسرائیل کیلئے 54 مختلف کٹیگریز سے مصنوعات کی برآمدات پر پابندی ہو گی اور پابندی کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔ ترکیہ کا یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے ایئر ڈراپ یعنی فضا کے ذریعے امداد میں حصہ لینے کی ترکیہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی ادارے (TUIK) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات 5.2 بلین ڈالر تھیں، اور اسرائیل سے اس کی درآمدات 1.6 بلین ڈالر تھیں۔ اس ایک سال کی مدت کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم تقریباً 6.8 بلین ڈالر تھا اور ترکیہ، اسرائیل کے ساتھ اپنی برآمدات کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔
Tumblr media
اسرائیل پر لگائی جانے والی تجارتی پابندیوں کے بعد ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فیدان نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے باوجود وہ جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے اب تک کسی قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ پوری امت کا فرض ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دفاع کیلئے صف بندی کرے۔ یہ ہمارا امتحان ہے ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ ہم متحد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ دکھانا چاہیے کہ اسلامی دنیا سفارتی ذرائع سے اور جب ضروری ہو، زبردستی اقدامات کے ذریعے نتائج حاصل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبضے کے خلاف مزاحمت اب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نہیں ہے، بلکہ پوری دنیا کے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان لڑائی ہے۔ وزیر خارجہ فیدان نے کہا کہ اگر ہم نے (غزہ میں) اس سانحے سے سبق نہ سیکھا اور دو ریاستی حل کی طرف گامزن نہ ہوئے تو یہ غزہ کی آخری جنگ نہیں ہو گی بلکہ مزید جنگیں اور آنسو ہمارے منتظر ہوں گے۔ ہمیں اسرائیل کو 1967 کی سرحدوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنا ہو گا۔ 
حماس سمیت تمام فلسطینی 1967 کی بنیاد پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے دو ریاستی حل کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور عالم اسلام اب فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ یکم مئی کو ترکیہ نے جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دائر کردہ نسل کشی کے مقدمے میں مداخلت کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ تمام ممکنہ سفارتی ذرائع استعمال کرے گا اور اسرائیل کو روکنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کرنے کے حوالے سے انقرہ میں فلسطینی سفیر مصطفیٰ نے کہا کہ ترکی کا یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی ریاست پر اثر انداز ہونے کی جانب ایک عملی قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ ترکیہ نے یہ فیصلہ 9 اپریل تک غزہ کو ہوائی جہاز کے ذریعے انسانی امداد بھیجنے کی کوشش کو روکنے کے بعد کیا تھا اور 2 مئی کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے۔ 
اس فیصلے پر اس وقت تک عمل درآمد ہوتے رہنا چاہیے جب تک غزہ کیلئے انسانی امداد کی بلاتعطل رسائی کیاجازت نہ مل جائے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اسرائیل کے حملے شروع ہونے کے وقت سے ہی غزہ کی پٹی میں فیلڈ ہسپتال تیار کررہا تھا اور ضروری سازو سامان العریش ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پہنچادیا گیا تھا لیکن اسرائیل نے ان آلات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور ترکی کو فیلڈ ہسپتال بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ غزہ کی پٹی میں قائم واحد کینسر ہسپتال، جسے ترکیہ نے قائم کیا کیا تھا، کو بھی تباہ کر دیا ۔
ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
googlynewstv · 7 hours
Text
مریم اورنگزیب کی مداخلت پر عظمی بخاری وزارت چھوڑنے کو تیار
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے وزیر اعلیٰ مریم نواز سے کہا ہے کہ ان کی وزارت تبدیل کر دی جائے کیونکہ وہ اپنی وزارت اطلاعات میں سینئر وزیر مریم اورنگزیب کی مسلسل بڑھتی ہوئی مداخلت سے تنگ آ چکی ہیں۔ سینیر اینکر پرسن منصور علی خان نے اپنے تازہ وی لاگ میں تحقیقاتی صحافی حسن نقوی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ مریم اورنگزیب اور عظمی بخاری کے مابین چپقلش عروج پر پہنچ چکی ہے جس کے بعد…
0 notes
shiningpakistan · 25 days
Text
’عدلیہ وکٹری کے نشان والے ہجوم کے نرغے میں‘
Tumblr media
سنا ہے کوئی زمانہ تھا جب کوئی سینیئر قانون دان جج کی کرسی پر بیٹھتے ہی دنیا تیاگ دیتا تھا۔ اپنا سماجی حقہ پانی خود ہی بند کر لیتا۔ شادی، بیاہ، سالگرہ، برسی، جنازے اور سیمیناروں میں جانا حرام کر لیتا۔ سوائے گھر والوں، قریبی عزیزوں یا دو چار پرانے دوستوں کے کسی دور پرے کے رشتہ دار یا واقف کار سے ملنا گناہ سمجھتا۔ سنا ہے مائی لارڈ کی کسی بھی وکیل سے صرف کمرہِ عدالت میں ہی ملاقات ممکن تھی۔ ججز چیمبرز میں پیش کار، رجسٹرار یا نائب قاصد کے سوا تیسرا شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جسے بھی کچھ کہنا سننا یا درخواست دینا مقصود ہو اس کے لیے عدالتی سیکرٹیریٹ کا نظام آج کی طرح کل بھی تھا۔ جج کا رابطہ اسی نظام کے توسط سے سرکار اور عوام سے رہتا تھا۔ جج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ خود نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔ آج جب ہم اس طرح کے قصے سنتے ہیں تو یہ کوئی افسانہ یا سوشل ناول کا کوئی باب معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا نے ایسے جج ضرور دیکھے ہوں گے۔ ہم نے تو نہیں دیکھے۔
ہم نے تو عزت مآب کو ہر طرح کی تقریبات، کانفرنسوں، صحت افزا مقامات اور سب سے زیادہ ٹی وی چینلز کی پٹیوں میں دیکھا ہے۔ بھلا ہو میڈیائی کیمرے کے سحر کا کہ عدالتی کارروائی لائیو براڈ کاسٹ ہونے لگی۔ وکلا کو آستین چڑھاتے منھ سے تھوک نکالتے مائی لارڈ سے بدتمیزی کی سوشل میڈیا ویڈیوز دیکھی ہیں۔ لیک ہونے والی خفیہ ٹیپس سنی ہیں۔ خفیہ فلمیں افشا ہوتی دیکھی ہیں۔ توہینِ عدالت کو ایک پامال روایت بنتے دیکھا ہے۔ پلاٹوں اور بے نامی کاروبار سے لگنے والی چھوت کی بیماری دیکھی ہے، بے باک اور اصول پسند ججوں کا گھیراؤ اور کردار کشی کی مہم دیکھی ہے۔ اپنی اپنی پسند کے فیصلوں پر موکلوں کی جانب سے قصیدہ خوانی اور ناپسندیدہ فیصلوں پر جج کی ذات پر رکیک اور گھٹیا حملے دیکھے ہیں۔ نامعلوم سایوں کو ججوں، ان کے اہلِ خانہ اور جاننے والوں کو ہراساں کرتے سنا ہے اور ان کی نجی زندگی میں براہ راست مداخلت کی داستانیں خود ان ججوں کی زبانی سنی ہیں۔
Tumblr media
عدالتوں کے اکثر فیصلے یقیناً آج بھی منصفانہ اور معیاری ہوتے ہیں۔ مگر اس مطالبے کا کیا کیا جائے کہ میرا مقدمہ فلاں کے بجائے فلاں جج سنے۔ ان سرگوشیوں سے کیسے کان بند کریں کہ بس اس جج کو ریٹائر ہونے دو۔ اس کے بعد آنے والا معاملات سیدھے کر دے گا۔ کئی وکلا اور پیش کاروں کو پسندیدہ فیصلوں کے لیے دلالی کا دعوی کرتے سنا ہے۔ عمارت ایک دن میں نہیں گرتی۔ نہ ہی ایک ضرب سے گرتی ہے۔ مگر ہر ضرب اسے کمزور ضرور کرتی چلی جاتی ہے۔ بھلا کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے برسراقتدار آ کر ججوں کو طرح طرح کی ترغیبات اور بعد از ریٹائرمنٹ پیش کشوں سے رجھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ عدلیہ کے احترام کی تسبیح پڑھتے پڑھتے ہجوم اکھٹا کر کے انصاف کے ایوان پر چڑھ دوڑنے اور عدلیہ کو ’ساڈے تے پرائے‘ میں تقسیم کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کون سی سرکار ہے جس نے عدلیہ کے ناپسندیدہ فیصلوں پر بھی بلا چون و چرا مکمل عمل کیا ہو۔ بلکہ ناپسندیدہ فیصلوں کو مسخ کرنے کے لیے آئین کو موم کی ناک بنا کر استعمال نہ کیا ہو۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ اس زمین پر انصاف کی مقدس نشست پر بیٹھنے والی جس ہستی کو عام آدمی واقعی خدا کا نائب سمجھتا تھا۔ اب وہی آدمی شاید ہی کسی جج کو رول ماڈل سمجھتا ہو۔ سوچیے ایسے کروڑوں انسانوں کی تنہائی کا کیا عالم ہو گا جنھیں زمین پر انصاف کی آخری امید جج میں نظر آتی تھی اور اب اس کی پتھرائی ہوئی آنکھ صرف آسمان کی جانب ہی مرکوز ہے۔ عمارت ایک ضرب سے منہدم نہیں ہوتی۔ خود ججوں نے انصاف کے مندر کے ساتھ کیا کیا؟ پہلی کاری ضرب اندر سے جسٹس منیر کے نظریہِ ضرورت نے لگائی۔ اس نظریے نے آئینی حرام کو بیک قلم حلال قرار دے دیا۔ یہ نظریہ آج ستر برس بعد بھی شکل بدل بدل کے آئین کو بھوت کی طرح ڈراتا رہتا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ عدلیہ کے حلق میں آج بھی کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے۔ نہ اُگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کسی آمر کے کرسی پر متمکن ہوتے ہوئے کسی عدالت نے مارشل لا کو بالائے آئین شب خون قرار نہیں دیا گیا۔ یحییٰ خان اور پرویز مشرف کو بھی معزولی کے بعد غاصب ڈکلیئر کیا گیا۔ بلکہ ہر طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کا انعام عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھا کے دیا گیا۔ 
غیر منظورِ نظر سیاسی حکومتوں کا باہم مل کے ہانکا کیا گیا اور منظورِ نظر کے سات گناہ بھی درگذر ہو گئے۔ اب یہ کوئی خبر نہیں کہ عدلیہ نے اپنی پنشنوں اور تنخواہوں میں ازخود کتنا اضافہ کر لیا۔ کتنے جج باقی ہیں جنھیں حاصل سرکاری مراعات و وسائل کا اہلِ خانہ استعمال نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے یہ خبر بھی تو نہیں آئی کہ کسی جج نے یہ مراعات لینے سے صاف انکار کر دیا۔ زیریں سے اعلیٰ عدالتوں میں روزانہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر مقدمات کا انبار ہے کہ سال بہ سال بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس انبار کے سبب جنتا کے عدم اعتماد کا بوجھ بھی پہاڑ ہوتا ج�� رہا ہے۔ جب سب نے ریاستی استحکام کے نام پر عدم استحکام کے ہتھوڑوں سے اپنے ہی اداروں کو ضرب در ضرب کمزور کرنا شروع کر دیا تو پھر ہجوم بھی دلیر ہوتا چلا گیا۔ پارلیمنٹ بانجھ ہوئی تو فیصلے سڑک پر ہونے لگے۔ حتیٰ کہ غضب ناک ہجوم کے دباؤ کی تپش اعلیٰ عدالتوں کے کمروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ 
اب تک ججوں کے فیصلوں پر جج ہی نظرثانی کرتے آئے ہیں۔ مگر یہ چلن بھی دیکھنا پڑ گیا ہے کہ اب ہجوم کے سرخیل ابھی اور اسی وقت فیصلے پر نظرِ ثانی کی دھمکی آمیز درخواست کرتے ہیں اور لجلجاتے کمرہِ عدالت میں اندر کے شور سے زیادہ باہر کھڑے ہجوم کے نعرے سنائی دیتے ہیں۔ مگر عدالت بھی خلا میں تو سماعت نہیں کرتی۔ عدالت کے پیچھے جب ریاست اور سماج کھڑا ہوتا ہے تو اس کے فیصلوں کا معیار ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جب ریاست اور سماج بھی عدلیہ کو بے توقیری کی جانب دھکیلنے پر سڑک سے ہاتھ ملانے پر تل جائیں تو پھر عدالت اور جرگے میں تمیز کہاں رہتی ہے۔ ہم نے مسلسل ساڑھے سات دہائیوں تک زوال کو عروج تک پہنچانے کے لیے خوب محنت کی اور اب اس محنت کا ثمر ادارہ جاتی انہدام کی شکل میں اپنے سامنے دیکھ کر خود ہی وکٹری کا نشان بھی بنا رہے ہیں۔
خدا بچائے کس طرف مرا وطن چلا ہے یہ ابھی تو کچھ نہیں ہوا ابھی تو ابتدا ہے یہ ( حمایت علی شاعر )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
airnews-arngbad · 2 months
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chhatrapati Sambhajinagar
Date : 06 August 2024
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ  :  ۶ ؍  اگست  ۲۰۲۴؁ ء
وقت  :  صبح  ۹.۰۰   سے  ۹.۱۰   بجے 
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں  ... 
٭ وزیر اعلیٰ میری لاڈلی بہن یوجنا کےپالیسی فیصلے میںمداخلت سے ممبئی عدالتِ عظمیٰ کا انکار
٭ سیلاب کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنےکے مقصدسے نیا منصوبہ بنایا جائے گا ‘  وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا اعلان 
٭ تکنیکی دشواریوں کے باعث راشن دکانداروں نے کی   ای  پوس مشنین کی مخالفت
اور
٭ پیرس اولمپک میں بیڑکے اویناش سابڑے  3؍ ہزار میٹر اسٹیپل چیس  کےآخری رائونڈ میں ‘ 
مردوں کی ہاکی ٹیم آج سیمی فائنل میں جرمنی کی ٹیم سے 
مقابلہ کرے گی
اب خبریں تفصیل سے...
  ممبئی عدالتِ عظمیٰ نے ریاستی حکو مت کی  وزیر اعلیٰ میری لاڈ لی بہن یو جنا کے پالیسی فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ خیال رہے کہ ممبئی کے ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ  نا وید مُلا نے اِس کی مخالفت میں ممبئی عدالتِ عظمی میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ یو جنا ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا نا مناسب استعمال ہے ۔ اِس پر عدالت نے کہا کہ یہ یو جنا حکو مت کی جانب سے بجٹ میں لیا گیا فیصلہ ہے ۔اِسے چیلنج نہیں کیاجا سکتا ۔ عدالت کے اِس فیصلے کے بعد آئندہ  14؍ تاریخ کے روز اِس یوجنا کے تحت جاری کی جانے والی پہلی قسط کی راہ ہموار ہو گئی ہے ۔
اِسی دوران وزیر اعلیٰ میری لاڈ لی بہن یوجنا کی مخالفت میں داخل کی گئی عرضی مسترد کرنے پر  خواتین  و  بہود اطفال کی وزیر ادیتی تٹکرے نے ممبئی عدالتِ عظمی کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ اپنے ٹوئیٹ پیغام میں انھوں نے کہا کہ عدالت کے اِس فیصلے سے وز یر اعلیٰ میری لاڈ لی بہن یو جنا کی معتبریت مزید بڑھ گئی ہے۔
***** ***** ***** 
خواتین بچت گروپوں کے لیے  یشس وِنی   ای  کامرس پلیٹ فارم   کا افتتاح کل خواتین  و بہوود اطفا ل کی وزیر  ادیتی تٹکرے کے ہاتھوں آن لائن طریقے سے کیاگیا ۔اِس موقعے پر انھوں نے کہا کہ خواتین بچت گروپوں کی مصنوعات کی فروخت کے لیے یہ پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے  ۔ محتر مہ تٹکرے نے کہا کہ اِس پلیٹ فارم کے سبب خواتین بچت گروپوں کی اقتصادی تر قی کو نئی راہ ملے گی ۔
***** ***** ***** 
مرکزی وزیر زراعت شیو راج سنگھ چو ہان نے بتا یا ہے کہ  فصلوں کی نقصان بھر پائی ادا کرنے کے عمل کا ڈیجی ٹائزیشن کیا جائے گا ۔ وہ کل ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں بول رہے تھے ۔ وزیر موصوف نے بتا یا کہ کاشتکاروں کو آدھار کی بنیاد پر ڈیجیٹل شنا ختی کارڈ دیے جائیں گے۔ انھوں نے بتا یا کہ ہر سال فصل اُگنے کے بعد اُس کی تصویر محفوظ کر لی جائے گی   اور  نقصان ہونے کی صورت میں مستحق کاشتکاروں کو نقصان بھر پائی دی جائے گی ۔ جناب شیو راج سنگھ چوہان نے مزید بتا یا کہ کاشتکاروں کے مفاد میں متعدد شعبہ جات کی جانب سے اقدام کیے جا رہے ہیں ۔
***** ***** ***** 
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ سیلاب کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے مقصد سے نیا منصوبہ تیار کیا جائے گا ۔ وہ کل پونہ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا معائنہ کرنے کےبعد اظہار خیال کررہے تھے ۔ اِس موقعے پر وزیر اعلیٰ نے مزید بتا یا کہ سیلاب سے متاثرہ گھروں کی بحالی کے لیے قوانین  و  قواعد میں تر میم کی جائے گی ۔ اِس دوران وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں سیلاب متاثرین میں زندگی کے لیے لازمی اشیاء بھی تقسیم کی گئی ۔ 
***** ***** ***** 
چھتر پتی سنبھا جی نگر ضلعے کے پیٹھن میں واقع ناتھ ساگر ڈیم کی سطح آب  1500؍ فیٹ سے تجاوز کر گئی ہے ۔  موصولہ خبر میں بتا یا گیا ہے کہ ڈیم میں استعمال کےلیے تیار پانی کی ذخیرہ  323؍  اعشاریہ  188 ؍ میلین کیو بِک فٹ ہو چکا ہے ۔ ڈیم میں فی الحال 66؍ ہزار  367؍ کیوبک فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے پانی کی آمد جاری ہے  ۔ 
***** ***** ***** 
راشن دکانداروں نے  ای   پوس مشین کی مخالفت میں کل متعدد علاقوں میں احتجاج کیا ۔ اِس سلسلے میں جالنہ شہر کے راشن دکانداروں نے تحصیل دفتر میں  ای  پوس مشینیں جمع کر وا دی ۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ انٹر نیٹ میں بار بار  خلل پڑ نے کی وجہ سے دکاندار  اور  گاہکوں میں تنازعہ ہو تا ہے ۔ اِس موقعے پر  دکانداروں نے آف لائن طریقےسے راشن فروخت کرنے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا ۔اِسی طرزپر  منٹھا  ‘  بد نا پور  اور  پر تور کے راشن دکانداروں نے بھی  ای  پوس مشینیں انتظامیہ کو واپس کر دی ۔
چھتر پتی سنبھا جی نگر میں بھی راشن دکانداروں نے  ای  پوس مشین کا علامتی جنازہ نکا لا ۔ دکانداروں نے انٹر نیٹ میں بار بار خلل پڑ نے کی شکایت کرتے ہوئے  آف لائن طریقے سے راشن فروخت کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ۔ 
اِسی طرح پر بھنی شہر کی راشن دکانداروں کی تنظیم نے بھی کل ضلع کلکٹر دفتر کے سامنے احتجاج کیا ۔
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
معذوروں کے فلاحی شعبہ کے صدر نشین  ‘  رکن اسمبلی بچو کڑو نے بتایا کہ  پو جا کھیڈ کر معاملے کے بعد ہمیں ریاست بھر سے  دیڑھ سو افراد کی فہرست موصول ہوئی ہے جنھوں نے معذوری کے جعلی سر ٹیفکیٹ حاصل کیے ہیں ۔ انھوں نے بتا یا کہ ہم نے یہ فہرست حکو مت کو اِرسال کر دی ہے ۔  وہ کل ہنگولی ضلعے کے کلمنوری میں کاشتکاروں  اور کار کنان کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے مخاطب تھے ۔جناب بچو کڑو نے بتا یا کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں وہ کاشتکاروں  اور  زرعی مزدوروں کے مسائل کو موضوع بنائیں گے  ۔ 
***** ***** ***** 
بیڑ کے اویناش سابڑے نے  پیرس اولمپک میں3؍ ہزار میٹر اسٹیپل چیس مقابلے کے آخری رائونڈ میں داخلہ حاصل کر لیا ہے ۔اِس رائونڈ میں پہنچنے والے وہ پہلے بھارتی کھلاڑی ہیں ۔ یہ مقابلہ آئندہ  8؍ تاریخ کے روز کھیلا جائے گا ۔ ٹیبل ٹینس میں بھی  بھارت کی منیشا بترا  ‘  شری جا اکو لا  اور  ارچنا کامت کی ٹیم نے کوارٹر فائنل میں داخلہ حاصل کیا ۔ یہ مقابلہ آج کھیلا جائے گا ۔پیرس اولمپک میںہاکی کے سیمی فائنل میں آج بھارت کی ٹیم جر منی کے خلاف کھیلے گی ۔اِسی طرح  نیزہ باز  نیرج چوپرا  پہلے رائونڈ کے لیے میدان میں اُتریں گے ۔ خواتین کُشتی میں بھی بھارت کی وِنیش پھو گاٹ اپنی مہم کا آغاز کریں گی ۔ اِس سے قبل بیڈ منٹن میں کانسے کے تمغے کے لیے ہوئے مقابلےمیں بھارت کے لکشیہ سین کو شکست کاسامنا کرنا پڑا ۔ 
***** ***** ***** 
راشٹر وادی کانگریس پارٹی آئندہ  8؍ تاریخ کے روز  ناسک کے دنڈوری سے   ’’ جن سنمان یاترا  ‘‘ نکالے گی ۔ پارٹی کے ریاستی صدر سُنیل تٹکرے نے کل صحافتی کانفرنس میں یہ بات بتائی ۔ انھوں نے بتا یا کہ پہلے مرحلے میں یہ یاترا  شمالی مہا راشٹر  ‘  مغربی مہاراشٹر  ‘  ممبئی  اور  وِدربھ کا دورہ کرے گی ۔  جناب سُنیل تٹکرے نے بتا یا کہ اِس جن سنمان یاترا کا پہلا مرحلہ  31؍ تاریخ کو ختم ہو گا ۔
***** ***** *****
لاتور میں وزیر اعلیٰ میر ی لاڈ لی بہن یو جنا  کے تحت موصولہ در خواستی��  کی چھان بین کا  کام جاری ہے ۔ اِس کے لیے تعلقہ سطح پر چھان بین کیمپ کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ اِسی دوران لاتور ضلع کلکٹر  ور شا ٹھا کُر گھو گے نے لاتور پنچایت سمیتی میں منعقدہ کیمپ کا دورہ کر کے مذکورہ در خواستوں کی چھان بین کا عمل تیزی سے انجام دینے کی ہدایت دی ۔
اِسی دوران  ’’  میرا لاتور  سر سبز لاتور مہم  ‘‘ کے تحت لاتور تعلقے میں ناگ زری گرام پنچایت کی جانب سے ضلع کلکٹر کی موجود گی میں 51؍ پودے لگائے گئے ۔
***** ***** *****
سابق وزیر سُریش دھس نے دودھ میں ملا وٹ کرنے والوں کے خلاف مکو کا قانون کے تحت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ وہ کل بیڑ ضلعے کے آشٹی میں صحافیوں سے اظہار خیال کر رہے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ حکو مت کو چا ہیے کہ وہ ریاست بھر میں دودھ دینے والے جانوروں سے یومیہ کتنا دودھ نکلتا ہے اِس کا سر وے کروائیں ۔جس سے دودھ میں ملاوٹ کو روکا جا سکےگا ۔
***** ***** *****
چھتر پتی سنبھا جی نگر میونسپل کارپوریشن کے منتظم  جی  شری کانت کی تر غیب پر  ’’ ایک گھنٹہ شہر کے لیے  ‘‘  نامی  صفائی مہم چلائی جا رہی ہے ۔
اِس مہم کے دوران کل  پیٹھن گیٹ سے  گلمنڈی علاقے کی صفائی کی گئی ۔ اِس مہم میں پھیری والے  اور  رکشہ ڈرائیوروں سمیت متعدد تنظیموں کے اراکین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
***** ***** *****
دھارا شیو ضلعے میں آئندہ ستمبر  سے  دسمبر مہینے کے دوران  جانورشماری کی جائے گی ۔ اِس کے لیے ضلعے میں  111؍  شمار کنندہ  اور  26؍  سوپر وائزرس کا تقرر کرنے کا عمل جاری ہے ۔ شعبہ مویشیان نے دھاراشیو کے کاشتکاروں  اور  گوالوں سے تعاون کرنے کی اپیل کی ہے ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے  ...
٭ وزیر اعلیٰ میری لاڈلی بہن یوجنا کےپالیسی فیصلے میںمداخلت سے ممبئی عدالتِ عظمیٰ کا انکار
٭ سیلاب کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنےکے مقصد سے نیا منصوبہ بنایا جائے گا ‘  وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا اعلان 
٭ تکنیکی دشواریوں کے باعث راشن دکانداروں نے کی   ای  پوس مشنین کی مخالفت
اور
٭ پیرس اولمپک میں بیڑکے اویناش سابڑے  3؍ ہزار میٹر اسٹیپل چیس  کےآخری رائونڈ میں ‘  
مردوں کی ہاکی ٹیم آج سیمی فائنل میں جرمنی کی ٹیم سے مقابلہ کرے گی
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل AIR چھتر پتی سنبھا جی نگر پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
asliahlesunnet · 3 months
Photo
Tumblr media
کسی بات کے لیے تقدیر کو کہاں تک بنیاد بنایا جا سکتا ہے ؟ سوال ۱۰۸: لوگوں کی طرف سے کی گئی اس طرح کی بات کے بارے میں کیا حکم ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’اس بات میں تقدیر نے مداخلت کی ہے‘‘ اور ’’اس میں اللہ تعالیٰ کی عنایت نے مداخلت کی ہے؟‘‘ جواب :یہ بات کہ ’’اس میں تقدیر نے مداخلت کی ہے‘‘ درست نہیں کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس معاملہ میں تقدیر نے مداخلت کر کے زیادتی کی ہے، حالانکہ تقدیر ہی تو اصل ہے، لہٰذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ تقدیر نے مداخلت کی ہے؟ اس لئے زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ قضا وقدر نازل ہوئی ہے یا یہ کہ تقدیر غالب آگئی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی عنایت نے مداخلت کی ہے۔‘‘ اس عبارت سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت حاصل ہوگئی ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت کا تقاضا یہ ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۸۰ ) #FAI00091 ID: FAI00091 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
meta-bloggerz · 3 months
Text
رد الفساد آپریشن تک جتنے آپریشن ہوئے دہشتگردی کی شرح 10 فیصد زیادہ ہوگئی، مولانا فضل الرحمان
دہشت گری کی شرح نکالیں اور بتائیں آپریشنز کا نتیجہ کیا نکلا؟ صاف، صاف بتائیں سب کچھ اپنے کمانے کیلئے ہورہا ہے عوام پر احسان کیوں جتلایا جارہا ہے۔ سربراہ جے یو آئی ف کی پریس کانفرنس اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 30 جون 2024ء ) جمعیت علماء اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دفاع کا مسئلہ ہو تو قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، سیاسی معاملات میں مداخلت ان کے اپنے حلف کی نفی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mediazanewshd · 5 months
Link
0 notes
aireenruhee · 7 months
Text
اللہ کا امر کب غالب ہوگا؟
اللّہ اپنے منصوبوں میں کسی قسم کی مداخلت کو پسند نہیں کرتا۔ وہ اپنے اہداف تک بہت خاموش اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ہے۔
یوسف علیہ السلام کو بادشاہی کا خواب دکھایا۔ والد کو بھی پتہ چل گیا۔
والد موجودہ نبی ہے تو بیٹا مستقبل کا نبی ہے ! مگر دونوں کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ ہوگا کیسے؟
خواب خوشی کا تھا، لیکن اللہ کی حکمت دیکھیے کہ چکر غم کا چلا دیا۔
ہے نا عجیب بات!
یوسف چند کلومیٹر کے فاصلے پر کنوئیں میں پڑے ہیں، والد کو خوشبو نہیں آنے دی۔
اگر خوشبو آ گئی تو آخر کو باپ ہے، رہ نہیں سکے گا، جا کر بیٹے کو نکلوا لے گا۔ جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے شروع ہونا ہے، اللہ کے منصوبے میں لکھا یہی گیا تھا۔
اگر یعقوب کو سمجھا دوں گا تو بھی اخلاقی طور پہ اچھا نہیں لگے گا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا بھی ہے کہ نہیں!
لہذا سارا نظم اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔
اب اگر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو پتہ ہوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا اصل میں بادشاہ بننا ہے اور وہ یوسف کی حسد میں مخالفت کر کے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ہو رہے ہیں تو وہ یوسف کو کنوئیں میں گرانے کے بجائے ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو۔
یوسف علیہ السلام جب عزیز مصر کے گھر پہنچے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھا کر جیل میں ڈال دیا کہ
"ان مع العسرِ یسراً " کہ یقینا" ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اب جیل کے ساتھیوں کے خوابوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو میرے بارے میں ذکر کردینا بادشاہ کے دربار میں۔
مگر مناسب وقت تک یوسف کو جیل میں رکھنے کے اللہ کے منصوبے کے تحت شیطان نے اسے بھلا دیا۔
یوں شیطان بھی اللہ کے اس منصوبے کو نہ سمجھ سکا اور اللہ کے منصوبے میں بطورِ آلہ کار استعمال ہوگیا۔
غور کیجیے کہ اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر بادشاہ کے سامنے ہو جاتا تو یوسف علیہ السلام سوالی ہوتے اور رب تعالٰی کو یہ بالکل پسند نہیں تھا کہ یوسف سوالی بن کر اور درخواست کرتے ہوئے بادشاہ کے سامنے آئیں۔
اللہ کے منصوبے میں تو بادشاہ کو سوالی بن کر یوسف کے پاس آنا تھا نا!
و مکرو و مکر اللہ واللہ خیر الماکرین
اور وہ منصوبہ بناتے ہیں اور اللہ اپنا منصوبہ بناتا ہے۔ اور اللہ سب سے بہترین منصوبہ ساز ہے۔
کیسے؟ ذرا دیکھتے ہیں۔۔۔
اور پھر ہوا کیا؟
عزیز مصر کو خواب دکھا کر سوالی بنادیا، معلوم ہوا کہ ایک قیدی ہے جو خوابوں کی تعبیر کیا ہی درست بتاتا ہے۔
بادشاہ نے کہا کہ میں تو اس قیدی سے ملنا چاہتا ہوں اور اب یوسف علیہ السلام پوری عزت کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں بلائے گئے۔
عزیز مصر کے خواب کی تعبیر بتائی تو بادشاہ ششدر رہ گیا، بات دل کو لگی اور اللہ نے باشاہ کے اوپر یوسف علیہ السلام کی عقل و دانش کا سکہ بٹھا دیا۔
بادشاہ نے رہائی کا حکم دیا تو فرمایا میں اس طرح سے اپنے اوپر ایک ناکردہ جرم کا داغ لیے باہر نہیں آؤں گا کیونکہ مجھ پر عورتوں والا ایک مقدمہ ہے۔ جب تک اس معاملے میں میری بے گناہی ثابت نہ ہو جائے، مجھے آزادی نہیں چاہیے۔
اب ان خواتین کو بلوایا گیا، سب آگئیں اور سب نے یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دے دی، یہاں تک کہ مدعیہ خاتون نے بھی جھوٹ کا اعتراف کر کے کہہ دیا کہ :
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَٰوَدتُّنَّ يُوسُفَ ��َن نَّفْسِهِۦ ۚ قُلْنَ حَـٰشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوٓءٍۢ ۚ قَالَتِ ٱمْرَأَتُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْـَٔـٰنَ حَصْحَصَ ٱلْحَقُّ أَنَا۠ رَٰوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ۔ (سورہ یوسف - 51)
"بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ بھلا اس وقت کیا ہوا تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ سب بول اٹھیں کہ پاکی اللہ ہی کے لیے ہے اور ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔ عزیز کی عورت نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئی ہے۔ (اصل یہ ہے کہ) میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور بےشک وہ سچے ہیں۔"
وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف کے پاس لایا تھا، وہی قحط ہانک کر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو بھی بادشاہ کے دربار میں لے آیا۔
اب اللہ نے یہ دکھا دیا کہ یہ وہی بے بس معصوم بچہ ہے جسے تم نے حسد کی وجہ سے کنوئیں میں ڈال دیا تھا اور آج تمہارے حسد نے اسے بادشاہ بنادیا ہے۔
اب یوسف علیہ السلام نے فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر والد صاحب کے پاس گئے تھے لیکن تم لوگوں نے جھوٹ گھڑا تھا، جس کی وجہ سے ان کی بینائی چلی گئی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر مجھے یاد کرکے رویا کرتے تھے۔
فرمایا کہ اچھا اب یہ کرتہ لے کر جاؤ، یہ ان کی وہ کھوئی ہوئی بینائی واپس لے آئے گا۔
اب یوسف نہیں یوسف علیہ السلام کا کرتا مصر سے چلا ھے تو
کنعان کے صحرا یوسف کی خوشبو سے مہک اٹھے ھیں۔
ادھر یعقوب علیہ السلام چیخ پڑے ھیں :
وَلَمَّا فَصَلَتِ الۡعِيۡرُ قَالَ اَبُوۡهُمۡ اِنِّىۡ لَاَجِدُ رِيۡحَ يُوۡسُفَ‌ لَوۡلَاۤ اَنۡ تُفَـنِّدُوۡنِ‏ ﴿۹۴﴾
اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے والد کہنے لگے کہ اگر تم مجھ کو یہ نہ کہو کہ (بوڑھا) سٹھیا گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آ رہی ہے۔
سبحان اللہ!
جب رب نہیں چاہتا تھا تو چند کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی۔
اور جب رب نے بیٹے کی خوشبو کو حکم کیا ہے تو م��ر سے کنعان تک خوشبو سفر کر گئی ہے۔
وَاللّـٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓى اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۔
اور اللہ کا امر غالب ہوکر ہی رہتا ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے۔
تو یاد رکھیے!
دنیا میں جب آپ کوئی حالات دیکھتے ہیں، آپ کے ساتھ کسی نے چالاکیاں کی ہیں، کوئی آپ سے حسد کرتا ہے، کوئی آپ کو ناکام کرنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی آپ کو حالات کے کنوئیں میں دھکا دے کر گراتا ہے۔۔۔
تو یہ ساری چالیں، حسد اور ظلم شاید اللہ کے آپ کے لیے خیر کے منصوبے کو ہی کامیاب بنانے کی کوئی اپنی چال ہوتی ہے جس سے آپ اور آپ کے حاسدین بے خبر ہوتے ہیں۔
انہیں وہ کرنے دیں جو وہ کرتے ہیں۔ آپ اللہ سبحانہ و تعالٰی سے خیر مانگیں اور اپنا کام کرتے جائیں۔
اسی طرح ہم قوم کے اور امت کے بہت سے حالات دیکھتے ہیں اور کڑھتے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے، کوئی کچھ کر کیوں نہیں رہا، ہم ظلم کی اس چکی میں کیوں پس رہے ہیں، آخر یہ کب ختم ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
تو کڑھنے سے اور سوچتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
آپ کے اور میرے کرنے کا کام کیا ہے؟
1۔ اللہ نے جو عقل عطا فرمائی ہے، اس کا درست استعمال کرنا سیکھیں۔ اپنے آپ کو عقلی، روحانی اور جذباتی اعتبار سے مضبوط کریں۔
2۔ اپنا وقت فضول مباحث اور شر کا جواب شر سے دینے میں ضائع کرنے کے بجائے، اپنے آپ کو اس امت کا ایک بہترین اثاثہ بنانے پر لگائیں۔
3۔ اپنے میدان میں دنیا کے ٹاپ 5 فیصد لوگوں میں شامل ہونے کی طرف پیش قدمی کریں۔
4۔ ڈھیلی ڈھالی عامیانہ زندگی گزارنا اور ہر وقت کا رونا دھونا بند کریں کہ ہائے ہائے! لٹ گئے، برباد ہوگئے، اب کیا ہوگا! یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے۔
5۔ آپ ایک عام انسان نہیں ہیں۔ اپنے آپ کو "میں تو عام آدمی ہوں" کہنا بند کردیں۔ آپ اگر امتی ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے تو یقین کیجیے کہ آپ بہت خاص ہیں، آپ عام انسان نہیں ہیں۔
6۔ اپنے علم اور صلاحیتوں کو بڑھائیں۔ ایک تھکی ہوئی اور وقت اور توانائی کو ضائع کرنے والی زندگی نہ گزاریں۔ یوسف علیہ السلام کی طرح سوچنے سمجھنے والی اور بھرپور زندگی گزارنے کا عزم کیجیے۔
اور یاد رکھیے!
اس دنیا کے ہر معاملے پر اللہ تعالٰی کا اختیار ہی کامل ہے۔ لہٰذا کوئی کچھ بھی کرلے، بالآخر اللہ کا ہی امر غالب ہوکر رہے گا۔
تو پھر یوسف علیہ السلام کی طرح فوکس ہوجائیے اور آگے بڑھتے چلے جائیے۔
یمین الدین احمد
یکم مارچ 2024ء
کراچی، پاکستان۔
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
اسٹیبلشمنٹ سے جیت کا واحد رستہ
Tumblr media
عمومی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ آج سلیکشن ڈے ہے، الیکشن کا تماشہ تو صرف ایک رسم کے طور پر رچایا جا رہا ہے ۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کے ارادے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا ن لیگ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لے بھی پائے گی کہ نہیں۔ سرپرائیز کی بھی بات کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصا ف کے ووٹر سپورٹر غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں نکل کر سلیکشن کے پراسس کو الیکشن میں بدل کر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو کامیابی دلوا کر اس سلیکشن کو الیکشن میں بدل دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آزاد آزاد نہیں رہیں گے اور اُنہیں قابو کر لیا جائے گا اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ بحرحال آج کا دن بہت اہم ہے اور آج رات تک الیکشن ہے یا سلیکشن اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اب جس قسم کی جمہوریت ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ ہائبرڈ اور کنٹرولڈ ہو گی۔ بنگلہ دیش ماڈل کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ سیاستدانوں اور سول حکومت نے بہت سپیس کھو دی ہے جس کی واپسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے اُس پر میں بات کرنا چاہوں گا۔ 
Tumblr media
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بغیر کچھ کیے یہ سپیس سول حکومت اور سیاستدانوں کو دے دے گی تو بھول جائیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی طرح فوج سے ہی ٹکر لے کر اور 9 مئی جیسے واقعات سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کیا جا سکتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے تو ملک، سیاست کے نقصان کے ساتھ سب سے زیادہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے اور اس صورتحال کا عمران خان اور تحریک انصاف کو سامنا ہے۔ مسئلہ لڑائی سے حل نہیں ہو گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر سیاستدانوں کو دائرہ کا سفر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکومت ملے، جیسے بھی ملے، تو پھر کام، کام اور کام پر ہی زور دینا پڑے گا۔ پرفارمنس بہترین ہو گی، طرز حکمرانی اچھا ہو گا، عوام دیکھے گی، محسوس کرے گی اور سمجھے گی کہ حکمراں اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور سرکاری محکموں کو سروس ڈیلوری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں تو پھر سولین سپریمیسی کا رستہ ہموار ہو گا، اسٹیبلشمنٹ کے لیے سپیس کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ عمران خان بے شک ایک پروجیکٹ تھے، وہ سلیکٹڈ تھے۔
اگر اُن کی حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی، گڈ گورننس کی مثال قائم کی ہوتی، سرکاری اداروں کو سروس ڈیلوری کے لیے فعال کیا ہوتا تو آج عمران خان یہ کچھ نہ دیکھ رہے ہوتے اور نہ ہی جمہوریت مزید کنٹرولڈ ہوتی۔ نواز شریف بھی ایک پروجیکٹ کے طور پر ہی سامنے آرہے ہیں، وزیراعظم وہ بنتے ہیں یا شہباز شریف یا کوئی اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ لیکن اگر ن لیگ کا وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی سرپرائز نہیں ملتا تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز اُن کا سارا زور پرفامنس، پرفامنس، پر فامنس پر ہی ہونا چاہئے۔ اگر ایک طرف دن رات لگا کر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے تو دوسری طرف ایک ایک سرکاری محکے کو عوام دوست بنانے کے لیے سول سروس کو میرٹ اور غیر سیاسی انداز میں چلانا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند ایک کاموں پر تو توجہ دی جائے لیکن باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق عوام سے متعلق حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید سپیس ملے گی۔ 
اگر کارکردگی بہترین ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے سپیس نہیں ملے گی۔ اگر سیاستدان بادشاہوں کی طرح حکومت کریں گے، نہ طرز حکمرانی کو ٹھیک کریں گے نہ ہی سرکاری اداروں کو عوامی خدمت کے لیے فعال بنائیں گے، معیشت کا بھی ستیاناس کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کا رستہ آسان ہو جائے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
مسلح افواج ریٹرننگ افسر کے کام میں مداخلت نہیں کریں گی، الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کردیا
مسلح افواج پریزائیڈنگ افسر، پولنگ ایجنٹ اور آر اوز کے کام میں مداخلت نہیں کریں گی۔ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کردیا۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق  افواج پاکستان آئین کے آرٹیکل 220/245 اور  انسداد دہشت گردی ایکٹ اور الیکشن ایکٹ کے تحت خدمات سرانجام دیں گی۔ سکیورٹی کیلئے پولیس درجہ اول، سول آرمڈ فورسز اور افواج پاکستان ثانوی اور ثالثی درجے کی ذمہ دار ہوں گی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق افواج…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
عمران خان کی نا اہلی
پاکستانی جمہوریت کا المیہ یہ رہا کہ اس کے مقدر میں ہمیشہ کم نصیبی ہی آئی۔ پروڈا اور ایبڈو جیسے کالے قوانین ماضی میں جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئے۔ آج کے زمانے میں نیب وہی کچھ کر رہا ہے جو ماضی میں ایبڈو کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ ہماری جمہوریت کے دامن میں نااہلیاں ہیں، پھانسیاں ہیں اور جلاوطنیاں ہیں۔ سزائیں اور کال کوٹھڑیاں ہیں، ہماری جمہوریت کا دامن محترمہ بے نظیر بھٹو کے دن دہاڑے قتل کے خون سے رنگین ہے اور میاں نواز شریف کی بار بار سزا کا داغ بھی اس کی پیشانی پر نمایاں ہے۔ جمہوریت کے قبرستان میں عمرا�� خان کی نااہلی کی صورت میں ایک تازہ قبر کھودی گئی ہے۔ اب معلوم نہیں اس میں کیا کچھ دفن ہو گا۔ جمہوری روایات مدت ہوئی دم توڑ چکیں، شخصی احترام کی باتیں تو قصۂ پارینہ بن گئیں، اب اس دور میں اور کیا کچھ دفن ہونا ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ماضی میں بھٹو کی پھانسی پر عوامی اتحاد نے مٹھائیاں بانٹی تھیں، نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر تحریک انصاف نے جشن منایا تھا، اسی طرح عمران خان کی نااہلی پر پی ڈی ایم کی اتحادی پارٹیاں شاداں و فرحاں نظر آ رہی ہیں۔
ہمارے سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ کب سمجھیں گے کہ ہمارے نظام انصاف نے کبھی جمہوریت کی شان میں اضافہ نہیں کیا۔ اب پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لیے پر تولے جا رہے ہیں۔ کوئی تو صاحبِ دانش ہو، جو اس کلاس کو یہ بتائے کہ ان کے سیاسی مسائل کا حل عدالتوں کے پاس نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کی طاقت میں ہے۔ آخر کب تک انصاف کی راہداریوں میں سیاستدان بے لباس ہوتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو کب ہوش آئے گا کہ وہ اپنے باہمی تنازعات کے حل کیلئے گیٹ نمبر 4 کی طرف یا عدالتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے عوام سے رجوع کریں کیوں کہ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ تو عوام ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن نے گزشتہ جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں متفقہ فیصلے کے ذریعے نااہل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں ان کی وہ نشست خالی قرار دے دی جس سے وہ پہلے سے ہی مستعفی ہو چکے تھے۔
وہ حالیہ ضمنی انتخاب میں جیتی ہوئی چھ نشستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جن پر ابھی انہوں نے حلف ہی نہیں اٹھایا۔ اب یہ بحث اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آیا الیکشن کمیشن کسی کو نااہل قرار دینے کا مجاز ہے یا نہیں، دوسری طرف الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلائے جانے کا بھی امکان ہے۔ آرٹیکل 63/1-P کے تحت نااہلی موجودہ اسمبلی کی دستوری میعاد پوری ہونے تک رہے گی جب کہ فوجداری مقدمہ چلنے کی صورت میں الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 174 کی رو سے کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب شخص کو تین سال قید اور ایک لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ ان قانونی نکات کے باوجود یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس طرح کے احکامات سے نہ تو سیاسی جماعت ختم کی جا سکتی ہے نہ ہی کسی سیاسی شخصیت کا کیریئر ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی لیکن انکی پارٹی آج بھی زندہ ہے۔ میاں نواز شریف جلاوطن ہوئے، پھر نااہل ہوئے، ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کی، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون اپنی جگہ پر قائم ہے، یہ الگ بات ہے کہ میاں شہباز شریف کے بعض عوام دشمن اقدامات کی بدولت عوام میں مسلم لیگ نون کی مقبولیت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عمران خان کو نااہل کر کے وہ ان کی سیاست ختم کر دے گا تو یہ سوچ درست نہیں۔ نااہلی کے فیصلے کے باوجود عمران خان آج ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے، جس کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ اس نوعیت کے متنازع فیصلے کبھی عوام میں مقبول نہیں ہو سکے۔ اگر ان فیصلوں کی کوئی وقعت ہوتی تو ’’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘‘ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس قاضی فائز عیسٰی یہ نہ کہتے کہ عدالتوں کے ذریعے نواز شریف کو غلط سزا دلوائی گئی۔جسٹس عیسٰی کا عدالتی سیاسی فیصلوں پر کھلا تبصرہ یہ بتا رہا ہے کہ عدالت، عظمیٰ ہو یا عالیہ، اب ان فیصلوں کا مزید بوجھ اٹھانے سے قاصر دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کی عدالتوں میں اب یہ بات کھلے عام کہی جانے لگی ہے کہ عدلیہ کے ماضی میں کیے گئے فیصلوں سے ملک میں جمہوریت عدم استحکام کا شکار ہوئی۔اس لئے سیاستدانوں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایک نئے جمہوری اور آئینی میثاق پر اتفاق کرنا ہو گا۔ تب ہی پارلیمنٹ کا وقار بحال ہو گا۔ اگر سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے جھگڑے کوئی اور ادارہ نمٹاے گا تو انہیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ اس سے جمہوریت کا ادارہ روز بروز طبعی موت کی طرف بڑھتا جائے گا۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ اس نوعیت کی متنازع مداخلت سے نہ تو ملک کی جمہوریت کو استحکام نصیب ہوا اور نہ ہی آئندہ ممکن ہے۔ ایسے غیر جمہوری اقدامات سے نہ بھٹو کو سیاست کے میدان سے نکالا جا سکا، نہ نواز شریف کا کردار ختم کیا جا سکا اور نہ ہی عمران خان کو بے دخل کیا جا سکتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ کا سیاسی منظر نامہ تشکیل دینے کیلئے مل بیٹھنا ہو گا۔
اگرچہ سیاسی میدان سے کوئی اچھی خبر نہیں ملی تاہم اس خبر نے پوری قوم کو سرشار کر دیا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا ہے۔ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے نکلنے کیلئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ نون کے آخری دور میں جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف نے اپنے شکنجے میں لیا تھا تب اس کی کوئی سمت واضح نہ تھی۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے نہ صرف تمام اداروں کو منظم کیا بلکہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیئے گئے اہداف کو مقررہ مدت سے پہلے ہی مکمل کر لیا۔ اس خوشخبری پر آرمی چیف مبارکباد کے مستحق ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ بھی تحسین کا حقدار ہے جن کی محنتیں رنگ لائیں اور پاکستان عالمی برادری میں سرخرو ہوا۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
googlynewstv · 1 month
Text
عمران خان کا فیض حمید کے اوپن ٹرائل کامطالبہ فوجی معاملات میں مداخلت قرار
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا فیض حمید کے اوپن ٹرائل کامطالبہ فوجی معاملات میں مداخلت قرار دیدیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ اپنے بیانات سے اس معاملہ کو متنازعہ بنائیں،آج فیض حمید کے دفاع میں بیان دینے والا بانی چیئرمین پی ٹی آئی 190 ملین پاﺅنڈ کے کیس کا جواب دے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے ایسے بیانات سے ثابت…
0 notes
shiningpakistan · 5 months
Text
چھ جج شوکت صدیقی کے ساتھ اگر پہلے کھڑے ہوتے
Tumblr media
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بڑے سنگین الزامات عائد کر دیے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے اپنے خط میں ان چھ ججوں نے جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کے کیس کا حوالہ دے کہ اُن کی طرف سے 2018 میں لگائے گئے الزامات پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی ڈیمانڈ کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل یہ بھی دیکھے کہ ایجنسیوں کی عدالتی معاملات پر مداخلت 2018 کی طرح کیا اب بھی تو جاری نہیں۔ اپنے خط میں ان چھ ججوں نے مختلف واقعات کا ذکر کرتے ہوے لکھا کہ مبینہ طور پر کس طرح ججوں پر خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے اُن پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اُنکے قریبی عزیزوں کو ہراساں اور اُن پر تشدد تک کیا گیا، ایک جج کے سرکاری گھر کے بیڈ روم اور ڈرائنگ روم میں ویڈیو ریکارڈنگ کے آلات فکس کیے گئے۔ اس خط نے ایک بھونچال سا پیدا کر دیا ہے۔ اگر ایک طرف تحریک انصاف ان ججوں کو ہیرو بنا پر پیش کر رہی ہے اور یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ چھ ججوں کے خط کے بعد عمران خان کے خلاف دی گئی تمام سزاوں کو کالعدم قرار دیا جائے تو دوسری طرف ن لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے ان ججوں کو اپنا ماضی یاد کروایا جا رہا ہے جب اُن میں سے کچھ مبینہ طور پر کسی کے دباؤ پر ن لیگیوں کے خلاف فیصلے دیتے تھے۔
خواجہ سعد رفیق نے یاد کرایا کہ چند سال پہلے جب وہ اور اُن کے بھائی اسلام آباد ہائی کورٹ راہداری ضمانت لینے کے لیے آئے تو اُن کا ججوں نے مذاق اُڑایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ چلیں اچھا ہوا اب ضمیر جاگ رہے ہیں۔ ن لیگ کے ہی سینٹر عرفان صدیقی نے سوال اُٹھایا کہ ان چھ ججوں نے مبینہ مداخلت پر خود ایکشن لینے اور دباؤ ڈالنے والوں کا نام لینے کی بجائے کیوں معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیا۔ صدیقی صاحب کا کہنا، ایسے موقع پر جب 9 مئی کے مجرموں کو سزائیں دی جانے کی توقع، ان ججوں کے خط نے ایک مخصوص پارٹی کی سہولت کاری کا کام کیا ہے۔ اُنہوں نے ان چھ ججوں میں شامل چند ججوں کو یاد دلایا کہ وہ چند سال پہلے تک کیسے فیصلے کر رہے تھے۔ بار کونسلز کی طرف سے ان ججوں کے خط لکھے جانے کو سراہا جا رہا ہے جبکہ ایک وکیل صاحب نے سپریم کورٹ میں درخواست ڈال دی کہ ان ججوں کے خط کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ اس درخواست میں الزام لگایا گیا کہ یہ خط طے شدہ منصوبہ کے تحت لکھا گیا جس نے عدلیہ کو سکینڈیلائز کیا۔ تحریک انصاف سمیت مختلف اطراف سے اس خط پر تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو میری نظر میں ایک بہترین تجویز ہے۔
Tumblr media
اس سلسلے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرف سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب اور کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ایسے معاملہ کے حل کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل شاید موثر ادارہ نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیا جو الزامات ججوں نے لگائے اُس میں کتنی حقیقت ہے اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ایجنسیوں کی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہے تو اسے روکے جانے کے لیے کیا کیا جائے۔ چھ ججوں نے اپنے خط میں اگرچہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کے الزامات اور اُن الزامات کی بنیاد پر سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کا نام لکھ کر تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن خود اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا ذکر کر کے کسی ایجنسی کے افسر یا اہلکار کا نام نہیں لیا۔ ان ججوں کے خط سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ اُن کو اپنے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پر اعتماد نہیں۔ ایک بات جو میں نے محسوس کہ جسٹس شوکت صدیقی کے حوالے سے آج جو بات کی جا رہی ہے وہ ماضی میں ان ججوں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دوسرے ججوں کی طرف سے کیوں نہیں کی گئی۔ 
شوکت صدیقی کو اُن کے الزمات پر نوکری سے نکال دیا گیا لیکن کوئی ایک جج بشمول اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے، نہ بولا۔ صدیقی صاحب نے کوئی پانچ چھ سال بہت مشکلات دیکھیں، اُن کے کیس کو سپریم کورٹ تک میں نہیں سنا جا رہا تھا بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چند ایک جج شوکت صدیقی صاحب کے نام لینے پر چڑ جاتے تھے۔ اگر شوکت صدیقی کے ساتھ اُنکے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اپنے ہی جج کھڑے ہو جاتے تو آج شاید بہت کچھ بدل چکا ہوتا، عدلیہ کی حالت میں شاید کچھ بہتری بھی نظر آرہی ہوتی۔ چلیں دیر آئید درست آئید۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے شوکت صدیقی کو ایک قابل تقلید مثال کے طور پر پیش کیا۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ان ججوں کے خط پر اپنے اپنے مفادات کے مطابق سیاست کریں گے لیکن اہم بات یہ کہ جو اُنہوں نے ایجنسیوں پر الزمات لگائے اُس پر فوری تحقیقات کی جائیں اور اس کیلئے قاضی فائز عیسیٰ کو فوری فیصلہ کرنا ہو گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes